Surat ul Bayyina

Surah: 98

Verse: 6

سورة البينة

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ شَرُّ الۡبَرِیَّۃِ ؕ﴿۶﴾

Indeed, they who disbelieved among the People of the Scripture and the polytheists will be in the fire of Hell, abiding eternally therein. Those are the worst of creatures.

بیشک جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہوئے اور مشرکین سب دوزخ کی آگ میں ( جائیں گے ) جہاں وہ ہمیشہ ( ہمیشہ ) رہیں گے یہ لوگ بدترین خلائق ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Mentioning the Worse and Best of Creation and Their Recompense Allah says, إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ .... Allah informs of what will happen to the wicked disbelievers among the People of the Scripture and the idolators who oppose the Allah's divinely revealed Books and the Prophets whom He sent. He says, .... فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ... that they will be in the fire of Hell on the Day of Judgement and they will abide therein forever. This means that they will remain in it and they will have no way out of it and they will not cease being in it. ... أُوْلَيِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ They are the worst of creatures. meaning, they are the worst creation that Allah has fashioned and created. Then Allah informs about the situation of the righteous people who believed in their hearts and performed righteous deeds with their bodies.

ساری مخلوق سے بہتر اور بدتر کون ہے؟ اللہ تعالیٰ کافروں کا انجام بیان فرماتا ہے وہ کافر خواہ یہود و نصاریٰ ہوں یا مشرکین عرب و عجم ہوں جو بھی انبیاء اللہ کے مخالف ہوں اور کتاب اللہ کے جھٹلانے والے ہوں وہ قیامت کے دن جہنم کی آگ میں ڈال دئیے جائیں گے اور اسی میں پڑے رہیں گے نہ وہاں سے نکلیں گے نہ رہا ہوں گے یہ لوگ تمام مخلوق سے بدتر اور کمتر ہیں پھر اپنے نیک بندوں کے انجام کی خبر دیتا ہے جن کے دلوں میں ایمان ہے اور جو اپنے جسموں سے سنت کی بجا آوری میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں کہ یہ ساری مخلوق سے بہتر اور بزرگ ہیں اس آیت سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علماء کرام کی ایک جماعت نے استدلال کیا ہے کہ ایمان والے انسان فرشتوں سے بھی افضل ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان کا نیک بدلہ ان کے رب کے پاس ان لازوال جنتوں کی صورت میں ہے جن کے چپے چپے پر پاک صاف پانی کی نہریں بہہ رہی ہیں جن میں دوام اور ہمیشہ کی زندگی کے ساتھ رہیں گے نہ وہاں سے نکالے جائیں نہ وہ نعمتیں ان سے جدا ہوں نہ کم ہوں نہ اور کوئی کھٹکا ہے نہ غم پھر ان سب سے بڑھ چڑھ کر نعمت و رحمت یہ ہے کہ رضائے رب مرضی مولا انہیں حاصل ہو گئی ہے اور انہیں اس قدر نعمتیں جناب باری نے عطا فرمائی ہیں کہ یہ بھی دل سے راضی ہوگئے ہیں پھر ارشاد فرماتا ہے کہ یہ بہترین بدلہ یہ بہت بڑی جزاء یہ اجر عظیم دنیا میں اللہ سے ڈرتے رہنے کا عوض ہے ہر وہ شخص جس کے دل میں ڈر ہو جس کی عبادت میں اخلاص ہو جو جانتا ہو کہ اللہ کی اس پر نظریں ہیں بلکہ عبادت کے وقت اس مشغولی اور دلچسپی سے عبادت کر رہا ہو کہ گویاخود وہ اپنی آنکھوں سے اپنے خالق مالک سچے رب اور حقیقی اللہ کو دیکھ رہا ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے بہتر شخص کون ہے؟ لوگوں نے کہا ضرور فرمایا وہ شخص جو اپنے گھوڑے کی لگا تھامے ہوئے ہے کہ کب جہاد کی آواز بلند ہو اور کب میں کود کر اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاؤں اور گرجتا ہوا دشمن کی فوج میں گھسوں اور داد شجاعت دوں لو میں تمہیں ایک اور بہترین مخلوق کی خبر دوں وہ شخص جو اپنی بکریوں کے ریوڑ میں ہے نہ نماز کو چھوڑتا ہے نہ زکوہ سے جی چراتا ہے آؤ اب میں بدترین مخلوق بتاؤں وہ شخص کہ اللہ کے نام سے سوال کرے اور پھر نہ دیا جائے سورہ لم یکن کی تفسیر ختم ہوئی ، اللہ تعالیٰ کا شکرو احسان ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یہ اللہ کے رسول اور اس کی کتابوں کا انکار کرنے والوں کا انجام۔ نیز انہیں تمام مخلوقات میں بدترین قرار دیا گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] کفر کے درجے :۔ کفر کے سو درجے ہیں اور ہر درجہ ایک دوسرے سے کم و بیش ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ کی ذات کا سرے سے انکار کردینا بھی کفر ہے۔ نماز کو عمداً چھوڑ دینا بھی۔ اب ظاہر ہے کہ یہ دونوں قسم کے کفر ایک جیسے تو نہیں ہوسکتے۔ یہود اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں حتیٰ کہ آخرت پر بھی پورا پورا ایمان رکھتے تھے۔ مگر ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ ہم اللہ کے چہیتے اور پیارے ہیں اور ہمیں بس چند دن ہی آگ چھوئے گی۔ تو اللہ نے ان کے اس عقیدہ کو بھی کفر سے تعبیر کیا۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ ان کا کفر مشرکوں کے کفر سے کم تر درجہ کا ہے جو سرے سے انسان کی دوبارہ زندگی کے ہی قائل نہ تھے۔ اس آیت میں کفر کی سب قسمیں مراد ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ان الذین کفروا من اھل الکتب…:” البریۃ “ ” بر یبراً برآء و بروعاً “ (ف) (پیدا کرنا) سے ” فعلۃ “ کے وزن پر اسم مفعول کے معنی میں ہے، مخلوق یعنی یہ لوگ تمام مخلوق حتیٰ کہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں، جیسا کہ فرمایا :(اولئک کالا نعام بل ھم اضل) (الاعراف : ١٨٩)” یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔ “ کیونکہ وہ جان بوجھ کر حق کی مخالفت کر رہے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse [ 8] ` رَّ‌ضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَ‌ضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَ‌بَّهُ (Allah is pleased with them, and they are pleased with Him; that is for him who fears his Lord.) This verse points to the highest stage of spiritual development of the inmates of Paradise, that is, the Divine pleasure with no danger of Divine displeasure. This is the greatest reward with which the people of faith will be blessed. The God-fearing people are well-pleased with Him because of the comprehensive favours He has given them. Sayyidna Abu Said Khudri (رض) narrates that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Undoubtedly, Allah shall address the inmates of Paradise: یَا اَھلَ الجَنَّۃِ &0 Inmates of Paradise!&|" They will reply: لَبَّیکَ رَبَّنَا وَ سَعدَیکَ و الخَیرُ کُلُّہ، فِی یَدَیکَ Our Lord, we are present and ready to carry out Your orders. All good is in Your control.& Allah shall ask them: ھَل رَضِیتُم Are you happy?& They will submit: &How can we not be happy when You have given us what You have not bestowed on any of Your creation? & Allah will tell them: &Shall I not grant you something superior to all of this?& They will exclaim: &What can be superior to this?& Allah will reply: &I shall grant you My pleasure, and I will never be angry with you in the future&. [ Transmitted by al-Bukhari vide Mazhari ]. It should be noted here that there are two types of rida& [ pleasure ]: one in general sense; and second in specific or higher sense. In the general sense, rida& bil-qadr (i.e. to be pleased with every decree of Allah) is part of the obligations of a servant of Allah. A consummated slave is only ever satisfied and content with Allah Himself, and thus sincerely accepts the Divine decree. However, here the word is used in the higher sense, that is, Allah bestows upon a slave all his specific wishes and ambitions without leaving out any of them as in [ 93:5] وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَ‌بُّكَ فَتَرْ‌ضَىٰ (And of course, your Lord will give you so much that you will be pleased.) Here also the word rida& means the fulfillment of every wish of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . When this verse was revealed, the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) expressed his wish and ambition that he would not be pleased until every single believer is taken out of Hell. [ Mazhari ]

رضی اللہ عنھم ورضواعنہ، ذلک لمن خشی ربہ، اس آیت میں اہل جنت کی سب سے بڑی نعمت کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اب ناراضی کا کوئی خطرہ نہیں۔ حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے خطاب کے لئے فرمائیں گے۔ یا اہل الجنہ، تو اہل جنت جواب دیں گے۔ لبیک ربنا وسعدیک والخیر کلہ فی یدیک یعنی اے ہمارے رب ہم حاضر ہیں اور اطاعت حکم کے لے تیار ہیں اور ہر بھلائی آپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ پھر حق تعالیٰ فرمائیں گے ھل رضیتم یعنی تم لوگ راضی اور خوش ہو وہ جواب دیں گے، اے ہمارے پروردگار، اب بھی راضی نہ ہونے کا کیا احتمال ہے جبکہ آپ نے ہمیں وہ سب کچھ عطا فرما دیا جو کسی مخلوق کو نہیں ملا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ کیا میں تم کو اس سے بھی افضل اور بہتر نعمت دے دوں، پھر فرمائیں گے کہ میں نے اپنی رضا تمہارے اوپر نازل کردی اب کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا (رواہ البخاری و مسلم۔ مظہری) اس حدیث میں بھی اہل جنت سے پوچھا گیا کہ آپ راضی بھی ہو، اور اس آیت میں خبر دی گئی کہ رضوا عنہ یعنی اہل جنت بھی اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں گے، یہاں بظاہر یہ سوال ہوتا ہے کہ اللہ سے اور اس کے ہر حکم اور ہر فعل سے راضی ہونا تو فرائض بندگی اور لازمہ عبدیت ہے اس کے بغیر تو کوئی جنت میں جا ہی نہیں سکتا، پھر یہاں اہل جنت کی رضامندی ذکر کرنے کا کیا مطلب ہے، جواب یہ ہے کہ رضاء کے عام مفہوم کے اعتبار سے تو یہ صحیح ہے کہ رضاء بالقدر واجبات و فرائض عبدیت میں سے ہے لیکن رضاء کا ایک درجہ اور بھی ہے جو اس سے آگے ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اس کی ہر مراد عطا کردیں اور کوئی تمنا و آرزو باقی نہ چھوڑیں، اس جگہ رضا سے یہی مراد ہے جیسے سورة ضحیٰ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے آیا ہے لسوف یعطیک ربک فترضی یعنی عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو دیں گے وہ چیز جس سے آپ راضی ہوجائیں گے، یہاں بھی مراد غایت تمنا کا پورا کردینا ہے اسی لئے آیت کے نزول پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر تو میں اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک ایک بھی مومن جہنم میں باقی رہے گا۔ (من المظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ جَہَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمْ شَرُّ الْبَرِيَّۃِ۝ ٦ ۭ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ شر الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] ، وقد تقدّم تحقیق الشّرّ مع ذکر الخیر وذکر أنواعه ورجل شَرٌّ وشِرِّيرٌ: متعاط للشّرّ ، وقوم أَشْرَارٌ ، وقد أَشْرَرْتُهُ : نسبته إلى الشّرّ ، وقیل : أَشْرَرْتُ كذا : أظهرته واحتجّ بقول الشاعر :إذا قيل : أيّ الناس شرّ قبیلة ... أشرّت كليبٌ بالأكفّ الأصابعفإن لم يكن في هذا إلّا هذا البیت فإنه يحتمل أنها نسبت الأصابع إلى الشّرّ بالإشارة إليه، فيكون من : أشررته : إذا نسبته إلى الشّرّ ، والشُّرُّ بالضّمّ خصّ بالمکروه، وشَرَارُ النّار : ما تطایر منها، وسمّيت بذلک لاعتقاد الشّرّ فيه، قال تعالی: تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] . ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں شر کا اصل معنی اور اس کے جملہ اقسام خیر کی بحث میں بیان ہوچکے ہیں ۔ رجل شریر و شریر شریر آدمی و قوم اشرار برے لوگ اشررتہ کسی کی طرف شر کی نسبت کرنا بعض نے کہا ہے کہ اشررت کذا کے معنی کسی چیز کو ظاہر کرنے کے بھی آتے ہیں ۔ اور شاعر کے اس قول سے استدلال کیا ہے ( الطویل ) ( 256 ) اذا قیل ای الناس شر قبیلۃ اشرت کلیب بالاکف الاصابعا جب یہ پوچھا جائے کہ کو نسا قبیلہ سب سے برا ہے تو ہاتھ انگلیوں سے بنی کلیب کی طرف اشارہ کردیتے مگر اس شعر کے علاوہ اس معنی پر اگر اور کوئی دلیل نہ ہو تو یہاں اشرت کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں ۔ کہ ساتھ انگلیوں سے ان کی طرف شر کی نسبت کردیتے ہیں الشر ( بضمہ الشین ) شر مکروہ چیز شرار النار آگ کی چنگاری ۔ آگ کی چنگاری کو شرار اسلئے کہتے ہیں کہ اس سے بھی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے قرآن ؎ میں ہے تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] اس سے آگ کی ( اتنی اتنی بڑی ) چنگاریاں اڑتی ہیں جیسے محل بَرِيَّة : الخلق، قيل : أصله الهمز فترک وقیل : بل ذلک من قولهم : بریت العود، وسمّيت بريّة لکونها مبريّة من البری أي : التراب، بدلالة قوله تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ غافر/ 67] ، وقوله تعالی: أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ [ البینة/ 7] ، وقال : شَرُّ الْبَرِيَّةِ [ البینة/ 6] . البریۃ کے معنی مخلوق کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مہموز ہے لیکن ہمزہ کو ترک ( یا ادغام ) کردیا گیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ برت القوس سے مشتق ہے اور مخلوق کو بریۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ البریٰ یعنی مٹی سے پیدا کی گئی ہے ۔ جیسا کہ آیت ؛۔ { خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ } ( سورة فاطر 11) سے معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ } ( سورة البینة 7) یہ لوگ سب مخلوق سے بدتر ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 "Disbelieved": refused to acknowledge the Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace) as Allah's Messenger. The meaning is that the end of those from among the mushriks and the followers of the Book, who have not acknowledged the Messenger whose emergence by itself is a clear evidence, and who is reciting to them hallowed pages containing sound and correct teachings, will be as is being described below. 9 That is, they are worse than all creatures of God, even than animals, for the animals do not possess reason and power, but these people reject the Truth in spite of having reason and authority.

سورة البینہ حاشیہ نمبر : 8 یہاں کفر سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے انکار کرنا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکین اور اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے اس رسول کے آجانے کے بعد اس کو نہیں مانا جس کا وجود خود ایک دلیل روشن ہے اور جو بالکل درست تحریروں پر مشتمل پاک صحیفے ان کو پڑھ کر سنا رہا ہے ، ان کا انجام وہ ہے جو آگے بیان کیا جارہا ہے ۔ سورة البینہ حاشیہ نمبر : 9 یعنی خدا کی مخلوقات میں ان سے بد تر کوئی مخلوق نہیں ہے حتی کہ جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں ، کیونکہ جانور عقل اور اختیار نہیں رکھتے ، اور یہ عقل اور اختیار رکھتے ہوئے حق سے منہ موڑتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(98:6) ان الذین کفروا من اہل الکتب والمشرکین فی نار جھنم : ان حرف مشبہ بالفعل۔ الذین کفروا۔ موصولہ وصلہ۔ من بیانیہ، اہل الکتب والمشرکین بیان ہے کفروا کا۔ الذین کفروا من اہل الکتب والمشرکین۔ اسم ان۔ فی نار جہنم۔ سارا جملہ خبر ہے ان کی۔ نار جھنم مضاف مضاف الیہ۔ خالدین فیہا۔ یہ جہنم میں جانے والے کافر اہل کتاب و کافر مشرکین۔ سے حال ہے۔ یعنی جن اہل کتاب اور مشرکین نے کفر کیا۔ وہ جہنم کی آگ میں ہوں گے (اور) اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ فیہا میں ضمیر ھا واحد مؤنث غائب کا مرجع نار جہنم ہے۔ اولئک ہم شر البریۃ : اولئک اسم اشارہ بعید ہے جمع مذکر۔ مبتدائ۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب تاکید کے لئے لائی گئی ہے۔ شر البریۃ مضاف مضاف الیہ مل کر خبر ہے مبتداء کی۔ جس سے سب کو نفرت ہو وہ شر ہے۔ البریۃ۔ مخلوق ، خلق، برء (باب نصر) مصدر سے فعیلۃ کے وزن پر بمعنی مفعول واحد مؤنث ہے۔ برء کے معنی عدم سے وجود میں لانے کے ہیں۔ اسی سے باری ہے جو خدا تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔ پیدا کرنے والا۔ نیست سے ہست میں لانے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 کیونکہ وہ جان بوجھ کر حق بات کو چھپا رہے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین کا انجام۔ اس سورت کی پہلی آیت میں جس طرح اہل کتاب اور مشرکین کو بیک وقت مخاطب کیا گیا اسی طرح اس آیت میں اہل کتاب اور مشرکین کا انجام بھی ایک بتلایا ہے۔ فرمان یہ ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے کفر کیا وہ جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ اہل کتاب اور مشرکین میں دو قسم کے لوگ کفار میں شامل ہوں گے ایک وہ گروہ جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں کفر و شرک پر قائم رہا۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں یہ جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ کردار اور انجام کے لحاظ سے یہ لوگ ایک جیسے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بدترین ہیں جس بنا پر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ دوسرے مقام پر انہیں چوپاؤں سے بھی بدتر مخلوق قرار دیا گیا ہے۔ ” بلاشبہ ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ ان سے بدتر ہیں اور غافل ہیں۔ “ (الاعراف : ١٧٩) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ قَالَ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لاَ یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ یَہُودِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بالَّذِی أُرْسِلْتُ بِہِ إِلاَّ کَانَ مِنْ أَصْحَاب النَّارِ ) (رواہ مسلم : باب وُجُوبِ الإِیمَانِ بِرِسَالَۃِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جس شخص تک میرا پیغام پہنچ جائے۔ پھر وہ اسی حالت میں مرجائے اور مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ “ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ ) (رواہ البخاری : باب ماجاء فی الجنائز) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ جہنم میں جائے گا اور میں کہتا ہوں جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا اور وہ توحید پر فوت ہوا وہ جنت میں جائے گا۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُْوْبِقَاتِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَاھُنَّ قَالَ اَلشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبَاوَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّيْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ ) (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ (إن الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچ جاؤ صحابہ کرام (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ گناہ کون سے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، ناحق کسی جان کو قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن، مومن، بیخبر عورتوں پر تہمت لگانا۔ “ مسائل ١۔ مشرکین اور اہل کتاب کے کافر ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ ٢۔ مشرکین اور اہل کتاب کے کفار بدترین مخلوق ہیں۔ یہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن کفار اور مشرکین کی سزا : ١۔ بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کی تکفیر کی ان کے لیے شدید عذاب ہے۔ ( آل عمران : ٤) ٢۔ کفار کے لیے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (آل عمران : ٩١) ٣۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہوگا۔ (البقرۃ : ١١٤) ٤۔ وہ لوگ جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ عذاب میں مبتلا ہونگے۔ (المائدۃ : ٧٣) ٥۔ مشرکوں کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ (الانعام : ٨٨) ٦۔ مشرکوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (الفتح : ٦) ٧۔ مشرک پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ : ٧٢) ٨۔ مشرک جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ : ٣٩) ٩۔ کافر اور حق کی تکذیب کرنے والے جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ (الزخرف : ٧٤) ١٠۔ ” اللہ “ کے دشمن جہنم میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔ (فصلت : ٢٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری رسول ہیں اور جو دین لے کر آئے ہیں وہ آخری دین ہے اس سے قبل یوں تھا کہ جب بھی انسانیت گمراہ ہوتی اور راستے سے ہٹ جاتی اللہ رسول بھیج دیتا ، یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا اور لوگوں کو وقفے وقفے سے مہلت ملتی رہی کہ لوگ اپنی اصلاح کرلیں لیکن اللہ کی مشیت کا تقضا یہ ہوا کہ ایک جامع ، مانع اور مکمل دین بھیج کر رسولوں کے اس سلسلے کو ختم کردے۔ یہ آخری مہلت ہے ۔ لوگ اس آخری دین کو قبول کرکے نجات پالیں گے یا انکار کرکے ہلاک وبرباد ہوجائیں گے۔ اس لئے کہ کفر اور شرک شر کے قائم مقام اور شر کی علامت بن جاتی ہے اور شر کی کوئی حد نہیں ہوتی اور ایمان خیر کا قائم مقام ہوجاتا ہے۔ اور ایمان کے نتیجے میں خیر اپنی انتہاﺅں تک پہنچ جاتا ہے۔ ان الذین ........................................ البریة (6:98) ” اہل کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ یقینا جہنم کی آگ میں جائیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے ، یہ لوگ بدترین خلائق ہیں “۔ یہ ایک قطعی حکم ہے اور اس میں کوئی جدل وجدال نہیں ہے۔ اگرچہ اہل کتاب اور مشرکین کے بعض اعمال اچھے ہوں ، بعض آداب خوب ہوں اور بعض تنظیمات مفید ہوں ۔ جب تک ان لوگوں کو حقیقت ایمان حاصل نہیں ہوتی۔ اور وہ اس آخری دین اور آخری نبی پر ایمان نہیں لاتے۔ اس اٹل حکم میں ہم محض لوگوں کے بعض ظاہری اچھے اعمال کی وجہ سے شک نہیں کرسکتے اس لئے کہ کفار کے اعمال دراصل نیکی اور بھلائی کے اصل سرچشمے سے دور ہوتے ہیں۔ اور وہ ایک مضبوط اور درست نظام زندگی کا حصہ نہیں ہوتے۔ ان الذین ................................ خیر البریة (7:98) ” جو لوگ ایمان لے آئے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ، وہ یقینا بہترین خلائق ہیں “۔ یہ بھی ایک قطعی حکم ہے جس میں کسی قیل وقال کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کی شرط بھی واضح ، صاف اور اٹل ہے۔ یعنی یہ کہ جو ” ایمان “ لے آئیں۔ یہ نہ ہو کہ وہ کسی ایسی سرزمین میں پیدا ہوئے ہوں جو مسلمان سر زمین ہونے کی مدعی ہو ، یا کسی ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے ہوں جس کا دعویٰ یہ ہو کہ وہ مسلمان گھرانا ہے یا محض یہ کہ کوئی چند کلمات ادا کرتا ہو ، نہیں بلکہ ایسا ایمان جو زندگی کے اندر عملاً نمودار ہوتا ہو۔ وعملوا الصلحت ” اور انہوں نے نیک کام کیے “۔ اور ان کا ایمان اور اقرار ایمان محض الفاظ اور کلمات ہی نہ ہوں ، جو صرف ہونٹوں پر ہوتے ہیں ، صالحات وہ افعال ہیں جن کے کرنے کا اللہ نے حکم دیاہو ، جن میں اخلاق بھی ہوں ، اعمال بھی ہوں اور طرز عمل اور معاملات بھی ہوں اور اعمال میں سب سے بڑا عمل یہ ہے کہ اللہ کی شریعت کو زمین پر قائم کیا جائے اور لوگوں کے درمیان فیصلے اللہ کی شریعت کے مطابق ہوں۔ جو لوگ یہ کام کریں وہ ہیں بہترین خلائق۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

شرک و کفر کی مذمت اور توحید کا حکم بیان فرمانے کے بعد آخر کی تین آیتوں میں ہر دو فریق کا انجام بتایا۔ ارشاد فرمایا : ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِؕ٠٠٦﴾ اس میں یہود و نصاریٰ و مشرکین کے بارے میں فرمایا کہ وہ دوزخ میں داخل ہوں گے آگ میں جلیں گے ساتھ ہی ان کے بارے میں ﴿ شَرُّ الْبَرِيَّةِ ﴾ بھی فرمایا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو مخلوق پیدا فرمائی یہ ان میں سب سے بدترین مخلوق ہیں۔ انسانوں میں بہت بڑی تعداد میں وہ لوگ بھی گزرے ہیں اور اب بھی ہیں جو نہ اہل کتاب ہیں اور نہ مشرک ہیں یعنی وہ کسی معبود کے قائل ہی نہیں ہیں نہ موحد ہو کر اور نہ مشرک بن کر، اور ان میں وہ بھی ہیں جو خالق تعالیٰ شانہ کے وجود ہی کے قائل نہیں اور ملحد اور زندیق بھی ہیں جن کا کوئی دین نہیں یہ سب لوگ بھی ﴿ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ﴾ کا مصداق ہیں یعنی کافر ہیں ان کا ٹھکانہ بھی دوزخ ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کے کسی نبی پر ایمان نہ لایا یا خاتم الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لایا یہ سب لوگ بھی کافر ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام کے علاوہ کوئی دین مقبول نہیں ہے اور دین اسلام کا ہر منکر کافر ہے۔ سورة ٴ نساء میں فرمایا : ﴿يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الرَّسُوْلُ بالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَاٰمِنُوْا خَيْرًا لَّكُمْ ١ؕ وَ اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ١ؕ وَ كَان اللّٰهُ عَلِيْمًا حَكِيْمًا ٠٠١٧٠﴾ (اے لوگو ! تمہارے پاس رسول آگیا حق کے ساتھ تمہارے رب کی طرف سے تم اس پر ایمان لاو اور اپنی جانوں کے لیے خیر کا ارادہ کرو اور اگر تم کفر اختیار کرو تو بیشک اللہ کے لیے وہ سب کچھ ہے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے اور اللہ علیم ہے حکیم ہے) ۔ سورة ٴ آل عمران میں فرمایا : ﴿وَ مَنْ يَّبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ١ۚ وَ هُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ٠٠٨٥﴾ (اور جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں تباہ حال لوگوں میں سے ہوگا) ۔ پھر سورة ٴ آل عمران میں چند آیات کے بعد فرمایا : ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِهِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَهَبًا وَّ لَوِ افْتَدٰى بِهٖ ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ وَّ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ (رح) ٠٠٩١﴾ ( بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور اس حالت میں مرگئے کہ وہ کافر تھے تو ان میں سے کسی سے زمین بھر کر بھی سونا قبول نہ کیا جائے گا اگرچہ وہ جان چھڑانے کے لیے دینا چاہے، یہ لوگ ہیں جن کے لیے درد ناک عذاب ہے اور ان کی کوئی مدد کرنے والا نہ ہوگا) ۔ خوب سمجھ لیا جائے کہ دین اسلام کا ہر منکر کافر ہے اسلام کے جھوٹے دعوے دار منافق بھی کافر ہیں کیونکہ دل سے اسلام کے منکر ہیں یہ لوگ اگر کفر پر مرگئے تو ان کا ٹھکانہ بھی دوزخ ہوگا اس میں ہمیشہ رہیں گے جو حال منکرین اسلام اہل کتاب اور مشرکین کا ہوگا وہی دوسرے کافروں کا بھی ہوگا، دوزخ میں ہمیشہ کے لیے جانے والوں کو ﴿ شَرُّ الْبَرِيَّةِ ﴾ سب سے زیادہ بدترین مخلوق بتایا ہے کیونکہ دنیا میں انہوں نے اپنے خالق اور مالک کو نہ پہچانا اور اس کے بھیجے ہوئے دین کو قبول نہ کیا وہ لوگ آخرت میں بدترین عذاب میں ہوں گے جس سے کبھی بھی چھٹکارہ نہ ہوگا اپنے عقیدہ اور عمل کے اعتبار سے بھی بدترین اور انجام کے اعتبار سے بھی بدترین ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” ان الذی کفروا “ تخویف اخروی۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکین جنہوں نے رسول کا، قرآن کا اور دین کا انکار کیا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ لوگ خدا کی ساری مخلوق میں سب سے بد تر ہیں۔ ” ان الذین امنوا “ بشارت اخرویہ۔ لیکن جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک کام کیے وہ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں سب سے بہتر ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مومن کامل کا مرتبہ عرش عظیم اور کعبہ شریفہ سے بھی اونچا ہے کیونکہ یہ بھی مخلوق ہیں اور مؤمن کامل خدا کی ساری مخلوق سے افضل و اعلی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) بے شک اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کفر پر قائم رہے وہ جہنم کی آگ میں جائیں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ لوگ تمام مخلوق کے بدترین ہیں۔ یعنی جہنم میں داخل ہوں گے اور اس جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ لوگ بدترین خلائق ہیں یعنی بہا تم سے بھی زیادہ ذلیل اور بدتر ہیں وہ بھی اپنے محسنوں کو پہچانتے ہیں لیکن یہ اپنے محسن کے ناسپاس ہیں۔