Surat ul Zilzaal

Surah: 99

Verse: 4

سورة الزلزال

یَوۡمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخۡبَارَہَا ۙ﴿۴﴾

That Day, it will report its news

اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کر دے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

That Day it will declare its information. meaning, it will speak of what the people did upon its surface. Imam Ahmad, At-Tirmidhi and Abu `Abdur-Rahman An-Nasa'i all recorded a Hadith from Abu Hurayrah -- and in the wording of An-Nasa'i's version it states -- that he said, "The Messenger of Allah recited this Ayah, يَوْمَيِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا (That Day it will declare its information.) Then he said, Do you know what is its information? They said, `Allah and His Messenger know best.' He said, فَإِنَّ أَخْبَارَهَا أَنْ تَشْهَدَ عَلَى كُلِّ عَبْدٍ وَأَمَةٍ بِمَا عَمِلَ عَلَى ظَهْرِهَا أَنْ تَقُولَ عَمِلَ كَذَا وَكَذَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا فَهَذِهِ أَخْبَارُهَا Verily, its information is that it will testify against every male and female servant, about what they did upon its surface. It will say that he did such and such on such and such day. So this is its information." At-Tirmidhi said, "This Hadith is Sahih Gharib." Concerning Allah's statement, بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 حدیث میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ آیت تلاوت فرمائی اور صحابہ سے پوچھا کہ جانتے ہو کہ اس کی خبریں کیا ہیں صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اس کی خبریں یہ ہیں کہ جس بندے یا بندی نے زمین کی پشت پر جو کچھ کیا ہوگا، اس کی گواہی دے گی۔ کہے گی فلاں فلاں شخص نے فلاں فلاں عمل، فلاں فلاں دن میں کیا تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] قیامت کے دن زمین کی گواہی :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی تو صحابہ سے پوچھا : && جانتے ہو اس کی خبریں کیا ہیں ؟ && صحابہ نے عرض کیا : && اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں && آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر بندے اور بندی پر گواہی دے گی کہ اس نے میری پشت پر کیا کچھ کام کیے۔ وہ کہے گی کہ اس نے فلاں دن یہ یہ کام کیے۔ یہی اس کی خبریں ہیں && (ترمذی، ابو اب التفسیر) قدیم زمانے کے انسان تو شاید زمین کے اس طرح خبریں بیان کرنے پر متعجب ہوں مگر آج کے زمانہ کا انسان تو یہاں دنیا میں ہی یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ ویڈیو فلم کی ایجاد کے بعد یہ بات انسان کے لئے قطعاً حیران کن نہیں رہ گئی۔ جس میں جائے وقوع کی پوری تصویریں بھی سامنے آجاتی ہیں اور ہر انسان کی گفتگو کو بھی منضبط کرکے اس طرح واقعات کو مربوط کردیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے کو یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اصل واقعہ کے بجائے اس کی فلم دیکھ رہا ہے۔ انسان اس دنیا میں جو اعمال بجا لا رہا ہے۔ ان سب کی فلمیں تیار ہو رہی ہیں۔ اسی طرح ہر انسان کی آوازیں فضا میں محفوظ ہیں اور اس کے اعمال کے اثرات جو زمین پر ثبت ہو رہے ہیں یہی چیزیں اس دن زمین پیش بھی کردے گی اور بیان بھی کردے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(یومئذ تحدث اخبارھا :) یعنی زمین وہ سب کچھ بیان کرے گی جو اس پر کیا گیا اور بتائے گی کہ کس نے کس وقت کیا نیکی یا کیا بدی کی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا۝ ٤ ۙ يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ حدث الحدوث : كون الشیء بعد أن لم يكن، عرضا کان ذلک أو جوهرا، وإِحْدَاثه : إيجاده . وإحداث الجواهر ليس إلا لله تعالی، والمُحدَث : ما أوجد بعد أن لم يكن، وذلک إمّا في ذاته، أو إحداثه عند من حصل عنده، نحو : أحدثت ملکا، قال تعالی: ما يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ [ الأنبیاء/ 2] ، ويقال لكلّ ما قرب عهده محدث، فعلا کان أو مقالا . قال تعالی: حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْراً [ الكهف/ 70] ، وقال : لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] ، وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] ( ح د ث ) الحدوث ) ( ن) کے معنی ہیں کسی ایسی چیز کو جود میں آنا جو پہلے نہ ہو عام اس سے کہ وہ جوہر ہو یا عرض اور احداث صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ محدث ( صیغہ صفت مفعول ) ہر وہ چیز جو عدم سے وجود میں آئی ہو اور کسی چیز کا احداث کبھی تو نفس شے کے اعتبار سے ہوتا ہے اور کبھی اس شخص کے اعتبار سے ہوتا ہے ۔ جسے وہ حاصل ہوئی ہو ۔ جیسے ۔ احدثت ملکا ) میں نے نیا ملک حاصل کیا ) چناچہ آیت کریمۃ ؛۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ [ الأنبیاء/ 2] ان کے پاس کوئی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں آتی ( میں اسی دوسرے معنی کے اعتبار ذکر کو محدث کہا گیا ہے اور ہر وہ قول و فعل جو نیا ظہور پذیر ہوا ہو اسے بھی محدث کہہ دیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْراً [ الكهف/ 70] جب تک میں خود ہی پہل کرکے تجھ سے بات نہ کروں ۔ لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] شاید خدا اس کے بعد کوئی ( رجعت کی ) سبیل پیدا کردے ۔ ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری ) قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ خبر الخُبْرُ : العلم بالأشياء المعلومة من جهة الخَبَر، وخَبَرْتُهُ خُبْراً وخِبْرَة، وأَخْبَرْتُ : أعلمت بما حصل لي من الخبر، وقیل الخِبْرَة المعرفة ببواطن الأمر، والخَبَار والخَبْرَاء : الأرض اللّيِّنة « وقد يقال ذلک لما فيها من الشّجر، والمخابرة : مزارعة الخبار بشیء معلوم، والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، وقیل أي : عالم ببواطن أمورکم، وقیل : خبیر بمعنی مخبر، کقوله : فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة/ 105] ، وقال تعالی: وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد/ 31] ، قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة/ 94] ، أي : من أحوالکم التي نخبر عنها . ( خ ب ر ) الخبر ۔ جو باتیں بذریعہ خبر کے معلوم ہوسکیں ان کے جاننے کا نام ، ، خبر ، ، ہے کہا جاتا ہے ۔ خبرتہ خبرۃ واخبرت ۔ جو خبر مجھے حاصل ہوئی تھی اس کی میں نے اطلاع دی ۔ بعض نے کہا ہے کہ خبرۃ کا لفظ کسی معاملہ کی باطنی حقیقت کو جاننے پر بولا جاتا ہے ۔ الخبارو الخبرآء نرم زمین ۔ اور کبھی درختوں والی زمین پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ المخابرۃ ۔ بٹائی پر کاشت کرنا ۔ اسی سے کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے :۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وہ تمہارے باطن امور سے واقف ہے ۔ اور بعض نے خبیر بمعنی مخیر کہا ہے ۔ جیسا کہ آیت ۔ فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة/ 105] پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تمہیں بتائیگا سے مفہوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد/ 31] اور تمہارے حالات جانچ لیں ۔ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة/ 94] خدا نے ہم کو تمہارے سب حالات بتادئے ہیں ۔ یعنی تمہارے احوال سے ہمیں آگاہ کردیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤{ یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا ۔ } ” اس دن یہ اپنی خبریں کہہ سنائے گی۔ “ اس دن اللہ تعالیٰ زمین کو بھی بولنے کی صلاحیت عطا فرمائے گا اور وہ ہر انسان کے بارے میں ایک ایک خبر دے گی کہ وہ اس کی پشت پر بیٹھ کر کیا کیا حرکتیں کرتا رہا ہے۔ یعنی جس طرح انسان کے ہاتھ پائوں اور دوسرے اعضاء اس دن اس کے خلاف گواہی دیں گے اسی طرح زمین کا متعلقہ حصہ اور ٹکڑا بھی اس کے خلاف بطور گواہ کھڑا ہوگا۔ سورة حٰمٓ السجدۃ (آیت ٢١) میں ان گواہیوں کے حوالے سے بہت عبرتناک مکالمات کا ذکر ہے۔ جب انسانوں کی جلدوں سمیت ان کے تمام اعضاء ان کے خلاف گواہیاں دے رہے ہوں گے تو وہ جھنجھلا کر اپنی جلدوں سے کہیں گے : { لِمَ شَہِدْتُّمْ عَلَیْنَاط } کہ تم کیوں ہمارے خلاف بول رہے ہو ؟ اس پر وہ ترکی بہ ترکی جواب دیں گی : { اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْئٍ } کہ آج ہمیں بھی اس اللہ نے بولنے کی صلاحیت عطا کردی ہے جس نے باقی ہرچیز کو بولنا سکھایا ہے۔ بہرحال اس دن اللہ تعالیٰ زمین کو بھی زبان عطا کرے گا اور وہ انسانوں سے متعلق تمام احوال کی ایک ایک تفصیل بیان کرے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 According to Hadrat Abu Hurairah, the Holy Prophet (upon whom be peace) recited this verse and asked: "Do you know what annals it will relate ?" The people said: "Allah and His Messenger have the best knowledge." Thereupon the Holy Prophet said: "The annals are that the earth will testify to the deeds which every tnan and woman has done on its back." She will say: "He or she had done such and such a thing on such and such a day. These will be the annals the earth will narrate." (Musnad Ahmad, Tirmidhi, Nasa'i, Ibn Jarir, 'Abd bin Humaid, Ibn al-Mundhir, Hakim, Ibn Marduyah, Baihaqi in Ash-Sbu'ab) . According to Hadrat Rabi'al-Kharashi, the Holy Prophet said: "Beware of the earth, for it is your root and basis, and there is nothing which a person does on it, and it will not report, whether it is good or bad." (Mu jam at-Tabarani) . Hadrat Anas reports that the Holy Prophet said: "The earth on the Day of Resurrection will bring out every act that would have been done on its back. Then he recited these verses." (Ibn Marduyah, Baihaqi) . About Hadrat 'Ali it is related that when he distributed the money of the Bait al-Mal (public treasury) among the needy ones and thus emptied it, he would perform two rakahs of the Prayer in it and say: "You will have to bear witness that I filled you with justice and emptied you with justice. " It might have been difficult for a man of ancient times to understand how the earth will speak and narrate the annals and events happening on it on the Resurrection Day, but in the present age of scientific discoveries and the inventions of cinema, loudspeaker, radio, television, tape-recorder, electronic equipment, etc., it is no longer difficult to understand how the earth will narrate its annals. The impression of whatever man speaks is preserved in the air, in the radio waves, on the particles of the walls and floors and ceilings of the houses, and on the environments of the road, plain or field if he spoke outside the house. If AIlah so wills He can make these things repeat all these voices precisely in the way these were uttered in the first instance by tnan. Man at that time will hear with his ears and know that it was his own voice, and all his acquaintances also will testify that whatever they were hearing was the person's own voice and his own accent. Then whatever man has done anywhere on the earth, and in whatever state, has had its impression on everything of the environment and its image inscribed on it. Even if he did something in pitch dark, there are such rays in the Kingdom of God for which darkness and light make no difference; they can preserve his image in any case. All these images will pass before man on the Resurrection Day like a motion picture, and will show him when and where he had done something during his Iife on the earth. The fact is that although Allah directly knows whatever a man does, yet in the Hereafter when He will establish His Court, He will punish every culprit only after fulfilling all the demands of justice. Any case which is brought before His Court against a criminal will be proved with such perfect evidence that no room will be left to doubt his being a criminal. The first and foremost evidence against him is the record in which the two recording angels are recording his each word and deed. (Qaf: 17-18, AI-Infitar: 10-12) . This record will be handed over to him and he will be asked to read it, for "you yourself suffice as reckoner against yourself." (Bani Isra'il: 14) . Reading it man will be bewildered, for "it has left nothing un-recorded of our deeds, small or great." (Al-Kahf: 49) . Then there is man's own body which he had used in the world. In Allah's Court his own tongue will bear witness as to what he had been speaking through it in the world, his own hands and feet will bear witness as to what deeds he had committed through them (An-Nur: 24) . His eyes and his ears will bear witness as to what he saw and heard by their means. Even the skin of his body will bear witness to his deeds. Bewildered he will ask his limbs, "Why have you borne witness against me ?" They will reply: "The same God Who has given speech to everything has given us speech." (Ha Mim As-Sajdah: 20-22) . On top of these, there will be the witnesses which will be presented from the earth and all its environments, in which man will hear his own voice by his own ears and see the exact pictures of his own deeds by his eyes. Furthermore, the ideas, motives and aims hidden in the heart of man and the intentions with which he had performed every deed will be brought out and placed before him as is stated in Surah Al-`Adiyat below. That is why with the production of such absolute, clear and undeniable proofs, man will be confounded and he will be left with no chance to say anything in self-defence to excuse himself. (Al-Mursalat 35-36)

سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 4 حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر پوچھا جانتے ہو اس کے وہ حالات کیا ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔ فرمایا وہ حالات یہ ہیں کہ زمین ہر بندے اور بندی کے بارے میں اس عمل کی گواہی دے گی جو اس کی پیٹھ پر اس نے کیا ہوگا ۔ وہ کہے گی کہ اس نے فلاں دن فلاں کام کیا تھا ۔ یہ ہیں وہ حالات جو زمین بیان کرے گی ( مسند احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابن جریر ، عبد بن حمید ، ابن المنذر ، حاکم ، ابن مردویہ ، بیہقی فی الشعب ) حضرت ربیعہ الخرشی کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا ذرا زمین سے بچ کر رہنا کیونکہ یہ تمہاری جڑ بنیاد ہے اور اس پر عمل کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے عمل کی یہ خبر نہ دے خواہ اچھا ہو یا برا ۔ ( معجم الطبرانی ) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز زمین ہر اس عمل کو لے آئے گی جو اس کی پیٹھ پر کیا گیا ہو پھر آپ نے یہی آیات تلاوت فرمائیں ( ابن مردویہ ، بیہقی ) حضرت علی کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ بیت المال کا سب روپیہ اہل حقوق میں تقسیم کر کے اسے خالی کر دیتے تو اس میں دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر فرماتے تجھے گواہی دینی ہوگی کہ میں نے تجھ کو حق کے ساتھ بھرا اور حق ہی کے ساتھ خالی کردیا ۔ زمین کے متعلق یہ بات کہ وہ قیامت کے روز اپنے اوپر گزرے ہوئے سب حالات اور واقعات بیان کرے گی ، قدیم زمانے کے آدمی کے لیے تو بڑی حیران کن ہوگی کہ آخر زمین کیسے بولنے لگے گی ، لیکن آج علوم طبیعی کے اکتشافات اور سینما ، لاؤڈاسپیکر ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن ، ٹیپ ریکارڈ ، الیکڑانکس وغیرہ ایجادات کے اس دور میں یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ زمین اپنے حالات کیسے بیان کرے گی ۔ انسان اپنی زبان سے جو کچھ بولتا ہے اس کے نقوش ہوا میں ، ریڈیائی لہروں میں ، گھروں کی دیواروں اور ان کے فرش اور چھت کے ذرے ذرے میں ، اور اگر کسی سڑک یا میدان یا کھیت میں آدمی نے باتکی ہو تو ان سب کے ذرات میں ثبت ہیں ۔ اللہ تعالی جس وقت چاہے ان ساری آوازوں کو ٹھیک اسی طرح ان چیزوں سے دہروا سکتا ہے جس طرح کبھی وہ انسان کے منہ سے نکلی تھیں ۔ انسان اپنے کانوں سے اس وقت سن لے گا کہ یہ اس کی اپنی ہی آوازیں ہیں ، اور اس کے سب جاننے والے پہچان لیں گے کہ جو کچھ وہ سن رہے ہیں وہ اسی شخص کی آواز اور اسی کا لہجہ ہے ۔ پھر انسان نے زمین پر جہاں جس حالت میں بھی کوئی کام کیا ہے اس کی ایک ایک حرکت کا عکس اس کے گرد و پیش کی تمام چیزوں پر پڑا ہے اور اس کی تصویر ان پر نقش ہوچکی ہے ۔ بالکل گھپ اندھیرے میں بھی اس نے کوئی فعل کیا ہو تو خدا کی خدائی میں ایسی شعاعیں موجود ہیں جن کے لیے اندھیرا اور اجالا کوئی معنی نہیں رکھتا ، وہ ہر حالت میں اس کی تصویر لے سکتی ہیں ، یہ ساری تصویریں قیامت کے روز ایک متحرک فلم کی طرح انسان کے سامنے آجائیں گی اور یہ دکھا دیں گی کہ وہ زندگی بھر کس وقت ، کہاں کہاں کیا کچھ کرتا رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالی ہر انسان کے اعمال کو براہ راست خود جانتا ہے ، مگر آخرت میں جب وہ عدالت قائم کرے گا تو جس کو بھی سزا دے گا ، انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے دے گا ۔ اس کی عدالت میں ہر مجرم انسان کے خلاف جو مقدمہ قائم کیا جائے گا اس کو ایسی مکمل شہادتوں سے ثابت کردیا جائے گا کہ اس کے مجرم ہونے میں کسی کلام کی گنجائش باقی نہ رہے گی ۔ سب سے پہلے تو وہ نامہ اعمال ہے جس میں ہر وقت اس کے ساتھ لگے ہو۴ے کراما کاتبین اس کے ایک ایک قول اور فعل کا ریکارڈ درج کر رہے ہیں ( قٓ ۔ آیات 17 ۔ 18 ۔ الانفطار آیات 1 تا 12 ) یہ نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ پڑھ اپنا کارنامہ حیات ، اپنا حساب لینے کے لیے تو خود کافی ہے ( بنی اسرائیل 14 ) انسان اسے پڑھ کر حیران رہ جائے گا کہ کوئی چھوٹی یا بڑی چیز ایسی نہیں ہے جو اس میں ٹھیک ٹھیک درج نہ ہو ( الکہف 49 ) اس کے بعد انسان کا اپنا جسم ہے جس سے اس نے دنیا میں کام لیا ہے ۔ اللہ کی عدالت میں اس کی اپنی زبان شہادت دے گی کہ اس سے وہ کیا کچھ بولتا رہا ہے ، اس کے اپنے ہاتھ پاؤں شہادت دیں گے کہ ان سے کیا کیا کام اس نے لیے ( النور 24 ) اس کی آنکھیں شہادت دیں گے ، اس کے کان شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کیا کچھ سنا ۔ اس کے جسم کی پوری کھال اس کے افعال کی شہادت دے گی ۔ وہ حیران ہوکر اپنے اعضا سے کہے گا کہ تم بھی میرے خلاف گواہی دے رہے ہو؟ اس کے اعضا جواب دیں گے کہ آج جس خدا کے حکم سے ہر چیز بول رہی ہے اسی کے حکم سے ہم بھیبول رہے ہیں ( حم السجدہ 20 تا 24 ) اس پر مزید وہ شہادتیں ہیں جو زمین اور اس کے پورے ماحول سے پیش کی جائیں گی جن میں آدمی اپنی آوازیں خود اپنے کانوں سے اور اپنی حرکات کی ہوبہو تصویریں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا ۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ انسان کے دل میں جو خیالات ، ارادے اور مقاصد چھپے ہوئے تھے ، اور جن نیتوں کے ساتھ اس نے سارے اعمال کیے تھے وہ بھی نکال کر سامنے رکھ دیے جائیں گے ، جیسا کہ آگے سورہ عادیات میں آرہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے قطعی اور صریح اور ناقابل انکار ثبوت سامنے آجانے کے بعد انسان دم بخود رہ جائے گا اور اس کے لیے اپنی معذرت میں کچھ کہنے کا موقع باقی نہ رہے گا ( المرسلات ، آیات 35 ۔ 36 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: زمین پر کسی نے جو اچھے یا بُرے عمل کئے ہوں گے زمین ان کی گواہی دے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(99:4) یومئذ تحدث اخبارھا : یہ جملہ ، مذکورہ بالا تینوں جملہ ہائے شرطیہ کا جواب ہے۔ یؤمئذ بدل ہے اذا ہے۔ اخبارھا (مضاف مضاف الیہ) مفعول ثانی ہے تحدث کا۔ الناس مفعول اول محذوف ہے۔ یومئذ تحدث الناس اخبارھا (اس روز زمین لوگوں کو اپنی خبریں سنائے گی) ۔ یومئذ : یوم اسم ظرف منصوب۔ مضاف، اذ مضاف الیہ۔ اس روز۔ ان واقعات کے دن۔ تحدث مضارع معروف صیغہ واحد مؤنث غائب۔ تحدیث (تفعیل) مصدر سے بمعنی کہنا۔ باتیں کرنا۔ بیان کرنا۔ وہ بتائے گی۔ وہ بیان کرے گی۔ حدیث بات، بیان۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی ہر شخص کے متعلق بتادے گی کہ اس نے میری پشت پر یہ کام کئے، چاہے وہ کام اچھے ہوں یا برے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : زمین ستونوں کی طرح اپنے جگر کے ٹکڑے جو سونے اور چاندی کے ہوں گے نکالے گی۔ قاتل آئے گا اور کہے گا کہ اسی کی وجہ سے میں نے قتل کیا۔ قطع رحمی کرنے والا آئے گا اور کہے گا کہ اسی کی وجہ سے میں نے قطع رحمی کی۔ چور آئے گا اور کہے گا کہ اسی کی وجہ سے میرا ہاتھ کاٹا گیا۔ پھر سب اسے چھوڑ کر چل دیں گے اور اس میں سے کچھ نہ لیں گے۔ “ (مسلم ترمذی) حضرت ابوہریرہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ زمین کی خبریں کیا ہوں گی ؟ لوگوں نے عرض کیا ” اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں “ فرمایا اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر بندے اور بندی کے خلاف گواہی دے گی کہ اس نے میری پشت پر یہ اور یہ کام کیے یہی اس کی خبریں ہوگی۔ (ترمذی، نسائی، ابن جریر وغریہ) فتح القدیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ ترمذی وغیرہ میں اس کی تفسیر میں حدیث مرفوع آئی ہے جس شخص نے روئے زمین پر جیسا عمل کیا ہوگا بھلا یا برا زمین سب کہہ دے گی بطور شہادت عنداللہ کے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یومئذ (4:99) ” اس دن “۔ جس دن یہ زلزلہ واقعہ ہوگا اور انسان اس کے سامنے دہشت زدہ ہوگا۔ اس دن۔ تحدث اخبارھا (4:99) ” وہ اپنے (اوپر گزرے ہوئے حالات بیان کرے گی “۔ اس دن یہ زمین اپنی خبریں دے گی اپنے حالات بتائے گی اور اپنی پوری کہانی بیان کرے گی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) اس روز زمین اپنی سب باتیں بیان کردے گی۔