Surat ul Zilzaal
Surah: 99
Verse: 5
سورة الزلزال
بِاَنَّ رَبَّکَ اَوۡحٰی لَہَا ؕ﴿۵﴾
Because your Lord has commanded it.
اس لئے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا ۔
بِاَنَّ رَبَّکَ اَوۡحٰی لَہَا ؕ﴿۵﴾
Because your Lord has commanded it.
اس لئے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا ۔
Because your Lord will inspire it. It is apparent that the implied meaning here is that He will permit it (the earth). Shabib bin Bishr narrated from `Ikrimah that Ibn `Abbas said, يَوْمَيِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا (That Day it will declare its information). "Its Lord will say to it, `Speak.' So it will speak." Mujahid commented (on "inspire it"), "He commands it (i.e., to speak)." Al-Qurazi said, "He will command it to separate from them." Then Allah says,
5۔ 1 یعنی زمین کو یہ قوت گویائی اللہ تعالیٰ عطا کرے گا اس لیے اس میں تعجب بات نہیں۔ ، جس طرح انسانی اعضا میں اللہ تعالیٰ یہ قوت پیدا فرمادے گا، زمین کو بھی اللہ تعالیٰ متکلم بنا دے گا اور وہ اللہ کے حکم سے بولے گی۔
بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَہَا ٥ ۭ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے
(99:5) بان ربک اوحی لہا : ب سببیہ، لام بمعنی الیٰ ہے۔ ان حرف مشبہ بالفعل۔ ربک مضاف مضاف الیہ۔ اسم ان۔ اوحی لہا اس کی خبر۔ یعنی زمین کی تحدیث (خبر دینا) اس سبب سے ہوگا۔ کہ اللہ کی طرف سے اس کو یہی وغی ہی ہوگی۔ (اس کو یہی اشارہ یا اذن ہوگا) یا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کلام قال الانسان ما لہا کے جواب میں ہو۔ یعنی انسان کے سوال کے جواب میں زمین یہ کہے گی کہ مجھے اللہ کا حکم ہی یوں ملا ہے۔
بان ربک اوحی لھا (5:99) کہ تیرے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہوگا “۔ اس کو حکم دیا ہوگا کہ وہ اپنی حرکت تیز کردے اور اپنے سکان کو خوب جھٹکے دے اور اپنے اندر کی چیزیں باہر پھینک دے اور یہ کام وہ رب کے حکم کی اطاعت میں کررہی ہے۔ واذنت لربھا وحقت ” اور وہ اپنے رب کے حکم کی اطعت کرے گی اور اس کا حق یہی ہے “۔ لہٰذا وہ اپنے حالات بتائے گی۔ غرض یہ صورت حال اور یہ منظر اس بات کا خوب اظہار کررہا ہے کہ اس وقت اللہ کے احکام واشارات کیا ہوں گے۔ اب یہاں حالات ایسے ہیں کہ انسان ششدررہ گیا ہے ، سورت کی گھن گرج اور زور دار بیان سے خوف وہراس کی فضا ہے ، ہر سو دہشت اور حیرانی کا دور دورہ ہے۔ اضطراب اور بھگدڑ ہے ، ایسے حالات میں انسان کا سانس پھولا ہوا ہے۔ اور وہ پوچھ رہا ہے کہ اسے کیا ہوگیا ہے۔ مالھا (3:99) ” اسے کیا ہوگیا ہے .... ایسے حالات میں جواب ایک نئے منظر کی صورت میں آتا ہے ، یہ ہے منظر حشر ونشر ، حساب و کتاب اور میزان وجزاء کا ہے۔
انسان یہ حالت دیکھ کر حیران رہ جائے گا اور کہے گا کہ مالھا ہائے ہائے اس زمین کو کیا ہو ایہ تو بےجان چیز تھی نہ بولتی تھی نہ کسی سے بات کرتی تھی آج تو باتیں کر رہی ہے۔ ﴿بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَهَاؕ٠٠٥﴾ زمین کا یہ بات کرنا اس لیے ہے کہ اس کے رب نے اسے حکم دیا ہے اور بولنے کی قوت اور طاقت دے دی ہے۔ (جیسے انسان کے اعضاء اس کے خلاف گواہی دیں گے ایسی ہی زمین گواہی دے دے گی جس پر سکونت اختیار کیے ہوئے تھے) ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت کریمہ ﴿يَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَاۙ٠٠٤﴾ تلاوت فرمائی، پھر صحابہ سے خطاب کر کے فرمایا تم جانتے ہو اس کا خبر دینا کیا ہے ؟ عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں۔ فرمایا اس کا خبر دینا یہ ہے کہ ہر بندہ اور بندی کے بارے میں ان اعمال کی گواہی دے گی۔ جو اعمال اس کی پشت پر کیے تھے وہ کہے گی کہ فلاں دن فلاں کام کیا تھا، زمین کی خبریں دینے کا یہ مطلب ہے۔ (رواہ الترمذی فی اواخر ابواب التفسیر)
(5) اس لئے کہ آپ کے پروردگار نے اس کو یہی حکم دیا ہوگا۔ یعنی زمین میں سخت زلزلہ آئے اور وہ اس زلزلے کی حرکت سے خب جھنجھوڑی اور حرکت دی جائے اور زمین اپنے بوجھ یعنی مردے اور دفینے باہر نکال پھینکے شاید یہ دوسرے نفخہ صور پھونکنے کے وقت ہوگا جس سے تمام زمین کا ہموار کرنا مقصود ہوگا۔ دفینے سے مراد سونے چاندی کی کانیں اور وہ اموال ہیں جو زمین میں دبائے گئے ہوں گے غرض جو کچھ زمین میں ہے وہ باہر آجائے گا اور کوئی اس مال کا سنبھالنے والا اور لینے والا نہ ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں قیامت سے پہلے جو مال زمین میں دبا ہے سونا روپا اس سے نکل پڑے گا تب لینے والے نہ رہیں گے اور انسان زندہ ہوکر کہے گا کہ اس زمین کو کیا ہوگیا اور اس میں یہ سخت بھونچال کیوں آرہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ عالم ارواح میں جو روحیں ہیں وہ اس سے متاثر ہوکر کہیں اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آدمی قیامت کے منکر ہوگا جو کہے گا ورنہ مسلمان اور قیامت پر ایمان رکھنے والا تو جانتا ہی ہے کہ قیامت میں یہ سب کچھ ہوگا اس روز زاین اپنی تمام خبریں بیان کردے گی یعنی زمین پر جو برے بھلے اعمال کسی نے کئے ہوں گے وہ زمین سب بتادیگی کہ فلاں شخص نے مجھ پر نماز پڑھی تھی فلاح نے چوری کی تھی خون کیا تھا (وغیرذلک) حضرت ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم لوگ جانتے ہو کہ زمین کی خبریں بتانا کیا ہے لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول جانتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زمین ہر مرد اور عورت کے ان تماماعمال پر گواہی دے گی جو انہوں زمین پر کیے ہوں گے اس لئے پروردگار کا اس کو یہی حکم ہوگا یعنی زمین کو حکم دیا جائے گا کہ وہ تمام لوگوں کے اعمال بیان کرے اور جو جو کچھ کسی نے اس پر کیا ہے اس سب کو ظاہر کردے۔