Surat Younus

Surah: 10

Verse: 17

سورة يونس

فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ ﴿۱۷﴾

So who is more unjust than he who invents a lie about Allah or denies His signs? Indeed, the criminals will not succeed

سو اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتلائے یقیناً ایسے مجرموں کو اصلاً فلاح نہ ہوگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِأيَاتِهِ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ So who does more wrong than he who forges a lie against Allah or denies His Ayat! Surely, the criminals will never be successful! Allah says that no one is more wrong, unjust and arrogant than he who invented a lie against Allah, forged claims about Allah, or claimed that Allah has sent a message to him but his claim was not true. No one is more of a criminal or has committed greater wrong than such a person. Liars cannot be confused with Prophets. Anyone who claims such a thing, whether lying or telling the truth, will necessarily be supported by Allah with proofs and signs of his falsehood or truthfulness. The difference between Muhammad and Musaylamah the liar, was clearer to those who met both of them than the difference between forenoon and midnight when it is extremely dark. Those who are clear-sighted can distinguish via signs and proofs between the truthfulness of Muhammad and the falsehood of Musaylamah the liar! Sajah and Al-Aswad Al-`Ansi. Abdullah bin Salam said: "When Allah's Messenger arrived at Al-Madinah, people were scared away and I was one of them. But when I saw him, I realized that his face could never be the face of a liar. The first thing I heard from him was his statement: يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصِلُوا الاْاَرْحَامَ وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامُ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَام O people, spread the greetings of peace, feed others, be dutiful to your relatives and offer prayers in the night when others are asleep so that you will enter Paradise in peace." When Dimam bin Tha`labah came to Allah's Messenger and asked him in the presence of his people -- Banu Sa`d bin Bakr: "Who raised this heaven?" He replied, (Allah). He asked: "And who erected these mountains?" He replied, (Allah). He asked: "Who spread out this earth?" He replied, (Allah). Then he asked: "I ask you in the name of the One, Who raised the heavens, erected the mountains, and spread out this earth, has Allah sent you as a Messenger to all mankind" He said, اَللَّهُمَّ نَعَم (By Allah, Yes)! Then Dimam asked him about Salah, Zakah, Hajj and fasting. With every question he swore by Allah and with every response the Prophet swore also. Dimam then said: "You indeed are telling the truth. By the One Who sent you with the truth I will not increase or decrease from what you have told me." This man was content with the few responses of the Prophet. He was convinced of the Prophet's truthfulness by the signs that he saw and witnessed. It was narrated that; Amr bin Al-`As went to Musaylamah. Amr was not a Muslim at that time and he was a friend of Musaylamah. Musaylamah said: "Woe unto you `Amr. What was revealed unto your friend -- meaning Allah's Messenger -- during this period" Amr replied: "I heard his companions reading a short but great Surah." He asked, "And what was that" He recited: وَالْعَصْرِ إِنَّ الاِنسَـنَ لَفِى خُسْرٍ By Al-`Asr (the time). Verily, man is in loss. (103:1-2) until the end of the Surah. Musaylamah thought for a while and then said: "Something similar to that was also revealed to me." Amr asked: "And what is it?" He then recited: "O Wabr, O Wabr! You are only two ears and a breast. The rest of you is hollow.' What do you think, Amr?" Amr then said: "By Allah, you know that I know that you are a liar." This was a statement made by an idolator in judgment of Musaylamah. He knew Muhammad and his truthfulness. He also knew Musaylamah and his tendency toward falsehood and lying. People who think and have insight know even better. Allah said: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِباً أَوْ قَالَ أُوْحِى إِلَىَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَىْءٌ وَمَن قَالَ سَأُنزِلُ مِثْلَ مَأ أَنَزلَ اللَّهُ And who does more aggression and wrong than he who invents a lie against Allah or rejects His Ayat. (6:21) فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِأيَاتِهِ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ So who does more wrong than he who forges a lie against Allah or denies His Ayat Surely, the criminals will never be successful! No one is more unjust than he who belies the truth which the Messengers have brought supported with evidence and proof.

مجرم اور ظالموں کا سرغنہ اس سے زیادہ ظالم ، اس سے زیادہ مجرم ، اسے زیادہ سرکش اور کون ہوگا ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور اس کی طرف نسبت کر کے وہ کہے جو اس نے نہ فرمایا ہو ۔ رسالت کا دعویٰ کر دے حالانکہ اللہ نے اسے نہ بھیجا ہو ۔ ایسے جھوٹے لوگ تو عامیوں کے سامنے بھی چھپ نہیں سکتے چہ جائیکہ عاقلوں کے سامنے اس گناہ کا کبیرہ ترین ہونا تو کسی سے مخفی نہیں ۔ پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ نبی اس سے غافل رہیں؟ یاد رکھو جو بھی منصب نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کی صداقت یا جھوٹ پر ایسے دلائل قائم کر دیتی ہے کہ اس کا معاملہ بالکل ہی کھل جاتا ہے ایک طرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیجئے اور دوسری جانب مسلیمہ کذاب کو رکھئے تو اتنا ہی فرق معلوم ہوگا ۔ جتنا آدھی رات اور دوپہر کے وقت میں دونوں کے اخلاق عادات ، حالات کا معائنہ کرنے والا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور اس کی غلط گوئی میں کوئی شک نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح سجاح اور اسود عنسی کا دعوی ہے کہ نظر ڈالنے کے بعد کسی کو ان کے جھوٹ میں شک نہیں رہتا ۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آئے لوگ آپ کے دیکھنے کے لیے گئے ۔ میں بھی گیا آپ کے چہرے پر نظریں پڑتے ہی میں نے سمجھ لیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا نہیں ۔ پاس گیا تو سب سے پہلے آپ کی زبان مبارک سے یہ کلام سنا کہ لوگو سلام پھیلاؤ ، کھانا کھلاتے رہا کرو ۔ صلہ رحمی قائم رکھو ۔ راتوں کو لوگوں کی نیند کے وقت تہجد کی نماز پڑھا کرو تو سلامتی کے ساتھ جنت میں جاؤ گے ۔ اسی طرح جب سعد بن بکر کے قبیلے کے وفد میں ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو پوچھا کہ اس آسمان کا بلند کرنے والا کون ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہے ۔ اس نے پوچھا ان پہاڑوں کا گاڑھنے ولا کون ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ اس نے پوچھا اس زمین کا پھیلانے والا کون ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ ۔ تو اس نے کہا میں آپ کو اسی اللہ کی قسم دیتا ہوں ۔ جس نے ان آسمانوں کو بلند کیا ۔ ان پہاڑوں کو گاڑ دیا اس زمین کو پھیلا دیا کہ کیا واقعی اللہ تعالیٰ ہی نے آپ کو اپنا رسول بنا کر ہماری طرف بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اسی اللہ کی قسم ہاں ۔ اسی طرح نماز ، زکوٰۃ ، حج اور روزے کی بابت بھی اس نے ایسی ہی تاکیدی قسم دلا کر سوال کیا اور آپ نے بھی قسم کھا کر جواب دیا ۔ تب اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں ۔ اس کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ نہ میں اس پر بڑھاؤں گا اور نہ کم کروں گا ۔ پس اس شخص نے صرف اسی پر قناعت کر لی ۔ اور جو دلائل آپ کی صداقت کے اس کے سامنے تھے ان پر اسے اعتبار آگیا ۔ حضرت حسان نے آپ کی تعریف میں کتنا اچھا شعر کہا ہے لو لم تکن فیہ ایات مبینتہ کانت بدیھتہ تاتیک بالخیر یعنی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں اگر اور ظاہر اور کھلی نشانیاں نہ بھی ہوتیں تو صرف یہی ایک بات کافی تھی کہ چہرہ دیکھتے ہی بھلائی اور خوبی تیری طرف لپکتی ہے ۔ فصلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ برخلاف آپ کے کذاب مسیلمہ کے جس نے اسے بیک نگاہ دیکھ لیا اس کا جھوٹ اس پر کھل گیا ۔ خصوصاً جس نے اس کے فضول اقوال اور بدترین افعال دیکھ لئے ۔ اسے اس کے جھوٹ میں ذرا سا شائبہ بھی نہ رہا ۔ جسے وہ اللہ کا کلام کہہ رہا تھا اس کلام کی بدمزگی ، اس کی بےکاری ، تو اتنی ظاہر ہے کہ کلام کے سامنے پیش کئے جانے کے بھی قابل نہیں ۔ لو اب تم ہی انصاف کرو ۔ آیت الکرسی کے مقابلے میں اس ملعون نے یہ آیت بنائی تھی ۔ یاضفدع بنت ضفد عین نقی کم تنقین لا للماء تکدرین ولا الشاورب تمنعین یعنی اے مینڈکوں کے بچے میں مینڈک تو ٹراتا رہ ۔ نہ تو پانی خراب کر سکے نہ پینے والوں کو روک سکے ۔ اس طرح اس کے ناپاک کلام کے نمونے میں اس کی بنائی ایک اور آیت ہے کہ لقد انعم اللہ علی الجبلی اذا خرج منھا نسمۃ تسعی من بین صفاق وحشی اللہ نے حاملہ پر بڑی مہربانی فرمائی کہ اس کے پیٹ سے چلتی پھرتی جان برآمد کی ، جھلی اور آنتوں کے درمیان سے ۔ سورۃ الفیل کے مقابلے میں وہ پاجی کہتا ہے الفیل وما ادراک ما الفیل لہ خرطوم طویل یعنی ہاتھی اور کیا جانے تو کیا ہے ہاتھی؟ اس کی بڑی لمبی سونڈھ ہوتی ہے ۔ والنازعات کا معارضہ کرتے ہوئے یہ کمینہ کہتا ہے والعاجنات عجنا والخابزات خبزا والاقمات لقما اھالتہ و سمعان ان قریشا قوم یعتدون یعنی آٹا گوندھنے والا اور روٹی پکانے والیاں ، اور لقمے بنانے والیاں ، سالن اور گھی سے ۔ قریش لوگ بہت آگے نکل گئے ۔ اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ یہ بچوں کا کھیل ہے یا نہیں؟ شریف انسان تو سوائے مذاق کے ایسی بات منہ سے بھی نہیں نکال سکتا پھر اس کا انجام دیکھئے لڑائی میں مارا گیا ۔ اس کا گروہ مٹ گیا ۔ اس کے ساتھیوں پر لعنت برسی ۔ حضرت صدیق اکبر کے پاس خائب و خاسر ہو کر منہ پر مٹی مل کر پیش ہوئے اور رو دھو کر توبہ کر کے جوں جوں کر کے جان بچائی ۔ پھر تو اللہ کے سچے دین کی چاشنی سے ہونٹ چوسنے لگے ۔ ایک روز ان سے خلیفۃ المسلمین امیرالمومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مسیلمہ کا قرآن تو سناؤ تو بہت سٹ پٹائے بیحد شرمائے اور کہنے لگے حضرت ہمیں اس ناپاک کلام کے زبان سے نکالنے پر مجبور نہ کیجئے ہمیں تو اس سے شرم معلوم ہوتی ہے ۔ آپ نے فرمایا نہیں تو ضرور سناؤ تاکہ ہمارے مسلمان بھائیوں کو بھی اس کی رکاکت اور بےہودگی معلوم ہو جائے ۔ آخر مجبور ہو کر انہوں نہایت ہی شرماتے ہوئے کچھ پڑھا جس کا نمونہ اوپر گزرا کہ کہیں میں مینڈک کا ذکر کہیں ہاتھی کا کہیں روٹی کا کہیں حمل کا ۔ اور وہ سارے ہی ذکر بےسود بےمزہ اور بےکار ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آخر میں فرمایا یہ تو بتاؤ تمہاری عقلیں کہاں ماری گئیں تھیں؟ واللہ اسے تو کوئی بیوقوف بھی ایک لمحہ کے لیے کلام اللہ نہیں کہہ سکتا ۔ مذکور ہے کہ عمرو بن العاص اپنے کفر کے زمانے میں مسیلمہ کے پاس پہنچا ۔ یہ دونوں بچپن کے دوست تھے اس سے پوچھا کہو عمرو تمہارے ہاں کے نبی پر آج کل جو وحی اتری ہو اس میں سے کچھ سنا سکتے ہو؟ اس نے کہا ہاں ان کے اصحاب ایک مختصر سورت پڑھتے تھے جو میری زبان پر بھی چڑھ گئی لیکن بھائی اپنی مضمون کے لحاظ سے وہ سورت بہت بڑی اور بہت ہی اعلیٰ ہے اور لفظوں کے اعتبار سے بہت ہی مختصر اور بڑی جامع ہے ۔ پھر اس نے سورہ والعصر پڑھ سنائی ۔ مسیلمہ چپکا ہو گیا بہت دیر کے بعد کہنے لگا مجھ پر اسی جیسی سورت اتری ہے ۔ اس نے کہا ہاں تو بھی سنا دے تو اس نے پڑھا یا وبر یا وبر انما انت اذنان و صدر و سائرک حقر لغر یعنی اے وبر جانور تیرے تو بس دو کان ہیں اور سینہ ہے ، اور باقی جسم تو تیرا بالکل حقیر اور عیب دار ہے ۔ یہ سنا کر عمرو سے پوچھتا ہے کہو دوست کیسی کہی؟ اس نے کہا دوست اپنے جھوٹ پر مہر لگا دی اور کیسی کہی؟ پس جب کہ ایک مشرک پر بھی سچے جھوٹے کی تمیز مشکل نہ ہوئی تو ایک صاحب عقل تمیز دار اور بایمان پر کیسے یہ بات چھپ سکتی ہے؟ اس کا بیان ( وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْهِ شَيْءٌ ) 6- الانعام:93 ) میں ہے یعنی اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے یا اس کے طرف وحی نہ آنے کے باوجود وحی آنے کا دعویٰ کرنے والے سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ۔ اسی طرح جو کہے کہ میں بھی اللہ کی طرح کا کلام اتار سکتا ہوں ۔ مندرجہ بالا آیت میں بھی یہی فرمان ہے ۔ پس وہ بڑا ہی ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے ، وہ بڑا ہی ظالم ہے جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے ۔ حجت ظاہر ہو جانے پر بھی نہ مانے ۔ حدیث میں ہے سب سے بڑا سرکش اور بدنصیب وہ ہے جو کسی نبی کو قتل کرے یا نبی اسے قتل کرے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] سب سے بڑھ کر ظالم کون ؟:۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخض ایک بات تو خود گھڑے یا تصنیف کرے پھر اسے اللہ کی طرف منسوب کردے جیسا کہ مشرکین مکہ کا آپ کے متعلق خیال مذکور ہوا ہے ایسا شخص بھی سب سے بڑھ کر ظالم ہے اور اگر نبی اپنے قول میں سچا ہے تو اللہ کی آیات کا منکر بھی ویسا ہی سب سے بڑھ کر ظالم ہوگا اور دونوں کے ظلم میں کوئی فرق نہیں۔ [٢٧] نظریہ کی تبدیلی سے فلاح کے معیار میں تبدیلی :۔ فلاح سے مراد کامیابی سے ہم کنار ہونا ہے لیکن نظریہ کی تبدیلی سے کامیابی کا معیار بھی بدل جاتا ہے مثلاً ایک دنیادار اور آخرت کے منکر کے نزدیک انتہائی کامیابی یہ ہے کہ اسے امن وچین اور عیش و عشرت سے زندگی بسر کرنا نصیب ہو اور لمبی عمر حاصل ہو جبکہ ایک دیندار اور آخرت پر یقین رکھنے والے کے نزدیک کامیابی کا معیار اخروی عذاب سے نجات ہے اگرچہ وہ بھی اللہ سے فلاح دارین کا طالب ہوتا ہے۔ چناچہ اس دنیا میں بھی اسے وہ کچھ نصیب ہوتا ہے جو اس کے مقدر ہوتا ہے لیکن وہ اس دنیا کی مزعومہ کامیابی کو کامیابی کا معیار قرار نہیں دیتا اس آیت میں جس کامیابی کا ذکر ہے اس سے مراد اخروی فلاح ہے یعنی اللہ پر جھوٹ باندھنے یا اس کی آیات کو جھٹلانے والوں کو کبھی اخروی فلاح نصیب نہیں ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي۔۔ : یعنی اگر یہ قرآن میں نے خود تصنیف کرلیا ہے، جیسا کہ تم سمجھتے ہو تو میں نے اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا، جس سے بڑا کوئی گناہ نہیں، مگر اس کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا اوپر کے دلائل سے ثابت ہوچکا ہے، اس کے بعد بھی اگر تم نے اس کی آیات کو جھٹلایا تو تم سے بڑا ظالم اور گناہ گار کوئی نہیں اور ایسے گناہ گار اور مجرم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The last verse (17) emphasizes the subject conclusively by warning that attributing any statement to Allah Ta` ala that was not His Word, or denying what actually was, were crimes deserving severe punishment.

آٹھویں آیت میں اسی مضمون کی مزید تاکید وارد ہوئی ہے جس میں کسی کلام کو غلط طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کا عذاب شدید مذکور ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِہٖ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ۝ ١٧ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے فلح والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ( ف ل ح ) الفلاح فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم . واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧) اس شخص سے بڑا ظالم اور دلیر کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم کو جھٹلائے یقیناً مشرکین عذاب الہی سے اصلا فلاح اور نجات پانے والے بالکل نہیں ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ط) ” تو اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جس نے اللہ کی طرف جھوٹ بات منسوب کی یا جھٹلایا اس کی آیات کو ! “ یعنی یہ قرآن جو میں تم لوگوں کو سنا رہا ہوں ‘ اگر یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے اور میں اسے اپنی طرف سے گھڑ کر پیش کر رہا ہوں تو مجھ سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ‘ اور اگر یہ واقعتا اللہ کی آیات ہیں تو تم لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو شخص اللہ کی آیات کو جھٹلا دے ‘ اس سے بڑھ کر ظالم اور گنہگار کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ اب اس معیار حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے تم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ اور اپنے عمل کا جائزہ لے اور دیکھے کہ وہ کون سی روش اختیار کر رہا ہے۔ (اِنَّہٗ لاَ یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ ) ” یقیناً مجرم لوگ فلاح نہیں پایا کرتے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22. If the verses of the Qur'an were in fact not from God but had been composed by the Prophet (peace be on him) who then claimed them to be from God, the Prophet would be guilty of the worst kind of wrong. But if, on the contrary, the Qur'an was the word of God, those who rejected it as false must be regarded as the worst kind of wrong-doers. 23. The Qur'anic term falah (prosperity, success) used in the above verse has been understood by some to signify such things as longevity, worldly prosperity and other worldly attainments. Under this false impression, they tend to believe that if a claimant to prophethood attains material prosperity and longevity or if his message is spread around, then he ought to be considered a genuine Prophet because he has indeed attained 'prosperity'. Had he been an impostor, it is argued, he would soon have been assassinated, or would have starved to death, and, in any case, his message would not have spread around. Such an absurd line of argument can only be pursued by those who are altogether ignorant of the concept of falah (prosperity) as envisaged in the Qur'an, who are unaware of God's law of respite regarding evil-doers, and who are altogether unappreciative of the special meaning in which the term has been employed in the present context. In order to fully understand what is meant by saying that 'the guilty shall not prosper', a number of things ought to be borne in mind. In the first place, the Qur'anic statement that "the guilty shall not prosper' is not made with a view to providing a yardstick that might be applied by people so as to determine the truth or falsity of the claimants of prophethood. The verse does not seek to stress that all those who 'prosper' after claiming to be a Prophet are truly Prophets, and that those who do not prosper after making such a claim are not so. The point of emphasis here is altogether different. Here the Prophet (peace be on him) is being made to say that since he knows fully that those guilty of inventing lies against Allah could not prosper, he would not dare make any claim to prophethood if such a claim was false. On the other hand, the Prophet (peace be on him) also knew that the unbelievers were guilty of rejecting the true signs of God and of declaring a true Prophet of God to be an impostor. In view of that monstrous guilt, it was quite apparent to the Prophet (peace be on him) that they would not prosper. Moreover, the Qur'anic term falah (prosperity, success) has not been used in the limited sense of worldly success. Rather, it denotes that enduring success which admits of no failure regardless of whether one is able to achieve success in the present phase of one's existence or not. it is quite possible that someone who calls people to falsehood might enjoy life and nourish in a worldly sense, and he might even be able to attain a substantial following for his message. But this is not true prosperity or success; rather it constitutes total loss and failure. Contrarily, it is also possible that someone who calls people to the truth might be exposed to much persecution and be overwhelmed by pain and suffering. It is possible that even before he is able to create any significant following, he is continually subjected to persecution and torture. In the Qur'anic view, such an apparently tragic end constitutes the very zenith of such a person's success rather than his failure. Moreover, it should be remembered that it has been amply elucidated in the Qur'an that God does not punish evil-doers instantly: that He rather grants them a fair opportunity to mend their ways. Not only that, if the evil-doers misuse the respite granted by God to perpetrate further wrongs, they are sometimes granted an even further respite. In fact, at times a variety of worldly favours are bestowed upon such evil-doers in order that the potential for wickedness inherent in them might be fully exposed by their actions, proving that they do indeed deserve a very severe punishment. Hence, if an impostor continues to enjoy periods of respite and if worldly favours are lavished upon him this should not in any way give rise to the notion that he is on the right path. In the same way as God grants respite to other evil-doers. He also grants respite to impostors. There are no grounds whatsoever for believing that the respite granted to other evil-doers would not be granted to those impostors who lay false claim to prophethood. We may well call to mind that Satan himself has been granted a respite until Doomsday, It has never been indicated that although Satan is granted a free hand to misguide human beings, as soon as he throws up an impostor claiming prophethood such a venture is instantly nipped in the bud. In order to refute the view expressed above it is possible that someone may refer to the following verse of the Qur'an: Now if he [i.e. Muhammad] would have made up, ascribed some sayings to Us, We would indeed have seized him by the right hand, and then indeed would have cut his life-vein (al-Haqqah 69: 44-6). Even a little reflection makes it obvious that the verse in question does not contradict the view we have expressed above. For, what the present verse says relates to a principle which God follows in dealing with true Prophets. Were any such Prophet to falsely claim something to be a revelation from God, he would instantly be seized by God's wrath. To argue to the contrary that all those who are not seized by God's wrath are necessarily genuine Prophets is simply a logical fallacy devoid of any justification. For the threat of instant Divine wrath embodied in this verse is applicable only to true Prophets, and not to impostors who, like other evil-doers, are granted a respite. This can be well understood if we bear in mind the disciplinary rules laid down by different governments for their officials. It is obvious that those rules are not enforced in respect of ordinary citizens. Were the latter to lay any false claim to being a government official, he would be subjected to the normal rules of the criminal code relating to the conviction of those who are guilty of fraud rather than to the disciplinary rules meant for government officials. Under this analogy, an impostor who claims to be a Prophet, would be dealt with by God along with other evil-doers who commit evil, and who, as we know, are not necessarily punished immediately. In any case, as we have pointed out earlier, the verses quoted above were not revealed so as to provide the criterion to judge the truth of anyone who lays claim to prophethood. This verse should not be considered to mean that if a celestial hand stretches forth to cut off the life-vein of a claimant to prophethood, such a person is an impostor; and if that does not happen, he is a genuine Prophet. Such a weird criterion would have been needed only if no other means were available to judge the genuineness of a claimant to prophethood. But as things stand, a Prophet is known by his character, by his work, and by the contents of his message.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :22 یعنی اگر یہ آیات خدا کی نہیں ہیں اور میں انہیں خود تصنیف کر کے آیات الہٰی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہوں تو مجھ سے بڑا ظالم کوئی نہیں ۔ اور اگر یہ واقعی اللہ کی آیات ہیں اور تم ان کو جھٹلا رہے ہو تو پھر تم سے بڑا بھی کوئی ظالم نہیں ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :23 بعض نادان لوگ ” فلاح “ کو طویل عمر ، یا دنیوی خوشحالی ، یا دنیوی فروغ کے معنی میں لے لیتے ہیں ، اور پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کر کے جیتا رہے ، یا دنیا میں پھلے پھولے ، یا اس کی دعوت کو فروغ نصیب ہو ، اسے نبی برحق مان لینا چاہیے کیونکہ اس نے فلاح پائی ۔ اگر وہ نبی برحق نہ ہوتا تو جھوٹا دعویٰ کرتے ہی مار ڈالا جاتا ، یا بھوکوں مار دیا جاتا اور دنیا میں اس کی بات چلنے ہی نہ پاتی ۔ لیکن یہ احمقانہ استدلال صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو نہ تو قرآنی اصطلاح ”فلاح“ کا مفہوم جانتا ہو ، نہ اس قانون امہال سے واقف ہو جو قرآن کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مجرموں کے لیے مقرر فرمایا ہے ، اور نہ یہی سمجھتا ہو کہ اس سلسلہ بیان میں یہ فقرہ کس معنی میں آیا ہے ۔ اول تو یہ بات کہ ” مجرم فلاح نہیں پا سکتے “ اس سیاق میں اس حیثیت سے فرمائی ہی نہیں گئی ہے کہ یہ کسی کے دعوائے نبوت کو پرکھنے کا معیار ہے جس سے عام لوگ جانچ کر خود فیصلہ کرلیں کہ جو مدعی نبوت ”فلاح“ پا رہا ہو اس کے دعوے کو مانیں اور جو فلاح نہ پا رہا ہو اس کا انکار کر دیں ۔ بلکہ یہاں تو یہ بات اس معنی میں کہی گئی ہے کہ ”میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ مجرموں کو فلاح نصیب نہیں ہو سکتی ، اس لیے میں خود تو یہ جرم نہیں کر سکتا کہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کروں ، البتہ تمہارے متعلق مجھے یقین ہے کہ تم سچے نبی کو جھٹلانے کا جرم کر رہے ہو اس لیے تمہیں فلاح نصیب نہیں ہوگی“ ۔ پھر فلاح کا لفظ بھی قرآن میں دنیوی فلاح کے محدود معنی میں نہیں آیا ہے ، بلکہ اس سے مراد وہ پائیدار کامیابی ہے جو کسی خسران پر منتج ہونے والی نہ ہو ، قطع نظر اس سے کہ دنیوی زندگی کے اس ابتدائی مرحلہ میں اس کے اندر کامیابی کا کوئی پہلو ہو یا نہ ہو ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک داعی ضلالت دنیا میں مزے سے جیے ، خوب پھلے پھولے اور اس کی گمراہی کو بڑا فروغ نصیب ہو ، مگر یہ قرآن کی اصطلاح میں فلاح نہیں ، عین خسران ہے ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک داعی حق دنیا میں سخت مصیبتوں سے دو چار ہو ، شدت آلام سے نڈھال ہو کر یا ظالموں کی دست درازیوں کا شکار ہو کر دنیا سے جلدی رخصت ہو جائے ، اور کوئی اسے مان کر نہ دے ، مگر یہ قرآن کی زبان میں خسران نہیں ، عین فلاح ہے ۔ علاوہ بریں قرآن میں جگہ جگہ یہ بات پوری تشریح کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کو پکڑنے میں جلدی نہیں کیا کرتا بلکہ انہیں سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے ، اور اگر وہ اس مہلت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اور زیادہ بگڑتے ہیں تو اللہ کی طرف سے ان کو ڈھیل دی جاتی ہے اور بسا اوقات ان کو نعمتوں سے نوازا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے نفس کی چھپی ہوئی تمام شرارتوں کو پوری طرح ظہور میں لے آئیں اور اپنے عمل کی بنا پر اس سزا کے مستحق ہو جائیں جس کے وہ اپنی بری صفات کی وجہ سے فی الحقیقت مستحق ہیں ۔ پس اگر کسی جھوٹے مدعی کی رسی دراز ہو رہی ہو اور اس پر دنیوی ”فلاح“ کی برسات برس رہی ہو تو سخت غلطی ہوگی اگر اس کی اس حالت کو اس کے برسر ہدایت ہونے کی دلیل سمجھا جائے ۔ خدا کا قانون امہال و استدراج جس طرح تمام مجرموں کے لیے عام ہے اسی طرح جھوٹے مدعیان نبوت کے لیے بھی ہے اور ان کے اس مستثنیٰ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ پھر شیطان کو قیامت تک کے لیے جو مہلت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اس میں بھی یہ استثنا کہیں مذکور نہیں ہے کہ تیرے اور تو سارے فریب چلنے دیے جائیں گے لیکن اگر تو اپنی طرف سے کوئی نبی کھڑا کرے گا تو یہ فریب نہ چلنے دیا جائے گا ۔ ممکن ہے کوئی شخص ہماری اس بات کے جواب میں وہ آیت پیش کرے جو سورہ الحاقہ آیات ٤٤ – ٤۷ میں ارشاد ہوئی ہے کہ وَلَوْ تَقَوَّ لَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَ قَاوِیْلِ o لَاَ خَذْنَا مِنْہُ بِا لْیَمِیْنِ o ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ ۔ ” یعنی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود گھڑ کر کوئی بات ہمارے نام سے کہی ہوتی تو ہم اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگ دل کاٹ ڈالتے “ ۔ لیکن اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ تو یہ ہے کہ جو شخص فی الواقع خدا کی طرف سے نبی مقرر کیا گیا ہو وہ اگر جھوٹی بات گھڑ کر وحی کی حیثیت سے پیش کرے تو فورا پکڑا جائے ۔ اس سے یہ استدلال کرنا کہ جو مدعی نبوت پکڑ انہیں جا رہا ہے وہ ضرور سچا ہے ۔ ایک منطقی مغالطہ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ خدا کے قانون امہال و استدراج میں جو استثناء اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے وہ صرف سچے نبی کے لیے ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو شخص نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے وہ بھی اس سے مستثنیٰ کیا گیا ہے ۔ ظاہر بات ہے کہ سرکاری ملازموں کے لیے حکومت نے جو قانون بنایا ہو اس کا اطلاق صرف انہی لوگوں پر ہوگا جو واقعی سرکاری ملازم ہوں ۔ رہے وہ لوگ جو جعلی طور پر اپنے آپ کو ایک سرکاری عہدہ دار کی حیثیت سے پیش کریں ، تو ان پر ضابطہ ملازمت کا نفاذ نہ ہوگا بلکہ ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو ضابطہ فوجداری کے تحت عام بدمعاشوں اور مجرموں کے ساتھ کیا جا تا ہے ۔ علاوہ بریں سورہ الحاقہ کی اس آیت میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ بھی اس غرض کے لیے نہیں فرمایا گیا کہ لوگوں کو نبی کے پرکھنے کا یہ معیار بتایا جائے کہ اگر پردہ غیب سے کوئی ہاتھ نمودار ہو کر اس کی رگ دل اچانک کاٹ لے تو سمجھیں جھوٹا ہے ورنہ مان لیں کہ سچا ہے ۔ نبی کے صادق یا کاذب ہونے کی جانچ اگر اس کی سیرت ، اس کے کام ، اور اس چیز سے جو وہ پیش کر رہا ہو ، ممکن نہ ہوتی تو ایسے غیر معقول معیار تجویز کرنے کی ضرورت پیش آسکتی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧۔ اس سے پہلے کی آیت میں بیان ہوچکا ہے کہ کافروں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اور قرآن آپ لائیں یا اس کو بدل ڈالیں جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ کہہ دو مجھے زیبا نہیں ہے کہ میں اپنے جی سے اللہ کے کلام کو بدل ڈالوں کیونکہ یہ تو بڑا ظلم ہے اور خدا پر بہتان باندھنا ہے کہ جو بات خدا نے نہ بتلائی ہو میں اس کو اپنے جی سے کہوں آیت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مشرک اور کافر خدا کو اور اس کی آیتوں کو اور اس کے رسول کو جھٹلاتے ہیں بہت ظلم کرتے ہیں کبھی ان کو فلاحیت نہ ہوگی اور یہ مطلب اس لئے ہے کہ مسیلمہ کذاب ایک شخص حضرت کے زمانہ میں عرب میں تھا اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور جی سے آیتیں گھڑ کر کہتا تھا کہ خدا نے یہ آیتیں مجھ پر اتاری ہیں اس واسطے فرمایا کہ جو شخص خدا پر بہتان باندھے اور یہ کہے کہ خدا نے مجھ پر اپنا کلام بھیجا ہے اس سے بیوقوف سے بیوقوف آدمی اس کو سمجھ لے گا۔ چناچہ جن لوگوں نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسیلمہ کذاب کو دیکھا ہے انہوں نے فوراً پہچان لیا ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے صحیح بخاری وغیرہ میں انس بن مالک (رض) کی روایت میں عبد اللہ بن سلام (رض) کا جو قصہ ہے اس میں عبد اللہ بن سلام (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائے تو لوگ آپ کے دیکھنے کو ٹوٹ پڑے ان میں میں بھی تھا میں نے صورت دیکھتے ہی پہچان لیا کہ آپ جھوٹوں میں نہیں ہیں۔ ١ ؎ ( ١ ؎ اصابہ فی معرفۃ الصحابہ ص ٨٠۔ ٨١ ج ٤ طبع شرفیہ مصر ١٣٢٥ ھ/١٩٠٧ ء و تفسیر الدر المنثور ص ١٠١ ج ٤ بروایت جامع ترمذی وغیرہ۔ ) پھر جب بنی سعد بن بکر کی طرف سے ضمام بن ثعلبہ (رض) آپ کے پاس آئے تو باتیں کرتے کرتے یہ بھی پوچھا کہ آسمان کو کس نے بنایا ہے آپ نے فرمایا اللہ نے پھر کہا پہاڑوں کو کس نے پیدا کیا فرمایا اللہ نے پھر پوچھا زمین کس نے بنائی فرمایا اللہ نے کہنے لگ آسمان اور زمین اور پہاڑ پیدا کرنے والے کی قسم کیا خدا نے تمہیں کل لوگوں کی ہدایت کو بھیجا ہے آپ نے فرمایا ہاں پھر ضمام بن ثعلبہ (رض) نے نماز روزہ حج زکوٰۃ ہر ایک باتوں کو قسمیں دے دے کر دریافت کیا آپ بھی قسمیں کھا کھا کر بیان فرماتے گئے جب ضمام بن ثلعبہ (رض) نے سچی سچی باتیں سنیں تو کہا جس نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں بیشک آپ سچے ہیں اور میں ان باتوں میں جو آپ نے بتلائی ہیں کچھ کمی بڑہتی نہ کروں گا یہ ضمام بن ثعلبہ (رض) کا قصہ صحیح بخاری وغیرہ میں تفصیل ٢ ؎ سے ہے ( ٢ ؎ صحیح بخاری ص ١٥ ج ١ باب القراء ۃ والعرض علی المحدث۔ ) اسی طرح جن لوگوں نے مسیلمہ کو دیکھا یا اس کے بنائے ہوئے قرآن کی آیتیں سنیں انہوں نے خود جان لیا کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں ہے محض جھوٹ ہے اسی واسطے خدا تعالیٰ نے فرمایا جھوٹے اور دغا بازوں کو کبھی فلاحیت نہیں ہے آخر جب مسیلمہ مارا گیا تو اس کے ساتھی یا دوست علیحدہ علیحدہ ہوگئے یہاں تک کہ خود اس کے گھر کے لوگوں نے اس پر لعنت بھیجی اور پھر اس کے ان رشتہ داروں نے حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آکر توبہ کی اور اسلام میں داخل ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان لوگوں سے اس کے قرآن کی آیتیں پڑھوا کر سنیں تاکہ جن لوگوں نے اس کا کلام نہیں سنا ہے وہ بھی سن لیں اور جھوٹ اور سچ میں تمیز کرلیں یہ مسیلمہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت میں وحشی بن حرب حضرت امیر حمزہ (رض) کے قاتل کے ہاتھ سے مارا گیا۔ چناچہ ایک جگہ یہ قصہ صحیح بخاری ٣ ؎ کے حوالے سے گزر چکا ہے۔ (٣ ؎ صحیح بخاری ٥٨٣ باب قتل حمزۃ۔ ) حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت میں یمامہ کی بڑی لڑائی مشہور ہے جس میں مسیلمہ مارا گیا خا لد بن ولید (رض) اس یمامہ کی لڑائی میں لشکر اسلام کے سردار تھے اس لڑائی میں جب بہت سے حافظ قرآن صحابہ کے شہید ہونے کی خبر آئی تو حضرت عمر (رض) کے مشورہ سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے سارا قرآن ایک جگہ جمع کر کے لکھوایا تاکہ حافظ صحابہ کے شہید ہوجانے سے قرآن کی حفاظت میں کچھ فرق نہ پڑجاوے۔ چناچہ زید بن ثابت (رض) کی روایت سے یہ قصہ صحیح بخاری ٤ ؎ میں ہے۔ ( ٤ ؎ صحیح بخاری ص ٧٤٥ ج ٢ باب جمع القرآن) صحیح مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا نزول قرآن کے زمانہ میں سوا قرآن کے میری حدیثیں نہ لکھا کر۔ ٥ ؎ وہ اسی طرح ( ٥ ؎ صحیح مسلم ص ٤١٤ ج ٢ باب التثبت فی الحدیث و حکم کتابۃ العلم۔ ) حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی صحیح حدیث بھی اوپر گزرچکی ہے۔ ٦ ؎ کہ ( ٦ ؎ تفسیر جاء ہذا ص ١٩۔ ) جب کوئی آیت یا سورت نازل ہوتی تھی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوراً اس کو لکھوا لیا کرتے تھے غرض ان حدیثوں اور اس قسم کی اور حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں سارا قرآن متفرق طور پر لکھا ہوا موجود تھا اسی کو حضرت ابوبکر (رض) نے ایک جگہ جمع کرادیا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے زمانہ میں جو قرآن جمع ہوا اس میں ساتوں قرأتیں تھیں جس کے سبب سے صحابہ (رض) میں ایک اختلاف رہتا تھا کسی لفظ کو کوئی ایک طرح پڑہتا تھا اور کوئی دوسری طرح اس اختلاف کے رفع کرادینے کی غرض سے پھر حضرت عثمان (رض) نے ایک قرأت کا قرآن لکھوایا۔ چناچہ انس بن مالک (رض) کی روایت سے یہ قصہ صحیح بخاری ٧ ؎ میں تفصیل سے ہے۔ ( ٧ ؎ صحیح بخاری ص ٧٤٦ ج ٢ باب جمع القرآن۔ ) اور اس تفسیر کے مقدمہ میں بھی اس قصہ کی تفصیل بیان کردی گئی ہے احسن الفوائد کے مقدمہ میں بھی اس قصہ کا ذکر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:17) افتری۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ اس نے جھوٹ باندھا۔ اس نے بہتان تراشا۔ افتراء سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5۔ یعنی اگر یہ قرآن خود میں نے تصنیف کرلیا ہے جیسا کہ تم سمجھتے ہو تو میں نے خدا پر بہتان باندھا جس کے برابر کوئی گناہ نہیں۔ مگر اس کا خدا کی طرف سے ہونا اوپر کے دلائل سے ثابت ہوچکا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر تم نے اس کی آیات اور مجرم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ (کبیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فمن اظلم ممن افتریٰ علی اللہ کذبًا پس اس سے بڑا کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹی تہمت تراشی کی اور خیال کیا کہ اللہ کا کوئی ساجھی اور اولاد ہے۔ او کذب بٰایٰتہ یا اللہ کی آیتوں کو سچا نہ جانا اور ان (کی صداقت) کا انکار کردیا۔ انہ لا یفلح المجرمون۔ کوئی شبہ نہیں کہ مجرموں یعنی مشرکوں کو فلاح یعنی نجات نہیں ملے گی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30: یہ زجر ہے۔ فاء تفریعیہ ہے یعنی جب دلائل عقلیہ قاہرہ سے شرک کی نفی اور ممانعت ثابت ہوگئی تو اس کے بعد بھی جو شخص شرک نہ چھوڑے اس سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ پر افترء کرتا ہے۔ یعنی ایک طرف تو شرک کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اللہ اس کے فعل سے خوش ہے اور اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں کو پکارنے کی اجازت دی ہے ایسا شخص یا وہ جو قرآن کے من جانب اللہ ہونے اور دلائل توحید کو جھٹلاتا ہے ان سے بڑھ کر دنیا میں کون ظالم ہوسکتا ہے۔ “ یعنی فزعم ان له شریکا و ولدا کذب بایاته یعن جحد بکون القراٰن من عندالله وانکر دلائل التوحید ” (معالم و خازن ج 3 ص 180) ۔ استفہام انکاری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے بڑا ظالم کوئی نہیں “ استفھام بمعنی الجحد اي لا احد اظلم ممن افتري الخ ” (قرطبی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

17 لہٰذا اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر جھوٹ باندھے اور کسی کلام کا منزل من اللہ ہونا افتراء کے طور پر بیان کرے یا اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان کی تکذیب کرے یقینا ایسے مجرموں کو کبھی فلاح نصیب نہیں ہوتی اور ایسے گناہ گار فلاح کو نہیں پہنچتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اگر میں بناتا ہوں تو مجھ سا ظالم نہیں اور اگر میں سچا ہوں تو جھٹلانے والوں پر بھی یہی بات ہے۔ 13