Surat Younus

Surah: 10

Verse: 48

سورة يونس

وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۴۸﴾

And they say, "When is [the fulfillment of] this promise, if you should be truthful?"

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہوگا؟ اگر تم سچے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Deniers of the Day of Resurrection wish to hasten its Coming and their Response Allah tells; وَيَقُولُونَ مَتَى هَـذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ And they say: "When will be this promise (the torment or the Day of Resurrection), if you speak the truth" Allah told us about the idolators who reject faith through their demand that the punishment be hastened, inquiring about the time of punishment. The response to such question is not inherently beneficial, yet they inquired anyway. Allah said: يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ Those who believe not therein seek to hasten it, while those who believe are fearful of it, and know that it is the very truth. (42:18) They know that it is the truth for it is definitely going to happen. It is going to take place even if they have no idea when it will occur. This is why Allah instructed His Messenger to answer them saying:

بے معنی سوال کرنے والوں کو جواب ان کا بےفائدہ سوال دیکھو ۔ وعدہ کا دن کب آئے گا ؟ یہ پوچھتے ہیں اور پھر وہ بھی نہ ماننے اور انکار کے بعد بطور یہ جلدی مچا رہے ہیں اور مومن خوف زدہ ہو رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں ۔ وقت نہ معلوم ہو نہ سہی جانتے ہیں کہ بات سچی ہے ایک دن آئے گا ضروری ۔ ہدایات دی جاتی ہیں کہ انہیں جواب دے کہ میرے اختیار میں تو کوئی بات نہیں ۔ جو بات مجھے بتلا دی جائے میں تو وہی جانتا ہوں ۔ کسی چیز کی مجھ میں قدرت نہیں یہاں تک کہ خود اپنے نفع نقصان کا بھی میں مالک نہیں ۔ میں تو اللہ کا غلام ہوں اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ اس نے مجھ سے فرمایا میں نے تم سے کہا کہ قیامت آئے گی ضرور ۔ نہ اس نے مجھے اس کا خاص وقت بتایا نہ میں تمہیں بتا سکوں ہاں ہر زمانے کی ایک معیاد میعن ہے جہاں اجل آئی پھر نہ ایک ساعت پیچھے نہ آگے اجل آنے کے بعد نہیں رکتی ۔ پھر فرمایا کہ وہ تو اچانک آنے والی ہے ممکن ہے رات کو آجائے دن کو آجائے اس کے عذاب میں دیر کیا ہے؟ پھر اس شور مچانے سے اور وقت کا تعین پوچھنے سے کیا حاصل؟ کیا جب قیامت آجائے عذاب دیکھ لو تب ایمان لاؤ گے؟ وہ محض بےسود ہے ۔ اس وقت تو یہ سب کہیں گے کہ ہم نے دیکھ سن لیا ۔ کہیں گے ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور دوسرے سے کفر کرتے ہیں ۔ لیکن ہمارے عذاب کو دیکھنے کے بعد ایمان بےنفع ہے ۔ اللہ کا طریقہ اپنے بندوں میں یہی رہا ہے وہاں تو کافروں کو نقصان ہی رہے گا ۔ اس دن تو ان سے صاف کہہ دیا جائے گا اور بہت ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ کہ اب تو دائمی عذاب چکھو ، ہمیشہ کی مصیبت اٹھاؤ ۔ انہیں دھکے دے دے کر جہنم میں جھونک دیا جائے گا کہ یہ ہے جسے تم نہیں مانتے تھے ۔ اب بتاؤ کہ یہ جادو ہے یا تم اندھے ہو؟ جاؤ اب اس میں چلے جاؤ اب تو صبر کرنا نہ کرنا برابر ہے اپنے اعمال کا بدلہ ضرور پاؤ گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٥] عذاب کے وعدہ پر کافروں کا مذاق اور اس کا جواب :۔ کافروں کو دھمکی یہ دی گئی تھی کہ اگر وہ اللہ کی آیات کی تکذیب کریں گے تو انھیں ذلت اور رسوائی نصیب ہوگی اور بالآخر اسلام کا بول بالا ہوگا لیکن کافروں کی سمجھ میں یہ بات آہی نہیں سکتی تھی کہ یہ مٹھی بھر ستم رسیدہ اور بےسروسامان مسلمان کسی وقت ان پر غالب آجائیں گے لہذا وہ از راہ تمسخر مسلمانوں سے پوچھتے تھے کہ بھئی اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو ایسا وعدہ کب پورا ہوگا ؟ ان کے اس تمسخر کا جواب اللہ نے دو طرح سے دیا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تو اپنے بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر صرف اتنا ہی جتنا اللہ کو منظور ہوتا ہے پھر میں تم پر کیا عذاب ڈھا سکتا ہوں ؟ عذاب دینا اللہ کا کام ہے میرا نہیں اور نہ ہی میں نے کوئی ایسا دعویٰ کیا ہے کہ میں تمہیں عذاب میں مبتلا کردوں گا یا فلاں وقت عذاب آئے گا ہاں جب اللہ کی مشیئت ہوگی تو تم پر ایسا عذاب آکے رہے گا اور دوسرا جواب یہ ہے کہ عذاب دینے کے متعلق بھی اللہ کا ایک قانون ہے جو یہ ہے کہ اللہ کسی کے گناہوں پر فوراً گرفت کرکے اس پر عذاب ڈھا کر اسے تباہ نہیں کردیتا بلکہ اس کو سنبھلنے کے لیے مہلت دیئے جاتا ہے پھر جب بار بار کی تنبیہ کے باوجود وہ راہ راست پر نہیں آتا تو اس وقت اس پر عذاب آتا ہے وہ وقت کب ہوتا ہے یہ اللہ ہی جانتا ہے اور جب عذاب کا وقت آجاتا ہے تو پھر اس میں قطعاً تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔ عذاب کا معین وقت بتلا دینا اللہ کے دستور کے خلاف ہے یا جیسا کہ کسی کی موت یا قیامت کا وقت معین بھی بتلانا دستور کے خلاف ہے اس لیے کہ اس طرح یہ دنیا دارالامتحان نہ رہے گی جبکہ اللہ کی مشیئت یہی ہے کہ انسان کے لیے یہ دنیا دارالامتحان اور دارالعمل ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ ۔۔ : جب مخلوق کو دوبارہ زندہ کرنے اور ان کا محاسبہ کرنے کے خلاف کفار کے پاس کوئی دلیل نہ رہ جاتی تو ان کا آخری تیر یہ تھا کہ لاؤ وہ قیامت، وہ عذاب لاتے کیوں نہیں، یہ وعدہ جو تم کرتے ہو کب پورا ہوگا ؟ اس کا جواب تو واضح ہے کہ جب معلوم ہو کہ امتحان ہونا یقینی ہے، پھر آدمی محض اس لیے تیاری نہ کرے یا اس کا انکار کرے کہ اس کی تاریخ بتاؤ، ڈیٹ شیٹ کیا ہے، تو ایسے آدمی کی بےعقلی میں کیا شبہ ہے۔ مگر ان کے اصرار پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ جواب دینے کے لیے کہا جو اگلی آیت میں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ٤٨ متی مَتَى: سؤال عن الوقت . قال تعالی: مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس/ 48] ، ( م ت ی ) متی ۔ یہ اسم استفہام ہے اور کسی کام کا وقت دریافت کرنے کے لئے بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس/ 48] یہ وعدہ کب ( پورا ہوگا ) صدق والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ( ص دق) الصدق ۔ الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٨) اور ہر ایک قوم اپنے اپنے رسولوں سے یوں کہتی ہے کہ اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ عذاب کب پورا ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٨۔ ٤٩۔ مشرک لوگ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ آپ جو بار بار قیامت کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روز تمہیں تمہارے بد اعمالی کی سزا ملے گی یہ عذاب ہوگا وہ عذاب ہوگا تو بتلائے وہ دن کب ہے اور کب ہوگا جلدی سے وہ ایک دن آن کر ہمیں کچھ نقصان کیوں نہیں پہنچ جاتا اس واسطے اللہ نے اس کا جواب اپنے رسول کو بتلایا کہ ان سے کہہ دو کہ میں آپ اپنی جان کا مالک نہیں ہوں نہ کوئی نفع اپنے کو پہنچا سکتا ہوں اور نہ نقصان پھر میں دوسروں کو کیا نفع نقصان پہنچا سکتا ہوں اور اللہ کے علم غیب میں جو میرا نفع یا نقصان ہے جب اس کا حال مجھ کو معلوم نہیں تو قیامت کے آنے کا خاص وقت میں تم لوگوں کو کیوں کر بتلا سکتا ہوں جو ایک خاص غیب کی بات ہے مجھے تو صرف اتنا ہی اختیار ہے کہ جو بات خدا مجھے بتلاتا ہے میں وہ لوگوں کو پہنچا دیتا ہوں جس بات کی وہ مجھے خبر دیتا ہے اس کو بیان کردیتا ہوں ہاں اتنی بات البتہ کہہ سکتا ہوں کہ ایک نہ ایک روز ضرور قیامت ہوگی مگر کب ہوگی اس کا علم مجھے نہیں یہ خدا ہی جانتا ہے اور یہ بھی کہے دیتا ہوں کہ ہر جاندار کے لئے موت ہے اور موت کا ایک دن مقرر ہے جب آجاتی ہے تو گھڑی بھر بھی دیر نہیں لگتی۔ اجل کسی چیز کے وقت مقررہ کو کہتے ہیں صحیح مسلم میں جابر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام دنیا کے ختم ہونے کا وقت مقررہ تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے مگر یہ بات قسم کھا کر میں کہتا ہوں کہ موجودہ لوگوں میں سے سو برس کے اندر کوئی شخص زندہ نہ رہے گا۔ ١ ؎ معتبر سند سے ترمذی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس امت کے اکثر لوگوں کی عمر ساٹھ سے ستر برس تک کی ہوگی۔ ٢ ؎ معتبر سند سے مسند امام احمد میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منکر نکیر کے سوال جواب کے بعد ہر نیک آدمی کو جنت کا ٹھکانا دکھلا کر اللہ کے فرشتے یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس ٹھکانے میں رہنے بسنے کے لئے قیامت کے دن تم لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا جاوے گا۔ ٣ ؎ ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے آیتوں کی یہ تفسیر قرار پاتی ہے کہ دنیا کے ختم ہونے کا وقت مقررہ تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے گھڑی گھڑی اس کا حال جو یہ لوگ پوچھتے ہیں اس کی انہیں کچھ ضرورت نہیں ان کو تو اپنی عمر کے وقت مقررہ کا حال پوچھنا چاہیے جو سو برس کے اندر ہے۔ اس کے بعد یہ سب مرجاویں گے اور قیامت کے دن جو انجام ان کا ہونے والا ہے مرنے کے ساتھ ہی وہ ان کو دکھادیا جاوے گا۔ ١ ؎ مشکوۃ ص۔ ٤٨٠ باب قرب الساعۃ و ان من مات فقد قامت قیامنۃ۔ ٢ ؎ مشکوۃ ص ٤٥٠ باب الامل والحرص۔ ٣ ؎ الترغیب والترھیب ص ٢٨٨ ج ٢ ماجاء فی عذاب القبر و نعیمہ وسوال منکر ونکیر [۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:48) الوعد۔ دھمکی ۔ عذاب کا وعدہ۔ اکثر جگہ روز قیامت مراد ہے۔ اسم ومصدر مرفوع معرف باللام ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ویقولون متٰی ھذا الوعد اور (کفار مکہ) کہتے ہیں کہ یہ (عذاب کا) وعدہ کب (پورا ) ہوگا جس سے تم ہم کو ڈرا رہے ہو۔ ان کنتم صدقین۔ اگر تم لوگ (محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) اور آپ کے ساتھی) سچے ہو تو عذاب موعود کو لے آؤ۔ کفار مکہ نے یہ بات بطور استہزاء کہی تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُاِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) جب بار بار عذاب کی وعید سنتے تھے تو منکرین کہتے تھے کہ عذاب وعید کہاں تک سنیں ‘ کب ہوگا یہ عذاب ؟ ایک مرتبہ آ ہی جائے تو ہم بھی دیکھ لیں کیسا عذاب ہوتا ہے ‘ عذاب آنے میں جو دیر محسوس کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ڈھیل تھی اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے مزید تکذیب میں آگے بڑھ جاتے تھے اور یوں کہتے تھے کہ یہ وعدہ کب ہوگا اگر تم سچے ہو تو اسے پورا کر کے دکھاؤ اور عذاب بھی لے آؤ۔ ان کا یہ قول استفہام انکاری کے طور پر تھا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

65: یہ شکویٰ ہے۔ مشرکین مکہ فرط انکار اور ضد وعناد کی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے کہ جس عذاب یا قیامت سے تو ہمیں ڈراتا ہے وہ کہاں ہے اور کب آئے گا اسے جلدی لاؤ۔ “ یرید کفار مکة لفرط انکارھم واستعجالھم العذاب اي متی العقاب او متی الساعة التی یعدنا محمد ” (قرطبی ج 8 ص 349) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

48 اور دین حق کے منکر یوں کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتائو یہ وعدئہ عذاب کب پورا ہوگا۔