Surat Younus

Surah: 10

Verse: 53

سورة يونس

وَ یَسۡتَنۡۢبِئُوۡنَکَ اَحَقٌّ ہُوَ ؕ ؔ قُلۡ اِیۡ وَ رَبِّیۡۤ اِنَّہٗ لَحَقٌّ ۚ ؕ ؔ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ ﴿۵۳﴾٪  10

And they ask information of you, [O Muhammad], "Is it true?" Say, "Yes, by my Lord. Indeed, it is truth; and you will not cause failure [to Allah ]."

اور وہ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا عذاب واقعی سچ ہے؟ آپ فرما دیجئے کہ ہاں قسم ہے میرے رب کی وہ واقعی سچ ہے اور تم کسی طرح اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Resurrection is Real Allah says; وَيَسْتَنبِيُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ ... And they ask you to inform them (saying): "Is it true!" asking about the return and the Resurrection from the graves, after the bodies become sand. ... قُلْ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ وَمَا أَنتُمْ بِمُعْجِزِينَ Say: "Yes! By my Lord! It is the very truth! And you cannot escape i... t!" meaning that becoming sand does not make Allah incapable of bringing you back, since He originated you from nothing. إِنَّمَأ أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْياً أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ Verily, His command, when He intends a thing, is only that He says to it, `Be!' - and it is! (36:82) There are only two other Ayat in the Qur'an similar to this. Allah commands His Messenger to give an oath by Him to answer those who deny the return. He said in Surah Saba', وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لاَ تَأْتِينَا السَّاعَةُ قُلْ بَلَى وَرَبِّى لَتَأْتِيَنَّكُمْ Those who disbelieve say: "The Hour will not come to us." Say: "Yes, by my Lord!, it will come to you." (34:3) The second is in Surah At-Taghabun, He said: زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَن لَّن يُبْعَثُواْ قُلْ بَلَى وَرَبِّى لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّوُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ The disbelievers claimed that they will never be resurrected. Say: "Yes! By my Lord! you will certainly be resurrected, then you will be informed of (and recompensed for) what you did; and that is easy for Allah." (64:7)   Show more

مٹی ہو نے کے بعد جینا کیسا ہے؟ پوچھتے ہیں کہ کیا مٹی ہو جانے اور سڑ گل جانے کے بعد جی اُٹھنا اور قیامت کا قائم ہونا حق ہی ہے ؟ تو ان کا شبہ مٹا دے اور قسم کھا کر کہہ دے کہ یہ سراسر حق ہی ہے ۔ جس اللہ نے تہیں اس وقت پیدا کیا جب کہ تم کچھ نہ تھے ۔ وہ تمہیں دوبارہ جب کہ تم مٹی ہو جاؤ گے پیدا کرنے پ... ر یقیناً قادر ہے وہ تو جو چاہتا ہے فرما دیتا ہے کہ یوں ہو جا اسی وقت ہو جاتا ہے اسی مضمون کی اور دو آیتیں قرآن کریم میں ہیں ۔ سورہ سبا میں ہے ( قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتَاْتِيَنَّكُم Ǽ۝ڎڎ ) 34- سبأ:3 ) سورہ تغابن میں ہے ( قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُم Ċ۝ ) 64- التغابن:7 ) ان دونوں میں بھی قیامت کے ہونے پر قسم کھا کر یقین دلایا گیا ہے ۔ اس دن تو کفار زمین بھر کر سونا اپنے بدلے میں دے کر بھی چھٹکارا پانا پسند کریں گے ۔ دلوں میں ندامت ہوگی ، عذاب سامنے ہوں گے ، حق کے ساتھ فیصلے ہو رہے ہوں گے ، کسی پر ظلم ہرگز نہ ہوگا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 یعنی وہ پوچھتے ہیں کہ یہ قیامت اور انسانوں کے مٹی ہوجانے کے بعد ان کا دوبارہ جی اٹھا ایک برحق ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے پیغمبر ! ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارا مٹی ہو کر مٹی میں مل جانا، اللہ تعالیٰ کو دوبارہ زندہ کرنے سے عاجز نہیں کرسکتا۔ اس لئے یقینا یہ ہو کر رہے گا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہ... یں کہ اس آیت کی نظیر قرآن میں مذید صرف دو آیتیں ہیں کہ جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ وہ قسم کھا کر قیامت کے وقوع کا اعلان کریں۔ ایک سورة سبا، آیت 13 اور دوسرا سورة تغابن آیت۔ 7۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٨] اس سے مراد ہر وہ چیز لی جاسکتی ہے جس کا مشرکین مکہ انکار کر رہے تھے۔ مثلاً قرآن، عذاب الٰہی کا ان پر واقع ہونا، موت کے بعد دوبارہ زندگی اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزاء و سزا دیا جانا وغیرہ۔ ان کے سوال کا انداز ہی اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ وہ یہ باتیں ماننے کو قطعاً تیار نہ تھے اسی ل... یے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ آپ پورے وثوق کے ساتھ اپنے پروردگار کی قسم کھا کر اور اسے شاہد بنا کر کہہ دو کہ یہ امور ایسے حقائق ہیں جو ہو کر رہنے والے ہیں اور تم نہ انھیں روک سکتے ہو اور نہ ہی اللہ کے قبضہ ئقدرت سے تم فرار کی راہ اختیار کرسکتے ہو۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَكَ اَحَقٌّ ھُوَ ۔۔ : ” نَبَأٌ“ بہت بڑی اہمیت والی خبر کو کہتے ہیں۔ (راغب) ” یَسْتَنْبِءُوْنَ “ ” نَبَأَ “ کے باب استفعال سے طلب کے لیے ہے۔ جب کفار کو ان کے سوال ” مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ “ کا مذکورہ جواب دیا گیا تو انھوں نے اسی سلسلہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دوبارہ سو... ال کیا ” اَحَقٌّ ھُوَ “ کیا یہ سچ ہی ہے، یا محض ہمیں ڈرایا جا رہا ہے ؟ چونکہ کفار اپنے قیامت کے انکار اور قرآن کے اس کے قیام پر واضح دلائل کی وجہ سے سخت قلق اور پریشانی کا شکار تھے کہ اسے مانیں یا نہ مانیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں یقین دلانے کے لیے تاکید کے کئی الفاظ جمع کرکے فرمایا ” قُلْ “ آپ ان سے کہہ دیجیے : (اِيْ وَرَبِّيْٓ اِنَّهٗ لَحَقٌّ)” اِیْ “ کا معنی ” نَعَمْ “ یعنی ہاں ہے، مگر یہ ہمیشہ قسم کے ساتھ آتا ہے، پھر ” اِنَّ “ تاکید کا ہے، پھر لام تاکید ہے کہ ہاں، مجھے اپنے رب کی قسم ہے ! یقیناً یہ ضرور حق ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا، قرآن مجید میں اس جیسی صرف دو اور آیتیں ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے آخرت کے منکروں کو قسم کھا کر کہنے کا حکم دیا، پہلی آیت : (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَاْتِيْنَا السَّاعَةُ ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتَاْتِيَنَّكُمْ ) [ سبا : ٣ ] دوسری آیت : (زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْا ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ ) [ التغابن : ٧ ] وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ : ” باء “ کی وجہ سے نفی کی تاکید کے لیے ترجمہ ” ہرگز “ کیا گیا ہے، یعنی نہ تم ہمارے عذاب سے بھاگ کر کہیں جاسکتے ہو کہ ہمیں پکڑنے سے عاجز کر دو اور نہ کسی طرح اسے روک سکتے ہو۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَكَ اَحَقٌّ ھُوَ۝ ٠ ۭ ؔ قُلْ اِيْ وَرَبِّيْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ۝ ٠ ۚ ۭؔ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ۝ ٥٣ ۧ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کال... تّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عجز عَجُزُ الإنسانِ : مُؤَخَّرُهُ ، وبه شُبِّهَ مُؤَخَّرُ غيرِهِ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] ، والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال تعالی: أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] ، وأَعْجَزْتُ فلاناً وعَجَّزْتُهُ وعَاجَزْتُهُ : جعلته عَاجِزاً. قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] ، وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] ، وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] ، وقرئ : معجزین فَمُعَاجِزِينَ قيل : معناه ظانّين ومقدّرين أنهم يُعْجِزُونَنَا، لأنهم حسبوا أن لا بعث ولا نشور فيكون ثواب و عقاب، وهذا في المعنی کقوله : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] ، و «مُعَجِّزِينَ» : يَنسُبُون إلى العَجْزِ مَن تَبِعَ النبيَّ صلّى اللہ عليه وسلم، وذلک نحو : جهّلته وفسّقته، أي : نسبته إلى ذلك . وقیل معناه : مثبّطين، أي : يثبّطون الناس عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کقوله : الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] ، وَالعَجُوزُ سمّيت لِعَجْزِهَا في كثير من الأمور . قال تعالی: إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] ، وقال : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] . ( ع ج ز ) عجز الانسان عجز الانسان ۔ انسان کا پچھلا حصہ تشبیہ کے طور ہر چیز کے پچھلے حصہ کو عجز کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] جیسے کھجوروں کے کھو کھلے تنے ۔ عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ میں ۔۔۔۔ ۔ اعجزت فلانا وعجزتہ وعاجزتہ کے معنی کسی کو عاجز کردینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] اور جہنوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی کہ ہمیں ہرادیں گے ۔ ایک قرات میں معجزین ہے معاجزین کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے وہ یہ زعم کرتے ہیں کہ ہمیں بےبس کردیں گے کیونکہ وہ یہ گمان کرچکے ہیں کہ حشر ونشر نہیں ہے کہ اعمال پر جذا وسزا مر تب ہو لہذا یہ باعتبار معنی آیت کریمہ : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔ کے مترادف ہوگا اور اگر معجزین پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت کے متبعین کیطرف عجز کی نسبت کرتے ہیں جیسے جھلتہ وفسقتہ کے معنی کسی کی طرف جہالت یا فسق کی نسبت کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک معجزین بمعنی مثبطین ہے یعنی لوگوں کو آنحضرت کی اتباع سے روکتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] جو خدا کی راہ سے روکتے ( ہیں ) اور بڑھیا کو عجوز اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اکثر امور سے عاجز ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] اے ہے میرے بچہ ہوگا اور میں تو بڑھیا ہوں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣) (تعجب سے) آپ سے پوچھتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا یہ عذاب اور قرآن کریم واقعی امر ہے۔ آپ فرمادیجیے کہ قسم ہے میرے رب کی وہ عذاب واقعی امر ہے جو ہونے والا ہے اور تم کسی طریقہ سے عذاب الہی سے بچ نہیں سکتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ (وَیَسْتَنْبِءُوْنَکَ اَحَقٌّ ہُوَ ط) ” اور (اے نبی ! ) جیسے قرآن بار بار اپنے مخالفین سے متجسسانہ انداز میں سوال ) searching questions (کرتا ہے ‘ اسی طرح مشرکین بھی حضور سے searching انداز میں سوال کرتے تھے۔ یہاں ان کا یہ سوال نقل کیا گیا ہے کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں کیا واقعی یہ سچ ہے ؟ کی... ا آپ کو خود بھی اس کا پورا پورا یقین ہے ؟ (قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّط وَمَآاَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ) ان الفاظ میں بہت زیادہ تاکید اور شدت ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٣۔ مشرک لوگ یہ بھی پوچھتے تھے کہ کیا سچ مچ قیامت ہوگی اور اس کے انکار کرنے والوں کو عذاب ہوگا حالانکہ وہ لوگ یہ سوال پہلے بھی کرچکے تھے اور اس کا جواب بھی ان کو دے دیا گیا تھا پھر بار بار پوچھنا اور بھی نادانی کی نشانی ہے نہ اپنی بات سمجھتے ہیں کہ ہم کہہ کیا رہے ہیں نہ دوسرے کی بات سمجھتے ہیں کہ وہ...  کیا جواب دے رہا ہے اس لئے فرمایا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ تم ان لوگوں سے کہہ دو قسم خدا کی قیامت ضرور ہونے والی ہے تم یہ نہ خیال کرو کہ ہم مٹی کے ڈھیر ہو کر پھر قبر سے کیوں کر نکل آئیں گے وہ دوبارہ پیدا کرسکتا ہے جس طرح اس نے پہلے پیدا کیا ہے اس کا ایک فقط کن کا حکم کافی ہے پھر اگر تم بھاگنا بھی چاہو گے تو رستہ نہ ملے گا نہ کوئی حیلہ حوالہ پیش ہو سکے گا بلکہ عذاب ہو کر رہے گا۔ ترمذی اور صحیح ابن حبان میں ابو سعید خدری (رض) سے اور مسند امام احمد وغیرہ میں زید بن ارقم (رض) اور حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے جو روایتیں ہیں ان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسرافیل (علیہ السلام) صور منہ میں لے کر پھونکنے کو تیار اور ہر وقت حکم الٰہی کے منتظر ہیں۔ ترمذی نے اس روایت کو معتبر قرار دیا ہے۔ ١ ؎ یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے کیوں کہ آیت اور حدیث کو ملانے سے یہ مطلب ٹھہرتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تاکید کے طور پر اپنے رسول کو قسم کھا کر قیامت کے وعدہ کا ارشاد فرمایا ہے اسی طرح قیامت کے ظہور کا انتظام بھی ایسا تاکیدی ہے کہ اسرافیل (علیہ السلام) صور منہ میں لے کر پھونکنے کو تیار اور ہر وقت حکم الٰہی کے منتظر ہیں۔ ١ ؎ جامع ترمذی ص ١٩٢ ج ٢ ابواب الدعوات۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:53) یستنبؤنک۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ استنباء (استفعال) مصدر ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ وہ آپ سے خبر پوچھتے ہیں۔ نبأ سے۔ احق ھو۔ میں ھو ضمیر کا مرجع عذاب موعود ہے۔ ای۔ ہاں۔ البتہ۔ حرف جواب ہے بمعنی نعم اور ہمیشہ قسم سے پہلے آتا ہے اور کلام مقدم کی تحقیق اور توثیق کیلئے وضع کیا گیا ہے۔ وربی ای و... اللہ۔ خدا کی قسم ۔ بخدا۔ معجزین۔ اسم فاعل۔ جمع مذکر۔ عاجز بنا دینے والے۔ ہرا دینے والے۔ (منکرین حشر کا خیال تھا کہ قیامت نہیں آئے گی۔ نہ حشر نہ نشر نہ عذاب نہ ثواب۔ لیکن ہوگا یہ سب کچھ۔ ان چیزوں کے لانے سے وہ اللہ کو روک نہیں سکتے۔ اس کو عاجز نہیں بنا سکتے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ جب کفار کو ان کے سوال ” متی ھذا الوعد “ کا مذکورہ جواب دیا گیا تو انہوں نے اسی سلسلہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دوبارہ سوال کیا ” احق ھو “ کہ کیا یہ عذاب برحق ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا : قل ای وربی مطلب یہ ہے کہ عذاب برحق ہے اور تم ہمارے عذاب سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے اور نہ اس ... کو کسی طور روک سکتے ہو۔ (کبیر) ۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ویستنبؤک احق ھو وہ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا وہ (یعنی توحید ‘ نبوت ‘ قرآن ‘ قیامت اور عذاب وثواب) حق ہے (یا بےحقیقت ‘ محض مذاق) ۔ قل اي وربی انہ لحق وما انتم بمعجزین۔ آپ کہہ دیجئے : جی ہاں ‘ اپنے رب کی قسم ! بلاشک و شبہ وہ حق ہے اور تم ہرا نہیں سکتے (یعنی اس کے آنے کو اور اس کی صداقت کو روک نہیں...  سکتے) مطلب یہ کہ تم اس سے چھوٹ نہیں سکتے۔ عَجَزَ عَنِ الشَّیْءِ وہ شخص فلاں چیز سے عاجز ہوگیا ‘ یعنی وہ چیز اس سے فوت ہوگئی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَیَسْتَنْبِءُوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ ) اور وہ آپ سے دریافت کرتے ہیں کیا عذاب واقعی چیز ہے ؟ (قُلْ اِیْ وَرَبِّیْ اِنَّہٗ لَحَقٌّ) آپ فرما دیجئے کہ ہاں میں اپنے رب کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ بلاشبہ حق ہے واقعی ہوجانے والی چیز ہے۔ (وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ) (اور تم عاجز کرنے والے نہیں...  ہو) یعنی جب عذاب آجائے گا تو تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے ‘ یہ نہ سمجھو کہ جب عذاب آئے گا تو ہم بھاگ نکلیں گے اور کہیں پناہ لے لیں گے۔ سارا ملک اللہ ہی کا ہے کہیں بھی فرار ہو کر نہیں جاسکتے۔ سورة عنکبوت میں فرمایا (وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ ) (اور تم آسمان میں اور زمین میں عاجز کرنے والے نہیں ہو اور تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی ولی اور مددگار نہیں ہے جو اس کے عذاب سے بچا دے) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

71: یہ شکویٰ ہے۔ منکرین آپ سے پوچھتے ہیں کہ واقعی عذاب یا قیامت کا آنا حق ہے۔ “ قُلْ اِيْ وَ رَبِّيْ الخ ” یہ جواب شکویٰ ہے میرے پیغمبر آپ ان کے جواب میں فرم ادیں کیوں نہیں مجھے اپنے رب کی قسم وہ حق ہے اور اس کا وقوع ناگزیر ہے اور تم اس کے لانے والے کو عاجز نہیں پاؤ گے اور نہ خود کو اس سے بچا سکو گے... ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

53 اور بڑے تعجب کے ساتھ آپ سے دریافت کرتے ہیں کیا تو جو کچھ کہتا ہے وہ واقعی حق اور سچ کو تھکانے اور عاجز کرنے والے نہیں ہو یعنی عذاب یا قرآن کریم یا اسلام غرض جو باتیں آپ کہتے اور بتاتے ہیں وہ سب امور واقعیہ ہیں یا کسی اور مصلحت سے آپ کہتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی بھاگ کر عاجز نہ کر... سکو گے۔  Show more