Surat Younus

Surah: 10

Verse: 72

سورة يونس

فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَمَا سَاَلۡتُکُمۡ مِّنۡ اَجۡرٍ ؕ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ ۙوَ اُمِرۡتُ اَنۡ اَکُوۡنَ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۷۲﴾

And if you turn away [from my advice] then no payment have I asked of you. My reward is only from Allah , and I have been commanded to be of the Muslims."

پھر بھی اگر تم اعراض ہی کئے جاؤ تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا میرا معاوضہ تو صرف اللہ ہی کے ذمہ ہے اور مجھ کو حکم کیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے رہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَإِن تَوَلَّيْتُمْ ... But if you turn away, if you belie the message and turn away from obedience. ... فَمَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ ... then no reward have I asked of you, I have not asked you anything for my advice. ... إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى اللّهِ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ My reward is only from Allah. And I have been commanded to be of the Muslims. I submit to Islam. Islam is the religion of all of the Prophets from the first to the last. Their laws and their rules may be of different types but the religion is the same. Allah said: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَـجاً To each among you, We have prescribed a law and a clear way. (5:48) Ibn Abbas said: "A way and a Sunnah." Here Nuh is saying: وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ and I have been commanded to be of the Muslims. Allah said about His friend, Ibrahim: إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَـلَمِينَ وَوَصَّى بِهَأ إِبْرَهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَـبَنِىَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ When his Lord said to him, "Submit (be a Muslim)!" He said, "I have submitted myself (as a Muslim) to the Lord of all that exists." And this was enjoined by Ibrahim upon his sons and by Yaqub (saying), "O my sons! Allah has chosen for you the (true) religion, then die not except as Muslims." (2:131-132) Yusuf said: رَبِّ قَدْ اتَيْتَنِى مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِى مِن تَأْوِيلِ الاٌّحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ أَنتَ وَلِىِّ فِى الدُّنُيَا وَالاٌّخِرَةِ تَوَفَّنِى مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِى بِالصَّـلِحِينَ My Lord! You have indeed bestowed on me of the sovereignty, and taught me something of the interpretation of dreams -- the (Only) Creator of the heavens and the earth! You are my Guardian in this world and in the Hereafter. Cause me to die as a Muslim, and join me with the righteous. (12:101) Musa said: يقَوْمِ إِن كُنتُمْ ءامَنْتُمْ بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُواْ إِن كُنْتُم مُّسْلِمِينَ O my people! If you have believed in Allah, then put your trust in Him if you are Muslims. (10:84) The magicians said: رَبَّنَأ أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ Our Lord! pour out on us patience, and cause us to die as Muslims. (7:126) Bilqis said: رَبِّ إِنِّى ظَلَمْتُ نَفْسِى وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَـنَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَـلَمِينَ My Lord! Verily, I have wronged myself, and I submit (I have become Muslim) together with Suleiman to Allah, the Lord of all that exists. (27:44) Allah said: إِنَّأ أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُواْ Verily, We did send down the Tawrah, therein was guidance and light, by which the Prophets, judged for the Jews. (5:44) He also said: وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ ءَامِنُواْ بِى وَبِرَسُولِى قَالُواْ ءَامَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ And when I (Allah) inspired Al-Hawariyyin to believe in Me and My Messenger, they said: "We believe. And bear witness that we are Muslims." (5:111) The last of the Messengers and the leader of mankind said: قُلْ إِنَّ صَلَتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى للَّهِ رَبِّ الْعَـلَمِينَ لااَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ Verily, my Salah, my sacrifice, my living, and my dying are for Allah, the Lord of all that exists. He has no partner. And of this I have been commanded, and I am the first of the Muslims. (6:162-163) meaning, from this Ummah. He said, in an authentic Hadith: نَحْنُ مَعْشَرَ الاَْنِبْيَاءِ أَوْلاَدُ عَلَّتٍ وَدِينُنُا وَاحِد We, the Prophets are brothers with (the same father but) different mothers. Our religion is the same, meaning, `we should worship Allah alone without partners while having different laws.' The Evil Goal and End of Criminals Allah said:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 کہ جس کی وجہ سے تم یہ تہمت لگا سکو کہ دعوائے نبوت سے اس کا مقصد تو مال و دولت کا اکٹھا کرنا ہے۔ 72۔ 2 حضرت نوح (علیہ السلام) کے اس قول سے بھی معلوم ہوا کہ تمام انبیاء کا دین اسلام ہی رہا گو شرائع مختلف اور مناہج متعدد رہے۔ جیسا کہ آیت لکل جعلنا منکم شرعۃ و منہاجا، سے واضح ہے۔ لیکن دین سب کا اسلام تھا۔ ملاحظہ ہو سورة النمل 91 (وَمَنْ جَاۗءَ بالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ ۭ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) سورة بقرہ 131، 132 (اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 131؁ وَوَصّٰى بِهَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوْبُ ۭيٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّيْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ 132؁) سورة یونس 84 (وَقَالَ مُوْسٰى يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ باللّٰهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ 84؀) سورة اعراف 126 (وَمَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰيٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاۗءَتْنَا ۭرَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِيْنَ 126؀ ) سورة نمل 44 (قِيْلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ ۚ فَلَمَّا رَاَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَّكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا ۭ قَالَ اِنَّهٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِيْرَ ڛ قَالَتْ رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 44؀ ) سورة مائدہ 11، 44 (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ 11۝ۧ) (اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَاۗءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44؀) سورة انعام 162، 163 (قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 162؀ۙ لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ 163؁ ) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٥] اسلامی خدمات اور تبلیغ کی اجرت لینا جائز ہے :۔ یعنی اگر تم لوگوں کو میری نصیحت کی باتیں اچھی نہ لگیں تو بھی میں اس کام سے باز نہیں آنے کا بلکہ تمہیں سمجھاتا ہی رہوں گا کیونکہ مجھے اللہ کا یہی حکم ہے میں اس کی طرف سے مامور ہوں اور اسی کے ذمہ میرا اجر ہے میں نہ تمہارا تنخواہ دار ہوں اور نہ تم سے کچھ طمع رکھتا ہوں کہ اگر تمہیں یہ باتیں پسند نہ آئیں تو تم میری تنخواہ روک دو گے یا مجھے کچھ نہ دو گے۔ میں تم سے ایسی کوئی حرص نہیں رکھتا۔ میں تو صرف اللہ کے حکم کا پابند اور اسی کا فرمانبردار ہوں۔ سیدنا نوح کے علاوہ باقی انبیاء کا بھی یہی شیوہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء کو عموماً اس وقت مبعوث کیا جاتا ہے جب کسی قوم کے حالات بگڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ کفر و شرک اور ظلم وعدوان عام ہوتا ہے ان حالات میں مخالفین اگر انبیاء کی بات ہی سن لیں تو بڑی بات ہے اور اجر تو اس کے ذمہ ہوتا ہے جس نے انھیں اس کام پر لگایا ہوا ہے اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگر اسلامی حکومت یا مسلمانوں کا کوئی ادارہ کسی کو تبلیغ کے کام پر مامور کرے تو اس حکومت یا ادارہ سے تنخواہ یا اجرت لینا جائز ہے خواہ یہ تبلیغ کا کام اندرون ملک ہو یا بیرون ملک ؟ دارالاسلام میں ہو یا دارالحرب میں۔ اگر تبلیغ کرنے والا اس تنخواہ کا محتاج نہیں تو بھی اسے لے لینا چاہیے اور آگے صدقہ کردینا چاہیے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے بھی یہی بات ثابت ہے۔ (بخاری، کتاب الاحکام، باب رزق الحاکم مسلم۔ کتاب الزکوۃ۔ باب اباحۃ الاخذ لمن اعطی من غیر مسئلۃ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَاَلْتُكُمْ ۔۔ : یعنی اگر تم میری دعوت ٹھکرانے پر اصرار کرو تو میرا کچھ نقصان نہیں، کیونکہ میں نے تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگی۔ تمہارے نہ ماننے یا بےرخی کرنے سے میرے ثواب اور مزدوری میں کمی نہیں ہوگی، وہ میرے اللہ کے ذمے ہے، جو مجھے کبھی تمہارا محتاج نہیں ہونے دے گا۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (١٣٢) میری طرف سے تمہیں ایمان لانے کی دعوت بھی تمہارے ہی فائدے کے لیے ہے اور مجھے حکم ہے کہ مسلمین (حکم ماننے والوں) سے ہوجاؤں۔ معلوم ہوا کہ تمام انبیاء کا دین اسلام ہی تھا اور وہ سب مسلم تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ۝ ٠ ۭ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي اللہِ۝ ٠ ۙ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝ ٧٢ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٢) پھر بھی اگر تم اس بات پر جس کو میں تمہارے پاس لے کر آیا ہوں ایمان لانے سے اعراض کیے جاؤ تو میں نے تم سے اس تبلیغ ایمان پر کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا کیوں کہ میں تمہیں جو ایمان کی دعوت دے رہا ہوں، اس پر ثواب ومعاوضہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ذمے ہے اور چوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اطاعت کرنے والوں کے ساتھ ان کے دین پر قائم رہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَمَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرٍ ط) یعنی پھر اگر تم اس چیلنج کا سامنا نہ کرسکو اور میرے خلاف آخری اقدام کرنے کا حوصلہ بھی نہ کر پاؤ تو پھر ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچو تو سہی کہ میں پچھلے ساڑے نو سو سال سے تمہیں راہ راست پر لانے کی جو جدوجہد کررہا ہوں اس کے عوض میں نے تم لوگوں سے کوئی معاوضہ ‘ کوئی اُجرت ‘ کوئی تعریف و توصیف ‘ کوئی شاباش ‘ الغرض کچھ بھی طلب نہیں کیا۔ تو کیا میرے اس طرز عمل سے تم لوگوں کو اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ اس میں میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے ؟ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ حضرت نوح کا چیلنج قبول کرکے ان کے خلاف اقدام کرنے سے گریزاں تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر ہم نے انہیں قتل کردیا تو ہم پر کوئی بڑی مصیبت نازل ہوجائے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30: مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے اپنی تبلیغ پر کوئی اجرت وصول کرنی ہوتی تو تمہارے جھٹلانے سے میرا نقصان ہوسکتا تھا کہ میری اجرت ماری جاتی، لیکن مجھے تو کوئی اجرت وصول کرنی ہی نہیں ہے۔ اس لیے تمہارے جھٹلانے سے میرا کوئی ذاتی نقصان نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٢۔ ٧٣۔ اس سے اوپر کی آیت میں بیان ہوچکا ہے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم تھا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ ان کفار عرب کو سنادو کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا یہاں ٹھہرنا اور بت پرستی کی مذمت کا کرنا اگر تمہیں گراں گزرتا ہے تو تم اور تمہارے جھوٹے معبود سب اکٹھے ہو کر جو کچھ میرے ساتھ کرنا چاہو اس کے کر بیٹھنے میں تامل نہ کرو اس آیت میں فرمایا کہ نوح نے اپنی قوم سے یہ بھی کہا کہ تم لوگ اگر کسی خرچ کے بار سے ڈر کر میری نصیحت سے منہ موڑتے ہو تو میں اس کی مزدوری تم سے کچھ نہیں چاہتا اس کا اجر تو خدا ہی دے گا اور مجھ تو یہی حکم ہے کہ میں مسلمان رہوں اور تم کو بھی اسی طرح کی نصیحت کرتا رہوں مگر اس قوم کو ایمان نہ لانا تھا نہ لائی حضرت نوح (علیہ السلام) کو جھٹلائے گئی پھر تو وہ طوفان آیا کہ پہاڑوں سے بھی کہیں اونچا پانی ہوگیا۔ حضرت نوح معہ اسی آدمی چالیس مرد اور چالیس عورتوں کے کشتی میں بیٹھے رہے ان کو خدا نے پناہ میں رکھا باقی سب ڈوب کر ہلاک ہوگئے خدا نے ان کی جگہ ان چالیس آدمیوں کو بسایا جن کی نسل سے اب تک دنیا آباد ہے تفسیر مقاتل میں ہے کہ کشتی سے اترنے کے بعد ان چالیس مرد اور چالیس عورتوں کا موصل کی سرزمین میں ایک گاؤں ہے جس کا نام ثمانین ہے جس کے معنی اسی آدمیوں کے گاؤں کے ہی اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خدا نے فرمایا دیکھو کیا نتیجہ ہوا ان کا جن کو خدا کا خوف تھا وہی بچے اور جھٹلانے والے جان سلامت نہ لے جاسکے۔ مصنف ابن ابی شیبہ مستدرک حاکم تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ چالیس برس کی عمر میں نوح (علیہ السلام) کو نبوت ہوئی اور پھر ساڑھے نو سو برس تک قوم کے لوگوں کو وہ وعظ نصیحت کرتے رہے جب قوم کے لوگ راہ راست پر نہ آئے تو طوفان آیا۔ ١ ؎ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے اس صحت کو مان لیا ہے۔ ٢ ؎ صحیح بخاری مسلم ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پہلے اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو راہ راست پر آنے کے لئے مہلت دیتا ہے اور جب وہ لوگ اس مہلت سے راہ راست پر نہیں آتے تو پھر ان لوگوں پر ایسا عذاب نازل فرماتا ہے جس سے وہ کسی طرح نجات نہیں پاسکتے۔ ان حدیثوں اور آیتوں کو ملا کر آیتوں کی تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کو کافی مہلت دی اور جب وہ لوگ اس مہلت میں راہ راست پر نہ آئے تو ان پر طوفان کا عذاب نازل فرمایا اس طرح اس زمانہ کی عمر کے موافق پہلے مشرکین مکہ کو مہلت دی گئی اور پھر بدر کی لڑائی میں ان کی گرفت فرمائی۔ ١ ؎ دیکھئے تفسیر فتح البیان ص ٤٨٩ ج ٣ و تفسیر ابن کثیر ص ٤٠٧ ج ٣ تفسیر سورة عنکبوت۔ ٢ ؎ مستدرک ص ٥٤٦ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:72) فان۔ بایں ہمہ اگر۔ اگر پھر بھی۔ تولیتم۔ تم پھرتے ہو۔ تم منہ موڑتے ہو۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ تولی سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یعنی میری دعوت بالکل بےلاگ ہے وہی اس کا مجھے ثواب دے گا۔ تمہارے ماننے یا اعراض کرنے سے میرے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ میری طرف سے تمہیں ایمان لانے کی دعوت بھی تمہارے ہی فائدے کے لئے ہے۔ (کبیر۔ شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ غرض نہ تم سے ڈرتا ہوں نہ کچھ خواہش رکھتا ہوں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فان تولیتم فما سالتکم من اجر پھر بھی تم اگر اعراض ہی کئے جاؤ تو (اتنا سمجھ لو کہ) میں تم سے کسی معاوضہ کا طالب نہیں۔ جزاء کو حذف کر کے جزاء کی علت کو اس کے قائم مقام ذکر کیا ہے۔ اصل مطلب (تشریحی) اس طرح ہے کہ اگر تم میرے وعظ و نصیحت سے اب بھی روگردانی کرو گے اور میری بات نہیں مانو گے تو ہلاک ہوجاؤ گے ‘ یا اللہ تم کو عذاب دے گا کیونکہ تمہاری روگردانی کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ قبول حق سے کوئی امر مانع نہیں۔ اس وعظ و تذکیر میں میرا کوئی مقصد نہیں۔ میں اس دعوت کا معاوضہ تم سے نہیں چاہتا کہ تم معاوضہ ادا کرنے سے قاصر ہو اور اسلئے روگردانی کر رہے ہو ‘ یا مجھے (دنیا طلبی کی تہمت سے) متہم کرسکو۔ یا یہ مطلب ہے کہ روگردانی کرو گے تو خود اپنا نقصان کرو گے ‘ میرا کچھ بگاڑ نہ ہوگا۔ میں تم سے معاوضہ کا طلبگار نہیں کہ تمہاری روگردانی سے مجھے معاوضہ نہ ملے۔ تمہارا ہی بگاڑ ہوگا ‘ تم ہی ہدایت سے محروم ہو گے۔ ان اجری الا علی اللہ (اس دعوت و وعظ کا) میرا معاوضہ تو بس اللہ کے ذمہ ہے۔ یعنی تم سے معاوضہ کا کوئی تعلق نہیں۔ تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ ‘ میرے عمل کا ثواب تو اللہ دے گا۔ اس فقرہ سے اشارۃً نکلتا ہے کہ تعلیم قرآن وغیرہ کی اجرت لینی جائز نہیں (تعلیم قرآن و احادیث بھی تبلیغ دین ہے اور تبلیغ دین کی اجرت ان لوگوں سے لینی جن کو تبلیغ کی گئی ہو ‘ بظاہر اس آیت سے ناجائز قرار پاتی ہے) ۔ وامرت ان اکون من المسلمین۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ (ا اللہ کے حکم کی) اطاعت کروں ‘ ایمان لاؤں۔ اعمال میں بھی اتباع حکم الٰہی کروں اور لوگوں کو بھی دعوت دوں اور اس حکم کی تعمیل میں نے کی ہے اور کر رہا ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

93: اگر تم نہیں مانتے ہو تو میرا اس میں کیا نقصان ہے میں تبلیغ توحید پر تم سے کوئی اجرت تو نہیں مانگتا کہ تمہارے نہ ماننے سے مجھے مالی نقصان کا اندیشہ ہو میں تو محض اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے تمہیں تبلیغ کرتا ہوں۔ “ فَکَذَّبُوْہ ” لیکن وہ لوگ تکذیب پر اڑے رہے آخر ہم نے ان کو غرق کردیا اور حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کو طوفان سے بچا لیا۔ اب دیکھ لو نہ ماننے والوں کا انجام کیسا ہوتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

72 پھر اس پر بھی اگر تم روگرانی اور اعراض ہی کرتے رہوتو تم جانتے ہو کہ میں نے تم سے کوئی مزدوری اور معاوضہ تو طلب نہیں کیا میرا معاوضہ تو بس اللہ کے ذمہ ہے اور مجھ کو تو یہ حکم کیا گیا ہے کہ میں اطاعت کرنے والوں اور فرماں برداروں میں رہوں نہ مجھ کو خوف ہے نہ تم سے کوئی طمع اور لالچ ہے مجھ کو تبلیغ کا حکم ہے میں اس کی تعمیل کر رہا ہوں۔