Surat Younus

Surah: 10

Verse: 78

سورة يونس

قَالُوۡۤا اَجِئۡتَنَا لِتَلۡفِتَنَا عَمَّا وَجَدۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا وَ تَکُوۡنَ لَکُمَا الۡکِبۡرِیَآءُ فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَا نَحۡنُ لَکُمَا بِمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۷۸﴾

They said, "Have you come to us to turn us away from that upon which we found our fathers and so that you two may have grandeur in the land? And we are not believers in you."

وہ لوگ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم کو اس طریقہ سے ہٹا دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اور تم دونوں کو دنیا میں بڑائی مل جائے اور ہم تم دونوں کو کبھی نہ مانیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُواْ أَجِيْتَنَا لِتَلْفِتَنَا ... Musa said: "Say you (this) about the truth when it has come to you Is this magic But the magicians will never be successful." They said: "Have you come to us to turn us away... ... عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ابَاءنَا ... from that we found our fathers following (their religion). ... وَتَكُونَ لَكُمَا ... and that you two may have... ... الْكِبْرِيَاء ... greatness, means grandeur and leadership ... فِي الاَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُوْمِنِينَ ...in the land, We are not going to believe you two!"

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 یہ منکرین کی دیگر حجتیں ہیں جو دلائل سے عاجز آکر، پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم ہمارے آباء و اجداد کے راستے سے ہٹانا چاہتے ہو، دوسرے یہ کہ ہمیں جاہ و ریاست حاصل ہے، اسے ہم سے چھین کر خود اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہو اسلیے ہم تو کبھی بھی تم پر ایمان نہ لائیں گے۔ یعنی تنقید آباء پر اصرار اور دنیاوی وجہ کی خواہش نے انھیں ایمان لانے سے روکے رکھا۔ اس کے بعد آگے وہی قصہ ہے کہ فرعون نے ماہر جادوگروں کو بلایا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوں گروں کا مقابلہ ہوا، جیسا کہ سورت اعراف میں گزرا اور سورت طہ میں بھی اس کی کچھ تفصیل آئے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩١] فرعون اور درباریوں کے اس جواب سے بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ خوب جانتے تھے کہ سیدنا موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) جادوگر نہیں ہیں۔ جادوگر کو تو معاشرہ کی ایک حقیر سی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بھلا بڑائی قائم ہوسکتی ہے ؟ اور اگر وہ حقیقت کا اعتراف کرلیتے تو اپنے تمام مناصب سے دستبردار ہونا پڑتا تھا۔ لہذا انہوں نے وہی جواب دیا جو دلیل سے عاجز اور ضدی لوگ دیا کرتے ہیں کہ تم تو ہمیں اپنے آباؤ و اجداد کے دین سے برگشتہ کرنے آئے ہو مگر ہم تمہارے جھانسے میں کبھی نہیں آئیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا۔۔ : فرعون اور اس کے ساتھی اپنے شرکیہ عقائد کی وجہ سے مذہبی برتری بھی جتاتے رہتے تھے اور سرزمین مصر کی حکومت پر قبضے کی وجہ سے تمام وسائل کے مالک بن کر سیاسی طور پر بھی سب سے بڑے بنے ہوئے تھے، اس لیے انھوں نے یہ دو الزام دھر دیے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح کی ہر تحریک، پرانی ہو یا نئی، وقت کے تمام فرعون اس پر یہی الزام رکھتے ہیں کہ ان لوگوں کا مقصد اصلاح نہیں، بلکہ ہماری مذہبی سیادت اور سیاسی برتری کو ختم کرنا اور اپنی حکومت قائم کرنا ہے، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں نے بھی کہا تھا کہ یہ شخص محض تم پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے، فرمایا : (يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ ) [ المؤمنون : ٢٤ ] ” یہ چاہتا ہے کہ تم پر برتری حاصل کرلے۔ “ حالانکہ انبیاء اور مصلحین محض اصلاح کے لیے آتے ہیں، اگر حکمران اسلام قبول کرلیں اور خود ہی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیں تو ان کی حکومت سے تعرض نہیں کیا جاتا۔ مثلاً اس دور میں محمد بن عبد الوہاب (رض) نے ابن سعود کے ذریعے سے توحید و سنت کی دعوت کو پھیلایا، خود حکومت طلب نہیں کی، نہ ان کی اولاد میں سے کسی نے یہ خواہش یا کوشش کی۔ ابن تیمیہ (رض) نے وقت کے حاکموں کو جہاد پر ابھار کر اور ان کا ساتھ دے کر تاتاریوں کو مار بھگایا، خود کوئی عہدہ نہ طلب کیا نہ قبول کیا۔ اس لیے ہرقل نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری حکومت قائم رہے تو اسلام قبول کرلو، مگر وہ بدنصیب نکلے اور ہرقل بھی ان کی بادشاہت کے طمع میں ایمان سے محروم رہا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمان ہونے والے قبائل کے سرداروں کو اور مختلف علاقوں کے مسلمان ہونے والے بادشاہوں، مثلاً ثمامہ بن اثال (رض) وغیرہ کو ان کے عہدوں پر قائم رکھا۔ آخر میں فرعون کے ساتھیوں نے نہایت ڈھٹائی سے کہا کہ ہم تم دونوں کو ہرگز ماننے والے نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا وَتَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاۗءُ فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۭ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِيْنَ۝ ٧٨ لفت يقال : لَفَتَهُ عن کذا : صرفه عنه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا[يونس/ 87] أي : تصرفنا، ( ل ف ت ) لفتہ عن کذا ۔ کسی چیز سے پھیر دینا ۔ قرآن میں ہے : قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا[يونس/ 87] کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ( جس راہ پر ہم اپنے باپ دادا کو پاتے رہے ہیں اس سے ہم کو پھیردو ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ كِبْريَاءُ والْكِبْريَاءُ : الترفع عن الانقیاد، وذلک لا يستحقه غير الله، فقال : وَلَهُ الْكِبْرِياءُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الجاثية/ 37] ولما قلنا روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم يقول عن اللہ تعالی: «الکبریاء ردائي والعظمة إزاري فمن نازعني في واحد منهما قصمته» ، وقال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا عَمَّا وَجَدْنا عَلَيْهِ آباءَنا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِياءُ فِي الْأَرْضِ [يونس/ 87] ، الکبریاء ۔ اطاعت کیشی کے درجہ سے اپنے آپ کو بلند سمجھنے کا نام کبریاء ہے ۔ اور یہ استحقاق صرف ذات باری تعالیٰ کو ہی حاصل ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلَهُ الْكِبْرِياءُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الجاثية/ 37] اور آسمانوں اور زمینوں میں اس کیلئے بڑائی ہے اور اس کا ثبوت اسی حدیث قدسی سے بھی ملتا ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (90) الکبریاء ردائی والعظمۃ ازاری فمن ناز عنی فی واحد منھما قصمتہ کہ کیریاء میری رواء ہے اور عظمت ازار ہے ۔ جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک میں میرے ساتھ مزاحم ہوگا ۔ تو میں اس کی گردن توڑ دالوں گا۔ اور قرآن پاک میں ہے ؛ قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا عَمَّا وَجَدْنا عَلَيْهِ آباءَنا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِياءُ فِي الْأَرْضِ [يونس/ 87] وہ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ جس ( راہ ) پر ہم اپنے باپ دادوں کو پاتے رہیں ہیں اس سے ہم کو پھیر دو اور اس ملک میں تم دونوں ہی کی سرداری ہوجائے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٨۔ ٧٩) ان لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں ان بتوں کی پوجا سے ہٹا دو اور تم دونوں کو سرزمین مصر میں ریاست اور بادشاہت مل جائے، ہم تو تم دونوں کی کبھی تصدیق نہ کریں گے اور فرعون کہنے لگا میرے سامنے تمام ماہر جادوگروں کو حاضر کرو ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَتَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِط وَمَا نَحْنُ لَکُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ ) یعنی تم دونوں (حضرت موسیٰ اور ہارون) یہاں اپنی بادشاہی قائم کرنا چاہتے ہو۔ اس اندیشے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ اہل مصر کو بندگئ رب کی جو دعوت دے رہے تھے اس سے وہ مشرکانہ نظام خطرے میں تھا جس پر فرعون کی بادشاہی ‘ اس کے سرداروں کی سرداری اور مذہبی پیشواؤں کی پیشوائی قائم تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

76.Had the sole demand of Moses and Aaron (peace be on him) been the liberation of the Israelites, Pharaoh and his courtiers would not have suspected that the spread of these Prophets' message would transform the religion of the land and that the supremacy of Pharaoh and his courtiers would be undermined. What made them uneasy was the fact that Prophet Moses (peace be on him) was inviting the people of Egypt to the true faith and that this posed a threat to the whole polytheistic way of life which was the very cornerstone of the predominance of Pharaoh and his chiefs and clergy. (For further details see Towards Understanding the Qur'an, al-A'raf7, n. 44 and al-Mu'min 40, n. 43 -Ed.)

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :76 ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کا اصل مطالبہ رہائی بنی اسرائیل ہوتا تو فرعون اور اس کے درباریوں کو یہ اندیشہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ ان دونوں بزرگوں کی دعوت پھیلنے سے سرزمین مصر کا دین بدل جائے گا اور ملک میں ہمارے بجائے ان کی بڑائی قائم ہو جائے گی ۔ ان کے اس اندیشے کی وجہ تو یہی تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اہل مصر کو بندگی حق کی طرف دعوت دے رہے تھے اور اس سے وہ مشرکانہ نظام خطرے میں تھا جس پر فرعون کی بادشاہی اور اس کے سرداروں کی سرداری اور مذہبی پیشواؤں کی پیشوائی قائم تھی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، حاشیہ نمبر ٦٦ ۔ المومن ، حاشیہ نمبر ٤۳ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ دنیا کے ہر متکبر و ظالم کا ہی قاعدہ ہے کہ جب اسے نصیحت کی جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ نصیحت میری ریاست اور سرداری کو چھیننے کے لئے جارہی ہے۔ اپنے شیطانی نفس پر قیاس کرکے وہ ہر شخص کے بارے میں یہی خیال کرتا ہے کہ اس کا مقصد دنیا کمانا اور اقتدار حاصل کرنا ہے۔ فرعون اور اس کے اہل کاروں نے حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے بارے میں بھی یہی خیال کیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان گفتگو جاری ہے۔ فرعون کے حواری اس کی تائید کرتے ہوئے بات میں اضافہ کرتے ہیں کہ اے موسیٰ اور ہارون کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اپنے باپ دادا کے دین سے پھیر دو اور ملک میں تم بڑے لیڈر بن جاؤ ؟ یاد رکھو ہم ہرگز تمہیں ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حواریوں کی اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرعون نے کہا کہ ان دونوں جادوگروں کا مقصد یہ ہے کہ جادو کے ذریعے تمہیں تمہارے ملک سے نکال دیں اور تمہارا مثالی تہذیب و تمدن ختم کردیں لہٰذا اپنی منصوبہ بندی کرو تاکہ ہم کامیاب رہیں۔ ( طہٰ : ٦٣۔ ٦٤) قرآن مجید اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ابتدا ہی سے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو یہ الزام دیا جاتا رہا ہے کہ یہ جادوگر ہیں۔ (الذاریات : ٧٢) قرآن مجید یہ بھی بتلاتا ہے کہ انبیاء کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں میں ایک رکاوٹ آباء کی تقلید ہوا کرتی تھی۔ یہی بات فرعون کے حواریوں نے کہی۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرعون نے کہا تھا کہ اگر تمہارا عقیدہ اور دعوت صحیح ہے تو پھر ہمارے پہلے لوگوں کا کیا حال ہوگا ؟ اس کا مقصد لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنا تھا۔ کیونکہ انسان خود کتنا برا کیوں نہ ہو۔ وہ اپنے فوت شدہ آباؤ اجداد اور بزرگوں کے نظریات کے حوالے سے کوئی تنقید سننا گوارا نہیں کرتا۔ خواہ کہنے والا اعلیٰ اخلاق، نہایت اخلاص اور خیر خواہی کے جذبے سے ہی کیوں نہ سمجھا رہا ہو۔ تقلیدایسی نازک رگ ہے جو معمولی ارتعاش کو بھی گوارا نہیں کرتی۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو یہ جواب دیا جو آپکی فہم و فراست کا بےمثال نمونہ ہے : (قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتَابٍ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسٰی)[ طٰہٰ : ٥٢] ” ان کا معاملہ میرے رب کو معلوم ہے جو نہ بھولتا ہے اور نہ اس کی نگاہ سے کوئی چیز چھپی ہوئی ہے۔ “ آباء کی اندھی تقلید کا انجام : (وَقَالُوا رَبَّنَآ إِنَّآ أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآءََ نَا فَأَضَلُّوْنَا السَّبِیْلاً ۔ رَبَّنَا اٰتِہِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا )[ الاحزاب : ٦٧۔ ٦٨] ” اور کہیں گے ہمارے رب ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا حکم مانا انہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے بہکا دیا اے رب ان پر دوگنا عذاب کر اور ان پر سخت لعنت فرما۔ “ بڑے لوگوں کا کردار : (وَکَذٰلِکَ مَآ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِی قَرْیَۃٍ مِنْ نَذِیرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوہَا إِنَّا وَجَدْنَا اٰبَاءَ نَا عَلٰی أُمَّۃٍ وَّإِنَّا عَلٰی اٰثَارِہِمْ مُقْتَدُوْنَ ۔ قَالَ أَوَلَوْ جِءْتُکُمْ بِأَہْدٰی مِمَّا وَجَدْتُمْ عَلَیْہِ اٰبَاءَ کُمْ قَالُوْا إِنَّا بِمَآ أُرْسِلْتُمْ بِہِ کَافِرُوْنَ فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ ) [ الزخرف : ٢٣ تا ٢٥] ” اسی طرح ہم نے کسی بستی میں جب بھی کوئی ڈرانے والابھیجا تو اس بستی کے لوگوں نے یہی کہا ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم ان کے نقش قدم کی اقتداء کر رہے ہیں۔ کہا خواہ میں تمہارے پاس اس سے زیادہ صحیح طریقہ لاؤں جس پر تم نے اپنے آباء کو پایا تھا کہنے لگے جو پیغام دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں۔ چناچہ ہم نے ان سے بدلہ لے لیا دیکھ لو جھوٹوں کا انجام کیسا ہوا۔ “ مسائل ١۔ حق کے مقابلہ میں لوگ آباء کی تقلید چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ٢۔ کفار انبیاء کو جادوگر کہا کرتے تھے۔ ٣۔ دنیا دار اپنی جاگیر اور چودھراہٹ کی خاطر ایمان نہیں لاتے۔ تفسیر بالقرآن حق کے مقابلہ میں آباء کی تقلید : ١۔ کفار نے کہا ہم تو اپنے آباؤ اجداد کی پیروی کریں گے۔ (البقرۃ : ١٧٠) ٢۔ کفار نے کہا ہمارے لیے اپنے آباؤ اجداد کا طریقہ ہی کافی ہے۔ (المائدۃ : ١٠٤) ٣۔ کفار نے کہا ہم تو اسی کی تابعداری کریں گے جس پر اپنے آباء کو پایا ہے۔ (لقمان : ٢١) ٤۔ کفار نے کہا ہم نے اپنے آباء کو ایک طریقہ پر پایا ہے ہم انہی کی اقتداء کرتے ہیں۔ (الزخرف : ٢٣) ٥۔ کہیں گے ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا حکم مانا انہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے گمراہ کردیا۔ (الاحزاب : ٦٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا اجئتنا لتلفتنا عما وجدنا علیہ ابآء نا وتکون لکم الکبریاء فی الارض وما نحن لکما بمؤمنین۔ فرعون نے کہا : (موسیٰ ! ) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ جس (مذہب) پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ‘ اس سے ہم کو پھیر دو ( موڑ دو ۔ قتادہ۔ یعنی بت پرستی یا فرعون کی پوجا سے ہم کو پھیرنے کیلئے آئے ہو) اور تم دونوں کی ملک مصر میں حکومت ہوجائے اور ہم تمہاری بات کو سچا نہیں مانیں گے۔ کبریاء سے مراد ہے حکومت اور اقتدار اعلیٰ ۔ بادشاہوں میں غرور دنیوی پیدا ہو ہی جاتا ہے ‘ اسلئے بادشاہت کا نام ہی غرور ہوگیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

97: برسر اقتدار لوگوں کو ہمیشہ اپنا وقار و اقتدار بحال رکھنے کی فکر دامنگیر رہتی ہے اور وہ اپنے ملک میں اٹھنے والی ہر تنظیم کا اسی نقطہ نگاہ سے جائزہ لیتے ہیں کہ یہ تنظیم ان کے اقتدار کے لیے کس قدر مفید یا نقصان رساں ہے فرعون نے بھی محسوس کرلیا کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت توحید قبول کرلی گئی تو اس کی خدائی اور ربوبیت ختم ہوجائیگی۔ بات تحفظ اقتدار کی تھی مگر فرعون اور قوم فرعون نے مذہب کی آڑ میں دعوت توحید کی مخالفت کی اور کہا کیا تو ہمیں ہمارے آباء و اجداد کے دین سے منحرف کرنے آیا ہے اور ہمارے ملک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ “ عَمَّا ”۔ “ مَا ” موصولہ سے مراد دین ہے۔ “ اَلْکِبْرِیَاء ” بڑائی، سرداری اور حکومت۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

78 انہوں نے جواب دیا کہ کیا تو ہمارے پاس اس لئے آیا ہے کہ جس طریقہ پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا ہے اور اپنے بزرگوں کو دیکھا ہے اس طریقہ سے ہم کو ہٹا دے اور تم دونوں بھائیوں کو اس ملک کی ریاست اور سرداری مل جائے اور ہم تم دونوں کو ماننے والے اور ایمان لانے والے نہیں ہیں یعنی جو ہمارے بڑے کرتے رہے ہیں اور جو ان کی دیکھا دیکھی ہم بھی کر رہے ہیں تو اس سے ہم کو برگشتہ کرنا چاہتا ہے اور اس ملک میں انقلاب پیدا کرکے چاہتا ہے کہ تم دونوں کو یہاں کی بڑائی اور سرداری مل جائے اور چونکہ تم ہمارا ملک چھیننا چاہتے ہو اس لئے ہم تم کو ماننے والے نہیں۔