Surat Younus

Surah: 10

Verse: 79

سورة يونس

وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ ائۡتُوۡنِیۡ بِکُلِّ سٰحِرٍ عَلِیۡمٍ ﴿۷۹﴾

And Pharaoh said, "Bring to me every learned magician."

اور فرعون نے کہا میرے پاس تمام ماہر جادوگروں کو حاضر کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Between Musa and the Magicians Allah mentioned the story of the magicians and Musa in Surah Al-A`raf (there is a commentary on it in that Surah), this Surah, Surah Ta Ha, and in Surah Ash-Shu`ara'. Fir`awn, may Allah's curse be upon him, wanted to deceive the people and impress them with the tricks of the magicians in direct opposition to the plain truth that Musa brought. The result was the exact opposite and he therefore didn't attain his goal. The signs of the Lord prevailed in that public festival. وَأُلْقِىَ السَّحَرَةُ سَـجِدِينَ قَالُواْ ءَامَنَّا بِرَبِّ الْعَـلَمِينَ رَبِّ مُوسَى وَهَـرُونَ And the sorcerers fell down prostrate. They said: "We believe in the Lord of all that exists -- the Lord of Musa and Harun." (7:120-122) Fir`awn thought that he would achieve victory through the magicians over the Messenger sent by Allah, the All-Knower of all hidden things. But he failed, lost Paradise and was deserving of the Hellfire.

موسیٰ علیہ السلام بمقابلہ فرعونی ساحرین سورہ اعراف ، سورہ طہ ، سورہ شعراء اور اس سورت میں بھی فرعونی جادو گروں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ بیان فرمایا گیا ہے ۔ ہم نے اس پورے واقعہ کی تفصیل سورہ اعراف کی تفسیر میں لکھ دی ہے ۔ فرعون نے جادو گروں اور شعبدہ بازوں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ۔ اس کے لیے انتظام کئے ۔ قدرت نے بھرے میدان میں اے شکست فاش دی اور خود جادوگر حق کو مان گئے وہ سجدے میں گر کر اللہ اور اس کے دونوں نبیوں پر وہیں ایمان لائے اور اپنے ایمان کا غیر مشتبہ الفاظ میں سب کے سامنے فرعون کی موجودگی میں اعلان کر دیا ۔ اس وقت فرعون کا منہ کالا ہو گیا اور اللہ کے دین کا بول بالا ہوا ۔ اس نے اپنی سپاہ اور جادوگروں کے جمع کرنے کا حکم دیا ۔ یہ آئے ، صفیں باندھ کر کھڑے ہوئے ، فرعون نے ان کی کمر ٹھوکی انعام کے وعدے دیئے ، انہوں نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ بولو اب ہم پہلے اپنا کرتب دکھائیں یا تم پہل کرتے ہو ۔ آپ نے اسی بات کو بہتر سمجھا کہ ان کے دل کی بھڑاس پہلے نکل جائے ۔ لوگ ان کے تماشے اور بال کے ہتھکنڈے پہلے دیکھ لیں ۔ پھر حق آئے اور باطل کا صفایا کر جائے ۔ یہ اچھا اثر ڈالے گا ، اس لیے آپ نے انہیں فرمایا کہ تمہیں جو کچھ کرنا ہے شروع کر دو ۔ انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر کے انہیں ہیبت زدہ کرنے کا زبردست مظاہر کیا ۔ جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں بھی خطرہ پیدا ہوگیا فورا اللہ کی طرف سے وحی اتری کہ خبردار ڈرنا مت ۔ اپنے دائیں ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈال دے ۔ وہ ان کے سو ڈھکوسلے صاف کر دے گی ۔ یہ جادو کے مکر صفت ہے ۔ اس میں اصلیت کہاں انہیں فوج و فلاح کیسے نصیب ہو؟ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام سنبھل گئے اور زور دے کر پیشگوئی کی کہ تم تو یہ سب جادو کے کھلونے بنا لائے ہو دیکھنا اللہ تعالیٰ انہیں بھی درہم برہم کر دے گا ۔ تم فسادیوں کے اعمال دیر پا ہو ہی نہیں سکتے ۔ حضرت لیث بن ابی سلیم فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ان آیتوں میں اللہ کے حکم سے جادو کی شفا ہے ۔ ایک برتن میں پانی لے کر اس پر یہ آیتیں پڑھ کر دم کر دیں جائیں اور جس پر جادو کر دیا گیا ہو اس کے سر پر وہ پانی بہا دیا جائے ( آیت فلما القوا سے کرہ المجرمون ) تک یہ آیتیں اور ( فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١١٨؀ۚ ) 7- الاعراف:118 ) سے چار آیتوں تک اور ( اِنَّمَا صَنَعُوْا كَيْدُ سٰحِرٍ ۭ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ اَتٰى 69؀ ) 20-طه:69 ) ( ابن ابی حاتم )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِيْ ۔۔ : یہ قصہ تفصیل سے سورة اعراف میں گزر چکا ہے اور سورة طٰہٰ اور شعراء میں بھی آ رہا ہے۔ مَا جِئْتُمْ بِهِ ۙ السِّحْرُ : یعنی جادو تو وہ ہے جو تم لائے ہو، نہ کہ وہ جو میں پیش کر رہا ہوں۔ ” المفسدین “ جادوگروں کو مفسد قرار دیا ہے جو ایک مشرک ظالم اور خدائی کے دعوے دار کی حمایت محض دنیا کے لالچ میں کر رہے تھے۔ وَيُحِقُّ اللّٰهُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ : اپنے کلمات (اپنی باتوں) کے ساتھ، یعنی ان وعدوں کے مطابق جو اس نے حق کو غالب کرنے کے متعلق کیے ہیں، حق کو سچا کردیتا ہے۔ یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ چاہے تو اپنے کلمہ ” کُنْ “ کے ساتھ، یعنی اپنے کسی حکم کے ساتھ ظاہری اسباب کے بغیر بھی حق کو سچا کردیتا ہے، یا اپنے کلمات کی برکت سے حق کو سچا کردیتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِيْ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِيْمٍ۝ ٧٩ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:79) ائتونی۔ میرے پاس لاؤ۔ اس میں نون و قایہ ہے اور ی ضمیر واحد متکلم کی۔ ساحر علیہم۔ ماہر جادوگر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان مکالمہ جاری ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت فقط اتنی تھی کہ بنی اسرائیل پر مظالم ڈھانے کی بجائے انہیں آزاد کر دو اور اللہ تعالیٰ کی بغاوت کرنے کی بجائے اس پر سچا ایمان لاکر اس کی غلامی اختیار کرو۔ مگر فرعون نے طاقت کے بل بوتے اور پروپیگنڈہ کے زور پر بات کا رخ موڑ دیا اور اپنے وزیروں اور مشیروں کو حکم صادر کیا۔ کہ پورے ملک سے ماہر جادوگروں کو میرے پاس حاضر کیا جائے۔ جس کی تفصیل سورة طٰہ میں یوں ہے کہ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا ہم بھی تیرے جادو جیسے جادوکا مظاہرہ کریں گے۔ بس ہمارے اور تمہارے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ نہ ہم اس کی مخالفت کریں گے اور نہ تجھے اس کی خلاف ورزی کرنی چاہیے اب لوگوں کے عظیم اجتماع میں صبح کے وقت عید کے دن معرکہ ہوگا (طٰہ : ٥٨۔ ٦٠) یہ معاہدہ ہوجانے کے بعد فرعون نے پورے ملک سے اپنے اہلکاروں کے ذریعے جادوگروں کو اکٹھا کیا۔ جب جادوگر میدان میں اترے تو انہوں نے فرعون سے مطالبہ کر ڈالا اگر ہم موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) پر غالب آگئے تو ہمیں کیا ملے گا۔ فرعون نے کہا تم میرے مقربین میں ہو گے گویا کہ انہیں وزیر اور مشیر بنانے کا وعدہ کیا پھر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ اپنا عصا پھینکتے ہیں یا جو کچھ ہم لائے ہیں وہ میدان میں پھینکیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں تمہیں پہلے موقع دیتا ہوں ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ نہایت ہی افسوس ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والے ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے اور مجھے عطا کیے گئے معجزات کو جادو قراردیتے ہو۔ یاد رکھو اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں عنقریب اللہ کا عذاب آلے گا۔ جھوٹا آدمی بالآخر ناکام اور نامراد ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ مفسدین کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بات اتنے مؤثر اور بارعب انداز میں فرمائی کہ جادوگر سوچنے پر مجبور ہوگئے۔ قریب تھا کہ ان میں موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ کرنے پر اختلاف ہوجاتا۔ مگر انہوں نے اس پر کنٹرول کرلیا بالآخر اس بات پر اتفاق ہوا کہ یہ دونوں بھائی جادو کے ذریعے ہمارے دین کو بدلنا اور ہم کو ملک سے نکالنا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے صف بندی کرتے ہوئے۔ (طہٰ : ٥٨۔ ٦٤) بڑے بڑے رسے اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں اور زبردست جادومنتر کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلک شگاف نعرے لگائے کہ فرعون زندہ باد یقیناً ہم غالب آچکے ہیں۔ ( الشعراء : ٨٣۔ ٤٤) انہوں نے صف بندی کرتے ہوئے بھرپور طور پر جادو کا مظاہرہ کیا۔ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں بڑے بڑے اژدہا بن کر میدان میں بل کھانے لگیں۔ یہ ایسا خوفناک منظر تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے دل میں ڈرگئے۔ جس پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے موسیٰ سے فرمایا ہرگز نہ ڈریں آپ ہی سر بلند اور کامیاب ہوں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے عصا پھینکا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ نگل لیا جو کچھ جادو گروں نے کیا تھا اس کا صفایا کردیا۔ جادوگر کہیں بھی کامیاب نہیں ہوا کرتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی کامیابی دیکھتے ہوئے جادوگر سجدہ ریز ہو کر پکار اٹھے کہ ہم موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ فرعون نے اس پر دھمکی دیتے ہوئے کہا دراصل یہ تمہارا استاد جادوگر ہے۔ میری اجازت کے بغیر تم نے اس پر ایمان لانے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رکھو میں تمہارے مخالف سمت میں ہاتھ پاؤں کاٹ کر تمہیں کھجور کے درختوں پر لٹکاؤں گا۔ تاکہ تمہیں اور دیکھنے والوں کو معلوم ہو کہ ہم کیسی عبرت ناک اور دائمی سزا دیتے ہیں۔ جو جادو گر ایمان لائے انہوں نے کہا ہم کیوں نہ ایمان لاتے جبکہ ہمارے پاس ٹھوس دلائل اور واضح معجزات آچکے ہیں اب تم جو چاہو کرلو ہم ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہیں۔ ہاں یاد رکھنا تمہاری سزائیں اور اذیتیں صرف دنیا کی زندگانی تک ہیں۔ ایمانداروں کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ تمہاری سزائیں صرف ہمارے آخری سانس تک ہیں مرنے کے بعد ہمیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ کیونکہ ہم اپنے رب پر ایمان لے آئے ہیں وہی ہماری خطاؤں کو معاف کرنے والا ہے۔ (طٰہٰ : ٦٤۔ ٧٣) جو کچھ موسیٰ (علیہ السلام) نے مقابلہ سے پہلے فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے فرمان کو سچ کر دکھایا۔ جادوگروں کا جادو جھوٹ اور فریب ثابت ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کامیاب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ حق کو غالب کرتا ہے۔ خواہ یہ بات کفار کے لیے کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو، کفار تو حق کے غلبہ کو ہمیشہ سے ناگوار ہی سمجھتے ہیں۔ مسائل ١۔ دنیا دار مادی وسائل کی بنیاد پر حق والوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ٢۔ حق والے کسی کے وسائل سے مرعوب نہیں ہوتے۔ ٣۔ حق والے ہمیشہ اللہ پر نظر رکھتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بالآخر باطل کو ملیا میٹ کردیتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ فسادیوں کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ حق کو غلبہ عطا فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن فساد کرنے والے لوگ حقیقی کامیابی نہیں پاتے : ١۔ بیشک اللہ فساد کرنے والوں کو کامیابی نہیں دیتا۔ (یونس : ٨١) ٢۔ فساد کرنے والے خسارہ اٹھائیں گے۔ (البقرۃ : ٢٧) ٣۔ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (المائدۃ : ٦٤) ٤۔ اللہ فساد کرنے والوں کے عمل کو درست نہیں کرتا۔ (یونس : ٨١) ٥۔ دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الاعراف : ٨٦) ٦۔ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کے لیے لعنت اور برا گھر ہے۔ (الرعد : ٢٥) ٧۔ زمین میں فساد نہ کرو اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (القصص : ٧٧) ٨۔ وہ زمین میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں، کھیتی اور جانوروں کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں، اللہ فسا دکرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا۔ (البقرۃ : ٢٠٥) ٩۔ زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔ (البقرۃ : ٦٠) ١٠۔ دیکھیں فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (النمل : ١٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

98: آخر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلے کی ٹھان لی اور ملک کے تمام ماہر جادوگروں کو بلانے کے احکام جاری کردئیے۔ “ فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ الخ ” ملک کے نامی گرامی جادوگر جمع ہوگئے جب مقابلے کے لیے آمنے سامنے ہوئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا جو مکر و فریب لائے پیش کرو۔ “ فَلَمَّا اَلْقَوْا الخ ” جب انہوں نے اپنے جادو کی لاٹھیاں اور رسیاں زمین پر ڈال دیں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ تو محض جادو اور مکر و فریب ہے جو ابھی باطل ہوا چاہتا ہے، تم لوگ میرا مقابلہ کر کے دعوت توحید کو روکنا اور شرک کو پھیلنے کا موقع دینا چاہتے ہو جو سراسر فساد فی الارض ہے اور اللہ تعالیٰ فسادیوں کے منصوبوں کو ناکام بناتا ہے۔ “ وَ یُحِقُّ الْحَقَّ ” اور واضح دلائل وبراہین سے توحید کو غالب اور برتر فرماتا ہے۔ اس کے بعد اندماج ہے یعنی پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاتھی پھینکی جو ان کی تمام لاٹھیوں اور رسیوں کو نگل گئی یہ دیکھ کر تمام جادوگر سجدہ ریز ہوگئے۔ الخ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

79 اور فرعون نے حکم دیا کہ ہر ماہر اور ہوشیار جادوگر کو میرے پاس حاضر کرو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو جادو سمجھے اور جادوگروں کو مقابلے کے لئے طلب کیا۔