Surat Younus

Surah: 10

Verse: 9

سورة يونس

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَہۡدِیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِاِیۡمَانِہِمۡ ۚ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ فِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ ﴿۹﴾

Indeed, those who have believed and done righteous deeds - their Lord will guide them because of their faith. Beneath them rivers will flow in the Gardens of Pleasure

یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ان کا رب ان کو ان کے ایمان کے سبب ان کے مقصد تک پہنچا دے گا نعمت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Good Reward is for the People of Faith and Good Deeds Allah says إِنَّ الَّذِينَ امَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمَانِهِمْ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الاَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ Verily, those who believe and do deeds of righteousness, their Lord will guide them through their faith; under them will flow rivers in the Gardens of delight (Paradise). In these two Ayat, Allah promises the happy blessings for those who believed in Allah and His Messengers. And for those that have complied with what they were commanded to follow. The promise is that He will guide them because of their faith, or it may mean through their faith. As to the first interpretation, the meaning is that Allah will guide them on the Day of Resurrection to the straight path until they pass into Paradise because of their faith in this world. The other meaning is that their faith will assist them on the Day of Resurrection as Mujahid said: يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمَانِهِمْ (Their Lord will guide them through their faith), meaning "Their faith will be a light in which they will walk." Allah says

خوش انجام خوش نصیب لوگ نیک بختوں کا حال بیان ہو رہا ہے جو اللہ پر ایمان لائے رسولوں کو مانا ، فرمانبرداری کی نیکیوں پر چلتے رہے ، انہیں ان کے ایمان کی وجہ سے راہ مل جائے گی ۔ پل صراط سے پار ہو جائیں گے ۔ جنت میں پہنچ جائیں گے ، نور مل جائے گا ۔ جس کی روشنی میں چلیں پھریں گے ۔ پس ممکن ہے کہ ( آیت بایمانھم ) میں با سببیت کی ہو ۔ اور ممکن ہے کہ استعانت کی ہو ۔ ان کے اعمال اچھی بھلی صورت اور عطر و خوشبو بن کر ان کے پاس ان کی قبر میں آئیں گے اور انہیں خوشخبری دیں گے یہ پوچھیں گے کہ تم کون ہو؟ وہ جواب دیں گے تمہارے نیک اعمال ۔ پس یہ اپنے ان نورانی عمل کی روشنی میں جنت میں پہنچ جائیں گے اور کافروں کا عمل نہایت بد صورت ، بد بو دار ہو کر اس پر چمٹ جائے گا اور اسے دھکے دے کر جہنم میں لے جائے گا ۔ یہ جو چیز کھانا چاہیں گے اسی وقت فرشتے اس تیار کرکے لائیں گے ۔ انہیں سلام کہیں گے جو جواب دیں گے اور کھائیں گے ۔ کھا کر اپنے رب کی حمد بیان کریں گے ۔ ان کے صرف سبحانک اللھم کہتے ہی دس ہزار خادم اپنے ہاتھوں میں سونے کے کٹوروں میں کھانا لے کر حاضر ہو جائیں گے اور یہ سب میں سے کھائے گا ۔ ان کا آپس میں بھی تحفہ سلام ہوگا ۔ وہاں کوئی لغو بات کانوں میں نہ پڑے گی ۔ درو دیوار سے سلامتی کی آوازیں آتی رہیں گے ۔ رب رحیم کی طرف سے بھی سلامتی کا قول ہوگا ۔ فرشتے بھی ہر ایک دروازے سے آکر سلام کریں گے ۔ آخری قول ان کا اللہ کی ثناء ہوگا ۔ وہ معبود برحق ہے اول آخر حمد و تعریف کے سزاوار ہے ۔ اسی لیے اس نے اپنی حمد بیان فرمائی مخلوق کی پیدائش کے شروع میں ، اس کی بقاء میں ، اپنی کتاب کے شروع میں ، اور اس کے نازل فرمانے کے شروع میں ۔ اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں ایک نہیں کئی ایک ہیں جیسے ( اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا Ǻ۝ڸ ) 18- الكهف:1 ) وغیرہ ۔ وہی اول آخر دنیا عقبیٰ میں لائق حمد و ثناء ہے ہر حال میں اس کی حمد ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ اہل جنت سے تسبیح و حمد اس طرح ادا ہوگی جیسے سانس چلتا رہتا ہے ۔ یہ اس لیے کہ ہر وقت نعمتیں راحتیں آرام اور آسائش بڑھتا ہوا دیکھیں گے پس لا محالہ حمد ادا ہوگی ۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ اس کے سوا کوئی پالنہار ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 اس کے ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ دنیا میں ایمان کے سبب قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ان کے لئے پل صراط سے گزرنا آسان فرما دے گا، بعض کے نزدیک یہ مدد مانگنے کے لئے ہے اور معنی یہ ہونگے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ان کے لئے ایک نور مہیا فرمائے گا جس کی روشنی میں وہ چلیں گے، جیسا کہ سورة حدید میں اس کا ذکر آتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] البتہ جن لوگوں نے اپنی خداداد عقل کو ٹھیک طرح استعمال کیا اس کی آیات میں غورو فکر کرکے اس کی معرفت حاصل کی۔ خالق کائنات اس کے بےپناہ اقتدار اور روز آخرت کا یقین کیا اور آخرت میں جوابدہی سے ڈرتے اور اللہ کے احکام کے مطابق نیک اعمال کرتے رہے انہیں ان کے اعمال کا بدلہ جنت کی صورت میں ملے گا جس کی نعمتیں لاتعداد، بےحساب اور لازوال ہوں گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَهْدِيْهِمْ رَبُّھُمْ بِاِيْمَانِهِمْ : یعنی ایمان اور عمل صالح والوں کو ان کے ایمان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دنیا میں صراط مستقیم کی ہدایت، یعنی سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرماتا ہے، یا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ایمان لانے کی وجہ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی رہنمائی ہوگی، حتیٰ کہ وہ (پل) صراط سے گزر کر سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ ان دونوں معنوں میں باء سببیت کے لیے ہے، یہ باء استعانت کے لیے بھی ہوسکتی ہے، جیسا کہ سورة حدید ( ١٢، ١٣) میں فرمایا کہ ایمان والے مردوں اور عورتوں کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں طرف دوڑ رہا ہوگا، جب کہ منافق مرد اور عورتیں ان سے درخواست کریں گے کہ ہمیں بھی اپنے نور سے فائدہ اٹھا کر ساتھ چلنے کا موقع دو ۔ گویا مومن اپنے نور ایمان کی مدد سے چلتے ہوئے جنت میں پہنچ جائیں گے، جب کہ منافق اندھیرے میں رہ جائیں گے۔ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ : جنت کی نہروں کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة محمد (١٥) ۔ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ : ان نعمتوں کی تفصیل بیان میں نہیں آسکتی، فرمایا : (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ) [ السجدۃ : ١٧ ] ” پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ : أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب صفۃ الجنۃ : ٤؍٢٨٢٤، عن أبی ہریرہ (رض) ]” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل پر اس کا خیال ہی گزرا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mentioned in the third verse (9) are those fortunate people who pondered over the signs of the most exalted Allah. Thereby, they rec¬ognized Him, believed in Him and, by acting in accordance with the dictates of their faith, became duty-bound to say and do what was good and right (al-a` mal as-salihah: good deeds). The good return and reward made due by the Holy Qur&an for these wonderful people has been mentioned in a particular manner. It was said: يَهْدِيهِمْ رَ‌بُّهُم بِإِيمَانِهِمْ (their Lord will guide them by virtue of their belief), that is, ` take them to their destination, the Jannah [ Paradise ], where rivers shall be flowing in the Gardens of Bliss.& The well known meaning of the word: ھِدَیَہ (hidayah) used here is to tell or show the way. Then, on occasions, it is also used in the sense of taking someone all the way to the desired destination. At this place, this is the meaning intended. As for the desired destination, it means Jannah that stands clarified by the words appearing later. It will be recalled that the punishment of the first group was the outcome of their own misdeeds. Here, similar to that, it was said about the reward of the second group (of believers), that they have been blessed with this reward by virtue of their belief. And since, belief has been bracketed with good deeds earlier, therefore, &Iman or belief men¬tioned at this place will mean belief that is supported by good deeds (al-a` mal as-salilhah). The return for belief and good deeds is Jannah, the place of unimaginable and unparalleled bliss.

تیسری آیت میں ان خوش نصیب انسانوں کا ذکر ہے جنہوں نے اللہ جل شانہ کی آیات قدرت میں غور کیا اور اس کو پہچانا، اس پر ایمان لائے اور ایمان کے مقتضی پر عمل کرکے اعمال صالحہ کے پابند ہوگئے۔ قرآن کریم نے ان حضرات کے لئے دنیا و آخرت میں جو اچھا صلہ اور جزاء مقرر فرمائی ہے اس کا ذکر اس طرح فرمایا ہے : (آیت) اُولٰۗىِٕكَ يَهْدِيْهِمْ رَبُّھُمْ بِاِيْمَانِهِمْ ، یعنی ان کا رب ان کو ایمان کی وجہ سے منزل مقصود یعنی جنت دکھلائے گا، جس میں چین و آرام کے باغوں میں نہریں بہتی ہوں گی۔ اس میں لفظ ہدایت آیا ہے جس کے مشہور معنٰی راستہ بتلانے اور دکھلانے کے ہیں، اور کبھی منزل مقصود تک پہنچا دینے کے معنٰی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اس مقام پر یہی معنٰی مراد ہیں اور منزل مقصود سے مراد جنت ہے جس کی وضاحت بعد کے الفاظ میں ہوگئی ہے، جس طرح پہلے طبقہ کی سزا ان کے اپنے کرتوت کا نتیجہ تھی اسی طرح اس دوسرے مومن طبقہ کی جزاء کے بارے میں فرمایا کہ یہ بہترین جزاء ان کو ان کے ایمان کی وجہ سے ملی ہے اور چونکہ اوپر ایمان کے ساتھ عمل صالحہ بھی ہوں، ایمان اور عمل صالح کا بدلہ بےنظیر راحتوں اور نعمتوں کا مقام جنت ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَہْدِيْہِمْ رَبُّھُمْ بِـاِيْمَانِہِمْ۝ ٠ ۚ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝ ٩ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ جَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩) اور یقیناً جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور انھوں نے اطاعت خداوندی کی تو بوجہ ان کے مومن ہونے کے ان کا پروردگار ان کو جنت میں بھیجے گا جس کے محلات اور درختوں کے نیچے سے دودھ، شہد، پانی اور شراب کی نہریں بہتی ہوں گی ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13. This Qur'anic statement calls for serious reflection. The sequence of ideas presented here is also quite significant because answers have been systematically provided to a number of highly relevant basic questions. Let us look at these answers in their sequence. Why will the righteous enter Paradise? The answer is: because they have followed the straight way in their worldly life. That is, in all matters and in every walk of life, in all affairs relating to the personal or collective life they have been righteous and have abstained from false ways. This gives rise to another question: how were the righteous able to obtain a criterion that would enable them to distinguish, at every turn and crossroad of life, between right and wrong, between good and evil, between fair and unfair? And how did they come to have the strength to adhere to what is right and avoid what is wrong? All this, of course, came from their Lord Who bestowed upon them both the guidance which they needed to know the right way and the succour required to follow it. In answer to why their Lord bestowed upon them this guidance and succour, we are reminded that all this was in consideration for their faith. It is also made clear that this reward is not in lieu of merely a verbal profession to faith, a profession that is no more than a formal acceptance of certain propositions. Rather, the reward is in consideration for a faith that became the moving spirit of a believer's character and personality, the force that led him lo righteous deeds and conduct. We can observe in our own physical lives that a person's survival, state of health, level of energy, and joy of living all depend upon sustenance from the right kind of food. This food, once digested, provides blood to the veins and arteries, provides energy to the whole body and enables the different limbs to function properly. The same holds true of man's success in the moral domain. It is sound beliefs which ensure that he will have the correct outlook, sound orientation and right behaviour that will ultimately lead to his success. Such results, however, do not ensue from that kind of believing which either consists of a mere profession to faith, or is confined to some obscure corner of man's head or heart. The wholesome results mentioned above can only be produced by a faith which deeply permeates man's entire being, shaping his mental outlook, even becoming his instinct; a faith which is fully reflected in his character, conduct and outlook on life. We have just noted the importance of food. We know that the person who, in spite of eating remains like one who has not partaken of any food, would not be able to enjoy the healthy results that are the lot of the person who has fully assimilated what he ate. How can it be conceived that it would be different in the moral domain of human life? How can it be that he who remains, even after believing, like the one who does not believe, will derive the benefit and receive the reward meant for those whose believing leads to righteous living?

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :13 اس جملے پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے ۔ اس کے مضمون کی ترتیب گہری توجہ کی مستحق ہے: ان لوگوں کو آخرت کی زندگی میں جنت کیوں ملے گی؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے کہ وہ دنیا کی زندگی میں سیدھی راہ چلے ۔ ہر کام میں ، ہر شعبہ زندگی میں ، ہر انفرادی و اجتماعی معاملے میں انہوں نے برحق طریقہ اختیار کیا اور باطل طریقوں کو چھوڑ دیا ۔ یہ ہر ہر قدم پر زندگی کے ہر موڑ اور ہر دو راہے پر ، ان کو صحیح اور غلط ، حق اور باطل ، راست اور ناراست کی تمیز کیسے حاصل ہوئی؟ اور پھر اس تمیز کے مطابق راست روی پر ثبات اور کج روی سے پرہیز کی طاقت انہیں کہاں سے ملی؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے رب کی طرف سے ، کیونکہ وہی علمی رہنمائی اور عملی توفیق کا منبع ہے ۔ ان کا رب انہیں یہ ہدایت اور یہ توفیق کیوں دیتا رہا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے ایمان کی وجہ سے ۔ یہ نتائج جو اوپر بیان ہوئے ہیں کس ایمان کے نتائج ہیں؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس پر ایمان کے نہیں جو محض مان لینے کے معنی میں ہو ، بلکہ اس ایمان کے جو سیرت و کردار کی روح بن جائے اور جس کی طاقت سے اخلاق و اعمال میں صلاح کا ظہور ہونے لگے ۔ اپنی جسمانی زندگی میں آپ خود دیکھتے ہیں کہ بقائے حیات ، تندرستی ، قوت کار ، اور لذت زندگانی کا حصول صحیح قسم کی غذا پر موقوف ہوتا ہے ۔ لیکن یہ نتائج اس تغذیہ کہ نہیں ہوتے جو محض کھا لینے کے معنی میں ہو ، بلکہ اس تغذیے کے ہوتے ہیں جو ہضم ہو کر خون بنے اور رگ رگ میں پہنچ کر ہر حصہ جسم کو وہ طاقت بخشے جس سے وہ اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک کرنے لگے ۔ بالکل اسی طرح اخلاقی زندگی میں بھی ہدایت یابی ، راست بینی ، راست روی اور بالآخر فلاح و کامیابی کا حصول صحیح عقائد پر موقو ف ہے ، مگر یہ نتائج ان عقائد کے نہیں جو محض زبان پر جاری ہوں یا دل و دماغ کے کسی گوشے میں بےکار پڑے ہوئے ہوں ، بلکہ ان عقائد کے ہیں جو نفس کے اندر جذب و پیوست ہو کر انداز فکر اور مذاق طبع اور افتاد مزاج بن جائیں ، اور سیرت و کردار اور رویہ زندگی میں نمایاں ہوں ۔ خدا کے قانون طبیعی میں وہ شخص جا کے کھا کر نہ کھانے والے کی طرح رہے ، ان انعامات کا مستحق نہیں ہوتا جو کھا کر ہضم کرنے والے کے لیے رکھے گئے ہیں ۔ پھر کیوں توقع کی جائے کہ اس کے قانون اخلاقی میں وہ شخص جو مان کر نہ ماننے والے کی طرح رہے ان انعامات کا مستحق ہو سکتا ہے جو مان کر صالح بننے والے کے لیے رکھے گئے ہیں؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:9) جنت النعیم۔ موصوف وصفت۔ نعمت و راحت۔ عیش و آرام کے باغات۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2۔ بدبخت اور شقی لوگوں کہ حالت بیان کرنے کے بعد اب نیک بخت اور سعید لوگوں کی حالت بیان فرمائی (کبیر) مطلب یہ ہے دنیا میں ایمان لانے کی وجہ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی رہنمائی ہوگی حتیٰ کہ وہ پل صراط سے گزر کر سیدھے جنت میں پہنچ جائینگے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بایمانھم میں ” با “ استعانت کے لئے ہو جیسا کہ حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ قیامت کے دن ان کے سامنے نور ہوگا کی مدد سے وہ چلیں گے۔ قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومن جب اپنی قبر سے نکلے گا تو اس کا عمل ایک نہایت حسین اور خوشبودار صورت میں اس کے سامنے آئے گا۔ وہ اسے دیکھ کر کہے گا ” تم کیا چیز ہو، اللہ کی قسمیں تو تمہیں سراسر ایک سچا آدمی دیکھ رہا ہوں۔ “ وہ کہے گا میں تمہارا عمل ہوں “۔ پھر وہ اس کی نور اور جنت تک رہنمائی کرے گا۔ اس کے برعکس جب کافر اپنے قبر سے نکلے گا تو اس کا عمل ایک نہایت مکروہ اور بدبو دار صورت میں اس کے سامنے آئے گا وہ اس سے کہے گا تم کیا چیز ہو ؟ میں تو تمہیں سراسر ایک برا آدمی دیکھ رہا ہوں۔ “ وہ کہے گا : میں تمہارا عمل ہوں پھر وہ اسے لے کر جہنم میں جا پھینکے گا۔ (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کی چیخ و پکار اور ان کا انجام بیان کرنے کے بعد جنتیوں کا صلہ اور جنت میں ان کے اخلاق اور کلام کا ذکر ہوتا ہے۔ جنتی جنت میں اپنے تصوّرات سے کروڑ ہا گنا بیش بہا نعمتیں پا کر پکار اٹھیں گے کہ اے اللہ تو پاک ہے۔ ہم تو اس قابل نہ تھے کہ یہ مقام اور انعام پاتے۔ ہماری حقیر سی محنت کے بدلے جو کچھ آپ نے ہمیں عطا فرمایا ہے اس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ بعض اہل علم نے یہ بھی لکھا ہے کہ جنتی کسی چیز کی خواہش کریں گے تو مانگنے کی بجائے لفظ سبحان استعمال کریں گے اور ان کی خواہش کے مطابق وہ چیز ان کی خدمت میں پیش کردی جائے گی۔ (واللہ اعلم) جنتی جب آپس میں ملاقات کریں گے تو ایک دوسرے کو سلام اور مبارک پیش کریں گے۔ اکل وشرب اور مجلس برخاست کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی حمدو ستائش کے ترانے گائیں گے گویا کہ ہر طرف اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کی فضا ہوگی۔ یہاں تک کہ دنیا میں آپس میں سلام کہنے کے آداب ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو حکم دیا کہ دیکھو وہ ملائکہ کی جماعت بیٹھی ہوئی ہے ان کے پاس جاؤ، وہ تمہیں جو کلمات کہیں گے وہ تیری اولاد کے آپس میں ملنے کے آداب ہوں گے۔ جب آدم (علیہ السلام) ملائکہ کے پاس گئے تو انہوں نے ان کو سلام علیکم کہا۔ ملائکہ نے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کے الفاظ کہے۔ اسی وقت سے ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت یہ کلمات اور آداب مقرر کردئیے گئے ہیں، جس بنا پر جنتی ایک دوسرے کو سلام کہیں گے۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَلَقَ اللّٰہُ اٰدَمَ عَلَیٰ صُوْرَتِہٖ طُوْلُہٗ سِتُّوْنَ ذِرَاعاً فَلَمَّا خَلَقَہٗ قَالَ اذْھَبْ فَسَلِّمْ عَلٰی اُوْلٰٓءِکَ النَّفَرِ وَھُمْ نَفَرٌ مِّنَ الْمَلآ ءِکَۃِ جُلُوْسٌ فَاسْتَمِعْ مَایُحَیُّوْنَکَ فَاِنَّھاَ تَحِیَّتُکَ وَتَحِیَّۃُ ذُرِّیَّتِکَ فَذَھَبَ فَقَالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ فَقَالُوْا اَلسَّلَاَمُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ قَالَ : فَزَادُوْہُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ قَالَ فَکُلُّ مَنْ یَّدْخُلُ الجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ اٰدَمَ وَطُوْلُہٗ سِتُّوْنَ ذِرَاعاً فَلَمْ یَزَلِ الْخَلْقُ یَنْقُصُ بَعْدَہٗ حَتَّی اَلْآنَ )[ رواہ البخاری : باب بدء السلام ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنی صورت پر تخلیق فرمایا۔ ان کا قد ساٹھ (٦٠) ہاتھ لمبا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ ان کی تخلیق سے فارغ ہوا تو حکم فرمایا : آدم اس جماعت کے پاس جاکر سلام کہو۔ وہ فرشتوں کی مجلس ہے۔ جو وہ جواب دیں اسے سنو، وہی جواب تیرا اور تیری اولاد کا ہوگا۔ جب حضرت آدم نے جاکرالسلام علیکم کہا تو انہوں نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ سے جواب دیا۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ فرشتوں نے ورحمۃ اللہ کا اضافہ کیا۔ آپ فرماتے ہیں : جنت میں داخل ہونے والا ہر شخص آدم (علیہ السلام) کی شکل و صورت پر ہوگا اور ہر جنتی کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا ہوگا۔ لیکن حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد انسانی قد میں مسلسل کمی ہوتی رہی یہاں تک کہ انسان کا قد اتنا رہ گیا۔ “ اس گھڑی سے لے کرملاقات کا یہی طریقہ انسان کے لیے پسند کیا گیا۔ اس لیے ہمیں ادھر ادھر کے الفاظ استعمال کرنے کی بجائے فطری اور طبعی طریقے کو اختیار کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس میں اس قدرجامعیت ہے کہ ملنے والے ایک دوسرے کیلئے ہر لحاظ سے خیرسگالی کے جذبات اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی مذہب اور سوسائٹی میں ملاقات کے وقت اسقدر سلامتی کے جامع الفاظ نہیں پائے جاتے۔ ان کے انداز میں وقتی اور جزوی خیرخواہی کا اظہار ہوتا ہے۔ جیسے :Good Morning ، Goodevening، صباح الخیر، شب الخیروغیرہ۔ (عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ قُلْتُ لأَنَسٍ أَکَانَتِ الْمُصَافَحَۃُ فِی أَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَعَمْ ) [ رواہ البخاری : باب المصافحۃ ] ” حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ کیا آپ کے صحابہ (رض) آپس میں مصافحہ کرتے تھے۔ انہوں نے کہا ہاں۔ “ ( اِذَا الْتَقٰی اَلْمُسْلِمَانِ فَتَصَافَحَا وَحَمِدَا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَاہُ غُفِرَلَھُمَا) [ رواہ ابو داؤد : باب المصافحۃ و المعانقۃ ] ” جب دو مسلمانوں کی باہم ملاقات ہو اور وہ مصافحہ کریں اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اپنے لیے مغفرت طلب کریں تو ان کی مغفرت ہو ہی جائے گی۔ “ کچھ عرصہ اور مدت کے بعد ملنے پر بغل گیر ہونا اسلامی معا شرت کا حصہ قرارپایا۔ حضرت ابوذر غفاری (رض) اپنا واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنے ہاں آنے کا پیغام بھیجا۔ میں اس وقت گھر میں موجود نہیں تھا بعد ازاں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ مصافحہ کرتے ہوئے میرے ساتھ بغلگیر ہوئے : ( فَاَتَیْتُہٗ وَھُوَعَلَی سَرِیْرٍ فَالْتَزَمَنِیْ فَکَانَتْ تِلْکَ اَجْوَدَ وَالْجُوْدَ ) [ رواہ ابو داؤد : باب المصافحۃ و المعانقۃ ] ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے معانقہ فرمایا اور آپ کا یہ اندازنہایت ہی شفقت سے لبریز تھا۔ “ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) أَنَّ رَجُلاً جَاءَ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمَْ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَشْرٌ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عِشْرُونَ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلاَثُونَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الاستئذان، باب ماذکر فی فضل السلام ] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اس نے کہا السلام علیکم، آپ نے فرمایا اس کے لیے دس نیکیاں ہیں، پھر ایک اور آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ نے فرمایا بیس نیکیاں ہیں پھر ایک اور آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے فرمایا تیس نیکیاں ہیں۔ “ مسائل ١۔ ایمان دار عمل صالح کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ رہنمائی کرتا ہے۔ ٢۔ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ جنت النعیم عطا فرمائے گا۔ ٣۔ جنتی جنت میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کریں گے۔ ٤۔ جنت میں مومن باہم ملاقات کے وقت اول و آخر اللہ کی تعریف کریں گے۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں کا جنت میں ایک دوسرے سے ملاقات کا طریقہ : ١۔ جنتی جنت میں باہم ملاقات کے وقت اللہ کی تسبیح بیان کریں گے اور سلام کہیں گے۔ (یونس : ١٠) ٢۔ جنتیوں کا ایک دوسرے کو تحفہ سلام ہوگا۔ (الاحزاب : ٤٤) ٣۔ جنتیوں کو بالاخانے ملیں گے اور وہ آپس میں ملتے وقت دعا وسلام کریں گے۔ (الفرقان : ٧٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان الذین امنوا وعملوا الصلحٰت یدیھم ربھم بایمانھم ناقابل شک ہے یہ بات کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ‘ ان کے ایمان کی وجہ سے ان کا رب ان کو (جنت میں پہنچانے والے راستہ کی) ہدایت کرے گا۔ مجاہد نے کہا : پل صراط پر ان کو جنت تک پہنچانے والا راستہ بتا دے گا۔ ان کیلئے نور کر دے گا جس کی راہنمائی میں وہ (جنت تک) جائیں گے۔ بعض نے کہا : ہدایت سے مراد یہ ہے کہ ایمان کی وجہ سے اللہ ان کو حقائق دین سمجھنے کا راستہ بتا دے گا۔ حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : جس نے جانی چیز پر عمل کیا ‘ اللہ اس کو انجانی چیز کا علم عطا فرما دے گا۔ رواہ ابونعیم فی الحیلۃ۔ بعض نے کہا : یھدیھم کا یہ معنی ہے کہ اللہ ان کو ثواب اور جزا دے گا یا جنت کے اندر ان کے مقاصد ان کو پہنچا دے گا۔ بیضاوی نے لکھا ہے : ترتیب کلام کا مفہوم اگرچہ بتا رہا ہے کہ ہدایت کا سبب ایمان اور عمل صالح (کا مجموعہ) ہے لیکن تنہا بایمانھم کا صریحی لفظ بتا رہا ہے کہ ہدایت کا مستقل سبب ایمان ہے ‘ عمل صالح تو اس کا تکملہ اور تتمہ ہے۔ تجری من تحتھم الانھٰر ان کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔ نیچے سے مراد ہے سامنے ‘ جیسا آیت قَدْ جَعَلَ رَبُّکَ تَحْتَکِ سَرِیًّا میں تحت سے مراد سامنے ہے ‘ کیونکہ حضرت مریم کا نہر کے اوپر بیٹھنا اس آیت کا مقصود نہیں ہے بلکہ نہر کا سامنے ہونا مراد ہے۔ فی جنت النعیم۔ چین کے باغوں میں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17: اس پر بظاہر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ جب وہ ایمان بھی لے آئے اور نیک کام بھی کرنے لگے تو ہدایت یافتہ تو وہ ہوئے پھر “ یَھْدِیْھِمْ ” کا کیا مطلب ؟ اس لیے “ یَھْدِیْھِمْ ” سے ایمان و عمل صالح پر ثابت قدم رکھنا اور استقامت عطا کرنا مراد ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے مخلصانہ ایمان کی بدولت ان کو صراط مستقیم اور ایمان پر ثابت قدم رکھیگا۔ “ اي یسددھم بسبب ایماھم للاستقامة علی سلوک الطریق السدید المؤدي الی الثواب ” (مدارک ج 2 ص 118) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان کی بدولت آخرت میں ان کو جنت کی راہ دکھائے گا اور وہ سیدھے جنت میں داخل ہوں گے۔ “ قال مجاھد یھدیھم علی الصراط الی الجنة یجعل لھم نورًا یمشون به ” (خازن ج 3 ص 176 و مظہری ج 5 ص 11) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

9 بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور وہ نیک عمل بھی کرتے رہے ان کا پروردگار ان کو ان کے مومن ہونے کی وجہ سے ان کے مقصد تک پہنچا دے گا ان کے مکانات کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور وہ نعمت کے باغوں میں ہوں گے یعنی ایمان کی برکت اور مومن ہونے کی وجہ سے مقصد میں کامیابی ہوگی یعنی جنت مل جائے گی جو بہت بڑا مقصد ہے۔