Surat Younus

Surah: 10

Verse: 96

سورة يونس

اِنَّ الَّذِیۡنَ حَقَّتۡ عَلَیۡہِمۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۹۶﴾

Indeed, those upon whom the word of your Lord has come into effect will not believe,

یقیناً جن لوگوں کے حق میں آپ کے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٥] شک کے مرتکب :۔ شک اور تکذیب کے کئی مراحل ہیں سب سے پہلے شک پیدا ہوتا ہے اگر اس کا ازالہ نہ کیا جائے اور شک ترقی کرکے جدل کی صورت اختیار کرلیتا ہے یعنی ایسا شخص دلیل بازیوں پر اتر آتا ہے اور دوسروں سے جھگڑا شروع کردیتا ہے۔ پھر اس کے بعد تکذیب کا درجہ آتا ہے یعنی ایسا انسان یکسر اللہ کی آیات کا انکار کردیتا ہے پھر جب وہ اس تکذیب میں پختہ ہوجاتا ہے تو پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ کوئی حق بات قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس سے قبول حق کی استعداد ہی چھن جاتی ہے۔ مہر کب لگتی ہے ؟ یہی وہ کیفیت ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر مہر لگنے سے تعبیر فرمایا ہے ایسے لوگوں کو اللہ کی کوئی بھی نشانی یا معجزہ راہ راست کی طرف لانے میں ممد ثابت نہیں ہوسکتا وہ بس اس وقت ہی ایمان لاتے ہیں جب کوئی جان لیوا عذاب دیکھ لیتے ہیں جیسے فرعون جب غرق ہونے لگا تھا تو اس وقت ایمان لایا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک حد تک ارادہ و اختیار دیا ہے، جس کے مطابق وہ نیکی یا بدی میں سے جس پر چاہے عمل کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کو وہ سب کچھ معلوم ہے جو شروع سے اب تک واقع ہوا، اسی طرح وہ آئندہ ہونے والی ہر بات کا بھی پورا علم رکھتا ہے اور اس کی رو سے اسے پہلے ہی معلوم ہے کہ اپنے ارادہ و اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کون حق کو قبول کرے گا اور کون کفر کی راہ اختیار کرے گا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے اس ازلی علم کو ” کَلِمَتُ رَبِّکَ “ کہا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کفر میں اور اللہ کی نافرمانی میں اس قدر غرق ہوجاتے ہیں کہ ان کی حق قبول کرنے کی استعداد ہی ختم ہوجاتی ہے۔ چناچہ وہ کسی صورت ایمان نہیں لاتے، بلکہ وہ کفر ہی پر مریں گے اور ضد، تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے انھیں ایمان لانے کی توفیق نہیں ہوگی۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١٦) ، یس (٧) اور زمر (١٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْہِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ٩٦ ۙ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٦) بیشک جن لوگوں کے متعلق میں علم ازلی میں عذاب ثابت ہوچکا ہے وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٦ (اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ) جو لوگ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے قانون خداوندی کی زد میں آ چکے ہیں اور ان کے دلوں پر آخری مہر لگ چکی ہے ‘ اب ایسے لوگوں کو ایمان نصیب نہیں ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

97. The statement 'the word of your Lord has been fulfilled' refers to those who are not interested in seeking truth; who, by dint of their apathy, bigotry, stubbornness, excessive worldliness and total unconcern about the After-life, make their hearts immune to the truth. God's judgement about such persons is that they will not be blessed with faith.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :97 یعنی یہ قول کہ جو لوگ خود طالب حق نہیں ہوتے ، اور جو اپنے دلوں پر ضد ، تعصب اور ہٹ دھرمی کے قفل چڑھائے اور جو دنیا کے عشق میں مدہوش اور عاقبت سے بے فکر ہوتے ہیں انہیں ایمان کی توفیق نصیب نہیں ہوتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:96) حقت علیہم کلمیت ربک۔ کے لفظی معنی ہیں جن پر تیرے رب کا کلمہ ثابت ہوچکا ہے۔ کلمہ بمعنی کلام۔ بات ۔ حکم۔ اور یہاں کلمہ رب سے کیا مراد ہے۔ مختلف مفسرین نے اس کے مختلف معانی لئے ہیں۔ ان پر حق کی حجت قائم ہوچکی ہے (ابن کثیر) جن پر تیرے رب کا قول راست آگیا ہے ۔ یعنی یہ قول کہ جو لوگ حق کے طالب نہیں ہوئے وہ اپنے دلوں پر ضد۔ تعصب اور ہٹ دھرمی کے قفل چڑھائے رکھتے ہیں (تفہیم القرآن) جن پر تیرے اللہ کا فرمان صادق آگیا (یعنی اسکا یہ قانون کہ جو آنکھیں بند کرلے گا اسے کچھ نظر نہیں آئے گا۔ (ترجمان القرآن) تیرے رب کا حکم یعنی خلقت ھؤلاء للنار ان پر راست آگیا (الخازن) اس کا وہ قول جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ یا اس کا یہ قول ولکن حق القول منی لاملئن جھنم من الجنۃ والناس ۔ (32:13) (مدارک التنزیل)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ یعنی وہ کفر پر مرینگے اور اپنی ضد، تعصب اور ہٹ دھرمی کی بدولت انہیں ایمان لانے کی توفیق نصیب نہ ہوگی۔ (کذافی شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان الذین حقت علیھم کلمت ربک لایؤمنون۔ بیشک جن لوگوں کیلئے آپ کے رب کا حکم (فیصلہ ازلی) طے ہوچکا (وہ ایمان نہیں لائیں گے) وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ حَقَّتْ واجب ہوگیا۔ کلمۂ رب سے مراد ہے ازلی فیصلہ کہ وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ مالک ‘ ترمذی اور ابو داؤد نے مسلم بن یسار کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب سے آیت وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْم بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ وَذُرِّیَّتَھُمْ کا معنی دریافت کیا گیا تو آپ نے جواب دیا : میں نے خود سنا کہ جب اس آیت کا (مرادی اور تشریحی) معنی رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے دریافت کیا گیا تو حضور ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : اللہ نے آدم کو پیدا کیا ‘ پھر ان کی پشت پر اپنا دایاں ہاتھ پھیر کر ان کی کچھ نسل باہر نکالی اور فرمایا : ان کو میں نے جنت کیلئے پیدا کیا اور یہ جنت والوں ہی کے کام کریں گے ‘ پھر پشت پر ہاتھ پھیر کر کچھ نسل برآمد کی اور فرمایا : ان کو میں نے دوزخ کیلئے پیدا کیا اور یہ دوزخیوں ہی کے کام کریں گے۔ امام احمد نے بوساطت ابو نصرہ ‘ حضرت ابو عبد اللہ صحابی کا بیان نقل کیا ہے ‘ ابوعبدا اللہ نے فرمایا : میں نے خود رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ نے اپنے دائیں ہاتھ کی ایک مٹھی لی اور دوسرے ہاتھ کی دوسری مٹھی (اوّل کے متعلق فرمایا :) یہ اس کیلئے ہے ‘ یعنی جنت کیلئے اور یہ اس کیلئے ہے ‘ یعنی دوزخ کیلئے اور مجھے (کسی کی پرواہ نہیں۔ ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ اللہ کا فیصلہ ناقابل شکست ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْھِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ) بلاشبہ جن لوگوں کے بارے میں آپ کے رب کی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے وہ کبھی ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

106: جن لوگوں کے دلوں پر مہر جباریت لگ چکی ہے وہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے اگرچہ تمام دلائل ان کے سامنے پیش کردئیے جائیں اور معجزات کا ان کو مشاہدہ کرادیا جائے۔ “ حَتّٰی یَرَوْا الخ ” ان لوگوں کے ایمان لانے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ وہ دردناک عذاب کی لپیٹ میں آجائیں مگر اس وقت کا ایمان بےسود ہوگا۔ “ اي عند الیاس فیومنون ولا ینفعھم او عند القیامة ولا یقبل منھم ” (مدارک ج 2 ص 135) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

96 یقینا جن لوگوں پر آپ کے پروردگار کا حکم عذاب ثابت ہوچکا ہے خواہ ان کے پاس تمام نشانیاں ہی کیوں نہ آجائیں وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے۔