Surat ul Aadiyaat
Surah: 100
Verse: 3
سورة العاديات
فَالۡمُغِیۡرٰتِ صُبۡحًا ۙ﴿۳﴾
And the chargers at dawn,
پھر صبح کے وقت دھاوا بولنے والوں کی قسم
فَالۡمُغِیۡرٰتِ صُبۡحًا ۙ﴿۳﴾
And the chargers at dawn,
پھر صبح کے وقت دھاوا بولنے والوں کی قسم
And scouring to the raid at dawn. meaning, the raid that is carried out in the early morning time. This is just as the Messenger of Allah used to perform raids in the early morning. He would wait to see if he heard the Adhan (call to prayer) from the people. If he heard it he would leave them alone, and if he didn't hear it he would attack. Then Allah says, فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا
3۔ 1 مغیرات، أغار یعیر سے ہے، شب خون مارنے یا دھاوا بولنے والے۔ صبحا صبح کے وقت، عرب میں عام طور پر حملہ اسی وقت کیا جاتا تھا، شب خون تو مارتے ہیں، جو فوجی گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں، لیکن اس کی نسبت گھوڑوں کی طرف اسلئے کی ہے کہ دھاوا بولنے میں فوجیوں کے یہ بہت زیادہ کام آتے ہیں۔
[٣] اہل عرب ہر وقت قبائلی لڑائیوں اور لوٹ مار میں مشغول رہتے تھے۔ ان کی عادت یہ تھی کہ حملہ کے لیے رات کے وقت سفر کرتے تاکہ دشمن کو حملہ کی خبر نہ ہوسکے۔ رات کو وہ شب خون مارنا اپنی کسر شان اور اپنی شجاعت کے خلاف سمجھتے تھے۔ رات کو سفر کرنے کے بعد صبح دم حملہ کردینے میں انہیں تین فائدے حاصل ہوتے تھے۔ ایک یہ کہ دشمن کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ دوسرے اس وقت انہیں ہر چیز واضح طور پر نظر آنے لگتی تھی۔ تیسرے شب خون مارنے کی بدنامی سے بھی بچ جاتے تھے۔
(فالمغیرت صبحاً :” فالمغیرت “” آغار بغیر اغارۃ “ (افعال) سے اسم فاعل ” مغیرۃ “ کی جمع ہے، ٹوٹنے کے لئے حملہ کرنے والے۔
فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا ٣ ۙ المغیرات : جمع المغیرة مؤنّث المغیر، اسم فاعل من (أغار) الرباعيّ ، وزنه مفعل بملاحظة الإعلال بالتسکين۔ تسكين الیاء ونقل حرکتها إلى الغین قبلها غور الغَوْرُ : المُنْهَبِطُ من الأرض، يقال : غَارَ الرجل، وأَغَارَ ، وغَارَتْ عينه غَوْراً وغُئُوراً «2» ، وقوله تعالی: ماؤُكُمْ غَوْراً [ الملک/ 30] ، أي : غَائِراً. وقال : أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً [ الكهف/ 41] . والغارُ في الجبل . قال : إِذْ هُما فِي الْغارِ [ التوبة/ 40] ، وكنّي عن الفرج والبطن بِالْغَارَيْنِ «3» ، والْمَغَارُ من المکان کا لغور، قال : لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغاراتٍ أَوْ مُدَّخَلًا [ التوبة/ 57] ، وغَارَتِ الشّمس غِيَاراً ، قال الشاعر : هل الدّهر إلّا ليلة ونهارها ... وإلّا طلوع الشّمس ثمّ غيارها«4» وغَوَّرَ : نزل غورا، وأَغَارَ علی العدوّ إِغَارَةً وغَارَةً. قال تعالی: فَالْمُغِيراتِ صُبْحاً [ العادیات/ 3] ، عبارة عن الخیل . ( غ ور ) الغور کے معنی نشیبی زمین کے ہیں محاورہ ہے غارالرجل اوغار یشبی زمین میں چلا جانا غارت عینہ غورا وغورورا آنکھ کا اندر پھنس جانا قرآن پاک میں ہے ؛ماؤُكُمْ غَوْراً [ الملک/ 30] تمہارا پانی بہت زیادہ زمین کے نیچے اتر جائے ۔ أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً [ الكهف/ 41] یا اس کا پانی زمین کے اندر اتر جائے ۔ الغار کے معنی غار کے ہیں ( ج اغوار وغیران ) قرآن پاک میں ہے : إِذْ هُما فِي الْغارِ [ التوبة/ 40] جب وہ دونوں غار ( ثور ) میں تھے : اور کنایہ کے طور پر فر ج و بطن یعنی پیٹ اور شرمگاہ کو غار ان ( تثبیہ ) کہاجاتا ہے اور مغار کا لفظ غور کی طرح اسم مکان کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ض ( جمع مغارات) قرآن پاک میں ہے : لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغاراتٍ أَوْ مُدَّخَلًا[ التوبة/ 57] اگر ان کو کوئی بچاؤ کی جگہ ( جیسے قلعہ ) یا رغار ومغاک یا زمین کے اندر ) کھسنے کی جگہ مل جائے ۔ اور غارت الشمس غیارا کے معنی سورج غروب ہوجانے کے ہیں ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (333) ھل الدھر الالیلۃ ونھارھا والا طلوع الشمس ثم غیارھا ( زمانہ دن رات کی گردش اور سورج ک طلوع و غروب ہونے کا نام ہے ) غور کے معنی پست زمین میں چلے جانے کے ہیں واغار علی الغدو ا اغارۃ وغارۃ کے معنی دشمن پر لوٹ مارنے کے قرآن پاک میں ہے ؛ فَالْمُغِيراتِ صُبْحاً [ العادیات/ 3] پھر صبح کو چھاپہ مارتے ہیں ۔ اور اس سے مراد گھوڑے ہیں ( جو صبح کو دشمن پر چھاپہ مارتے ہیں) صبح الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔
(3 ۔ 8) پھر صبح کو اچانک حملہ کرتے ہیں پھر اس وقت غبار اڑاتے ہیں اور دشمنوں کی جماعتوں میں جا گھستے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ قسم ہے حاجیوں کے گھوروں اور ان کے اونٹوں کی جب وہ عرفات سے مزدلفہ کو آتے ہیں حالاں کہ ان کا سانس پھولا ہوا ہوتا ہے اور پھر وہاں آ کر آگ روشن کرتے ہیں اور علی الصباح پھر منی واپس جاتے ہیں آگے جواب قسم ہے کہ کافر آدمی یعنی قرط بن عبداللہ یا ابو حباب اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بڑٓ ناشکر گزار ہے اور اس کو خود بھی اپنے اس فعل کی خبر ہے اور یہ شخص مال کثیر کی محبت میں مضبوط ہے۔
آیت ٣{ فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًا ۔ } ” پھر وہ علی الصبح غارت گری کرتے ہیں۔ “ اس آیت میں گھوڑوں کی خصوصی صفات کے ساتھ ساتھ زمانہ جاہلیت کے عرب تمدن کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ اہل عرب جب لوٹ مار یا قتل و غارت کے لیے کسی قبیلے پر حملے کی منصوبہ بندی کرتے تو اس کے لیے علی الصبح منہ اندھیرے کے اوقات (small hours of the morning) کا انتخاب کرتے تھے۔ اس قسم کی غارت گری کے لیے رات کا پچھلا پہر اس لیے موزوں سمجھا جاتا تھا کہ اس وقت ہر کوئی بڑی سکون کی نیند سو رہا ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی مریض تکلیف کی وجہ سے ساری رات سو نہ سکے تو رات کے پچھلے پہر اسے بھی نیند آجاتی ہے۔
3 The practice among the Arabs was that when they had to mount a raid on a settlement, they marched out in the night so as to take the enemy by surprise; then they would launch a sudden attack early. in the morning so that everything became visible in the light of day, and at the same tune it did not become so bright that the victim could notice their movement from a distance and be ready to meet the offensive.
سورة العدیات حاشیہ نمبر : 3 اہل عرب کا قاعدہ تھا کہ جب کسی بستی پر انہیں چھاپہ مارنا ہوتا تو رات کے اندھیرے میں چل کر جاتے تاکہ دشمن خبردار نہ ہوسکے ، اور صبح سویرے اچانک اس پر ٹوٹ پڑتے تھے تاکہ صبح کی روشنی میں ہر چیز نظر آسکے ، اور دن اتنا زیادہ روشن بھی نہ ہو کہ دشمن دور سے ان کو آتا دیکھ لے اور مقابلہ کے لیے تیار ہوجائے ۔
(100:3) فالمغیرات صبحا اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے پھر (قسم ہے) المغیرات کی۔ صبحا ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے ترجمہ ہوگا :۔ پھر قسم ہے (ان کی) جو صبح ہوتے ہی (دشمنوں پر) دھاوا کرتے ہیں۔ المغیرات جمع ہے المغیرۃ کی۔ اغارۃ (افعال) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مؤنث ٹوٹ پڑنے والے۔ چھاپہ مارنے والے۔ یعنی پھر قسم ہے (غازیوں کے) ان چھاپہ مار گھوڑوں کی جو صبح ہوتے ہی ٹوٹ پڑتے ہیں۔
ف 8 عربوں کی عادت تھی کہ دشمن پر صبح کے وقت اچانک چھاپا مارتے جبکہ اس کے عام لوگ غفلت کی گہری نیند سو رہے ہوں۔ اس آیت میں صبح کے وقت اچانک چھاپا مارنے والے گھوڑوں کی قسم کھائی گئی۔
﴿ فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًاۙ٠٠٣ فَاَثَرْنَ بِهٖ نَقْعًاۙ٠٠٤﴾ (پھر یہ گھوڑے صبح صبح غارت گری ڈالنے والے ہیں پھر اپنے کھروں سے غبار اڑانے والے ہیں۔ اثرن اثار یثیر سے ماضی معروف جمع مونث کا صیغہ ہے اور نقعا اس کا مفعول ہے مطلب یہ ہے کہ گھوڑے دوڑتے ہوئے جاتے ہیں تو ان کے پاؤں سے غبار اڑتا ہے۔