Surat ul Aadiyaat

Surah: 100

Verse: 4

سورة العاديات

فَاَثَرۡنَ بِہٖ نَقۡعًا ۙ﴿۴﴾

Stirring up thereby [clouds of] dust,

پس اس وقت گرد و غبار اڑاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And raise the dust in clouds the while. meaning, dust at the place of the battle with the horses. فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

أثار، اڑانا۔ نقع، گرد و غبار۔ یعنی یہ گھوڑے جس وقت تیزی سے دوڑتے یا دھاوا بولتے ہیں تو اس جگہ پر گرد و غبار چھا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] نَقْعًا بمعنی گرد راہ، وہ گردو غبار جو کوئی تیز رفتار سواری اپنے پیچھے چھوڑتی چلی جاتی ہے۔ یہ خاکی ذرات بوجھل ہونے کی وجہ سے پھر آہستہ آہستہ زمین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس آیت میں دراصل گھوڑوں کی تیز رفتاری کی تعریف ہے جو رات کو زمین ٹھنڈی اور شبنم آلود ہونے کے باوجود اس سے گرد و غبار اٹھاتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(فاثرن بہ نفعاً :” فاثرن “ ” اثار یثیر اثارۃ “ (افعال) ” الغبار “ غبار اڑانا۔” نقعاً “ غبار۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَثَرْنَ بِہٖ نَقْعًا۝ ٤ ۙ أثر أَثَرُ الشیء : حصول ما يدلّ علی وجوده، يقال : أثر وأثّر، والجمع : الآثار . قال اللہ تعالی: ثُمَّ قَفَّيْنا عَلى آثارِهِمْ بِرُسُلِنا «1» [ الحدید/ 27] ، وَآثاراً فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 21] ، وقوله : فَانْظُرْ إِلى آثارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم/ 50] . ومن هذا يقال للطریق المستدل به علی من تقدّم : آثار، نحو قوله تعالی: فَهُمْ عَلى آثارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات/ 70] ، وقوله : هُمْ أُولاءِ عَلى أَثَرِي [ طه/ 84] . ومنه : سمنت الإبل علی أثارةٍأي : علی أثر من شحم، وأَثَرْتُ البعیر : جعلت علی خفّه أُثْرَةً ، أي : علامة تؤثّر في الأرض ليستدل بها علی أثره، وتسمّى الحدیدة التي يعمل بها ذلک المئثرة . وأَثْرُ السیف : جو هره وأثر جودته، وهو الفرند، وسیف مأثور . وأَثَرْتُ العلم : رویته «3» ، آثُرُهُ أَثْراً وأَثَارَةً وأُثْرَةً ، وأصله : تتبعت أثره . أَوْ أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ [ الأحقاف/ 4] ، وقرئ : (أثرة) «4» وهو ما يروی أو يكتب فيبقی له أثر . والمآثر : ما يروی من مکارم الإنسان، ويستعار الأثر للفضل ( ا ث ر ) اثرالشیئ ۔ ( بقیہ علامت ) کسی شی کا حاصل ہونا جو اصل شیئ کے وجود پر دال ہوا اس سے فعل اثر ( ض) واثر ( تفعیل ) ہے اثر کی جمع آثار آتی ہے قرآن میں ہے :۔ { ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا } [ الحدید : 27] پھر ہم نے ان کے پیھچے اور پیغمبر بھیجے { وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ } [ غافر : 21] اور زمین میں نشانات بنانے کے لحاظ سے { فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ } [ الروم : 50] تم رحمت الہی کے نشانات پر غور کرو اسی سے ان طریق کو آثار کہا جاتا ہے جس سے گذشتہ لوگوں ( کے اطوار وخصائل ) پر استدلال ہوسکے جیسے فرمایا { فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ } [ الصافات : 70] سو وہ انہیں کے نقش قدم پر دوڑتے چلے جاتے ہیں ۔ { هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي } [ طه : 84] وہ میرے طریقہ پر کار بند ہیں ۔ اسی سے مشہور محاورہ ہے سمنت الابل علی آثارۃ اثرمن شحم فربہ شدند شتراں پر بقیہ پیہ کہ پیش ازیں بود اثرت البعیر ۔ میں نے اونٹ کے تلوے پر نشان لگایا تاکہ ( گم ہوجانے کی صورت میں ) اس کا کھوج لگایا جا سکے ۔ اور جس لوہے سے اس قسم کا نشان بنایا جاتا ہے اسے المئثرۃ کہتے ہیں ۔ اثرالسیف ۔ تلوار کا جوہر اسکی عمدگی کا کا نشان ہوتا ہے ۔ سیف ماثور ۔ جوہر دار تلوار ۔ اثرت ( ن ) العلم آثرہ اثرا واثارۃ اثرۃ ۔ کے معنی ہیں علم کو روایت کرنا ۔ در اصل اس کے معنی نشانات علم تلاش کرنا ہوتے ہیں ۔ اور آیت ۔ { أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ } ( سورة الأَحقاف 4) میں اثارۃ سے مراد وہ علم ہے جس کے آثار ( تاحال ) روایت یا تحریر کی وجہ سے باقی ہوں ایک قراۃ میں اثرۃ سے یعنی اپنے مخصوص علم سے المآثر انسانی مکارم جو نسلا بعد نسل روایت ہوتے چلے آتے ہیں ۔ اسی سے بطور استعارہ اثر بمعنی فضیلت بھی آجاتا ہے ۔ نقعا : اسم بمعنی الغبار، وزنه فعل بفتح فسکون نقعا : مفعول بہٖ ۔ گردوغبار۔ خاک۔ بہ کی ضمیر دشمن پر چھاپہ مارنے کے وقت کی طرف راجع ہے۔ ( بیضاوی) یعنی وہ گھوڑے جو چھاپہ مارنے کے وقت ( جوش میں اپنے سموں سے) غبار اڑاتے ہیں۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(100:4) فاثرن بہ نقعا : یہ جملہ بھی معطوف ہے ف کا عطف کلام محذوف پر ہے۔ ای عدون فاثرن : وہ (حملہ کرتے وقت) سرپٹ دوڑتے یا دوڑتی ہیں۔ پھر غبار اڑاتی یا اڑاتے ہیں (گھوڑے) اثرن ماضی کا صیغہ جمع مؤنث غائب اثارۃ (باب نصر، ضرب) مصدر بمعنی اٹھانا۔ برانگیختہ کرنا۔ اڑانا۔ نقعا : مفعول بہٖ ۔ گردوغبار۔ خاک۔ بہ کی ضمیر دشمن پر چھاپہ مارنے کے وقت کی طرف راجع ہے۔ (بیضاوی) یعنی وہ گھوڑے جو چھاپہ مارنے کے وقت (جوش میں اپنے سموں سے) غبار اڑاتے ہیں۔ فاثرن بہ نقعا : ای ھیجن فی الصبح غبارا۔ (کلمات القرآن) وہ صبح کے وقت (جب دشمن پر حملہ کرتے ہیں) غبار اٹھاتے ہیں۔ بعض کے نزدیک بہ کی ضمیر دشمن کے مقام کی طرف راجع ہے بہ ای بمکان عدوھا۔ (یعنی اپنے دشمن کے مقام پر (غبار اٹھاتی ہیں) (ایسر التفاسیر) پھر ان کی قسم جو صبح میں دھاوے کے وقت بڑے زور سے دوڑنے میں گردو غبار اٹھاتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یا ” اس جگہ گرد اڑاتے ہیں۔ “ یہ دو ترجمے میں لحاظ سے ہیں کہ ” بہ “ میں ہ کی ضمیر وقت کیلئے بھی ہوسکتی ہے اور جگہ کے لئے بھی

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) پھر اس وقت گرد و غبار اڑھاتے ہیں۔ یعنی صبح کے وقت گردوغبار نہیں ہوتا بلکہ دبا ہوا ہوتا ہے مگر ان کی دوڑ اور رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ اس وقت بھی غبار اڑتا ہے۔