Surat ul Aadiyaat
Surah: 100
Verse: 5
سورة العاديات
فَوَسَطۡنَ بِہٖ جَمۡعًا ۙ﴿۵﴾
Arriving thereby in the center collectively,
پھر اسی کے ساتھ فوجوں کے درمیان گھس جاتے ہیں ۔
فَوَسَطۡنَ بِہٖ جَمۡعًا ۙ﴿۵﴾
Arriving thereby in the center collectively,
پھر اسی کے ساتھ فوجوں کے درمیان گھس جاتے ہیں ۔
And penetrating forthwith as one into the midst. means, then are all in the middle of that spot, together. Allah's saying; فَالْمُغِيرَتِ صُبْحاً (And scouring to the raid at dawn), Ibn Abbas, Mujahid and Qatadah, all said, "This means the invasion of the horses in the morning in the way of Allah." And His statement, فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعاً (And raise the dust in clouds the while), This is the place in which the attack takes place. The dust is stirred up by it. And His statement, فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعاً (And penetrating forthwith as one into the midst), Al-Awfi narrated from Ibn Abbas, Ata, Ikrimah, Qatadah and Ad-Dahhak that they all said, "This means into the midst of the disbelieving enemy." Concerning Allah's statement, إِنَّ الاِْنسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ
5۔ 1 فوسطن، درمیان میں گھس جاتے ہیں۔ اس وقت، یا حالت گرد و غبار میں۔ جمعا دشمن کے لشکر۔ مطلب ہے کہ اس وقت، یا جبکہ فضا گردوغبار سے اٹی ہوئی ہے یہ گھوڑے دشمن کے لشکروں میں گھس جاتے ہیں اور گھمسان کی جنگ کرتے ہیں۔
[٥] اس بات میں اختلاف ہے کہ اس میں جَمْعًا سے مراد کون سی جمعیت یا لشکر ہے ؟ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں جَمْعًا سے مراد وہ قبیلہ ہے جس پر انتقام یا لوٹ مار کی غرض سے حملہ کیا جاتا ہے۔ اور گھوڑوں سے مراد وہی گھوڑے ہیں جو عرب قبائل ایسے موقعوں پر استعمال کیا کرتے تھے۔ اپنے اس موقف کے حق میں ان کی دلیل یہ ہے کہ آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے جواب قسم کے دوران فرمایا کہ :&& انسان مال کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے && اور چونکہ عرب قبائل مال کی محبت کی وجہ سے ہی ایسے حملے کرتے تھے لہذا یہاں جن گھوڑوں کی قسم کھائی گئی ہے وہ وہی لوٹ مار کرنے والے گھوڑے ہیں اور بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کی نہیں بلکہ گھوڑوں کے رسالہ اور ان پر سوار مجاہدین کی قسم کھائی ہے جو کافروں کے لشکر پر جا پڑتے ہیں۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی منزل پر پہنچ جاتے تو صبح کا انتظار کرتے رہتے۔ اگر بستی سے اذان کی آواز آجاتی تو پھر حملہ نہیں کرتے تھے اور اگر نہ آتی تو حملہ کردیتے۔ (مسلم، کتاب الصلوۃ۔ باب الامساک عن الاغارۃ علٰی قوم فی دارالکفر اذا سمع فیھم الاذان) اور درج ذیل حدیث اگرچہ اس بات کی صراحت نہیں کرتی کہ اللہ تعالیٰ نے عام گھوڑوں کی قسم کھائی ہے یا مجاہدین اور ان کے گھوڑوں کی۔ تاہم اس میں جہاد کے لیے تیار کیے ہوئے گھوڑوں کی بہت فضیلت بیان ہوتی ہے۔ خ جہاد کے لیے گھوڑا رکھنے کی فضیلت :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && گھوڑوں کا حال تین طرح پر ہے۔ کسی کے لیے تو وہ باعث ثواب ہیں، کسی کے لیے معاف اور کسی کے لیے عذاب۔ ثواب تو اس کے لیے جو انہیں جہاد کی نیت سے باندھے اور چراگاہ یا باغ میں ان کی رسی کھلی چھوڑ دے وہ جہاں سے اور جہاں تک چریں گے اس کے لیے نیکیاں ہوں گی اور اگر انہوں نے رسی تڑا لی اور قدم دو قدم آگے چلے گئے تو ان کے پاؤں کے نشانات اور ان کی لید سب کچھ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی اور اگر وہ کسی نہر پر جاکر پانی پی لیں۔ خواہ مالک کا انہیں پانی پلانے کا ارادہ نہ ہو تو بھی مالک کو نیکیاں ملیں گی۔ ایسے گھوڑے تو مالک کے لیے باعث ثواب ہیں۔ اور جس نے اپنی ضرورت پوری کرنے اور دوسرے سے سوال کرنے سے بچنے کے لیے گھوڑا رکھا اور اللہ کا جو حق گھوڑے کی گردن اور پشت پر ہے اور اسے نہ بھولا۔ تو ایسے شخص کے لیے گھوڑا رکھنا معاف ہے۔ اور جس نے گھوڑا فخر، ریا اور مسلمانوں کو ستانے کے لیے رکھا تو وہ اس کے لیے عذاب ہے && پھر کسی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گدھوں کے متعلق پوچھا : && کہ کیا ان کا بھی یہی حکم ہے ؟ && آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :&& ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کوئی خاص حکم نازل نہیں کیا مگر یہ اکیلی جامع آیت (جو گدھوں کو بھی شامل ہے) ( فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ ۭ ) 99 ۔ الزلزلة :7) (بخاری۔ کتاب التفسیر) ان علماء کے خیال کے مطابق اللہ کے ہاں مجاہدین اور ان کے گھوڑے ہی ایسی قدر و منزلت رکھتے ہیں کہ ان کی قسم کھائی جائے۔ عام گھوڑے یہ اہمیت نہیں رکھتے۔
فوسطن بہ جمعاً :” وسطن “ ” وسط یسط وسطاً “ (ض)” القوم او المکان “ کسی چیز کے درمیان میں ہونا۔ “
فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا ٥ ۙ وسط وَسَطُ الشیءِ : ما له طرفان متساویا القدر، ويقال ذلک في الكمّيّة المتّصلة کالجسم الواحد إذا قلت : وَسَطُهُ صلبٌ ، وضربت وَسَطَ رأسِهِ بفتح السین . ووَسْطٌ بالسّكون . يقال في الكمّيّة المنفصلة كشيء يفصل بين جسمین . نحو : وَسْطِ القومِ كذا . والوَسَطُ تارة يقال فيما له طرفان مذمومان . يقال : هذا أَوْسَطُهُمْ حسبا : إذا کان في وَاسِطَةِ قومه، وأرفعهم محلّا، وکالجود الذي هو بين البخل والسّرف، فيستعمل استعمال القصد المصون عن الإفراط والتّفریط، فيمدح به نحو السّواء والعدل والنّصفة، نحو : وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً [ البقرة/ 143] وعلی ذلک قوله تعالی: قالَ أَوْسَطُهُمْ [ القلم/ 48] وتارة يقال فيما له طرف محمود، وطرف مذموم کالخیر والشّرّ ، ويكنّى به عن الرّذل . نحو قولهم : فلان وَسَطُ من الرجال تنبيها أنه قد خرج من حدّ الخیر . وقوله : حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطى[ البقرة/ 238] ، فمن قال : الظّهر فاعتبارا بالنهار، ومن قال : المغرب «فلکونها بين الرّکعتین وبین الأربع اللّتين بني عليهما عدد الرّکعات، ومن قال : الصّبح فلکونها بين صلاة اللّيل والنهار . قال : ولهذا قال : أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ الآية [ الإسراء/ 78] . أي : صلاته . وتخصیصها بالذّكر لکثرة الکسل عنها إذ قد يحتاج إلى القیام إليها من لذیذ النّوم، ولهذا زيد في أذانه : ( الصّلاة خير من النّوم) ومن قال : صلاة العصر فقد روي ذلک عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم فلکون وقتها في أثناء الأشغال لعامّة الناس بخلاف سائر الصلوات التي لها فراغ، إمّا قبلها، وإمّا بعدها، ولذلک توعّد النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم فقال : «من فاته صلاة العصر فكأنّما وتر أهله وماله» ( و س ط ) وسط الشئی ہر چیز کی در میانی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے اس کے دونوں اطراف کا فاصلہ مساوی ہو اور اس کا استعمال کمیتہ متصلہ یعنی ایک جسم پر ہوتا ہے جیسے وسطہ صلب اس کا در میان سخت ہے ) ضر بت ہ وسط راسہ لیکن وسط ( بالسکون ) کمیت منفصلہ پر بولا جاتا ہے یعنی دو چیزوں کے در میان فاصل کو وسط کہا جاتا ہے جیسے ۔ وسط القوم کذا کہ وہ لوگوں کے در میان فاصل ہے ۔ نیز الوسط ( بفتح اسیں ) اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو دو مذموم اطراف کے در میان واقع ہو یعنی معتدل کو افراط وتفریط کے بالکل در میان ہوتا ہے مثلا جوہ کہ ببخل اور اسراف کے در میانی در جہ کا نام ہے اور معنی اعتدال کی مناسبت سے یہ عدل نصفۃ سواء کی طرح ہر عمدہ اور بہترین چیز کے لئے بولا جاتا ہے مثلا جو شخص اپنی قوم میں لحاظ حسب سب سے بہتر اور اونچے درجہ کا ہو اس کے متعلق ھذا وسطھم حسبا کہا جاتا ہے چناچہ اسی معنی ہیں ( امت مسلمہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً [ البقرة/ 143] اور اس طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ۔ اسی طرح آیت : ۔ قالَ أَوْسَطُهُمْ [ القلم/ 48] ایک جوان جوان میں فر زانہ نہ تھا بولا ۔ میں بھی اوسط کا لفظ اسی معنی پر محمول ہے اور کبھی وسط اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو نہ زیادہ اچھی ہو اور نہ بریوی بلکہ در میانے در جہ کی ہو ۔ اور کبھی کنایۃ رذیل چیز پر بھی بولا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے ۔ فلان وسط من لرجال کہ فلاں کم در جے کا آدمی ہے یعنی در جہ خیر سے گرا ہوا ہے اور آیت کریمہ : ۔ حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطى[ البقرة/ 238] مسلمانوں سب نمازیں خصوصا بیچ کی نماز یعنی عصر ایورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ وسطی سے مراد صلوۃ ظہر ہے کیونکہ وہ دن کے در میانی حصہ میں ادا کی جاتی ہے اور بعض اس سے صلوۃ مغرب مراد لیتے ہیں کیونکہ وہ تعداد رکعات کے لحاظ سے ثنائی اور رباعی نمازوں کے در میان میں ہے اور بعض نے صلوۃ فجر مراد لی ہے کیونکہ وہ دن اور رات کی نمازوں کے در میان میں ہے جیسا کہ دوسری آیت فرمایا : ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ الآية [ الإسراء/ 78]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک ( ظہر عصر مغرب عشا کی ) نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو ۔ اور صلوہ وسطیٰ کو خاص کر الگ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ صبح کا وقت سستی اور غفلت کا وقت ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس وقت اٹھنے کے لئے نیند کی لذت کو چھوڑ نا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ صبح کی اذان میں کا اضافہ کیا گیا ہے اور جو لوگ اس سے صلوۃ عصر مراد لیتے ہیں جیسا کہ آنحضرت سے ایک حدیث میں بھی مروی ہے تو وہ اس کے علیحدہ ذکر کرنے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ عصر عوام کے کاروبار کا وقت ہوات ہے اس لئے اس نماز میں سستی ہوجاتی ہے بخلاف دوسری نمازوں کسے کہ ان کے اول یا آخر میں فر صت کا وقت مل جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زجرا فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز ضائع کردی گویا اس نے اپنے اہل و عیال اور مال کو بر باد کردیا ۔
آیت ٥{ فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا ۔ } ” پھر اس کے ساتھ وہ (دشمن کی) جمعیت کے اندر گھس جاتے ہیں۔ “ پرانے زمانے کی جنگوں میں گھوڑے بہت موثر اور کارآمد ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ حملے کے وقت گھوڑے اپنے سواروں کے حکم پر مخالف فوج کی طرف سے تیروں کی بوچھاڑ اور نیزوں کی یلغار کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کی صفوں میں گھس جاتے تھے ۔ گھوڑے کا اپنے مالک کی فرمانبرداری میں اپنا خون پسینہ ایک کردینے کا جذبہ اور اس کی وفاداری میں اپنی جان کی بازی تک لگادینے کا وصف ! یہ ہے دراصل ان قسموں کے مضمون کا مرکزی نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ دلانا مقصود ہے۔ چناچہ گھوڑوں کے ان اوصاف کے ذکر کے بعد تقابل کے طور پر انسان کے کردارکا ذکر یوں کیا گیا ہے :
1: اس سے مراد وہ جنگی گھوڑے ہیں جن پر سوار ہو کر اُس زمانہ میں لڑائیاں لڑی جاتی تھیں، اس کی قسم کھانے میں یہ اشارہ ہے کہ یہ گھوڑے اپنے مالکوں کے اتنے وفادار ہوتے تھے کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنے مالکوں کے حکم کی تعمیل بھی کرتے تھے، اور اُن کی جان کی حفاظت بھی۔ اﷲ تعالیٰ نے اتنے مضبوط جانور کو اِنسان کا ایسا تابع اور وفادار بنادیا ہے۔ گنہگار اِنسان کو یاد دِلایا جارہا ہے کہ اپنے مالک اور خالق کے اس احسان کا شکر ادا کرنے کے بجائے اُس کی نافرمانی کرتا ہے اور اپنے پروردگار کا اتنا بھی وفادار نہیں جتنے اس کے گھوڑے اس کے وفادار ہوتے ہیں، چنانچہ اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اِنسان یعنی گنہگار اِنسان بڑا ناشکرا ہے۔
(100:5) فوسطن بہ جمعا : اس کا عطف بھی جملہ سابقہ پر ہے۔ ف حرف عاطفہ وسطن ماضی جمع مؤنث غائب وسط (باب ضرب) مصدر سے درمیان میں ہونا۔ درمیان میں بیٹھنا۔ یہاں بمعنی درمیان میں جا گھسنا ہے ۔ بہ ای بذلک الوقت ۔ او بالعدو او بالنقع۔ اس وقت دشمن کے درمیان گردوغبار کے اندر (بیضاوی وغیرہ) جمعا : حال ہے۔ اکھٹے ، جماعت کی جماعت۔ یا یہ وسطن کا مفعول ہے اور جمعا سے مراد جموع الاعدائ۔ دشمنوں کا گروہ ہے۔ ترجمہ :۔ پھر وہ اسی وقت (دشمن کے لشکر میں) گھس جاتے ہیں۔ (ضیاء القرآن) پھر ان کی قسم جو صبح کے وقت دھاوا کرنے اور غبار اٹھانے کے بعد مخالفوں کے انبوہ میں گھس جاتے ہیں۔ یہ نہیں کہ دھمکی دے کر رہ جاتے ہیں پھر وقت پر نامردی کرتے ہیں۔ ” یہ پانچ وصف جنگی گھوڑوں کے ہیں بالترتیب، لیکن بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ حج میں جانے والے اونٹوں کے اوصاف ہیں۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس بارے میں ایک روایت بھی کرتے ہیں۔ (تفسیر حقانی)
4۔ اس سے مراد لڑائی کے گھوڑے ہیں جہاد ہو یا غیر جہاد اور عرب کو اس وجہ سے کہ وہ اہل رزم تھے ان قسموں سے نہایت مناسبت ہے، ہانپنا دوڑنے کے وقت ظاہر ہے اور نعل آہنی پتھریلی زمین پر لگنے سے آگ کا جھڑنا بھی ظاہر ہے اور عرب میں اکثر عادت دشمنوں پر صبح کے وقت تاخت کرنے کی تھی تاکہ رات کے وقت جانے میں دشمن کو خبر نہ ہو۔ صبح کو دفعة جا پڑیں اور رات کو حملہ نہ کرنے میں اظہار شجاعت سمجھتے تھے، غبار کا اڑنا گو ہر وقت ہوتا ہے مگر اس کو صبح کے ساتھ مقید کرنا شدت اسراع کی طرف اشارہ ہے کہ ٹھنڈے وقت غبار دبا ہوا ہوتا ہے۔
﴿ فَوَسَطْنَ بِهٖ جَمْعًاۙ٠٠٥﴾ (پھر یہ گھوڑے کسی جگہ پہنچتے ہیں تو اس وقت جماعت کے درمیان گھس جاتے ہیں) اہل عرب کے نزدیک گھوڑوں کی بڑی اہمیت تھی ان کا تو کام ہی یہی تھا کہ باہم لڑتے رہتے تھے اور بڑے قبیلے چھوٹے قبیلوں پر صبح صبح کو غارت گری ڈالتے تھے یعنی رات کو رکے رہتے تھے اور جب صبح ہوتی تھی تو جہاں حملہ کرنا ہوتا وہاں حملہ کردیتے تھے اموال لوٹ لیتے تھے اور جو کوئی سامنے آتا اسے قتل کردیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کی قسم کھائی اور انہیں یاد دلایا کہ دیکھو ہم نے تم کو جو نعمتیں دی ہیں ان میں ایسے جاندار، جاندار جگوں میں کام آنے والے گھوڑے بھی دیئے ہیں دوسری نعمتوں کی طرح ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا بھی لازم ہے اس شکر میں یہ بھی لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا ہے اس پر ایمان لاؤ (آپ پر ایمان لانے سے پہلے گھوڑوں کو غلط استعمال کرتے رہے ہو، اب اس کا رخ بھی بدل جائے گا اور یہ گھوڑے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں استعمال ہونے لگیں گے) ۔ ھذا ما سنح فی قلبی فی ربط القسم بہ والمقسم بہ واللہ تعالیٰ اعلم باسرار کتابہ۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ان سے جہاد فی سبیل اللہ کے گھوڑے مراد ہیں (كما فی روح المعانی) اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ان سے حج میں کام آنے والے گھوڑے مراد ہیں جو عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے منیٰ لے جاتے تھے۔ (واعترض علٰی ھذین القولین بان السورة مکیہ ولم یکن فی ذلک الحین جھاد ولا حج فلم یفرض ای واحد منھما فی مكة المکرمہ۔
(5) پھر گھس جانے والے دشمنوں کی جماعت میں یعنی اس صبح کے وقت جو اغارت اور لوٹ کا وقت ہے دشمن کی فوج اور دشمن کی جماعت میں جا گھستے ہیں اہل عرب کی عام عادت یہ تھی کہ وہ کسی دشمن پر رات کو حملہ نہ کرتے تھے اور اس کو شجاعت وبہادری کے خلاف سمجھتے تھے اس لئے عام طور پر صبح کے وقت لوٹتے اور لڑتے تھے…چونکہ اہل عرب کو گھوڑوں سے عام دلچسپی تھی اور جنگ جو ہونے کی وجہ سے گھوڑوں کی خاص طور پر پرورش کرتے تھے اس لئے گھوڑوں کی قسم کھائی۔ بعض مفسرین نے اونٹ مراد لئے ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ ان قسموں سے گھوڑے مراد ہیں وہ جہاد کے گھوڑے ہوں یا غیر جہاد کے ہوں البتہ لڑائی کے ہوں بعض حضرات نے گھوڑوں سے ان کے سوا مراد لئے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ جہاد والے سواروں کی قسم ہے اس سے بڑا کون سا عمل ہے کہ اللہ کے کام پر اپنی جان دینے کو حاضر۔ بہرحال گھوڑا چونکہ اپنے آقا کا نہایت وفادار ہوتا ہے خشک گھاس کھاکر اپنے آقا کی وفاداری کرتا ہے اپنے محسن کو پہچانتا ہے اس کے حکم پر روشن کی فوج میں گھس کر نیزوں اور تلواروں کے زخم کھاتا ہے گولیوں کی بوچھاڑ میں گھس جاتا ہے اور سدھا ہوا گھوڑا مالک کو بچاتا ہے اور خود زخمی اور لہولہان ہوجاتا ہے اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے اگر کبھی سوار گرپڑتا ہے تو اس کو اٹھا کر اپنی پیٹھ بٹھا لیتا ہے غرض گھوڑوں کی وفاداری مشہور ہے اور انہی قسموں کی مناسبت سے جواب قسم فرماتے ہیں۔