Surat ul Humaza

Surah: 104

Verse: 1

سورة الهمزة

وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۣ ۙ﴿۱﴾

Woe to every scorner and mocker

بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah Says: وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ Woe to every Humazah Lumazah. Al-Hammaz refers to (slander) by speech, and Al-Lammaz refers to (slander) by action. This means that the person finds fault with people and belittles them. An explanation of this has already preceded in the discussion of Allah's statement, هَمَّازٍ مَّشَّأءِ بِنَمِيمٍ Hammaz, going about with slander (68:11) Ibn Abbas said, "Humazah Lumazah means one who reviles and disgraces (others)." Mujahid said, "Al-Humazah is with the hand and the eye, and Al-Lumazah is with the tongue." Then Allah says, الَّذِي جَمَعَ مَالاً وَعَدَّدَهُ

وزنی بیڑیاں اور قید و بند کو یاد رکھو: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے زبان سے لوگوں کی عیب گیری کرنے والا اپنے کاموں سے دوسروں کی حقارت کرنے والا ، خرابی والا شخص ہے ۔ ھماز مشآء بنمیم کی تفسیر بیان ہو چکی ہے حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے مراد طعنہ دینے والا غیبت کرنے والا ہے ربیع بن انس کہتے ہیں سامنے برا کہنا تو ہمز ہے اور پیٹھ پیچھے عیب بیان کرنا لمز ہے ۔ قتادہ کہتے ہیں زبان سے اور آنکھ کے اشاروں سے بندگان اللہ کو ستنا اور چڑانا مراد ہے کہ کبھی تو ان کا گوشت کھائے یعنی غیب کرے اور کبھی ان پر طعنہ زنی کرے مجاہد فرماتے ہیں ہمز ہاتھ اور آنکھ سے ہوتا ہے اور لمز زبان سے بعض کہتے ہیں اس سے مراد اخنس بن شریف کافر ہے مجاہد فرماتے ہیں آیت عام ہے پھر فرمایا جو جمع کرتا ہے اور گن گن کر رکھتا جاتا ہے جیسے اور جگہ ہے جمع فاوعیٰ حضرت کعب فرماتے ہیں دن بھر تو مال کمانے کی ہائے وائے میں لگا رہا اور رات کو سڑی بھسی لاش کی طرح پڑ رہا اس کا خیال یہ ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ دنیا میں رکھے گا حالانکہ واقعہ یوں نہیں بلکہ یہ بخیل اور لالچی انسان جہنم کے اس طبقے میں گے گا جو ہر اس چیز کو جو اس میں گرے چور چور کر دیتا ہے پھر فرماتا ہے یہ توڑ پھوڑ کرنے والی کیا چیز ہے؟ اس کا حال اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں معلوم نہیں یہ اللہ کی سلگائی ہوئی آگ ہے جو دلوں پر چڑھ جاتی ہے جلا کر بھسم کر دیتی ہے لیکن مرتے نہیں حضرت ثابت بنائی جب اس آیت کی تلاوت کر کے اس کا یہ معنی بیان کرتے تو رو دیتے اور کہتے انہیں عذاب نے بڑا ستایا محمد بن کعب فرماتے ہیں آگ جلاتی ہوئی حلق تک پہنچ جاتی ہے پھر لوٹتی پھر پہنچی ہے یہ آگ ان پر چاروں طرف سے بند کر دی گئی ہے جیسے کہ سورہ بلد کی تفسیر میں گذرا ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے اور دوسرا طریق اس کا موقوف ہے لوہا جو مثل آگ کے ہے اس کے ستونوں میں بہ لمبے لمبے دروازے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأت میں بعمد مروی ہے ان دوزخیوں کیگ ردنوں میں زنجیریں ہوگی یہ لمبے لمبے ستونوں میں جکڑے ہوئے ہوں گے اور اوپر سے دروازے بند کر دئیے جائیں گے ان آگ کے ستونوں میں انہیں بدترین عذاب کیے جائیں گے ابو صالح فرماتے ہیں یعنی وزنی بیڑیاں اور قیدوبند ان کے لیے ہوں گی اس سورت کی تفسیر بھی اللہ کے فضل و کرم سے پوری ہوئی فالحمداللہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ھمزۃ اور لمزۃ، بعض کے نزدیک ہم معنی ہیں بعض اس میں کچھ فرق کرتے ہیں۔ ھمزۃ وہ شخص ہے جو رو در رو برائی کرے اور لمزۃ وہ جو پیٹھ پیچھے غیمت کرے۔ بعض اس کے برعکس معنی کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں ھمز، آنکھوں اور ہاتھوں کے اشارے سے برائی کرنا ہے اور لمز زبان سے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] ھَمَزَ کا لغوی مفہوم :۔ ھُمَزَۃٌ : ھَمَزَ بمعنی کسی شخص کی کسی حرکت، کام یا بات پر طعن وتشنیع کرنا، خواہ وہ کام طعن وتشنیع کے قابل ہو یا نہ ہو۔ نیز یہ طعن وتشنیع زبان سے کی جائے یا آنکھوں کے اشارے سے ہی کام چلا لیا جائے اور لَمَزَ بمعنی کسی کے عیب تلاش کرتے رہنا اور اس ٹوہ میں رہنا کہ اس کا کوئی کمزور پہلو ہاتھ آجائے۔ عیب جوئی یا عیب چینی کرنا پھر دوسرے سے ایسی باتوں کی غیبت کرنا۔ اس آیت میں دراصل ان معززین قریش کو متنبہ کیا جارہا ہے جو ہر وقت مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کا مذاق اڑاتے، ایک دوسرے کو آنکھیں مارتے، جو غلطیاں ان کی نظر میں معلوم ہوتیں ان پر طعن وتشنیع کرتے اور جو باتیں معلوم نہ ہوتیں ان کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ تمہاری ایسی حرکتوں کا انجام تمہاری اپنی تباہی اور ہلاکت ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ویل لکل ھمزۃ لمزۃ :” ھمزۃ لمزۃ “ ” ھمز بھمر ھمزا “ (ن، ض) اور ” لمز یلمز لمزا “ (ن، ض) سے مبالغے کے صیغے ہیں، دونوں کے معنی آپس میں اس قدر ملتے ہیں کہ بعض نے انہیں ہم معنی قرار دیا ہے اور بعض نے فرق کیا ہے۔ دونوں کے مفہوم میں ” اشارہ بازی، طعن اور عیب لگانا “ شامل ہے۔ دوسری جگہ فرمایا :(ولا تطع کل حلاف مھین، ھماز مشآء بمیم) (القلم : ١٠، ١١)” ہر بہت قسمیں کھانے والے حقیر کی اطاعت نہ کر۔ جو بہت طعنہ مارنے والا (یا عیب لگانے والا) ، چغلی میں بہت دوڑ دھوپ کرنے والا ہے۔ “ اور فرمایا :(ولا تلمزوآ انفسکم) (الحجرات : ١١) ” اور تم آپس میں عیب نہ لگاؤ۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Warning against dreadful end of those committing three obnoxious sins This Surah warns of the severe punishment on three grave sins, and then highlights the nature of that severe punishment. The three sins are backbiting, deriding and selfish hoarding of wealth. The words hamz and lamz are used in several senses. Most commentators agree that the word hamz, from which is derived the word humazah, means to &backbite&, that is, to speak ill of a person behind his back. The word lamz, from which is derived the word lumazah, means to &slander& or &to deride&, that is, to speak ill of a person to his face. Both these sins are morally and socially obnoxious and deadly. The Qur&an and the Sunnah have sounded a stern warning against these sins. However, &backbiting& is, from one perspective, worse than &slander&. &Backbiting& is worse because the ill of a person is spoken behind his back; the victim is not present to defend himself and put an end to it; thus the sin continues to be committed to a greater and increasing degree. &Slander&, on the other hand, though an obnoxious sin in itself, is relatively less in degree than backbiting, because the victim is present to defend himself and put an end to face-to-face insulting or fault-finding with him. From another perspective &slander& is worse than &backbiting&, because to speak ill of a person to his face is tantamount to insulting him and denigrating him. This is morally and socially more harmful and hurting, and therefore its punishment is more dreadful. According to a Hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said, شِرارُ عِبَادِ اللہِ تَعَالٰی المَشَّاءُونَ بِالنَّمِیمَۃِ المُفَرِّقُونَ بَینَ الاَحبَّۃِ البَاعُونَ البُرَآَءَ العنت |"The worst servants of Allah are those who speak ill of someone, creating enmity between friends and finding fault with innocent people.|"

خلاصہ تفسیر بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کے لئے جو پس پشت عیب نکالنے الا ہو (اور) رو در رو طعنہ دینے والا ہو جو (بہت حرص کی وجہ سے) مال جمع کرتا ہو اور (اس کی محبت اور اس پر فخر کے سبب) اس کو بار بار گنتا ہو (اس کے برتاؤ سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا) وہ خیال کر رہا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا (یعنی مال کی محبت میں ایسا انہماک رکھتا ہو جیسے وہ اس کا معتقد ہے کہ ہو خود بھی ہمیشہ زندہ رہیگا اور اس کا مال بھی ہمیشہ یوں ہی رہے گا حالانکہ یہ مال اس کے پاس) ہرگز نہیں (رہے گا، آگے اس ویل یعنی خربای کی تفصیل ہے کہ) واللہ وہ شخص ایسی آگ میں ڈالا جائے گا جس میں جو کچھ پڑے وہ اس کو توڑ پھوڑ دے، اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ وہ توڑنے پھوڑنے والی آگ کیسی ہے وہ اللہ کی آگ ہے جو (اللہ کے حکم سے) سلگائی گئی ہے (آگ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنیں اس آگ کے سخت اور ہولناک ہونے کی طرف اشارہ ہے اور وہ ایسی ہے) جو (بدن کو لگتے ہی) دلوں تک جا پہنچے گی وہ (آگ) ان پر بند کردی جاویگی (اس طرح سے کہ وہ لوگ آگ کے) بڑے لمبے لمبے سوتنوں میں (گھرے ہوئے ہوں گے) جیسے کسی کو آگ کے صندوقوں میں بند کردیا جائے) معارف وسائل اس سورت میں تین سخت گناہوں پر عذاب شدید کی وعید اور پھر اس عذاب کی شدت کا بیان ہے وہ تین گناہ یہ ہیں ہمز، لمز، جمع مال، ہمز اور لمز چند معانی کے لئے استعمال ہوتے ہیں، اکثر مفسرین نے جس کو اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہمز کے معنی غیبت یعنی کسی کے پیٹھ پیچھے اس کے عیوب کا تذکرہ کرنا ہے اور لمز کے معنے آمنا سامنے کسی کو طعنہ دینے اور برا کہنے کے ہیں، یہ دونوں ہی چیزیں سخت گناہ ہیں۔ غیبت کی وعیدیں قرآن و حدیث میں زیادہ ہیں جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس گناہ کے اشتعال میں کوئی رکاوٹ سامنے نہیں ہوتی جو اس میں مشغول ہو تو بڑھتا چڑھتا ہی چلا جاتا ہے اس لئے گناہ بڑے سے بڑا اور زیادہ سے زیادہ ہوتا جاتا ہے بخلاف آمنا سامنے کہنے کے کہ وہاں دوسرا بھی مدافعت کے لئے تیار ہوتا ہے اس لئے گناہ میں امتداد نہیں ہوتا، اس کے علاوہ کسی کے پیچھے اس کے عیوب کا تذکرہ اس لئے بھی بڑا ظلم ہے کہ اس کو خبر بھی نہیں کہ مجھ پر کیا الزام لگایا جا رہا ہے کہ اپنی صائی پیش کرسکے۔ اور ایک حیثیت سے لمز زیادہ شدید ہے، کسی کے روبرو اس کو برا کہنا اس کی توہین و تذلیل بھی ہے، اور اس کی ایذا بھی اشد ہے اسی اعتبار سے اس کا عذاب بھی اشد ہے۔ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شرار عباد اللہ تعالیٰ المشاءون بالتمیمة المفرقون بین الاحبة الباعون البرآء العنت یعنی اللہ کے بندوں میں بدترین وہ لوگ ہیں جو چغلخوری کرتے ہیں اور دوستوں کے درمیان فساد ڈلواتے ہیں اور بےگناہ لوگوں کے عیب تلاش کرتے رہتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيْلٌ لِّكُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۨ۝ ١ ۙ ويل قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر . ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا [ مریم/ 37] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ، وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ، يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] . ( و ی ل ) الویل اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] سو لوگ ظالم ہیں ان کی خرابی ہے ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ تول میں کمی کر نیوالا کے لئے کر ابی ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52]( اے ہے) ہماری خواب گا ہوں سے کسی نے ( جگا ) اٹھایا ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ہائے شامت بیشک ہم ظالم تھے ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے ۔ همز الْهَمْزُ کالعصر . يقال : هَمَزْتُ الشیء في كفّي، ومنه : الْهَمْزُ في الحرف، وهَمْزُ الإنسان : اغتیابه . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] يقال : رجل هَامِزٌ ، وهَمَّازٌ ، وهُمَزَةٌ. قال تعالی: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] وقال الشّاعر : وإن اغتیب فأنت الْهَامِزُ اللُّمَزَهْ وقال تعالی: وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّياطِينِ [ المؤمنون/ 97] . ( ھ م ز ) الھمز کے آصل معنی کسی چیز کو دبا کر نچوڑ نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ ھمزت الشئی فی کفی میں نے فلاں چیز کو اپنی ہتھیلی میں دبا کر نچوڑ اور اس سے حرف ہمزہ ہے جو کہ زبان جو جھٹکا د ے کر پڑھا جاتا ہے اور ھمز کے معنی غیبت کرنا بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] طعن آمیز شارتیں کر نیوالا چغلیاں لئے پھر نیوا لا اور ھامز وھمزۃ وھما ز کے معنی عیب چینی کرنے والا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ ؎ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 456 ) وان غتبت فانت الھا مز اللمزۃ اگر غیبت کی جائے تو تو طعن آمیز اشارتیں کرنے والا بد گو ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّياطِينِ [ المؤمنون/ 97] کہو اے پروردگار میں شیاطین کے وسا س پناہ مانگتا ہوں ۔ لمز اللَّمْزُ : الاغتیاب وتتبّع المعاب . يقال : لَمَزَهُ يَلْمِزُهُ ويَلْمُزُهُ. قال تعالی: وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقاتِ [ التوبة/ 58] ، الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ [ التوبة/ 79] ، وَلا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ [ الحجرات/ 11] أي : لا تلمزوا الناس فيلمزونکم، فتکونوا في حکم من لمز نفسه، ورجل لَمَّازٌ ولُمَزَةٌ: كثير اللّمز، قال تعالی: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] . ( ل م ز ) لمزہ ( ض ن ) لمزا کے معنی کسی کی غیبت کرنا ۔ اس پر عیب چینی کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ لمزہ یلمزہ ویلمزہ ۔ یعنی یہ باب ضرفب اور نصر دونوں سے آتا ہے قرآن میں ہے : الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ [ التوبة/ 79] اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ تقسیم صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں ۔ جو رضا کار انہ خیر خیرات کرنے والوں پر طنزو طعن کرتے ہیں ۔ وَلا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ [ الحجرات/ 11] اور اپنے ( مومن بھائیوں ) پر عیب نہ لگاؤ۔ یعنی دوسروں پر عیب نہ لگاؤ ورنہ ودتم پر عیب لگائیں گے ۔ اسی طرح گویا تم اپنے آپ عیب لگاتے ہو ۔ رجل لما ر و لمزۃ ۔ بہت زیادہ عیب جوئی اور طعن وطنز کرنے والا ۔ قرآن میں ہے : وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز آشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(1 ۔ 2) ایسے شخص کے لیے سخت عذاب ہے جو لوگوں کی پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے والا ہو اور ان کے مونہہ پر طعنے دینے والا ہو۔ یہ آیت اخنس بن شریق یا یہ کہ ولید بن مغیرہ کے متعلق نازل ہوئی ہے وہ رسول اکرم کی غیبت کیا کرتا تھا اور آپ کے سامنے آپ کو طعنہ دیتا تھا اور جو دنیا میں مال جمع کرتا ہو اور گن گن کر رکھتا ہو۔ شان نزول : ویل لکل ھمزۃ لمزۃ الخ ابن ابی حاتم نے حضرت عثمان اور حضرت عمر سے روایت کیا ہے کہ ہم برابر سنتے ہیں کہ یہ آیت ابی بن خلف کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ سدی سے روایت کیا گیا ہے کہ یہ اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ابن جریر نے روایت کیا ہے کہ یہ جمیل بن عام رجہمی کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ابن منذر نے ابن اسحاق سے روایت کیا ہے کہ امیہ بن خلف جس وقت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتا تو آپ کو طعنہ دیا کرتا تھا اس کے بارے میں یہ پوری سورت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ ۔ } ” بڑی خرابی ہے ہر اس شخص کے لیے جو لوگوں کے عیب ُ چنتا رہتا ہے اور طعنے دیتا رہتا ہے۔ “ ہُمَزَۃ اور لُمَزَۃ دونوں الفاظ معنی کے اعتبار سے باہم بہت قریب ہیں ۔ بعض اہل لغت کے نزدیک روبرو طعنہ زنی کرنے والے کو ہُمَزَۃ اور پس پشت عیب جوئی کرنے والے کو لُمَزَۃ کہتے ہیں ‘ جبکہ بعض اہل لغت نے ان کا معنی برعکس بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس - کا قول ہے کہ ہر چغلی کھانے والے ‘ دوستوں میں جدائی اور تفرقہ ڈالنے والے ‘ بےقصور اور بےعیب انسانوں میں نقص نکالنے والے کو ہُمَزَۃ اور لُمَزَۃ کہتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 The words used in the original are humazat il-lumazah. In Arabic hamz and lamz are so close in meaning that they are sometimes used as synonyms and sometimes with a little difference in the shade of meaning. But this difference is not definite and clear, for the meaning given to lamz by some Arabic speaking people themselves is given to lamz by other Arabic speaking peoples. On the contrary, the meaning given to harm by some people is given to hamz by others. Here, since both the words appear together and the words humazat il-lumazat have been used, they give the meaning that it has become a practice with the slanderer that he insults and holds others in contempt habitually. He raises his finger and winks at one man, finds fault with the lineage and person of another, taunts one in the face and backbites another; creates differences between friends and stirs up divisions between brothers; calls the people names and satirizes and defames them.

سورة الھمزۃ حاشیہ نمبر : 1 اصل الفاظ ہیں هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ۔ عربی زبان میں ھمز اور لمز معنی کے اعتبار سے باہم اتنے قریب ہیں کہ کبھی دونوں ہم معنی استعمال ہوتے ہیں اور کبھی دونوں میں فرق ہوتا ہے ، مگر ایسا فرق کہ خود اہل زبان میں سے کچھ لوگ ھمز کا جو مفہوم بیان کرتے ہیں ، کچھ دوسرے لوگ وہی مفہوم لمز کا بیان کرتے ہیں ، اور اس کے برعکس کچھ لوگ لمز کے جو معنی بیان کرتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے نزدیک ھمز کے معنی ہیں ۔ یہاں چونکہ دونوں لفظ ایک ساتھ آئے ہیں اور هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اس لیے دونوں ملکر یہ معنی دیتے ہیں کہ اس شخص کی عادت ہی یہ بن گئی ہے کہ وہ دوسروں کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے ، کسی کو دیکھ کر انگلیاں اٹھاتا اور آنکھوں سے اشارے کرتا ہے ، کسی کے نسب پر طعن کرتا ہے ، کسی کی ذات میں کیڑے نکالتا ہے ، کسی پر منہ در منہ چوٹیں کرتا ہے ، کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں کرتا ہے ، کہیں چغلیاں کھا کر اور لگائی بجھائی کر کے دوستوں کو لڑواتا اور کہیں بھائیوں میں پھوٹ ڈلواتا ہے ، لوگوں کے برے برے نام رکھتا ہے ، ان پر چوٹیں کرتا ہے اور ان کو عیب لگاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: پیٹھ پیچھے کسی کا عیب بیان کرنا غیبت ہے، سورۂ حجرات (۴۹:۱۲) میں نہایت گھناونا گناہ قرار دیا گیا ہے، اور کسی کے منہ پر طعنے دینا جس سے اُس کی دِل آزاری ہو، اُس سے بھی بڑا گناہ ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٩۔ دنیا میں اگر آگ آدمی کے جسم میں اس طرح لگے کہ دل تک پہنچ جائے تو آدمی فوراً مرجائے کیونکہ دل پر کوئی صدمہ پہنچے تو آدمی اس کی برداشت نہیں کرسکتا دوزخ کے عذاب میں یہ ایک اور سخت تکلیف ہے کہ دوزخی شخص ناقابل برداشت عذاب متواتر جھیلے گا اور پھر بےحیا زیست جیتا رہے گا۔ اسی واسطے سبح اسم میں فرمایا کہ دوزخی لوگ نہ زندوں میں ہوں گے نہ مردوں میں تفسیر ابن منذر ١ ؎ وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین مکہ میں بعض شخصوں کو چغل خوری اور لوگوں کی نقلیں لگانے کی عادت تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تنبیہ میں یہ سورة نازل فرمائی۔ دوزخ کے دروازے اس طرح بند کئے جائیں گے کہ کہیں سے روشنی نظر نہ آئے گی اور تین ہزار برس کے سلگانے سے دوزخ کی آگ کا رنگ تو کالا ہے جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اس واسطے دوزخ میں بالکل اندھیرا ہوگا اور آگ کے لمبے لمبے ایک طرح کے ستون کی صورت کے تابوت ہوں گے جن میں بعض دوزخیوں کو بند کرکے اوپر سے کیلیں جڑ دی جائیں گی وہی ذکر اس سورة میں ہے۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٩٢ ج ٦۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(104:1) ویل لکل ھمزۃ لمزۃ۔ ویل مبتدا۔ لکل ھمزۃ لمزۃ اس کی خبر۔ ویل دوزخ کی ایک وادی کا نام۔ عذاب، ہلاکت، عذاب کی شدت۔ لکل ھمزۃ۔ لام حرف جار۔ کل ھمزۃ ، مضاف مضاف الیہ مجرور لمزۃ معطوف : اس کا عطف ھمزۃ پر ہے۔ واؤ عاطفہ محذوف ہے۔ ھمزۃ صیغہ صفت برائے مبالغہ۔ بڑا عیب گو۔ بہت غیبت کرنے والا۔ طعن کرنے والا۔ ھمز (باب ضرب و نصر ) مصدر۔ بطور طعن آنکھ سے اشارہ کرنا۔ چھبونا۔ عیب گوئی کرنا۔ دور کرنا۔ مارنا۔ کاٹنا۔ توڑنا۔ اور صرف باب نصر سے، زمین پر پٹکنا۔ ھمز الشیطن شیطانی وسوسہ ھمز کی جمع ھمزات ہے۔ مھمز۔ مھماز۔ وار کے جوتے کی ایڑی پر جو لوہا نکلا ہوتا ہے اور اس سے گھوڑے کے پہلو پر (تیز چلانے کے لئے) مارتا ہے۔ مھمزۃ (اردو میں مہمیز) کوڑا ۔ کو بہ۔ لاٹھی۔ وہ لکڑی جس کے سرے پر کیل لگی ہوتی ہے اور اس سے جانور کے آر چبھوئی جاتی ہے ھماز۔ بڑا عیب گو۔ (مبالغہ کا صیغہ) ھمزۃ کا ہم معنی ہے۔ لمزۃ۔ یہ لمز (باب ضرب) مصدر سے صیغہ صفت برائے مبالغہ ہے۔ لماز بھی بمعنی لمزۃ ہے۔ یعنی عیب چین۔ غیبت کرنے والا۔ پس پشت برائی کرنے والا۔ لمز کا معنی ہے طعن کرنا۔ چبھونا۔ ابرو اور آنکھ سے بطور طنز اشارہ کرنا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ ومنھم من یلمزک فی الصدقت (9:58) اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ تقسیم صدقات میں تم پر طعن زنی کرتے ہیں۔ ترجمہ ہوگا :۔ ہلاکت ہے ہر اس شخص کے لئے جو روبرو طعنے دیتا ہے اور پس پشت عیب جوئی کرتا ہے۔ ھمزۃ لمزۃ کی تشریح کرتے ہوئے صاحب تفہیم القرآن رقمطراز ہیں :۔ اصل الفاظ ہیں ھمزۃ لمزۃ۔ عربی زبان میں ھمز و لمز معنی کے اعتبار سے باہم اتنے قریب ہیں کہ کبھی دونوں ہم معنی استعمال ہوتے ہیں اور کبھی دونوں میں فرق ہوتا ہے مگر ایسا فرق کہ خود اہل زبان میں سے کچھ لوگ ھمز کا جو مفہوم بیان کرتے ہیں کچھ دوسرے لوگ وہی مفہوم لمز کا بیان کرتے ہیں اور اس کے برعکس کچھ لوگ لمز کو جو معنی بیان کرتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے قریب ھمز کے معنی ہیں۔ یہاں چونکہ دونوں لفظ ایک ساتھ آئے ہیں کہ اس شخص کی عادت ہی یہ بن گئی ہے کہ وہ دوسروں کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے کسی کو دیکھ کر انگلیاں اٹھاتا اور آنکھوں سے اشارے کرتا ہے کسی کے نسب پر طعن کرتا ہے کسی کی ذات میں کیڑے نکالتا ہے کبھی منہ در منہ چوٹیں کرتا ہے کبھی کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں کرتا ہے کہیں چغلیاں کھا کر اور لگائی بجھائی کرکے دوستوں کو لڑواتا ہے اور کہیں بھائیوں میں پھوٹ ڈلواتا ہے لوگوں کے برے نام رکھتا ہے ان پر چوٹیں کرتا ہے اور ان کو عیب لگاتا ہے۔ قرآن مجید کی عبارت میں لمزۃ ن الذی آیا ہے۔ یہ چھوٹا سا نون۔ نون قطنی کہلاتا ہے۔ جس حرف پر تنوین ہو اور اس کے بعد والے حرف پر جزم ہو تو اس تنوین کو نون نون قطنی کہتے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے :۔ مثل الذین کفروا بربھم اعمالہم کرماد ن اشتدت بہ الریح فی یوم عاصف (14:18) جن لوگوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال راکھ کی سی ہے کہ آندھی کے دن اس پر زور کی ہوا چلے (اور) اسے اڑا کرلے جائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی جو منہ پیا پیٹھ پیچھے لوگوں کے عیب بیان کرتا ہے۔ ” ویل “ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے، دوزخ کی ایک وادی کا نام بھی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الھمزہ۔ آیات ١ تا ٩۔ اسرار ومعارف۔ بہت بڑی خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اسلام پر عمل کرنے کی بجائے طعنہ زنی اختیار کی اور اعتراضا تراشتے رہے بات صرف یہ تھی کہ وہ دولت دنیا سمیٹنا چاہتے تھے حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیر مال بڑھاتے رہے اور گن گن کر خوش ہوتے رہے کہ شاید ہمیشہ ان کے پاس رہے گا ایسا ہرگز نہ ہوگا یہاں سے سب چھوڑ کر جانا ہے اور آخرت میں روندنے والی جہنم میں پھینکے جائیں گے جو جہنم کا وہ حصہ ہے جس کی آگ اتنی سخٹ ہے کہ کہیں بدن کو چھوجائے تو شعلہ دل میں جابھڑکتا ہے اور ایسے لوگوں کونہ صرف ان میں ڈالا جائے گا بلکہ یہ اس کے بڑے بڑے ستونوں میں گھرے ہوں گے اور اوپر سے بند کردیاجائے گا جیسے کسی کو صدوق وغیرہ میں ڈھک دیاجائے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ ویل۔ خرابی۔ بربادی۔ ھمزۃ۔ طعنے دینے والا۔ لمزۃ۔ عیب تلاش کرنے والا۔ عدد۔ اس نے گنا۔ اخلد۔ ہمیشہ رہے گا۔ لینبذن۔ البتہ ضرور پھینکا جائے گا۔ الموقدۃ۔ بھڑکائی گئی۔ تطلع۔ جا پہنچے گی۔ عمد۔ ستون۔ ممددۃ۔ لمبے لمبے۔ تشریح : دین اسلام میں حلال اور جائز طریقے سے مال و دولت حاصل کرنے، سرمایہ رکھنے اور سرمایہ دار کہلانے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ بلکہ اگر مال و دولت اللہ کی رضا و خوشنودی اور اس کے بندوں کی خدمت اور مدد کے لئے ہو تو یہ ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ البتہ دین اسلام نے اس سرمایہ پرستی کو حرام قرار دیا ہے جس کا مقصد صرف ذاتی آرام و سکون اور دوسروں کو ستانا اور بداخلاقیوں کو عام کرنا ہے۔ سرمایہ پرستی سے معاشرہ میں بدترین اخلاقی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں مثلاً اپنے علاوہ ہر ایک کو کم تر اور حقیر و ذلیل سمجھنا، ان کو طرح طرح کے طعنے دینا، ان کی کمزوریوں کو اچھالنا، سامنے اور پیٹھ پیچھے اس طرح ذکر کرنا کہ ایک غریب اور شریف آدمی بدنام ہو کر رہ جائے۔ دوسری خرابی یہ پیدا ہوتی ہے کہ آدمی کے پاس جتنا سرمایہ جمع ہوتا جاتا ہے اس میں اسی قدر مزید حاصل کرنے کا لالچ اور کنجوسی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ وہ کسی ضرورت مند کی مدد نہیں کرتا، اپنے مال کو گن گن کر رکھتا ہے۔ اس کی حفاظت کے ہزاروں جتن کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ مال و دولت، اونچی بلڈنگیں اور اعلیٰ ترین سواریاں ہمیشہ اس کے پاس رہیں گی۔ حالانکہ یہ دولت دنیا کی سب سے بےوفا چیز ہے آج اس کے پاس کل دوسرے کے پاس وہ مال و دولت جو (نیکی اور بھلائی کے لئے خرچ نہ کی جائے) اس کے قبر میں بھی کام نہیں آتی سارے ٹھاٹ باٹھ موت کے ایک جھٹکے سے ختم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جب وہ اس دنیا ہی میں کام نہ آئی تو آگے کی منزلوں میں کیا کام آئے گی ؟ البتہ اگر کسی نے مال و دولت اپنے بال بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے، انسانیت کی بھلائی اور خیر کیلئے کمایا ہے اور اللہ نے اس پر جتنے فرائض مقرر کئے ہیں ان کو بھی ادا کرتا ہے تو یہ مال و دولت اس کے اس دنیا میں بھی کام آتا ہے، قبر کی روشنی اور آخرت میں نجات کا سامان بھی بن جائے گا۔ سورۃ الھمزہ میں ایسے کنجوس سرمایہ پرستوں کے دو بڑے بڑے عیبوں کا ذکر فرمایا ہے جو ان کو تبارہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ 1۔ ہمزہ۔ 2۔ لمزہ۔ ھمزہ کے معنی ہیں پیٹھ پیچھے کسی کے عیب اور کمزوریوں کو باتوں اور اشاروں سے بیان کرنا، غیبت اور چغل خوری کرنا، مذاق آرانا، پھبتیاں کسنا، بدنام کرنا، بےگناہ پر الزام لگانا یہ سب باتیں اللہ کو سخت ناپسند ہیں جو آخر کار اس کو جہنم تک پہنچا کر چھوڑیں گی۔ لمزہ کے معنی ہیں کسی کے منہ پر اس کو طعنے دینا، ذلیل و رسوا کرنا، برا کہنا، کسی کے جذبات و احساسات کا خیال نہ کرنا، کسی غریب اور مجبور کو اس طرح ذلیل و خوار کرنا کہ وہ خود ہی اپنی نظروں میں اور دوسروں کی نظروں میں حقیر اور بےعزت بن کر رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ھمزہ اور لمزہ دونوں ایسے عیب ہیں جنہیں اللہ پسند نہیں کرتا۔ اس کے برخلاف مومن سرمایہ دار کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر طرح کی عیب جوئی، غیبت، چغل خوری، الزام ترازی اور کسی کے دل کو دکھانے کو گناہ سمجھتا ہے اور اپنی دولت کو دین کی سربلندی پر خرچ کرتا ہے اور خرچ کرکے کسی پر احسان بھی نہیں رکھتا۔ یہ عادت اور خصلت اللہ کو بہت پسند ہے جو دنیا اور آخرت میں اس کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اسی لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ مومن کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ نہ تو کسی کو طعنے دیتا ہے نہ لعنت کرتا ہے نہ فحش بکتا ہے اور نہ بےحیائی کرتا ہے۔ (ترمذی) ۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا اور کفار قریش کو ان کی بری روش، رسموں اور بتوں کی عبادت و بندگی سے روکنے کی کوشش کی تو ابتداء میں آپ کا مذاق اڑایا گیا، طعنے دئیے گئے اور دین کے لئے رکاوٹ بننا شروع ہوئے پھر قریش کے سرمایہ پرستوں نے اپنی ذھنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ھمزہ اور لمزہ کا پیکر بن کر اہل ایمان کو ہر طرح ستانا شروع کیا اور پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) پر رعب کی سرزمین کو تنگ کردیا۔ اللہ نے کفار قریش اور قیامت تک آنے والے سرمایہ پرستوں سے فرمایا ہے کہ وہ عیب نکالنے، طعنے دینے اور مال کو گن گن کر رکھنے اور یہ سمجھنے سے باز رہیں کہ یہ مال و دولت ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا۔ اگر انہوں نے اپنی روش کو نہ بدلا تو تو ان کو ” حطمہ “ میں پھینکا جائے گا اور وہاں ان کا مال اور ان کی دولت ان کے کسی کام نہ آسکے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلو ہے کہ ” حطمہ “ کیا ہے ؟ فرمایا کہ وہ ایسی آگ ہے جو کافروں کے دلوں تک جا پہنچے گی پھر اس جہنم کو اوپر سے بند کردیا جائے گا وہ کفار مشرکین لمبے لمبے ستونوں سے باندھ دئیے جائیں گے یا اس جہنم کی آگ کی لپیٹیں لمبے لمبے ستونوں کی طرح شعلے مار رہی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس جہنم سے محفوظ فرمائے اور سرمایہ پرستی کی لعنت سے محفوظ رکھے۔ آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : العصر میں انسان کے نقصان اٹھانے کی بات ہوئی یہاں بتلایا ہے کہ جو لوگ آخرت میں نقصان اٹھائیں گے وہ یہ ہوں گے جو آخرت کی فکر کرنے کی بجائے دنیا کا مال گن گن کر رکھتے تھے اور اس کا حق ادا نہیں کرتے تھے۔ ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کی عیب جوئی کرتا اور ان کی پیٹھ پیچھے ان کی غیبت کرتا ہے۔ ” ھُمَزَۃٍ “ اور ” لُمَزَۃِ “ الگ الگ معنٰی رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اس لیے کچھ مفسرین نے دونوں کا ایک ہی مفہوم بیان کیا ہے۔ بنیادی طور پر ” ھُمَزَۃٍ “ اور ” لُمَزَۃِ “ میں ایک لطیف فرق ہے۔” ھُمَزَۃٍ “ کا معنٰی عیب جوئی اور طعن زنی کرنا ہے۔” لُمَزَۃِ “ کا معنٰی چغل خوری کرنا ہے۔ جس میں یہ عیب پائے جائیں اس کے لیے ہلاکت ہوگی۔ دنیا میں ایسے شخص کے لیے ہلاکت یہ ہے کہ بالآخر وہ لوگوں کی نظروں میں حقیر اور ذلیل ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی چغل خوری کی وجہ سے لوگوں میں نفرتیں پیدا ہوتیں ہیں اور اس کی عیب جوئی اور طعنہ زنی کی وجہ سے لوگ اس کے ساتھ میل جول رکھنے سے اجتناب کرتے ہیں،” وَیْلٌ“ کا دوسرا معنٰی جہنم ہے، جو شخص یہ عادتیں رکھتا ہے وہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔ ایسے شخص کے پاس مال ہو تو وہ اسے خرچ کرنے کی بجائے گِن گِن کر رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا۔ ایسا شخص وہ پَر لے درجے کا بخیل ہوتا ہے، بخیل آدمی خیال کرتا ہے کہ خرچ کرنے سے اس کا مال ختم ہوجائے گا، جب مال ختم ہوجائے گا تو پھر میں کس طرح زندگی بسر کروں گا۔ گویا کہ اس کا اپنے رب کی رزّاقی پر یقین نہیں ہوتا حالانکہ مال کسی کا ساتھ نہیں دیتا، کتنے مالدار مریض ہیں کہ سب کچھ ہونے کے باوجود نہ میٹھی چیز کھا سکتے ہیں اور نہ نمکین کھا سکتے ہیں۔ کمزوری لاحق ہونے کے باوجود کوئی طاقتورچیز نہیں کھاسکتے۔ کیونکہ اس طرح ان کی بیماریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ ڈاکٹر بھی انہیں لا علاج قرار دے دیتے ہیں۔ جس دولت کو یہ سنبھال سنبھال کر رکھتارہا اور حق داروں کا حق ادا نہ کیا اس کے مال نے دنیا میں ہی اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے حالانکہ یہ سمجھتا تھا کہ مشکل کے وقت میرا مال مجھے کام دے گا۔ ایسے بخیل کو ضرور ” حُطَمَۃُ “ میں پھینکا جائے گا۔ اے نبی آپ نہیں جانتے کہ ” حُطَمَۃُ “ کیا ہے۔ وہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو لوگوں کے دلوں تک پہنچ جائے گی اور انہیں پوری طرح ڈھانپ لے گی، اس آگ کے شعلے اس قدر بلند ہوں گے کہ لمبے لمبے ستونوں کی شکل میں ہوں گے، جہنمیوں کو ان ستونوں کے ساتھ باندھ کر اوپر سے ڈھانپ دیا جائے گا، یہ اللہ تعالیٰ کی آگ ہوگی جسے مجرموں کے لیے بھڑکایا گیا ہے جو لوگوں کے دلوں پر چڑھ جائے گی۔ دلوں کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ طعنہ زنی کرنا، لوگوں کی چغل خوری کرنا اور بخل کرنے والے کے دل میں یہ جرائم رچ بس جاتے ہیں۔ ” اَلَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْءِدَۃِ “ کے الفاظ استعمال فرما کر ایسے لوگوں کو انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر اپنے دلوں اور جسموں کو آگ سے بچانا چاہتے ہو تو دل کے بخل اور کمینی حرکات سے باز آجاؤ ! ورنہ تمہیں بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی آگ قرار دے کر مزید ناراضگی اور غضب کا اظہار کیا ہے جس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔ “ (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ) مسائل ١۔ عیب جوئی اور طعنہ دینے والے اور چغل خوری کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے۔ ٢۔ مال کو گِن گِن کر رکھنے والے بخیل کے لیے ہلاکت ہے۔ ٣۔ طعنہ دینے والے، چغل خور اور بخیل کو بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکا جائے گا۔ ٤۔ جہنم کی آگ اللہ کے حکم سے بھڑکائی گئی ہے جو مجرموں کے دلوں پر چڑھ جائے گی۔ ٥۔ جہنم میں مجرموں کو آگ کے ستونوں سے باندھ کر اوپر سے ڈھانپ دیا جائے گا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اوپر سورة الہمزہ کا ترجمہ لکھا گیا ہے، اس میں ھُمَزَة اور لُمَزَة کی ہلاکت بتائی ہے یہ دونوں فُعَلَةٌ کے وزن پر ہیں۔ پہلے لفظ کے حروف اصلی ھ م ز، اور دوسرے کلمہ کے حروف اصلی ل، م، ز ہیں۔ یہ دونوں کلمے عیب نکالنے اور عیب دار بتانے پر دلالت کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ بھی وارد ہوئے ہیں اور سورة القلم میں ہے : ﴿وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍۙ٠٠١٠ هَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِيْمٍۙ٠٠١١﴾ اور سورة توبہ میں فرمایا ﴿وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ ﴾ اور سورة الحجرات میں فرمایا ﴿وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ﴾ حضرات مفسرین کرام نے دونوں کلموں کی تحقیق میں بہت کچھ لکھا ہے۔ خلاصہ سب کا یہی ہے کہ دونوں کلمے عیب لگانے، غیبت کرنے، طعن کرنے، آگے پیچھے کسی کی برائی کرنے پر دلالت کرتے ہیں۔ زبان سے برائی بیان کرنا یا ہاتھوں سے یا سر سے یا بھوؤں کے اشارہ سے کسی کو برا بتانا ہنسی اڑانا مجموعی حیثیت سے یہ دونوں کلمے ان چیزوں پر دلالت کرتے ہیں۔ (راجع تفسیر القرطبی صفحہ ١٨١، صفحہ ١٨٤ ج ١٠) مفسرین نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے یہ آیات اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئیں یہ لوگوں پر طعن کرتا تھا، ابن جریج (رح) کا قول ہے کہ ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں، جو غیر موجودگی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غیبت کرتا تھا اور سامنے بھی آپ کی ذات گرامی کا عیب نکالتا تھا۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ابی بن خلف کے بارے میں اور چوتھا قول یہ ہے کہ جمیل بن عامر کے بارے میں ان کا نزول ہوا۔ سبب نزول جو بھی ہو مفہوم اس کا عام ہے، جو لوگ بھی غیبت کرنے اور عیب لگانے اور بدزبانی اور اشارہ بازی کا مشغلہ رکھتے ہیں اور وہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں قرآن کریم میں ان لوگوں کے لیے ویل یعنی ہلاکت بتائی ہے۔ جن لوگوں کو اپنی عمر کی قدر نہیں ہوتی وہ دوسروں کے عیب ڈھونڈنے اور عیب لگانے اور غیبت کرنے اور تہمتیں باندھنے میں اپنی زندگی برباد کرتے ہیں۔ ذکرو فکر اور عبادت میں وقت لگانے کی بجائے ان باتوں میں وقت لگاتے ہیں اور اپنی جان کو ہلاک کرتے ہیں۔ حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤١١) ۔ حضرت عبدالرحمن بن غنم اور اسماء بنت یزید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے سب سے اچھے بندے وہ ہیں کہ جب انہیں دیکھا جائے تو اللہ یاد آجائے اور اللہ کے بد ترین بندے وہ ہیں جو چغلی کو لیے پھرتے ہیں دوستوں کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں جو لوگ برائیوں سے بری ہیں انہیں مصیبت میں ڈالنے کے طلب گار رہتے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤١٥) حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں نے صفیہ کا قد بیان کرتے ہوئے یوں کہہ دیا کہ صفیہ اتنی سی ہیں (ان کا قد چھوٹا بتادیا اور وہ بھی ازواج مطہرات میں سے ہیں) آپ نے فرمایا تو نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر وہ سمندر میں ملا دیا جائے تو اسے بھی بگاڑ کے رکھ دے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤١٢) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ طعنے دینے والا لعنت بکنے والا اور فحش کام میں لگنے والا مومن نہیں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤١٣) غیبت کے بارے میں مستقل مضمون سورة ٴ حجرات کے دوسرے رکوع کی تفسیر میں گزر چکا ہے اس کا مراجعہ کرلیا جائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” ویل “ ھمزۃ، غیبت کرنے والا اور پس پشت عیب جوئی کرنے والا۔ لمزۃ، منہ پر طعنہ دینے والا اور گالی گلوچ کرنے والا۔ یا ھمزۃ، منہ پر عیب جوئی کرنے والا اور لمزۃ، پس پشت عیب چینی کرنے والا اور چغلخور۔ وقال ابو العالیۃ والھسن و مجاھد وعطاء بن ابی رباح : الہمزۃ الذی یغتاب و یطعن فی وجہ الرج، واللمزۃ الذی یغتابہ من خلفہ اذا غاب (قرطبی ج 20 ص 181) ۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ان دونوں لفظوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو چغلی کھائیں اور دوستوں کو آپ میں لڑائیں اور بےگناہوں پر تہمتیں اور عیب لگائین۔ ھم المشاءون بالنمیمۃ، المفسدون بین الاحبۃ، الباغون للبراء العیب (ابن جریر) ہلاکت ہے ہر اس شخص کے لیے جو لوگوں کی غیبت کرے، ان کی عیب جوئی میں لگا رہے، احباب و اقارب میں پھوٹ دالے اور بےگناہوں پر تہمت لگائے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) ہر ایسے شخص کے لئے بڑی خرابی ہے جو عیب نکالنے والا اور طعنہ دینے والا ہو ھمز اور لمز کے معنی توڑنے اور شکستہ کرنے کے آتے ہیں یہاں مراد لوگوں کی عزت اور آبرو کو مجروح کرنے والا ابن عباس کا قول ہے ھمزہ بہت غیبت کرنیوالا اور لمزہ بکثرت عیب بیان کرنے والا ابو زید نے کہا ہاتھوں ، آنکھوں اور بھوئوں سے حقارت کرنے والا ھمزہ اور زبان سننے طعن کرنے والا المزہ ہے ابو العالیہ کا قول ہے ھمزہ وہ ہے جو لوگوں کو رو در رو برا کہے اور لمزہ وہ ہے جو پیٹھ پیچھے لوگوں کے عیب بیان کرے۔ مھزہ وہ ہے جو کھلم کھلا لوگوں کے عیب بیان کرے۔ لمزہ وہ ہے جو سر اور آنکھوں سے کسی کے لئے تحقیر آمیز اشارات کرے۔ بعض نے کہا ھمزہ اور لمزہ اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں کے برے لقب رکھے بہرحال آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایسے شخص کے لئے بڑی خرابی ہے جو پیٹھ پیچھے عیب نکالے اور سامنے آئے تو تعن وشنیع کرے۔