Surat ul Kafiroon

Surah: 109

Verse: 2

سورة الكافرون

لَاۤ اَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ۙ﴿۲﴾

I do not worship what you worship.

نہ میں عبادت کرتا ہوں اس کی جس کی تم عبادت کرتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

I worship not that which you worship. meaning, statues and rival gods. وَلاَ أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] کفار مکہ کی ایک خطرناک چال & حق وباطل میں سمجھوتہ :۔ اس سورت میں ان کافروں سے خطاب ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا ۚ فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ 68؀) 5 ۔ المآئدہ :68) ... (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورة الکافرون) جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے مکہ میں کچھ لوگ مسلمان ہوگئے تو کفار مکہ کو ابتدائ ً اسلام اور کفر میں سمجھوتے کی سوجھی اور اس کے لیے کئی راہیں اختیار کی گئیں۔ کبھی لالچ کا راستہ اور کبھی دھمکی اور دھونس کا راستہ۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ کفار نے یہاں تک پیش کش کردی کہ آپ چاہو تو ہم آپ کے قدموں میں مال و دولت کے انبار لگا دیتے ہیں۔ حکومت چاہو تو وہ بھی حاضر ہے۔ کسی مالدار اور حسین لڑکی سے شادی چاہتے ہو تو وہ بھی حاضر ہے مگر ہمارے معبودوں کی توہین نہ کیا کرو۔ منجملہ ایسی تدابیر کے ایک تدبیر یا تجویز یہ بھی تھی کہ کافروں نے آپ سے کہا کہ ایک سال ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معبود کی عبادت کیا کریں گے بشرطیکہ اگلے سال تم ہمارے معبودوں کی عبادت کرو۔ کفار کی یہ تدبیر کسی روا داری کی بنا پر نہیں تھی بلکہ ایک انتہائی خطرناک چال تھی۔ جس سے وہ دھوکا دے کر پیغمبر اسلام کو ان کے قدموں سے اکھیڑنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی معبود برحق بلکہ سب سے بڑا معبود تسلیم کرتے تھے۔ ان کا جرم تو صرف یہ تھا کہ وہ اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی بھی عبادت کیا کرتے تھے۔ اس لیے اس شرط سے نہ ان کے عقیدہ میں کچھ فرق آتا تھا اور نہ ہی طرز زندگی میں، جبکہ اللہ کے رسول کو وہ شرک کی نجاست میں مبتلا کرنا چاہتے تھے جسے مٹانے کے لیے ہی آپ کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ باطل کبھی اکیلا چل نہیں سکتا۔ جب تک اس میں کچھ نہ کچھ حق کی آمیزش نہ کی جائے۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ وہ اکیلا چل نہیں سکتا جب تک اس میں سچ کی آمیزش نہ ہو اور یہی ان کافروں کا مذہب تھا۔ جبکہ حق باطل کی ادنیٰ سی آمیزش بھی گوارا نہیں کرتا۔ اس لیے کہ حق میں باطل کی ادنیٰ سی آمیزش سے حق باطل بن جاتا ہے۔ جیسے ایک من دودھ میں اگر ایک پاؤ بھر پیشاب ملا دیا جائے تو سارے کا سارا نجس، پلید اور ناقابل استعمال ہوجاتا ہے۔ اسی مضمون کو کسی شاعر نے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے۔ ؎ باطل دوئی پرست ہے، حق لاشریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول کافروں کی اسی سمجھوتے کی تجویز کا جواب اس سورت میں دیا گیا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۝ ٢ ۙ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قل... ّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 This includes aII those deities whom the disbelievers and the polytheists have been, and are still, worshipping everywhere in the world, whether they are the angels, the jinn, prophets, saints, spirits of the living or dead men, or the sun, the moon, stars, animals, trees, rivers, idols and imaginary gods and goddesses. One may say that the pagans of Arabia acknowledged Allah also as a Deity and...  the other pagans of the world also have never disacknowledged Allah as a Deity till today. As for the followers of the earlier scriptures, they also acknowledge Allah alone as the real Deity. How then can it be correct to exonerate oneself froth the worship of all the deities of all those people, without' exception, when AIIah too is included among them? The answer is that if AIlah is worshipped along with others regarding Him as a Deity among other deities, the believer in Tauhid will inevitably express his inmunity from this worship, for in his sight Allah is oat a Deity out of a collection of deities, but He alone is the real Deity, and the worship of the collection of deities is no worship of Allah, although worship of Allah also is included in it. The Qur'an has clearly stated that Allah's worship is only that which does not have any tinge of the worship of another and in which man makes his worship exclusively Allah's. "And the only Command they were given, was to worship Allah, making their religion sincerely His, turning all their attention towards Him." (Al-Bayyinah: S) . This subject has been explained at many places iu the Qur'an forcefully; for example, see Au-Nisa': 145-146, AI-A`raf :29, AzZumar: 2, 3, 11, 14, 15, A1-Mu'min: 14, 64-66. It has been further explained in a Hadith Qudsi (i.e. Divine Word revealed through the mouth of the Prophet) in which the messenger of Allah says: "Allah says: I am Self-Sufficient of the association of every associate most of all. Whoever performed an act in which he associated another also with Me, 1 am free of it, and the entire act is for him who was associated." (Muslim, Musnad Ahmad, Ibn Majah) . Thus, acknowledging Allah as one of the two, three or many gods and serving and worshipping others along with Him is, in fact, the real kufr, declaration of immunity from which is the object of this Surah.  Show more

سورة الکافرون حاشیہ نمبر : 2 اس میں وہ سب معبود شامل ہیں جن کی عبادت دنیا بھر کے کفار اور مشرکین کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں ، خواہ وہ ملائکہ ہوں ، جنہوں ، انبیاء اور اولیاء ہوں ، زندہ یا مردہ انسانوں کی ارواح ہوں ، یا سورج ، چاند ستارے ، جانور ، درخت ، دریا ، بت اور خیالی دیویاں اور دیوت... ا ہوں ۔ اس پر یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالی کو بھی تو معبود مانتے تھے اور دنیا کے دوسرے مشرکین نے بھی قدیم زمانے سے آج تک اللہ کے معبود ہونے کا انکار نہیں کیا ہے ۔ رہے اہل کتاب تو وہ اصل معبود تو اللہ ہی کو تسلیم کرتے ہیں ۔ پھر ان سب لوگوں کے تمام معبودوں کی عبادت سے کسی استثناء کے بغیر براءت کا اعلان کیسے صحیح ہوسکتا ہے جبکہ اللہ بھی ان میں شامل ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کو معبودوں کے مجموعے میں ایک معبود کی حیثیت سے شامل کر کے اگر دوسروں کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے تو وہ شخص جو توحید پر ایمان رکھتا ہو لازما اس عبادت سے اپنی براءت کا اظہار کرے گا ، کیونکہ اس کے نزدیک اللہ معبودوں کے مجموعے میں سے ایک معبود نہیں بلکہ وہی ایک تنہا معبود ہے ، اور اس مجموعے کی عبادت سرے سے اللہ کی عبادت ہی نہیں ہے اگرچہ اس میں اللہ کی عبادت بھی شامل ہو ۔ قرآن مجید میں اس بات کو صاف صاف کہا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت صرف وہ ہے جس کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کا شائبہ تک نہ ہو ، اور جس میں انسان اپنی بندگی کو بالکل اللہ ہی کے لیے خالص کردے ۔ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڏ حُنَفَاۗءَ ۔ لوگوں کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ وہ بالکل یک سو ہوکر ، اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کریں ۔ ( البینہ ۔ 5 ) یہ مضمون بکثرت مقامات پر قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو النساء ، آیات 145 ۔ 146 ۔ الاعراف 29 ۔ الزمر 2 ۔ 3 ۔ 11 ۔ 14 ۔ 15 ۔ المومن 14 ۔ 64 تا 66 ۔ یہی مضمون ایک حدیث قدسی میں بیان کیا گیا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ میں سب سے بڑھ کر ہر شریک کی شرکت سے بے نیاز ہوں ، جس شخص نے کوئی عمل ایسا کیا جس میں میرے ساتھ کسی اور کو بھی اس نے شریک کیا ہو اس سے میں بری ہوں اور وہ پورا کا پورا عمل اسی کے لیے ہے جس کو اس نے شریک کیا ( مسلم ، مسند احمد ، ابن ماجہ ) پس درحقیقت اللہ کو دو یا تین یا بہت سے خداؤں میں سے ایک قرار دینا اور اس کے ساتھ دوسروں کی بندگی و پرستش کرنا ہی تو وہ اصل کفر ہے جس سے اظہار براءت کرنا اس سورۃ کا مقصد ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(109:2) لا اعبد ما تعبدون : بیضاوی نے کہا ہے کہ :۔ فان لا۔ لا تدخل الا علی مضارع بمعنی الاستقبال کما ان ما لاتدخل الا علی مضارع بمعنی الحال۔ (لا صرف مضارع پر آتا ہے جو مستقبل کے معنی میں ہو جیسے ما صرف اس مضارع پر آتا ہے جو بمعنی حال ہو) ترجمہ ہوگا :۔ (اے کافرو) میں عبادت نہیں کروں گا (ان معبودان ... باطل کی) جن کی تم عبادت کرتے ہو۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) تم جن معبودوں کی پرستش کرتے ہو میں ان کی پرستش نہیں کرتا۔