Surat Hood

Surah: 11

Verse: 100

سورة هود

ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡقُرٰی نَقُصُّہٗ عَلَیۡکَ مِنۡہَا قَآئِمٌ وَّ حَصِیۡدٌ ﴿۱۰۰﴾

That is from the news of the cities, which We relate to you; of them, some are [still] standing and some are [as] a harvest [mowed down].

بستیوں کی یہ بعض خبریں جنہیں ہم تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں ان میں سے بعض تو موجود ہیں اور بعض ( کی فصلیں ) کٹ گئی ہیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Lesson taken from the Destroyed Towns When Allah mentioned the story of the Prophets and what happened with them and their nations -- how He destroyed the disbelievers and saved the believers -- He goes on to say, ذَلِكَ مِنْ أَنبَاء الْقُرَى ... That is some of the news of the (population of) towns, meaning, news of them ... نَقُصُّهُ عَلَيْكَ مِنْهَا قَأيِمٌ ... which We relate unto you; of them, some are (still) standing, This means still remaining. ... وَحَصِيدٌ and some have been (already) reaped. This means totally destroyed.

عبرت کدے کچھ آباد ہیں کچھ ویران نبیوں اور ان کی امتوں کے واقعات بیان فرما کر ارشاد باری ہوتا ہے کہ یہ ان بستیوں والوں کے واقعات ہیں ۔ جنہیں ہم تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں ۔ ان میں سے بعض بستیاں تو اب تک آباد ہیں اور بعض مٹ چکی ہیں ۔ ہم نے انہیں ظلم سے ہلاک نہیں کیا ۔ بلکہ خود انہوں نے ہی اپنے کفر و تکذیب کی وجہ سے اپنے اوپر اپنے ہاتھوں ہلاکت مسلط کر لی ۔ اور جن معبودان باطل کے انہیں سہارے تھے وہ بروقت انہیں کچھ کام نہ آسکے ۔ بلکہ ان کی پوجا پاٹ نے انہیں اور غارت کر دیا ۔ دونوں جہاں کا وبال ان پر آپڑا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

100۔ 1 قائم سے مراد وہ بستیاں، جو اپنی چھتوں پر قائم ہیں اور حَصِیْد بمعنی محصود سے مراد وہ بستیاں جو کٹے ہوئے کھیتوں کی طرح نابود ہوگئیں۔ یعنی جن گزشتہ بستیوں کے واقعات ہم بیان کر رہے ہیں، ان میں سے بعض تو اب بھی موجود ہیں، جن کے آثار و کھنڈرات نشان عبرت ہیں اور بعض بالکل ہی صفہ ہستی سے معدوم ہوگئیں اور ان کا وجود صرف تاریخ کے صفحات پر باقی رہ گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْقُرٰي ۔۔ : ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، یعنی گزشتہ بستیوں کی یہ چند خبریں ہیں جو ہم آپ کو بیان کر رہے ہیں۔ اس سورت میں انبیاء کے حالات زمانے کی ترتیب کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، یعنی نوح، ہود، صالح، ابراہیم، لوط، شعیب اور موسیٰ (علیہ السلام) ۔ ” قَائِمٌ“ کھڑی (کھیتی) ، ” حَصِیٌد “ وہ کھیتی جو کاٹی جا چکی ہو، یعنی ان بستیوں میں سے بعض کے نشانات اب بھی قائم ہیں، مثلاً صالح (علیہ السلام) کی قوم کے پہاڑوں میں تراشے ہوئے مکانات اور بعض کے نام و نشان تک مٹ چکے ہیں، جیسے کٹی ہوئی کھیتی کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْقُرٰي نَقُصُّہٗ عَلَيْكَ مِنْہَا قَاۗىِٕمٌ وَّحَصِيْدٌ۝ ١٠٠ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں قصص الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] ( ق ص ص ) القص کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔ قائِمٌ وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] . وبناء قَيُّومٍ : ( ق و م ) قيام أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔ حصد أصل الحَصْد قطع الزرع، وزمن الحَصَاد والحِصَاد، کقولک : زمن الجداد والجداد، وقال تعالی: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ [ الأنعام/ 141] ، ( ح ص د ) الحصد والحصاد کے معنی کھیتی کاٹنے کے ہیں اور زمن الحصاد والحصاد یہ زمن من الجداد والجداد کی طرح ( بکسرہ حا وفتحہا ) دونوں طرح آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ آتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ [ الأنعام/ 141] اور جس دن ( پھل توڑ و اور کھیتی ) کا نو تو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا کرو ۔ میں وہ کھیتی مراد ہے جو اس کی صحیح وقت میں کاٹی گئی ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٠) یہ اوپر جو کچھ واقعات بیان کیے گئے یہ ان گزری ہوئی بستیوں کے چند واقعات تھے جن کی اطلاع بذریعہ جبریل امین ہم آپ کو کرتے ہیں بعض بستیاں تو ان میں اب بھی قائم ہیں کہ ان کے رہنے والے نیست ونابود ہوچکے اور بعض کا مع ان کے رہنے والوں کے بالکل خاتمہ ہوچکا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٠ (ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْقُرٰي نَقُصُّهٗ عَلَيْكَ مِنْهَا قَاۗىِٕمٌ وَّحَصِيْدٌ) حَصِیْدٌ کا لفظ اس کھیت کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کی فصل کاٹ لی گئی ہو۔ فصل کے کٹنے کے بعد کھیت میں جو ویرانی کا منظر ہوتا ہے اس کے ساتھ عذاب استیصال سے تباہ شدہ بستیوں کو تشبیہہ دی گئی ہے۔ پھر ان بستیوں میں کچھ تو ایسی ہیں جن کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے مگر بعض ایسی بھی ہیں جن کے آثار کو باقی رکھا گیا ہے۔ مثلاً قوم عاد کی آبادیوں کا کوئی نشان تک نہیں ملتا جس سے معلوم ہو سکے کہ یہ قوم کہاں آبادتھی (اگرچہ حال ہی میں سیٹلائٹ کے ذریعے ان کے شہر اور شداد کی جنت کے کچھ آثار زیر زمین ملنے کا دعویٰ سامنے آیا ہے) ۔ دوسری طرف قوم ثمود کے مکانات کے کھنڈرات آج تک موجود ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

59: مثلا فرعون کا ملک مصر فرعون کے غرق ہونے کے بعد بھی باقی رہا، اور عاد و ثمود اور قوم لوط علیہ السلام کی بستیاں ایسی تباہ ہوئیں کہ بعد میں آباد نہ ہو سکیں

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٠۔ ١٠١۔ اوپر چند قصے بیان فرما کر اب نتیجہ کے طور پر فرمایا اے رسول اللہ کے یہ پہلی امتوں کی خبریں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے رسولوں کے ساتھ جیسا کیا ویسا پایا یہ گاؤں اور شہر جن پر عذاب آیا گیا بعض تو ایسے ہیں کہ بالکل نیست و نابود نہیں ہوئے ویران کر دئیے گئے اور بعضوں کا طبقہ ہی الٹ دیا گیا پھر فرمایا کہ ان پر اللہ کا ظلم نہیں تھا آپ ان لوگوں نے اپنے اوپر ظلم کیا رسولوں کو جھٹلاتے رہے اور راہ حق پر نہ آئے بتوں کی پرستش کرتے رہے اور جب عذاب آیا تو ان کے وہ جھوٹے معبود کچھ نہ کرسکے اگر کچھ کام بھی آئے تو یہی کہ ان کو ہلاک ہی کر کے چھوڑا صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دنیا میں جو کچھ ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ١ ؎ ہے۔ اور اسی کو تقدیر کہتے ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ اگرچہ ہر ایک نیک وبد کا حال اللہ تعالیٰ کو نیک و بد کے پیدا ہونے سے پہلے معلوم تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ انصاف کیا کہ سزا و جزا کا فیصلہ اپنے علم پر نہیں رکھا بلکہ اس علم کے ظہور پر رکھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد جیسا کوئی کرے گا مرنے کے بعد ویسا بدلہ پاوے گا اس تفسیر سے وما ظلمنھم ولکن ظلموا انفسھم کا مطلب اچھی طرح سے سمجھ میں آسکتا ہے اور یہ بھی سمجھ میں آسکتا ہے کہ تجربہ سے کسی کام کا نتیجہ پہلے سے جان لینا اور بات ہے اور کسی کام پر کسی کو مجبور کرنا اور بات ہے اس لئے جو لوگ تقدیر کے لکھے پر اپنے آپ کو مجبور قرار دیتے وہ بڑی غلطی پر ہیں اسی طرح جو لوگ یہ شبہ دل میں لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب کو نیک کیوں نہیں بنایا وہ بھی غلطی پر ہیں کیونکہ دنیا نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہے زبردستی سب کو نیک بنانے میں یہ امتحان بھلا کس طرح پورا ہوسکتا تھا۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ٣٣٥ ج ٢ باب حجاج آدم و موسیٰ علیھما السلام۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:100) ابناء القری۔ ابناء بنأ کی جمع۔ خبریں۔ حقیقیں۔ القری قریۃ کی جمع ہے۔ بستیاں۔ دیہات۔ منھا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب القری کے لئے ہے۔ قائم ۔ آباد۔ حصید حصاد سے بروزن فعیل بمعنی مفعول صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ کھیتی کٹی ہوئی۔ الحصد والحصاد۔ کے معنی کھیتی کاٹنے کے ہیں ۔ آیت واتوا حقہ یوم حصارہ (6:141) اور جس دن پھل توڑو اور کھیتی کاٹو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا کرو۔ میں وہ کھیتی مراد ہے جو اس کے صحیح وقت پر کاٹی گئی ہو۔ لیکن آیت فجعلناھا حصیدا کان لم تغن باالامس (10:24) تو ہم نے کاٹ کر ایسا کر ڈالا کہ گویا وہاں کل کچھ تھا ہی نہیں۔ میں حصید سے مراد وہ کھیتی ہے جو کہ بےوقت فساد اور تباہی کی غرض سے کاٹی گئی ہو۔ اسی طرح آیت ہذا میں بھی حصید سے مراد بتاہ اور برباد کردی ہوئی بستیاں ہیں۔ منھا قائم وحصید ان میں سے بعض تو قائم ہیں اور بعض کا تہس نہس ہوگیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ وہ آباد ہیں یا ان کے نشان باقی ہیں جیسے قوم ثمود کہ اس کے آثار موجود تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مثلا مصر کہ بعد اہلاک فرعونیوں کے آبار رہا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فرعون کا انجام بتلانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ ہلاک شدہ اقوام کی دنیا میں بھی تباہی دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ وہ بستیاں ہیں جن میں کچھ کے نشانات اور کھنڈرات باقی ہیں۔ کچھ ہیں جن کا نام ونشان مٹادیا گیا ہے یہ جس حالت میں بھی ہیں ہم نے انکے رہنے والوں پر ظلم نہیں کیا یہ تو خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ جب ہمارے عتاب کا کوڑا برساتو جن کو اللہ کے سوا مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا کرتے تھے۔ کسی ایک نے انکی مددنہ کی بلکہ یہ انکی بربادی میں اضافہ کا باعث بنے۔ مجرموں کی تباہی میں اضافہ بننے کے دو مفہوم ہیں۔ جن بتوں اور مزارات پر مریدوں کا بھروسہ تھا کہ مشکل آنے پر ہماری مدد کرینگے انہوں نے نہ انکی مدد کی اور نہ وہ کرسکتے تھے۔ بلکہ ان سے مشکل کشائی کا عقیدہ رکھنے والے آخر دم تک اس عقیدہ سے توبہ نہ کرسکے۔ اس طرح ان کے مشکل کشا ان کی تباہی میں اضافہ کا سبب ثابت ہوئے۔ دوسرا ” غَیْرَتَتْبِیْبٍ “ کا معنی ہے کہ جن لیڈروں اور غلط پیروں کے پیچھے لگے ہوئے وہ فائدے کی بجائے اپنی اور مریدوں کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تیرے رب کی پکڑ جب کسی بستی پر نازل ہوتی ہے تو وہ بڑی شدید ہوا کرتی ہے۔ اس میں عبرت کا بڑا سامان ہوتا ہے ان لوگوں کے لیے جو آخرت کی فکر کرتے ہیں جس دن تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا ہر کسی پر گواہ لائے جائیں گے۔ یہ گواہ مجرم کے اپنے اعضاء، موقعہ واردات اور اس کے اعمال نامہ کے ساتھ وہ لوگ ہوں گے۔ جو کسی نہ کسی حوالے سے اس کی بداعمالیوں کو جانتے ہوں گے۔ یہاں تک کہ جس زمین پر گناہ کیا ہوگا وہ بھی گواہی دے گی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرم کے بارے میں شہادتیں : ١۔ اس دن تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور وہ حاضری کا دن ہوگا۔ (ھود : ١٠٣) ٢۔ افترا پردازی کرنے والوں کے خلاف شہادتیں پیش کی جائیں گی۔ (ھود : ١٨) ٣۔ قیامت کے دن مجرم کے منہ پر مہر لگادی جائے گی ہاتھ اور پاؤں اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ ( یٰس : ٦٥) ٤۔ قیامت کے روز ہاتھ، پاؤں اور زبان مجرم کے خلاف شہادت دیں گے۔ ( النور : ٢٤) ٥۔ قیامت کے دن مجرم کے خلاف اس کے کان، آنکھیں اور جسم گواہی دے گا۔ (حٰم السجدۃ : ٢٠) ٦۔ ان کا حساب کتاب لکھا ہوا ہے اور فرشتے ان پر گواہی دیں گے۔ (المطففین : ٢٠۔ ٢١) ٧۔ مجرم کہیں گے ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔ (الانعام : ١٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١٠٥ ایک نظر میں یہ سبق اس سورت کا اختتامیہ ہے ۔ اس میں کافی تبصرے اور متنوع نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ سورت کے تمام مضامین کو پیش نظر رکھ کر ایک مکمل اختتامیہ ہے۔ سورت کے آغاز اور قصص سب کا خلاصہ یہاں آگیا ہے۔ یہ تبصرے اور نتائج سورت کے مباحث کے ساتھ مکمل ہم آہنگی رکھتے ہیں اور سورت کے اغراض و مقاصد کے ساتھ مکمل مناسبت بھی رکھتے ہیں۔ مثلاً پہلا نتیجہ واضح طور پر قصص القرآن کے ساتھ متعلق ہے۔ ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ مِنْهَا قَائِمٌ وَحَصِيدٌ (١٠٠) وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ لَمَّا جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ (١٠١) وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ (١٠٢) (١١ : ١٠٠٠ تا ١٠٢) “ یہ چند بستیوں کی سرگزشت ہے جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں ، ان میں سے بعض اب بھی کھڑی ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے۔ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا ، انہوں نے آپ اپنے اوپر ظلم کیا ، اور جب اللہ کا حکم آگیا تو ان کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے ، ان کے کچھ کام نہ آسکے اور انہوں نے ہلاکت و بربادی کے سوا انہیں کچھ فائدہ نہ دیا اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہوتے ہے۔ فی الواقعہ اس کی پکڑ سخت اور دردناک ہوتی ہے ”۔ دوسرا تبصرہ ہے ان اقوام کی ہلاکت پر جو اس دنیا میں ہلاکت سے دوچار ہوئیں۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس دنیاوی پکڑ کے بعد آخرت کی پکڑ شدید ہوگی۔ آخرت کے عذات کا یہ نقشہ اس طرح کھینچا جاتا ہے کہ منظر آنکھوں کے سامنے اسکرین پر چلتا پھرتا نظر آتا ہے جس طرح قرآن کریم مشاہد قیامت کے مناظر کو پیش کرتا ہے۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لِمَنْ خَافَ عَذَابَ الآخِرَةِ ذَلِكَ يَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَشْهُودٌ (١٠٣) وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلا لأجَلٍ مَعْدُودٍ (١٠٤) يَوْمَ يَأْتِ لا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلا بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ (١٠٥) فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ (١٠٦) خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأرْضُ إِلا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ (١٠٧) وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأرْضُ إِلا مَا شَاءَ رَبُّكَ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ (١٠٨) (١١ : ١٠٣ تا ١٠٨) “ حقیقت یہ ہے کہ اس میں ایک نشانی ہے ، ہر اس شخص کے لیے جو عذاب آخرت کا خوف کرے۔ وہ ایک دن ہوگا جس میں سب لوگ جع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اس ورز ہوگا سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا۔ ہم اس کے لانے میں کچھ زیادہ تاخیر نہیں کر رہے ہیں۔ بس ایک گنی چنی مدت اسکے لیے مقرر ہے۔ جب وہ آئے گا تو کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہوگی الا یہ کہ خدا کی اجازت سے کچھ عرض کرے۔ پھر کچھ لوگ اس دن بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت جو بدبخت ہ . ں گے وہ دوزخ میں جائیں گے ، جہاں وہ ہانپیں گے اور پھنکارے ماریں گے اور اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں الا یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے۔ بیشک تیرا ربت پورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے ، کرے۔ رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے تو وہ جنت میں جائیں گے اور وہاں ہمیشہ ریھ گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں الا یہ کہ تیرا رب کجھ اور چٔہے۔ ایسی بخشش ان کو ملے گی کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا ”۔ اس کے بعد ان ہلاک شدہ بستیوں کے انجام سے یہ نتینجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جو انجام ان بستیوں کا ہوا ، وہی انجام اہل مکہ کا بھی ہوگا۔ اگر دنیا میں ان کو ہلاک نہ کیا گیا اور ان کو مہلت دے دی گئی جس طرح قوم موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح ضرور عذاب سے دوجار ہوں گے ، لہذا اے رسول آپ اور آپ کے ساتھ چلنے والے ساتھی اپنی راہ پر سیدھے آگے بڑھیں اور ان مشرکین اور ظالموں کی طرف ذرا بھی جھکاؤ اختیار نہ کریں ، نماز قائم کریں ، مشکلات پر صبر کریں کیونکہ اللہ محسنین کے اجر کو ذرہ برابر ضائع نہیں کرتا۔ فَلاتَكُ فِي مِرْيَةٍ مِمَّا يَعْبُدُ هَؤُلاءِ مَا يَعْبُدُونَ إِلاكَمَا يَعْبُدُ آبَاؤُهُمْ مِنْ قَبْلُ وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ (١٠٩) وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ وَلَوْلا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ (١١٠) وَإِنَّ كُلا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَالَهُمْ إِنَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (١١١) فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (١١٢) وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ (١١٣) وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ (١١٤) وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (١١٥) (١١ : ١٠٩ تا ١١٥) “ پس اے نبی ، تو ان معبودوں کی طرف سے کسی شک میں نہ رہ ، جن کی یہ ولوگ عبادت کر رہے ہیں۔ یہ تو (بس لکیر کے فقیر بنے ہوئے) اسی طرح پوجا پاٹ کیے جا رہے ہیں جس طرح پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے ، اور ہم ان کا حصہ انہیں بھر پور دیں گے بغیر اس کے کہ اس میں کچھ کاٹ کسر ہو۔ ہم اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دے چکے ہیں اور اس کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا تھا (جس طرح آج اس کتاب کے بارے میں کیا جارہا ہے جو تمہیں دی گئی ہے) اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے ہی طے نہ کردی گئی ہوتی تو ان اختلاف کرنے والوں کے درمیان کبھی کا فیصلہ چکا دیا ہوتا۔ یہ واقعہ ہے کہ یہ لوگ اس کی طرف سے شک اور خلجان میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ بھی واقعہ ہے کہ تیرا رب انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا ، یقیناً وہ ان کی سب حرکتوں سے باخبر ہے۔ پس اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، تم اور تمہارے وہ ساتھی جو (کفر و بغاوت سے ایمان و اطاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں ، ٹھیک ٹھیک راہ راست پر ثابت قدم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے اور بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرو ، جو کچھ تم کر رہے ہو ، اس پر تمہارا رب نگاہ رکھتا ہے۔ ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ، ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے۔ اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے۔ اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی۔ اور دیکھو ، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔ درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں۔ اور صبر کرو اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر کبہی ضائع نہیں کرتا ”۔ اس کے بعد روئے سخن ان ازمنہ قدیمہ کی اقوام کی طرف مڑجاتا ہے جن میں ایسے لوگ نہ تھے جو لوگوں کو فساد فی الارض سے روکتے ۔ ان اقوام کی اکثریت اسی راہ پر چلتی رہی جس پر وہ چل پرے تھے۔ اس لیے وہ اقوام ہلاکت کی مستحق قرار پائیں۔ اللہ کی یہ سنت نہیں ہے کہ وہ کسی بستی کو ہلاک کر دے اور اس کے باسی مصلح ہوں۔ فَلَوْلا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الأرْضِ إِلا قَلِيلا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ (١١٦) وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ (١١٧) (١١ : ١١٦ ۔ ١١٧) “ پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ، ایسے اہل خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے ؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچالیا ورنہ ظالم لوگ تو انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کا سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیا گیا اور وہ مجرم بن کر ہے۔ تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں ”۔ اس حصے میں اللہ نے ان سنتوں کا بھی ذکر فرمایا ہے جو اللہ نے اپنی مخلوقات کے اندر جاری کی ہوئی ہے اور وہ سنت یہ ہے کہ لوگوں کے رجحانات اور میلانات مختلف ہوں گے اور ان کے خیایات میں اخلاف ہو کا۔ اگر الہل چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی ملت کردیتا۔ لیکن اللہ نے لوگوں کو فکری اور اختیاری آزادی عطا کردی اور اس وجہ سے ان کے درمیان اختلافات واقع ہوگے۔ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ (١١٨)إِلا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لأمْلأنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (١١٩) (١١ : ١١٨ – ١١٩) “ بیشک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا۔ مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے اور بےراہ رویوں سے صرف وہی لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔ اسی (آزادی انتخاب و اختیار اور امتحان) کے لیے تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا۔ اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہوگئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا ”۔ آخر میں ، اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ان قصص کے بیان سے غرض وغایت کیا ہے ؟ یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ کفار کو آخری وارننگ دے دیں اور ان کو بتادیں کہ کس قدر عظیم عذاب آخرت ان کے انتظار میں ہے ، اور یہ کہ آپ اللہ پر توکل کر کے اللہ کی عبادت کریں اور لوگون کو اللہ کے حوالے کردیں تاکہ اللہ ان کو ان کے عمل کے مطابق جزا دے۔ وَكُلا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ وَجَاءَكَ فِي هَذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (١٢٠) وَقُلْ لِلَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ (١٢١) وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ (١٢٢) وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الأمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (١٢٣) (١١ : ١٢١ ۔ ١٢٣) “ اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، یہ پیغمبروں کے قصے ، جو ہم تمہیں سناتے ہیں یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے ہم تمہارے دل کو مضبوط کرتے ہیں۔ ان کے اندر تم کو حقیقت کا علم ملا۔ اور ایمان لانے والوں کو نصیحت اور بیداری نصیب ہوئی۔ رہے وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے تو ان سے کہہ دو کہ تم اپنے طریقے پر کا کرتے رہو اور ہم اپنے طریقے پر کیے جارہے ہیں ، انجام کار کا تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی منتظر ہیں۔ آسمان اور زمین میں جو کچھ چھپا ہوا ہے ۔ سب الہل کے قبضہ قدرت میں ہے اور سارا معاملہ اللہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ بس اے نبی تو اس کسی بندگی کر اور اسی پر بھروسہ رکھ ، جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو ، تیرا رب اس سے بیخبر نہیں ہے ”۔ درس نمبر ١٠٥ تشریح ١٠٠۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١٢٣ ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ مِنْهَا قَائِمٌ وَحَصِيدٌ (١٠٠) وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ لَمَّا جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ (١٠١) وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ (١٠٢) “ یہ چند بستیوں کی سر گزشت ہے جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں۔ ان میں سے بعض اب بھی کھڑی ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے۔ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا ، انہوں نے آپ ہی اپنے اوپر ستم ڈھایا اور جب اللہ کا حکم آگیا تو ان کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے ان کے کچھ کام نہ آسکے اور انہوں نے ہلاکت و بربادی کے سوا انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔ اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے ، فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور درد ناک ہوتی ہے ”۔ اس سے قبل جو مناظر پیش کیے گئے وہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔ پردہ خیال پر مناظر و تصاویر بری تیزی سے آرہی ہے اور گزر رہی ہیں۔ نظر آتا ہے کہ بعض لوگ ایک عظیم طوفان میں موجوں کے تھپیڑے کھا رہے ہیں۔ بعض لوگ سخت آندھی میں گھرے ہوئے ہیں جو سب کچھ تباہ کرتی آگے بڑہ رہی ہے ، بعض لوگوں پر اس قدر شدید آواز اور چیخ آئی وہ دھڑام سے گرے اور ڈھیرے ہوگئے۔ بعض لوگ اپنے گھروں سمیت زمین کے پیٹ میں دھنس گئے اور بعض ایسے ہیں کہ جو اپنے متبعین کے جلوس کی قیادت کر رہے ہیں لیکن پورے کا پورا جلوس جاکر جہنم میں گر جاتا ہے ، غرض اقوام سابقہ کو پیش آنے والے تمام واقعات نظروں کے سامنے آجاتے ہیں اور بات لوگوں کے دل و دماغ اور ان کے شعور کی گہرائیوں تک اتر جاتی ہے تو اس حالت میں درج ذیل تبصرہ آتا ہے۔ ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ مِنْهَا قَائِمٌ وَحَصِيدٌ (١١ : ١٠٠) “ چند بستیوں کی سرگزشت ہے جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں۔ ان میں سے بعض اب بھی کھڑی ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے ”۔ یہ چند بستیوں کی مختصر سرگزشت ہے ، عبرت آموزی کے علاوہ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ جو پیغمبر یہ علم پیش کر رہا ہے ، مسلمہ طور پر اس سے قبل وہ ان باتوں کو نہ جانتا تھا ، لہذا اس کے پاس یہ معلومات بذریعہ وحی ہی آرہی ہیں اور قصص قرآن کے بیش کرنے کے بیشمار مقاصد میں سے یہ بھی ایک مقصد ہے۔ (منہا قائم) “ یعنی ان کے آثار ابھی تک قائم ہیں ، لوگ دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یہ کس قدر متمدن اور ترقی یافتہ اقوام تھیں مثلا علاقہ احقاف میں عاد کے آثار ہیں ، اور علاقہ حجر میں وقم ثمور کے آثار ابھی تک موجود ہیں اور ان میں سے بعض کی فصل کٹ چکی ہے۔ یعنی وہ “ زرع محصور ” کی طرح ہیں کہ فصل کٹ جانے کے بعد زمین چٹیل رہ گئی ہے ، مثلاً قوم نوح (علیہ السلام) اور قوم لوط (علیہ السلام) جن کے آثار بھی غائب ہیں۔ اقوام اور گروہوں کی حیثیت کی کیا ہے ، کبھی ہم نے غور کیا ہے ؟ دراصل وہ بھی انسانوں کی فصلیں ہیں ، بوئی جاتی ہیں ، بری ہوتی ہیں اور کٹ جاتی ہیں۔ ان میں سے بعض فصلیں اچھی ہوتی ہیں اور بعض بری ہوتی ہیں ، بعض فصلیں بڑھتی ہیں اور بعض گھٹتے گھٹتے مرجاتی ہیں۔ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ (١١ : ١٠١) ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا ، انہوں نے آپ ہی اپنے اوپر ستم ڈھایا۔ ” انہوں نے اپنے فہم و ادارت کے ذرائع کو معطل کردیا تھا۔ ہدایت سے منہ موڑ لیا تھا ، اللہ کی آیات و معجزات کی تکذیب کردی تھی اور ان کو جن باتوں سے ڈرایا گیا تھا اس کے ساتھ انہوں نے مذاق کیا تھا ، لہذا وہ مظلوم نہ تھے بلکہ خود اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ لَمَّا جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ (١١ : ١٠١) “ اور جب اللہ کا حکم آگیا تو ان کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے ان کے کچھ کام نہ آسکے اور انہوں نے ہلاکت و بربادی کے سواء انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔ ” ان قصص کے لانے کی یہ ایک دوسری غرض ہے۔ اس سورت کا آغاز ہی اس بات سے ہوا تھا کہ جو لوگ اللہ کے سوا کسی اور کے دین اور نظام کی پیروی کرتے ہیں ، ان کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ اس کے بعد قصص رسل میں تمام رسولوں نے لوگوں کو باری باری بےانجام سے ڈرایا۔ تمام رسولوں نے لوگوں کو کہا کہ تم نے جن خود ساختہ الہوں کی پیروی اختیار کر رکھی ہے ، وہ تمہیں نہیں بچا سکتے چناچہ تمام قصص کا یہ خلاصہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ بھی کسی کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا اور جب اللہ کا حکم آئے گا اور قیامت برپا ہوگی تو وہاں یہ الہ کسی بھی پیروکار کو عذاب سے نہ بچا سکیں گے بلکہ ان کی وجہ سے خسارہ اور بربادی ہوگی (یہاں لفظ تتبیب استعمال ہوا ہے۔ جو لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے سخت بربادی کا اظہار کرتا ہے) یہ بربادی زیادہ اس لیے ہوگی کہ ان لوگوں نے ان جھوٹے خداؤں پر اندھا اعتماد کیا اور اس وجہ سے یہ اعراض اور تکذیب میں آگے بڑھ گئے اس وجہ سے وہ زیادہ سے زیادہ سخت عذاب کے مستحق ٹھہرے یہ الہ تو جس طرح نفع نہیں دے سکتے تھے اسی طرح نقصان بھی نہ دے سکتے تھے لیکن اس اندھے اعتماد کی وجہ سے خسارہ بڑھ گیا۔ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ (١١ : ١٠٢) “ اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔ ” (اسی طرح) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح قصص میں بیان ہوا ، جس طرح اقوام ملل کو تباہ اور ہلاک کیا گیا ، جب انہوں نے ظلم کیا۔ ظالم سے مراد مشرکہ ہے یعنی جب وہ اللہ کی ربوبیت اور حاکمیت سے رو گردانی کر کے کسی اور کو رب اور حاکم بنا لیتی ہیں اس طرح وہ اپنے اوپر ظلم کرتی ہیں کیونکہ شرک و فساد میں مبتلا ہو کر عذاب آخرت کی مستحق بنتی ہیں ایسی اقوام شرک کی وجہ سے دعوت توحید دعوت اصلاح سے محروم ہوجاتی ہیں اور اس طرح زمین ظلم و فساد سے بھر جاتی ہے۔ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ (١١ : ١٠٢) “ فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور درد ناک ہوتی ہے۔ ” یہ سزائے شدید اللہ تعالیٰ مہلت کے بعد دیتا ہے جب لوگ خوب عیاشی کرلیتے ہیں ، یوں وہ ابتلاء میں پڑجاتے ہیں۔ پھر ان کے عذرات بھی غتم ہوجاتے ہیں ، اس لیے کہ رسولوں کو بھیج کر اللہ تعالیٰ ان پر حجت تمام کردیتا ہے۔ پھر جب ان اقوام میں ظلم کا دور دورہ ہوتا ہے اور مظلوموں پر ظالموں کی گرفت مضبوط ہوجاتی ہے اور حالت یہ ہوجاتی ہے کہ دعوت حق دینے والے مصلحین نہایت ہی قلیل اور بےاثر رہ جاتے ہیں اور ظالموں کے آگے ان کی ایک نہیں چلتی۔ کیونکہ وہ ظلم میں بہت آگے جا چکے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اہل ایمان ان ظالموں سے علیحدہ ہوجاتے ہیں جو ظلم میں بہت آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں۔ یہ اہل ایمان پھر اپنے آپ ہی کو امت سمجھتے ہیں ، اپنے دین اور اپنے رب کی پیروی کرتے ہیں ، ان کا اپنا قائد ہوتا ہے اور اپنے روابط ہوتے ہیں اور امت ظالمہ کو وہ چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اپنے قدرتی انجام تک پہنچ جائے اللہ کی اس سنت کے مطابق جو اس نے اس کائنات کے لیے تجویز کر رکھی ہے ، ہمیشہ ہمیشہ کے ۔ یہ دنیاوی پکڑ دراصل آخرت کے لیے ایک علامتی سزا ہوتی ہے اور جو لوگ عذاب آخرت سے ڈرتے ہیں وہ اس پکڑ سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں ان کو اللہ نے بہرحال یہ بصیرت دے دی ہوتی ہے کہ جو خدا دنیا میں اس قدر شدید عذاب کسی قوم کو دے سکتا ہے وہ آخرت میں اس سے بھی شدید عذاب دے سکتا ہے ، اس لیے وہ ڈرتے ہیں۔ یہاں قرآن مجید انسان کو اچانک دنیا کے مناظرے قیامت کے مناظر کی طرف لے جاتا ہے اور یہ قرآن مجید کا خاص اسلوب ہے کہ وہ دنیا کے مناظر کے بعد اچانک آخرت کا منظر پیش کردیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ ظالموں کی گرفت فرماتا ہے اس کی گرفت درد ناک اور سخت ہے سورۂ ہود کے رکوع ٣ سے لے کر یہاں تک ٧ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی امتوں کی بربادی کا حال بیان فرمانے کے بعد یہاں فرمایا کہ ہم آپ کو ان بستیوں کی خبریں سناتے ہیں۔ ان ہلاک شدہ بستیوں سے بعض بستیاں دنیا میں موجود ہیں کچھ تو کھنڈروں کی صورت میں ہیں اور کچھ ایسی ہیں کہ ان کے رہنے والوں کی ہلاکت کے بعد دوسرے لوگ ان میں رہنے لگے (وَسَکَنْتُمْ فِیْ مَسَاکِنَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ ) اور کچھ ایسی بستیاں ہیں جن کا بالکل خاتمہ ہوگیا جیسے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیاں تھیں ان قوموں کی ہلاکت کے واقعات مخاطبین نے پہلے بھی سن رکھے ہیں اور آپ نے بھی بتا دئیے اور صرف زبانی کہا سنا نہیں ہے ان میں سے بعض بستیوں کے آثار موجود ہیں اور یہ لوگ ادھر کو گزرتے بھی ہیں انہیں ان سے عبرت حاصل کرنا لازم ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی جانوں پر خود ظلم کیا اور جب عذاب کا وقت آگیا تو ان کے معبودوں نے جن کی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے انہیں کچھ بھی نفع نہ پہنچایا اور ذرا بھی ان کے کام نہ آئے ان کی عقیدت اور تعظیم اور عبادت کی وجہ سے ان کے پرستاروں کو ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ملا ‘ ان عبادت کی وجہ سے اسباب ہلاکت میں اضافہ ہوتا رہا بالآخر ہلاک اور برباد ہوئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

84:۔ یہ تمام مذکورہ قصوں کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی ہم نے ان تمام مشرک قوموں کو ہلاک کردیا مگر ان کے مزعومہ معبودوں اور خود ساختہ کارسازوں نے ان کی کوئی مدد نہ کی اور آڑے وقت میں ان کے کام نہ آئے جیسا کہ سورة احقاف میں ہے۔ فَلَوْلَانَصَرَھُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ قُرْبَانًا اٰلِھَةً نیز یہ جملہ معترضہ ہے اور حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی دلیل ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

100 اے پیغمبر ! یہ چند تباہ شدہ بستیوں کے حالات تھے جو ہم آپ سے بیان کرتے ہیں ان میں سے کچھ تو اب تک موجود ہیں اور بعض بستیاں بالکل ہی کٹ گئیں اور معدوم ہوچکیں یعنی یہ ان بستیوں کے حالات تھے جن کے رہنے والوں نے تکذیب کا شیوہ اختیار کر رکھا تھا سو بعض تو ان میں سے اب بھی موجود ہیں جیسے مصر اور بعض کے کچھ نشانات پڑے ہیں جیسے سدوم کی چھوٹی چھوٹی بستیاں اور بعض بالکل ہی معدوم ہوگئیں حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں قائم ہے اور کٹ گیا یعنی آباد ہے اور اجاڑ 12