Surat Hood

Surah: 11

Verse: 103

سورة هود

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّمَنۡ خَافَ عَذَابَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ ذٰلِکَ یَوۡمٌ مَّجۡمُوۡعٌ ۙ لَّہُ النَّاسُ وَ ذٰلِکَ یَوۡمٌ مَّشۡہُوۡدٌ ﴿۱۰۳﴾

Indeed in that is a sign for those who fear the punishment of the Hereafter. That is a Day for which the people will be collected, and that is a Day [which will be] witnessed.

یقیناً اس میں ان لوگوں کے لئے نشان عبرت ہے جو قیامت کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ وہ دن جس میں سب لوگ جمع کئے جائیں گے اور وہ ، وہ دن ہے جس میں سب حاضر کئے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Destruction of the Towns is a Proof of the Establishment of the Hour (Judgement) Allah, the Exalted, is saying that in the destruction of the disbelievers and the salvation of the believers by us is, إِنَّ فِي ذَلِكَ لايَةً ... Indeed in that (there) is a sure lesson. This means an admonition and lesson concerning the truthfulness of that which We are promised in the Hereafter. ... لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الاخِرَةِ ... for those who fear the torment of the Hereafter. إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الاٌّشْهَـدُ Verily, We will indeed make victorious Our Messengers and those who believe in this world's life and on the Day when the witnesses will stand forth. (40:51) Allah, the Exalted, also says, فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّـلِمِينَ So their Lord revealed to them: "Truly, We shall destroy the wrongdoers. (14:13) Concerning Allah's statement, ... ذَلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّهُ النَّاسُ ... That is a Day whereon mankind will be gathered together, This means the first of them and the last of them. This is similar to Allah's statement, وَحَشَرْنَـهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً And We shall gather them all together so as to leave not one of them behind. (18: 47) ... وَذَلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُودٌ and that is a Day when all will be present. This means a day that is great. The angels will be present, the Messengers will gather and all of the creation will be gathered with their families. The humans, Jinns, birds, wild beasts and domesticated riding animals will all be gathered. Then the Most Just, Who does not wrong anyone even an atom's weight, will judge between them and He will increase their good deeds in reward. Concerning the statement, وَمَا نُوَخِّرُهُ إِلاَّ لاَِجَلٍ مَّعْدُودٍ

ہلاکت اور نجات ، ٹھوس دلائل کافروں کی اس ہلاکت اور مومنوں کی نجات میں صاف دلیل ہے ہمارے ان وعدوں کی سچائی پر جو ہم نے قیامت کے بارے میں کئے ہیں جس دن تمام اول و آخر کے لوگ جمع کئے جائیں گے ۔ ایک بھی باقی نہ چھوٹے گا اور وہ بڑا بھاری دن ہوگا تمام فرشتے ، تمام رسول ، تمام مخلوق حاضر ہوگی ۔ حاکم حقیقی عادل کافی انصاف کرے گا ۔ قیامت کے قائم ہو نے میں دیر کی وجہ یہ ہے کہ رب یہ بات پہلے ہی مقرر کر چکا ہے کہ اتنی مدت تک دنیا بنی آدم سے آباد رہے گی ۔ اتنی مدت خاموشی پر گزرے گی پھر فلاں وقت قیامت قائم ہوگی ۔ جس دن قیامت آجائے گی ۔ کوئی نہ ہوگا جو اللہ کی اجازت کے بغیر لب بھی کھول سکے ۔ مگر رحمن جسے اجازت دے اور وہ بات بھی ٹھیک بولے ۔ تمام آوازیں رب رحمن کے سامنے پست ہوں گی ۔ بخاری و مسلم کی حدیث شفاعت میں ہے اس دن صرف رسول ہی بولیں گے اور ان کا کلام بھی صرف یہی ہوگا کہ یا اللہ سلامت رکھ ، یا اللہ سلامتی دے ۔ مجمع محشر میں بہت سے تو برے ہوں گے اور بہت سے نیک ۔ اس آیت کے اترنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں کہ پھر یا رسول اللہ ہمارے اعمال اس بنا پر ہیں جس سے پہلے ہی فراغت کر لی گئی ہے یا کسی نئی بنا پر؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اس حساب پر جو پہلے سے ختم ہو چکا ہے جو قلم چل چکا ہے لیکن ہر ایک کے لیے وہی آسان ہوگا ۔ جس کے لیے اس کی پیدائش کی گئی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

103۔ 1 یعنی مواخذہ الٰہی میں یا ان واقعات میں جو عبرت و موعظبت کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ 103۔ 2 یعنی حساب اور بدلے کے لئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٤] یعنی قوموں کے عروج وزوال کی داستان یا عروج وزوال کے قانون سے عبرت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جن میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور آخرت میں اللہ کے حضور جواب دہی کے تصور سے ڈرتے رہتے ہیں اور یہ واقعات انھیں اللہ کی نافرمانی سے باز رکھنے میں موثر ثابت ہوتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو نہ اللہ سے ڈرتے ہیں نہ آخرت کے عذاب سے تو وہ ایسے عبرت انگیز واقعات سرسری طور پر پڑھ کر یا دیکھ کر انھیں اتفاقات زمانہ سے متعلق کردیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ ان کی مادی یا طبیعی توجیہات تلاش کرنے لگتے ہیں۔ [١١٥] یوم مشہود کا ایک ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس دن سب لوگوں کو حاضر کیا جائے گا یعنی تمام لوگ اس دن صرف جمع ہی نہیں کیے جائیں گے بلکہ انھیں باز پرس کے لیے اللہ کے سامنے حاضر بھی کیا جائے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے مقدمات پر شہادتیں قائم کی جائیں گی اور سب کارروائی تمام لوگوں کی موجودگی میں کی جائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِ : یعنی ان آیات و واقعات سے وہی عبرت حاصل کرے گا جس کا آخرت پر ایمان ہے، مگر جس کا آخرت پر ایمان نہیں وہ ان تمام واقعات کی کوئی نہ کوئی سائنسی توجیہ کرے گا کہ زمین و آسمان کے تغیرات کی وجہ سے ایسا ہوا، ظلم یا عدل سے اس کا کیا تعلق ؟ ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ : یعنی وہ قیامت کا دن ایسا ہے جس کے لیے تمام لوگ جمع کیے ہوئے ہوں گے۔ زمخشری نے فرمایا کہ فعل مجہول ” یُجْمَعُ لَہُ “ (جمع کیے جائیں گے) کے بجائے اسم مفعول ” مَّجْمُوْعٌ لہ “ (جمع کیے ہوئے ہوں گے) اس لیے استعمال فرمایا کہ اسم میں دوام اور ہمیشگی پائی جاتی ہے جب کہ فعل میں یہ چیز نہیں ہوتی۔ وَذٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ : یعنی اس میں سب لوگ حاضر کیے ہوئے ہوں گے، کوئی چھپ سکے گا نہ ادھر ادھر ہو سکے گا۔ ایک معنی یہ ہے کہ اس دن ہر نیکی یا بدی کی شہادت موجود ہوگی اور پیش بھی کی جائے گی۔ یہ بھی مراد ہے کہ اس دن پہلے، پچھلے انسان اور جن سب حاضر ہوں گے، فرشتے بھی اور خود ذات الٰہی بھی فیصلے کے لیے تشریف لائیں گے، فرمایا : (وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا) [ الفجر : ٢٢ ] ” اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَۃِ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ۝ ٠ۙ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ۝ ١٠٣ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ شهُودُ والشَّهَادَةُ الشُّهُودُ والشَّهَادَةُ : الحضور مع المشاهدة، إمّا بالبصر، أو بالبصیرة، وقد يقال للحضور مفردا قال اللہ تعالی: عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة/ 6] ، لکن الشهود بالحضور المجرّد أولی، والشّهادة مع المشاهدة أولی، ويقال للمحضر : مَشْهَدٌ ، وللمرأة التي يحضرها زوجها : مُشْهِدٌ ، وجمع مَشْهَدٍ : مَشَاهِدُ ، ومنه : مَشَاهِدُ الحجّ ، وهي مواطنه الشریفة التي يحضرها الملائكة والأبرار من الناس . وقیل : مَشَاهِدُ الحجّ : مواضع المناسک . قال تعالی: لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج/ 28] ، وَلْيَشْهَدْ عَذابَهُما[ النور/ 2] ، ما شَهِدْنا مَهْلِكَ أَهْلِهِ [ النمل/ 49] ، أي : ما حضرنا، وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان/ 72] ، أي : لا يحضرونه بنفوسهم ولا بهمّهم وإرادتهم . المشھود والشھادۃ کے معنی کسی چیز کا مشاہدہ کرنے کے ہیں خواہ بصر سے ہو یا بصیرت سے اور صرف حاضر ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة/ 6] پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ۔ لیکن اولٰی یہ ہے کہ شھود کے معنی صرف حاضر ہونا ہوں اور شھادۃ میں حاضر ہونے کے ساتھ مشاہدہ کا بھی اعتبار کیا جائے المحضر بمعنی مشہد یعنی حاضر ہونے کی جگہ کو کہا جاتا ہے مشہد وہ عورت جس کا خاوند حاضر ہو اور مشھد کی جمع مشاھد آتی ہے اسی سے مشاہد الحج ہیں یعنی وہ مواضع شریف جہاں کہ فرشتے اور نیک لوگ حاضر ہوتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مشاھد الحج کے معنی مناسک حج کے ہیں قرآن میں ہے : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج/ 28] تاکہ وہ اپنے فائدہ کے لئے حاضر ہوں ۔ وَلْيَشْهَدْ عَذابَهُما[ النور/ 2] اور ان کی سزا کے وقت موجود ہو ۔ ما شَهِدْنا مَهْلِكَ أَهْلِهِ [ النمل/ 49] ہم تو اس کے گھر والوں کے موقع ہلاکت پر گئے ہی نہیں ۔ وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان/ 72] اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے ۔ یعنی نہ تو زود کے موقع پر خود ہی حاضر ہوتے ہیں اور نہ اس کا قصد یا ارادہ کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٣) ان مذکورہ واقعات میں ایسے شخص کے لیے عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو کہ ان نافرمانوں کی اتباع نہ کرے یہ قیامت کا دن ہے کہ اس میں تمام اگلے پچھلے لوگ جمع کیے جائیں گے اور اس روز سب آسمان و زمین والے حاظر کیے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

105. In such incidents of history there are instructive signs for all people. Only a little reflection will make them realize that the punishment of the unrighteous is inevitable and that the information provided by the Prophets (peace be on them) in this respect is absolutely true. These signs can also help men have some idea of how horrible the Day of Judgement will be. This realization is likely to create in man's heart a fear which will direct him to righteous behaviour. One may well ask, what are the signs in human history which indicate that there is an After-life, one in which people are liable to suffer punishment? These signs can easily be appreciated by those who do not consider history to consist merely of a series of unrelated events and who are inclined to reflect over the underlying logic of those events and so derive some conclusion from them. What is most conspicuous in the long record of history is the constantly recurring phenomenon of the rise and fall of nations. Moreover, this rise and fall seems to be tied up with certain moral factors. The way in which certain nations have encountered significant falls and have suffered destruction clearly indicates that man, in this universe, is under a dispensation in which blind physical laws do not predominate. Instead, under that dispensation a moral law is also in operation. The result is that the nations which maintain a given minimum level of adherence to moral principles are rewarded. Those who slide below that minimum level of adherence to moral principles, are granted a temporary respite. However, once a nation falls perceptibly below that minimum level, it meets its tragic end and is made a lesson of for future generations. The occurrence and repetition of these events at regular intervals leaves no doubt whatsoever that retribution is a permanent feature, a fully-fledged law that operates in human history. Moreover, were one to carefully reflect upon the different forms of punishment which visited these different nations of the world, one would also realize that those punishments only partially accord with the requirements of justice and retribution. Were total justice to be meted out, it would be necessary to do a great deal more. For the punishments which struck the nations of the world in the past, struck only those generations which lived at the time when the punishment visited them. But there are generations of men who sowed the wind of wickedness but disappeared when that wind developed into a whirlwind. The consequences of their evil deeds were faced by the generations that followed after them. It is obvious in this case that the real culprits escaped retribution. Now, if we are able to grasp the inner workings of this universe by our study of history, this should lead us to the conclusion that the unfulfilled requirements of justice call for a new order of existence to be brought into being. It is only then that those transgressors and wrong-doers who escaped divine punishment in the worldly life can be duly punished and their punishment will be much more severe than that suffered by the evil-doers in the world. (See Towards Understanding the Qur'an, vol. Ill, al-A'raf, n. 30, pp. 23-6 and vol. IV, Yunus 10, n. 10, p. 9.)

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :105 “یہ ان کے اس مطالبہ کا آخری اور قطعی جواب ہے جو وہ ایمان لانے کے لیےشرط کے طور پر پیش کرتے تھے کہ ہمیں کوئی نشانی دکھائی جائے جس سے ہم کو یقین آجائے کہ تمہاری نبوت سچی ہے ۔ اس کےجواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تمہارے اندر حق کی طلب اور قبولِ حق کی آمادگی ہو تو وہ بے حد و حساب نشانیاں جو زمین و آسمان میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں تمہیں پیغام محمدی کی صداقت کا اطمینان دلانے کے لیے کافی سے زیادہ ہیں ۔ صرف آنکھیں کھول کر انہیں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن اگر یہ طلب اور یہ آمادگی ہی تمہارے اندر موجود نہیں ہے تو پھر کوئی نشانی بھی ، خواہ وہ کیسی ہی خارقِ عادت اور عجیب و غریب ہو ، تم کو نعمت ایمان سے بہرہ ور نہیں کر سکتی ۔ ہر معجزے کو دیکھ کر تم فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی طرح کہو گے یہ تو جادو گری ہے ۔ اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہو تے ہیں ان کی آنکھیں صرف اس وقت کھلا کرتی ہیں جب خدا کا قہر و غضب اپنی ہولناک سخت گیری کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑتا ہے جس طرح فرعون کی آنکھیں ڈوبتے وقت کھلی تھیں ۔ مگر عین گرفتاری کے موقع پر جو توبہ کی جائے اس کی کوئی قیمت نہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٣۔ انبیائے سابق اور ان کی امتوں کے ذکر کے دو فائدہ تو اوپر مذکور ہوچکے یہ تیسرا فائدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے حاصل اس فائدہ کا یہ ہے کہ کافر اور منافق کے دل تو ایسے سخت ہوگئے ہیں کہ ان کے دل پر کسی نصیحت کا اثر نہیں ہے ہاں جو لوگ اللہ اور رسول اور قیامت کے قائم ہونے پر ایمان لا چکے ہیں ان پچھلے قصوں سے ان کو ایک بڑی عبرت ہونی چاہیے کس واسطے کہ پچھلی امتوں کا دنیا کا عذاب سن کر پورا یقین ہوتا ہے کہ اللہ کے وعدہ کا ظہور جس طرح دنیا میں ہوچکا اسی طرح آخرت کے عذاب کا اس کا وعدہ سچا ہے اور ضرور ایک مقرر دن پر اس کا ظہو ہونے والا ہے اس وعدہ کے دن کے لئے کچھ نیکی کرنی چاہیے تاکہ اس روز چھٹکارہ ہو کیوں کہ جس طرح اس دن کے آنے کا وعدہ حق ہے اسی طرح اس دن کا یہ وعدہ بھی حق ہے کہ جس کا نیکی کا پلہ اس دن بھاری ہوگا اسی کو چھٹکارہ ہوگا پھر اس چھٹکارہ کی صورت بدوں نیکی کے کرنے اور بدی سے بچنے کے کیوں کر ممکن ہے۔ تفسیر ابن جریر میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب بدی کا بدلہ ایک اور نیکی کا بدلہ دس ہے تو ایسے شخص کے حال پر بڑا افسوس ہے جو دنیا سے ایسی حالت میں جاوے کہ اس کی اکائیاں دہائیوں پر غالب ہوں۔ ترمذی، مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ میں ابوہریرہ، ابی بکرہ، جابر بن عبد اللہ اور عبد اللہ بن بسر (رض) سے صحیح روایتیں ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دنیا میں اچھا آدمی وہی ہے کہ جس کی عمر بڑی ہو اور اس کے عمل نیک ہوں اور برا آدمی وہ ہے کہ جس کی عمر بڑی ہو اور کام برے اور بد ١ ؎ ہوں۔ معتبر سند سے مسند امام احمد میں ابوہریرہ (رض) کی دوسری روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت طلحہ (رض) کے گھر میں تین مہاجر صحابہ رہتے تھے دو ان میں سے شہید ہوگئے اور ایک ان دونوں شہیدوں کے بہت روز کے بعد اپنی موت سے مرے۔ طلحہ (رض) کہتے ہیں کہ پھر میں نے خواب میں دیکھا کہ یہ تیسرا شخص جو اپنی موت سے مرا تھا جنت میں ان دونوں شہیدوں کے آگے ہے۔ اس خواب سے مجھ کو بڑا تعجب ہوا میں نے اپنا یہ خواب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تعجب کے ساتھ بیان کیا آپ نے فرمایا کچھ تعجب کی بات نہیں ہے نیک عمل ہو کر کوئی شخص بڑی عمر پاوے تو یہ بڑے اجر درجہ کی چیز ٢ ؎ ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلما نوں کے حق میں یہ ایک پیشین گوئی فرمائی ہے کہ مسلمانوں کو نصیحت زیادہ کار گر ہوتی ہے جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں وہ ذرا اپنی حالت پر غور کریں کہ ان کی حالت پر کہاں تک اللہ کی پیشین گوئی صادق آتی ہے اور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے عمر دی ہے وہ اس کو ایک دولت سمجھ کر اس دولت سے یہ تجارت کریں کہ اس دولت سے نیک عمل کی دولت کمائیں۔ ذلک کا اشارہ قیامت کے دن کی طرف ہے آیت کے اس ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ میدان محشر میں آدم (علیہ السلام) سے قیامت تک جتنے بنی آدم پیدا ہوئے ہیں وہ سب حساب و کتاب کے لے جمع کئے جاویں گے چناچہ صحیح بخاری و مسلم کی ابوہریرہ (رض) کی روایت ٣ ؎ میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے اسی طرح کے انتظام کے لئے وہاں فرشتے بھی حاضر ہوں گے مثلاً ستر ہزار نکیلیں لگا کر ہزارہا فرشتے دوزخ کو میدان محشر میں لاویں گے جس کا ذکر صحیح مسلم اور ترمذی میں عبد اللہ بن مسعود (رض) کی روایت ٤ ؎ سے ہے۔ اور اسی طرح کے بہت سے انتظام ہیں جو اس دن فرشتوں کے ذمہ ہوں گے۔ انسان جنات اور فرشتوں کے جمع ہوجانے سے وہ ایک عجب دن ہوگا اس لئے شاہ صاحب نے مرادی ترجمہ وہ ” دن ہے دیکھنے کا “ فرمایا ہے۔ ( ١ ؎ جامع ترمذی ص ٥٦ ج ٢ باب ماجانء فی طول العمر للمومن و تفسیر ہذا جلد دوم ص ٢٦١ ) (٢ ؎ مجمع الزوائد ص ٢٠٤ ج ٢ باب فیمن طال عمرہ من المسلمین۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری ص ٦٥۔ ٩ ج ٢ باب کیف الحشر۔ ) (٤ ؎ مشکوٰۃ ص ٥٠٢ باب صفتہ النار واہلہا۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:103) فی ذلک میں اشارہ ان امتوں کے قصوں کی طرف ہے جو اپنی نافرمانی اور عصیاں کی وجہ سے برباد ہوگئیں اور جن کا ذکر خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ اور ذلک یوم میں اشارہ یوم القیامۃ کی طرف ہے۔ لہ۔ اس (دن) میں مجموع لہ الناس اس دن (روز قیامت) کل انسان جمع کئے جائیں گے۔ المشھوداسم مفعول واحد مذکر۔ حاضر کیا گیا۔ المشھود والشھادۃ کے معنی کسی چیز کے مشاہدہ کرنے کے ہیں خواہ بصر سے ہو یا بصیرت سے ہو اور صرف حاضر ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے عالم الغیب والشھادۃ (59:12) پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا۔ لیکن اولیٰ یہ ہے کہ شھود کے معنی صرف حاضر ہونا ہوں اور شھادۃ میں حاضر ہونے کے ساتھ مشاہدہ کا بھی اعتبار کیا جائے۔ یہاں مشھود بمعنی مشھود فیہ ہے۔ (جب کہ ہ ضمیر واحد مذکر غائب یوم کیلئے ہے) یعنی وہ دن جب تمام انسان حاضر کئے جائیں گے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ وجہ عبرت ظاہر ہے جب دنیا کا عذاب ایسا سخت ہے حالانکہ یہ دارالجزاء نہیں تو آخرت کا جو کہ دارالجزا ہے کیسا سخت ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

دنییا کی یہ پکڑ عذاب آخرت کی یاددہانی کرانے والی اور دل میں خوف بٹھانے والی ہے۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لِمَنْ خَافَ عَذَابَ الآخِرَةِ (١٠٣ : ١١) “ حقیقت یہ ہے کہ اس میں ایک نشانی ہے ، ہر اس شخص کے لیے جو عذاب آخرت کا خوف کرے۔ ” لیکن حقیقت ہے کہ یہ عبرت وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جن کے دل میں آخرت کے عذاب کا ڈر ہو ، ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کے فکر و نظر کو جلا ملتی ہے۔ لیکن جن کے دل میں آخرت کا خوف نہیں ہوتا ، ان کے دل بہرے ہوتے ہیں ان کی آنکھیں بند ہوتی ہیں ، وہ اس بات کو سمجھ نہیں سکتے کہ جس نے پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کی نظر قاصر ہوتی ہے اور وہ صرف اس دنیا ہی کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس دنیا میں جو عبرت انگیز حالات پیش آتے ہیں وہ ان سے بھی عبرت و نصیحت حاصل کرسکتے ہیں۔ اب بتایا جاتا ہے کہ یہ دن کیسا ہوگا ؟ ذَلِكَ يَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَشْهُودٌ (١٠٣ : ١١) “ وہ ایک دن ہوگا جس میں سب لوگ جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اس روز ہوگا سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا۔ ” یہ ایک منظر ہے جس میں سب لوگ جمع کردیئے جائیں گے ، اس اکٹھ میں ان کے اپنے ارادے کا کوئی دخل نہ ہوگا بلکہ اس نظر آنے والے منظر میں ان کو چلا کر لایا جائے گا ، تمام کے تمام لوگ یکجا حاضر ہوں گے اور سب کی سب انجام کے منتظر ہوں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

103 بلاشبہ ان واقعات میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے یوم آخرت وہ دن ہے جس روز سب لوگ جمع کئے جائیں گے اور وہی دن سب کے لئے پیش ہونے اور سب کی حاضری کا دن ہے ینی عبرت تو ظاہر ہی ہے کہ دنیا کے عذاب کا یہ حال ہے تو آخرت میں عذاب کیا کیا ٹھکانہ ہوگا آگے یوم آخرت کا بیان ہے کہ اس دن سب میدان حشر میں جمع کئے جائیں گے اور سب حضرت حق تعالیٰ کے روبرو پیش کئے جائیں گے۔