Surat Hood

Surah: 11

Verse: 22

سورة هود

لَا جَرَمَ اَنَّہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ ہُمُ الۡاَخۡسَرُوۡنَ ﴿۲۲﴾

Assuredly, it is they in the Hereafter who will be the greatest losers.

بیشک یہی لوگ آخرت میں زیاں کار ہوں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Certainly, they are those who will be the greatest losers in the Hereafter. In this verse Allah informs about the direction of their end. He explains that they are the greatest losers among mankind in their transaction for the abode of the Hereafter. That is because they exchanged the highest levels (of Paradise) for the lowest levels (of Hell) and they substituted the pleasure of Gardens (of Paradise) for the fierce boiling water (of Hell). They exchanged the drink of sealed nectar with the fierce hot wind, boiling water, and a shade of black smoke. They chose food from the filth of dirty wounds instead of wide-eyed lovely maidens. They preferred Hawiyah (a pit in Hell) instead of lofty castles. They chose the anger of Allah and His punishment over nearness to Him and the blessing of gazing at Him. Therefore, it is no injustice that such people should be the greatest losers in the Hereafter.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧ ٢] ایک شخص اللہ کے کسی حکم کی تعمیل ہی نہیں کرتا اسے اس کی سزا ملے گی اور ایک دوسرا شخص تعمیل تو کرتا ہے مگر غلط طریقے سے کرتا ہے اور کسی دوسرے کو بھی اس میں شریک بنا لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس غلط تعمیل کرنے والے کو زیادہ نقصان ہوگا ایک تو اس نے تعمیل کی مشقت اٹھائی دوسرے اسے سزا بھی زیادہ ملے تو اس سے بڑھ کر زیادہ نقصان اٹھانے والا کون ہوسکتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا جَرَمَ اَنَّہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ ہُمُ الْاَخْسَرُوْنَ۝ ٢٢ جرم ( لاجرم) وقیل : جَرَمَ وجَرِمَ بمعنی، لکن خصّ بهذا الموضع «جرم» كما خصّ عمر بالقسم، وإن کان عمر وعمر «7» بمعنی، ومعناه : ليس بجرم أنّ لهم النار، تنبيها أنهم اکتسبوها بما ارتکبوه إشارة إلى قوله تعالی: وَمَنْ أَساءَ فَعَلَيْها [ الجاثية/ 15] . وقد قيل في ذلك أقوال، أكثرها ليس بمرتضی عند التحقیق «1» . وعلی ذلک قوله عزّ وجل : فَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ [ النحل/ 22] ، لا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يُسِرُّونَ وَما يُعْلِنُونَ [ النحل/ 23] ، وقال تعالی: لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل/ 109] ( ج ر م ) الجرم ( ض) لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل/ 109] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے لااصل میں محذوف پر داخل ہوا ہے جیسا کہ میں لا آتا ہے اور جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( بتقادب ) (89) لاوابیک ابنۃ العامری اور جرم فعل ماضی ہے جس کے معنی اکسبیا جنی ٰ کے ہیں اس کے بعد ان لھم النار ( جملہ ) موضع مفعول میں ہے اور معنی یہ ہیں کہ اس نے اپنے لئے ( دوزخ کی آگ ) حاصل کی ۔ بعض نے کہا ہے جرم اور جرم کے ایک ہی معنی ہیں لیکن لا کے ساتھ جرم آتا ہے جیسا کہ قسم کے ساتھ عمرو کا لفظ مختض ہے اگرچہ عمر و عمر کے معنی ایک ہی ہیں اور معنی یہ ہے کہ ان کے لئے آگ کا ہونا کسی کا جرم نہیں ہوگا بلکہ یہ ان کے عملوں کی سزا ہوگی اور انہوں نے خود ہی اسے اپنے لئے حاصل کیا ہوگا جیسا کہ آیت وَمَنْ أَساءَ فَعَلَيْها [ الجاثية/ 15] اور جو برے کام کرے گا ۔ تو ان کا ضرو اسی کو ہوگا ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اس کی تفسیر میں اور بھی بہت سے اقوال منقول ہیں ۔ لیکن ان میں سے اکثر تحقیق کی رو سے صحیح نہیں ہیں اور اسی معنی کے لحاظ سے فرمایا :۔ فَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ [ النحل/ 22] لا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يُسِرُّونَ وَما يُعْلِنُونَ [ النحل/ 23] تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کررہے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں خدا ضرور اس کو جانتا ہے ۔ لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل/ 109] کچھ شک نہیں کہ یہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ (لَا جَرَمَ اَنَّهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُوْنَ ) واضح رہے کہ ” اَخْسَرُ “ افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ اہل جہنم کے تذکرے کے بعد فوری تقابل (simultaneous contrast) کے لیے اب اہل جنت کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:22) لاجرم۔ یقینا اور حقا کا ہم معنی ہے اور بعض کے نزدیک لا جرم کا معنی ہے لاضد ولا منع۔ کوئی روکاوٹ نہیں۔ کوئی ممانعت نہیں۔ کوئی روک نہیں سکتا۔ لاجرم ولا جرم۔ یعنی ضروری۔ یقینی۔ ناگزیر۔ سبھی قسم کے معنی دیتا ہے اور کہتے ہیں کہ لاجرم لافعلن۔ قسم خدا کی میں ایسا ضرور کروں گا۔ بعض کے نزدیک لا زائدہ ہے جرم فعل متعدی ہے اور کسب کے معنی میں ہے بعض نے فعل لازمی بنا کر وجب کے معنی میں لیا ہے بعض نے لاجرم کو مرکب بنایا ہے حقا کے معنی میں۔ الاخسرون۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ سب سے زیادہ نقصان پانے والے۔ گھاٹا پانے والے۔ خسارہ و خسران مصدر۔ اخسر کی جمع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یہ تو انجام ہوگا کافروں کا آگے مسلمانوں کا انجام مذکور ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لَا جَرَمَ اَنَّهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُوْنَ " ناگزیر ہے کہ وہی آخرت میں سب سے بڑھ کر گھاٹے میں رہیں گے " اس قدر خسارے میں کہ دنیا و آخرت میں اس سے بڑھ کر کوئی خسارہ نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ کردیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (لَا جَرَمَ اَنَّھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ ھُمُ الْاَخْسَرُوْنَ ) (یہ لازمی بات ہے جس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ آخرت میں خسارہ میں سب سے زیادہ بڑھ کر ہیں) اہل کفر کا انجام بتانے کے بعد اہل ایمان کا انعام وثواب بتایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

22 لازمی امر ہے کہ آخرت میں سب سے زیادہ خسارہ اور نقصان اٹھانے والے یہی لوگ ہونگے ۔