Surat Hood

Surah: 11

Verse: 3

سورة هود

وَّ اَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ یُمَتِّعۡکُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ یُؤۡتِ کُلَّ ذِیۡ فَضۡلٍ فَضۡلَہٗ ؕ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ کَبِیۡرٍ ﴿۳﴾

And [saying], "Seek forgiveness of your Lord and repent to Him, [and] He will let you enjoy a good provision for a specified term and give every doer of favor his favor. But if you turn away, then indeed, I fear for you the punishment of a great Day.

اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اسی کی طرف متوجہ رہو ، وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان ( زندگی ) دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا ۔ اور اگر تم لوگ اعراض کرتے رہے تو مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَنِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُوْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ ... And (commanding you): `Seek the forgiveness of your Lord, and turn to Him in repentance, that He may grant you good enjoyment, for a term appointed, and bestow His abounding grace to every owner of grace. This means, "I am commanding you to seek forgiveness from previous sins and to turn to Allah from future sins, and thereafter you abide by that." يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا (that He may grant you good enjoyment), This is in reference to this worldly life. إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُوْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ (for a term appointed, and bestow His abounding grace to every owner of grace). This refers to the Hereafter, according to Qatadah. This is like the statement of Allah, مَنْ عَمِلَ صَـلِحاً مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُوْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَوةً طَيِّبَةً Whoever works righteousness -- whether male or female -- while a true believer, verily to him We will give a good life. (16:97) Concerning Allah's statement, ... وَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ But if you turn away, then I fear for you the torment of a Great Day. This is a severe threat for whoever turns away from the commandments of Allah, the Exalted, and rejects His Messengers. Verily, the punishment will afflict such a person on the Day of Resurrection and there will be no escape from it.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یہاں اس سامان دنیا کو جس کو قرآن نے عام طور پر ' متاع غرور ' دھوکے کا سامان کہا ہے، یہاں اسے ' متاع حسن ' قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آخرت سے غافل ہو کر متاع دنیا سے استفادہ کرلے گا، اس کے لئے یہ متاع غرور ہے، کیونکہ اس کے بعد اسے برے انجام سے دو چار ہونا ہے اور جو آخرت کی تیاری کے ساتھ ساتھ اس سے فائدہ اٹھائے گا، اس کے لئے یہ چند روزہ سامان زندگی متاع حسن ہے، کیونکہ اس نے اللہ کے احکام کے مطابق برتا ہے۔ 3۔ 2 بڑے دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] توبہ واستغفار کے فائدے :۔ اس آیت میں توبہ و استغفار کی کمال فضیلت بیان ہوئی ہے توبہ و استغفار سے اصل مطلوب تو اپنے گناہوں کی بخشش ہے اگر خلوص نیت سے توبہ کی جائے تو اللہ تعالیٰ یقیناً گناہ معاف فرما دینے والا ہے۔ مزید فائدہ یہ ہے کہ جب تک توبہ و استغفار کرنے والا زندہ رہے گا اللہ اسے متاع حسن سے نوازے گا۔ متاع حسن سے مراد پاکیزہ اور حلال رزق، اس رزق میں برکت اور قلبی اطمینان اور سکھ چین کی زندگی ہے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ اللہ اس قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا جس میں توبہ و استغفار کرنے والے لوگ موجود ہوں (٨: ٣٣) نیز استغفار سے ایسے ہی مصائب اور بلائیں دور ہوتی ہیں جیسے صدقہ سے ہوتی ہیں جیسا کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ متاع حسن اور متاع غرور :۔ متاع حسن کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے متاع الغرور کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ یعنی کافروں کو جو متاع زیست دیا جاتا ہے خواہ وہ مومنوں کے سامان زیست سے زیادہ ہی ہو اور بسا اوقات ہوتا بھی ایسے ہی ہے تو وہ سامان زیست انھیں دھوکہ اور فریب میں مبتلا کیے رکھتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ بہترین زندگی گزر رہی ہے اور اللہ ان پر مہربان ہے حالانکہ حلال و حرام کی تمیز کے بغیر وہی کمایا ہوا مال و دولت بسا اوقات اس دنیا میں بھی ان کے لیے وبال جان بن جاتا ہے اور آخرت میں تو یقینی طور پر بن جائے گا۔ [٤] یعنی اللہ تعالیٰ توبہ و استغفار کرنے اور نیک اعمال بجا لانے والوں کا بڑا قدر دان ہے کسی نے جتنے بھی نیک اعمال کیے ہوں گے اللہ تعالیٰ اسے اتنا ہی بلند درجہ عطا فرمائے گا واضح رہے کہ توبہ و استغفار کرتے رہنا بجائے خود بہت بڑا نیک عمل ہے۔ [٥] ہولناک دن کے عذاب سے ڈرنا تو ان لوگوں کو چاہیے جو دعوت حق سے منہ پھیرتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو یہ فرمایا کہ میں تم پر واقع ہونے والے عذاب سے ڈرتا ہوں تو یہ آپ کی اس کمال شفقت اور ہمدردی کی وجہ سے ہے جو آپ کو تمام لوگوں سے تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ : پچھلی آیت میں ” اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ “ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں استغفار اور توبہ سے مراد غیر اللہ کی عبادت سے استغفار اور توبہ ہے، یعنی تم اللہ کے ساتھ جو بھی شرک اور اس کی نافرمانیاں کرچکے ہو ان کی معافی اور بخشش مانگو، مگر اس استغفار کا فائدہ تب ہے کہ ان گناہوں سے واپس پلٹ آؤ اور آئندہ کے لیے نہ کرنے کا خلوص دل سے عزم کرو، پھر اگر انسانی کمزوری سے کوئی گناہ ہوجائے تو پھر معافی مانگو اور ساتھ ہی آئندہ کے لیے خلوص دل سے پھر توبہ کرو اور یہ سلسلہ ساری زندگی ہر لغزش پر، خواہ کتنی بار بھی ہوجائے جاری رکھو۔ نہ گناہ کے بعد معافی مانگنے میں دیر کرو اور نہ معافی مانگنے کے ساتھ توبہ میں۔ تب استغفار اور توبہ کا فائدہ ہے۔ دیکھیے سورة نساء ( ١٧، ١٨) ۔ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى : اس میں استغفار اور توبہ کا کمال فائدہ بیان فرمایا ہے۔ یہ دنیا جسے اللہ تعالیٰ نے متاع غرور بتایا ہے، اسے اللہ تعالیٰ استغفار اور توبہ کرنے والے مومن کے لیے موت تک متاع حسن بنا دے گا۔ وہ دنیا کی نعمتوں سے سرفراز ہو کر بھی متاع غرور کے بجائے متاع حسن سے فائدہ اٹھائے گا۔ وہ استغفار اور توبہ کے ساتھ اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں بسر کرے گا، تو اس کی نفسانی لذتیں بھی اس کے لیے ثواب بن جائیں گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے فرمایا : ( وَلَسْتَ تُنْفِقَ نَفَقَۃً تَبْتَغِيْ بِھَا وَجْہَ اللّٰہِ إِلاَّ أُجِرْتَ بِھَا ( وَ فِيْ رِوَایَۃِ الْبُخَارِيْ : فَإِنَّھَا صَدَقَۃٌ) حَتَّی اللُّقْمَۃَ تَجْعَلُھَا فِيْ فِيْ امْرَأَتِکَ ) [ مسلم، الوصیۃ، باب الوصیۃ بالثلث : ١٦٢٨۔ بخاری : ٢٧٤٢ ] ” تم جو بھی خرچ کرو گے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہو گے، اس پر تمہیں اجر دیا جائے گا (بخاری کے الفاظ ہیں کہ وہی صدقہ بن جائے گا) یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے۔ “ ایسے مومن کو دنیا میں حیات طیبہ عطا ہوتی ہے (خواہ بظاہر وہ مصیبت میں گرفتار ہو) اور آخرت کا بہترین اجر عطا ہوگا۔ دیکھیے سورة نحل (٩٧) عمل صالح اور استغفار کی بیشمار برکات اور فوائد ہیں، چند فوائد کے لیے دیکھیے سورة ہود (٥٢، ٦١، ٩٠) ۔ وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ : فضل کا معنی زائد ہے، یعنی جو اطاعت اور نیک اعمال میں جتنا زیادہ ہوگا اسے اللہ تعالیٰ دنیا یا آخرت یا دونوں میں زیادہ اجر دے گا۔ اللہ کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے، اس کا قاعدہ ہے کہ جو کوئی برائی کرتا ہے اس کے لیے ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے اور جو نیکی کرتا ہے اس کے لیے کم از کم دس (١٠) نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ کا کوئی حساب نہیں، فرمایا : (وَاللّٰهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [ النور : ٣٨ ] ” اور اللہ جسے چاہتا ہے بےحساب دیتا ہے۔ “ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ صدقہ عموماً اپنی ضرورت سے زائد چیز ہی کا کیا جاتا ہے، تو ہر شخص جو اپنی ضرورت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کر دے، تو اللہ تعالیٰ اسے ہرگز کمی نہیں ہونے دے گا، بلکہ اس کی زائد چیز ضرور اسے دے گا، پھر جو اپنی ضرورت کے باوجود صدقہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس پر کس قدر فضل فرمائے گا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ ) [ مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب استحباب العفو والتواضع : ٢٥٨٨، عن أبی ہریرہ (رض) ] ” کوئی صدقہ کسی مال میں کمی نہیں کرتا۔ “ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ : بہت بڑے دن کے عذاب سے، یعنی میں تم پر دنیا کے عذاب کے علاوہ آخرت کے دن کے عذاب سے بھی ڈرتا ہوں، جو بہت بڑا، یعنی پچاس ہزار سال کا دن ہے اور جس کے بعد پھر کفار کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Out of the instructions given in these verses of the Qur&an, the second one appears in the third verse in the words: وَأَنِ اسْتَغْفِرُ‌وا رَ‌بَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ (and that you seek forgiveness from your Lord). It means that, in these verses of firm and established meaning, Allah Ta` ala has also instruct¬ed His servants to ask for forgiveness and pardon from their Lord, and make their Taubah before Him. Forgiveness مَغفِرَہ (maghfirah) relates to past sins and Taubah (repentance) relates to the resolve of not going near these anymore. And, in reality, a correct and true Taubah is no more than being ashamed of past sins, praying to Allah that they be forgiven and resolving firmly that they would not be repeated in fu¬ture. Therefore, some righteous elders have said that seeking forgive¬ness from Allah only verbally - without having made a firm resolution, and the necessary arrangements to implement it, in order to remain safe from future sins - is the Taubah (repentance) of liars (al¬kadhdhabin). (Qurtubi) Or, as it was said poetically: مَعصیت راخندہ می آید بر استغفار ما &Sin laughs at my style of seeking forgiveness& or that such repentance is itself worth being repented. After that, glad tidings of the finest fruits of success in Dunya and Akhirah have been given to those who repent and seek forgiveness by saying: يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى (He will, then, provide you with good things to enjoy for a given time). It means that those who genuinely seek forgiveness for their past sins and firmly resolve to abstain from these in future and do what it takes to implement their resolution, then, not only that their error will be forgiven, they would also be blessed with a good life. And it is obvious that ` life& here carries a gen¬eral sense that includes life in the mortal world as well as the life in the Hereafter. It is about such people that the Qur&an has said elsewhere: لَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً (We shall certainly give them good and pure life - 16:97). According to the investigations of the majority of commentators, both the lives of Dunya and &Akhirah are included in the sense of this verse as well. This has been further clarified in Surah Nuh. The ad-dress is to the seekers of forgiveness. It was said: يُرْ‌سِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَ‌ارً‌ا ﴿١١﴾ وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارً‌ا ﴿١٢﴾. It means: (if you were to seek for¬giveness from Allah genuinely), Allah Ta` ala shall send the sky show¬ering over you (the rains of His mercy) and bless you with wealth and children and make for you gardens and bring for you rivers - 71:11). It is obvious that the mercy of rains and the blessings of wealth and chil¬dren relate to the life of the present world. That is why most of the commentators have taken the expression مَّتَاعًا حَسَنًا (good things to enjoy) to mean the worldly enjoyments. Accord¬ing to them the sense is that, ` Allah Ta` ala shall bless you with extend¬ed sustenance and easy modalities of comfort and protect you from ca¬lamities and punishments - as a result of the forgiveness you seek and the repentance you show. And since this worldly life must end some day, the enjoyment of its comforts cannot become eternal under the law of nature. Therefore, by adding the caveat: إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى (for a given time), it has been stressed that the ` good things to enjoy& in the present world will be available up to a particular time, that is, the time of death. On the final count, death will eliminate all these things. But, soon after this ` death,& the life of the other world will begin, and there too, eternal comforts will be available to those who repent and seek forgiveness. And Sahl ibn ` Abdullah (رح) said, ` The meaning of ` good things to enjoy& is that one&s attention bypasses the created and re-mains fixed on the Creator.& Some other men of Allah have said, ` The reality of ` good things to enjoy& is that one remains content with what is available and worries not for what is not.& In other words, one should be satisfied with as much as is within easy reach in this world and should not eat his heart out for what he does not have. Of the glad tidings given to those who repent and seek forgiveness, the second appears in the following words: وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ && (and bestow His added grace on everyone of excellence). Here, the first فَضَل (fadl: ex¬cellexice) refers to one&s good deed, while the second ` fadl& denotes Di-vine grace or bounty, that is, the Paradise. Put simply, the sense is that Allah Ta` a1a shall bless every doer of good deed with His grace, that is, Paradise. A promise was made of Good Life, both in Dunya and Akhirah, in the first sentence, and of everlasting blessings of Paradise, in the sec¬ond. After that, it was said: وَإِن تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ‌ (And if you turn away, then, I fear for you the punishment of a great day). That is: ` If you turn away from the good counsel given to you, fail to seek for¬giveness for your past sins, and fail to remain safe against sins in the future, then, there is a strong likelihood that you will be seized by the punishment of a great day&. It refers to the day of Qiyamah for it would be a day of one thousand years and, also in terms of what ominous things would transpire in it, it will be the gravest.

تیسری آیت میں آیات قرآنی کی ہدایات میں سے ایک دوسری ہدایت کا بیان اس طرح فرمایا ہے (آیت) وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ ، یعنی ان آیات محکمات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ وہ اپنے رب سے مغفرت اور معافی مانگا کریں اور توبہ کیا کریں، مغفرت کا تعلق پچھلے گناہوں سے ہے اور توبہ کا تعلق آئندہ ان کے پاس نہ جانے کے عہد سے ہے، اور درحقیقت صحیح توبہ یہی ہے کہ پچھلے گناہوں پر نادم ہو کر اللہ تعالیٰ سے ان کی معافی طلب کرے اور آئندہ ان کے نہ کرنے کا پختہ عزم و ارادہ کرے، اسی لئے بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ آئندہ کو گناہ سے بچنے کا پختہ عزم اور اہتمام کئے بغیر محض زبان سے استغفار کرنا کذابین یعنی جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے، ( قرطبی) اور ایسے ہی استغفار کے متعلق بھی بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ : معصیت را خندہ می آیدز استغفار ما یا یہ کہ ایسی توبہ خود قابل توبہ ہے۔ اس کے بعد صحیح طور پر استغفار و توبہ کرنے والوں کو دنیا و آخرت کی فلاح اور عیش و راحت کی خوشخبری اس طرح دی گئی ہے، (آیت) يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى، یعنی جن لوگوں نے صحیح طور پر اپنے پچھلے گناہوں سے استغفار کیا اور آئندہ ان سے بچنے کا پختہ عزم اور پورا اہمتام کیا تو صرف یہی نہیں کہ ان کی خطا بخش دی جائے گی بلکہ ان کو اچھی زندگی عطا کی جائے گی، اور ظاہر یہ ہے کہ یہ زندگی عام ہے دنیا کی زندگی اور آخرت کی دائمی زندگی دونوں کو شامل ہے، جیسے ایک دوسری آیت میں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے (آیت) لَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً یعنی ہم ضرور ان کو پاکیزہ زندگی عطا کریں گے، اس آیت کے متعلق بھی جمہور مفسرین کی تحقیق یہی ہے کہ دنیا و آخرت کی دونوں زندگیاں اس میں شامل ہیں، سورة نوح میں اس کی تصریح بھی اس طرح آگئی ہے کہ استغفار کرنے والوں کے متعلق یہ فرمایا ہے (آیت) يُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا، وَّيُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّيَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا، یعنی اگر تم نے صحیح طور سے اللہ سے مغفرت مانگی تو اللہ تعالیٰ تم پر باران رحمت نازل فرمائے گا اور تم کو مال و اولاد سے بامراد کرے گا اور تمہارے لئے باغات اور نہریں عطا فرمائے گا، ظاہر ہے کہ باران رحمت اور مال و اولاد کا تعلق اسی حیات دنیا سے ہے۔ اسی لئے آیت مذکور میں متاع حسن کی تفسیر بھی اکثر مفسرین نے یہ کی ہے کہ استغفار و توبہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تم کو رزق کی وسعت اور عیش کی سہولتیں عطا فرمائے گا اور آفتوں اور عذابوں سے تمہاری حفاظت کرے گا، اور چونکہ حیات دنیا کا ایک روز ختم ہوجانا لازمی ہے اور اس کی عیش و راحت قانون قدرت کے تحت دائمی نہیں ہوسکتی، اس لئے اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فرما کر ہدایت کردی کہ دنیا میں پاکیزہ زندگی اور عیش کی سہولتیں ایک خاص میعاد یعنی موت تک حاصل رہیں گی، آخرکار موت ان سب چیزوں کا خاتمہ کردے گی۔ مگر اس موت کے فوراً بعد ہی دوسرے عالم کی زندگی شروع ہوجائے گی اور اس میں بھی توبہ و استغفار کرنے والوں کے لئے دائمی راحتیں میسر ہوں گی۔ اور حضرت سہل بن عبداللہ نے فرمایا کہ متاع حسن سے مراد یہ ہے کہ انسان کی توجہ مخلوق سے ہٹ کر خالق پر جم جائے، اور بعض بزرگوں نے فرمایا کہ متاع حسن یہ ہے کہ انسان موجود پر قناعت کرے، مفقود کے غم میں نہ پڑے یعنی دنیا جس قدر میسر ہو اس پر مطمئن ہوجائے جو حاصل نہیں اس کے غم میں نہ پڑے۔ دوسری خوشخبری توبہ و استغفار کرنے والوں کو یہ دی گئی کہ (آیت) وَّيُؤ ْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ ، اس میں پہلے فضل سے مراد انسان کا عمل صالح اور دوسری فضل سے فضل خداوندی یعنی جنت ہے، مطلب یہ ہے کہ ہر نیک عمل والے کو اللہ تعالیٰ اپنا فضل یعنی جنت عطا فرماویں گے۔ پہلے جملہ میں دنیا و آخرت دونوں میں متاع حسن یعنی اچھی زندگی کا وعدہ فرمایا ہے اور دوسرے جملہ میں جنت کی لازوال نعمتوں کا، آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ ، یعنی اگر اس نصیحت و خیر خواہی سے منہ موڑا اور پچھلے گناہوں سے استغفار اور آئندہ ان سے بچنے کا اہتمام نہ کیا تو یہ اندیشہ قوی ہے کہ تم ایک بڑے دن کے عذاب میں گرفتار ہوجاؤ گے، بڑے دن سے مراد قیامت کا دن ہے کیونکہ وہ اپنی وسعت کے اعتبار سے بھی ایک ہزار سال کا دن ہوگا اور اس میں پیش آنے والے حالات و واقعات کے اعتبار سے بھی وہ سب سے بڑا دن ہوگا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْہِ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَـنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ۝ ٠ ۭ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ۝ ٣ استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] وكلّ موضع ذکر فيه «تمتّعوا» في الدّنيا فعلی طریق التّهديد، وذلک لما فيه من معنی التّوسّع، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں دنیاوی ساز و سامان کے متعلق تمتعو آیا ہے تو اس سے تہدید مراد ہے کیونکہ اس میں ایک گو نہ عیش کو شی اور وسعت کے معنی پائے جاتے ہیں حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣) اور تم اللہ تعالیٰ کی توحید پر قائم ہوجاؤ پھر اسی کی طرف توبہ اور اخلاص کے ساتھ متوجہ ہوجاؤ وہ تمہیں وقت مقررہ یعنی موت تک بغیر کسی عذاب کے خوشحال زندگی دے گا اور اسلام میں ہر ایک زیادہ عمل کرنے والے کو آخرت میں زیادہ ثواب دے گا اور اگر تم ایمان لانے اور توبہ کرنے سے اعراض ہی کرتے ہو تو میں جانتا ہوں کہ تم پر ایک بڑے دن کا عذاب واقع ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ ) یہاں ذِیْ فَضْلٍ سے مراد ہے مستحق فضل۔ یعنی جو بھی فضل کا مستحق ہوگا ‘ اللہ تعالیٰ اسے اپنا فضل ضرور عطا فرمائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3. If a person turns to God in sincere devotion, He will enable him to spend his life felicitously. God will lavish upon him His bounties, confer a variety of benedictions, provide a life of prosperity, grant peace and tranquillity, and cause him to live honourably rather than in ignominy and disgrace. The same idea has been brought forth elsewhere in the Qur'an in the following words: Whoever acts righteously - whether male or female - the while he is a believer, We will surely grant him a clean life . . . (al-Nahl 16: 97). This verse dispels the Satanic misconception to which simpletons often succumb. The misconception consists of believing that piety, honesty and responsible behaviour might at the most lead to man's well-being in the Next Life, but they certainly play havoc with his life in the present world. Under this mistaken notion it is believed that good people are inevitably destined to live in abject poverty and utter misery. In refuting this misconception, God makes it clear that righteous behaviour is conducive to man's success in both worlds. Those who live a righteous and God-fearing life will achieve success and esteemed position in this world as in the Next. For, a position of true honour in this world falls only to those who, out of their devotion to God, act righteously, who are known for their excellent morals, who adhere to propriety in their dealings with others, who are considered by people to be trustworthy, of whom all expect nothing but goodness and benevolence, and of whom none entertains the fear of any evil. Implicit in the Qur'anic expression 'a fair enjoyment of life' is another point which should not escape our attention. According to the Qur'an, 'enjoyment of life' is of two kinds: one. which leads people, who are heedless of God, to temptations with the result that they immerse themselves in worldliness and forget God even more. Thus, 'enjoyment of life', though apparently a divine blessing, proves a curse. It becomes the precursor of God's punishment. This is what the Qur'an brands as 'illusory enjoyment'. (See Al 'Imran 3: 185; al-Hadid 57: 20 - Ed.) By contrast, the other kind of enjoyment of life adds to a person's prosperity and physical vitality in such a way that he becomes even more grateful to God. This kind of 'enjoyment of life' prompts man to fulfil the obligations incumbent upon him towards God, towards God's creatures and towards himself. Strengthened by the resources provided by God, man finds himself in a stronger position to effectively promote the cause of good and righteousness and to strive to obliterate evil and mischief. This is the Qur'anic concept of 'fair enjoyment of life' - an enjoyment which does not end with the life of this world, but extends to the Next Life as well. 4. The more a person excels in moral conduct and good deeds, the higher will be the status that God confers upon him. God does not let anyone's good deeds go to waste. In the same way as God does not show any appreciation for evil, He does not show any lack of appreciation for goodness and virtue. In God's kingdom there is no place for the kind of atrocious injustice and stupidity to which a Persian poet has given expression in the following couplet: The Arabian steed lies suffering from the wounds of the saddle-pack while a golden necklace adorns the neck of a donkey! God deals with His creatures in such a way that anyone who deserves a reward, is fully granted that reward.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :3 یعنی دنیا میں تمہارے ٹھیرنے کے لیے جو وقت مقرر ہے اس وقت تک وہ تم کو بری طرح نہیں بلکہ اچھی طرح رکھے گا ۔ اس کی نعمتیں تم پر برسیں گی ۔ اس کی برکتوں سے سرفراز ہوگے ۔ خوش حال و فارغ البال رہو گے ۔ زندگی میں امن اور چین نصیب ہوگا ۔ ذلت وخواری کے ساتھ نہیں بلکہ عزت و شرف کے ساتھ جیو گے ۔ یہی مضمون دوسرے موقع پر اس طرح ارشاد ہو ا ہے کہ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ( النحل ۔ آیت ۹۷ ) ” جو شخص بھی ایمان کے ساتھ نیک عمل کرے گا ، خواہ مرد ہو یا عورت ، ہم اس کو پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے“ ۔ اس سے لوگوں کی اس غلط فہمی کو رفع کرنا مقصود ہے جو شیطان نے ہر نادان دنیا پرست آدمی کو کان میں پھونک رکھی ہے کہ خدا ترسی اور راستبازی اور احساس ذمہ داری کا طریقہ اختیار کرنے سے آدمی کی آخرت بنتی ہو تو بنتی ہو ، مگر دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے ۔ اور یہ کہ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں فاقہ مستی و خستہ حالی کے سوا کوئی زندگی نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی تردید میں فرماتا ہے کہ اس راہ راست کو اختیار کرنے سے تمہاری صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا بھی بنے گی ۔ آخرت کی طرح اس دنیا کی حقیقی عزت و کامیابی بھی ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے جو سچی خدا پرستی کے ساتھ صالح زندگی بسر کریں ۔ جن کے اخلاق پاکیزہ ہوں ، جن کے معاملات درست ہوں ، جن پر ہر معاملہ میں بھروسہ کیا جا سکے ، جن سے ہر شخص بھلائی کا متوقع ہو ، جن سے کسی انسان کو یا کسی قوم کو شر کا اندیشہ نہ ہو ۔ اس کے علاوہ مَتَاعٌ حَسَنٌ کے الفاظ میں ایک اور پہلو ہے جو نگاہ سے اوجھل نہ رہ جانا چاہیے ۔ دنیا کا سامان زیست قرآن مجید کی رو سے دو قسم کا ہے ۔ ایک وہ سروسامان ہے جو خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لیے دیا جاتا ہے اور جس سے دھوکا کھا کر ایسے لوگ اپنے آپ کو دنیا پرستی و خدا فراموشی میں اور زیادہ گم کر دیتے ہیں ۔ یہ بظاہر تو نعمت ہے مگر بباطن خدا کی پھٹکار اور اس کے عذاب کا پیش خیمہ ہے ۔ قرآن مجید اس کو مَتَاعٌ غُرُوْرٌ کے الفاظ سے یاد کرتا ہے ۔ دوسرا وہ سروسامان ہے جس سے انسان خوشحال اور قوی بازو ہو کر اپنے خدا کا اور زیادہ شکر گزار بنتا ہے ، خدا اور اس کے بندوں کے اور خود اپنے نفس کے حقوق زیادہ اچھی طرح ادا کرتا ہے ، خدا کے دیے ہوئے وسائل سے طاقت پا کر دنیا میں خیر و صلاح کی ترقی اور شروفساد کے استیصال کے لیے زیادہ کارگر کوشش کرنے لگتا ہے ۔ یہ قرآن کی زبان میں مَتَاعٌ حَسَنٌ ہے ، یعنی ایسا اچھا سامان زندگی جو محض عیش دنیا ہی پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ نتیجہ میں عیش آخرت کا بھی ذریعہ بنتا ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :4 یعنی جو شخص اخلاق و اعمال میں جتنا بھی آگے بڑھے گا اللہ اس کو اتنا ہی بڑا درجہ عطا کرے گا ۔ اللہ کے ہاں کسی کی خوبی پر پانی نہیں پھیرا جاتا ۔ اس کے ہاں جس طرح برائی کی قدر نہیں ہے اسی طرح بھلائی کی ناقدری بھی نہیں ہے ۔ اس کی سلطنت کا دستور یہ نہیں ہے کہ اسپ تازی شدہ مجروح بزیر پالاں طوق زریں ہمہ در گردن خرمی بینم! وہاں تو جو شخص بھی اپنی سیرت و کردار سے اپنے آپ کو جس فضیلت کا مستحق ثابت کر دے گا وہ فضیلت اس کو ضرور دی جائےگی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: یہاں رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف معافی مانگ لینا کافی نہیں، آئندہ کے لیے گناہوں سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کا عزم بھی ضروری ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:3) توبوا الیہ۔ اس کی طرف لوٹو۔ ای ارجعوا الیہ بالطاعۃ والعبادۃ۔ اس کی اطاعت و عبادت کو حزر جان بنا کر اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ یمتعکم۔ مضارع مجزوم واحد مذکر غائب کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر ۔ وہ تم کو بہرہ اندوز کریگا۔ (باب تفعیل) متاعا حسنا اچھا مال و متاع۔ خوشگوار نعمتیں۔ ذی فضل زیادہ نیکی کرنے والا۔ من کان لہ فضل فی العمل۔ جو زیادہ عمل (نیک) کرے گا۔ فضلہ۔ عطاء ہ۔ جزاء ہ یعنی اسی قدر اس کی جزاء اور عطا میں اضافہ ہوگا۔ یوم کبیر۔ یوم القیامۃ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ یعنی جو گناہ کرچکے ان کی معافی چاہو اور آئندہ کے لئے توبہ کرو کہ پھر گناہ نہ کریں گے یا ہر طرف سے منہ موڑ کر اسی کی طرف پلٹ آئو۔ 8 ۔ یعنی اس کی نعمتوں سے سرفراز ہوجائو گے زندگی میں چین اور آرام نصیب ہوگا اور زندگی بھر عزت و شرف سے رہو گے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ استغفار سے بلائیں دور ہوتی ہیں اور توبہ سے خدا کی ایسی مہربانی حاصل ہوتی ہے کہ زندگی امن چین اور خوشحالی سے بسر ہوتی ہے۔ عمل صالح، اور استغفار کی برکات کے لئے دیکھئے سورة نحل آیات 89، سورة نوح آیت 11 ۔ (کذافی الوحیدی) ۔ 9 ۔ یعنی جو اطاعت اور نیک اعمال کرنے میں جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی اسے دنیا میں یا آخرت میں یا دونوں میں اجر زیادہ ملے گا۔ اللہ کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اس کا قاعدہ ہے کہ جو کوئی برائی کرتا ہے اس کے لئے ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے اور جو نیکی کرتا ہے اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ (ابن کثیر) ۔ 10 ۔ یعنی قیامت کے دن کا عذاب جو بہت سخت ہے۔ (وحیدی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ خوش عیشی سے مراد وہ ہے جس کواٰتنا فی الدنیا حسنة اور لنحیینہ حیوة طیبہ میں ذکر فرمایا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عبادت تب ہی قبول ہوسکتی ہے جب انسان اپنے گناہوں بالخصوص شرک سے توبہ کرے گا۔ قرآن مجید اس بات پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ انبیاء کرام نہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیتے تھے بلکہ وہ اللہ کی عبادت کرنے کے ساتھ گناہوں سے معافی مانگنے اور شرک سے توبہ کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو ! اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو بیشک وہ معاف کرنے والا ہے۔ استغفار کے بدلے وہ تم پر رحمت کی برکھا برسائے گا اور تمہیں مال اور بیٹے عنایت فرمائے گا۔ (نوح : ١١۔ ١٢) استغفار کرنے کا یہ بھی فائدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر اپنا عذاب مسلط نہیں کرتا۔ ایک دفعہ مکہ کے سردار جمع ہو کر بیت اللہ کا غلاف پکڑ کر اپنے لیے بدعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! اگر یہ رسول سچا ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا۔ اس کے جواب میں یہ فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اس لیے تم پر عذاب نازل نہیں کررہا کہ تم میں اس کا رسول اور استغفار کرنے والے مسلمان موجود ہیں۔ (الانفال ،: ٣٢۔ ٣٣) یہاں توبہ و استغفار کے تین فائدے بتائے گئے ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ توبہ و استغفار کرنے والوں کو دنیا کے بہترین اسباب عنایت فرمائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انسان کی موت تک اسے مہلت دے گا اور کسی ذلیل کردینے والی آزمائش میں مبتلا نہیں کرے گا۔ ٣۔ توبہ و استغفار کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مزید نوازے گا۔ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی بندگی سے انکار اور اس کے حضور توبہ و استغفار نہ کریں گے تو دنیا میں ذلیل کردینے والا عذاب اور آخرت میں بڑے اور لا متناہی مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا ہوں گے۔ کیونکہ بالآخر ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے اور وہ لوگوں کو اپنے حضور پیش کرنے پر پوری طاقت رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ ذرے ذرے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْ لُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ عَبْدًا اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ فَاغْفِرْہُ فَقَالَ رَبُّہُ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَےَاْخُذُبِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَا شَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْہُ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَ ےَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَاشَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا قَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا اٰخَرَ فَاغْفِرْہُ لِیْ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَےَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ فَلْےَفْعَلْ مَا شَآءَ ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ یریدون ان یبدلوا کلام اللہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ کوئی شخص گناہ کرتا ہے پھر اپنے رب سے عرض کرتا ہے کہ میں گناہ کر بیٹھا ہوں تو اے رب مجھے معاف فرما۔ اس کا رب فرشتوں سے کہتا ہے ‘ کیا میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا ہے اور ان پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے ؟ لہٰذا میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ پھر جب تک اللہ کی توفیق ہوتی ہے وہ گناہ سے باز رہتا ہے ‘ پھر اس سے گناہ ہوجاتا ہے اور پھر اپنے رب کو پکارتا ہے۔ میرے پروردگار مجھ سے گناہ ہوگیا ہے۔ میرے اللہ ! مجھے معاف فرما۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے استفسار کرتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ کوئی اس کا مالک ہے جو گناہوں کو معاف بھی کرتا ہے اور ان پر پکڑتا بھی ہے ؟ میں نے اپنے بندے کو معاف کردیا ! اب وہ جو چاہے کرے۔ “ (یعنی سابقہ گناہ پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ ) “ توبہ استغفار کے چند وظائف : (رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ ) [ المومنون : ١١٨] ” یارب معاف اور رحم فرما تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ “ (أَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبِ وَّأَتُوْبُ إِلَیْہِ ) [ مشکوٰۃ ‘ باب الاستغفار ] ” میں اللہ سے ہر گناہ کی معافی مانگتا ہوں اور اسی کے حضور توبہ کرتا ہوں۔ “ (اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ ) [ مشکوٰۃ ‘ باب السجود ] ” اے اللہ مجھے معاف اور مجھ پہ رحم فرما۔ “ (اَللّٰھُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ ) [ مشکوٰۃ ‘ کتاب الصوم ] ” اے اللہ آپ معاف کرنیوالے، معافی کو پسند کرتے ہیں اس لیے مجھے معاف فرما دیجیے۔ “ یہاں قیامت کے دن کو یوم کبیر کہا گیا ہے جو اپنی طوالت کے اعتبار سے پچاس ہزارسال پر مشتمل ہوگا۔ (حم السجدۃ : ٥ ا) اور سختی کے حوالے سے اس قدر سخت ہوگا کہ بچہ جنم دینے والی ماؤں کے حمل ساقط ہوجائیں گے اور لوگ اس دن کی سختیوں سے مدہوش اور بدحواس ہوں گے۔ دیکھنے والا یوں سمجھے گا جیسے کسی نشے کی وجہ سے سر گرداں پھر رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ یوم عظیم کی سختی اور تلخی کا نتیجہ ہوگا۔ (الحج : ٢) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرنی چاہیے۔ ٢۔ ہر شخص کو اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ٣۔ استغفار کی برکت سے اللہ تعالیٰ دنیوی فوائد بھی عطا فرماتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے نوازنے والا ہے۔ ٥۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ٦۔ سب نے اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن توبہ و استغفار کا حکم اور فوائد : ١۔ اپنے پروردگار سے توبہ کرو اور اس کی طرف رجوع کرو وہ تمہیں خوشی و عیش دے گا۔ (ہود : ٣) ٢۔ اپنے رب سے بخشش طلب کرو وہ آسمان سے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا۔ (ہود : ٥٢) ٣۔ تم اس سے بخشش طلب کرو میرا رب تمہاری توبہ قبول کرے گا۔ (ہود : ٦١) ٤۔ اپنے رب سے بخشش طلب کرو وہ تمہیں معاف کردے گا اور بارش، مال اور اولاد سے نوازے گا۔ (نوح : ١٠۔ ١٢) ٥۔ اللہ سے بخشش طلب کرو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (المزمل : ٢٠) ٦۔ جب تک لوگ بخشش طلب کرتے رہیں گے ہم انہیں عذاب نہیں دیں گے۔ (الانفال : ٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6: یہ اور ثُمَّ تُوْبُوْا دونوں اَلَّا تَعْبُدُوْا پر معطوف ہیں۔ اپنے سابقہ گناہوں کی اللہ سے معافی مانگو اور آئندہ کیلئے ان گناہوں (غیر اللہ کی عبادت اور پکار وغیرہ) کے نزدیک نہ جانے کا سچے دل سے عزم کرو۔ یُمَتِّعُکُمْ مَّتَاعًا الخ امر کا جواب ہے یعنی اگر تم شرک سے بچو گے اور اپنے گناہوں کی اللہ سے معافی مانگتے رہو گے تو تا زندگی اللہ کے عذاب سے محفوط رہو گے۔ قال الزجاج یبقیکم ولا یستاملکم بالعذاب کما استاصل اھل القری الذین کفروا (روح ج 11 ص 208) ۔ وَیُؤْتِ الخ یہ یُمَتِّعُکُمْ پر معطوف ہے اور صالح اور زیادہ نیک اعمال بجالانے والے کو اس کے اعمال صالحہ کی جزاء دنیا وآخرت میں عطا فرمائے گا۔ 7: یہ جمع مذکر حاضر فعل مضارع کا صیغہ ہے اور ایک تاء تخففًا ساقط ہے اصل میں اِنْ تَتَوَلَّوْا تھا (مدارک ج 2 ص 138 وروح) یا یہ ماضی کا صیغہ ہے مگر اس صورت میں فاء جزائیہ کے بعد لفظ قُلْ محذوف ہوگا ای فقل یا محمد اِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ الخ (خازن ج 3 ص 217) ۔ اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ الخ تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

3 اور نیز مقصد یہ ہے کہ تم لوگ اپنے رب سے اپنے شرک و کفر کے گناہوں کی مغفرت طلب کرو پھر توبہ کرنے اور ایمان لانے کے بعد بھی اسی کی جانب متوجہ رہو اور اس کی عبادت کرتے رہو اس پر وہ تم کو ایک وقت مقررہ تک خوشی عیشی اور منافع حسنہ سے بہرہ مند رکھے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا فرمائے گا اور اگر تم رو گردانی اور اعراض ہی کئے جائو گے تو اس صورت میں میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ہر تو آوے اور زیادتی والوں کو اپنی زیادتی دیوے یعنی ایمان لائو تو دنیا کی زندگی اچھی طرح گزرے اور جو کوئی اس سے زیادہ قدم رکھے وہ زیادہ درجہ پائے 12 خلاصہ ! یہ ہے کہ فضلہ کے دو طرح معنی کئے گئے ہیں۔