Commentary Allah Ta` a1a had blessed Sayyidna Nuh (علیہ السلام) with long years of life extending up to nearly one thousand years. Along with it, he was given a special status in terms of his prophetic mission to invite people to Allah and make their condition better whereby he devoted these long years to keep asking them to believe in the true Faith and in Al¬lah as One. He had to face the harshest of pains in this mission. His people would throw stones at him until he fell down and lost con¬sciousness. But, as soon as he would regain it, he prayed to Allah for the forgiveness of his people for they did not know what they were do¬ing. A generation was followed by the other, and the other by yet another, in a chain and he kept giving his call in the hope that they might, at some stage, accept the truth. When centuries passed over this exercise in patience, he com¬plained about their deplorable condition before his Almighty Lord which has been mentioned in Surah Nuh قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا ﴿٥﴾ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا ﴿٦﴾ (My Lord, I did invite my people [ to the truth ] night and day. But, my invitation increased them in nothing but flight [ in aver¬sion ] - 71:5, 6) and, after all those long years of hardship, the prayer that this great servant of Allah made was: قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا ﴿٥﴾ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا ﴿٦﴾ (My Lord, help me because they have belied me - al-Mu&minun, 23: 26, 39). When the reign of terror let loose by the people of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) became much too excessive, he was addressed by Allah Ta` ala in the words appearing in the verses cited above. (al-Baghawi, Mazhari) Firstly, he was told that, out of his people, those who were to be¬lieve had already believed. No one was to believe after that. Their hearts were sealed with their own obstinacy and contumacy. There-fore, he should not grieve about his people anymore and feel free of any concern about their failure to believe. Secondly, he was told that Allah was to send the punishment of flood against those people. Therefore, he should make an ark that could hold his family, as many believers as there were, and what they needed, so that they could embark it when the flood comes and be safe from it. Sayyidna Nuh (علیہ السلام) made the ark as he was ordered to. When the initial signs of the flood came before them - that water started overflowing from the earth - Sayyidna Nuh (علیہ السلام) was com¬manded to embark the ark along with his family and the few believers who had believed in him. They were also asked to load a pair each of animals that serve human needs, such as, cow, ox, goat, horse, mule etc. Sayyidna Nuh (علیہ السلام) put everyone on the ark as ordered. At the end it was said that the believers in Sayyidna Nuh (علیہ السلام) who boarded the ark were only a few. This was a gist of the subject as it appears in the cited verses. Now we can turn to the explanation of each verse and deal with issues and problems that emerge there from. In the first verse (36), it was said that it was revealed to Sayyidna Nuh (علیہ السلام) that those who were to believe from among his people had already believed. In future, no one else will believe. Therefore, he should not worry about how they deal with him because one feels the pinch of sorrow only when one expects something good to come from someone. Disappointment is not that bad. It has its own relief. He might as well be disappointed with them. As for the shock felt by Sayyidna Nuh (علیہ السلام) because of all sorts of pains inflicted by his peo¬ple on him, arrangements had already been made as indicated the next verse (37) - ` they are to be drowned.& Under these conditions came that invocation of curse for his people on the lips of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) which has been mentioned in Surah Nuh (علیہ السلام) : رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ﴿٢٦﴾ إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا ﴿٢٧﴾ |"My Lord, do not leave upon the earth any inhabitant from among the disbelievers. Indeed, if You were to leave them, they will mislead Your servants and will not procreate anyone but the ones wicked and disbelieving (diehards) |" - 71:26, 27. In answer to this prayer, the people of Sayyidna Nuh were drowned en masse.
خلاصہ تفسیر اور ( جب نصیحت کرتے ہوئے ایک زمانہ دراز گزر گیا اور کچھ اثر نہ ہوا تو) نوح (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی گئی کہ سوا ان کے جو ( اس وقت تک) ایمان لاچکے ہیں اور کوئی ( نیا) شخص تمہاری قوم میں سے ایمان نہ لاوے گا سو جو کچھ یہ لوگ ( کفر و ایذاء و استہزاء) کر رہے ہیں اس پر کچھ غم نہ کرو ( کیونکہ غم تو خلاف توقع سے ہوتا ہے جب ان سے مخالفت کے سوا کوئی اور توقع ہی نہیں پھر کیوں غم کیا جاوے) اور ( چونکہ ہمارا ارادہ اب ان کو غرق کرنے کا اور اس لئے طوفان آنے کو ہے پس) تم ( اس طوفان سے بچنے کے لئے) ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے کشتی تیار کرلو ( کہ اس کے ذریعہ سے طوفان سے تم اور مؤمنین محفوظ رہو گے) اور ( مجھ سے کافروں ( کی نجات) کے بارے میں کچھ گفتگو مت کرنا ( کیونکہ) وہ سب غرق کئے جاویں گے ( ان کے لئے یہ قطعی طور پر تجویز ہوچکا ہے تو ان کی سفارش بےکار ہوگی غرض نوح (علیہ السلام) نے سامان کشتی کا جمع کیا) اور وہ کشتی تیار کرنے لگے ( خواہ خود یا دوسرے کاریگروں کے ذریعہ سے) اور ( اثنائے تیاری میں) جب کبھی ان کی قوم میں کسی رئیس گروہ کا ان پر گزر ہوتا تو ( ان کو کشتی بناتا دیکھ کر اور یہ سن کر کہ طوفان آنے والا ہے) ان سے ہنسی کرتے ( کہ دیکھو پانی کا کہیں نام و نشان نہیں مفت مصیبت جھیل رہے ہیں) آپ فرماتے کہ اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم تم پر ہنستے ہیں جیسا تم ہم پر ہنستے ہو ( کہ عذاب ایسا نزدیک آپہنچا ہے اور تم کو ہنسی سوجھ رہی ہے ہم اس پر ہنستے ہیں) سو ابھی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ وہ کون شخص ہے جس پر (دنیا میں) ایسا عذاب آیا جاتا ہے جو اس کو رسوا کر دے گا اور ( بعد مرگ) اس پر دائمی عذاب نازل ہوتا ہے ( غرض اسی طرح کے مکالمات اور معاملات ہوا کرتے) یہاں تک کہ جب ہمارا حکم ( عذاب کا قریب) آپہنچا اور زمین سے پانی ابلنا شروع ہوا ( اور یہ علامت تھی طوفان شروع ہوجانے کی اور اوپر سے پانی برسنا شروع ہوا اس وقت) ہم نے ( نوح (علیہ السلام) سے) فرمایا کہ ہر قسم ( کے جانوروں) میں سے ( جو کہ انسان کے لئے کارآمد ہیں اور پانی میں زندہ نہیں رہ سکتے) ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ یعنی دو عدد اس ( کشتی) میں چڑھا لو اور اپنے گھر والوں کو بھی ( چڑھا لو) باستثناء اس کے جس پر ( غرق ہونے کا) حکم نافذ ہوچکا ہے (یعنی ان میں جو کافر ہو جن کی نسبت اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ کہہ دیا گیا ہے، اس کو سوار مت کرنا اور گھر والوں کے علاوہ) دوسرے ایمان والوں کو بھی ( سوار کرلو) اور بجز قلیل آدمیوں کے ان کے ساتھ کوئی ایمان نہ لایا تھا ( بس ان ہی کے سوار کرنے کا حکم ہوگیا ) ۔ معارف و مسائل حضرت نوح (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے تقر یبا ایک ہزار سال کی عمر دراز عطا فرمائی، اس کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دینے اور قوم کی اصلاح کرنے کی فکر اور پیغمبرانہ جدوجہد کا بھی یہ درجہ عطا فرمایا کہ اس طویل مدت عمر میں ہمیشہ اپنی قوم کو دین حق اور کلمہ توحید کی دعوت دیتے رہے، قوم کی طرف سے سخت سخت ایذاؤں کا سامنا کرنا پڑا ان کی قوم ان پر پتھراؤ کرتی یہاں تک کہ بےہوش ہوجاتے پھر جب ہوش آتا دعا کرتے کہ یا اللہ میری قوم کو معاف کردے یہ بیوقوف جاہل جانتے نہیں، قوم کی ایک نسل کے بعد دوسری کو دوسری کے بعد تیسری کو اس امید پر دعوت دیتے کہ شاید یہ حق کو قبول کرلیں۔ جب اس عمل پر صدیاں گزر گئیں تو رب العزت کے سامنے ان کی حالت زار کی شکایت کی جو سورة نوح میں مذکور ہے (آیت) رَبِّ اِنِّىْ دَعَوْتُ قَوْمِيْ لَيْلًا وَّنَهَارًا، فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَاۗءِيْٓ اِلَّا فِرَارًا، اور اتنے طویل مصائب کے بعد اس مرد خدا کی زبان پر یہ دعا آئی (آیت) رَبِّ انْــصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ ، یعنی اے میرے پروردگار ان کی تکذیب کے بالمقابل آپ میری مدد کیجئے۔ قوم نوح کا ظلم و جور سے گزر جانے کے بعد حق تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان آیات سے خطاب فرمایا جو اوپر مذکور ہیں ( بغوی، مظہری ) ۔ ان میں اول تو حضرت نوح (علیہ السلام) کو یہ بتلایا گیا کہ آپ کی قوم میں جن کو ایمان لانا تھا، لے آئے اب کوئی اور شخص ایمان قبول نہ کرے گا ان کے دلوں پر ان کی ہٹ دھرمی اور سرکشی کی بناء پر مہر لگ چکی ہے اس لئے اب آپ اس قوم کا غم نہ کھائیں اور ان کے ایمان قبول نہ کرنے سے پریشان نہ ہوں۔ دوسری بات یہ بتلائی گئی کہ اب ہم اس قوم پر عذاب پانی کے طوفان کا بھیجنے والے ہیں اس لئے آپ ایک کشتی تیار کریں جس میں آپ کے اہل و عیال اور جتنے مسلمان ہیں مع اپنی ضروریات کے سما سکیں تاکہ طوفان کے وقت یہ سب اس میں سوار ہو کر نجات پاسکیں، حضرت نوح (علیہ السلام) نے حکم کے مطابق کشتی بنائی، پھر جب طوفان کی ابتداء کی علامات سامنے آگئیں کہ زمین سے پانی ابلنے لگا تو نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ خود مع اپنے اہل و عیال کے اور ان لوگوں کے جو آپ پر ایمان لائے ہیں اس کشتی میں سوار ہوجائیں، اور انسانوں کی ضروریات جن جانوروں سے متعلق ہیں جیسے گائے، بیل، بکری، گھوڑا، گدھا وغیرہ ان کا بھی ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کرلیں، حضرت نوح (علیہ السلام) نے حکم کے مطابق سب کو سوار کرلیا۔ آخر میں فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے اور کشتی میں سوار ہونے والے مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ یہ خلاصہ مضمون ہے آیات متذکرہ کا، اب ہر ایک آیت کے مفہوم کی تشریح اور ان سے متعلقہ مضامین و مسائل دیکھئے۔ پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) پر یہ وحی بھجی گئی کہ ان کی قوم میں سے جو ایمان لانے والے تھے لاچکے ہیں آئندہ اور کوئی ایمان نہ لائے گا اس لئے یہ لوگ جو کچھ معاملہ آپ کے ساتھ کرتے ہیں اس سے آپ غمگین و پریشان نہ ہوں، کیونکہ غم و پریشانی عموماً جب ہوتی ہے جب کسی سے صلاح و فلاح کی امید وابستہ ہو، مایوسی بھی ایک قسم کی راحت ہوتی ہے آپ ان سے مایوس ہوجائیے، اور جو تکلیف و صدمہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی ایذاؤں سے پہنچ رہا تھا اس کے انتظام کی طرف دوسری آیت میں اشارہ کیا گیا کہ ان کو پانی کے طوفان میں غرق کردیا جائے گا، انہیں حالات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی زبان پر اپنی قوم کے لئے وہ بددعا آئی تھی جس کا ذکر سورة نوح میں کیا گیا ہے : (آیت) رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا، اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا، یعنی اے میرے پروردگار ! اب ان کافروں میں سے کوئی زمین بر بسنے والا نہ چھوڑئیے، کیونکہ اگر یہ رہے تو ان کی آئندہ نسل بھی ایسی ہی سرکشی اور فاجر و کافر ہوگی۔ یہی دعا قبول ہو کر پوری قوم نوح طوفان میں غرق کی گئی۔