Surat Hood

Surah: 11

Verse: 36

سورة هود

وَ اُوۡحِیَ اِلٰی نُوۡحٍ اَنَّہٗ لَنۡ یُّؤۡمِنَ مِنۡ قَوۡمِکَ اِلَّا مَنۡ قَدۡ اٰمَنَ فَلَا تَبۡتَئِسۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳۶﴾ۚ ۖ

And it was revealed to Noah that, "No one will believe from your people except those who have already believed, so do not be distressed by what they have been doing.

نوح کی طرف وحی بھیجی گئی کہ تیری قوم میں سے جو ایمان لا چکے ان کے سوا اور کوئی اب ایمان لائے گا ہی نہیں ، پس تو ان کے کاموں پر غمگین نہ ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Revelation to Nuh concerning what would happen to the People and the Command to prepare for It Allah, the Exalted says; وَأُوحِيَ إِلَى نُوحٍ ... And it was revealed to Nuh: Allah, the Exalted, sent revelation to Nuh when his people hastened the vengeance and punishment of Allah upon themselves. Then, Nuh supplicated against them, as Allah mentioned, when He said; رَّبِّ لاَ تَذَرْ عَلَى الاٌّرْضِ مِنَ الْكَـفِرِينَ دَيَّاراً My Lord! Leave not one of the disbelievers inhabiting the earth! (71:26) And he said, فَدَعَا رَبَّهُ أَنُّى مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ Then he invoked his Lord (saying): "I have been overcome, so help (me)!" (54:10) At this point Allah revealed to him, ... أَنَّهُ لَن يُوْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلاَّ مَن قَدْ امَنَ ... "None of your people will believe except those who have believed already. ... فَلَ تَبْتَيِسْ بِمَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ So be not sad because of what they used to do." Therefore, do not grieve over them and do not be concerned with their affair.

قوم نوح کا مانگا ہوا عذاب اسے ملا قوم نوح نے جب عذابوں کی مانگ جلدی مچائی تو آپ نے اللہ سے دعا کی الٰہی زمین پر کسی کافر کو رہتا بستا نہ چھوڑ ۔ پرودرگار میں عاجز آگیا ہوں ، تو میری مدد کر ۔ اسی وقت وحی آئی کہ جو ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا اور کوئی اب ایمان نہ لائے گا تو ان پر افسوس نہ کر نہ ان کا کوئی ایسا خاص خیال کر ۔ ہمارے دیکھتے ہی ہماری تعلیم کے مطابق ایک کشتی تیار کر اور اب ظالموں کے بارے میں ہم سے کوئی بات چیت نہ کر ، ہم ان کا ڈبو دینا مقرر کر چکے ہیں ۔ بعض سلف کہتے ہیں حکم ہوا کہ لکڑیاں کاٹ کر سکھا کر تختے بنالو ۔ اس میں ایک سو سال گزر گئے پھر مکمل تیاری میں سو سال اور نکل گئے ایک قول ہے چالیس سال لگے واللہ اعلم ۔ امام محمد بن اسحق توراۃ سے نقل کرتے ہیں کہ ساگ کی لکڑی کی یہ کشتی تیار ہوئی اس کا طول اسی ( 80 ) ہاتھ تھا اور عرض پچاس ( 50 ) ہاتھ کا تھا ۔ اندر باہر سے روغن کیا گیا تھا پانی کاٹنے کے پر پرزے بھی تھے قتادہ کا قول ہے کہ لمبائی تین سو ہاتھ کی تھی ۔ ابن عباس کا فرمان ہے کہ طول بارہ سو ہاتھ کا تھا اور چوڑائی چھ سو ہاتھ کی تھی ۔ کہا گیا ہے کہ طول دوہزار ہاتھ اور چوڑائی ایک سو ہاتھ کی تھی واللہ اعلم ۔ اس کی اندرونی اونچائی تیس ہاتھ کی تھی اس میں تین درجے تھے ہر درجہ دس ہاتھ اونچا تھا ۔ سب سے نیچے کے حصے میں چوپائے اور جنگلی جانور تھے ۔ درمیان کے حصے میں انسان تھے اور اوپر کے حصے میں پرندے تھے ۔ ان میں چھوٹا دروازہ تھا ، اوپر سے بالکل بند تھی ۔ ابن جریر نے ایک غریب اثر عبداللہ بن عباس سے ذکر کیا ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم سے درخواست کی کہ اگر آپ بحکم الٰہی کسی ایسے مردہ کو جلاتے جس نے کشتی نوح دیکھی ہو تو ہمیں اسے معلومات ہوتیں آپ انہیں لے کر ایک ٹیلے پر پہنچ کر وہاں کی مٹی اٹھائی اور فرمایا جانتے ہو یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو ہی علم ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ پنڈلی ہے حام بن نوح کی پھر آپ نے ایک لکڑی اس ٹیلے پر مار کر فرمایا اللہ کے حکم سے اٹھ کھڑا ہو اسی وقت ایک بڈھا سا آدمی اپنے سر سے مٹی جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا تو بڑھاپے میں مرا تھا ۔ اس نے کہا نہیں مرا تو تھا جوانی میں لیکن اب دل پر دہشت بیٹھی کہ قیامت قائم ہو گئی اس دہشت نے بوڑھا کر دیا ۔ آپ نے فرمایا اچھا حضرت نوح کی کشتی کی بابت اپنی معلومات بیان کرو ۔ اس نے کہا وہ بارہ سو ہاتھ لمبی اور چھ سو ہاتھ چوڑی تھی تین درجوں کی تھی ۔ ایک میں جانور اور چوپائے تھے ، دوسرے میں انسان ، تیسرے میں پرند ، جب جانوروں کا گوبر پھیل گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی طرف وحی بھیجی کے ہاتھی کی دم ہلاؤ ۔ آپ کے ہلاتے ہی اس سے خنزیر نر مادہ نکل آئے اور وہ میل کھانے لگے ۔ چوہوں نے جب اس کے تختے کترنے شروع کئے تو حکم ہوا کہ شیر کی پیشانی پر انگلی لگا ۔ اس سے بلی کا جوڑا نکلا اور چوہوں کی طرف لپکا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کو شہروں کے غرقاب ہو نے کا علم کیسے ہو گیا ؟ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے کوے کو خبر لینے کے لیے بھیجا لیکن وہ ایک لاش پر بیٹھ گیا ، دیر تک وہ واپس نہ آیا تو آپ نے اس کے لیے ہمیشہ ڈرتے رہنے کی بد دعا کی ۔ اسی لیے وہ گھروں سے مانوس نہیں ہوتا ۔ پھر آپ نے کبوتر کو بھیجا وہ اپنی چونچ میں زیتون کے درخت کا پتہ لے کر آیا اور اپنے پنجوں میں خشک مٹی لایا اس سے معلوم ہو گیا کہ شہر ڈوب چکے ہیں ۔ آپ نے اس کی گردن میں خصرہ کا طوق ڈال دیا اور اس کے لیے امن وانس کی دعا کی پس وہ گھروں میں رہتا سہتا ہے ۔ حواریوں نے کہا اے رسول اللہ آپ انہیں ہمارے ہاں لے چلئے کہ ہم میں بیٹھ کر اور بھی باتیں ہمیں سنائیں ۔ آپ نے فرمایا یہ تمہارے ساتھ کیسے آسکتا ہے جب کہ اس کی روزی نہیں ۔ پھر فرمایا اللہ کے حکم سے جیسا تھا ویسا ہی ہو جا ، وہ اسی وقت مٹی ہوگیا ۔ نوح علیہ السلام تو کشتی بنانے میں لگے اور کافروں کو ایک مذاق ہاتھ لگ گیا وہ چلتے پھرتے انہیں چھیڑتے اور باتیں بناتے اور طعنہ دیتے کیونکہ انہیں جھوٹا جانتے تھے اور عذاب کے وعدے پر انہیں یقین نہ تھا ۔ اس کے جواب میں حضرت نوح علیہ السلام فرماتے اچھا دل خوش کر لو وقت آرہا ہے کہ اس کا پورا بدلہ لے لیا جائے ۔ ابھی جان لو گے کہ کون اللہ کے عذاب سے دنیا میں رسوا ہوتا ہے اور کس پر اخروی عذاب آچمٹتا ہے جو کبھی ٹالے نہ ٹلے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 یہ اس وقت کہا گیا کہ جب قوم نوح (علیہ السلام) نے عذاب کا مطالبہ کیا اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی کہ یا رب ! زمین پر ایک کافر بھی بسنے والا نہ رہنے دے۔ اللہ نے فرمایا، اب مزید کوئی ایمان نہیں لائے گا، تو ان پر غم نہ کھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٣] عذاب صرف گندے عنصر پر آتا ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی دعوت اور قوم کے انکار کے نتیجہ میں عذاب اس وقت تک نہیں آتا جب تک اس میں کچھ بھلے آدمیوں کے نکل آنے کا امکان باقی ہو اور جب ایمان لانے والے ایمان لاچکتے ہیں اور باقی صرف گندہ عنصر ہی رہ جاتا ہے تو یہی عین عذاب کا وقت ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو سورة نوح میں سیدنا نوح (علیہ السلام) نے خود بھی دعا کرتے وقت کہا تھا کہ && یا اللہ اب اس قوم کو غارت کردے کیونکہ اب ان لوگوں میں کسی کے ایمان لانے کی توقع نہیں رہی بلکہ جو اولاد یہ جنیں گے وہ بھی فاسق و فاجر ہی پیدا ہوگی لہذا ان میں سے ایک گھرانہ بھی زندہ نہ چھوڑ && (٧١: ٢٦، ٢٧)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاُوْحِيَ اِلٰي نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ يُّؤْمِنَ ۔۔ : نوح (علیہ السلام) سے متعلق قرآن مجید کی تمام آیات پر مجموعی نظر ڈالیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے بےمثال صبر کے ساتھ مسلسل صدیوں دعوت دینے کے باوجود قوم نے ان کے انکار اور ایذا رسانی میں کوئی کمی نہ کی، بلکہ ہر نسل اپنی اولاد کو وصیت کرکے مرتی رہی کہ دیکھنا اپنے بتوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور نوح (علیہ السلام) کی بات مت ماننا۔ (سورۂ نوح) اس کے باوجود نوح (علیہ السلام) پُر امید رہ کر نہایت استقامت کے ساتھ انھیں دعوت توحید دیتے رہے، مگر جب اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ اطلاع دی کہ اب آئندہ آپ کی قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا تو انھوں نے ان پر عذاب کے لیے بددعا کی۔ جس کا ذکر سورة قمر (١٠) میں ہے، فرمایا : (اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِر) ” بیشک میں مغلوب ہوں سو تو بدلہ لے۔ “ اور سورة نوح میں ان کی دعا کے الفاظ ہیں : (رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا) ” اے میرے رب ! زمین پر ان کافروں میں سے کوئی رہنے والا نہ چھوڑ۔ “ آیت (٢٦) سے آخر سورت تک ملاحظہ فرمائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Allah Ta` a1a had blessed Sayyidna Nuh (علیہ السلام) with long years of life extending up to nearly one thousand years. Along with it, he was given a special status in terms of his prophetic mission to invite people to Allah and make their condition better whereby he devoted these long years to keep asking them to believe in the true Faith and in Al¬lah as One. He had to face the harshest of pains in this mission. His people would throw stones at him until he fell down and lost con¬sciousness. But, as soon as he would regain it, he prayed to Allah for the forgiveness of his people for they did not know what they were do¬ing. A generation was followed by the other, and the other by yet another, in a chain and he kept giving his call in the hope that they might, at some stage, accept the truth. When centuries passed over this exercise in patience, he com¬plained about their deplorable condition before his Almighty Lord which has been mentioned in Surah Nuh قَالَ رَ‌بِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارً‌ا ﴿٥﴾ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَ‌ارً‌ا ﴿٦﴾ (My Lord, I did invite my people [ to the truth ] night and day. But, my invitation increased them in nothing but flight [ in aver¬sion ] - 71:5, 6) and, after all those long years of hardship, the prayer that this great servant of Allah made was: قَالَ رَ‌بِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارً‌ا ﴿٥﴾ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَ‌ارً‌ا ﴿٦﴾ (My Lord, help me because they have belied me - al-Mu&minun, 23: 26, 39). When the reign of terror let loose by the people of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) became much too excessive, he was addressed by Allah Ta` ala in the words appearing in the verses cited above. (al-Baghawi, Mazhari) Firstly, he was told that, out of his people, those who were to be¬lieve had already believed. No one was to believe after that. Their hearts were sealed with their own obstinacy and contumacy. There-fore, he should not grieve about his people anymore and feel free of any concern about their failure to believe. Secondly, he was told that Allah was to send the punishment of flood against those people. Therefore, he should make an ark that could hold his family, as many believers as there were, and what they needed, so that they could embark it when the flood comes and be safe from it. Sayyidna Nuh (علیہ السلام) made the ark as he was ordered to. When the initial signs of the flood came before them - that water started overflowing from the earth - Sayyidna Nuh (علیہ السلام) was com¬manded to embark the ark along with his family and the few believers who had believed in him. They were also asked to load a pair each of animals that serve human needs, such as, cow, ox, goat, horse, mule etc. Sayyidna Nuh (علیہ السلام) put everyone on the ark as ordered. At the end it was said that the believers in Sayyidna Nuh (علیہ السلام) who boarded the ark were only a few. This was a gist of the subject as it appears in the cited verses. Now we can turn to the explanation of each verse and deal with issues and problems that emerge there from. In the first verse (36), it was said that it was revealed to Sayyidna Nuh (علیہ السلام) that those who were to believe from among his people had already believed. In future, no one else will believe. Therefore, he should not worry about how they deal with him because one feels the pinch of sorrow only when one expects something good to come from someone. Disappointment is not that bad. It has its own relief. He might as well be disappointed with them. As for the shock felt by Sayyidna Nuh (علیہ السلام) because of all sorts of pains inflicted by his peo¬ple on him, arrangements had already been made as indicated the next verse (37) - ` they are to be drowned.& Under these conditions came that invocation of curse for his people on the lips of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) which has been mentioned in Surah Nuh (علیہ السلام) : رَّ‌بِّ لَا تَذَرْ‌ عَلَى الْأَرْ‌ضِ مِنَ الْكَافِرِ‌ينَ دَيَّارً‌ا ﴿٢٦﴾ إِنَّكَ إِن تَذَرْ‌هُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرً‌ا كَفَّارً‌ا ﴿٢٧﴾ |"My Lord, do not leave upon the earth any inhabitant from among the disbelievers. Indeed, if You were to leave them, they will mislead Your servants and will not procreate anyone but the ones wicked and disbelieving (diehards) |" - 71:26, 27. In answer to this prayer, the people of Sayyidna Nuh were drowned en masse.

خلاصہ تفسیر اور ( جب نصیحت کرتے ہوئے ایک زمانہ دراز گزر گیا اور کچھ اثر نہ ہوا تو) نوح (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی گئی کہ سوا ان کے جو ( اس وقت تک) ایمان لاچکے ہیں اور کوئی ( نیا) شخص تمہاری قوم میں سے ایمان نہ لاوے گا سو جو کچھ یہ لوگ ( کفر و ایذاء و استہزاء) کر رہے ہیں اس پر کچھ غم نہ کرو ( کیونکہ غم تو خلاف توقع سے ہوتا ہے جب ان سے مخالفت کے سوا کوئی اور توقع ہی نہیں پھر کیوں غم کیا جاوے) اور ( چونکہ ہمارا ارادہ اب ان کو غرق کرنے کا اور اس لئے طوفان آنے کو ہے پس) تم ( اس طوفان سے بچنے کے لئے) ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے کشتی تیار کرلو ( کہ اس کے ذریعہ سے طوفان سے تم اور مؤمنین محفوظ رہو گے) اور ( مجھ سے کافروں ( کی نجات) کے بارے میں کچھ گفتگو مت کرنا ( کیونکہ) وہ سب غرق کئے جاویں گے ( ان کے لئے یہ قطعی طور پر تجویز ہوچکا ہے تو ان کی سفارش بےکار ہوگی غرض نوح (علیہ السلام) نے سامان کشتی کا جمع کیا) اور وہ کشتی تیار کرنے لگے ( خواہ خود یا دوسرے کاریگروں کے ذریعہ سے) اور ( اثنائے تیاری میں) جب کبھی ان کی قوم میں کسی رئیس گروہ کا ان پر گزر ہوتا تو ( ان کو کشتی بناتا دیکھ کر اور یہ سن کر کہ طوفان آنے والا ہے) ان سے ہنسی کرتے ( کہ دیکھو پانی کا کہیں نام و نشان نہیں مفت مصیبت جھیل رہے ہیں) آپ فرماتے کہ اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم تم پر ہنستے ہیں جیسا تم ہم پر ہنستے ہو ( کہ عذاب ایسا نزدیک آپہنچا ہے اور تم کو ہنسی سوجھ رہی ہے ہم اس پر ہنستے ہیں) سو ابھی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ وہ کون شخص ہے جس پر (دنیا میں) ایسا عذاب آیا جاتا ہے جو اس کو رسوا کر دے گا اور ( بعد مرگ) اس پر دائمی عذاب نازل ہوتا ہے ( غرض اسی طرح کے مکالمات اور معاملات ہوا کرتے) یہاں تک کہ جب ہمارا حکم ( عذاب کا قریب) آپہنچا اور زمین سے پانی ابلنا شروع ہوا ( اور یہ علامت تھی طوفان شروع ہوجانے کی اور اوپر سے پانی برسنا شروع ہوا اس وقت) ہم نے ( نوح (علیہ السلام) سے) فرمایا کہ ہر قسم ( کے جانوروں) میں سے ( جو کہ انسان کے لئے کارآمد ہیں اور پانی میں زندہ نہیں رہ سکتے) ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ یعنی دو عدد اس ( کشتی) میں چڑھا لو اور اپنے گھر والوں کو بھی ( چڑھا لو) باستثناء اس کے جس پر ( غرق ہونے کا) حکم نافذ ہوچکا ہے (یعنی ان میں جو کافر ہو جن کی نسبت اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ کہہ دیا گیا ہے، اس کو سوار مت کرنا اور گھر والوں کے علاوہ) دوسرے ایمان والوں کو بھی ( سوار کرلو) اور بجز قلیل آدمیوں کے ان کے ساتھ کوئی ایمان نہ لایا تھا ( بس ان ہی کے سوار کرنے کا حکم ہوگیا ) ۔ معارف و مسائل حضرت نوح (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے تقر یبا ایک ہزار سال کی عمر دراز عطا فرمائی، اس کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دینے اور قوم کی اصلاح کرنے کی فکر اور پیغمبرانہ جدوجہد کا بھی یہ درجہ عطا فرمایا کہ اس طویل مدت عمر میں ہمیشہ اپنی قوم کو دین حق اور کلمہ توحید کی دعوت دیتے رہے، قوم کی طرف سے سخت سخت ایذاؤں کا سامنا کرنا پڑا ان کی قوم ان پر پتھراؤ کرتی یہاں تک کہ بےہوش ہوجاتے پھر جب ہوش آتا دعا کرتے کہ یا اللہ میری قوم کو معاف کردے یہ بیوقوف جاہل جانتے نہیں، قوم کی ایک نسل کے بعد دوسری کو دوسری کے بعد تیسری کو اس امید پر دعوت دیتے کہ شاید یہ حق کو قبول کرلیں۔ جب اس عمل پر صدیاں گزر گئیں تو رب العزت کے سامنے ان کی حالت زار کی شکایت کی جو سورة نوح میں مذکور ہے (آیت) رَبِّ اِنِّىْ دَعَوْتُ قَوْمِيْ لَيْلًا وَّنَهَارًا، فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَاۗءِيْٓ اِلَّا فِرَارًا، اور اتنے طویل مصائب کے بعد اس مرد خدا کی زبان پر یہ دعا آئی (آیت) رَبِّ انْــصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ ، یعنی اے میرے پروردگار ان کی تکذیب کے بالمقابل آپ میری مدد کیجئے۔ قوم نوح کا ظلم و جور سے گزر جانے کے بعد حق تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان آیات سے خطاب فرمایا جو اوپر مذکور ہیں ( بغوی، مظہری ) ۔ ان میں اول تو حضرت نوح (علیہ السلام) کو یہ بتلایا گیا کہ آپ کی قوم میں جن کو ایمان لانا تھا، لے آئے اب کوئی اور شخص ایمان قبول نہ کرے گا ان کے دلوں پر ان کی ہٹ دھرمی اور سرکشی کی بناء پر مہر لگ چکی ہے اس لئے اب آپ اس قوم کا غم نہ کھائیں اور ان کے ایمان قبول نہ کرنے سے پریشان نہ ہوں۔ دوسری بات یہ بتلائی گئی کہ اب ہم اس قوم پر عذاب پانی کے طوفان کا بھیجنے والے ہیں اس لئے آپ ایک کشتی تیار کریں جس میں آپ کے اہل و عیال اور جتنے مسلمان ہیں مع اپنی ضروریات کے سما سکیں تاکہ طوفان کے وقت یہ سب اس میں سوار ہو کر نجات پاسکیں، حضرت نوح (علیہ السلام) نے حکم کے مطابق کشتی بنائی، پھر جب طوفان کی ابتداء کی علامات سامنے آگئیں کہ زمین سے پانی ابلنے لگا تو نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ خود مع اپنے اہل و عیال کے اور ان لوگوں کے جو آپ پر ایمان لائے ہیں اس کشتی میں سوار ہوجائیں، اور انسانوں کی ضروریات جن جانوروں سے متعلق ہیں جیسے گائے، بیل، بکری، گھوڑا، گدھا وغیرہ ان کا بھی ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کرلیں، حضرت نوح (علیہ السلام) نے حکم کے مطابق سب کو سوار کرلیا۔ آخر میں فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے اور کشتی میں سوار ہونے والے مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ یہ خلاصہ مضمون ہے آیات متذکرہ کا، اب ہر ایک آیت کے مفہوم کی تشریح اور ان سے متعلقہ مضامین و مسائل دیکھئے۔ پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) پر یہ وحی بھجی گئی کہ ان کی قوم میں سے جو ایمان لانے والے تھے لاچکے ہیں آئندہ اور کوئی ایمان نہ لائے گا اس لئے یہ لوگ جو کچھ معاملہ آپ کے ساتھ کرتے ہیں اس سے آپ غمگین و پریشان نہ ہوں، کیونکہ غم و پریشانی عموماً جب ہوتی ہے جب کسی سے صلاح و فلاح کی امید وابستہ ہو، مایوسی بھی ایک قسم کی راحت ہوتی ہے آپ ان سے مایوس ہوجائیے، اور جو تکلیف و صدمہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی ایذاؤں سے پہنچ رہا تھا اس کے انتظام کی طرف دوسری آیت میں اشارہ کیا گیا کہ ان کو پانی کے طوفان میں غرق کردیا جائے گا، انہیں حالات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی زبان پر اپنی قوم کے لئے وہ بددعا آئی تھی جس کا ذکر سورة نوح میں کیا گیا ہے : (آیت) رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا، اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا، یعنی اے میرے پروردگار ! اب ان کافروں میں سے کوئی زمین بر بسنے والا نہ چھوڑئیے، کیونکہ اگر یہ رہے تو ان کی آئندہ نسل بھی ایسی ہی سرکشی اور فاجر و کافر ہوگی۔ یہی دعا قبول ہو کر پوری قوم نوح طوفان میں غرق کی گئی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاُوْحِيَ اِلٰي نُوْحٍ اَنَّہٗ لَنْ يُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۝ ٣٦ ۚۖ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ بؤس البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء/ 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام/ 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة/ 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف/ 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود/ 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن، ( ب ء س) البؤس والباس البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے { وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا } ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے { فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ } ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے { وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ } ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ { بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ } ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ { بِعَذَابٍ بَئِيسٍ } ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ { فَلَا تَبْتَئِسْ } ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦) اور نوح (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی گئی کہ اب تک جو ایمان لاچکے ہیں ان کے علاوہ اور کوئی ایمان نہیں لائے گا، لہذا ان کے برے اعمال اور ان کی ہلاکت پر کچھ غم نہ کیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٦۔ ٣٧۔ جب قوم نوح (علیہ السلام) نے عذاب کی جلدی کی اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو بہت ستانا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نوح (علیہ السلام) اب تمہاری قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا جتنے ایمان لاچکے وہ لاچکے آئندہ اب کسی سے ایمان لانے کی امید نہیں تم ان کی کسی بات کا غم نہ کرو جو یہ کرتے ہیں کریں تم ایک کشتی تیار کرو ہم وحی کے ذریعہ سے کشتی کے بنانے کا ڈھنگ تمہیں بتاتے ہیں اور ان ظالموں کے باب میں سفارش کے طور پر بارگاہ الٰہی میں کچھ نہ کہو یہ سب ڈوبنے والے ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ حضرت نوح کی کشتی تین سو گز لمبی تھی۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں بارہ سو گز لمبی اور چھ سو گزر چوڑی تھی کسی نے یہ بھی کہا ہے کہ دو ہزار گز لمبی اور سو گز چوڑی تھی مگر سب کا اس بات میں اتفاق ہے کہ بلندی میں وہ کشتی تیس گز تھی اس کشتی میں تین درجے تھے ہر درجہ دس گز کا تھا نیچے کا درجہ چار پائے گائے بیل بھینس وغیرہ کی قسم میں سے جانوروں کے واسطے اور بیچ کا درجہ آدمیوں کے لئے اور اوپر کا درجہ پرندوں کے لئے بنایا تھا کشتی کی چوڑائی میں ایک دروازہ بھی تھا اور ایک سرپوش تھا ١ ؎ کشتی کے اوپر ڈہانپنے کو تاکہ کثرت سے مینہ جو برس رہا تھا اس کے صدمہ سے کشتی والے محفوظ رہیں۔ حافظ ابو جعفر ابن جریر عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حوارین میں سے ایک شخص نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ کبھی ایسے شخص کو آپ زندہ کریں جس نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہو وہ ہم سے اس کا حال بیان کرے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے ایک ٹیلہ پر پہنچے اور تھوڑی سی مٹی اٹھا کر اپنے ساتھیوں سے پوچھا تم لوگ جانتے ہو یہ کون شخص ہے لوگوں نے کہا خدا اور خدا کا رسول جانے ہمیں کیا خبر۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے حام کی پنڈلی کی مٹی ہے اور عصا سے ٹیلہ کو مار کر کہا خدا کے حکم سے کھڑا ہوجا جس وقت وہ اٹھا تو اس کے سر کے بال بالکل سفید تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا کیا تو اسی عمر میں ہلاک ہوا تھا اس نے کہا کہ نہیں جب میں مرا تھا تو جوان تھا اس وقت میں نے یہ گمان کیا کہ قیامت آگئی اس لئے اس خوف سے میں بوڑھا ہوگیا پھر اس سے کشتی کا حال پوچھا گیا تو بیان کیا وہ کشتی بارہ سو گز کی لمبی اور چھ سو گز کی چوڑی تھی اس میں تین طبقے تھے نیچے چار پائے بیچ میں آدمی اوپر پرندے جب چار پایوں کی لید کی کثرت ہوئی تو خدا نے وحی بھیجی کہ اے نوح ہاتھی کی دم دباؤ اس کی دم دبانے سے ایک جوڑا سور کا پیدا ہوگیا جس نے لید وغیرہ کا صفایا کیا جب چوہے بہت ہوگئے اور کشتی کی لکڑی اور رسیاں کترنے لگے تو اللہ کا حکم ہوا کہ شیر کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں ہاتھ مارو اس سے ایک جوڑا بلی کا پیدا ہوا جس نے چوہوں کو کھانا شروع کردیا پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا نوح (علیہ السلام) کس طرح سمجھے کہ سارا شہر ڈوب گیا اس نے کہا کہ ایک کوے کو بھیجا تھا کہ خبر لائے مگر وہ ایک مردار پر جھک پڑا اس کے لئے حضرت نوح (علیہ السلام) نے بددعا کی تھی اسی لئے وہ گھر میں رہنا پسند نہیں کرتا خوف زدہ ہو کر آدمیوں سے بھاگتا ہے پھر کبوتر کو بھیجا وہ جا کر چونچ میں ایک پتہ زیتون کا اور تھوڑی سی مٹی پنجے میں دبا کر لایا اس سے سمجھا کہ سب ہلاک ہوگئے۔ آپ نے کبوتر کے واسطے دعا کی تھی وہ گھروں میں رہتا ہے اور آدمیوں سے نہیں بھاگتا پھر حوارین نے کہا یا حضرت اس شخص کو ہمارے گھر لے چلئے وہاں چل کے یہ سارا اور باقی کا حال بیان کرے گا۔ حضرت عیسیٰ نے کہا جس کا رزق اب دنیا میں نہیں ہے وہ کیوں کر تمہارے ساتھ چل سکتا ہے پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا خدا کے حکم سے پھر ویسا ہی ہوجا جیسا تھا وہ خاک کا ٹیلہ ہوگیا۔ حافظ ابن کثیر نے عبد اللہ بن عباس (رض) کی اس روایت کو غریب قرار دیا ہے۔ ٢ ؎ کوئی اکیلا مقبول راوی کسی حدیث کی سند میں ہو تو اس حدیث کو غریب کہتے ہیں اور اگر اس اکیلے مقبول راوی کی روایت کسی ثقہ راوی کے مخالف بھی ہو تو اس کو شاذ کہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی اس حدیث کے راوی حافظ ابن کثیر کے نزدیک مقبول تو ہیں مگر اس روایت میں اکیلے ہیں اور ان کی روایت کسی ثقہ راوی کے مخالف نہیں ہے۔ اس لئے غریب ہے شاذ نہیں ہے۔ ٣ ؎ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا میں جو کچھ ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ ٤ ؎ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا علم الٰہی کے موافق جو لوگ دنیا میں پیدا ہوئے اور مرنے کے بعد دوزخی ٹھہرے ہیں وہ دنیا میں کام بھی ویسے ہی کرتے ہیں ٥ ؎ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قوم نوح میں سے جس قدر آدمیوں کا راہ راست پر آنا لوح محفوظ میں لکھا گیا تھا جب ان آدمیوں کی گنتی پوری ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو حکم بھیج دیا کہ اب اس قوم میں سے اور کوئی نیا شخص راہ راست پر نہ آوے گا اور نوح (علیہ السلام) کو یہ بھی جتلا دیا کہ ان لوگوں کے بےڈھنگے کاموں سے کچھ غمگین نہ ہونا چاہیے یہ لوگ علم الٰہی میں دنیا اور عقبیٰ کے عذاب کے قابل ٹھہر چکے ہیں۔ اس لئے مرتے دم تک یہ ایسے بےڈھنگے کام کریں گے۔ ١ ؎ تمام اقوال کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر ص ٤٤٤ ج ٢۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٤٤ ج ٢۔ ٣ ؎ حافظ ابن کثیر (رح) کی ایسے مواقع پر محدثین کی اصطلاح غریب مراد نہیں ہوتی بلکہ عجیب اور اچنبہ روایت مراد ہوتی ہے حاصل یہ ہے کہ ان کی غرض تنقید و تضعیف ہے (واللہ اعلم (ع، ر) ۔ ٤ ؎ صحیح مسلم ص ٢٣٥ ج ٢ باب حجاج آدم و موسیٰ ۔ ٥ ؎ صحیح بخاری ص ٧٣٨ ج ٢ تفسیر سورة واللیل اذا یغشی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:36) لا تبتئس۔ تو غم نہ کھا۔ تو غمگین نہ ہو۔ ابتئاس (افتعال) غمگین اور رنجیدہ ہونا فعل نہی واحد مذکر حاضر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ یعنی اس کا وبال خود تم پر پڑے گا۔ اس آیت کے بارے میں مفسرین (رح) کا اختلاف ہے۔ بعض اسے حضرت نوح ( علیہ السلام) کے قصے ہی سے متعلق سمجھتے ہوئے اس میں خطاب حضرت نوح سے قرار دیتے ہیں ( جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہوتا ہے) اور بعض اسے حضرت نوح کے قصے کے درمیان جملہ معترضہ قرار دیتے ہیں اور اس کو مشرکین مکہ کا قول ٹھہرا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب مانتے ہیں یعنی کیا (مکہ کے کافر) کہتے ہیں کہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نے اس (قرآن) کو اپنے دل سے گھڑ لیا ہے۔ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کہ دے اگر میں نے اسے اپنے دل سے گھڑ لیا ہے تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر پڑے گا اور تم جو گناہ کرتے ہو میں اس کی ذمہ داری سیبری ہوں۔ پہلی تفسیر حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے اور ” جملہ معترضہ “ کا قول مقاتل (رح) کا ہے۔ علمائے تفسیر (رح) میں سے امام رازی اور ان کیبالتبع امام شوکانی نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے اور لکھا ہے کہ یہی اکثر مفسرین کا قول ہے۔ حافظ ابن کثیر (رح) اور صاحب ــکشف “ نے دوسری تفسیر کو راحج قرار دیا ہے اور یہی رائے شاہ عبد القادر (رح) کی ہے۔ (ایضا ملتقط من الروح) ۔ 3 ۔ جب قوم کی تکذیب اور ایذا رسانی ھد سے بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو یہ وحی کی جس کا بیان اس آیت میں ہے اور نوح کو قوم سے کلیتہ مایوس کردیا تو نوح (علیہ السلام) نے اللہ کے حضور التجا کی کہ میں بےبس ہوں ان سے مرای بدلہ لے۔ (القمر) اور بد دعا کی : رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیار۔ اے پروردگار روئے زمین پر کافروں کا ایک گھر باقی نہ چھوڑ۔ (نوح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٣٦ تا ٤٩ اسرار و معارف لہٰذا یہ بات نوح (علیہ السلام) کے حالات سے بھی واضح ہے کہ جب انھیں اللہ کا حکم پہنچاتے صدیاں بیت گئیں کہ ان کی عمربہت لمبی تھی اور قوم کی کئی نسلیں ان کے سامنے گزر گئیں مگر ایمان نہ لائے تو انھیں اللہ کریم کی طرف سے اطلاع کردی گئی کہ اب ان لوگوں میں سے کوئی بھی ایمان نہ لائے گا ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ایمان لانے کی استعدادہی ان سے کھوگئی اور ان کے دلوں پر مہرلگ چکی ہاں ! صرف وہ محدود تعداد جو پہلے سے ایمان لا چکی ہے چناچہ آپ ان کا غم چھوڑ دیں اب یہ جو بھی کرتے ہیں آپ اس سے دل گرفتہ نہ ہوں کہ ان کا انجام قریب ہے تم ہی نوح (علیہ السلام) نے بدعافرمائی جو قرآن میں مذکور ہے کہ اللہ ! روئے زمین پر کوئی کافرباقی نہ رہے کہ اب تو ان کی نسلوں میں بھی کافر ہی پیدا ہوتا ہے کسی خیر کی امید نہیں ۔ صنعت اور مسلمان چنانچہ ارشاد ہوا کہ آہمارے روبردہماری وحی کے مطابق ایک آبی جہاز بنائیے ! روبرو سے مراد ہے کہ پوری صفای اور بہترین پیمائش اور خوبصورت جو ڑلگاکربنائی جائے اور بحری جہاز کی صنعت کی یہی ابتداتھی مفسرین کرام کے مطابق دنیا بھر کی ایجادات وحی کے ذریعہ سے تعلیم فرمائی گئیں اور کسی نہ کسی نبی نے شروع فرمائیں جن میں سے متعدد ایجادات کا ذکر قرآن پاک میں ملتا ہے ہاں ! بعد میں آنے والے لوگوں نے ان میں مزید ترتی ضرور کرلی اور زمانے کی ضروریات کے مطابق انھیں ڈھالتے رہے لہٰذا مسلمانوں کو صنعتی امور پر زیادہ توجہ کرنا اور ایسے علوم کا پڑھنا سنت انبیاء ہے اور اس میں دنیا کی ترقی اور اقوام عالم پر غلبہ پانے کا راز بھی ہے ۔ نیز یہ بھی بتادیا گیا کہ جذبہ ترحم جوش میں آئے اور ان کی سفارش فرمانے لگیں ۔ پتہ چلا کہ اللہ کی نافرمانی نہ صرف دلوں کی تباہ کرتی ہے بلکہ اہل اللہ کی سفارش سے بھی محرومی کا سبب بناجاتی ہے۔ قوم کا اور قوم کے سرداروں کا ابھی تک یہی حال تھا کہ انھیں کشتی بناتے دیکھتے تو مذاق اڑاتے کہ اور سنو یہ جہاز سازی ہورہی ہے ۔ یہاں پانی کا قحط ہے پینے کو تو ملتا نہیں بڑے میاں ریت پر جہاز چلائیں گے حالانکہ اللہ بندوں کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے مگر دنیا دار اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اسے وہ کام الٹا نظر آتا ہے ۔ تو انھوں نے فرمایا کہ آج تم ہم سے مذاق کرتے ہو مگر کل تک تم خود تقدیر کے مذاق کانشانہ بننے والے ہو ہم یقینا تمہیں یہ وقت یاددلائیں گے اور خود تمہیں بھی پتہ چل جائے گا جس بات کا آج ہمیں بذریعہ وحی علم ہے کل اس کے واقع ہونے پر تمہیں بھی علم ہوجائے گا کہ کون اللہ کے گرفت میں آکر رسواہوتا ہے اور تباہی کی نذرہوکردائمی اور ابدی عذاب میں گرفتار ہوتا ہے کہ یہ ذ(رح) لت ورسوائی وقتی اور عارضی نہیں بلکہ جو لوگ عذاب الٰہی میں گرفتار ہوکرتباہ ہوتے ہیں وہ ہمیشہ عذاب ہی میں مبتلارہتے ہیں۔ چنانچہ جب اللہ کا مقرر کردہ وقت آپہنچا اور تنورتک سے پانی ابلنے لگا ۔ مفسرین نے یہاں مختلف باتیں لکھی ہیں کہ سطح زمین کو بھی تنور کہا جاتا ہے بلند ی پہ بھی بولا جاتا ہے اور روٹی پکانے کا ایک خاص چولہا بھی تنور کہلاتا ہے تو اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ ساری زمین سے بھی اور بلند یوں سے بھی پانی ابلنے لگا اور تنور جہاں ہمیشہ آگ جلتی ہے وہ بھی چشمے بن گئے ۔ اور یہ رائے بھی ہے اور درست ہوسکتی ہے کہ نوح (علیہ السلام) کو طوفان کی نشانی کے طور پر بتایا گیا تھا کہ جب تنور ابلنے لگے اور اس میں سے پانی نکلنا شروع ہوجائے تو آپ خودبھی اپنے پیروکاروں کو بھی اور ہرچیز کا ایک ایک جوڑا بھی جہاز میں سوار کر الیجئے ۔ چناچہ جیسے ہی پانی ابلناشروع ہواتو انھوں نے اپنے گھر والوں میں سے سب مسلمانوں کو اپنے ماننے والوں کو اور ان جانوروں کو جو جوڑے سے پیدا ہوتے ہیں کشتی یا جہاز میں سوار کرلیا ایسے جانور جو پانی میں زندہ نہیں رہ سکتے اور انسانی زندگی کی ضرورت تھے ساتھ رکھ لئے اور وہ لوگ جن کے حق میں تباہی کا فیصلہ ہوچکا باقی رہ گئے اور فرمایا ان کے ساتھ سوار ہونے والے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) کے مطابق سب ملا کر اسی مرد اور خواتین تھے جن میں آپ کی تین بیویاں اور تین بیٹے بھی شامل تھے ۔ چوتھا بیٹا کفار کے ساتھ غرق ہو کر تباہ ہوا اور ایک بیوی بھی ۔ لہٰذا فرمایا کہ سوارہوجاؤ کہ اس کا چلنا اور ٹھہرنا سب اللہ کے حکم سے ہے اور میرارب بہت بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ دراصل سب چیزوں کا چلنا یا کام کرنا اللہ کریم ہی کی عطا ہے کہ جس نے کائنات میں مختلف چیزیں پیدافرمائیں ، انسان کو عقل اور فراست دی چناچہ وہ مختلف دھاتوں سے طرح طرح کے کل پرزے بناکر جوڑتا ہے تو عجیب غریب ایجادات سامنے آتی ہیں اور انسانی خدمت کافریضہ انجام دیتی ہیں مگر اس سب کے باوجود قادر مطلق کے قبضہ قدرت میں رہتی ہیں اور وہ جب روک دے رک جاتی ہیں بلکہ جب الٹ دے تو الٹ جاتی ہیں اور نفع کی بجائے نقصان پہنچاتی ۔ یہ بات جدید دنیا کی بڑی بڑی ایجادات سے واضح ہے اور یہی کفر واسلام کا فرق ہے کہ کافر اسے اپنا کمال جانتا ہے اور مومن اللہ کی عطاسمجھ کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے نیز مسلمانوں کو چاہیئے کہ جب یہ اللہ کے انعامات میں سے ہے تو اس پر بہت زیادہ توجہ دیں ۔ نبی سے رشتہ جان بچانے کو بھاگنے لگے تو آپ وہ بیٹا جسے ایمان نصیب نہ ہوا تھا اور اس وجہ سے کشتی میں سوار نہ تھا بھی بھاگنے والوں کے ساتھ تھا جبکہ نوح (علیہ السلام) نے پکارا کہ اب بھی ایمان لاکر کشتی میں سوار ہوجاؤکہ سوار ہونے کی شرط تو ایمان تھی صرف نسبی رشتہ کافی نہ تھا لہٰذا یہ قانون ہے کہ نبی سے ایمان کا رشتہ ہی معتبر ہے اگر ایمان کے ساتھ نسبی رشتہ بھی ہو تو نور علیٰ نور ورنہ بغیر ایمان کے نسبی رشتے کا کوئی اثر نہیں نہ اس کی کوئی اہمیت باقی رہتی ہے ۔ نوح (علیہ السلام) نے تو آخری لمحے بھی کافروں کا ساتھ چھوڑدینے کے لئے کہا مگر وہ بد نصیب بولا میں بھاگ کر پہاڑ پر جارہا ہوں مجھے طوفان کا غم نہیں میرا کچھ نہیں بگڑے گا۔ تو انھوں نے فرمایا جب اللہ کی گرفت آتی ہے تو ظاہری اسباب اس کا دفاع نہیں کرسکتے اور ناکام ہوجاتے ہیں۔ پہاڑ اور بلندیاں عام طوفانوں سے تو بچالیں مگر یہ تو عذاب الٰہی ہے اور اس سے بچنے کے لئے صرف اللہ کی رحمت کام آسکتی ہے ۔ فرمایا آج کوئی کام نہیں آئے گا سوائے اس کے کہ اللہ رحم فرمائے اور اس کی رحمت تو ایمان لاکرہی پاسکوگے۔ بس یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ایک لہر اٹھی اور اسے بہا کرلے گئی بلکہ وہ پہاڑ جن کو وہ پناہ گاہ سمجھ رہے تھے بھی غرق ہوگئے اور روایات میں ہے کہ پانی اونچے سے اونچے پہاڑ سے بھی بہت بلند ہوگیا تھا۔ جب کفار غرق ہوکرتبا ہوچکے اور بجزکشتی نوح زمین پر کوئی انسان نہ بچاتو ارشاد ہوا اے زمین ! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان ! اپنا پانی روک لے ۔ یہاں زمین وآسمان کو براہ راست حکم فرمایا جانا مذکور ہے کہ کائنات کی ہر شے اگر انسان کے برابر شعور نہ رکھتی ہو مگر اپنی استعداد کے مطابق ہر شے کو شعور حاصل ہے اور ہر ذرے کا تعلق ذات باری سے ہے اور ہر آن اللہ کی اطاعت پہ کمربستہ ہیں ۔ لہٰذا بعض اوقات اسباب ترتیب دیئے جاتے ہیں تو کام ہوجاتا ہے مگر جب اظہار قدرت منظور ہو تو کائنات کے کسی بھی ذرے کو یا آسمان و زمین کو براہ راست ارشاد ہوتا ہے اور ہر شے تعمیل ارشاد کرتی ہے بلکہ کائنات کا ہر ذرہ اللہ کا ذکر کرتا ہے ۔ جیسے ارشاد ہے وان من شییء الا یسبح بحمدہ۔ یعنی کوئی شے ایسی نہیں جو اللہ کی پاکی بیان نہ کرتی ہو۔ چناچہ زمین آسمان نے تعمیل ارشاد کی اور قصہ تمام ہوا۔ نوح (علیہ السلام) کی کشی جودی پہاڑ پر ٹھہری اور کافروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رحمت الٰہی سے محروم کردیا گیا۔ جودی نام کا پہاڑ آج بھی عراق میں ہے جو غالبا ایک بہت بڑے کو ہستانی سلسلے کا حصہ ہے اور اسی کے ایک حصہ کا نام ارارابط ہے جس کا تذکرہ بعض دیگر کتب میں ہے مفسرین کے مطابق طوفان کے تھمنے اور پانی خشک ہونے اور کشتی کے زمین پر لگنے میں کئی ماہ صرف ہوئے۔ رشتوں اور قومیتوں کا مدار نیز دعا کے آداب جب طوفان زوروں پر تھا اور بیٹے نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت قبول نہ کی تو انھوں نے رب جلیل سے دعا فرمائی کہ اے اللہ ! تو نے میرے خاندان کو بجانے کا وعدہ فرمایا تھا اور تیرے وعدے تو برحق ہیں۔ پھر میرابیٹا جو میراخون ہے کیوں غرق ہورہا ہے ؟ یہ بھی تو میراخاندان ہے اور تو تو ہرچیز پہ قادر ہے اسے ایمان بھی عطا کرسکتا ہے اور کشتی پہ آنے کی توفیق بھی ۔ بھلاتو چاہے تو موج ہی اس کی محافظ بن سکتی ہے تو ارشاد ہوا کہ اے نوح ! وہ تیرے خاندان میں سے نہیں ہے اس لئے کہ اس کا کردار غیر صالح ہے تو یہ بات واضح ہوگئی کہ مومن وکافر میں رشتہ اخوت نہیں ہے اگرچہ کتناہی قریبی رشتہ ہو۔ دین کے معاملات میں اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ یہی بات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیات مبارکہ سے ثابت ہے کہ اسلام کے ابتدائی معرکے تو اکثر بھائیوں اور باپ بیٹوں کے درمیان لڑے گئے مگر کافر کو الگ قوم شمار کیا گیا خواہ بھائی تھا اور مومن کو بھائی جانا گیا خواہ بظاہربیگانہ تھا ۔ لہٰذا وطنی یالسانی یارنگ ونسل کی تقسیم درست نہیں قبائل اور ان کا نام انسان کی پہچان تو ہے لیکن سندھی پنچابی اور پٹھان وغیرہ کی تقسیم اور آپس میں لڑائی جائز نہیں مسلمان سب مسلمان ہیں اور اس کے بعد کچھ اور۔ چونکہ راستہ اپنا نے کا فیصلہ انسان کا ذاتی ہے اگرچہ اللہ قادر ہے کہ زبردستی کرسکتا ہے مگر اس نے طے کردیا کہ یہ کام حکمانہ ہوگا ورنہ پھر سارا نظام عدل غیر ضروری ٹھہرے گا ہاں ! جو انسان صدق دل سے اس کی طلب کا فیصلہ کرلے اسے بڑھ کر تھام لینا یہ اس کی رحمت ہے اور جو منہ موڑ لے اسے زبردستی نہ پکڑاجائے گا تو ارشاد کا معنی یہ ہوا کہ اس کا کردار ایسانامناسب ہے کہ اب اس کا دل ایمان قبول کرنے کی صلاحیت ہی سے محروم ہوگیا اور یہ بات تو اللہ کریم کے علم میں ہے کہ ہر شخص کا ایک تعلق اپنے مالک سے ایسا ہے جسے صرف اللہ جانتا ہے اس میں کسی فرشتے یانبی ولی کا بھی دخل نہیں سوائے اس کے کہ اللہ کریم ہی کسی کو اطلاع کردیں تو فرمایا کہ آپ ایسے امور کے بارے دعانہ کریں جن کے بارے آپ کو علم نہیں ۔ لہٰذا جب تک کسی بات کی خبرنہ ہو ہر آدمی کے کہنے پر اور ہر کام کے لئے دعا کرنا جائز نہ رہا بلکہ اگر کسی بات کے ناجائز ہونے کا پتہ ہو یا شبہ بھی ہو تو دعانہ کی جائے کہ دعا مانگنے والا خطاکار ہوگا ۔ ایسے ہی لوگوں کی ترقی واقتدار کی دعا کیا خبر کوئی کیسا ہوگا ۔ ہاں ! خیر اور اصلاح کے لئے اور بھلائی کے لئے دعا کی جائے ۔ چناچہ فرمایا کہ آپ کی شان بہت بلند ہے آپ کو ایسی دعانہ کرنا چاہیئے ، اللہ کریم کی طرف سے نصیحت کی جاتی ہے کہ نادانی آپ کو زیب نہیں دیتی اور یہی عصمت نبوت ہے کہ ذرا بھی بھول چوک ہونے لگے تو فورا اللہ کریم کی طرف سے مطلع کردیا جاتا ہے۔ یہاں اگر فطری شفقت پدری نے سراٹھایا تو فورا متنبہ فرمادیا گیا چناچہ عرض کیا اللہ ! میں ایسے کاموں سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں کہ تو ہی میری حفاظت فرما اور اگر تیری بخشش اور تیرا رحم یاوری نہ کرے تو انسان بھلا کیسے بچ سکتا ہے ۔ یہاں یہ طریقہ عمل ارشاد ہوتا ہے کہ خطاکا ہوجانا بڑی بات نہیں مگر اللہ سے اس کی معافی طلب کی جائے اور آئندہ چھوڑ نے پختہ عزم کرکے اللہ سے توفیق طلب کی جائے تنہا اپنے ارادے پہ بھروسہ نہ کیا جانا چاہیئے کہ انسان کو بہت سے فطری جذبات اکثر اوقات مجبور کردیتے ہیں لہٰذا اللہ کریم سے مدد طلب کی جائے۔ چنانچہ جب زمین رہائش کے قابل ہوئی اور پانی خشک ہوچکا تو ارشاد ہوا کہ اب پہاڑ پر اتریئے اور اسی زمین پر جس پر کفر کے باعث طوفان آئے آپ کے ساتھ ہماری طرف سے سلامتی اور برکات کا مشاہدہ ہوگا۔ آفات سے حفاظت کے ساتھ مال اور اولاد میں اضافہ دیکھئے ۔ مفسرین کرام کے مطابق یہاں ثابت ہے کہ روئے زمین پر پھر سے آبا دہونے والے سارے لوگ صرف حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد سے ہوئے ہیں۔ اسی لئے انھیں آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے لہٰذا یہاں قیامت تک آنیوالے مسلمانوں اور اطاعت شعاروں کو سلامتی اور برکت کا وعدہ دیا گیا ہے مگر یہ بات یاد رہے کہ پسرنوح کا قصہ اس کی بہترین مثال ہے یعنی اس سلامتی اور ان برکات سے مستفید ہونے کے لئے ایمان اور عمل ضروری ہیں ۔ ورنہ جو لوگ آپ کی اولاد میں پھر سے کفر وسرکشی اختیار کریں گے تو ان کا انجام پہلے سے مختلف نہ ہوگا کہ جب تک مہلت ہے موت سے یا عذاب سے تو دنیا کی سہولتوں اور نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں گے مگر آخر کار اپنے انجام کو پہنچیں گے اور اللہ کا عذاب انھیں اپنی لپیٹ میں لے لے گا جو بہت درد ناک اور بڑا شدید ہوتا ہے۔ اے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سب باتیں بہت پہلے گزرچکیں نہ آپ کے علم مبارک میں تھیں اور نہ آپ کی قوم نوح (علیہ السلام) کے قصہ کی حقیقت سے آگاہ تھی نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی مکتب دمدرسہ میں تشریف لے گئے نہ کسی عالم اور اہب کے پاس سنی تو یہ سب امور غیب میں سے تھا جس پر اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطلع فرمایا اور واقعات کی جزیات تک ارشاد فرمادیں ۔ لہٰذآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وحی آنے کے دوسرے روشن دلائل کے ساتھ اس قدرصحت سے ان واقعات کا بیان بھی ایک زبردست دلیل ہے ۔ لیکن کچھ بدنصیب اگر پھر بھی قبول نہ کریں تو آپ صبر فرمایئے کہ پہلے انبیاء نے بھی ایسا ہی کیا تھا ۔ نوح (علیہ السلام) بھی کم وبیش ہزارسال تک برداشت فرماتے رہے ۔ آپ بھی صبر کیجئے اور یہ تو اللہ کا قانون ہے کہ انجام کار وہی لوگ کامیاب ہیں جو متقی اور پرہیزگار ہیں دار دنیا ہو یا آخرت کامیابی متقین ہی حصہ ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حوصلہ دینے اور اہل مکہ کو انتباہ کرنے کے بعد بطور مثال حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی انتھک اور شب وروز کی طویل کوشش کے باوجود قوم اس بات پر مصرہوجاتی ہے کہ اے نوح ! تیرے اور ہمارے درمیان اب فیصلے کی ایک ہی صورت باقی ہے کہ حسب اعلان ہم پر اپنے رب کا عذاب نازل کرو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے انتہائی مجبور ہو کر اپنے رب کے حضور یہ بددعا کی : (وَقَالَ نُوْحٌ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا۔ إِنَّکَ إِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْا إِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا)[ نوح : ٢٦۔ ٢٧] ” اور نوح نے کہا اے میرے رب ! کفار کا زمین پر کوئی گھر نہیں بچنا چاہیے۔ یقیناً اگر تو نے انہیں چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل بھی کافر ہی ہوگی۔ “ آیت میں مذکورہ بددعا کے نتیجہ میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو مخاطب کیا گیا۔ اے نوح ! تیری قوم میں سے اب کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا جو ایمان لانا چاہتے تھے سو لاچکے۔ لہٰذا جو کچھ یہ کررہے ہیں اب اس پر غمگین ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ہمارے سامنے ہماری ہدایات کے مطابق ایک کشتی تیار کریں۔ ظالموں کو سمجھانے کی اب ضرورت نہیں اور نہ ہی ان سے بحث کرنے کا کچھ فائدہ۔ کیونکہ یہ غرق ہو کر رہیں گے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور وحی کے مطابق کشتی بنانا شروع کی جوں ہی انکی قوم کے سردار قریب سے گزرتے تو انہیں ٹھٹھا اور مذاق کرتے کبھی کہتے کہ نبوت کے ساتھ ساتھ ترکھانہ کام بھی شروع کردیا ہے۔ کبھی کہتے یہاں کون سا دریا ہے جس میں کشتی چلاؤ گے ؟ نہ معلوم سردار اپنی قوم کو کن کن الفاظ میں یہ بات کہتے ہوں گے کہ دیکھ لیا کہ ہم پہلے ہی کہتے تھے کہ اس شخص کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ دیکھ لو ! لوگ بارش کی ایک ایک بوند کے لیے ترس رہے ہیں۔ کوئی دریا بھی قریب نہیں مگر یہ بوڑھا دن رات کشتی بنانے پر لگا ہوا ہے اور ہمیں یہ کہتے ہوئے دھمکیاں دیتا ہے کہ میں کشتی اس لیے بنا رہا ہوں کہ عنقریب اس علاقہ میں بہت بڑا سیلاب آنے والا ہے۔ سرداروں کے ٹھٹھا اور مذاق کا حضرت نوح (علیہ السلام) صرف اتنا جواب دیتے کہ جس طرح تم آج میرا مذاق اڑاتے ہو عنقریب ہم بھی تمہارا ایسا ہی مذاق اڑائیں گے۔ تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر ذلیل کردینے والا، دائمی عذاب نازل ہوتا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا، چالیس دن اور چالیس رات تک برابر آسمان سے پانی برستا اور زمین کے چشموں سے پانی اچھلتا رہا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی ساخت : جو کشتی حضرت نوح (علیہ السلام) نے بنائی تھی اس کا طول (٢٠٠) ہاتھ، عرض (٥٠) ہاتھ، بلندی (٣٠) ہاتھ تھی اور اس کے اندر تین طبقے تھے یعنی یہ کشتی تین سٹوری تھی۔ (بحوالہ : رحمۃ للعالمین : مصنف قاضی سلیمان منصورپوری ) مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو بتلادیا گیا کہ اب تیری قوم سے کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کشتی تیار کرنے کا حکم دیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو تنبیہ فرمائی کہ غرق ہونے والوں کے متعلق سوال نہ کرنا۔ ٤۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا کفار مذاق اڑاتے تھے۔ ٥۔ مصلحین کا مذاق اڑانے والے ایک دن خود مذاق بن جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اقوام نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کا مذاق اڑایا : ١۔ جب حضرت نوح کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گذرتے تھے تو ان سے مذاق کرتے۔ (ہود : ٣٨) ٢۔ یہ مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (التوبۃ : ٧٩) ٣۔ وہ تعجب کرتے اور مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت : ١٢) ٤۔ جب وہ ہماری نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت : ١٤) ٥۔ جب بھی ان کے پاس رسول آتا تو وہ اس کا مذاق اڑاتے۔ (الحجر : ١١) ٦۔ ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر وہ اس کے ساتھ استہزاء کرتے تھے۔ (الزخرف : ٧) ٧۔ جب بھی ان کے پاس آپ سے پہلے رسول آئے انہوں نے انہیں جادو گر اور مجنوں قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٨۔ لوگوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس جب کبھی رسول آئے تو انہوں نے ان کے ساتھ استہزاء کیا۔ (یٰس : ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب قصہ نوح دوبارہ شروع ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا منظر سامنے آتا ہے۔ حضرت نوح اب اپنے رب کی طرف سے ہدایات پاتے ہیں اور احکام الہی یوں وارد ہیں : وَاُوْحِيَ اِلٰي نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ يُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ : " نوح پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لاچکے ، بس وہ لاچکے ، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے۔ " جو دل ایمان لانے کے لیے آمادہ تھے وہ ایمان لاچکے ، جو رہ گئے ان کے اندر ایمان لانے کی استعداد باقی نہیں رہی ہے۔ نہ وہ اس طرف کوئی رجحان رکھتے ہیں۔ یہ تھی اللہ کی جانب سے حضرت نوح کو آخری اطلاع اور یہ اللہ کی جانب سے تھی اور اللہ تو علیم ہے۔ لہذا اب دعوتی مہم جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہ رہا۔ اور کہہ دیا گیا کہ اب ان کی جانب سے کفر تکذیب اور خندہ و استہزاء کی کوئی پروا نہ کرو۔ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : " ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑ دو " آپ اپنی ناکامی پر رنج و الم محسوس کرنا چھوڑ دیں۔ اور یہ لوگ جو کرتے رہے ، اور جو کر رہے ہیں اس کی کوئی پروا نہ کریں۔ خود اپنی فکر نہ کریں وہ آپ کو کچھ بھی تکلیف نہیں پہنچا سکتے۔ اور نہ ان کے لیے حسرت کریں کیونکہ ان سے خبر کی کوئی توقع نہیں ہے۔ لہذا ان کا معاملہ یہاں ختم کردیجئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی بنانے کا حکم اور کشتی کی تیاری کے وقت سردار ان قوم کا تمسخر حضرت نوح (علیہ السلام) نے بہت زیادہ محنت کی اور طرح طرح سے اپنی قوم کو سمجھایا توحید کی دعوت دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ان کی محنت اور دعوت سے صرف چند افراد مسلمان ہوئے اور قوم کی طرف سے عذاب لانے کی فرمائش ہوتی رہی۔ بالآخر ظالموں پر عذاب آگیا اور ایمان والے محفوظ رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے اب ان کے علاوہ کوئی شخص ایمان نہ لائے گا آپ ان کے حال پر غمگین نہ ہوں کیونکہ توقع کی چیز کے واقع نہ ہونے سے رنج ہوتا ہے۔ جب ان سے ایمان لانے کی توقع ہی اٹھ گئی تو کیوں غم کیا جائے۔ کافروں پر عذاب آنا تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اے نوح تم ہمارے سامنے ہمارے حکم سے ایک کشتی لو جس میں سوار ہو کر اہل ایمان ڈوبنے سے محفوظ ہوجائیں گے اور کافر سب غرق ہوں گے ‘ اللہ تعالیٰ شانہ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے یہ بھی فرمایا کہ ظالموں (یعنی کافروں) کے بارے میں مجھ سے سوال نہ کرنا۔ ان کو ڈوبنا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنانے کیلئے تختے لئے ان میں کیلیں ٹھونکتے رہے جیسا کہ سورة القمر میں فرمایا۔ (وَحَمَلْنٰہُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ ) (اور ہم نے نوح کو تختوں اور میخوں والی کشتی پر سوار کردیا) ۔ ادھر تو کشتی تیار ہو رہی تھی اور ادھر ان کی قوم کے سردار اور چودھری گزرتے تھے چونکہ انہیں عذاب آنے کا یقین نہیں تھا اس لئے حضرت نوح (علیہ السلام) پر ہنستے تھے اور ٹھٹھا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جی ہاں تم تو اس کشتی میں بیٹھ کر محفوظ ہوجاؤ گے ‘ کبھی کہتے تھے کہ یہ کشتی خشکی میں کیسے چلے گی (کیونکہ وہ خشکی میں بنائی جا رہی تھی) کبھی کہتے تھے کہ اے نوح (علیہ السلام) ابھی تو تم نبی تھے اب تم بڑھئی ہوگئے حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا اگر آج تم ہم پر ہنس رہے ہو تو سمجھ لو کہ وہ دن بھی آنے والا ہے کہ ہم تم پر ہنسیں گے جیسا کہ آج تم ہم پر ہنس رہے ہو۔ عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور کس پر دائمی عذاب نازل ہوتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35: یہ قوم نوح (علیہ السلام) کی تباہی کی تمہید ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی مطلع کردیا گیا کہ جن کی قسمت میں ایمان مقدر تھا وہ ایمان لاچکے اور باقیوں میں سے اب کوئی ایمان نہیں لائے گا اس لیے آپ ان کے استہزاء و تمسخر اور تکذیب و ایذاء پر غمگین نہ ہوں اب ان کی ہلاکت کا وقت قریب آگیا ہے۔ مبتدعین حضرت نوح (علیہ السلام) کے لیے علم غیب ثابت کرنے کے لیے کہا کرتے ہیں کہ ان کو اپنی قوم کی آئندہ نسلوں کے انجام کا علم تھا کہ ان میں اب کوئی بھی ایسا شخص نہیں پیدا ہوگا جو راہ راست پر ہو اور توحید کو قبول کرلے کیونکہ انہوں نے عذاب کی دعا مانگتے وقت کہا تھا۔ اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَ لَا یَلِدُوْا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا (نوح) اے اللہ اگر تو اس قوم کو اب ہلاک نہیں کرے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کرنے ہی کی کوشش کریں گے اور ان کی نسلوں میں کفار و فجار کے سوا کوئی پیدا نہیں ہوگا مگر یہ استدلال سراسر غلط اور قرآن سے بےاعتنائی اور بیخبر ی کا نتیجہ ہے حضرت نوح (علیہ السلام) عالم الغیب ہونے کی وجہ سے یہ بات نہیں جانتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی انہیں اس کی اطلاع دی تھی جیسا کہ آیت زیر تفسیر میں اس کی صراحت موجود ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

36 اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی جانب یہ وحی بھیجی گئی کہ تمہاری قوم میں اب کوئی نیا شخص ایمان نہیں لائے گا مگر ہاں جو ایمان لا چکے وہ لا چکے لہٰذا جو کچھ وہ کررہے ہیں اور جن افعال کے یہ لوگ مرتکب ہورہے ہیں اس پر غمگین نہ ہو اور کچھ غم نہ کرو یعنی غم تو جب ہو جب امید کے خلاف کوئی بات ہو اور جب کسی اچھی بات کی امید ہی نہیں رہی پھر غم کیوں کرو۔