Surat Hood

Surah: 11

Verse: 70

سورة هود

فَلَمَّا رَاٰۤ اَیۡدِیَہُمۡ لَا تَصِلُ اِلَیۡہِ نَکِرَہُمۡ وَ اَوۡجَسَ مِنۡہُمۡ خِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ اِنَّاۤ اُرۡسِلۡنَاۤ اِلٰی قَوۡمِ لُوۡطٍ ﴿ؕ۷۰﴾

But when he saw their hands not reaching for it, he distrusted them and felt from them apprehension. They said, "Fear not. We have been sent to the people of Lot."

اب جو دیکھا کہ ان کے تو ہاتھ بھی اس کی طرف نہیں پہنچ رہے تو ان سے اجنبیت محسوس کر کے دل ہی دل میں ان سے خوف کرنے لگے انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے ہوئے آئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَمَّا رَأَى أَيْدِيَهُمْ لاَ تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ ... But when he saw their hands went not towards it (the meal), he mistrusted them, This means that he felt estranged from them. ... وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ... and conceived a fear of them. This is because angels are not concerned with food. They do not desire it, nor do they eat it. Therefore, when Ibrahim saw them reject the food that he had brought them, without tasting any of it at all, he felt a mistrust of them. وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً (and conceived a fear of them). As-Suddi said, "When Allah sent the angels to the people of Lut, they set out walking in the form of young men, until they came to Ibrahim and they were hosted by him. When Ibrahim saw them, he rushed to host them. فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَأءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ Then he turned to his household, and brought out a roasted calf. (51:26) He slaughtered it (the calf), roasted it on hot stones and brought it to them. Then, he sat down with them. when he placed it before them. (saying): `Will you not eat?' They said, `O Ibrahim! Verily, we do not eat food without a price.' Ibrahim then said, `Verily, this food has a price.' They said, `What is its price?' He said, `You must mention the Name of Allah over it before eating it and praise Allah upon finishing it.' Jibril then looked at Mikhail and said, `This man has the right that his Lord should take him as an intimate friend.' فَلَمَّا رَأَى أَيْدِيَهُمْ لاَ تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ But when he saw their hands went not towards it (the meal), he mistrusted them, When Ibrahim saw that they were not eating, he became scared and frightened by them. Then, when Sarah looked and saw that he was honoring them, she began to serve them and she was laughing. She said, `What amazing guests we have. We serve them ourselves, showing them respect and they do not eat our food."' Then, concerning Allah's statement about the angels, ... قَالُواْ لاَ تَخَفْ ... They said: "Fear not," They were saying, "Do not be afraid of us. Verily, we are angels sent to the people of Lut in order to destroy them." ... إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمِ لُوطٍ we have been sent against the people of Lut."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

70۔ 1 حضرت ابرا ہیم (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو انہوں کو خوف محسوس ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کے ہاں یہ چیز معروف تھی کہ آئے ہوئے مہمان اگر ضیافت سے فائدہ نہ اٹھاتے تو سمجھا جاتا تھا کی آنے والے مہمان کسی اچھی نیت سے نہیں آئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے پیغمبروں کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ اگر ابراہیم (علیہ السلام) غیب دان ہوتے تو بھنا ہوا بچھڑا بھی نہ لاتے اور ان سے خوف بھی محسوس نہ کرتے۔ 70۔ 2 اس خوف کو فرشتوں نے محسوس کیا، یا ان کے آثار سے جو ایسے موقع پر انسان کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں یا اپنی گفتگو میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اظہار فرمایا، جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے ' ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے ' چناچہ فرشتوں نے کہا ڈرو نہیں، آپ جو سمجھ رہے ہیں، ہم وہ نہیں ہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ہم قوم لوط (علیہ السلام) کی طرف جا رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨١] فرشتوں کا کھانے سے انکار اور ابراہیم (علیہ السلام) کا خدشہ :۔ جب ان فرشتوں نے کھانے کی طرف ہاتھ تک نہ بڑھائے تو سیدنا ابراہیم کو دال میں کچھ کالا محسوس ہوا اور ان سے خوف آنے لگا۔ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ ڈرا اس وجہ سے تھا کہ ان لوگوں میں یہ دستور تھا کہ جو مہمان کھانا نہ کھاتا اس کے متعلق یہ سمجھا جاتا کہ وہ کسی بری نیت سے آیا ہے ممکن ہے یہ وجہ بھی ہو۔ مگر فرشتوں کا جواب اس بات کی تائید نہیں کرتا جو یہ تھا && کہ ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں && بات دراصل یہ نہ تھی کہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا یا کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھانا یا فرشتوں کو پہچان نہ سکنا ایسی باتیں نہیں تھیں جن سے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) ڈر جاتے اور ایسے واقعات اولوالعزم انبیاء سے پیش آتے ہی رہتے ہیں کہ فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے جس کا علم انھیں بعد میں ہوتا ہے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ڈر کی اصل وجہ :۔ بلکہ اصل بات یہ تھی کہ فرشتے چونکہ قوم لوط کو تباہ کرنے کی غرض سے آئے تھے اس لیے ان کے چہروں پر غصہ کے آثار نمایاں تھے لہذا انھیں یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ شاید مجھ سے یا میرے گھر والوں سے ایسی کوئی تقصیر ہوگئی ہے جس کی وجہ سے یہ فرشتے غضب ناک دکھائی دے رہے ہیں پھر جب فرشتوں نے یہ وضاحت کردی کہ آپ کے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں تو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا اندیشہ دور ہوگیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) نے صرف کھانا پیش ہی نہیں کیا بلکہ انھیں کھانے کے لیے اصرار بھی کیا : (قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ ) [ الذاریات : ٢٧ ] ” فرمایا کیا تم کھاتے نہیں ہو ؟ “ پھر بھی جب انھوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا تو دل میں ایک قسم کا خوف محسوس کیا۔ ” خِيْفَةً “ کی تنوین کی وجہ سے ” ایک قسم کا خوف “ ترجمہ کیا گیا ہے۔ خوف کی وجہ یہ تھی کہ ان کے علاقے میں اگر کوئی اجنبی آتا اور وہ مہمانی میں پیش کیا ہوا کھانا قبول نہ کرتا تو اس کے متعلق سمجھا جاتا کہ وہ کسی برے ارادے سے آیا ہے، یا یہ بھی ہوسکتا ہے اور شاید یہی زیادہ موقع کے مناسب ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی نے ان کے کھانا تناول نہ کرنے کی وجہ سے ان کے فرشتے ہونے کو بھانپ لیا ہو اور وہ اس بنا پر ڈر گئے ہوں کہ یہ ان کی بستی پر عذاب کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ (شوکانی) فرشتوں نے ان کے خوف کو بھانپ لیا، بلکہ سورة حجر (٥٢) میں ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے صاف کہہ دیا : ( اِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُوْنَ ) ” ہم تو تم سے خوف زدہ ہیں۔ “ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ : فرشتوں نے کہا، آپ مت ڈریں، ہمیں (آپ کی بستی پر نہیں بلکہ) لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس سے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے عالم الغیب ہونے کی اور ان کے کائنات پر اختیار رکھنے کی صاف نفی ہو رہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 70, it was said: فَلَمَّا رَ‌أَىٰ أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَ‌هُمْ (So, when he noticed their hands not reaching for it, he found them strange and felt a bit of fright from them). From here we learn that there are rules of etiquette for guests as well. A guest should accept whatever is offered. Let him partake from it a little bit to please the host, even if not willing to eat because of un¬favorable taste or apprehended harm. This very sentence also tells us that the host should not consider himself absolved after having placed the food before the guest. In-stead, he should be benignly watching whether or not the guest is par-taking of the food, as was done by Sayyidna Ibrahim when he noticed that the angels were not eating. But, this watching has to be discreet, not something like staring at the guest while he is eating. A casual look is enough, because looking at the morsels of food being eaten by the guest is contrary to the eti¬quette of entertainment and certainly very humiliating for the invited guest. This is illustrated by an incident relating to Khalifah Hisham ibn ` Abd ul-Malik. On a certain day, the Khalifah was sharing his food-spread with a rustic Arab. The morsel of food being eaten by the Arab had a strand of hair in it. When Khalifah Hisham noticed it, he told the Arab about it. The Arab instantly rose in a huff saying, ` we never eat with a person who watches our morsels.& Al-Tabari reports at this place: When the angels abstained from eating the first time, they had said that they do not eat free meals. If they were to accept payment for it, they would. Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) said, ` Yes, there is a price for it that you can pay. The price is: Say ` with the name of Allah& when you begin, and praise Him when you finish.& Hearing this, the archangel Jibra&il (علیہ السلام) told his compan¬ions, ` That Allah Ta` ala calls him His friend is correct. He deserves it.& This tells us that saying:.. بسم اللہ (bismillah: With the name of Allah) when beginning to eat, and saying: الحمد للہ (alhamdulillah: Praise belongs to Allah) at the end of it is Sunnah.

(آیت) فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ ، یعنی جب دیکھا ابراہیم (علیہ السلام) نے کہ ان کے ہاتھ کھانے تک نہیں پہنچتے تو متوحش ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مہمان کے آداب میں سے یہ ہے کہ مہمان کے سامنے جو چیز پیش کی جائے اس کو قبول کرے، ( کھانے کو دل نہ چاہے یا مضر سمجھیں تو معمولی سی شرکت دلجوئی کے لئے کرلیں ) ۔ اسی جملہ سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ میزبان کو چاہئے کہ صرف کھانا سامنے رکھ کر فارغ نہ ہوجائے بلکہ اس پر نظر رکھے کہ مہمان کھا رہا ہے یا نہیں، جیسا ابراہیم (علیہ السلام) نے کیا کہ فرشتوں کے کھانا نہ کھانے کو محسوس کیا۔ مگر یہ نظر رکھنا اس طرح ہو کہ مہمان کے کھانے کو تکتا نہ رہے، سرسری نظر سے دیکھ لے کیونکہ مہمان کے لقموں کو دیکھنا آداب ضیافت کے خلاف اور مدعو کے لئے باعث شرمندگی ہوتا ہے جیسا ہشام بن عبدالملک کے دسترخوان پر ایک روز ایک اعرابی کو یہ واقعہ پیش آیا کہ اعرابی کے لقمہ میں بال تھا، امیر المومنین ہشام نے دیکھا تو بتلایا، اعرابی فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ ہم ایسے شخص کے پاس کھانا نہیں کھاتے جو ہمارے لقموں کو دیکھتا ہے۔ امام طبری نے اس جگہ نقل کیا ہے اول جب فرشتوں نے کھانے سے انکار کیا تو یہ کہا تھا کہ ہم مفت کا کھانا نہیں کھاتے اگر آپ قیمت لے لیں تو کھائیں گے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا کہ ہاں اس کھانے کی ایک قیمت ہے وہ ادا کردو، وہ قیمت یہ ہے کہ شروع میں اللہ کا نام لو اور آخر میں اس کی حمد کرو، جبریل امین نے یہ سن کر اپنے ساتھیوں کو بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو خلیل بنایا ہے یہ اسی کے مستحق ہیں۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ کھانے کے شروع میں بسم اللہ اور آخر میں الحمد للہ کہنا سنت ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَہُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْہِ نَكِرَہُمْ وَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِيْفَۃً۝ ٠ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ۝ ٧٠ۭ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ وصل الِاتِّصَالُ : اتّحادُ الأشياء بعضها ببعض کاتّحاد طرفي الدائرة، ويضادّ الانفصال، ويستعمل الوَصْلُ في الأعيان، وفي المعاني . يقال : وَصَلْتُ فلاناً. قال اللہ تعالی: وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة/ 27] ( و ص ل ) الا تصال کے معنی اشیاء کے باہم اس طرح متحد ہوجانے کے ہیں جس طرح کہ قطرہ دائرہ کی دونوں طرفین ملی ہوئی ہوتی ہیں اس کی ضد انفعال آتی ہے اور وصل کے معنی ملائے کے ہیں اور یہ اسم اور معنی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ وصلت فلانا صلہ رحمی کے معنی میں آتا ہے قرآن میں ہے وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة/ 27] اور جس چیز ( یعنی رشتہ قرابت ) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے اسی کو قطع کئے ڈالتے ہیں نكر الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ( ن ک ر ) الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون/ 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔ وجس الوَجْس : الصّوت الخفيّ ، والتَّوَجُّس : التّسمّع، والإيج اس : وجود ذلک في النّفس . قال تعالی: فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً [ الذاریات/ 28] فالوَجْس قالوا : هو حالة تحصل من النّفس بعد الهاجس، لأنّ الهاجس مبتدأ التّفكير ، ثم يكون الواجس الخاطر . ( و ج س ) الوجس کے معنی صوت خفی کے ہیں اور توجس ( تفعل ) خفی آواز سننے کی کوشش کرنے کو کہتے ہیں اور ایجاس کے معنی دل میں کوئی بات محسوس کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً [ الذاریات/ 28] اس وقت موسیٰ نے اپنے دل میں خوف معلوم کیا ۔ لہذا وجس اس حالت کو کہتے ہیں جو کسی ( خطرہ کے بعد دل میں پیدا ہوتی ہے اور جو کسی بنتی ہے اسے ھاجس اور اس کے بعد کی حالت کو واجس کہا جاتا ہے : خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ لوط لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له . ( ل و ط ) لوط ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٠) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ انکے ہاتھ اس کھانے تک نہیں بڑھتے کیوں کہ ان کو تو کھانے کی احتیاج نہیں تھی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان سے وحشت ہوئی اور ان سے دل میں خوف زدہ ہوئے اور سمجھے کہ کوئی مخالف نہ ہوں کیوں کہ کھانا نہیں کھا رہے ہیں، جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خوف زدہ ہونے کا احساس کیا تو کہنے لگے ابراہیم (علیہ السلام) ڈرو مت ہم قوم لوط کی ہلاکت کے لیے بھیجے گئے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ) جب حضرت ابراہیم نے محسوس کیا کہ رسمی اصرار کے باوجود بھی مہمان کسی طور کھانے کی دعوت قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہے تو اب آپ بجا طور پر کھٹکے کہ یہ پر اسرار لوگ کون ہیں اور یہاں کس ارادے سے آئے ہیں ؟ اس زمانے میں یہ رواج بھی تھا کہ اگر کوئی شخص دشمنی کی غرض سے کسی کے پاس جاتا تو اس کے ہاں کا کھانا نہیں کھاتا تھا۔ اسی لیے حضرت ابراہیم کو ان کی طرف سے خدشہ محسوس ہوا۔ جب انہوں نے آپ کا یہ خوف محسوس کیا تو : (قَالُوْا لاَ تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمِ لُوْطٍ ) یعنی ہم فرشتے ہیں اور ہمیں قوم لوط کی طرف عذاب کی غرض سے بھیجا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

76. Some commentators on the Qur'an are of the view that when the guests hesitated to take food Prophet Abraham (peace be on him) felt suspicious about their intentions. He even became apprehensive that they had come with some hostile design. For, in Arabia when someone declines the food offered to him by way of hospitality, this gives rise to the fear that he has not come as a guest but rather with subversive purposes. The very next verse, however, does not lend any support to this view. 77. The words as well as the tone of the verse suggest that as soon as Abraham (peace be on him) noticed that his guests were disinclined to eat, he realized that they were angels. Since angels appear in human form only in very exceptional circumstances, what terrified Abraham (peace be on him) was the possibility that the angels may have been sent to inflict punishment on account of any lapses that he himself, his family, or his people may have committed. Had Abraham (peace be on him) not been sure about the identity of his guests - as some Qur'an-commentators believe - they would have said: 'Do not fear, we are angels sent by your Lord.' However, they did not say so. They rather tried to allay Abraham's fears by saying: 'Do not be afraid, we have been sent to the people of Lot.' It is, thus, clear that Abraham had become aware of their true identity. What caused Abraham (peace be on him) to worry was the idea that the angels had been sent to his people, that his people were about to suffer a severe chastisement. However, he was soon to feel relieved that the angels had been sent to the people of Lot rather than to his own. So there was no reason to fear that his own people would soon suffer destruction.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :76 بعض مفسرین کے نزدیک یہ خوف اس بنا پر تھا کہ جب ان اجنبی نو واردوں نے کھانے میں تأمل کیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کی نیت پر شبہہ ہونے لگا اور آپ اس خیال سے اندیشہ ناک ہوئے کہ کہیں یہ کسی دشمنی کے ارادے سے تو نہیں آئے ہیں ، کیونکہ عرب میں جب کوئی شخص کسی کی ضیافت قبول کرنے سے انکار کرتا تو اس سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ مہمان کی حیثیت سے نہیں آیا ہے بلکہ قتل و غارت کی نیت سے آیا ہے ۔ لیکن بعد کی آیت اس تفسیر کی تائید نہیں کرتی ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :77 اس انداز کلام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کھانے کی طرف ان کے ہاتھ نہ بڑھنے سے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام تاڑ گئے تھے کہ یہ فرشتے ہیں ۔ اور چونکہ فرشتوں کا علانیہ انسانی شکل میں آنا غیر معمولی حالات ہی میں ہوا کرتا ہے اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خوف جس بات پر ہوا وہ دراصل یہ تھی کہ کہیں آپ کے گھر والوں سے یا آپ کی بستی کے لوگوں سے یا خود آپ سے کوئی ایسا قصور تو نہیں ہو گیا ہے جس پر گرفت کے لیے فرشتے اس صورت میں بھیجے گئے ہیں ۔ اگر بات وہ ہوتی جو بعض مفسرین نے سمجھی ہے تو فرشتے یوں کہتے کہ ”ڈرو نہیں ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں“ ۔ لیکن جب انہوں نے آپ کا خوف دور کرنے کے لیے کہا کہ ” ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں“ تو اس سے معلوم ہوا کہ ان کا فرشتہ ہونا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جان گئے تھے ، البتہ پریشانی اس بات کی تھی کہ یہ حضرات اس فتنے اور آزمائش کی شکل میں جو تشریف لائے ہیں تو آخر وہ بدنصیب کون ہے جس کی شامت آنے والی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

40: چونکہ فرشتے اِنسانی شکل میں آئے تھے، اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام شروع میں انہیں اِنسان ہی سمجھے، اور ان کی مہمانی کے لئے بھنے ہوئے بچھڑے کا گوشت لے کر آئے۔ لیکن چونکہ وہ فرشتے تھے، اور کچھ کھا نہیں سکتے تھے، اس لئے انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔ اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ اگر کوئی شخص میزبان کے یہاں کھانا پیش ہونے کے بعد نہ کھائے تو یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی تھی کہ وہ کوئی دُشمن ہے جو کسی بری نیت سے آیا ہے، اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خوف محسوس کیا۔ اس موقع پر فرشتوں نے واضح کردیا کہ وہ فرشتے ہیں، اور ان دو کاموں کے لئے بھیجے گئے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:70) الیہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع عجل۔ نکرہم۔ الا نکار۔ عرفان کی ضد ہے اس نے نہ پہچانا۔ اس نے اجنبی خیال کیا۔ وہ ان کی طرف سے شبہ میں پڑگیا۔ انکار عدم معرفت ہے۔ لیکن بعض اوقات انسان جانتے ہوئے بھی انکار کردیتا ہے۔ اسے کذب کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے یعرفون نسمۃ اللہ ثم ینکروھا (16:83) یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر انکار کرتے ہیں۔ المنکر۔ ہر اس فعل کو کہتے ہیں کہ جسے عقل سلیم قبیح خیال کرے۔ یا عقل کو اس کے حسن و قبیح میں توقف ہو۔ مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو۔ قرآن مجید میں ہے وتاتون فی نادیکم المنکر (29:29) اور تم اپنی مجلسوں میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو۔ اوجس۔ اس نے محسوس کیا۔ ایجاس سے جس کے معنی دل میں محسوس کرنے اور قلب میں پاشیدہ آواز پانے کے ہیں۔ ماضٰ کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ وجس مادہ۔ اوجس منھم خیفۃ۔ ان کی طرف سے دل میں ڈر محسوس کیا۔ ایک اور جگہ آیا ہے فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسیٰ (20:60) (اس وقت) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ خوف اس بنا پر تھا کہ جب ان نوواردوں نے کھانے میں تامل کیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی نیت پر شبہ ہونے لگا ۔ کہ کہیں یہ دشمنی کے ارادے سے تو نہیں آئے۔ کیونکہ عرب میں جب کوئی کسی کی ضیافت قبول کرنے سے انکار کرتا تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ مہمان کی حیثیت سے نہیں آیا بلکہ قتل و غارت کی نیت سے آیا ہے۔ لیکن بعد کی تفسیر اس کی تائید نہیں کرتی ۔ بلکہ اندازکلام سے ظاہرہوتا ہے کہ کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھنے سے ہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تاڑ گئے تھے کہ یہ فرشتے ہیں اور چونکہ فرشتوں کا علانیہ انسانی شکل میں آنا غیر معمولی حالات میں ہی ہوا کرتا ہے اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خوف جس بات کا ہوا وہ دراصل یہ تھی کہ کہیں آپ کے گھروالوں سے یا آپ کی بستی کے لوگوں سے یا خود آپ سے کوئی ایسا قصور تو نہیں ہوگیا جس پر گرفت کے لئے فرشتے اس صورت میں بھیجے گئے ہیں اگر بات وہ ہوتی جو بعض مفسرین نے سمجھی ہے تو فرشتے یوں کہتے کہ ڈرو نہیں ہم تمہارے رب کے بھیجے گئے ہیں اگر بات وہ ہوتی جو بعض مفسرین نے سمجھی ہے تو فرشتے یوں کہتے کہ ڈرو نہیں ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے آپ کا خوف دور کرنے کے لئے کہا کہ ” ہم تو قوم لوط (علیہ السلام) کی طرف بھیجے گئے ہیں “ تو اس سے معلوم ہوا کہ ان کا فرشتہ ہونا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پہلے ہی جان گئے تھے (تفہیم القرآن)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ کیونکہ ان کے علاقے میں اگر کوئی اجنبی آتا اور وہ مہمانی میں پیش کیا ہوا کھانا قبول ہ کرتا تو اس کے متعلق سمجھا جاتا کہ وہ کسی برے ارادے سے آیا ہے یا یہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور شاید یہی قرین قیاس ہو۔ کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے ان کے کھانا تناول نہ کرنے کی وجہ سے ان کے فرشتے ہونے کو بھانپ لیا ہو اور وہ اس بنا پر ڈر گئے ہوں کہ یہ ان کی بستی پر عذاب نازل کرنے کے لئے بھیجئے گئے ہیں۔ (شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ تاکہ ان کو سزائے کفر میں ہلاک کریں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُ سُلُنَآ اِبْرٰھِیْمَ بِالْبُشْرٰی یہاں قرآن کریم نے خوشخبری کے بیان کو بعد میں آپ کی بیوی کی موجودگی کے وقت تک موخر کردیا کیونکہ یہاں تو ابھی قاری کو معلوم نہیں کہ آنے والے فرشتے ہیں۔ یہاں مفسرین نے ان آنے والوں کے بارے میں جو تفیصلات دی ہیں ہم ان کے ذکر کو ضروری نہیں سمجھتے۔ کیونکہ یہ تفصیلات بلا دلیل ہیں : قَالُوْا سَلٰمًا قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذِ (٦٩) فَلَمَّارَآاَ یْدِیَھُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْہِ نَکِرَھُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْھُمْ خِیْفَۃً ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عراق کے لدانیوں میں پیدا ہوئے اور یہاں سے انہوں نے ہجرت کر کے دریائے اردن کو عبور کرتے ہوئے کنعان کی صحرائی سرزمین میں بودباش اختیار کرلی۔ اور جس طرح دیہاتی رسم و رواج کے مطابق جو شخص کھان نہیں کھاتا اس سے یہ خوف کیا جاتا ہے کہ شاید یہ کسی جنایت اور دشمنی کا ارادہ رکھتا ہے جبکہ تمام دیہاتی لوگ کھانا کھانے کے بعد اہل خانہ کے ساتھ برائے کا ارتکاب کرنے سے ابا کرتے ہیں۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ مہمان کھان نہیں کھا رہے تو قدرتی طور پر انہیں خوف دامن گیر ہوا اور طرح طرح کی باتیں سوچنے لگے۔ غرض اس صورت حالات کو دیکھ کر انہوں نے مناسب سمجھا کہ اپنا تعارف کرا دیں اور اپنی مہم سے ان کو آگاہ کردیں۔ قَالُوا لا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمِ لُوطٍ (٧٠) ‘۔ ” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو فوراً سمجھ گئے کہ قوم لوط کی طرف فرشتوں کے بھیجنے کے کیا معنی ہیں ، لیکن اچانک روئے سخن ایک ایسے موضوع کی طرف مڑ گیا جو زیر بحث نہ تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

63: جب انہوں نے تلے ہوئے بچھڑے کا دستر خوان اپنے ” مہمانوں “ کے سامنے لا کر رکھا تو انہوں نے کھانے کے لیے دستر خوان کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے۔ یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل میں خوف سا پیدا ہوا کہ کہیں یہ لوگ برے ارادے سے نہ آئے ہوں کیونکہ اس وقت کا دستور تھا کہ جس شخص سے کسی برائی کا ارادہ ہوتا اس کے گھر کا نمک نہیں کھاتے تھے وکانوا اذا ارادو الضیف لا یا کل ظنوا بہ شرًا (قرطبی ج 9 ص 65) ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر آثار خوف دیکھ کر فرشتے بول اٹھے کہ آپ ڈریں نہیں ہم تو فرشتے ہیں اور قوم لوط پر عذاب لے کر آئے ہیں۔ فرشتوں کی اس وضاحت سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حقیقت حال کا علم ہوا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

70 سو جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس کھانے کی طرف نہیں بڑھتے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو اجنبی سمجھا اور متوحش ہوئے اور دل میں ان سے ڈرے انہوں نے کہا اے ابراہیم ہم سے ڈرو نہیں ہم آدمی نہیں ہیں فرشتے ہیں ان کے ساتھ جو عذاب تھا اس کا ڈر پڑا۔ خلاصہ یہ کہ دستور کے موافق جب کوئی مہمانا کھانا نہ کھاتا تھا یا کوئی مخالف بن کر آتا تھا اور وہ کھانا نہ کھاتا تھا تو کھانا نہ کھانا ایک پہچان تھی اپنے پر ائے کی اس لئے خطرہ محسوس کیا یا اپنی روحانیت کے باعث ان کے پاس عذاب کا حکم محسوس کیا اس لئے ڈرے ہوں اسی طرح فرشتوں نے ان کے دل کا ڈر سمجھا اللہ تعالیٰ کے بتانے یا روحانی کشف سے