Surat Hood

Surah: 11

Verse: 89

سورة هود

وَ یٰقَوۡمِ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شِقَاقِیۡۤ اَنۡ یُّصِیۡبَکُمۡ مِّثۡلُ مَاۤ اَصَابَ قَوۡمَ نُوۡحٍ اَوۡ قَوۡمَ ہُوۡدٍ اَوۡ قَوۡمَ صٰلِحٍ ؕ وَ مَا قَوۡمُ لُوۡطٍ مِّنۡکُمۡ بِبَعِیۡدٍ ﴿۸۹﴾

And O my people, let not [your] dissension from me cause you to be struck by that similar to what struck the people of Noah or the people of Hud or the people of Salih. And the people of Lot are not from you far away.

اور اے میری قوم ( کے لوگو! ) کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کو میری مخالفت ان عذابوں کا مستحق بنا دے جو قوم نوح اور قوم ہود اور قوم صالح کو پہنچے ہیں ۔ اور قوم لوط تو تم سے کچھ دور نہیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He (Shu`ayb) said to them, وَيَا قَوْمِ لاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي ... And O my people! Let not my Shiqaq cause you, This means, "Do not let your hatred and enmity of me cause you to persist in your corruption and disbelief. If you continue this way, you will suffer the same vengeance and torment that overcame Nuh's people, Hud's people, Salih's people and Lut's people." Qatadah said, وَيَا قَوْمِ لاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي (And O my people! Let not my Shiqaq cause you), "He is saying, `Do not be influenced by your differing with me."' As-Suddi said, "This means your enmity of me should not lead you to continue in misguidance and disbelief, or else you will be afflicted by what afflicted them." ... أَن يُصِيبَكُم مِّثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ ... ... to suffer the fate similar to that of the people of Nuh or of Hud or of Salih, and the people of Lut are not far off from you!" Concerning His statement, ... وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ and the people of Lut are not far off from you! It has been said that this refers to the period of time. Qatadah said, "This means that they were only destroyed before you yesterday." It has also been said that it refers to place. Actually, the verse carries both meanings.

میری عداوت میں اپنی بربادی مت مول لو فرماتے ہیں کہ میری عداوت اور بعض میں آکر تم اپنے کفر اور اپنے گناہوں پر جم نہ جاؤ ورنہ تمہیں وہ عذاب پہنچے گا جو تم سے پہلے ایسے کاموں کا ارتکاب کرنے والوں کو پہنچا ہے ۔ خصوصاً قوم لوط جو تم سے قریب زمانے میں ہی گذری ہے اور قریب جگہ میں ہے تم اپنے گذرشتہ گناہوں کی معافی مانگو ۔ آئندہ کے لیے گناہوں سے توبہ کرو ۔ ایسا کرنے والوں پر میرا رب بہت ہی مہربان ہو جاتا ہے اور ان کو اپنا پیارا بنا لیتا ہے ابو لیلی کندی کہتے ہیں کہ میں اپنے مالک کا جانور تھامے کھڑا تھا ۔ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کو گھیرے ہوئے تھے آپ نے اوپر سے سر بلند کیا اور یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ اور فرمایا میری قوم کے لوگو مجھے قتل نہ کرو ۔ تم اسی طرح تھے ۔ پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ڈال کر دکھائیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 یعنی ان کی جگہ تم سے دور نہیں، یا اس سبب میں تم سے دور نہیں جو ان کے عذاب کا موجب بنا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠١] اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف اوقات میں شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم میں یہ مکالمات ہوتے رہے یہ کوئی ٹھنڈے ماحول میں نہیں ہو رہے تھے بلکہ آپ کی قوم آپ کی مخالفت میں ہٹ دھرمی پر اتر آئی تھی۔ یعنی ایسی ہٹ دھرمی جس میں انسان مخاطب کی درست بات کا بھی الٹا ہی اثر لینا شروع کردیتا ہے اسی لیے آپ نے انھیں فرمایا کہ میری مخالفت میں مشتعل ہو کر اور چڑ کر کہیں پہلے سے بھی زیادہ شرک اور کاروباری بددیانتیوں میں مستغرق نہ ہوجانا حتیٰ کہ تم اس حالت کو پہنچ جاؤ کہ تم اس عذاب الٰہی کے مستحق قرار دیئے جاؤ جو تمہاری پیشرو قوموں پر آچکا ہے جن میں سے قوم لوط کا تباہ شدہ خطہ تو تم سے کچھ دور بھی نہیں اور اسے کسی بھی وقت دیکھ سکتے ہو اور پھر زمانی لحاظ سے بھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور تمہارے بڑے بزرگ تمہیں اس قوم کے حالات سنا بھی سکتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيٰقَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِيْٓ۔۔ :” شِقَاقٌ شِقٌّ“ سے باب مفاعلہ کا مصدر ہے، بمعنی جانب، یعنی دونوں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں آمنے سامنے ہوجائیں، یعنی صاف مخالفت اور مقابلے پر اتر آنا۔ ” لَا يَجْرِمَنَّكُمْ “ تمہیں آمادہ نہ کر دے، تمہیں ابھار نہ دے، تمہیں اس بات کا مجرم نہ بنا دے، تمہارے لیے اس کا باعث نہ بن جائے، یہ تمام معانی ہوسکتے ہیں۔ وَمَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِيْدٍ : یعنی اگر تمہیں قوم نوح کے غرق ہونے، قوم ہود کے آندھی کے ساتھ ہلاک ہونے اور قوم صالح کے چیخ اور زلزلے سے نیست و نابود ہونے سے عبرت نہیں ہوئی، کیونکہ ان کا علاقہ یا زمانہ تم سے دور تھا، تو لوط (علیہ السلام) کی قوم تو تم سے کچھ دور نہیں، نہ اسے زیادہ وقت گزرا ہے اور نہ ان کا علاقہ تمہارے علاقے سے کچھ دور ہے۔ واضح رہے کہ جغرافیائی اعتبار سے بھی مدین کا علاقہ اس زمین سے متصل واقع تھا جہاں لوط (علیہ السلام) کی قوم بستی تھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After having given this good counsel to them, he warned them of the punishment of Allah Ta` ala. He said: وَيَا قَوْمِ لَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شِقَاقِي أَن يُصِيبَكُم مِّثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ ۚ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ And 0 my people, let not your hostility towards me cause you to suffer what was suffered by the people of Nuh, or the people of Hud, or the people of Salih. And the people of Lut are not far from you. The sense of the last sentence is that the overturned habitations of the people of Sayyidna Lut (علیہ السلام) were close to Madyan where they were. Then, in terms of time, the punishment that came upon them was very close. From this they could learn their lesson and leave their obstinacy. Hearing this, his people were enraged. They said that had it not been for the support he had from his clan, they would have stoned him to death. Despite this threat, Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) true to his mettle as a prophet, did not hesitate to tell them that they feared his clan all right, but would have no fear of Allah who holds everything in His power. Finally, when his people did not listen to anything said to them, Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) told them that they could now wait for the punishment. After that, Allah Ta ala took out Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) and those who had believed in him, as is the Divine practice, from that habitation and the rest of them were destroyed instantly at the harsh Cry of Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) . Injunctions and Rulings: Rules about Lessening of Weights and Measures One of the reasons why punishment fell on the people of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) was their practice of weighing and measuring less than due - called tatfif. The Holy Qur&an has described the severe pun¬ishment for those who do that in Surah al-Mutaffifin which opens with the verse: وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ (Woe to those who give less - 83:1). There is a consensus of the entire Muslim Ummah that doing so is strictly Haram (unlawful). Quoting a saying of Sayyidna ` Umar (رض) ، Imam Malik has said in Mu&atta& that weighing and measuring less essentially means that someone does not fulfill the right of another person due on him, fully and duly. In fact, makes it less, whether it happens to be something given by weight, or measure, or something of another kind. If an employee falls short in performing his or her assigned duty, or an office worker, or a laborer cuts his working hours short, or fails to ful¬fill his job assignment as due, then, they all will be counted in this cat-egory. Anyone who does not perform his or her Salah with due consid¬eration of everything obligatory and mash En in it has also committed the crime of this ` tatfif.& May Allah keep all of us protected from it! Ruling It appears in Tafsir al-Qurtubi that the people of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) would save gold and silver by trimming the edges of gold and silver coins, like dinar and dirham, circulating in the country as offi¬cial currency, and which they would channel back into circulation at par value. Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) prohibited them from doing so. In Hadith as well, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has declared the chipping of the coins of an Islamic state to be Haram (unlawful). Tafsir authority, Zayd ibn Aslam has said exactly this while explaining the verse of the Qur&an: تِسْعَةُ رَ‌هْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَا يُصْلِحُونَ ; (nine family heads spreading corruption in the land and not correcting [ their ways ] - 27:48). He says that these people of the city mentioned in the verse used to chip off gold and silver from dinar and dirham coins and ran a profitable business of their own through this source - something the Qur&an calls a great corruption. During the Khilafah of Sayyidna ` Umar ibn ` Abd al-` Aziz (رح) ، someone was arrested while he was cutting a dirham coin. He was awarded a punishment of lashes and was paraded around head shaved. (Tafsir al Qurtubi)

اس پند و نصیحت کے بعد پھر ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا، (آیت) وَيٰقَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِيْٓ اَنْ يُّصِيْبَكُمْ مِّثْلُ مَآ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ ۭ وَمَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِيْدٍ ، یعنی تم سوچو سمجھو، ایسا نہ ہو کہ میری مخالفت اور عداوت تم پر کوئی ایسا عذاب لا ڈالے جیسا تم سے پہلے قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح (علیہم السلام) پر آچکا ہے، او لوط (علیہ السلام) کی قوم اور ان کا عبرتناک عذاب تو تم سے کچھ دور بھی نہیں، یعنی مقامی اعتبار سے بھی قوم لوط کی الٹی ہوئی بستیاں مدین کے قریب ہی ہیں اور زمانہ کے اعتبار سے بھی تم سے بہت قریب زمانہ میں ان پر عذاب آیا ہے اس سے عبرت حاصل کرو اور اپنی ضد سے باز آجاؤ۔ ان کی قوم اس کو سن کر اور بھی زیادہ اشتعال میں آگئی اور کہنے لگی کہ اگر آپ کے خاندان کی حمایت آپ کو حاصل نہ ہوتی تو ہم آپ کو سنگسار کردیتے، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اس پر بھی ان کو نصیحت فرمائی کہ تم کو میرے خاندان کا تو خود ہوا مگر خدا تعالیٰ کا کچھ خوف نہ آیا جس کے قبضہ میں سب کچھ ہے۔ بالاخر جب قوم نے کوئی بات نہ مانی تو شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اچھا تم اب عذاب کا انتظار کرو، اس کے بعد حق تعالیٰ نے شعیب (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو حسب دستور اس بستی سے نکال لیا اور باقی سب کے سب جبریل (علیہ السلام) کی ایک سخت آواز سے یکدم ہلاک ہوگئے۔ احکام و مسائل ناپ تول کی کمی کا مسئلہ : مذکورہ آیات میں قوم شعیب (علیہ السلام) پر عذاب آنے کا ایک سبب ان کا ناپ تول میں کمی کرنا تھا جس کو تطفیف کہا جاتا ہے، اور قرآن کریم نے وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ میں ان کے عذاب شدید کا بیان فرمایا ہے اور باجماع امت ایسا کرنا سخت حرام ہے، حضرت فاروق اعظم کے ایک ارشاد کے ما تحت حضرت امام مالک نے موطا میں فرمایا کہ ناپ تول کی کمی سے اصل مراد یہ ہے کہ کسی کا جو حق کسی کے ذمہ ہو اس کو پورا ادا نہ کرے بلکہ اس میں کمی کرے خواہ وہ ناپنے تولنے کی چیز ہو یا دوسری طرح کی، اگر کوئی ملازم اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے، کسی دفتر کا ملازم یا کوئی مزدور اپنے کام کے وقوت مقرر میں کمی کرتا ہے یا مقررہ کام کرنے میں کوتاہی کرتا ہے وہ بھی اسی فہرست میں داخل ہے، کوئی شخص نماز کے آداب و سنن پورے بجا نہیں لاتا وہ بھی اسی تطفیف کا مجرم ہے، نعوذباللہ منہ۔ مسئلہ : تفسیر قرطبی میں ہے کہ قوم شعیب کی ایک عادت یہ تھی کہ ملک کے رائج سکوں درہم و دینار میں سے کنارے کاٹ کر سونا چاندی بچا لیتے اور یہ کٹے ہوئے سکے پوری قیمت سے چلتے کردیتے تھے، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کو اس سے منع فرمایا۔ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اسلامی سلطنت کے سکوں کا توڑنا حرام قرار دیا ہے، اور آیت (آیت) تِسْعَةُ رَهْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ ، کی تفسیر میں امام تفسیر حضرت زید بن اسلم نے یہی فرمایا ہے کہ یہ لوگ درہم و دینار کو توڑ کر اپنا فائدہ حاصل کرلیا کرتے تھے جس کو قرآن نے فساد عظیم قرار دیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کے زمانہ میں ایک شخص کو اس جرم میں گرفتار کیا گیا کہ وہ درہم کو کاٹ رہا تھا، موصوف نے اس کو کوڑوں کی سزا دی اور سر مونڈھوا کر شہر میں گشت کرایا۔ ( تفسیر قرطبی ) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيٰقَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِيْٓ اَنْ يُّصِيْبَكُمْ مِّثْلُ مَآ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ ہُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ۝ ٠ۭ وَمَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِيْدٍ۝ ٨٩ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم . واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔ شقاق والشِّقَاقُ : المخالفة، وکونک في شِقٍّ غير شِقِ صاحبک، أو مَن : شَقَّ العصا بينک وبینه . قال تعالی: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء/ 35] ، فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة/ 137] ، أي : مخالفة، لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود/ 89] ، وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة/ 176] ، مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال/ 13] ، أي : صار في شقّ غير شقّ أولیائه، نحو : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة/ 63] ، ونحوه : وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء/ 115] ، ويقال : المال بينهما شقّ الشّعرة، وشَقَّ الإبلمة ، أي : مقسوم کقسمتهما، وفلان شِقُّ نفسي، وشَقِيقُ نفسي، أي : كأنه شقّ منّي لمشابهة بعضنا بعضا، وشَقَائِقُ النّعمان : نبت معروف . وشَقِيقَةُ الرّمل : ما يُشَقَّقُ ، والشَّقْشَقَةُ : لهاة البعیر لما فيه من الشّقّ ، وبیده شُقُوقٌ ، وبحافر الدّابّة شِقَاقٌ ، وفرس أَشَقُّ : إذا مال إلى أحد شِقَّيْهِ ، والشُّقَّةُ في الأصل نصف ثوب وإن کان قد يسمّى الثّوب کما هو شُقَّةً. ( ش ق ق ) الشق الشقاق ( مفاعلہ ) کے معنی مخالفت کے ہیں گویا ہر فریق جانب مخالف کو اختیار کرلیتا ہے ۔ اور یا یہ شق العصابینک وبینہ کے محاورہ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی باہم افتراق پیدا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء/ 35] اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے ۔ فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة/ 137] تو وہ تمہارے مخالف ہیں ۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے ۔ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة/ 176] وہ ضد میں ( آکر نیگی سے ) دور ہوگئے ) ہیں ۔ مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال/ 13] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے ۔ یعنی اس کے اولیاء کی صف کو چھوڑ کر ان کے مخالفین کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة/ 63] یعنی جو شخص خدا اور رسول کا مقابلہ کرتا ہے ۔ وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء/ 115] اور جو شخص پیغمبر کی مخالفت کرے ۔ المال بیننا شق الشعرۃ اوشق الابلمۃ یعنی مال ہمارے درمیان برابر برابر ہے ۔ فلان شق نفسی اوشقیق نفسی یعنی وہ میرا بھائی ہے میرے ساتھ اسے گونہ مشابہت ہے ۔ شقائق النعمان گل لالہ یا اس کا پودا ۔ شقیقۃ الرمل ریت کا ٹکڑا ۔ الشقشقۃ اونٹ کا ریہ جو مستی کے وقت باہر نکالتا ہے اس میں چونکہ شگاف ہوتا ہے ۔ اس لئے اسے شقثقۃ کہتے ہیں ۔ بیدہ شقوق اس کے ہاتھ میں شگاف پڑگئے ہیں شقاق سم کا شگاف فوس اشق راستہ سے ایک جانب مائل ہوکر چلنے والا گھوڑا ۔ الشقۃ اصل میں کپڑے کے نصف حصہ کو کہتے ہیں ۔ اور مطلق کپڑے کو بھی شقۃ کہا جاتا ہے ۔ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ هود الْهَوْدُ : الرّجوع برفق، ومنه : التَّهْوِيدُ ، وهومشي کالدّبيب، وصار الْهَوْدُ في التّعارف التّوبة . قال تعالی: إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف/ 156] أي : تبنا، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . ( ھ و د ) الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرن ا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے . : إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف/ 156] ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ لوط لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له . ( ل و ط ) لوط ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٩) اور اے میری قوم میری ضد اور دشمنی تمہارے لیے اس چیز کا باعث نہ ہوجائے کہ تم نہ ایمان لاؤ اور نہ ناپ تول کو پورا کرو کہ پھر تم پر بھی قوم نوح، جیسا غرق کردینے والا عذاب یا قوم ہود جیسی آندھی کے ذریعہ ہلاکت یا قوم صالح جیسا عذاب نازل ہو اور قوم لوط کی تو خبر تم سے دور نہیں تمہیں معلوم ہے جو ان پر عذاب نازل ہوا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

( وَمَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْکُمْ بِبَعِیْدٍ ) حضرت شعیب سے پہلے ان چار قوموں پر عذاب استیصال آچکا تھا۔ اور یہ جو فرمایا گیا کہ قوم لوط تم سے ” بعید “ نہیں ہے یہ زمانی اور مکانی دونوں اعتبار سے ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل سے متصل علاقے میں قوم مدین آباد تھی۔ اس علاقے سے ذرا ہٹ کر مشرق کی جانب بحیرۂ مردار ہے جس کے ساحل پر عامورہ اور سدوم کی وہ بستیاں تھیں جن میں حضرت لوط مبعوث ہوئے تھے۔ زمانی اعتبار سے بھی ان دونوں اقوام میں ہزاروں سال کا نہیں بلکہ صرف چند سو سال کا بعد تھا۔ بہر حال مجھے ان مفسرین سے اختلاف ہے جو حضرت شعیب کو حضرت موسیٰ کے ہم عصر سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں مجھے ان علماء کی رائے سے اتفاق ہے جن کا خیال ہے کہ حضرت موسیٰ مدین میں جس شخص کے مہمان بنے تھے اور جن کی بیٹی کے ساتھ بعد میں آپ نے نکاح کیا تھا وہ مدین کے ان لوگوں کی نسل سے کوئی نیک بزرگ تھے جو حضرت شعیب کے ساتھ عذاب استیصال سے بچ گئے تھے۔ دوسرا اہم نکتہ اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ بعض اوقات کسی داعی کے ساتھ ذاتی عناد اور دشمنی کی بنیاد پر کوئی شخص یا کوئی گروہ اس کی اصولی دعوت کو بھی ٹھکرا دیتا ہے۔ یہ انسانی رویے کا ایک بہت خطرناک پہلو ہے کیونکہ اس میں اس داعی کا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا مگر صرف ذاتی تعصب کی بنیاد پر اس کی دعوت کو ٹھکرانے والے خود کو برباد کرلیتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

100. Shu'ayb reminded his people of the story of the people of Lot (peace be on him). This tragic episode took place not far from where the people of Shu'ayb lived. In addition, it was no more than six or seven centuries previously that the people of Lot were utterly destroyed.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :100 جب یہ قوم ایمان لے آئی تو اس کی مہلت عمر میں اضافہ کر دیا گیا ۔ بعد میں اس نے پھر خیال و عمل کی گمراہیاں اختیار کرنی شروع کر دیں ۔ ناحوم نبی ( سن ۷۲۰ - سن ٦۹۸ قبل مسیح ) نے اسے متنبہ کیا ، مگر کوئی اثر نہ ہوا ۔ پھر صَفنِیاہ نبی ( سن ٦٤۰ - ٦۰۹ قبل مسیح ) نے اس کو آخری تنبیہ کی ۔ وہ بھی کر گر نہ ہوئی ۔ آخر کار سن ٦۱۲ قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں اللہ تعالیٰ نے میڈیا والوں کو اس پر مسلط کر دیا ۔ میڈیا کا بادشاہ بابِل والوں کی مدد سے اشور کے علاقے پر چڑھ آیا ۔ اشوری فوج شکست کھا کر نینویٰ میں محصور ہو گئی ۔ کچھ مدت تک اس نے سخت مقابلہ کیا ۔ پھر دجلے کی طغیانی نے فصیلِ شہر توڑ دی اور حملہ آور اندر گھس گئے ۔ پورا شہر جلا کر خاک سیاہ کر دیا گیا ۔ گردو پیش کےعلاقے کا بھی یہی حشر ہوا ۔ اشور کا بادشاہ خود اپنے محل میں آگ لگا کر جل مرا اور اس کے ساتھ ہی اشوری سلطنت اور تہذیب بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ۔ زمانہ ٔ حال میں آثارِ قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ان میں آتش زدگی کے نشانات کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٩۔ ٩٠۔ پھر حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ میری ضد میں آکر کبھی تم اپنی بات پر نہ اڑے رہنا میرے کہنے پر عمل کرو نہیں تو جس طرح نوح (علیہ السلام) اور ہود (علیہ السلام) اور صالح (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب آیا اور ہلاک ہوگئے اسی طرح تم پر بھی عذاب آجائے گا اور پھر کچھ نہ بن آئے گا ابھی کچھ زیادہ دن نہیں ہوئے کہ لوط (علیہ السلام) کی قوم ہلاک ہوچکی ہے کل کی بات ہے وہ سرزمین بھی کچھ زیادہ دور نہیں قریب ہی ہے تم کو واجب ہے توبہ استغفار کرو خدا مہربان ہے اپنے بندوں سے اس کو محبت ہے وہ تمہاری توبہ قبول کرے گا اور گناہ بخش دے گا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہوں کے معاف کرنے کی صفت اللہ تعالیٰ کو ایسی پیاری ہے کہ اگر دنیا میں کے حال کے لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ اور گنہگار مخلوقات پیدا کرتا اور ان کو توبہ کی توفیق دے کر ان کے گناہ معاف کرتا ١ ؎۔ یہ حدیث آخری آیت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ توبہ کرنے والے شخص کی توبہ قبول کرنے کی صفت اللہ کو پیاری ہے اور توبہ کرنے والوں سے اس کو ایک طرح کی محبت ہے۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٠٣ باب الاستغفار والتوبۃ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:89) لایجرمنکم۔ فعل نہی واحد مذکر غائب بانون ثقیلہ تاکید جرم مصدر باب ضرب۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ ہرگز تم کو نہ اکسائے۔ شقاقی۔ مضاف مضاف الیہ۔ میری مخالفت۔ میری عداوت۔ شقاقی۔ بمعنی ضد۔ مخالفت۔ اپنے دوست کی شق کو چھوڑ کر دوسری شق میں ہونا۔ ان یصیبکم۔ مبادا کہ پہنچے تمہیں۔ ان بمعنی کہ۔ یصیب۔ واحد مذکر غائب مضارع منصوب بوجہ عمل ان۔ اصاب یصیب اصابۃ (باب افعال) کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ کہ تم کو مصیبت پہنچے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یعنی ابھی تو قوم لوط ( علیہ السلام) کے واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور وہ تمہارے قریب ہی کے علاقہ میں پیش آچکا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کا زمانہ ہود ( علیہ السلام) سے تقریباً چھ سات سو سال بعد کا ہے اور جغرافیائی اعتبار سے بھی مدین کا علاقہ اس زمین سے متصل واقع تھا جہاں حضرت لوط ( علیہ السلام) کی قوم بستی تھی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 89 تا 95 لایجرمن (مجرم نہ بنا دے) شقاق (ضد، ہٹ دھرمی) ان یصیب (یہ کہ پہنچے گی) ودود (محبت کرنے والا) مانفقہ (ہم نہیں سمجھتے ) ضعیف (کمزور) رھط (خاندان، قبیلہ) رجمنا (ہم رجم کرتے (پتھر مار مار کر ہلاک کرنا) عزیز (زبردست، قوت و طاقت والا) اعز (زیادہ طاقتور، زیادہ قوت والا) اعز (زیادہ، طاقتور، زیادہ قوت والا) ظھری (پشت، پیٹھ) محیط (گھیرنے والا) عامل (کام کرنے والا) مکان (جگہ) یخزی (رسوا کر دے گا) کاذب (جھوٹ بولنے والا) ارتقبوا (نگرانی کرو، انتظار کرو) رقیب نگران الصیحۃ (چنگھاڑ تیز آواز) اصبحوا (وہ رہ گئے) جثمین (اوندھے پڑے رہنے والے) لم یغنوا (آباد نہ تھے) بعدت (دور ہوگئی) تشریح : آیت نمبر 89 تا 95 جیسا کہ آپ نے حضرت شعیب کے متعلق گزشتہ آیات میں پڑھا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو اللہ کی نافرمانی کرنے پر ٹوکتے ہوئے فرمایا تھا اے لوگو ! اپنے گناہوں سے معافی مانگو، کفر و شرک اور ہر طرح کی نافرمانیوں سے باز آ جائو، ماپ تول میں کمی نہ کرو اللہ کی طرف رجوع کرو، اس کے حکم پر چلو وہ اللہ تمہارے گناہوں کو معاف فرما دے گا کیونکہ وہ اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے، اسے بندوں کی معافی اور استغفار بہت پسند ہے کوئی کتنا ہی بڑا مجرم کیوں نہ ہو اگر وہ سچے دل سے توبہ کر کے اللہ سے معافی مانگتا ہے تو وہ اپنے بندوں کے بڑے سے بڑے گناہ کو معاف کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ لیکن اگر تم نے کفر و شرک کے راستے کو نہیں چھوڑا تو وہ اللہ تمہیں جڑ و بنارد سے اکھاڑ کر پھینک دے گا اور اس کی گرفت اور پکڑ سے تمہیں کوئی بھی بچا نہ سکے گا۔ ان ہی آیات میں حضرت شعیب نے اپنی قوم سے فرمایا ہے کہ اے میری قوم ! اگر تم اسی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی قوم نوح، قوم ھود، قوم صالح اور قوم لوط کی طرح سخت عذاب میں مبتلا ہو کر اپنا سب کچھ تباہ کر بیٹھو۔ حضرت شعیب نے فرمایا کہ حضرت لوط کا وہ علاقہ جہاں ان کی بستیوں کو ان پر الٹ دیا گیا تھا وہ تم سے بہت دور نہیں ہیں زمانہ اور علاقہ بہت قریب کا ہے تو اس سے عبرت حاصل کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح قوم نوح کو پانی میں غرق کردیا گیا قوم ھود کو آندھی اور ہوا کے طوفان سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا، قوم صالح کو ہیبت ناک آوازوں اور زلزلہ سے برباد کیا گیا اور قوم لوط پر ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا اور آج ان کا نام و نشان تک مٹ گیا ہے۔ کہیں تمہارا بھی حشر ایسا ہی نہ ہو۔ حضرت شعیب جو تمام انبیاء کرام میں بہترین خطیب بھی تھے جب اپنی بات سے فارغ ہوگئے تو قوم کے سردار کہنے لگے کہ اے شعیب ! تمہاری باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آرہی ہیں۔ آخر ہم اتنے مضبوط ہیں ہمارا انجام گزشتہ قوموں کی طرح کس طرح ہو سکتا ہے۔ کہنے لگے اے شعیب تمہارے خاندان کا لحاظ آڑے آجاتا ہے ورنہ تمہاری ان باتوں پر جی یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پتھروں سے کچل دیا جائے اور پتھر برسائے جائیں اور ہمارے لئے ایسا کرنے میں کوئی دشواری بھی نہیں ہے لنکح ہمیں تمہارے خاندان کا خیال آجاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے نزدیک کیا میرا خاندان میرے اللہ سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ یاد رکھو تم اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہو وہ تمہیں جب بھی گھیرنا چاہے گا تم اس سے بچ کر نہیں نکل سکتے۔ حضرت شعیب نے آخری بات یہ فرما دی کہ ٹھیک ہے میں نے تمہیں تمہارے برے انجام سے مطلع کردیا ہے اگر تم اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کرتے تو اس وقت کا انتظار کرو جب تک اللہ کا فیصلہ نہ آجائے، میں اپنے عمل میں لگا ہوا ہوں تم اپنی غفلتوں میں لگے رہو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کا عذاب کس کو روسا اور ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ جب پوری قوم کفر و شرک پر جمی رہی اور ماپ تول میں کمی پر شرمندہ نہیں ہوئی تو ایک سخت چنگھاڑ اور آواز سے اس قوم کے ہر فرد کے کانوں کے پردے پھٹ گئے، دلوں کی دھڑکنیں بند ہوگئیں اور جن بلند وبالا مکانات پر انہیں ناز تھا اس طرح برباد ہو کر رہ گئے کہ جیسے کل تک یہاں کوئی آباد ہی نہ تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب اور ان کی بات ماننے والوں کو نجات عطا فرما دی۔ اس طرح قوم کے نافرمانوں کو ان کے کیفرکردار تک پہنچا دیا گیا۔ ان آیات کی روشنی میں چند باتیں سامنے آتی ہیں۔ 1) اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر بہت ہی شفیق اور مہربان ہے۔ جب کوئی قوم نافرمانیوں کی انتہا تک پہنچ جاتی ہے تو اللہ اپنے نیک بندوں کو بھیجتا ہے جو اللہ کے حکم سے کفر و شرک پر جمے ہوئے لوگوں کو ان کے برے انجام سے مطلع کرتے ہیں جو لوگ انبیاء کرام کی بات کو تسلمک کرتے ہیں ان کو نجات مل جاتی ہے اور نافرمانوں کو برے انجام سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں ہر جگہ اپنے رسولوں اور نبیوں کو اصلاح احوال کے لئے بھیجا اور آخر حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیج کر قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنا دیا۔ اب آپ کے بعد کسی نئے رسول یا نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ تو یہ بھی اللہ کا کرم اور مہربانی ہے کہ وہ اپنے بندوں کی اصلاح کے لئے اپنے نیک بندوں کو بھیجتا رہا ہے۔ دوسری بڑی مہربانی یہ ہے کہ وہ بہت سی خطاؤں کے باوجود اپنے بندوں کی فوری طور پر گرفتن ہیں کرتا بلکہ ان کو توبہ کرنے کا موقع اور مہلت عطا فرماتا ہے پھر بھی اگر کوئی باز نہیں آتا تو اس کو سخت سزا دیتا ہے۔ اللہ کو اس کا شوق نہیں ہے کہ وہ اپنے بندوں کو سزا دے بلکہ اللہ نے تو مہربانی کرنے کو اپنے اوپر فرض کرلیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موقع پر جب کہ کچھ جنگی قیدی لائے گئے ان میں ایک عورت ایسی بھی تھی کہ جس کا دودھ پیتا بچہ اس سے چھوٹ گیا تھا بچے کی جدائی میں اس ماں کا یہ حال ہوچکا تھا کہ ہر دودھ پیتے بچے کو وہ اپنی چھاتی سے چمٹا کر دودھ پلانا شروع کردیتی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ کیا تم اس ماں سے اس کی توقع کرسکتے ہو کہ وہ اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں سے آگ میں پھینک دے گی۔ صحابہ کرام نے عرض کیا ہرگز نہیں۔ بلکہ اگر یہ بچہ آگ میں گرنے لگے گا تو وہ ماں اس بچے کو آگ سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ یعنی ایک ماں جس طرح اپنے بچے کے لئے بےقرار ہے۔ اللہ بھی اپنے بندوں کی نجات کا اس سے زیادہ خواہشمند ہے مگر انسان ہی نافرمانیاں کر کے اپنی مہبران اللہ کو ناراض کردیتا ہے۔ 2) دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح حضرت شعیب کی قوم نے یہ کہا تھا کہ اے شعیب ! اگر ہمیں تمہارے معزز خاندان کا لحاظ نہ ہوتا تو ہم تمہیں پتھر مار کر ہلاک کردیتے بالکل یہی بات کفار مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی کہی تھی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر ہمیں تمہارے خاندان کی عزت کا خیال نہ ہوتا تو ہم تمہارے ساتھ برا معاملہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفر کا مزاج ایک ہی ہے۔ کفر کا روہ مزاج جاں بھی ہو جس زمانہ میں بھی ہو۔ 3) تیسری بات یہ ہے کہ کفر و شرک تو ایک بہت بڑا گناہ ہے جس سے قومیں اور ان کی تہذیب اور تمدن دنیا سے مٹ کر رہ گیا لیکن ماپ تول میں کمی بھی اللہ کے نزدیک ایک بہت بڑا جرم ہے۔ سورئہ مطففین میں اللہ نے فرمایا ہے : بڑی خرابی اور بربادی ان لوگوں کے لئے ہے جو ماپ تول میں کمی کرتے ہیں۔ جب لوگوں سے اپنا حق لیتے ہیں تو زیادہ لیتے ہیں اور جب دیتے ہیں تو ماپ تول میں گھٹا کردیتے ہیں۔ حضرت شعیب بھی اپنی قوم کو اسی بےایمانی سے توبہ کرنے کی تلقین فرما رہے ہیں وجہ یہ ہے کہ خریدو فروخت میں دوسرے کے حق کو پورا نہ دینا، اس میں گھٹائو کرنا انسانی زندگی کا ایک بہت بڑا روگ اور بیماری ہے کیونکہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ یہ بد اخلاق بڑھتے بڑھتے تمام حقوق العباد کو تلف کر کے رکھ دیتی ہے۔ اسی طرح اس سبے ایمانی کے عمل سے انسانی شرافت اخوت و محبت اور ہمدردی کے تمام رشتے کٹ کر لوگوں میں لالچ ، حرص و طمع ، خود غرضی، رذالت اور کمینگی کے جذبات کو پروان چھڑنے کا موقع ملتا ہے۔ چونکہ اس سے معاشرہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب کو ان کی اصلاح کے بھیج کر یہ بتا دیا کہ کفر و شرک ناقابل معافی جرم ہے لیکن ماپ تول میں کمی بھی کفر و شرک سے کم نہیں ہے۔ 4) چوتھی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قوم کو ایک وقت تک مہلت دیتا ہے جب وہ مدت گزر جاتی ہے تب اس قوم کے برے انجام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ یہ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صدقہ ہے کہ آج ہم ہزاروں ان گناہوں کے باوجود جن کی وجہ سے گزشتہ قومیں برباد کردی گئی تھیں پھر بھی اللہ کے عذابوں پر غصے سے بچے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر طرح اللہ کے غصے اور ناراضگی سے محفوظ فرمائے آمین۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدقے اب گزشتہ قوموں کے جیسے عذاب تو نہیں آئیں گے لیکن گناہوں کی سزا مختلف شکلوں میں آج بھی مل سکتی ہے۔ زلزلے، طوفان، آپس کی خانہ جنگی، بےبرکتی، بےسکونی، اولاد کی نافرمانی اگر دیکھا جائے تو یہ باتیں بھی اللہ کی نافرمانیوں کی ایک سزا ہیں۔ اللہ ہمیں دین پر چلنے اور برے انجام سے محفوظ فرمائے آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت شعیب (علیہ السلام) کا قوم کو دوسرا جواب اور خدشہ کا اظہار۔ اس سے پہلے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو یہ سمجھایا تھا کہ میں مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر تمہیں برائی سے نہیں منع کرتا۔ میرا مقصد تو تمہاری اصلاح کرنا ہے۔ مگر قوم ان کی بات سمجھنے کی بجائے تعصب اور ضد کی بنیاد پر مخالفت برائے مخالفت میں آگے ہی بڑھتی گئی۔ اس صورت حال پر جناب شعیب (علیہ السلام) نے انہیں فرمایا کہ اے میری قوم تمہاری مخالفت اور ہٹ دھرمی تمہیں اس مقام پر لاکر کھڑا نہ کردے جس جگہ پر پہنچ کر حضرت نوح، حضرت ھود، حضرت صالح اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم تباہ ہوئی تھی۔ جہاں تک قوم لوط کی تاریخ اور کھنڈرات کا تعلق ہے وہ تم سے دور نہیں ہیں۔ اے میری قوم ! اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی اور آئندہ کے لیے سچی توبہ کرو یقیناً میرا رب نہایت ہی مہربان اور بہت ہی زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ کسی شخص یا قوم کی گمراہی کی اس وقت کوئی حد نہیں رہتی جب وہ حقیقت سمجھنے کے باوجود تعصب اور ہٹ دھرمی میں آکر مخالفت برائے مخالفت کا وطیرہ اختیار کرلے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی اقوام یہی وطیرہ اختیار کرتی تھیں۔ ایسا ہی انداز اہل مکہ نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اختیار کر رکھا تھا۔ بدر کے میدان میں مکی لشکرکے ایک شخص نے ابو جہل سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ کبھی محمد نے ہم سے جھوٹ بولا ہے ؟ ابو جہل نے جواب دیا ہرگز نہیں۔ سوال کرنے والے نے کہا اب کیا اس کی عمر چوّ ن (٥٤) سال سے زائد ہونے والی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹ بول سکتا ہے ؟ ابو جہل نے کہا بالکل نہیں۔ سوال کرنے والے نے پوچھا کہ ہم پھر اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں ؟ ابو جہل نے کہا دراصل اس کے خاندان کے پاس زم زم کا کنٹرول، منیٰ اور عرفات میں حجاج کی خدمت اور دیگر اعزازات ہیں۔ اگر ہم اس کی نبوت کا بھی اقرار کرلیں تو ہمارے پلے کیا رہ جائے گا۔ یہ ہے وہ قومی اور شخصی تعصب جو حقیقت سمجھنے کے باوجود حق قبول کرنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اس قسم کی عصبیت اور خواہ مخواہ کی مخالفت سے منع کرتے ہوئے اپنی قوم کو فرمایا کہ تم ماضی پر استغفار اور مستقبل کے لیے سچے دل سے توبہ کرو۔ یقیناً میرا رب نہایت ہی مہربان اور بڑا محبت کرنے والا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ وَاَنَا مَعَہُ اِذَا ذَکَرَنِیْ فَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہُ فِیْ نَفْسِیْ وَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَاأ ذَکَرْتُہُ فِیْ مَلَاأ خَےْرٍ مِّنْھُمْ ) [ رواہ البخاری : باب یحذرکم اللہ نفسہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں اپنے بندے کے ساتھ اپنے بارے میں اس کے ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔ وہ جب میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ میرا ذکر اپنے دل میں کرتا ہے تو میں اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میرا ذکر کسی گروہ میں کرتا ہے تو میں اسکا ذکر اس سے بہتر گروہ میں کرتا ہوں۔ “ مسائل ١۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے ہر حال میں بخشش طلب کرنی چاہیے۔ ٣۔ انسان کو اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمانے والا اور محبت کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نہایت رحم فرمانے اور محبت کرنے والا ہے : ١۔ اگر لوگ شکر کریں تو اللہ کو لوگوں کو عذاب دینے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ (النساء : ١٤٧) ٢۔ میرا پروردگار بڑا رحم فرمانے اور محبت کرنے والا ہے۔ (ھود : ٩٠) ٣۔ اللہ بخشنے اور شفقت کرنے والا ہے۔ (البروج : ١٤) ٤۔ بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ نرمی کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ (البقرۃ : ١٤٣) ٥۔ تمہارا پروردگار شفقت کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (النحل : ٤٧) ٦۔ بیشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (النساء : ١٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یعنی میری مخالفت اور دشمنی تمہیں اس بات پر مجبور نہ کر دے کہ تم مخالف اور تکذیب میں بہت آگے چلے جاؤ

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

78:۔ میری قوم تم میری مخالفت میں اس قدر سرگرمی نہ دکھاؤ۔ میری مخالفت تمہیں قوم نوح، قوم ہود، قوم صالح اور قوم لوط کی طرح اللہ کے عذاب اور اس کے قہر و غضب کا مستحق نہ بنا ڈالے۔ وَاسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُممْ الخ شرکشی نہ کرو اپنے سابقہ گناہوں کی اللہ سے معافی مانگو اور اللہ کی توحید کو قبول کرلو وہ تمہارے تمام گناہ معاف فرما دے گا کیونکہ وہ بڑا مہربان اور توبہ کرنے والوں سے محبت کرنے والا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

89 اور اے میری قوم تم کو میری مخالفت کہیں ایسے کاموں پر آمادہ نہ کردے اور تمہارے لئے میری ضد اس کا باعث نہ ہوجائے کہ تم پر بھی اسی طرح کی مصائب نازل ہوجائیں اور تم پر اسی طرح کی مصیبتیں آپڑیں جیسے نوح (علیہ السلام) کی قوم یا ہود (علیہ السلام) کی قوم یا صالح (علیہ السلام) کی قوم پر پڑی تھیں اور لوط (علیہ السلام) کی قوم کا زمانہ تو تم سے کچھ دور بھی نہیں یعنی تم نے مجھ سے ضدباندھ لی ہے اور میری مخالفت پر آمادہ ہوگئے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی اسی قسم کی آفتیں نازل ہوجائیں جس قسم کی آفتیں تم سے پہلوں پر نازل ہوچکی ہیں۔