Surat Hood

Surah: 11

Verse: 97

سورة هود

اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ فَاتَّبَعُوۡۤا اَمۡرَ فِرۡعَوۡنَ ۚ وَ مَاۤ اَمۡرُ فِرۡعَوۡنَ بِرَشِیۡدٍ ﴿۹۷﴾

To Pharaoh and his establishment, but they followed the command of Pharaoh, and the command of Pharaoh was not [at all] discerning.

فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف پھر بھی ان لوگوں نے فرعون کے احکام کی پیروی کی اور فرعون کا کوئی حکم درست تھا ہی نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَيِهِ ... And indeed We sent Musa with Our Ayat and a manifest authority. To Fir`awn and his chiefs, In these verses Allah informs of His sending Musa with His signs and clear proofs to Fir`awn, the king of the Coptic people, and his chiefs. ... فَاتَّبَعُواْ أَمْرَ فِرْعَوْنَ ... but they followed the command of Fir`awn. This means that they followed his path, way and methodology in transgression. ... وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ and the command of Fir`awn was no right guide. This means there was no right guidance in it. It was only ignorance, misguidance, disbelief and stubbornness. Just as they followed him in this life and he was their leader and chief, likewise he will lead them to the Hellfire on the Day of Resurrection. He will lead them directly to it and they will drink from springs of destruction. Fir`awn will have a great share in that awful punishment. This is as Allah, the Exalted, said, فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَـهُ أَخْذاً وَبِيلً But Fir`awn disobeyed the Messenger; so We seized him with a severe punishment. (73:16) Allah also said, فَكَذَّبَ وَعَصَى ثُمَّ أَدْبَرَ يَسْعَى فَحَشَرَ فَنَادَى فَقَالَ أَنَاْ رَبُّكُمُ الاٌّعْلَى فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الاٌّخِرَةِ وَالاٍّوْلَى إِنَّ فِى ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَن يَخْشَى But Fir`awn belied and disobeyed. Then he turned his back, striving (against Allah). Then he gathered (his people) and cried aloud, Saying: "I am your lord, most high." So Allah, seized him with exemplary punishment for his last and first transgression. Verily, in this is an instructive admonition for whosoever fears Allah. (79:21-26) Allah also said, يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ وَبِيْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

97۔ 1 مَلَاء قوم کے اشراف اور ممتاز قسم کے لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ (اس کی تشریح پہلے گزر چکی ہے) فرعون کے ساتھ، اس کے دربار کے ممتاز لوگوں کا نام اس لئے لیا گیا ہے کہ اشراف قوم ہی ہر معاملے کے ذمہ دار ہوتے تھے اور قوم ان ہی کے پیچھے چلتی تھی۔ اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتے تو یقیناً فرعون کی ساری قوم ایمان لے آتی۔ 97۔ 2 رَ شِیْدٍ ذی رشد کے معنی میں ہے۔ یعنی بات تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رشد و ہدایت والی تھی، لیکن اسے ان لوگوں نے رد کردیا اور فرعون کی بات، رشدو ہدایت سے دور تھی، اس کی انہوں نے پیروی کی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٩] اس دعوت کو قبول کرنے کا اثر صرف فرعون پر ہی نہیں پڑتا تھا بلکہ اس کے درباریوں پر بھی پڑتا تھا اور ہر ایک کو اپنے اپنے مناصب سے دستبردار ہونا پڑتا تھا لہذا ان سب نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا حالانکہ ان سب کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ فرعون نے بنی اسرائیل پر جو انسانیت سوز مظالم ڈھا رکھے ہیں وہ کسی لحاظ سے بھی درست نہیں ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) اپنے اس مطالبہ میں راستی پر ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِلٰي فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ ۔۔ : یہاں فرعون کے ساتھ اس کے سرداروں کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ وہی اس کے احکام کو نافذ کرنے والے تھے۔ بقول زمخشری ان کی جہالت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ وہ فرعون کے احکام کے پیچھے لگے رہے، حالانکہ وہ احکام عقل کے صریح خلاف تھے، مثلاً اپنے جیسے ایک انسان کے رب اعلیٰ ہونے کا دعویٰ مان لینا جس میں ہر انسانی کمزوری پائی جاتی ہے اور حد سے بڑھ کر ظلم وستم، مثلاً معصوم بچوں کو قتل کرنے وغیرہ کے حکم پر عمل کرنا، مگر فرعون نے انھیں اس قدر ہلکا اور ذلیل کیا ہوا تھا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے واضح معجزات دیکھنے کے باوجود فرعون ہی کے پیچھے لگے رہے، کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے میں انھیں اپنا فسق (نافرمانی) چھوڑنا پڑتا تھا، فرمایا : (فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ ) [ الزخرف : ٥٤ ] ” غرض اس نے اپنی قوم کو ہلکا (اور بےوزن) کردیا تو انھوں نے اس کی اطاعت کرلی، یقیناً وہ نافرمان لوگ تھے۔ “ وَمَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيْدٍ : ” رَشَدَ “ (ن، ف) سے ” رَشِیْدٌ“ وہ شخص جس کی رائے درست اور سوچ اچھی ہو، یہاں فرعون کے حکم کو فرمایا کہ وہ ہرگز کسی طرح درست نہ تھا، بلکہ واضح طور پر گمراہی پر مبنی تھا۔ اتنی تاکید نفی کی باء اور ” بِرَشِيْدٍ “ کی تنوین سے حاصل ہو رہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلٰي فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہٖ فَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ فِرْعَوْنَ۝ ٠ۚ وَمَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيْدٍ۝ ٩٧ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ ملأ المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] ( م ل ء ) الملاء ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے رشد الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] ( ر ش د ) الرشد والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:97) ملائہ۔ اس کے سرداروں کی جماعت۔ الملأ اسم جمع معرف باللام۔ ملأ۔ بمعنی بھر دینا۔ قوم کے سردار اور اہل الرائے اشخاص اپنی رائے کی خوبی اور ذاتی محاسن سے لوگوں کی خواہش کو بھر دیتے ہیں یا آنکھوں میں روشنی اور دلوں میں ہیبت بھر دیتے ہیں اسی لئے ان کو ملأ کہتے ہیں۔ نیز ملاحظہ ہو 11:87) ۔ رشید ۔ ہدایت والی راہ۔ درست۔ اور فرعون کی بات کچھ راہ کی بات تو تھی ہی نہیں ۔ نیز ملاحظہ ہو 11:87 ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ کھلے معجزے سے مراد عصا اور نشانیوں سے مراد وہ دوسری نونشانیاں ہیں جو سورة اسراء (آیت 101) اور سورة نحل (آیت 12) میں مذکور ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں سیاق کلام میں اس قصے کو یہات ہی اجمال کے ساھ لایا جاتا ہے کیونکہ یہاں مقصد یہ ہے کہ قصے کا آخری منظری بیش کیا جائے چناچہ نظر آتا ہے کہ آگے آگے فرعون ہے اور اس کے پیچھے پیچھے اس کی قوم ہے۔ یہ لوگ اللہ کی حکم عدولی کر کے فرعون کے احکام مانتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ فرعون کا حکم جاہلانہ ، احمقانہ اور بودا ہے۔ فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ (٩٧) یہ لوگ جو ن کہ فرعون کے متبعین تھے اس لیے یہ اس کے پیچھے چلیں گے۔ جس طرح یہاں وہ بغیر سوچ اور تدبیر کے اس کے پیچھے چلتے تھے۔ اپنی رائے اور عقل کو استعمال نہ کرتے تھے۔ وہ ذلت پر راضی تھے ، اور اللہ نے عقل ، ارادہ اور آزادی کی جو نعمتیں ان کو دی تھیں ، انہوں نے ان نعمتوں سے دست برداری اختیار کرلی تھی ، اور غلام کی راہ اختیار کرلی تھی ، یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن یہ عذاب میں بھی اسی غلامہ شان سے داخل ہوں گے۔ فرعون وہاں بھی ان کا لیڈر ہو کا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

97 فرعون اور اس کے روسا کی طرف بھیجا سو وہ لوگ فرعون ہی کے کہنے اور اسی کیرائے پرچلتے رہے حالانکہ فرعون کی بات اور اس کی رائے صحیح نہ تھی موسیٰ (علیہ السلام) کو جو معجزات دیتے وہ تو نشانیاں تھیں جس کا قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے اور ان نشانیوں میں عصا اور ید بیضا کو مخصوص طورپرسلطان مبین فرمایا ہو یا سلطان مبین حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل وبراہین مراد ہوں یا یہ غلبہ اور قہر کے معنی ہوں اور اس سے مراد وہ قدرتی ہیبت ہو جسکو فرمایا ہے ویجعل لکما سلطانا