Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 47

سورة يوسف

قَالَ تَزۡرَعُوۡنَ سَبۡعَ سِنِیۡنَ دَاَبًا ۚ فَمَا حَصَدۡتُّمۡ فَذَرُوۡہُ فِیۡ سُنۡۢبُلِہٖۤ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّمَّا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿۴۷﴾

[Joseph] said, "You will plant for seven years consecutively; and what you harvest leave in its spikes, except a little from which you will eat.

یوسف نے جواب دیا کہ تم سات سال تک پے درپے لگاتار حسب عادت غلہ بویا کرنا اور فصل کاٹ کر اسے بالیوں سمیت ہی رہنے دینا سوائے اپنے کھانے کی تھوڑی سی مقدار کے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًا ... (Yusuf) said: "For seven consecutive years, you shall sow as usual) `you will receive the usual amount of rain and fertility for seven consecutive years.' He interpreted the cows to be years, because cows till the land that produce fruits and vegetables, which represent the green ears of corn in the dream. He next recommended what they should do during these fertile years, ... فَمَا حَصَدتُّمْ فَذَرُوهُ فِي سُنبُلِهِ إِلاَّ قَلِيلً مِّمَّا تَأْكُلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] سیدنا یوسف کا خواب کی تعبیر & اس کا علاج اور پیش آنیوالے سب حالات بتلا دینا :۔ سیدنا یوسف (علیہ السلام) نے فوراً اس خواب کی تعبیر بتادی۔ پھر صرف تعبیر ہی نہیں بتائی بلکہ اس پیش آنے والی مصیبت کا ساتھ ہی ساتھ علاج بھی تجویز فرما دیا اور یہی وہ پیغمبرانہ فراست یا اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ علم تھا جو آپ کے انتہائی بلندیوں پر پہنچ جانے کا پہلا زینہ ثابت ہوا۔ آپ نے اس ساقی کو بتایا کہ دیکھو ! تم پر سات سال خوشحالی کا دور آئے گا۔ اس دور میں تم کفایت شعاری سے کام لینا۔ جتنا غلہ ان سالوں میں پیدا ہو اس میں سے بقدر ضرورت استعمال کرنا، باقی غلہ بالیوں میں ہی رہنے دینا۔ ان سات سالوں کے بعد سات سال قحط سالی کا دور آئے گا اس دور میں تم وہ غلہ استعمال کرنا جو تم نے پہلے سات سالوں میں بالیوں میں محفوظ رکھا ہوگا۔ بالیوں میں محفوظ رکھنے کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ غلہ کو کیڑا نہیں لگے۔ دوسرے اس کا بھوسہ قحط سالی کے دور میں تمہارے جانوروں کے کام آئے گا اور یہ بالیوں میں محفوظ شدہ غلہ تمہارے قحط سالی کے سالوں کو کفایت کر جائے گا۔ بلکہ اگلے سال کی فصل کے بیج کے لیے بھی بچ جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِيْنَ دَاَبًا ۔۔ : ” دَاَبًا “ ” تَزْرَعُوْنَ “ کی ضمیر سے حال ہے، یعنی ” دَاءِبِیْنَ “ مسلسل پے در پے محنت سے کاشت کرنے والے۔ یوسف (علیہ السلام) نے تعبیر کے ساتھ ہی حل بھی بتایا۔ یہاں ” تَزْرَعُوْنَ “ بمعنی ” اِزْرَعُوْا “ ہے، یعنی ” سات سال مسلسل محنت سے کاشت کرو “ کیونکہ آگے آ رہا ہے کہ جو کچھ کاٹو اسے سٹوں میں رہنے دو ۔ زیادہ تاکید کرنی ہو تو امر کو مضارع کی صورت میں لاتے ہیں، جیسے فرمایا : (وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ ) [ البقرۃ : ٨٣ ] ” اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے۔ “ آج سے ہزاروں سال پہلے یوسف (علیہ السلام) نے گندم کو گھن، سسری اور کیڑے وغیرہ سے محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ بتایا، جدید ترین محققین بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ : یعنی خوشوں سے صرف اتنی گندم صاف کرو جو کھانی ہے اور وہ بھی کم از کم، تاکہ زیادہ سے زیادہ محفوظ رہ سکے اور ان سات سالوں میں آدمیوں کے علاوہ بھس بھی جانوروں کے کام آسکے۔ کم کھانے کی تاکید پر طب اور شرع دونوں متفق ہیں۔ اس کی حد ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو چند لقمے بیان فرمائی، فرمایا : ( فَإِنْ کَانَ لَا مَحَالَۃَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہٖ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہٖ وَثُلُثٌ لِنَفْسِہٖ ) [ ترمذی، الزھد، باب ما جاء في کراھیۃ کثرۃ الأکل : ٢٣٨٠، و صححہ الألبانی ]” اگر ضرور ہی زیادہ کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے، ایک پینے اور ایک سانس کے لیے رکھو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Obviously, the dream of the king had told him only about seven years of good crops followed by seven years of famine. But, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) also added to it that, following the year of drought, there will be an year of good rains and crops. Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) came to know about it either because the total number of years of famine were no more than seven whereby, as the customary practice of Allah would have it, the eighth year would be that of rains and crops. According to early com¬mentator, Qatadah, Allah Tai a had Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) know about it through a revelation so that the amount of information they receive could be over and above that which was to be interpreted through the dream - so that the spiritual excellence of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) is further enhanced to become the cause of his being released. Then, another factor was added to this. Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) did not consider it sufficient to limit himself to the technical interpretation of the dream only. The fact was that he also gave them a good counsel based on wisdom and fel¬low-feeling. He advised them to keep the extra produce yielded during the first seven years within the ears of the crop of wheat, so that it may not be affected by bacteria when old. It is borne by experience that grain while in ears is not affected by bacteria.

بادشاہ کے خواب میں تو بظاہر اتنا ہی معلوم ہوا تھا کہ سات سال اچھی پیداوار کے ہوں گے پھر سات سال قحط کے مگر یوسف (علیہ السلام) نے اس پر ایک اضافہ یہ بھی بیان فرمایا کہ قحط کے سال کے بعد پھر ایک سال خوب بارش اور پیداوار کا ہوگا، اس کا علم یوسف (علیہ السلام) کو یا تو اس سے ہوا کہ جب قحط کے سال کل سات ہی ہیں تو عادۃ اللہ کے مطابق آٹھواں سال بارش اور پیداوار کا ہوگا اور حضرت قتادہ (رح) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی یوسف (علیہ السلام) کو اس پر مطلع کردیا تاکہ تعبیر خواب سے بھی کچھ زیادہ خبر ان کو پہنچنے جس سے یوسف (علیہ السلام) کا فضل و کمال ظاہر ہو کر ان کی رہائی کا سبب بنے اور اس پر مزید یہ ہوا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے صرف تعبیر خواب ہی پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ اس کے ساتھ ایک حکیمانہ اور ہمدردانہ مشورہ بھی دیا وہ یہ کہ پہلے سات سال میں جو زیادہ پیداوار ہو اس کو گندم کے خوشوں ہی میں محفوظ رکھنا، تاکہ گندم کو پرانا ہونے کے بعد کیڑا نہ لگ جائے یہ تجربہ کی بات ہے کہ جب تک غلہ خوشہ کے اندر رہتا ہے غلہ کو کیڑا نہیں لگتا،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِيْنَ دَاَبًا۝ ٠ۚ فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْہُ فِيْ سُنْۢبُلِہٖٓ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ۝ ٤٧ زرع الزَّرْعُ : الإنبات، وحقیقة ذلک تکون بالأمور الإلهيّة دون البشريّة . قال : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] ( ز ر ع ) الزرع اس کے اصل معنی انبات یعنی اگانے کے ہیں اور یہ کھیتی اگانا در اصل قدرت کا کام ہے اور انسان کے کسب وہنر کو اس میں دخل نہیں اسی بنا پر آیت کریمہ : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] بھلا بتاؤ کہ جو تم بولتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہیں ۔ دأب الدَّأْب : إدامة السّير، دَأَبَ في السّير دَأْباً. قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم/ 33] ، والدّأب : العادة المستمرّة دائما علی حالة، قال تعالی: كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران/ 11] ، أي : کعادتهم التي يستمرّون عليها . ( د ء ب ) الداب کے معنی مسلسل چلنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ داب السیر دابا ۔ وہ مسلسل چلا ۔ قرآن میں ہے وَسَخّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم/ 33] اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے کام میں لگا دیا کہ دونوں ( دن رات ) ایک دستور پر چل رہے ہیں ۔ نیز داب کا لفظ عادۃ مستمرہ پر بھی بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران/ 11] ان کا حال بھی فرعونیوں کا سا ہے یعنی انکی اسی عادت جس پر وہ ہمیشہ چلتے رہے ہیں ۔ حصد أصل الحَصْد قطع الزرع، وزمن الحَصَاد والحِصَاد، کقولک : زمن الجداد والجداد، وقال تعالی: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ [ الأنعام/ 141] ، ( ح ص د ) الحصد والحصاد کے معنی کھیتی کاٹنے کے ہیں اور زمن الحصاد والحصاد یہ زمن من الجداد والجداد کی طرح ( بکسرہ حا وفتحہا ) دونوں طرح آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ آتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ [ الأنعام/ 141] اور جس دن ( پھل توڑ و اور کھیتی ) کا نو تو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا کرو ۔ میں وہ کھیتی مراد ہے جو اس کی صحیح وقت میں کاٹی گئی ہو ۔ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧) یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا میں تعبیر بتا دیتا ہوں سات موٹی گائیں وہ سات خوش حالی اور پیداوار کے سال ہیں اور ایسے ہی سات سبز بالیں وہ پیداوار اور بارش اور فراخی کے سال ہیں اور سات کمزور گائیں وہ قحط سالی کے سال ہیں اور سات خشک بالیں وہ اس قحط سالی کے سات سالوں میں گرانی اور قحط کی طرف اشارہ ہیں، اس تعبیر کے بعد یوسف (علیہ السلام) نے ان کی قحط سالی کے زمانہ سے حفاظت کا طریقہ بھی بتادیا، لہذا تم ان خوشحالی کے سات سالوں میں ہر سال خوب غلہ بونا اور جو فصل کاٹو اسے بالوں ہی میں رہنے دینا، صاف مت کرنا تاکہ وہ غلہ گھن وغیرہ سے محفوظ ہے سوائے اس کے جو تھوڑا بہت تمہارے استعمال میں آئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِيْ سُنْۢبُلِهٖٓ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ ) آپ نے صرف اس خواب کی تعبیر ہی نہیں بتائی بلکہ مسئلے کی تدبیر بھی بتادی اور تدبیر بھی ایسی جو شاہی مشیروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی تھی۔ آج کے سائنسی تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اناج کو محفوظ کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسے سٹوں کے اندر ہی رہنے دیا جائے اور ان سٹوں کو محفوظ کرلیا جائے۔ اس طرح سے اناج خراب نہیں ہوتا اور اسے کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کے لیے کسی اضافی preservative کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:47) تزرعون۔ تم کاشت کرو گے۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ زرع (باب فتح) سے بمعنی کھیتی کرنا۔ اگانا۔ دابا۔ داب یداب (نصر ۔ فتح) کا مصدر ہے جس کے معنی لگاتار کسی کام میں لگنے اور مشقت برداشت کرنے کے ہیں۔ اور اسی سبب سے اس کا استعمال عادت اور طریقے کے معنی میں ہوتا ہے۔ یہاں دابا بمعنی حسب طریقہ سابق ۔ حسب عادت ۔ حسب (دستور کا شت کئے جاؤ) ۔ قرآن مجید میں ہے کہ : کداب ال فرعون والذین من قبلہم کذبوا بایت ربھم (8:54) آل فرعون اور ان سے قبل کے لوگوں کی طرح (یعنی ان کے طریقہ کے مانند) انہوں نے (کفار مکہ نے) بھی اپنے رب کی آیات کو جھٹلایا۔ ما حصدتم۔ جو کچھ بھی تم کاٹو۔ (جو فصل تم برداشت کرو) حصاد سے (باب نصر) جس کے معنی کھیتی کاٹنے کے ہیں۔ فذروہ۔ اس کو چھوڑ رکھو۔ امر جمع مذکر حاضر۔ ۃ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یا سات سال تک لگا تار کھیتی کرو گے۔ (ابن کثیر) ۔ 2 ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ غلہ خراب نہ ہوگا اور اس کے چھلکے بھی جانوروں کے لئے محفوظ رہیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں حضرت یوسف خواب کی تعبیر بھی بتاتے ہیں اور ساتھ ہی تجاویز اور مشورے بھی دیتے ہیں۔ یوسف نے کہا سات برس تک لگاتار تم کھیتی باڑی کرتے رہوگے ، یعنی مسلسل اور پے در پے۔ یہ سرسبز اور شاداب سال ہوں گے اور ان کی طرف " بقرات سمان " سے اشارہ کیا گیا تھا۔ اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو ان میں سے بس تھوڑا سا حصہ ، جو تمہاری خوراک کے کام آئے ، نکالو اور باقی کو اس کی بالیوں ہی میں رہنے دو ۔ یعنی ان سالوں میں جو فصل تم کاٹو اسے خوشوں کے اندر چھوڑ دو تاکہ وہ حشرات ارض اور دوسرے موسمی اثرات سے محفوظ رہیں۔ ہاں جسے تم نے استعمال کرنا ہے اسے صاف کرو لیکن استعمال شدہ حصہ تھوڑا ہونا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ غلہ مشکل وقت کے لیے بچ جائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42:۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے شاہ مصر کے خواب کی تعبیر اس طرح بیان فرمائی کہ پہلے سات سال تک تم لوگ حسب عادت کھیتی باڑی کرو گے اور غلہ اگاؤ گے لیکن ایسا کرنا کہ خوشوں سے دانے نہ نکالنا بلکہ خوشوں ہی کا ذخیرہ کرلینا تاکہ غلہ خراب نہ ہو اور اسے کیڑا نہ لگ جائے البتہ کھانے کے لیے جس قدر غلہ درکار ہو وہ خوشوں سے نکال لینا۔ ” ثُمَّ یَاْتِیْ الخ “ پھر اس کے بعد سات سال سخت قحط کے آئیں گے ان میں تم اپنا پہلے سات سالوں کا تمام ذخیرہ ختم کر ڈالو گے پھر اس کے بعد خوشحالی کا دور شروع ہوگا، بارش خوب ہوگی اور پھل میوے اور غلے وافر پیدا ہوں گے۔ خواب سے سات سال خوشحالی اور غلہ کی فراوانی کے اور پھر سات سال قحط کے مفہوم ہوتے ہیں اس لیے دونوں مدتوں کے بعد پھر خوشحالی کے دور کا آغاز ہونا بیان فرما دیا تاکہ اس کے بعد قحط کے ختم ہونے کا لوگوں کو اطمینان ہوجائے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

47 ۔ یوسف (علیہ السلام) نے جواب دیا تم سات سال خوب زراعت کرنا پھر جو فصل کاٹو اس کو بالوں ہی میں رہنے دینا مگر ہاں جو تھوڑی سی مقدارتم کھائو اس کو بالوں سے نکا ل لینا ۔ یعنی کھانے سے جو غلہ بچائو اس کو بالوں ہی میں رکھو تا کہ گھن وغیرہ نے لگے اور غلہ محفوظ رہے۔