Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 53

سورة يوسف

وَ مَاۤ اُبَرِّئُ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵۳﴾

And I do not acquit myself. Indeed, the soul is a persistent enjoiner of evil, except those upon which my Lord has mercy. Indeed, my Lord is Forgiving and Merciful."

میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے یقیناً میرا پالنے والا بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا أُبَرِّىءُ نَفْسِي ... And, verily, Allah guides not the plot of the betrayers. And I free not myself (from the blame). She said, `I do not exonerate myself from blame, because the soul wishes and lusts, and this is what made me seduce him,' for, ... إِنَّ النَّفْسَ لاَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّيَ ... Verily, the (human) self is inclined to evil, except when my Lord bestows His mercy (upon whom He wills). whom Allah the Exalted wills to grant them immunity, ... إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ Verily, my Lord is Oft-Forgiving, Most Merciful. This is the most viable and suitable understanding for the continuity of the story and the meanings of Arabic speech. Al-Mawardi mentioned this in his Tafsir, in support of it, it was also preferred by Imam Abu Al-Abbas Ibn Taymiyyah who wrote about it in detail in a separate work. It was said Yusuf peace be upon him is the one who said, ذَلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ ... in order that he (the Aziz) may know that I betrayed him not, (with his wife), بِالْغَيْبِ in (his) absence. until the end of Ayah (53) He said, `I sent back the emissary, so that the king would investigate my innocence and the Aziz be certain that, أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ (I betrayed him not), with his wife, بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي كَيْدَ الْخَايِنِينَ (in (his) absence. And, verily, Allah guides not the plot of the betrayers).' This is the only explanation presented by Ibn Jarir At-Tabari and Ibn Abi Hatim, but the first view is stronger and more obvious because it is a continuation of what the wife of the Aziz said in the presence of the king. Yusuf was not present at all during this time, for he was released later on and brought to the king by his order.

عزیز مصر کی بیوی کہہ رہی ہے کہ میں اپنی پاکیزگی بیان نہیں کر رہی اپنے آپ کو نہیں سراہتی ۔ نفس انسانی تمناؤں اور بری باتوں کا مخزن ہے ۔ اس میں ایسے جذبات اور شوق اچھلتے رہتے ہیں ۔ وہ برائیوں پر ابھارتا رہتا ہے ۔ اسی کے پھندے میں پھنس کر میں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا ۔ مگر جسے اللہ چاہے نفس کی برائی سے محفوظ رکھ لیتا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔ بخشش کرنا معافی دینا اس کی ابدی اور لازمی صفت ہے ۔ یہ قول عزیز مصر کی عورت کا ہی ہے ۔ یہی بات مشہور ہے اور زیادہ لائق ہے اور واقعہ کے بیان سے بھی زیادہ مناسب ہے ۔ اور کلام کے معنی کے ساتھ بھی زیادہ موافق ہے ۔ اما ماوردی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اسے وارد کیا ہے ۔ اور علامہ ابو العباس حضرت امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے تو اسے ایک مستقل تصنیف میں بیان فرمایا ہے اور اس کی پوری تائید کی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قول حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے ۔ لیعلم سے اس دوسری آیت کے ختم تک انہی کا فرمان ہے ۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے تو صرف یہی ایک قول نقل کیا ہے ۔ چنانچہ ابن جریر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بادشاہ نے عورتوں کو جمع کر کے جب ان سے پوچھا کہ کیا تم نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بہلایا پھسلایا تھا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حاشاللہ ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی ۔ اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے اقرار کیا کہ واقعی حق تو یہی ہے ۔ تو حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا یہ سب اس لئے تھا کہ میری امانت درای کا یقین ہو جائے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے فرمایا وہ دن بھی یاد ہے ؟ کہ آپ نے کچھ ارادہ کر لیا تھا ؟ تب آپ نے فرمایا میں اپنے نفس کی برات تو نہیں کر رہا ؟ بیشک نفس برائیوں کا حکم دیتا ہے ۔ الغرض ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ کلام حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے ۔ لیکن پہلا قول یعنی اس کلام کا عزیز کی موت کا کلام ہونا ہی زیادہ قوی اور زیادہ ظاہر ہے ۔ اس لئے کہ اوپر سے انہی کا کلام چلا آ رہا ہے جو بادشاہ کے سامنے سب کی موجودگی میں ہو رہا تھا ۔ اس وقت تو حضرت یوسف علی السلام وہاں موجود ہی نہ تھے ۔ اس تمام قصے کے کھل جانے کے بعد بادشاہ نے آپ کو بلوایا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 اسے اگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا تسلیم کیا جائے تو بطور کسر نفسی کے ہے، ورنہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی پاک دامنی ہر طرح سے ثابت ہوچکی تھی۔ اور اگر یہ عزیز مصر کا قول ہے (جیسا کہ امام ابن کثیر کا خیال ہے) تو یہ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اپنے گناہ کا اور یوسف (علیہ السلام) کو بہلانے اور پھسلانے کا اعتراف کرلیا۔ 53۔ 2 یہ اس نے اپنی غلطی کی یا اس کی علت بیان کی کہ انسان کا نفس ہی ایسا ہے کہ برائی پر ابھارتا ہے اور اس پر آمادہ کرتا ہے۔ 53۔ 3 یعنی نفس کی شرارتوں سے وہی بچتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٢] سیدنا یوسف کی کسر نفسی :۔ بھری مجلس میں مجرم کے اعتراف اور اس قضیہ میں آپ کی شاندار جیت کے بعد یہ عین ممکن تھا کہ بشری تقاضوں کے تحت آپ کے نفس میں کچھ پندار اور غرور سر اٹھانے لگتا۔ اسی لیے ساتھ ہی آپ نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی نفس کا تو کام ہی یہ ہے کہ برائی کے کاموں پر انسان کو آمادہ کرتا رہتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی رحمت ہے کہ انسان اس برائی پر عمل کرنے سے بچا رہتا ہے اور جو میں بچا رہا تو اسی لیے کہ میرا اللہ تعالیٰ اپنے رحم و فضل سے مجھے بچاتا رہا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اُبَرِّئُ نَفْسِيْ ۔۔ : یہ عزیز مصر کی بیوی کے کلام کا آخری حصہ ہے۔ گویا عزیز مصر کی بیوی یہ کہنا چاہتی ہے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اپنے خاوند کی کوئی بڑی خیانت نہیں کی، بیشک میں نے یوسف کو پھسلانا چاہا تھا مگر کامیاب نہ ہوسکی، ہاں میں اپنے آپ کو پاک باز قرار نہیں دیتی، مجھ سے جتنی غلطی ہوئی اس کا اقرار و اعتراف کرتی ہوں، نفس کی شرارتوں سے تو وہی محفوظ رہ سکتا ہے جس پر اللہ کی خاص رحمت ہو (مراد یوسف (علیہ السلام) ہیں) ۔ 3 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عزیز مصر کی بیوی اللہ تعالیٰ کو اور اس کی صفات غفور و رحیم کو مانتی تھی اور نیکی اور گناہ کو بھی سمجھتی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس کا قول نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ تو کافرہ تھی۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اول تو اس کے کفر کی کوئی دلیل ہمارے سامنے نہیں اور اگر ہو بھی تو مکہ کے کافر اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے، زنا اور دوسرے قبائح کو گناہ سمجھتے تھے، پھر بھی مشرک تھے۔ آج کل بیشمار کلمہ گو آپ کو ایسے مل جائیں گے جو اللہ کو مانتے، اس سے استغفار کرتے اور گناہ کو گناہ سمجھتے ہیں، مگر پھر بھی سرتاپا شرک میں مبتلا ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Claiming Purity for one&s own Self is not proper except under special Conditions Stated in the previous verse (52) was the statement of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) that he did not favour his release from the prison before he has been exonerated through a full investigation of the blame imputed to him so that the governor and the king of Egypt can arrive at full certain¬ty that he was not guilty of any betrayal and that the blame was totally unfounded. In this statement, the reference to his freedom from blame and his purity of conduct was being made as based on an inevitable ne¬cessity - which outwardly gave the impression of a pronouncement of per¬sonal integrity and purity - and that was something not welcome in the sight of Allah Ta` ala as is proved from the words of the Holy Qur&an where it is said: أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنفُسَهُم ۚ بَلِ اللَّـهُ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ (Have you not seen those who claim sanctity for themselves? In fact, Allah sanctifies whom¬soever He wills - 4:49). Again, in Surah An-Najm, it was said: فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ (Do not claim sanctity for your selves; He knows best who it is that guards against evil - 53:32). It was for this reason that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) has, in the present verse (53), not allowed his plea of innocence in this matter to remain un¬qualified. As evident, he has stressed upon the reality that by saying what he is saying he has no intention to claim any piety or purity for himself. The truth of the matter is that human self, by nature, keeps pulling everyone to what is bad - except those who are blessed with mercy from the Lord who would make them immunely pure against the evil instigations of their self. They are the blessed prophets. The Qur&an calls such immunized selves: نَفس مُطمَیٔنہ (the self or soul at peace) (Al-Fair: 89:27). Thus, the substance of what Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) said was: In a trial of such magnitude, my remaining safe from sin was no personal achievement of mine. In fact, this was a result of the mercy and help of Allah Ta ala alone. Had He not removed evil desires from my heart, I would have become like the rest of human beings who would be prone to surrender before their desires. According to some narrations, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) said this sen¬tence because a kind of ` thought& did, after all, emerge in his heart - though, limited to a non-voluntary scruple - but, was an unwelcome slip anyway considering the elegant station of prophethood with which he was blessed. Therefore, he expressly confessed that he did not totally ab¬solve his inner self from blame. The Three States of Human Self In this verse (53), a problem which needs to be considered is that it declares every human self as often inciting to evil: أَمَّارَ‌ةٌ بِالسُّوءِ (ammara¬tum-bis-su ). This is as it appears in a Hadith in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have asked the Sahabah (رض) what do you think about a companion who, if you treat him nicely, feed him, clothe him, still he would throw you in all sorts of troubles - and if you insult him, and keep him hungry and naked, he would do what is good for you? The Sahabah (رض) said: Ya Rasul Allah, there just cannot be a companion worse than him in this whole world! He said: By Him in whose hands rests my life, yourself inside you is such a companion. (Qurtubi) And it ap¬pears in another Hadith: Your greatest enemy is your own self which not only disgraces you by getting you involved in evil deeds, but also makes you run into all sorts of troubles. However, the cited verse and Hadith narrations given above tell us that human self does usually demand the doing of what is bad from us. But, in Sarah Al-Qiyamah, this very human self has been given the honour of being called by the sobriquet: لَوَّامَہ (lawwamah : reproaching) placing it at a level that the Lord of All Honour has sworn by it: وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ (I do swear by the day of Judgment and I do swear by the reproaching self - 75:1, 2). Then, in Sarah Al-Fajr, by calling this very human self: نفس مظمیٔنہ (mutma&innah: at peace), glad tidings of Jannah have been given: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْ‌جِعِي إِلَىٰ رَ‌بِّكِ (0 self at peace, come back to your Lord ... 89:27, 28). Thus, the human self has been called as inciting to evil at one place, as reproaching at another, and as being at peace at yet another. To explain, it can be said that the human self when on its own does incite to evil deeds and is called: عَمَّارہ Ammarah. But, when one does not fol¬low its dictates because of the fear of Allah and &Akhirah, his or her self becomes لَوَّامہ Lawwamah, that is, hates evil deeds, repents from them and seeks forgiveness - as is true in the case of the righteous people of the Muslim Ummah at large. And when someone keeps striving hard against his or her self, and brings it to a state where the very urge to turn to evil deeds does not remain there anymore, then, that self be-comes what is called: مظمیٔنہ Mutma&innah (the self at peace). Righteous people can arrive at this state through spiritual strivings. Still, there is no cer-tainty that this state will continue forever. But, the prophets of Allah, may peace be upon them all, are Divinely blessed with such self at peace without any previous striving - and it always remains constant at that state. Thus, it is in terms of three states of human self that three kinds of acts have been attributed to it. At the end of the verse (53), it was said: إِنَّ رَ‌بِّي غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ (Certainly, my Lord is the Most-Forgiving, Very-Merciful) which has a hint in the word: غَفُورٌ‌ Ghafur: Most-Forgiving. When the self that incites to evil deeds ( ‘Ammarah) is ashamed of its doings, repents, corrects and becomes the reproaching self (Lawwamah), then, certainly great is the forgiveness of Allah - He will forgive. The word: رَحِیم (Rahim : Very-Merciful) indicates that a person who is blessed with a self at peace (Mutma&innah), that too is nothing but a result of the mercy of Allah.

خلاصہ تفسیر : اور میں اپنے نفس کو (بھی بالذات) بری (اور پاک) نہیں بتلاتا (کیونکہ) نفس تو (ہر ایک کا) بری ہی بات بتلاتا ہے بجز اس (نفس) کے جس پر میرا رب رحم کرے (اور اس میں برائی کا مادہ نہ رکھے جیسا انبیاء (علیہم السلام) کے نفوس ہوتے ہیں مطمئنہ جن میں یوسف (علیہ السلام) کا نفس بھی داخل ہے خلاصہ مطلب یہ ہوا کہ میری نزہت و عصمت میرے نفس کا ذاتی کمال نہیں، بلکہ رحمت و عنایت الہیہ کا اثر ہے، اس لئے میرا نفس برائی کا حکم نہیں کرتا ورنہ جیسے اوروں کے نفوس ہیں ویسا ہی میرا ہوتا) بلکہ میرا رب بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے (یعنی اوپر جو نفس کی دو قسمیں معلوم ہوئیں امارہ اور مطمئنہ، سو امارہ اگر توبہ کرلے تو اس کی مغفرت فرمائی جاتی ہے اور مرتبہ توبہ میں وہ لوّامہ کہلاتا ہے اور جو مطمئنہ ہے کمال اس کا لازم ذات نہیں بلکہ عنایت و رحمت کا اثر ہے، پس اماّرہ کے لوّامہ ہونے پر صفت غفور کا ظہور ہوتا ہے اور مطمئنہ میں صفت رحیم کا، یہ تمام تر مضمون ہوا یوسف (علیہ السلام) کی تقریر کا باقی یہ امر کہ یہ صورت اثبات نزاہت کی بعد رہائی کے بھی تو ممکن تھی پھر رہائی پر اس کو مقدم کیوں رکھا اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جتنا یقین اس ترتیب میں ہوسکتا ہے اس کے خلاف میں نہیں ہوسکتا کیونکہ دلائل کی دلالت تو مشترک ہے لیکن اس صورت مجوزہ میں یہ امر زائد ہے کہ بادشاہ اور عزیز سمجھ سکتے ہیں کہ جب بدون تبریہ کے یہ رہا ہونا نہیں چاہتے، حالانکہ ایسی حالت میں رہائی قیدی کی انتہائی تمنا ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اپنی نزاہت و براءت کا کامل یقین ہے اس لئے اس کے ثابت ہوجانے کا پورا اطمینان ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا کامل یقین بری ہی ہوسکتا ہے نہ کہ ملوّث کو یہ ساری باتیں بادشاہ نے سنیں) اور ( یہ سن کر اس) بادشاہ نے کہا کہ ان کو میرے پاس لاؤ میں ان کو خاص اپنے (کام کے) لئے رکھوں گا (اور عزیز سے ان کو لے لوں گا کہ اس کے ماتحت نہ رہیں گے، چناچہ لوگ ان کو بادشاہ کے پاس لائے) پس جب بادشاہ نے ان سے باتیں کیں (اور باتوں سے زیادہ فضل و کمال آپ کا ظاہر ہوا) تو بادشاہ نے (ان سے) کہا کہ تم ہمارے نزدیک آج (سے) بڑے معزز اور معتبر ہو (بعد اس کے اس خواب کی تعبیر کا ذکر آیا اور بادشاہ نے کہا کہ اتنے بڑے قحط کا اہتمام بڑا بھاری کام ہے یہ انتظام کس کے سپرد کیا جاوے) یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ملکی خزانوں پر مجھ کو مامور کردو میں (ان کی) حفاظت (بھی) رکھوں گا اور (آمد و خرچ) کے انتظام اور اس کے حساب کتاب کے طریقہ سے بھی) خوب واقف ہوں (چنانچہ بجائے اس کے کہ ان کو کوئی خاص منصب دیتا مثل اپنے پورے اختیارات ہر قسم کے دے دئیے، گویا حقیقت میں بادشاہ یہی ہوگئے گو برائے نام وہ بادشاہ رہا اور یہ عزیز کے عہدہ سے مشہور ہوگئے چناچہ ارشاد ہے) اور ہم نے ایسے (عجیب) طور پر یوسف (علیہ السلام) کو ملک (مصر) میں با اختیار بنادیا کہ اس میں جہاں چاہیں رہیں سہیں (جیسا کہ بادشاہوں کو آزادی ہوتی یعنی یا تو وہ وقت تھا کہ کنویں میں محبوس تھے پھر عزیز کی ماتحتی میں مقید رہے اور یا آج یہ خود مختاری اور آزادی عنایت ہوئی بات یہ ہے کہ) ہم جس پر چاہیں اپنی عنایت متوجہ کردیں اور ہم نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے (یعنی دنیا میں بھی نیکی کا اجر ملتا ہے کہ حیات طیبہ عطا فرماتے ہیں خواہ مالدار بنا کر جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے لئے تھا اور خواہ بغیر مالداری کے قناعت ورضا عطا کر کے جس سے عیش لذیذ میسر ہوتا ہے یہ تو آج دنیا میں ہوا) اور آخرت کا اجر کہیں زیادہ بڑھ کر ہے ایمان اور تقویٰ والوں کے لئے معارف ومسائل اپنی پاکبازی بیان کرنا درست نہیں مگر خاص حالات میں اس سے پہلی آیت میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا یہ قول مذکور تھا کہ جو الزام مجھ پر عائد کیا تھا اس کی صفائی اور معاملہ کی مکمل تحقیق سے پہلے میں قید سے رہائی کو اس لئے پسند نہیں کرتا کہ عزیز اور بادشاہ مصر کو پورا یقین ہوجائے کی میں نے خیانت نہیں کی تھی بلکہ الزام سراسر جھوٹا تھا اس میں چونکہ اپنی براءت اور پاکبازی کا ذکر ایک ناگزیر ضرورت سے ہو رہا تھا جو بظاہر اپنے نفس کے تزکیہ اور پاکی کا اظہار ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسند نہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے (آیت) اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ ۭ بَلِ اللّٰهُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ یعنی کیا آپ نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو پاکیزہ کہتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے کہ وہ جس کو چاہیں پاک قرار دیں اور سورة نجم میں بھی اسی مضمون کی ایک آیت ہے فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى یعنی تم اپنے نفس کی پاکی کے مدعی نہ بنوا للہ تعالیٰ ہی خوب جانتے ہیں کہ کون واقعی پرہیزگار و متقی ہے اس لئے آیت مذکورہ میں حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنی براءت کے اظہار کے ساتھ ہی اس حقیقت کا بھی اظہار کردیا کہ میرا یہ کہنا کچھ اپنے تقویٰ اور پاکبازی کا جتلانا نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کا نفس جس کا خمیر چار عنصر آگ، پانی، مٹی، اور ہوا سے بنا ہے وہ تو اپنی فطرت سے ہر شخص کو برے ہی کاموں کی طرف مائل کرتا رہتا ہے بجز اس کے جس پر میرا اپنی رحمت فرما کر اس کے نفس کو برے تقاضوں سے پاک کر دے جیسے انبیاء (علیہم السلام) کے نفوس ہوتے ہیں اور ایسے ہی نفوس کو قرآن میں نفس مطمئنہ کا لقب دیا گیا ہے حاصل یہ ہے کہ ایسے ابتلاء عظیم کے وقت میرا گناہ سے بچ جانا یہ کوئی میرا ذاتی کمال نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی رحمت اور دستگیری کا نتیجہ تھا اگر وہ میرے نفس سے رذیل خواہشات کو نہ نکال دیتے تو میں بھی ایسا ہی ہوجاتا جیسے عام انسان ہوتے ہیں کہ خواہشات نفسانی سے مغلوب ہوجاتے ہیں، بعض روایات میں ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ جملہ اس لئے فرمایا کہ ایک قسم کا خیال تو بہرحال ان کے دل میں بھی پیدا ہو ہی گیا تھا گو وہ غیر اختیاری وسوسے کی حد تک تھا مگر شان نبوت کے سامنے وہ بھی ایک لغزش اور برائی ہی تھی اس لئے اس کا اظہار فرمایا کہ میں اپنے نفس کو بھی بالکل ہی بری اور پاک نہیں سمجھتا، نفس انسانی کی تین حالتیں اس آیت میں یہ مسئلہ غورطلب ہی کے اس میں ہر نفس انسانی کواَمَّارَۃ ٌبا لسُّوء یعنی برے کاموں کا حکم کرنے والا فرمایا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) سے ایک سوال فرمایا کہ ایسے رفیق کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس کا حال یہ ہو کہ اگر تم اس کا اعزازو اکرام کرو کھانا کھلاؤ، کپڑے پہناؤ تو وہ تمہیں بلاء اور مصیبت میں ڈال دے اور اگر تم اس کی توہین کرو، بھوکا ننگا رکھو تو تمہارے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے زیادہ برا تو دنیا میں کوئی ساتھی ہو ہی نہیں سکتا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ تمہارا نفس جو تمہارا نفس جو تمہارے پہلو میں ہے وہ ایسا ہی ساتھی ہے (قرطبی) اور ایک حدیث میں ہے کہ تمہارا سب سے بڑا دشمن خود تمہارا نفس ہے جو تمہیں برے کاموں میں مبتلاکر کے ذلیل و خوار بھی کرتا ہے اور طرح طرح کی مصیبتوں میں بھی گرفتار کردیتا ہے، بہرحال آیت مذکورہ اور ان روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس انسانی برے ہی کاموں کا تقاضا کرتا ہے لیکن سورة قیامہ میں اسی نفس انسانی کو لوّامہ کا لقب دے کر اس کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ رب العزت نے اس کی قسم کھائی ہے (آیت) لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَلَآ اُقْسِمُ بالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ اور سورة والفجر میں اسی نفس انسانی کو نفس مطمئنہ کا لقب دے کر جنت کی بشارت دی ہے يٰٓاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ اس طرح نفس انسانی کو ایک جگہ اَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْۗءِ کہا گیا دوسری جگہ لوّامہ تیسری جگہ مطمئنہ توضیح اس کی یہ ہے کہ ہر نفس انسانی اپنی ذات میں تو اَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْۗءِ یعنی برے کاموں کا تقاضا کرنے والا ہے لیکن جب انسان خدا وآخرت کے خوف سے اس کے تقاضے کو پورا نہ کرے تو اس کا نفس لوّامہ بن جاتا ہے یعنی برے کاموں پر ملامت کرنے والا اور ان سے توبہ کرنے والا جیسے عام صلحاء امت کے نفوس ہیں اور جب کوئی انسان نفس کے خلاف مجاہدہ کرتے کرتے اپنے نفس کو اس حالت میں پہونچادے کہ برے کاموں اس میں نہ رہے تو وہ نفس مطمئنہ ہوجاتا ہے صلحاء امت کو یہ حال مجاہدہ و ریاضت سے حاصل ہوسکتا ہے اور پھر بھی اس حالت کا ہمیشہ قائم رہنا یقینی نہیں ہوتا اور انبیاء (علیہم السلام) کو خود بخود عطاء خداوندی سے ایسا ہی نفس مطمئنہ بغیر کسی سابقہ مجاہدہ کے نصیب ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اسی حالت پر رہتا ہے، اس طرح نفس کی تین حالتوں کے ا عتبار سے تین طرح کے افعال اس کی طرف منسوب کئے گئے ہیں اِنَّ رَبِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ آخر آیت میں فرمایا کہ میرا رب بڑا مغفرت کرنے والا اور رحمت کرنے والا ہے لفظ غفور میں اس طرف اشارہ ہے کہ نفس اَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْۗءِ جب اپنی خطاء پر نادم ہو کر توبہ کرے اور نفس لوامہ بن جائے تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت بڑی ہے وہ معاف فرما دیں گے، اور لفظ رحیم میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ جس شخص کو نفس مطمئنہ نصیب ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کا نتیجہ ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَآاُبَرِّئُ نَفْسِيْ۝ ٠ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوْۗءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ۝ ٠ۭ اِنَّ رَبِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٥٣ برأ أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة/ 1] ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ { بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ (أمّارة) ، صيغة مبالغة من فعل أمر الثلاثيّ ، وزنه فعّالة، والتاء إمّا للتأنيث فمذکّره أمّار، وإمّا للمبالغة مثل فهّامة ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نفس امارہ کی حقیقت قول باری ہے ان النفس لا مارۃ بالسوء ۔ نفس کا کام تو بس بدی پر اکسانا ہے۔ یعنی نفس برائی کی طرف بہت زیادہ کھینچتا ہے ۔ اس لیے میں اپنے نفس کی برأت کرنا نہیں چاہتا اگرچہ میں اس کے چکر میں نہیں پھنستا۔ اس فقرے کے قائل کے متعلق اختلاف رائے ہے ، کچھ حضرات کا قول ہے کہ اس کے قائل حضرت یوسف (علیہ السلام) ہیں جبکہ بعض دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ یہ عورت یعنی عزیز مصر کی بیوی کا قول ہے۔ امارہ سے کہتے ہیں جو کسی کام کے کرنے کا بہت زیادہ ام کرے اور حکم دے۔ نفس کو اس صفت سے اس لیے موصوف کیا گیا ہے کہ اس کی خواہشات کی کثرت اور اس کے جذبات کی شدت کی بنا پر اکثر افعال وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ابتداء میں نفس کی طرف برائی کا حکم دینے کی نسبت مجازا ً ہوتی تھی لیکن پھر اس کا استعمال اس کثرت سے ہوا کہ مجاز کا اسم ساقط ہوگیا اور اب یہ استعمال بطور حقیقت ہوتا ہے۔ چناچہ کہا جاتا ہے نفسی تامرنی بکذواتدعنی الی کذا من جھۃ شھوتی لہ ( میرا نفس مجھے فلاں کام کی طرف راغب کر کے اسے کرلینے کا حکم دیتا نیز فلاں کام کی دعوت دیتا ہے) حقیقت کے لحاظ سے یہ بات درست نہیں ہوتی کہ انسان اپنی ذات کو کوئی کام کرنے کا حکم دے اس لیے کہ امر کے اندر مامور کو ایسی چیز کا مالک بناکر جس کا وہ مالک نہیں ہوتا۔ حکم بجا لانے کی ترغیب دی جاتی ہے اور یہ بات محال ہے کہ ایک شخص اپنی ذات کو کسی ایسی چیز کا مالک بنادے جو اس کی ملکیت میں نہ ہو اس لیے کہ ہر شخص صرف اسی چیز کو کسی دوسرے کی ملکیت میں دے سکتا ہے جس کا وہ خود مالک ہوتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣) اس پر جبریل امین (علیہ السلام) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ جب زلیخا نے آپ سے اصرار کیا تھا، تب کیا ہوا تھا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا میں اپنے نفس کو بالذات وساوس سے بری اور پاک نہیں کہتا کیوں کہ دل تو ہر ایک کا پورے جسم کو بری ہی بات سمجھاتا ہے ماسوا اس نفس کے یا جس کو میرا رب ان وساوس سے معصوم اور پاک رکھے اور میرا رب بڑی مغفرت والا ہے اور رحمتوں والا ہے کہ مجھ پر اس نے رحمت فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِلَّا مَارَحِمَ رَبِّيْ ۭ اِنَّ رَبِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) اگر گزشتہ آیت میں نقل ہونے والے بیان کو عزیز مصر کی بیوی کا بیان مانا جائے تو اس صورت میں آیت زیر نظر بھی اسی کے کلام کا تسلسل قرار پائے گی اور اس کا ترجمہ وہی ہوگا جو اوپر کیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ دراصل اس نظریے کے مطابق ہے جس کے تحت ہمارے بہت سے مفسرین اور قصہ گو حضرات نے مائی زُلیخا کو ولی اللہ کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ اور کچھ بعید بھی نہیں کہ اس کا عشق مجازی وقت کے ساتھ ساتھ عشق حقیقی میں تبدیل ہوگیا ہو اور وہ حقیقتاً ہدایت پر آگئی ہو۔ بہر حال جو لوگ اس بات کو درست تسلیم کرتے ہیں وہ ان آیات کا ترجمہ اسی طرح کرتے ہیں ‘ کیونکہ اس نے اعتراف جرم کر کے توبہ کرلی تھی اور اس لحاظ سے مذکورہ مفسرین کا موقف یہ ہے کہ اعتراف گناہ سے لے کر آیت ٥٣ کے اختتام تک اسی کا بیان ہے ۔ اس سلسلے میں دوسرا موقف (جو دور حاضر کے زیادہ تر مفسرین نے اختیار کیا ہے) یہ ہے کہ عزیز مصر کی بیوی کا بیان اس آیت پر ختم ہوگیا ہے : (اَنَا رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ ) اور اس کے بعد حضرت یوسف کا بیان نقل ہوا ہے۔ اس صورت میں آیت ٥٢ اور ٥٣ کا مفہوم یوں ہوگا کہ جب بادشاہ کی تفتیشی کارروائی اور عزیز مصر کی بیوی کے برملا اعتراف جرم کے بارے میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو بتایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سب کچھ سے میرا یہ مقصود نہیں تھا کہ کسی کی عزت و ناموس کا پردہ چاک ہو ‘ بلکہ میں تو چاہتا تھا کہ عزیز مصر یہ جان لے کہ اگر اس نے مجھے اپنے گھر میں عزت و اکرام سے رکھا تھا اور مجھ پر اعتماد کیا تھا تو میں نے بھی اس کی عدم موجودگی میں اس کی خیانت کر کے اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی ‘ اور میرا ایمان ہے کہ اللہ خیانت کرنے والوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔ باقی میں خود کو بہت پارسا نہیں سمجھتا بلکہ سمجھتا ہوں کہ نفس انسانی تو انسان کو برائی پر ابھارتا ہی ہے اور اس کے حملے سے صرف وہی بچ سکتا ہے جس پر میرا رب اپنی خصوصی نظر رحمت فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری حفاظت کا بھی اگر خصوصی انتظام نہ فرمایا جاتا تو مجھ سے بھی غلطی سرزد ہوسکتی تھی۔ مگر چونکہ میرا رب بخشنے والا بہت زیادہ رحم فرمانے والا ہے اس لیے اس نے مجھ پر اپنی خصوصی رحمت فرمائی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

33: حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تواضع اور عبدیت کا کمال دیکھئے کہ اس موقع پر جب ان کی بے گناہی خود ان عورتوں کے اعتراف سے ثابت ہوگئی، تب بھی اس پر اپنی بڑائی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے یہ فرمارہے ہیں کہ میں اس انتہائی خطرناک جال سے جو بچا ہوں اس میں میرا کوئی کمال نہیں نفس تو میرے پاس بھی ہے جو انسان کو برائی کی تلقین کرتا رہتا ہے، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا رحم وکرم ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے اس کے فریب سے بچا لیتا ہے، البتہ دوسرے دلائل سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ رحم وکرم اسی پر ہوتا ہے جو گناہ سے بچنے کے لئے اپنی سی کوشش کر گزرے، جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دروازے تک بھاگ کر کی تھی اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اس سے پناہ مانگے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٣۔ اس سے اوپر کی آیت میں یہ بات بیان کی جاچکی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے ساقی سے یہ بات کہی تھی کہ میں اپنی براءت کی تحقیق کے لئے اس واسطے کہتا ہوں کہ عزیز مصر پر یہ بات اچھی طرح ثابت ہوجائے کہ میں نے اس سے پوشیدہ اس کی بیوی کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کی ہے غرض جب یہ ثابت ہوچکا کہ اوپر کی بات یوسف (علیہ السلام) کی زبانی ہے تو یہ بات بھی انہوں نے ہی کہی کہ باوجود اس بات کے کہ عورتوں نے میری پاکبازی کی گواہی دی اور دراصل میں راست باز بھی ہوں مگر پھر بھی میں اپنے آپ کو بالکل پاک و صاف نہیں سمجھتا کیوں کہ نفس ہر وقت انسان کو برائی کا حکم کرتا رہتا ہے۔ اور ہر گھڑی برائی کا راستہ دکھلاتا رہتا ہے مگر ہاں جس نفس پر خدا کی مہربانی ہو اور جس پر خدا رحم کرے وہ ان باتوں سے بچا رہتا ہے کیوں کہ خداوند جل جلالہ غفور و رحیم ہے۔ مسند امام احمد صحیح مسلم اور ابوداؤد میں زینب بنت ابی سلمہ (رض) سے روایت ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ میرا پہلا نام برہ تھا جس کے معنے نیک پارسا کے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا وہ نام بدل کر زینب نام رکھا اور فرمایا کہ انسان کی پارسائی کا حال اللہ ہی کو خوب معلوم ہے۔ ١ ؎ اس لئے کسی انسان کو اپنی پارسائی کا دعویٰ زیبا نہیں ہے یوسف (علیہ السلام) نے پہلی بات کے بعد یہ دوسری بات جو کہی اس حدیث سے اس کا سبب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے یوسف (علیہ السلام) کے اس قول کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جس کسی کو شیطان اور نفس کے پھندے سے بچادے وہی بچ سکتا ہے ورنہ انسان کو پارسائی کا دعویٰ نہیں پہنچتا۔ گناہوں کے للچانے والے نفس کو امارہ اور گناہوں پر ملامت کرنے والے کو لوامہ اور گناہوں سے بچنے والے کو مطمنہ کہتے ہیں۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٣٢۔ کتاب الامارۃ والقضائ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

12:53) ما ابریٔ۔ مانفی کا ہے۔ ابریمضارع واحد متکلم۔ ابرائ (افعال) سے جس کے معنی ہر بری چیز۔ مرض وغیرہ سے بری کرنے اور نجات دلانے کے ہیں۔ ما ابری نفسی میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتا ہوں۔ لا مارۃ۔ لام تاکید کے لئے ہے امارۃ امر سے ہے جس کے معنی حکم دینے کے ہیں۔ امر۔ حکم دینے والا۔ امارمبالغہ کا صیغہ بڑا حکم دینے والا ۔ شرارت پر اکسانے والا۔ امارۃ ، امار سے صیغۂ مؤنث ہے۔ الا ما رحم ربی۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوں گی۔ 1 ۔ الاحرف استثناء متصل ما بمعنی من۔ ای کل نفس امارۃ الا من رحمھا اللہ (بےشک نفس تو برائی ہی کا حکم دینے والا ہے) سوائے اس نفس کے جس پر میرا پروردگار رحم کرے۔ 2 ۔ الا۔ استثناء منقطع ما مصدریہ غیر زمانیہ ان النفس لا مارۃ بالسوء لکن رحمۃ ربیھی التی تصرف عنہا السوء بیشک نفس تو برائی ہی کا حکم دینے والا ہے لیکن میرے رب کی رحمت اس کو برائی سے بچا دیتی ہے۔ 3 ۔ الا حرف استثناء ما مصدریہ زمانیہ ای ان النفس لا مارۃ بالسوء فی کل وقت الا فی وقت رحمۃ ربی۔ یعنی بیشک نفس تو ہر وقت برائی ہی کا حکم دیتا ہے سوائے اس وقت کے کہ جب میرے رب کی رحمت ہو۔ شروع آیۃ 52 سے اختتام آیۃ 53 تک اس امر میں اختلاف ہے کہ یہ کلام حضرت یوسف کا ہے یا کہ زلیخا کا۔ مجاہد۔ سعید بن جبیر۔ عکرمہ ۔ ابن ابی الہذیل۔ ضحاک۔ حسن۔ قتادہ اور سدی قائل ہیں کہ یہ حضرت یوسف کا کلام ہے اور وہ اس کی وجہ یہ فرماتے ہیں کہ شان کلام سے صاف ظاہر ہے کہ یہ الفاظ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہیں، کلام میں جو نیک نفسی ۔ عالی ظرفی۔ فروتنی اور خدا ترسی بول رہی ہے وہ خود گواہ ہے کہ ہر فقرہ اس زبان سے نکلا ہوا نہیں ہے جس سے ھیت لک وغیرہ الفاظ نکلے تھے ایسے پاکیزہ کلمات تو حضرت یوسف ہی کی زبان مبارک سے نکل سکتے تھے۔ دوسری طرف امام ماوردی (رح) ۔ ابن تیمیہ (رح) اور ابن کثیر کے مطابق واقعہ کے سیاق وسباق اور معنوی لحاظ سے الئن حصحص الحق سے لے کر غفور رحیمتک زلیخا کا کلام ہی ہوسکتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ تو نفس مطیع ہوجاتا ہے اور برے کام کی خواہش نہیں کرتا۔ مطلب یہ ہے کہ برائی سے میرا بچ نکلنا اپنے بل ہوتے پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے تھا۔ ” ما “ کے مصدر یہ ہونے کی صورت میں مستثنیٰ منقطع ہوگا اور مصدر یہ ظرفیہ ہونے کی صورت میں متصل۔ (کذافی الروح) ۔ 2 ۔ بعض مفسرین (رح) ۔ جیسے ابنی تیمیہ (رح) اور ابن کثیر۔ نے ” ذلک لیعلم “ سے ” ان ربی غفور رحیم “ کو بھی عزیز مصر کی بیوی ہی کا کلام قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ یہی انسب اور اشھر سے اور سیاق کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس صورت میں گویا عزیز مصر کی بیوی کنا یہ چاہتی ہے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اپنے خاوند کی کوئی بڑی خیانت نہیں کی بیشک میں نے یوسف ( علیہ السلام) کو پھسلانا چاہا تھا مگر کامیاب نہ ہوسکی۔ ہاں میں اپنے آپ کو پاک باز قرار نہیں دیتی مجھ سے جتنی غلط ہوئی اور اس کا قرار و اعتراف کرتی ہوں۔ نفس کی شرارتوں سے تو وہی مھفوظ رہ سکتا ہے جس پر اللہ کی خاص رحمت ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ خلاف مطلب یہ ہوا کہ میری نزاہت وعصمت میرے نفس کا ذاتی کمال نہیں کہ تخلف محال ہو بلکہ رحمت و عنایت الہیہ کا اثر ہے اس لیے وہ امر بالسور نہیں کرتا ورنہ جیسے اوروں کے نفوس ہیں ویساہی میرا ہوتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عاجزی کی انتہا۔ امانت و دیانت اور بےانتہا پاکدامنی کے باوجود حضرت یوسف (علیہ السلام) یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ مجھ سے غلطی نہیں ہوسکتی۔ فرماتے ہیں کہ غلطی تو ہر انسان سے ہوسکتی ہے۔ کیونکہ نفس امارہ انسان کو ہمیشہ برائی کی طرف کھینچتا ہے۔ برائی سے وہی شخص بچ سکتا ہے جس پر میرا رب مہربانی فرمائے۔ کیونکہ میرا رب غلطیاں معاف کرنے والا اور نہایت ہی رحیم و کریم ہے۔ اگلی آیات سے یہ بات مترشح ہو رہی ہے کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) بادشاہ کے پاس پہنچے تو درباری رواج کے مطابق بادشاہ نے ان کا والہانہ استقبال کیا ہو۔ حکمرانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کو ملنے والے احباب جانتے ہیں کہ جونہی بڑے لوگوں کی کسی شخص پر خاص توجہ ہوتی ہے تو درباری اور چھوٹے درجے کے لوگ کس طرح اس کے سامنے بچھے جاتے ہیں۔ وہ شخص تو مطلق العنان بادشاہ تھا۔ اس نے جس عقیدت اور تپاک سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے ہاں بلایا، یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر بادشاہ کے حواریوں کی کیا کیفیت ہوگی۔ پھر جس حسن کردار کی گواہی کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) نے جیل سے رہائی پائی اور یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے جس قدر بےمثال حسن و جمال عطا فرمایا تھا بڑے سے بڑا شاعر اور کہنہ مشق ادیب بھی اس کی منظر کشی نہیں کرسکتا۔ ظاہر ہے اس صورتحال میں ہر شخص حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال اور ان کے کردار کو زبر دست خراج تحسین پیش کر رہا ہوگا۔ ہر آنکھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے چہرۂ انور پر جمی ہوگی مگر حضرت یوسف (علیہ السلام) اس پر پھولنے اور اترانے کے بجائے دل ہی دل میں اپنے رب کا شکریہ ادا کرتے، آنکھیں جھکائے بڑے وقار کے ساتھ تشر یف فرما ہوئے۔ ہر شخص سوچتا ہوگا کہ نامعلوم یہ شخص کس طمطراق کے ساتھ گفتگو کرے گا ابھی لوگ سوچ ہی رہے ہوں گے کہ سیدنا یوسف (علیہ السلام) بڑی عاجزی کے ساتھ فرماتے ہیں۔ میں اپنی پاک بازی پر فخر نہیں کرتا۔ (وَمَآ أُبَرِّءُ نَفْسِیْ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَۃٌم بالسُّوْٓءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ إِنَّ رَبِّیْ غَفُورٌ رَحِیْمٌ) [ یوسف : ٥٣] ” اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی کا حکم دینے والا ہے۔ مگر جس پر میرا رب رحم فرمائے۔ یقیناً میرا رب بخشنے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔ “ (عَنْ أَبِی سَعِیْدِنِالْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ کَبَّرَ ثُمَّ یَقُوْلُ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلاآإِلَہَ غَیْرُکَ ثُمَّ یَقُوْلُ لاآإِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ثَلاَثًا ثُمَّ یَقُول اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا ثَلاَثًا أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ )[ رواہ ابو داود : باب مَنْ رَأَی الاِسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو قیام کرتے تو اللہ اکبر کہتے پھر یہ دعاپڑھتے اے اللہ ! تو پاک ہے۔ میں تیری تعریف بیان کرتا ہوں بابرکت ہے نام تیرا اور بلند ہے تیری شان تیری علاوہ کوئی معبود نہیں۔ پھر تین بار کہتے اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں پھر تین بار اللہ اکبر کہتے۔ اللہ کے نام کے ساتھ جو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ میں شیطان مردود کے وسوسہ، پھونک اور اس کی چھیڑ چھاڑ سے پناہ طلب کرتا ہوں۔ “ (عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دَعْوَاتِ الْمَکْرُوْبِ اللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلاَ تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنِ وَأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ )[ رواہ أبوداود : باب مایقول اذا اصبح ] ” حضرت ابوبکر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مضطرب کی دعا بیان کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں مجھے میرے نفس کے سپرد نہ کر اور میرے تمام معاملات درست فرما تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ “ مسائل ١۔ نفس امارہ انسان کو برائیوں پر ابھارتا ہے۔ ٢۔ گناہوں سے وہی شخص بچ سکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے اور نہایت رحم فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن نفس انسانی کی تین حالتیں : ١۔ نفس مطمئنہ۔ ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا نفس۔ (الفجر : ٢٧) ٢۔ نفس لوّامہ۔ گناہ پر ملامت کرنے والا نفس۔ (القیامہ : ٢) ٣۔ نفس امّارہ۔ گناہ پر ابھارنے والا نفس۔ (یوسف : ٥٣) (تفصیل کے لیے دیکھیے فہم القرآن ج ٢، ص ١٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پارہ ١٣ ایک نظر میں یہ پارہ سورة یوسف کے بقیہ حصے اور سورة رعد اور سورة ابراہیم پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں سورتیں بھی مکی ہیں۔ گویا یہ پورا پارہ مکی قرآن پر مشتمل ہے اور اس میں مکی سورتوں کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ سورة رعد اور سورة ابراہیم پر تبصرے ہم آئندہ پر اٹھائے رکھتے ہیں۔ رہی سورة یوسف تو اس کے بقیہ حصے کے مطالعہ سے قبل امید ہے کہ قارئین گذشتہ پارے میں سورة یوسف پر کئے گئے تبصرہ کو ذہن میں رکھیں گے۔ اس پارے میں سورة یوسف کا باقی حصہ ہے اور اس کے اندر جا بجا تبصرے ہیں۔ اور آخر میں اس پوری سورة پر ایک تبصرہ ہے۔ اس حصے میں ہم قصے کے مرکزی کردار حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ذاتی زندگی اور ان کی شخصیت کے بعض نئے پہلوؤں سے متعارف ہوتے ہیں یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شخصیت اب ذرا مختلف روپ میں سامنے آتی ہے ۔ اس شخصیت کے ان بنیادی عناصر ترکیبی کے ساتھ ساتھ جن کا ذکر ہم نے اس قصے کے کرداروں کے بیان کے ضمن میں کیا ہے ، یہاں اس جدید مرحلے میں ان کی شخصیت کے کچھ نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ یہ شخصیت آغاز سے لے کر آخر تک ایک ہی سے خدو خال رکھتی ہے لیکن اس نئے مرحلے میں اس کی کچھ نئی خوبیاں سامنے آتی ہیں اور بظاہر یہ نئی خصوصیات کئی نظر آتی ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شخصیت اپنے نشوونما اور بات اور واقعات اور ان مشکلات کی وجہ سے جو ان کو پیش آتی رہیں اب ایک مکمل شخصیت ہے۔ شخصیت کی یہ تکمیل خالص ربانی تربیت کے تحت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک بندہ صالح بن کر سامنے آتے ہیں۔ اس بندہ کی صالح کو تیار ہی اس لئے کیا جارہا ہے کہ زمین میں اس کو تمکن حاصل ہو اور مشرق وسطیٰ کے ایک ایسے ملک میں اسے اقتدار ملے جہاں سے ہر چیز ہر طرف سپلائی جاتی ہے۔ اس شخصیت کے نئے خدو خال کیا ہیں ؟ سب سے پہلے یہ کہ ان کا تعلق باللہ بہت گہرا ہے اور وہ راضی برضا ہیں۔ وہ اللہ کے ہوگئے ہیں اور ان کو اللہ پر پورا پورا بھروسہ ہے۔ انہوں نے تمام دنیاوی اقدار کا لیا وہ اتار دیا ہے ، زمین کے تمام بندھنوں سے آزاد ہوگئے ہیں۔ وہ اس دنیا کے حکمرانوں سے بےنیاز ہیں۔ یہ دنیاوی قدریں اور یہ قوتیں اس شخصیت کے ہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں کیونکہ اس شخصیت نے اب صرف اللہ سے لو لگا لی ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شخصیت میں یہ اوصاف اس وقت سامنے آتے ہیں جب بادشاہ مصر کے فرستادے قید خانے میں ان کے پاس آتے ہیں اور اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ بادشاہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اس موقع پر آپے سے باہر نہیں ہوجاتے۔ نہ وہ اس قید خانے کی تاریکیوں سے نکلنے اور بادشاہ وقت سے ملاقات کرنے کے لئے کسی بےتابی کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ ایسے مواقع پر بےتابی اور جلد بازی کا اظہار ہو ہی جاتا ہے خصوصاً جبکہ ایک شخص قید خانے کی کوٹھڑی میں بند ہو۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کردار میں اس تبدیلی کو تب ہی سمجھا جاسکتا ہے جب ہم ذرا چند سال پیچھے ہٹ کر حالات کا معالعہ کریں۔ چند سال پیشتر خود انہوں نے اس شخص سے جو رہا ہونے والا تھا ، درخواست کی تھی کہ بادشاہ کے سامنے ان کے کیس کو پیش کریں۔ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس طرح اس شخصیت کی قدریں بدل گئی ہیں ، ایمان تو اپنی جگہ پہلے کی طرح موجود ہے ، لیکن اب ان کی شخصیت میں ایک طمانیت ہے ۔ وہ اب بھی اللہ کی تقدیر پر راضی ہیں اور تقدیر کے ساتھ چل رہے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ تقدیر اپنا کام کیسے کرتی ہے ۔ ان کو وہ اطمینان حاصل ہے جس کے طلبگار ان کے جد اعلیٰ تھے جنہوں نے خدا سے مطالبہ کیا تھا “ اے رب ، مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے ؟ “ تو رب تعالیٰ نے فرمایا : “ کیا تجھے یقین نہیں ہے ؟ “ لیکن انہوں نے کہا “ یقین تو ہے لیکن میں قلبی اطمینان چاہتا ہوں ”۔ یہ ہے وہ اطمینان جو ربانی تربیت نے اس بندۂ مختار کی دل میں انڈیل دیا ہے۔ ابتلاؤں سے گزار کر ، مشکلات میں مبتلا کر کے ، مختلف حالات اور مشاہدوں سے گزار کر اور علم و معرفت اور یقین و اطمینان عطا کر کے وہ اس مقام تک پہنچے ہیں۔ اس مرحلے کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کردار میں یہ صفت بہت واضح ہے ۔ یہاں تک اس سورة کے آخری تبصرے ہیں۔ وہ جب اپنے رب کے ساتھ مناجات میں ہیں تو وہ تمام دنیاوی قدروں سے بےنیاز نہیں ۔ فرماتے ہیں : رب قد اتیتنی من الملک و علمتنی من تاویل الاحادیث فاطر السموت والارض انت ولی فی الدنیا والاخرۃ توفنی مسلما والحقنی بالصلحین (١٠١) “ اے رب تو نے مجھے مملکت عطا کردی ہے ، بات کی تہہ تک پہنچنا سکھا دیا ہے۔ دنیا و آخرت میں تو ہی میرا والی ہے۔ مجھے ایک مسلمان کی طرح موت دے اور صالحین کے ساتھ ملا دے ”۔ اب رہیں وہ تعصبات اور تبصرے جو اس سورة میں آئے ہیں ان کے بارے میں ہم بہت کچھ کہہ آئے ہیں اور مزید تشریحات تفسیر آیات میں آئیں گی۔ یہاں تو فقط اس تبدیلی کا تذکرہ مطلوب تھا جو اس بندۂ مختار کی شخصیت میں پیدا ہوئی جو اس قصے میں بڑا کردار ہیں۔ اس تبدیلی کے ساتھ دراصل ان کی شخصیت اب ایک مکمل شخصیت ہے۔ نیز یہ خصوصیت وہ ہے جسے اس پورے حصے میں اجاگر کرنا مطلوب ہے کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے احیائے اسلام کا کام کرنا ہے اور یہی قرآن کا منہاج انقلاب ہے کہ وہ قارئین کے ذہن میں اصل مقصد بٹھا دیتا ہے۔ اب ہم آیات کی تشریح و تفسیر کی طرف آتے ہیں۔ درس نمبر ١٠٩ ایک نظر میں اس سبق میں قصہ یوسف (علیہ السلام) ذرا آگے بڑھ رہا ہے۔ اس قصے کے چار بڑے مناظر میں سے یہ چوتھا منظر ہے۔ پچھلے پارے میں اس قصے کی تین کڑیاں ختم ہوگئی تھیں۔ اب حضرت یوسف (علیہ السلام) قید خانے سے باہر آگئے ہیں۔ بادشاہ نے خود درخواست کی ہے کہ وہ انہیں ایک اہم منصب سپرد کرنے والے ہیں۔ ان کے اس نئے منصب کی ذمہ داریوں کے بارے میں یہاں اب بات ہوگی۔ یہ سبق سابقہ منظر کے آخری فقرے سے شروع ہوتا ہے۔ گذشتہ منظر کی آخری کڑی یہ تھی کہ اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خواہش کے مطابق بادشاہ نے ان عورتوں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں انکوائری کی تھی جنہوں نے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اسباب نکھر کر سامنے آجائیں جن کی وجہ سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ناحق جیل جانا پڑا تھا تا کہ ان کی بےگناہی کا اعلان ہوجائے اور یہ بات ان کے نئے منصب کے لئے ضروری تھی تا کہ وہ اپنی نئی ذمہ داریاں نہایت اطمینان ، نہایت وثوق اور اعتماد سے پوری کریں۔ ان کا نفس مطمئن ہو اور وہ اعتماد کے ساتھ امور مملکت سر انجام دیں۔ اب ان کی دعوتی زندگی دو قسم کی سر گرمیوں پر مشتمل تھی۔ ایک مملکت کی ذمہ داریاں اور ایک دعوت اسلامی کی ذمہ داریاں ۔ لہٰذا مناسب یہ تھا کہ ان دہری ذمہ داریوں کے اس دور میں وہ ماضی کے گردوغبار کو جھاڑ کر اور ہلکے پھلکے ہو کر سامنے آئیں۔ ان کی شرافت یہ تھی کہ انہوں نے اس مرحلے پر عزیز مصر کی عورت کے بارے میں کچھ نہیں کہا ، بلکہ اس کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کیا۔ صرف یہ کہا کہ بادشاہ کو ان عورتوں کے معاملے میں تحقیق کرنا چاہئے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔ لیکن عزیز مصر کی بیوی خود سامنے آتی ہے اور اعلان کرتی ہے کہ حقیقت کیا تھی اور ہوا کیا تھا ؟ قال ما خطبکن ۔۔۔۔۔۔۔ ان ربی غفور رحیم ( یوسف ٥١ تا ٥٣ ) “ اب حق کھل چکا ہے ، وہ میں ہی تھی جس نے اسے پھیلانے کی کوشش کی تھی ، بیشک وہ بالکل سچا ہے ، اس سے میری غرض یہ تھی کہ یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اسی سے خیانت نہیں کی اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں اللہ ان کی چالوں کو کامیابی کی راہ پر نہیں ڈالتا۔ میں کچھ اپنے نفس کی براءت نہیں کرتی۔ نفس بدی پر اکساتا ہی ہے الایہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو ، بیشک میرا بڑا غفور و رحیم ہے ”۔ یہاں آکر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا المناک ماضی ختم ہوجاتا ہے اور اب خوشحالی ، عزت اور اقتدار کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ آیت نمبر ٥٣ تا ٥٧ اس طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف (علیہ السلام) کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ اسی طرح ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں ، نوازتے ہیں ، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا ، اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لئے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لے آئے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے ”۔ بادشاہ کے ہاں یوسف (علیہ السلام) کی پاکدامنی بھی ہوگئی ، اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے خواب کی سچی تعبیر بھی معلوم ہوگئی ، بادشاہ نے یہ بھی دیکھ لیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے عورتوں کے معاملے کی چھان بین کس طرح کرالی۔ نیز ان کی شرافت اور عزت نفس بھی اس کے سامنے کھل کر ثابت ہوگئی کہ یہ شخص براءت کے بغیر جیل خانے سے بھی باہر آنا گوارا نہیں کرتا ، نہ ہی وہ بادشاہ سے ملاقات کے لئے بےتاب ہے۔ بادشاہ بھی کوئی معمولی بادشاہ نہ تھا بلکہ مصر جیسے بڑے ملک کا بادشاہ تھا۔ انہوں نے اس موقعے پر نہایت ہی شریف اور کریم شخص کا موقف اختیار کیا جو الزام کے ہوتے ہوئے جیل سے باہر آنا گوارا نہیں کرتا۔ وہ حصول مناصب ، بادشاہ سے ملاقات اور جیل کی مشکلات سے ربانی سے قبل اپنی عزت اور شہرت پر سے داغ ہٹانا چاہتا ہے۔ اور یہ کچھ وہ بادشاہ کے دربار میں قدم رکھنے سے قبل چاہتا ہے۔ ان تمام امور نے بادشاہ کے دل میں ان کی وقعت اور اہمیت کو اور بڑھا دیا اس لئے اس نے کہا : وقال الملک ئتونی بہ استخلصہ لنفسی (١٢ : ٥٤) بادشاہ نے کہا “ انہیں میرے پاس لاؤ تا کہ میں ان کو اپنے لئے مخصوص کرلوں ”۔ بادشاہ وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کو محض رہائی کے لئے طلب نہیں فرماتے یا محض اس لئے نہیں بلا رہے کہ وہ نفسیات اور تعبیر خواب کے ماہر ہیں ، نہ اس لئے بلا رہے ہیں کہ ان کو بادشاہ سلامت کی رضا مندی کی اطلاع دے دیں اور حضرت یوسف (علیہ السلام) پھولے نہ سمائیں ۔ ان مقاصد کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ وہ بادشاہ کے مخصوص مشیر اور ذاتی دوست اور معتمد علیہ ہوں۔ ہمیں ان لوگوں کی حالت پر رونا آتا ہے جو اپنی عزت اور شرافت کو بادشاہوں کے قوموں میں نچھاور کرتے ہیں۔ یہ لوگ آزاد اور بری الذمہ ہیں لیکن یہ خود غلامی کا جوا اپنے ہاتھ سے لے کر اپنی گردنوں میں ڈالتے ہیں اور بڑوں کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں یا ان کی طرف سے تعریف کا ایک لفظ سن کر خوش ہوتے ہیں اور پھر نہایت ہی مطیع فرمان بن کر رہتے ہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو بڑوں کے سامنے دلیل کرتے ہیں اور بچھے جاتے ہیں۔ کاش اس قسم کے لوگ سورة یوسف پڑھتے اور معلوم کرتے کہ خودداری ، عزت نفس اور شرافت اور سنجیدگی میں کیا مزہ ہے۔ حالانکہ خود داری ، عزت نفس اور کرامت کے فائدے چاپلوسی ، غلامی اور ذلت کی زندگی سے زیادہ ہیں۔ بہرحال بادشاہ نے یہ حکم دیا۔ وقال الملک ئتونی بہ استخلصہ لنفسی (١٢ : ٥٤) بادشاہ نے کہا “ انہیں میرے پاس لاؤ تا کہ میں ان کو اپنے لئے مخصوص کرلوں ”۔ اب یہاں سیاق کلام میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی رہائی وغیرہ کی کڑیاں حذف کردی گئی ہیں اور انسانی تخیل پر چھوڑ دی گئی ہیں۔ فلما کلمہ قال انک الیوم لدینا مکین امین (١٢ : ٥٤) “ اب آپ ہمارے ہاں قدرو منزلت رکھتے ہیں اور ہمیں آپ کی امانت پر بھروسہ ہے ” ۔ جب یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ سے گفتگو کی تو اسے معلوم ہوگیا کہ یوسف (علیہ السلام) کی علامات جو کچھ بتا رہی تھیں وہ ان کے مطابق سچے ہیں تو بادشاہ نے اعلان کردیا کہ یوسف (علیہ السلام) ہماری مملکت میں اب صاحب قدرو منزلت ہیں۔ اب یوسف (علیہ السلام) عبرانی غلام نہیں ہیں ، نہ ہی وہ اس تہمت میں گرفتار ملزم ہیں جو عزیز مصر کی بیوی نے ان پر لگائی تھی۔ اب وہ ایک باعزت شخصیت ہیں اور بادشاہ کے ہاں انہیں اونچا مقام حاصل ہے اور وہ بہت ہی امانت دار شخص ہیں۔ بادشاہ کی طرف سے اس اعلان کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) کا رویہ کیا رہا۔ انہوں نے بادشاہ کے سامنے سجدۂ شکر ادا نہیں کیا۔ جیسا کہ عموماً بادشاہوں کے مصاحب سجدے کرتے ہیں۔ نہ انہوں نے تملق اور چاپلوسی سے کہا اے میرے آقا ! تم زندہ رہو اور یہ غلام تمہارا خادم رہے گا۔ یا یہ کہ میں تمہارا امین ، خادم اور غلام ہوں۔ بلکہ تملق اور چاپلوسی کے بجائے انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ مملکت کو پیش آنے والی مشکلات میں وہ جو خدمات کرسکتے ہیں اس کے لئے وہ حاضر ہیں ان آنے والے حالات کے مطابق جو تعبیر خواب کے نتیجے میں لازماً آنے والے ہیں کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پختہ یقین تھا کہ آنے والی مشکلات کو صرف وہی دیکھ رہے ہیں اور صرف وہی ان کے لئے تیاری اور پیش بندی کرسکتے ہیں ورنہ لوگ قحط کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ صرف یوسف (علیہ السلام) ہی تھے جو اپنی دیانت وامانت کی وجہ سے ملک کو بچا سکتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47:۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنی براءت کا اظہار کیا تو خیال آیا میں خود ہی اپنی ذات کا تزکیہ کر رہا ہوں یہ تو سب کچھ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہوا ہے اس لیے انکسار و تواضع کے طور پر فوراً کہا ” وَ مَا اُبَرِّئُ نَفْسِیْ الخ “ میں اپنی ذات کا تزکیہ نہیں کرتا نفس انسانی بڑا سرکش ہے اس کے اغواء سے صرف وہی بچ سکتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ محض اپنی مہربانی سے دستگیری فرمائے۔ وَمَا اُبَرِّئُ نَفْسِیْ ھضم للنفس و انکسار و تواضع للہ عز و جل فان رؤیۃ النفس فی مقام العصمۃ والتزکیۃ ذنب عظیم فاراد ازالۃ ذلک عن نفسہ الخ (خازن ج 3 ص 290) قال الحسن لما قال یوسف ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ کرہ نبی اللہ ان یکون قد زکی نفسہ فقال وَ مَا اُبَرِّئُ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ الخ، تزکیۃ النفس مذمومۃ الخ۔ (قرطبی ج 9 ص 210 و خازن) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

53 ۔ اور میں کوئی اپنے نفس کی برأت نہیں کرتا بیشک نفس تو بری ہی باتوں پر ابھارا کرتا ہے مگر وہ نفس جس پر میرا پروردگار رحم فرمائے بلا شبہ میرا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس شبہ کو دور کیا کہ مبادا کوئی خیال کرے کہ یوسف (علیہ السلام) کو اپنی برأت پر غرور ہوگیا ہے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ میرے نفس کا یہ کوئی ذاتی کمال نہیں ہے بلکہ محض حضرت حق تعالیٰ کی عنایت اور اس کی مہربانی کا نتیجہ ہے نفس تو برے ہی کاموں کی ترغیب دیا کرتا ہے۔