Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 70

سورة يوسف

فَلَمَّا جَہَّزَہُمۡ بِجَہَازِہِمۡ جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیۡ رَحۡلِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُہَا الۡعِیۡرُ اِنَّکُمۡ لَسٰرِقُوۡنَ ﴿۷۰﴾

So when he had furnished them with their supplies, he put the [gold measuring] bowl into the bag of his brother. Then an announcer called out, "O caravan, indeed you are thieves."

پھر جب انہیں ان کا سامان اسباب ٹھیک ٹھاک کر کے دیا تو اپنے بھائی کے اسباب میں پانی پینے کا پیالہ رکھ دیا پھر ایک آواز دینے والے نے پکار کر کہا کہ اے قافلے والو! تم لوگ تو چور ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yusuf had His Golden Bowl placed in Binyamin's Bag; a Plot to keep Him in Egypt Allah tells: فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُوَذِّنٌ ... So when he furnished them forth with their provisions, he put the bowl in his brother's bag. Then a crier cried: After Yusuf supplied them with their provisions, he ordered some of his servants to place his silver bowl (in Binyamin's bag), according to the majority of scholars. Some scholars said that the king's bowl was made from gold. Ibn Zayd added that according to Ibn Abbas, Mujahid, Qatadah, Ad-Dahhak and Abdur-Rahman bin Zayd, the king used it to drink from, and later, measured food grains with it since food became scarce in that time, Shu`bah said that Abu Bishr narrated that Sa`id bin Jubayr said that Ibn Abbas said that; the king's bowl was made from silver and he used it to drink with. Yusuf had the bowl placed in Binyamin's bag while they were unaware, and then had someone herald, ... أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ O you (in) the caravan! Surely, you are thieves!

جب آپ اپنے بھائیوں کو حسب عادت ایک ایک اونٹ غلے کا دینے لگے اور ان کا اسباب لدنے لگا تو اپنے چالاک ملازموں سے چپکے سے اشارہ کر دیا کہ چاندی کا شاہی کٹورا بنیامین کے اسباب میں چپکے سے رکھ دیں ۔ بعض نے کہا ہے یہ کٹورا سونے کا تھا ۔ اسی میں پانی پیا جاتا تھا اور اسی سے غلہ بھر کے دیا جاتا تھا بلکہ ویسا ہی پیالہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بھی تھا ۔ پس آپ کے ملازمین نے ہوشیاری سے وہ پیالہ آپ کے بھائی حضرت بنیامین کی خورجی میں رکھ دیا ۔ جب یہ چلنے لگے تو سنا کہ پیچھے سے منادی ندا کرتا آ رہا ہے کہ اے قافلے والو تم چور ہو ۔ ان کے کان کھڑے ، رک گئے ، ادھر متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ آپ کی کیا چیز کھوئی گئی ہے ؟ جواب ملا کہ شاہی پیمانہ جس سے اناج ناپا جاتا تھا ، سنو شاہی اعلان ہے کہ اس کے ڈھونڈ لانے والے کو ایک بوجھ غلہ ملے گا اور میں خود ضامن ہوں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

70۔ 1 مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ سقایہ (پانی پینے کا برتن) سونے یا چاندی کا تھا، پانی پینے کے علاوہ غلہ ناپنے کا کام بھی اس سے لیا جاتا تھا، اسے چپکے سے بنیامین کے سامان میں رکھ دیا گیا۔ 70۔ 2 الْعیر اصلاً ان اونٹوں، گدھوں یا خچر کو کہا جاتا ہے جن پر غلہ لاد کرلے جایا جاتا ہے۔ یہاں مراد اصحاب العیر یعنی قافلے والے۔ 70۔ 3 چوری کی یہ نسبت اپنی جگہ صحیح تھی کیونکہ منادی حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سوچے سمجھے منصوبے سے آگاہ نہیں تھا یا اس کے معنی ہیں کہ تمہارا حال چوروں کا سا ہے کہ بادشاہ کا پیالہ، بادشاہ کی رضامندی کے بغیر تمہارے سامان کے اندر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ ۔۔ : ان آیات کی تفسیر میں اکثر لوگوں کو ٹھوکر لگی ہے جس کی وجہ سے وہ یوسف (علیہ السلام) کے ذمے لگاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھنے کے لیے اس کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا، پھر اس کے سامان میں پیمانہ رکھ کر سب بھائیوں کے متعلق ان کے چور ہونے کا اعلان کروایا، پھر خود ہی تلاشی لی اور آخر میں بھائی کے سامان سے پیمانہ نکال کر اسے چور قرار دے کر اپنے پاس رکھ لیا۔ اس پر جو اعتراض آتا ہے کہ یہ ایک نبی کی شان کے لائق نہیں، اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ( كَذٰلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ ) [ یوسف : ٧٦ ]” اس طرح ہم نے یوسف کے لیے یہ تدبیر کی “ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے کیا، اس لیے یہ جائز تھا اور یہ کہ جائز مقصد کے لیے حیلہ کرنا (خواہ ناجائز ہو) جائز ہے۔ حالانکہ اگر غور سے آیات کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں یوسف (علیہ السلام) کے کسی حیلے یا سازش کا کوئی دخل ہی نہیں، یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تدبیر تھی جس کا پہلے یوسف (علیہ السلام) کو بھی علم نہیں تھا۔ واقعہ کی اصل صورت یہ ہے کہ پہلی دفعہ جب بھائی آئے تو یوسف (علیہ السلام) نے ان پر احسان کیا اور اپنے جوانوں سے کہہ کر ان کی رقم ان کی بوریوں میں ان کے علم کے بغیر رکھوا دی، جس کا علم انھیں گھر جا کر ہوا۔ اب ان کا سگا بھائی آیا تو انھوں نے اس کی خاص مدد کے لیے خاموشی سے کسی کو بھی بتائے بغیر اس کے سامان میں وہ پیمانہ خود ہی رکھ دیا کہ اس میں وہ مشقت نہ تھی جو دس بھائیوں کا سارا سامان واپس رکھنے میں تھی اور بھائیوں کے علم میں آنے سے حسد کا بھی خطرہ تھا، اس لیے اس چیز سے صرف وہ آگاہ تھے، دوسرا کوئی بھی آگاہ نہ تھا، قافلہ روانہ ہونے سے پہلے گودام کے محافظوں میں سے کسی کو پیمانے کی ضرورت پڑی، جب وہ نہ ملا تو تلاش شروع ہوئی، غور و فکر کیا گیا، کون چور ہوسکتا ہے، یہاں کون کون آیا ہے ؟ ان بھائیوں کے سوا وہاں کوئی آیا ہی نہ تھا، اس لیے ایک اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ قافلے والو ! تم چور ہو۔ ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی۔ چناچہ ان کی آئندہ ساری گفتگو اس اعلان کرنے والے اور اس کے ساتھی گودام کے محافظوں سے ہوئی، جس میں انھوں نے خود ہی چور کی سزا بھی بتادی جو ان کے ہاں رائج تھی، پھر ان محافظوں میں سے ایک نے تلاشی لی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے تدبیر ہوئی کہ اس نے اتفاق سے پہلے دوسرے بھائیوں کے سامان کی پڑتال کی، پھر یوسف (علیہ السلام) کے بھائی کے سامان سے وہ پیمانہ نکال لیا اور بھائیوں ہی کی بتائی ہوئی سزا کے مطابق اس بھائی کو روک لیا۔ یوسف (علیہ السلام) اس معاملے سے بالکل بیخبر تھے مگر جب بات یہاں تک پہنچی اور یوسف (علیہ السلام) کو اطلاع ملی تو انھوں نے اسے اللہ کی طرف سے تدبیر سمجھ کر خاموشی اختیار فرمائی، بھائی کے سامان سے مدعا برآمد ہونے کے بعد وہ اس کی صفائی دے بھی نہیں سکتے تھے، ورنہ الزام آتا کہ ایک ثابت شدہ مجرم کی طرف داری اور اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ یوسف (علیہ السلام) جیسا شخص تہمت کا نشانہ بننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتا۔ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دو انصاری صحابیوں کو بلا کر اپنے پاس کھڑی ہوئی خاتون کے متعلق بتانا کہ یہ صفیہ (میری بیوی) ہے، اس کی دلیل ہے۔ البتہ اپنی زبان سے اس بھائی کو چور بھی نہیں کہا۔ ان کی طبیعت کی پاکیزگی اور صدق کا اندازہ ان کی اس بات سے لگائیے کہ جب بھائیوں نے کہا کہ اس کے والد بہت بوڑھے بزرگ ہیں، آپ اسے جانے دیں اور ہم میں سے کسی کو اس کی جگہ رکھ لیں تو یوسف (علیہ السلام) نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم تو چور ہی کو پکڑیں گے بلکہ فرمایا کہ ہم تو اسی کو پکڑیں گے جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے۔ یہ تفسیر آیات کے بالکل مطابق صاف اور سادہ ہے اور اس میں یوسف (علیہ السلام) پر کوئی اعتراض نہیں آتا، جس کا جواب دینے کی ضرورت ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The present verses describe how Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) arranged to have his real brother, Benyamin, stay on with him. All brothers were given grains according to rules. The grains for each brother was loaded on his camel, separately and by name. In the supply of grain loaded on the camel for Benyamin, a bowl was concealed. This bowl has been called: سِقَایَہ (siqayah) at one place, and: صُوَاعَ الْمَلِكِ (suwa& al-malik) at another. The word: سِقَایَہ (siqayah) means a bowl used to drink water from, and: صُوَاعَ (suwa& ) too is a utensil similar to it. That it has been attributed to ` malik& or king shows the additional feature that this bowl had some special value or status. According to some narrations, it was made of a precious stone similar to emerald. Oth¬ers say that it was made of gold, or silver. However, this bowl hidden in Benyamin&s baggage was fairly precious besides having some special con¬nection with the king of Egypt - whether he used it himself, or had it de-clared to be the official measure of grains. In the second sentence of verse 70, it is said: ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ‌ إِنَّكُمْ لَسَارِ‌قُونَ Then, an announcer shouted out, |"0 people of the caravan, you are thieves.|" Here, the word: (thumma ثُمَّ : translated as ` then& ) shows that this public announcement was not made instantly. Instead, a temporary delay was allowed for the caravan to leave. The announcement was made after that to offset the likelihood of anyone sensing a foul play. After all, this proclaimer identified the caravan of the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) as the thieves.

خلاصہ تفسیر : پھر جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان (غلہ اور روانگی کا) تیار کردیا تو (خود یا کسی معتمد کی معرفت) پانی پینے کا برتن (کہ وہی پیمانہ غلہ دینے کا بھی تھا) اپنے بھائی کے اسباب میں رکھ دیا پھر (جب یہ لاد پھاند کر چلے تو یوسف (علیہ السلام) کے حکم سے پیچھے سے) ایک پکارنے والے نے پکارا کہ اے قافلہ والو تم ضرور چور ہو وہ ان (تلاش کرنے والوں) کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے کہ تمہاری کیا چیز گم ہوگئی ہے (جس کی چوری کا ہم پر شبہ ہوا) انہوں نے کہا کہ ہم کو بادشاہی پیمانہ نہیں ملتا (وہ غائب ہے) اور جو شخص اس کو (لا کر) حاضر کرے اس کو ایک بار شتر غلہ (بطور انعام کے خزانہ سے) ملے گا (اور یا یہ مطلب ہو کہ اگر خود چور بھی مال دیدے تو عفو کے بعد انعام پائے گا) اور میں اس (کے دلوانے) کا ذمہ دار ہوں (غالبا یہ ندا اور یہ وعدہ انعام بحکم یوسف (علیہ السلام) ہوگا) یہ لوگ کہنے لگے کہ بخدا تم کو خوب معلوم ہے کہ ہم ملک میں فساد پھیلانے (جس میں چوری بھی داخل ہے) نہیں آئے اور ہم لوگ چوری کرنے والے نہیں (یعنی یہ شیوہ نہیں ہے) ان (ڈھونڈنے والے) لوگوں نے کہا اچھا اگر تم جھوٹے نکلے (اور تم میں سے کسی پر سرقہ ثابت ہوگیا) تو اس (چور) کی کیا سزا ہے انہوں نے (موافق شریعت یعقوب (علیہ السلام) کے) جواب دیا کہ اس کی سزا یہ ہے وہ جس شخص کے اسباب میں ملے پس وہی اپنی سزا ہے (یعنی چوری کی عوض میں خود اس کی ذات کو صاحب مال اپنا غلام بنا لے) ہم لوگ ظالموں (یعنی چوروں) کو ایسی سزا دیا کرتے ہیں (یعنی ہماری شریعت میں یہی مسئلہ اور عمل ہے غرض یہ امور باہم ٹھہرنے کے بعد اسباب اتروایا گیا) پھر (تلاشی کے وقت) یوسف (علیہ السلام) نے (خود یا کسی معتمد کی معرفت) اپنے بھائی کے (اسباب کے) تھیلے سے قبل تلاشی کی ابتداء اول دوسرے بھائیوں کے (اسباب کے) تھیلوں سے کی پھر (اخیر میں) اس (برتن) کو اپنے بھائی کے (اسباب کے) تھیلے سے برآمد کیا ہم نے یوسف (علیہ السلام) کی خاطر سے اس طرح (بنیامین کے رکھنے کی) تدبیر فرمائی (وجہ اس تدبیر کی یہ ہوئی کہ) یوسف اپنے بھائی کو اس بادشاہ (مصر) کے قانون کی رو سے نہیں لے سکتے تھے (کیونکہ اس کے قانوں میں کچھ تادیب وجرمانہ تھا (روی الطبرانی عن معمر والاول فی روح المعانی) مگر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کو منظور تھا (اس لئے یوسف (علیہ السلام) کے دل میں یہ تدبیر آئی اور ان لوگوں کے منہ سے یہ فتویٰ نکلا اور اس مجموعہ سے تدبیر راست آگئی اور چونکہ یہ حقیقۃً غلام بنانا نہ تھا بلکہ بنیامین کی خوشی سے صورت غلامی کی اختیار کی تھی اس لئے استرقاق حر کا شبہ لازم نہیں آیا اور گو یوسف (علیہ السلام) بڑے عالم و عاقل تھے مگر پھر بھی ہماری تدبیر سکھانے کے محتاج تھے بلکہ ہم جس کو چاہتے ہیں (علم میں) خاص درجوں تک بڑھا دیتے ہیں اور تمام علم والوں سے بڑھ کر ایک بڑا علم والا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ ) جب مخلوق کا علم ناقص ٹھہرا اور علم خالق کامل تو لامحالہ ہر مخلوق اپنے علم میں اور تدبیر میں محتاج ہوگی خالق کی، اس لئے کد نَا اور الاَّ اَن یشآء اللہ کہا گیا حاصل یہ کہ جب ان کے اسباب سے وہ برتن برآمد ہوگیا اور بنیامین روک لئے گئے تو وہ سب بڑے شرمندہ ہوئے۔ معارف و مسائل : آیات مذکورہ میں اس کا بیان ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک لینے کے لئے یہ حیلہ اور تدبیر اختیار کی کہ جب سب بھائیوں کو قاعدہ کے موافق غلہ دیا گیا تو ہر بھائی کا غلہ ایک مستقل اونٹ پر علیحٰدہ علیحٰدہ نام بنام بار کیا گیا، بنیامین کے لئے جو غلہ اونٹ پر لادا گیا اس میں ایک برتن چھپا دیا گیا اس برتن کو قرآن کریم نے ایک جگہ بلفظ سقایۃ اور دوسری جگہ صُوَاعَ الْمَلِكِ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے سقایہ کے معنی پانی پینے کا برتن اور صواع بھی اسی طرح کے برتن کو کہتے اس کو ملک کی طرف منسوب کرنے سے اتنی بات اور معلوم ہوئی کہ یہ برتن کوئی خاص قیمت اور حیثیت رکھتا تھا بعض روایات میں ہے کہ زبرجد کا بنا ہوا تھا بعض نے سونے کا بعض نے چاندی کا بتلایا ہے بہرحال یہ برتن جو بنیامین کے سامان میں چھپا دیا گیا تھا خاصہ قیمتی برتن ہونے کے علاوہ ملک مصر سے کوئی اختصاص بھی رکھتا تھا خواہ یہ کہ وہ خود اس کو استعمال کرتے تھے یا یہ کہ ملک نے بامر خود اس برتن کو غلہ ناپنے کا پیمانہ بنادیا تھا، (آیت) ثُمَّ اَذَّنَ مُؤ َذِّنٌ اَيَّــتُهَا الْعِيْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ یعنی کچھ دیر کے بعد ایک منادی کرنے والے نے پکارا کہ اے قافلہ والو تم چور ہو، یہاں لفظ ثم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منادی فوراً ہی نہیں کی گئی بلکہ کچھ مہلت دیگئی یہاں تک کہ قافلہ روانہ ہوگیا اس کے بعد یہ منادی کی گئی تاکہ کسی کو جعلسازی کا شبہ نہ ہوجائے، بہرحال اس منادی کرنے والے نے برادران یوسف (علیہ السلام) کے قافلہ کو چور قرار دیدیا

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِيْ رَحْلِ اَخِيْهِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَيَّــتُهَا الْعِيْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ 70؀ جهز قال تعالی: فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهازِهِمْ [يوسف/ 70] ، الجَهَاز : ما يعدّ من متاع وغیره، والتجهيز : حمل ذلک أو بعثه، ( ج ھ ز ) الجھاز ۔ سازو سامان جو تیار کر کے رکھا جائے ۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهازِهِمْ [يوسف/ 70] جب ان کے لئے ان کا سامان تیار کردیا ۔ التجھیز ( تفعیل ) تیار کردہ سامان کو لادنا یا بھیجنا سقاية ما يجعل فيه ما يسقی، وأسقیتک جلدا : أعطیتکه لتجعله سقاء، وقوله تعالی: جَعَلَ السِّقايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ [يوسف/ 70] ، فهو المسمّى صواع الملک، فتسمیته السِّقَايَةَ تنبيها أنه يسقی به، وتسمیته صواعا أنه يكال به . سقاية ( مشکیزہ ) وہ برتن جس میں پینے کی چیز رکھی جائے اسی سے ہے اسقیتک جلدا کہ ميں نے تمہیں ( مشکیزہ بنانے کے لئے چمڑا دیا ) اور آیت کریمہ : جَعَلَ السِّقايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ [يوسف/ 70]( تو ) اپنے بھائی کے شلتیے میں پینے کا برتن رکھ دیا ۔ میں سقایۃ سے مراد وہی ہے جسے ( بعد کی آیت ہیں ) صواع الملک کہا گیا ہے اس ایک ہی برتن کسے یہ دونام دو اعتبار سے ہیں یعنی اس کے ساتھ پانی پینے کے لحاظ سے اسے سقایۃ کہا ہے اور اس لحاظ سے کہ اس کے ساتھ غلہ ماپا جاتا ہے اسے صواع کہد یا ہے ۔ رحل الرَّحْلُ ما يوضع علی البعیر للرّكوب، ثم يعبّر به تارة عن البعیر، وتارة عمّا يجلس عليه في المنزل، وجمعه رِحَالٌ. وَقالَ لِفِتْيانِهِ اجْعَلُوا بِضاعَتَهُمْ فِي رِحالِهِمْ [يوسف/ 62] ، والرِّحْلَةُ : الِارْتِحَالُ. قال تعالی: رِحْلَةَ الشِّتاءِ وَالصَّيْفِ [ قریش/ 2] ، ( ر ح ل ) الرحل ہر وہ چیز جسے اونٹ پر اس لئے باندھا جائے کہ اس پر سوار ہوا جائے پھر یہ لفظ مجازا خود اونٹ پر بولا جانے لگا ہے اور کبھی رحل کا لفظ اس چیز پر بھی بولا جاتا ہے جس پر گھر میں بیٹھا جاتا ہے ۔ اس کی جمع رجال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے ؛َ وَقالَ لِفِتْيانِهِ اجْعَلُوا بِضاعَتَهُمْ فِي رِحالِهِمْ [يوسف/ 62] تو اس نے اپنے نوکروں سے کہا کہ ان کا سرمایہ ان کے کچادوں میں رکھ دو ۔ الرحلۃ ( مصدر ) اس کے اصل معنی سفر یا کوچ کرنے میں قرآن میں ہے : رِحْلَةَ الشِّتاءِ وَالصَّيْفِ [ قریش/ 2] جاڑے اور گرمی کے سفروں کو ( اکٹھا رکھنے والے ) عير العِيرُ : القوم الذین معهم أحمال المیرة، وذلک اسم للرّجال والجمال الحاملة للمیرة، وإن کان قد يستعمل في كلّ واحد من دون الآخر . قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ [يوسف/ 94] ، أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف/ 70] ، وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنا فِيها [يوسف/ 82] ، ( ع ی ر ) العیر قافلہ جو غذائی سامان لاد کر لاتا ہے اصل میں یہ لفظ غلہ بردار اونٹوں اور ان کے ساتھ جو لوگ ہوتے ہیں ان کے مجموعہ پر بولاجاتا ہے مگر کبھی اس کا استعمال صرف ان اونٹوں پر ہوتا ہے جو غذائی سامان اٹھا کر لاتے ہیں اور کبھی ان لوگوں پر بولا جاتا ہے جو کہیں سے غذائی سامان لاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ [يوسف/ 94] جب قافلہ مصر سے ردانہ ہوا ۔ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف/ 70] کہ قافلے والوں تم تو چور ہو ۔ وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنا فِيها [يوسف/ 82] اور جس قافلے میں ہم آئے ۔ اور عیر کا لفظ متعدد ومعنوں میں استعمال ہوتا ہے ( 1 ) گور کر ( 2 ) پاؤں کی پشت پرا بھری ہوئی پڈی ( 3 ) آنکھوں کی پتلی ، ( 4 ) کان کی پچھلی طرف ابھری ہوئی نرم ہڈی ( 5 ) خس وخا شاک جو پانی کے اوپر جمع ہوجاتا ہے ( 6 ) میخ ( 7 ) تیر کے پھل کا درمیانی حصہ جو اوپر ابھرا ہوا ہونا ہے سرق السَّرِقَةُ : أخذ ما ليس له أخذه في خفاء، وصار ذلک في الشّرع لتناول الشیء من موضع مخصوص، وقدر مخصوص، قال تعالی: وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ [ المائدة/ 38] ، وقال تعالی: قالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ [يوسف/ 77] ، وقال : أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف/ 70] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، ( س ر ق ) السرقتہ ( مصدر ض ) اس کے اصل معنی خفیہ طور پر اس چیز کے لے لینے کے ہیں جس کو لینے کا حق نہ ہوا اور اصطلاح شریعت میں کسی چیز کو محفوظ جگہ سے مخصوص مقدار میں لے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ [ المائدة/ 38] اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ۔ قالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ [يوسف/ 77] ( برداران یوسف نے ) کہا اگر اس نے چوری کی ہو تو ( کچھ عجب نہیں کہ ) اس کے ایک بھائی نے بھی پہلے چوری کی تھی ۔ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف/ 70] کہ قافلہ والو تم تو چور ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٠۔ ٧١) چناچہ ان لوگوں کا اناج تول کر تیار کردیا (اور بنیامین اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے باہم مشورہ سے) وہ پیالہ جس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) پانی پیا کرتے تھے اور غلہ ماپا کرتے تھے، بنیامین کے سامان میں رکھ دیا پھر ان کو روانگی کا حکم دیا اور ان کے پیچھے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے ایک خادم کو بھیج دیا، اس نے پکارا کہ قافلہ والوں تم ضرور چور ہو تو سب بھائی تلاشی لینے والوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے تمہیں کس چیز کی تلاش ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ (فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِيْ رَحْلِ اَخِيْهِ ) یہ بادشاہ کا خصوصی جام تھا جو سونے کا بنا ہوا تھا۔ (ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَيَّــتُهَا الْعِيْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ ) جب وہ قافلہ چل پڑا تو اسے روک لیا گیا کہ ہمارے ہاں سے کوئی چیز چوری ہوئی ہے اور ہمیں اس بارے میں تم لوگوں پر شک ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

56. In all probability, Prophet Joseph put the cup in his brother’s pack with his knowledge and consent, as may be inferred from the preceding verse. Obviously, Prophet Joseph desired to free his brother from the oppression of the cruel step brothers and he himself was reluctant to go back with them. But this could not be done directly and openly without disclosing his own identity, which was not then expedient under the circumstances. Therefore both the brothers might have thought out this plan, though this would have put the younger brother in an embarrassing situation for the time being because of his involvement in a case of theft. But they had adopted this plan because afterwards both the brothers could clear it easily by disclosing the real matter. 57. There is nothing in this verse nor in the succeeding verses to show that Prophet Joseph took his servants in his confidence in regard to this matter, and instructed them to bring a false accusation against the travelers. The simple explanation of the incident may be this. The cup might have been quietly and secretly put in the pack. Afterwards when the servants did not find it, they might have come to the inevitable conclusion that it must have been stolen by the travelers who were staying there.

۵٦ ۔ پیالہ رکھنے کا فعل غالبا حضرت یوسف نے اپنے بھائی کی رضا مندی سے اور اس کے علم میں کیا تھا جیسا کہ اس سے پہلے والی آیت اشارہ کر رہی ہے ۔ حضرت یوسف اپنے مدتوں کے بچھڑے ہوئے بھائی کو ان ظالم سوتیلے بھائیوں کے پنجے سے چھڑانا چاہتے ہوں گے ، بھائی خود بھی ان ظالموں کے ساتھ واپس نہ جانا چاہتا ہوگا ، مگر علانیہ آپ کا اسے روکنبا اور اس کا رک جانا بغیر اس کے ممکن نہ تھا کہ حضرت یوسف اپنی شخصیت کو ظاہر کرتے ، اور اس کا اظہار اس موقع پر مصلحت کے خلاف تھا ، اس لیے دونوں بھائیوں میں مشہور ہوا ہوگا کہ اسے روکنے کی یہ تدبیر کی جائے ، اگرچہ تھوڑی دیر کے لیے اس میں بھائی کی سبکی تھی ، اس پر چوری کا دھبہ لگتا تھا ، لیکن بعد میں یہ دھبہ اس طرح بآسانی دھل سکتا تھا کہ دونوں بھائی اصل معاملہ کو دنیا پر ظاہر کردیں ۔ ۵۷ ۔ اس آیت میں اور بعد والی آیات میں بھی کہیں ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے جس سے یہ گمان کیا جاسکے کہ حضڑت یوسف نے اپنے ملازموں کو اس راز میں شریک کیا تھا اور انہیں خود یہ سکھایا تھا کہ قافلے والوں پر جھوٹا الزام لگاؤ ، واقعہ کی سادہ صورت جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ پیالہ خاموشی کے ساتھ رکھ دیا گیا ہوگا ، بعد میں جب سرکاری ملازموں نے اسے نہ پایا ہوگا تو قیاس کیا ہوگا کہ ہو نہ ہو یہ کام انہی قافلہ والوں میں سے کسی کا ہے جو یہاں ٹھہرے ہوئے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

46: یہاں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود اپنی طرف سے پیالہ ان کے سامان میں رکھنے کے بعد اتنے و ثوق کے ساتھ ان کو چور قرار دینا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ اس کے جواب میں بعض حضرات نے تو یہ موقف اختیار کیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے پیالہ خفیہ طور پر رکھوایا تھا، اور جب عملے کے لوگوں کو پیالہ نہ ملا تو اُنہوں نے اپنی طرف سے اِن لوگوں کو چور قرار دیا، حضرت یوسف علیہ السلام کے حکم سے نہیں۔ لیکن جس سیاق میں قرآنِ کریم نے یہ واقعہ بیان فرمایا ہے، اس میں یہ احتمال بہت بعید معلوم ہوتا ہے۔ بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ِان کو چور قرار دینا ایک توریہ تھا، اور ان کو چور اس معنیٰ میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بچپن میں اپنے والد سے چُرا لیا تھا۔ تیسرے بعض مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ یہ تدبیر چونکہ خود اﷲ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو سکھائی تھی جیسا کہ آگے آیت 76 میں اﷲ تعالیٰ خود فرمایا کہ ’’اس طرح ہم نے یوسف کی خاطر یہ تدبیر کی‘‘ اس لئے جو کچھ ہوا وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ہوا۔ اور جس طرح سورۂ کہف میں حضرت خضر علیہ السلام نے کئی کام بظاہر شریعت کے خلاف کئے، لیکن وہ اﷲ تعالیٰ کے تکوینی حکم سے تھے، اس لئے ان کے لئے جائز تھے۔ اسی طرح یہاں حضرت یوسف علیہ السلام نے جو عمل کیا، وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے کیا، اس لئے ان پر کوئی اِشکال نہیں ہونا چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٠۔ ٧٢۔ جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کا سفر کا سب سامان پورا کردیا اور غلہ ناپ تول کر اونٹوں پر بار کرا دیا تو ایک برتن چاندی کا جس سے پانی پیتے تھے اور اسی سے غلہ بھی ناپ کر لوگوں کو دیتے تھے اور اس برتن کو سقایۃ کہتے تھے یہ برتن اپنے چھوٹے بھائی کے سامان میں پوشیدہ طور پر رکھ دیا جب یہ لوگ وہاں سے کچھ دور نکل گئے تو یوسف (علیہ السلام) کے خدمت گاروں نے وہاں سقایتہ کا پتہ نہ پایا دل میں متفکر ہوئے اور یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کو جو ابھی ابھی غلہ لے کر واپس چلے تھے پکارنے لگے کہ اے قافلہ والو ٹھہر جاؤ تم چور معلوم ہوتے ہو یہ آواز سن کر وہ لوگ پریشان ہوئے اور پھر کر دریافت کیا کہ کیا چیز چوری ہوگئی ہے انہوں نے جواب دیا کہ بادشاہ کا سقایۃ نہیں ملتا اسی کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ پھر منادی نے یہ بھی کہا کہ جو شخص اس کا پتہ لگا دے گا اسے غلہ کا ایک اونٹ کا بوجھ بادشاہ کی طرف سے ملے گا اور ہم اس کے ضامن ہیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ملک عراق سے شام کے ملک کے سفر میں ابراہیم (علیہ السلام) کا گزر ایک ظالم بادشاہ کے شہر پر سے ہوا۔ اس بادشاہ کی یہ عادت تھی کہ مسافروں کی خوبصورت عورتوں کو زبردستی بدکاری کی غرض سے پکڑوا لیا کرتا تھا اور اگر یہ سن لیتا تھا کہ عورت کے ساتھ اس کا شوہر بھی ہے تو اس مرد کو قتل کرا دیتا تھا اس سفر میں ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ آپ کی بی بی سارہ بھی تھیں جو حسن و جمال میں مشہور ہیں ان کے حسن و جمال کے سبب سے جب اس ظالم بادشاہ کے سپاہی حضرت سارہ کو پکڑنے آئے تو اس ظالم کے ہاتھ سے بچنے کے لئے ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سپاہیوں سے یہ حیلہ کیا کہ سارہ کو اپنی بہن بتا دیا جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ میری دینی بہن ہیں ورنہ اصل بہن سے تو ملت ابراہیمی میں نکاح حرام ہے۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح ایک ظالم کے ظلم سے بچنے کی غرض سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک جائز حیلہ کا ذکر حدیث میں ہے اسی طرح بنیامین کو سوتیلے بھائیوں کی جھڑکیوں اور دھمکیوں سے چھوڑانے کی غرض سے یوسف (علیہ السلام) کے ایک جائز حیلہ کا ذکر ان آیتوں میں ہے اور جس طرح دینی بہن ہونے کی نیت سے ابراہیم (علیہ السلام) نے سارہ کو اپنی بہن بتایا تھا اسی طرح یوسف (علیہ السلام) نے اپنے سوتیلے بھائیوں کو اس نیت سے چور ٹھہرایا کہ ان سوتیلے بھائیوں نے یعقوب (علیہ السلام) کی چوری سے یوسف (علیہ السلام) کو مصر کے قافلہ کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ پوشیدہ طریقہ سے کوئی مطلب حاصل کیا جائے تو اس پوشیدہ طریقہ کو حیلہ کہتے ہیں اب اگر کسی جائز مطلب کے لئے حیلہ کیا جاوے تو اس طرح کا حیلہ شرع میں جائز ہے۔ مثلاً قسم کے بعد انشاء اللہ کہہ کر قسم کے وبال سے بچنا یا خریدوفروخت میں کوئی جائز شرط لگا کر نقصان سے بچنا یا لڑائی میں کوئی حیلہ نکال کر دشمن کو دھوکہ دینا یہ سب جائز حیلے اور جائز مطلب ہیں ہاں حیلہ کے ذریعہ سے کسی ناجائز مطلب کو جائز ٹھہرایا جاوے تو یہ ناجائز ہے مثلاً جس طرح یہود نے ہفتہ کے دن مچھلیوں کا شکار ایک حیلہ سے حلال ٹھہرا لیا تھا جس کا ذکر سورت الاعراف میں گزر چکا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:70) العیر۔ قافلہ۔ کارواں یہ مؤنث ہے۔ اور عار یعیر سے مشتق ہے۔ اس کی جمع عیرات اور عیرات ہے۔ صاحب المفردات لکھتے ہیں۔ العیر۔ قافلہ جو غذائی سامان لاد کر لاتا ہے اصل میں یہ لفظ غلہ بردار اونٹوں اور ان کے ساتھ جو لوگ ہوتے ہیں ان کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے مگر کبھی اس کا استعمال صرف ایسے اونٹوں کے لئے اور کبھی صرف ایسے لوگوں کے لئے بھی ہوتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ جو اکثر مفسرین (رح) کے قول کے مطابق چاندی کا تھا۔ بعض کہتی ہیں کہ سونے کا تھا جس پر جواہر لگے تھے لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ کوئی قیمتی پیالہ تھا۔ (کبیر) ۔ 5 ۔ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے کٹورا رکھوانے کا یہ فعل اپنے بھائی کی رضا مندی سے اور اس کے علم میں لا کر کیا ہوگا جیسا کہ اوپر والی آیت سے اندازہ ہوتا ہے واللہ اعلم۔ 6 ۔ وہ اس لحاط سے واقعی چور تھے کہ انہوں نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو باپ سے چرا کر کنویں میں پھینک دیا تھا۔ یا یہ پکارنا حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اشارے اور حکم سے تھا ہی نہیں بلکہ جب لوگوں نے وہ کٹورا نہ پایا تو اسی قافلہ والوں پر چوری کا الزام لگایا جو اس وقت وہاں موجود تھا۔ یہی انسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ آیت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے پیالہ رکھنے کا تذکرہ اپنے غلاموں یا نوکروں سے کردیا تھا۔ (وحیدی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ وہی برتن پیمانہ غلہ دینے کا بھی تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٧٠ تا ٧٨ یہ ایک نہایت ہی دلچسپ منظر ہے۔ اس میں متنوع حرکات ، تاثرات ، سر پر ائز شامل ہیں۔ جیسا کہ کوئی نہایت ہی موثر ، جذباتی اور زندگی سے بھر پور کوئی ڈرامائی منظر ہو سکتا ہے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ قرآن کریم زندہ اور حقیقی واقعات کو نہایت ہی موثر انداز میں بیان کرتا ہے۔ پس پردہ حرکت یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) بادشاہ کے پیمانے یا پیالے کو ان کے سامان میں رکھوا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے یہ پیالہ بیک وقت پینے کے کام بھی آتا تھا اور غلہ ماپنے کا پیمانہ بھی تھا ۔ اس دور میں گندم کو سونے کے پیمانے میں ناپنا تعجب انگیز امر نہیں ہے کیونکہ اس قحط کے دور میں سونے کے مقابلے میں گندم کی اہمیت زیادہ تھی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) پس منظر میں اس پیالے کو اپنے بھائی کے بار میں رکھوا رہے ہیں تا کہ اللہ کی ہدایات کے مطابق اس تدبیر اے بھائی کو پکڑا جاسکے۔ تفصیلات ابھی آرہی ہیں۔ اب جبکہ یہ قافلہ بار لدوا کر واپس عازم کنعان ہوچکا تو ایک منادی نمودار ہوتا ہے اور وہ اعلان عام کی شکل میں آواز دیتا ہے اور یہ اعلان پورے قافلے کے لئے ہے۔ ایتھا العیر انکم لسرقون (١٢ : ٧٠) “ اے قافلے والو ! تم لوگ چور ہو ”۔ برادران یوسف ڈر سے کانپ اٹھتے ہیں کیونکہ چوری کا الزام پورے قافلے پر لگ چکا ہے۔ ان کے لئے اس کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ وہ حضرت یعقوب علی السلام ، ابن اسحاق ابن ابراہیم (علیہم السلام) کے بیٹے ہیں۔ یہ لوگ اپنے جانور اور بار واپس کرلیتے ہیں تا کہ اس الزام کی تحقیقات کی جاسکے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

61:۔ جب بھائیوں کو غلہ دیکر رخصت کرنے لگے اور سب کا مال ومتاع تیار کرنے لگے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے آنکھ بچا کر سقایہ (پانی پینے کا برتن جس سے غلہ ناپنے کا کام بھی لیتے تھے) ۔ بنیامین کے سامان میں خود رکھ دیا یا کسی نوکر سے رکھوا دیا۔ ” ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ الخ “ جب وہ اپنا مال و متاع اونٹوں پر لاد کر روانہ ہوگئے تو پیمانے کی غلہ ناپنے کے لیے ضرورت پڑی مگر پیمانہ مفقود تھا ملازموں نے خیال کیا کہ ابھی ابھی کنعانی قافلہ روانہ ہوا ہے شاید وہی چرا لے گئے ہوں چناچہ وہ ان کے پیچھے دوڑے اور ان میں سے ایک نے انہیں آواز دی اے قافلہ والو ! ٹھہرو تم چور معلوم ہوتے ہو۔ ” قَالُوْا وَ اَقْبَلُوْا الخ “ وہ پیچھے پلٹے اور ان سے پوچھا کہ تمہاری کیا چیز چوری ہوگئی۔ ” قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ “ انہوں نے کہا بادشاہ کا صواع گم ہوگیا ہے۔ آواز دینے والے نے کہا جو شخص بادشاہ کا پیمانہ واپس کردے گا میں اسے اونٹ کا بوجھ غلہ دلاؤں گا اور میں اس کی ضمانت لیتا ہوں۔ سقایہ اور صواع اور ایک ہی چیز کے دو نام ہیں کیونکہ اس سے دونوں کام لیے جاتے تھے والسقایۃ والصواع شیء واحد (قرطبی ج 9 ص 229) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

70 ۔ چناچہ دونوں بھائیوں کے مشورے سے بن یامین کو روکنے کی تدبیر کی گئی اور جب بھائیوں کو بھرتی وغیرہ دیکر ان کا سامان درست کیا گیا تو پانی پینے کا برتن جو غلہ دینے کا پیمانہ بھی تھا اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا اور جب وہ بھائی غلہ وغیرہ لے کر چلے تو شاہی خدمت گاروں میں سے ایک پکارنے والے نے پکارا اے قافلو والو ! یقینا تم لوگ چور ہو۔