Commentary The present verses describe how Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) arranged to have his real brother, Benyamin, stay on with him. All brothers were given grains according to rules. The grains for each brother was loaded on his camel, separately and by name. In the supply of grain loaded on the camel for Benyamin, a bowl was concealed. This bowl has been called: سِقَایَہ (siqayah) at one place, and: صُوَاعَ الْمَلِكِ (suwa& al-malik) at another. The word: سِقَایَہ (siqayah) means a bowl used to drink water from, and: صُوَاعَ (suwa& ) too is a utensil similar to it. That it has been attributed to ` malik& or king shows the additional feature that this bowl had some special value or status. According to some narrations, it was made of a precious stone similar to emerald. Oth¬ers say that it was made of gold, or silver. However, this bowl hidden in Benyamin&s baggage was fairly precious besides having some special con¬nection with the king of Egypt - whether he used it himself, or had it de-clared to be the official measure of grains. In the second sentence of verse 70, it is said: ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ Then, an announcer shouted out, |"0 people of the caravan, you are thieves.|" Here, the word: (thumma ثُمَّ : translated as ` then& ) shows that this public announcement was not made instantly. Instead, a temporary delay was allowed for the caravan to leave. The announcement was made after that to offset the likelihood of anyone sensing a foul play. After all, this proclaimer identified the caravan of the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) as the thieves.
خلاصہ تفسیر : پھر جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان (غلہ اور روانگی کا) تیار کردیا تو (خود یا کسی معتمد کی معرفت) پانی پینے کا برتن (کہ وہی پیمانہ غلہ دینے کا بھی تھا) اپنے بھائی کے اسباب میں رکھ دیا پھر (جب یہ لاد پھاند کر چلے تو یوسف (علیہ السلام) کے حکم سے پیچھے سے) ایک پکارنے والے نے پکارا کہ اے قافلہ والو تم ضرور چور ہو وہ ان (تلاش کرنے والوں) کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے کہ تمہاری کیا چیز گم ہوگئی ہے (جس کی چوری کا ہم پر شبہ ہوا) انہوں نے کہا کہ ہم کو بادشاہی پیمانہ نہیں ملتا (وہ غائب ہے) اور جو شخص اس کو (لا کر) حاضر کرے اس کو ایک بار شتر غلہ (بطور انعام کے خزانہ سے) ملے گا (اور یا یہ مطلب ہو کہ اگر خود چور بھی مال دیدے تو عفو کے بعد انعام پائے گا) اور میں اس (کے دلوانے) کا ذمہ دار ہوں (غالبا یہ ندا اور یہ وعدہ انعام بحکم یوسف (علیہ السلام) ہوگا) یہ لوگ کہنے لگے کہ بخدا تم کو خوب معلوم ہے کہ ہم ملک میں فساد پھیلانے (جس میں چوری بھی داخل ہے) نہیں آئے اور ہم لوگ چوری کرنے والے نہیں (یعنی یہ شیوہ نہیں ہے) ان (ڈھونڈنے والے) لوگوں نے کہا اچھا اگر تم جھوٹے نکلے (اور تم میں سے کسی پر سرقہ ثابت ہوگیا) تو اس (چور) کی کیا سزا ہے انہوں نے (موافق شریعت یعقوب (علیہ السلام) کے) جواب دیا کہ اس کی سزا یہ ہے وہ جس شخص کے اسباب میں ملے پس وہی اپنی سزا ہے (یعنی چوری کی عوض میں خود اس کی ذات کو صاحب مال اپنا غلام بنا لے) ہم لوگ ظالموں (یعنی چوروں) کو ایسی سزا دیا کرتے ہیں (یعنی ہماری شریعت میں یہی مسئلہ اور عمل ہے غرض یہ امور باہم ٹھہرنے کے بعد اسباب اتروایا گیا) پھر (تلاشی کے وقت) یوسف (علیہ السلام) نے (خود یا کسی معتمد کی معرفت) اپنے بھائی کے (اسباب کے) تھیلے سے قبل تلاشی کی ابتداء اول دوسرے بھائیوں کے (اسباب کے) تھیلوں سے کی پھر (اخیر میں) اس (برتن) کو اپنے بھائی کے (اسباب کے) تھیلے سے برآمد کیا ہم نے یوسف (علیہ السلام) کی خاطر سے اس طرح (بنیامین کے رکھنے کی) تدبیر فرمائی (وجہ اس تدبیر کی یہ ہوئی کہ) یوسف اپنے بھائی کو اس بادشاہ (مصر) کے قانون کی رو سے نہیں لے سکتے تھے (کیونکہ اس کے قانوں میں کچھ تادیب وجرمانہ تھا (روی الطبرانی عن معمر والاول فی روح المعانی) مگر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کو منظور تھا (اس لئے یوسف (علیہ السلام) کے دل میں یہ تدبیر آئی اور ان لوگوں کے منہ سے یہ فتویٰ نکلا اور اس مجموعہ سے تدبیر راست آگئی اور چونکہ یہ حقیقۃً غلام بنانا نہ تھا بلکہ بنیامین کی خوشی سے صورت غلامی کی اختیار کی تھی اس لئے استرقاق حر کا شبہ لازم نہیں آیا اور گو یوسف (علیہ السلام) بڑے عالم و عاقل تھے مگر پھر بھی ہماری تدبیر سکھانے کے محتاج تھے بلکہ ہم جس کو چاہتے ہیں (علم میں) خاص درجوں تک بڑھا دیتے ہیں اور تمام علم والوں سے بڑھ کر ایک بڑا علم والا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ ) جب مخلوق کا علم ناقص ٹھہرا اور علم خالق کامل تو لامحالہ ہر مخلوق اپنے علم میں اور تدبیر میں محتاج ہوگی خالق کی، اس لئے کد نَا اور الاَّ اَن یشآء اللہ کہا گیا حاصل یہ کہ جب ان کے اسباب سے وہ برتن برآمد ہوگیا اور بنیامین روک لئے گئے تو وہ سب بڑے شرمندہ ہوئے۔ معارف و مسائل : آیات مذکورہ میں اس کا بیان ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک لینے کے لئے یہ حیلہ اور تدبیر اختیار کی کہ جب سب بھائیوں کو قاعدہ کے موافق غلہ دیا گیا تو ہر بھائی کا غلہ ایک مستقل اونٹ پر علیحٰدہ علیحٰدہ نام بنام بار کیا گیا، بنیامین کے لئے جو غلہ اونٹ پر لادا گیا اس میں ایک برتن چھپا دیا گیا اس برتن کو قرآن کریم نے ایک جگہ بلفظ سقایۃ اور دوسری جگہ صُوَاعَ الْمَلِكِ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے سقایہ کے معنی پانی پینے کا برتن اور صواع بھی اسی طرح کے برتن کو کہتے اس کو ملک کی طرف منسوب کرنے سے اتنی بات اور معلوم ہوئی کہ یہ برتن کوئی خاص قیمت اور حیثیت رکھتا تھا بعض روایات میں ہے کہ زبرجد کا بنا ہوا تھا بعض نے سونے کا بعض نے چاندی کا بتلایا ہے بہرحال یہ برتن جو بنیامین کے سامان میں چھپا دیا گیا تھا خاصہ قیمتی برتن ہونے کے علاوہ ملک مصر سے کوئی اختصاص بھی رکھتا تھا خواہ یہ کہ وہ خود اس کو استعمال کرتے تھے یا یہ کہ ملک نے بامر خود اس برتن کو غلہ ناپنے کا پیمانہ بنادیا تھا، (آیت) ثُمَّ اَذَّنَ مُؤ َذِّنٌ اَيَّــتُهَا الْعِيْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ یعنی کچھ دیر کے بعد ایک منادی کرنے والے نے پکارا کہ اے قافلہ والو تم چور ہو، یہاں لفظ ثم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منادی فوراً ہی نہیں کی گئی بلکہ کچھ مہلت دیگئی یہاں تک کہ قافلہ روانہ ہوگیا اس کے بعد یہ منادی کی گئی تاکہ کسی کو جعلسازی کا شبہ نہ ہوجائے، بہرحال اس منادی کرنے والے نے برادران یوسف (علیہ السلام) کے قافلہ کو چور قرار دیدیا