Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 82

سورة يوسف

وَ سۡئَلِ الۡقَرۡیَۃَ الَّتِیۡ کُنَّا فِیۡہَا وَ الۡعِیۡرَ الَّتِیۡۤ اَقۡبَلۡنَا فِیۡہَا ؕ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ ﴿۸۲﴾

And ask the city in which we were and the caravan in which we came - and indeed, we are truthful,"

آپ اس شہر کے لوگوں سے دریافت فرما لیں جہاں ہم تھے اور اس قافلہ سے بھی پوچھ لیں جس کے ساتھ ہم آئے ہیں ۔ اور یقیناً ہم بالکل سچے ہیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي كُنَّا فِيهَا ... And ask (the people of) the town where we have been, in reference to Egypt, according to Qatadah, or another town. ... وَالْعِيْرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا ... and the caravan in which we returned, `about our truthfulness, honesty, protection and sincere guardianship, ... وَإِنَّا لَصَادِقُونَ and indeed we are telling the truth. in what we have told you, that Binyamin stole and was taken as a captive as compensation for his theft.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

82۔ 1 اَلْقَرْیَۃَ مراد مصر ہے جہاں وہ غلہ لینے گئے تھے۔ مطلب اہل مصر ہیں۔ اسی طرح والْعِیرَ سے مراد اصحاب العیر یعنی اہل قافلہ ہیں۔ آپ مصر جا کر اہل مصر سے اور اس قافلے والوں سے، جو ہمارے ساتھ آیا ہے، پوچھ لیں کہ ہم جو کچھ بیان کر رہے ہیں، وہ سچ ہے، اس میں جھوٹ کی کوئی آمیزش نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٩] یعنی اگر آپ ہم پر اعتبار نہیں کرتے تو اہل مصر سے دریافت کرلیجئے یا اس قافلہ والوں سے پوچھ لیجئے جو ہمارے ہمراہی تھے۔ ان شہادتوں سے آپ کو یقین آجائے گا کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں سچی بات ہی کہہ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں قریۃ کا لفظ اہل لقریہ یعنی بستی والوں کے معنی میں اور العیر قافلہ والوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَسْـــَٔـلِ الْقَرْيَةَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْهَا ۔۔ : اس میں انھوں نے اپنی صفائی کے لیے تین چیزیں بتائیں : 1 اس بستی (والوں) سے پوچھ لیں جس میں ہم تھے۔ 2 اس قافلے (والوں) سے بھی جس کے ساتھ ہم آئے ہیں۔ 3 اور (قسم ہے کہ) بیشک ہم یقیناً سچے ہیں۔ اپنی صفائی میں اتنی شہادتیں پیش کرنے کا باعث یہ تھا کہ انھیں معلوم تھا کہ والد ہماری بات پر اعتبار نہیں کریں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَسْـــَٔـلِ الْقَرْيَةَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْهَا وَالْعِيْرَ الَّتِيْٓ اَقْبَلْنَا فِيْهَا ۭ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ 82؀ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں عير العِيرُ : القوم الذین معهم أحمال المیرة، وذلک اسم للرّجال والجمال الحاملة للمیرة، وإن کان قد يستعمل في كلّ واحد من دون الآخر . قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ [يوسف/ 94] ، أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف/ 70] ، وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنا فِيها [يوسف/ 82] ، ( ع ی ر ) العیر قافلہ جو غذائی سامان لاد کر لاتا ہے اصل میں یہ لفظ غلہ بردار اونٹوں اور ان کے ساتھ جو لوگ ہوتے ہیں ان کے مجموعہ پر بولاجاتا ہے مگر کبھی اس کا استعمال صرف ان اونٹوں پر ہوتا ہے جو غذائی سامان اٹھا کر لاتے ہیں اور کبھی ان لوگوں پر بولا جاتا ہے جو کہیں سے غذائی سامان لاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ [يوسف/ 94] جب قافلہ مصر سے ردانہ ہوا ۔ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف/ 70] کہ قافلے والوں تم تو چور ہو ۔ وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنا فِيها [يوسف/ 82] اور جس قافلے میں ہم آئے ۔ اور عیر کا لفظ متعدد ومعنوں میں استعمال ہوتا ہے ( 1 ) گور کر ( 2 ) پاؤں کی پشت پرا بھری ہوئی پڈی ( 3 ) آنکھوں کی پتلی ، ( 4 ) کان کی پچھلی طرف ابھری ہوئی نرم ہڈی ( 5 ) خس وخا شاک جو پانی کے اوپر جمع ہوجاتا ہے ( 6 ) میخ ( 7 ) تیر کے پھل کا درمیانی حصہ جو اوپر ابھرا ہوا ہونا ہے إِقْبَالُ التّوجّه نحو الْقُبُلِ ، كَالاسْتِقْبَالِ. قال تعالی: فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات/ 50] ، وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف/ 71] ، فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ [ الذاریات/ 29] اقبال اور استقبال کی طرح اقبال کے معنی بھی کی کے رو برو اور اس کی طرف متوجہ ہو نیکے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات/ 50] پھر لگے ایک دوسرے کو رو ور ود ملا مت کرنے ۔ وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف/ 71] ، اور وہ ان کی طرف متوجہ ہوکر صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٢) اور اگر یقین نہ ہو تو اس بستی والوں میں سے جو مصر ہی کی ایک بستی ہے کسی سے پوچھ لیجیے اور اس قافلہ والوں سے پوچھ لیجیے جن میں شامل ہو کر ہم یہاں آئے ہیں اور ان کے ساتھ قبیلہ کنعان کے کچھ لوگ آئے تھے اور ہم نے جو کچھ آپ سے بیان کیا اس میں ہم بالکل سچے ہیں، چناچہ سب بھائیوں نے واپس آکر حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے یہ ساری بات بیان کردی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَسْـــَٔـلِ الْقَرْيَةَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْهَا وَالْعِيْرَ الَّتِيْٓ اَقْبَلْنَا فِيْهَا ۭ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ ) آپ مصر سے بھی حقیقت حال معلوم کرا سکتے ہیں یا پھر جس قافلے کے ساتھ ہم گئے تھے اس کے سب لوگ وہاں موجود تھے ان کے سامنے یہ سب کچھ ہوا تھا۔ آپ ان میں سے کسی سے بھی پوچھ لیں وہ سارا ماجرا آپ کو بتادیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12: 82) القریۃ۔ بستی۔ بستی کے رہنے والے اس کی جمع قریٰ ہے جو کہ جمع سماعی نہیں ہے قیاسی ہے۔ کیونکہ قیاسی جمع فعلۃ کی فعال کے وزن پر آتی ہے جیسے ظبیۃ کی جمع ظباء ہے۔ العیر۔ قافلہ ۔ کارواں ۔ عار یعیر سے مشتق ہے جس کے معنی چلنے کے ہیں یہ مؤنث ہے اور اس کی جمع عیرات ہے۔ اقبلنا فیہا۔ جس میں ہم آئے ہیں۔ اقبل (افعال) سے بمعنی آگے آنا۔ متوجہ ہونا۔ رخ کرنا۔ (12: 73) بل سولت لکم انفسکم امرا۔ ملاحظہ ہو ۔ 12:18 ۔ بہم۔ میں ضمیر جمع مذکر غائب آئی ہے کیونکہ اس وقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے تین بیٹے جدا تھے۔ حضرت یوسف۔ بنیامین۔ اور یہودا (جس نے کہا تھا کہ میں تو اس ارض مصر سے نہیں ہٹوں گا۔ جب تک کہ میرا باپ مجھے اجازت نہ دے یا اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ نہ کر دے۔ ملاحظہ ہو آیت نمبر 80 ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 18 ۔ جہاں چوری کا یہ واقعہ پیش آیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ معلوم ہوتا ہے کہ اور بھی کنعان یا آس پاس کے لوگ غلہ لینے گئے ہوں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

70:۔ آپ مصر میں آدمی بھیج کر تصدیق کرلیں اور ان قافلہ والوں سے دریافت فرما لیں جن کے ہمراہ ہم آئے ہیں آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ہم سچ کہہ رہے ہیں۔ ” قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ الخ “ اس سے پہلے اندماج ہے۔ جب نو بھائی مصر سے روانہ ہو کر واپس وطن پہنچے اور سارا ماجرا حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے بیان کیا تو انہوں نے فرمایا نہیں اس میں بھی تمہارا ہی فریب ہے تم نے یوسف کی طرح بنیامین کو بھی کہیں غائب کردیا ہے۔ اچھا میرا کام تو صبر ہی ہے یہ دکھ میرے لیے مقدر ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تینوں بھائیوں کو صحیح سلامت واپس لائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) غیب داں نہ تھے کیونکہ انہوں نے بنیامین کے معاملہ میں بھی اپنے بیٹوں کو ملزم قرار دیا حالانکہ اس میں ان کا کوئی قصور نہ تھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

82 ۔ اور نیز یہ کہ آپ اس بستی کے لوگوں سے دریافت کرلیجئے جہاں ہم مقیم تھے اور ان قافلہ والوں سے پوچھ لیجئے جن کے ساتھ ہم تھے اور شامل ہو کر ان کے ساتھ آئے ہیں اور یقین مانیے ہم بالکل سچ کہتے ہیں ۔ یعنی آپ یا تو مصر میں کسی کو بھیج کر دریافت کرلیجئے کہ یہ واقعہ ہوا یا نہیں یا دوسرے قافلوں کے لوگ جن کے ساتھ شامل ہو کر ہم آئے ہیں ان قافلے والوں سے پوچھ لیجئے غالباً قحط عام تھا اس لئے اور لوگ بھی کنعان کے آس پاس کے مصر جاتے ہوں گے اور کئی کئی قافلے مل کر چلتے ہوں گے جو آنے میں یا جانے میں ساتھ ہوجاتے ہوں گے۔