Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 94

سورة يوسف

وَ لَمَّا فَصَلَتِ الۡعِیۡرُ قَالَ اَبُوۡہُمۡ اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ تُفَنِّدُوۡنِ ﴿۹۴﴾

And when the caravan departed [from Egypt], their father said, "Indeed, I find the smell of Joseph [and would say that he was alive] if you did not think me weakened in mind."

جب یہ قافلہ جدا ہوا تو ان کے والد نے کہا کہ مجھے تو یوسف کی خوشبو آرہی ہے اگر تم مجھے سٹھیایا ہوا قرار نہ دو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ ... And when the caravan departed, (from Egypt), ... قَالَ أَبُوهُمْ ... their father said..., Yaqub, peace be upon him, said to the children who remained with him, ... إِنِّي لاََجِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْلاَ أَن تُفَنِّدُونِ `I do indeed feel the smell of Yusuf, if only you think me not senile. except that you might think me senile because of old age.' Abdur-Razzaq narrated that Ibn Abbas said, "When the caravan departed (from Egypt), a wind started blowing and brought the scent of Yusuf's shirt to Yaqub. He said, إِنِّي لاََجِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْلاَ أَن تُفَنِّدُونِ (I do indeed feel the smell of Yusuf, if only you think me not senile.) He found his scent from a distance of eight days away!" Similar was also reported through Sufyan Ath-Thawri and Shu`bah and others reported it from Abu Sinan. Yaqub said to them, لَوْلاَ أَن تُفَنِّدُونِ (if only you think me not senile). Ibn Abbas, Mujahid, Ata, Qatadah and Sa'id bin Jubayr commented, "If only you think me not a fool!" Mujahid and Al-Hasan said that it means, "If only you think me not old."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

94۔ 1 ادھر یہ قمیص لے کر قافلہ مصر سے اور ادھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعجاز کے طور پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آنے لگ گئی یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اللہ کے پیغمبر کو بھی، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع نہ پہنچے، پیغمبر بیخبر ہوتا ہے، چاہے بیٹا اپنے شہر کے کسی کنوئیں ہی میں کیوں نہ ہو، اور جب اللہ تعالیٰ انتظام فرما دے تو پھر مصر جیسے دور دراز کے علاقے سے بھی بیٹے کی خوشبو آجاتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩١] سیدنا یعقوب کا بیٹوں کو یوسف کے زندہ ہونے کی خبر دینا اور ان کا مذاق اڑانا :۔ ادھر یہ قافلہ مصر سے روانہ ہوا تو ادھر سینکڑوں میل دور کنعان میں سیدنا یعقوب اپنے جدا شدہ بیٹے یوسف کی بو محسوس کرنے لگے۔ مگر جب ان کے پاس ہی ان کی بستی کے ایک کنوئیں میں پڑے رہے اس وقت اس کا علم نہ ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کو اللہ تعالیٰ غیب کا اتنا ہی علم عطا کرتا ہے جتنا وہ چاہتا ہے اور اس وقت عطا کرتا ہے جب چاہتا ہے۔ سیدنا یوسف کی زندگی کے تمام تر واقعات میں اللہ کی مشیئت ہی کام کرتی نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یعقوب کے صبر و تحمل اور توکل علی اللہ کا پورا پورا امتحان لیا۔ پھر جب اس امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد اس کے ثمرہ کا وقت آیا تو ملاقات سے پہلے ہی سیدنا یعقوب پر وجدانی کیفیت طاری کردی۔ یا وحی سے مطلع کردیا۔ مگر اس کیفیت کا آپ گھر والوں سے کھل کر اظہار کرنے سے بھی ہچکچا رہے تھے اور جب کہی تو اس انداز سے کہی کہ اگر تم لوگ یوں نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے کی وجہ سے کچھ بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہوں تو بات یہ ہے کہ مجھے آج یوسف کی خوشبو آرہی ہے اور مشکل یہ ہے کہ یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ چناچہ گھر والوں نے ویسی ہی باتیں کیں جیسا کہ آپ کو اندیشہ تھا۔ کہنے لگے : یوسف کا ذکر تو تم اکثر کرتے ہی رہتے ہوں، اس کی محبت، اس کے زندہ ہونے اور اس سے دوبارہ ملنے کا یقین تو تمہارے دل میں گھر کرچکا ہے یہ تو وہی پرانی باتیں ہیں جو یوسف کی خوشبو بن کر تمہارے دماغ میں آرہی ہیں۔ یوسف سے والہانہ محبت مختلف تخیلات کی صورت میں تمہارے دل میں گردش کرتی رہتی ہے اور وہی تخیل ہمیں بتانے لگتے ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ ۔۔ : اس سے انبیاء کو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کا اندازہ ہوتا ہے اور اس حقیقت کا بھی کہ خود ان کے پاس کتنا علم ہوتا ہے۔ یہی قمیص تھی، اسی راستے سے آئی تھی، چند میل دور کنویں میں پڑے ہوئے لخت جگر کا علم نہ ہوسکا، نہ اس کی خوشبو آئی اور جب اللہ تعالیٰ نے بتایا تو قافلے کے نکلتے ہی یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آنا شروع ہوگئی۔ یہ واقعہ ان بیشمار دلائل میں سے ایک واضح دلیل ہے کہ انبیاء عالم الغیب نہیں ہوتے، ہاں جتنی بات انھیں وحی کے ذریعے سے بتائی جاتی ہے وہ انھیں معلوم ہوجاتی ہے اور یہی عام آدمی اور نبی کا فرق ہے کہ نبی کو وحی الٰہی ہوتی ہے، دوسرے اس نعمت سے محروم ہیں۔ اس بات کو شیخ سعدی نے کمال خوبی کے ساتھ ” گلستان “ میں نظم کیا ہے ؂ یکے پر سید ازاں گم کردہ فرزند کہ اے روشن گہر پیر خردمند زمصرش بوئے پیراہن شمیدی چرا درچاہ کنعانش ندیدی بگفت احوال ما برق جہان است دمے پیدا و دیگردم نہان ست گہے برطارم اعلی نشینم گہے برپشتِ پائے خود نہ بینیم ” یعنی کسی نے اس فرزند کو گم کردینے والے سے پوچھا کہ اے روشن نسب والے عقل مند بزرگ ! تو نے مصر سے اس کی قمیص کی خوشبو پا لی، تونے اسے کنعان کے کنویں میں کیوں نہ دیکھا، اس نے کہا ہمارے (انبیاء کے) احوال کوندنے والی بجلی کی طرح ہیں، ایک دم ظاہر ہوتے اور دوسرے لمحے پوشیدہ ہوجاتے ہیں، کبھی ہم اعلیٰ و بلند مقام پر بیٹھے ہوتے ہیں، کبھی ہم اپنے پاؤں کی پشت پر (لگی چیز) نہیں دیکھتے۔ “ آخری شعر کے پہلے مصرع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معراج کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے میں جبریل (علیہ السلام) کے نماز کے دوران میں آ کر بتانے کی طرف کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جوتے پر نجاست لگی ہے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوتے نماز ہی میں اتار دیے۔ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ : یعنی اگر یہ نہ ہو کہ تم کہو گے کہ بڑھاپے اور یوسف کی محبت کی وجہ سے میری عقل میں خلل پڑگیا ہے۔ : یعنی اگر یہ نہ ہو کہ تم کہو گے کہ بڑھاپے اور یوسف کی محبت کی وجہ سے میری عقل میں خلل پڑگیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse 94 opens with the words: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ‌ ` And when the caravan set out& (and had reached barely outside the limits of the city), then, Sayyidna Yaqub said (to those around him): ` I sense the scent of Yusuf if you do not take me to be senile.& According to a narration of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) there was a travel distance of eight days from the city of Egypt to Canaan, and according to Sayyidna Hasan (رح) the distance was eighty farsakh, that is, nearly two hundred and fifty miles. Unique is the power of Allah Ta` ala who, from such a distance, carried all the way to Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) ، the scent of his son Yusuf (علیہ السلام) through the shirt of his son Yusuf. And something of wonder it certainly is that this scent, when Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was sitting confined into a well of his own homeland, caused no reaction into the smell buds of his father! Right from here, we learn that no miracle is in the control of a prophet. In fact, a miracle is not even the personal act and action of the prophet. This is directly the act of Allah. When Allah Ta` ala wills, He makes a miracle manifest itself. And when the Divine will is not there, the near¬est of the near recedes into the farthest.

وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ یعنی جب قافلہ شہر سے باہر نکلا ہی تھا تو یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے پاس والوں سے کہا کہ اگر تم مجھے بیوقوف نہ کہو تو میں تمہیں بتلاؤں کہ مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے شہر مصر سے کنعان تک ابن عباس (رض) کی روایت کے مطابق آٹھ دن کی مسافت کا راستہ تھا اور حضرت حسن (رض) نے فرمایا کہ اسی ٨٠ فرسخ یعنی تقریبا ڈھائی سو میل کا فاصلہ تھا اللہ تعالیٰ نے اتنی دور سے قمیص یوسف (علیہ السلام) کے ذریعہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو یعقوب (علیہ السلام) کے دماغ تک پہنچا دی اور یہ عجائب میں سے ہے کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے وطن کنعان ہی کے ایک کنویں میں تین روز تک پڑے رہی تو اس وقت یہ خوشبو محسوس نہیں ہوئی یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی معجزہ پیغمبر کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ در حقیقت معجزہ پیغمبر کا اپنا فعل و عمل بھی نہیں ہوتا یہ براہ راست فعل اللہ ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتے ہیں تو معجزہ ظاہر کردیتے ہیں اور جب اذن خداوندی نہیں ہوتا تو قریب سے قریب بھی بعید ہوجاتا ہے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ قَالَ اَبُوْهُمْ اِنِّىْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ 94؀ فصل الفَصْلُ : إبانة أحد الشّيئين من الآخر : حتی يكون بينهما فرجة، ومنه قيل : المَفَاصِلُ ، الواحد مَفْصِلٌ ، قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف/ 94] ، ويستعمل ذلک في الأفعال والأقوال نحو قوله : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان/ 40] ( ف ص ل ) الفصل کے معنی دوچیزوں میں سے ایک کو دوسری سے اسی طرح علیحدہ کردینے کے ہیں کہ ان کے درمیان فاصلہ ہوجائے اسی سے مفاصل ( جمع مفصل ) ہے جس کے معنی جسم کے جوڑ کے ہیں . قرآن میں ہے : وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف/ 94] اور جب قافلہ ( مصر سے ) روانہ ہوا ۔ اور یہ اقول اور اعمال دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان/ 40] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن سب کے اٹھنے کا دن ہے ۔ عير العِيرُ : القوم الذین معهم أحمال المیرة، وذلک اسم للرّجال والجمال الحاملة للمیرة، وإن کان قد يستعمل في كلّ واحد من دون الآخر . قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ [يوسف/ 94] ، أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف/ 70] ، وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنا فِيها [يوسف/ 82] ، ( ع ی ر ) العیر قافلہ جو غذائی سامان لاد کر لاتا ہے اصل میں یہ لفظ غلہ بردار اونٹوں اور ان کے ساتھ جو لوگ ہوتے ہیں ان کے مجموعہ پر بولاجاتا ہے مگر کبھی اس کا استعمال صرف ان اونٹوں پر ہوتا ہے جو غذائی سامان اٹھا کر لاتے ہیں اور کبھی ان لوگوں پر بولا جاتا ہے جو کہیں سے غذائی سامان لاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ [يوسف/ 94] جب قافلہ مصر سے ردانہ ہوا ۔ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف/ 70] کہ قافلے والوں تم تو چور ہو ۔ وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنا فِيها [يوسف/ 82] اور جس قافلے میں ہم آئے ۔ اور عیر کا لفظ متعدد ومعنوں میں استعمال ہوتا ہے ( 1 ) گور کر ( 2 ) پاؤں کی پشت پرا بھری ہوئی پڈی ( 3 ) آنکھوں کی پتلی ، ( 4 ) کان کی پچھلی طرف ابھری ہوئی نرم ہڈی ( 5 ) خس وخا شاک جو پانی کے اوپر جمع ہوجاتا ہے ( 6 ) میخ ( 7 ) تیر کے پھل کا درمیانی حصہ جو اوپر ابھرا ہوا ہونا ہے فند التَّفْنِيدُ : نسبة الإنسان إلى الْفَنَدِ ، وهو ضعف الرّأي . قال تعالی: لَوْلا أَنْ تُفَنِّدُونِ [يوسف/ 94] ، قيل : أن تلوموني «1» ، وحقیقته ما ذکرت، والْإِفْنَادُ : أن يظهر من الإنسان ذلك، والْفَنَدُ : شمراخ الجبل، وبه سمّي الرّجل فَنَداً. ( ف ن د ) الفند کے معنی رائے کی کمزوری کے ہیں اس سے التفنید ( تفعیل ہے جس کے معنی کسی کو کمزور رائے یا فاتر العقل بتانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ تُفَنِّدُونِ [يوسف/ 94] اگر مجھ کو یہ نہ کہو کہ بوڑھا بہک گیا ہے ۔ بعض نے اس کے معنی تلومونی یعنی ملامت کے لکھے ہیں لیکن اس کے اصل معنی وہی ہیں ہو جو ہم نے بیان کئے ہیں اور لافناد ( افعال ) کے معنی بہکی بہکی باتیں کرنے کے ہیں ۔ اور فند اصل میں پہاڑ کی چوٹی کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے بوڑھے کھوسٹ کو فند کہا جاتا ہے ( کیونکہ وہ بھی عمر کی انہتا کو پہنچ چکا ہوتا ہے ) ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٤۔ ٩٥) چناچہ جب قافلہ مقام عریش سے جو کہ مصر اور کنعان کے درمیان ایک بستی تھی قمیص لے کر چل پڑا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ارد گرد کے لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ اگر تم مجھ کو بہکی باتیں کرنے والا نہ سمجھو اور میری بات کو جھوٹ نہ سمجھو تو ایک بات کہتا ہوں کہ مجھے یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آرہی ہے انکے پاس جو انکے پوتے پڑپوتے موجود تھے وہ کہنے لگے بخدا آپ تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں اپنی اسی خام خیالی پر قائم ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٤ (وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ قَالَ اَبُوْهُمْ اِنِّىْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ ) یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ جونہی حضرت یوسف کی قمیص لے کر قافلہ مصر سے چلا اسی لمحے کنعان میں حضرت یعقوب کو اپنے بیٹے کی خوشبو پہنچ گئی۔ مگر اس سے پہلے ایک طویل عرصے تک آپ نے اپنے بیٹے کے ہجر میں رو رو کر اپنی آنکھیں سفید کرلیں مگر یہ خوشبو نہیں آئی۔ اس سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ کوئی نبی ہو یا ولی ‘ کسی معجزے یا کرامت کا ظہور کسی بھی شخصیت کا ذاتی کمال نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے۔ وہ جس کو جس وقت جو علم چاہے عطا فرما دے یا اس کے ہاتھوں جو چاہے دکھا دے۔ جیسے ایک دفعہ حضرت عمر کو مسجد نبوی میں خطبہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے شام کے علاقے میں واقع اس میدان جنگ کا نقشہ دکھا دیا جہاں اس وقت اسلامی افواج برسر پیکار تھیں اور آپ نے فوج کے کمانڈر ساریہ کو ایک حربی تدبیر اختیار کرنے کی بآواز بلند تلقین فرمائی۔ جناب ساریہ نے میدان جنگ میں حضرت عمر کی آواز سنی اور آپ کی ہدایت پر عمل کیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت عمر کو اختیار تھا کہ جب چاہتے ایسا منظر دیکھ لیتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

66. This is an instance of the extraordinary powers the Prophets possess. Prophet Jacob perceived in Canaan the smell of Prophet Joseph’s shirt from such a distant place as Egypt as soon as the caravan started on the journey. At the same time it also shows, by contrast, that these powers of the Prophets are not inherent or personal characteristics but are bestowed on them by Allah as and when He wills. That is why Prophet Jacob could not perceive the smell of the clothes of Prophet Joseph as long as Allah did not will it, when he had been living in Egypt. In this connection, it should also be noted that in contrast to the Quran which represents Prophet Jacob as a great Prophet who was able to perceive the smell of Prophet Joseph from such a long distance, the Bible represents him as an ordinary uncultured father. According to Genesis 45: 26-27, when they told him, saying: Joseph is yet alive and he is governor over all the land of Egypt, Jacob’s heart fainted, for he believed them not, and only when he saw the wagons which Joseph had sent to carry him, the spirit of Jacob their father revived.

٦٦ ۔ اس سے انبیاء علیہم السلام کی غیر معمولی قوتوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی قافلہ حضرت یوسف کا قمیص لیکر مصر سے چلا ہے اور ادھر سیکڑوں میل کے فاصلے پر حضرت یعقوب اس کی مہک پا لیتے ہیں ، مگر اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی یہ قوتیں کچھ ان کی ذاتی نہ تھیں بلکہ اللہ کی بخشش سے ان کو ملی تھیں اور اللہ جب اور جس قدر چاہتا تھا انہیں کام کرنے کا موقع دیتا تھا ۔ حضرت یوسف برسوں مصر میں موجود رہے اور کبھی حضرت یعقوب کو ان کی خوشبو نہ آئی ۔ مگر اب یکایک قوت ادراک کی تیزی کا یہ عالم ہوگیا کہ ابھی ان کا قمیص مصر سے چلا ہے اور وہاں ان کی مہک آنی شروع ہوگئی ۔ یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ایک طرف قرآن حضرت یعقوب کو اس پیغمرانہ شان کے ساتھ پیش کر رہا ہے ، اور دوسری طرف بنی اسرائیل ان کو ایسے رنگ میں دکھاتے ہیں جیسا عرب کا ہر معمولی بد ہوسکتا ہے ، بائیبل کا بیان ہے کہ جب بیٹوں نے آکر خبر دی کہ یوسف اب تک جیتا ہے اور وہی سارے ملک مصر کا حاکم ہے تو یعقوب کا دل دھک سے رہ گیا کیونکہ اس نے ان کا یقین نہ کیا ، اور جب ان کے باپ یعقوب نے وہ گاڑیاں دیکھ لیں جو یوسف نے ان کو لانے کے لیے بھیجی تھیں تب اس کی جان میں جان آئی ، پیدائش: ٤۵ ، ۲٦ ، ۲۷ٌ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

58: حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے سب گھر والوں کو مصر لے آئیں۔ چنانچہ وہ ایک قافلے کی صورت میں مصر سے روانہ ہوئے۔ ادھر وہ مصر سے نکلے اور اُدھرکنعان میں حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو آنے لگی۔ یہ دونوں پیغمبروں کا ایک معجزہ تھا، اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے لئے بشارت کہ ان کی آزمائش کا زمانہ ختم ہونے والا ہے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کنعان کے قریب ہی کنویں میں موجود تھے، اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کو ان کی خوشبو نہیں آئی۔ اس کے علاوہ مصر میں قیام کے دوران بھی اِنہیں اِس سے پہلے اس کا اِحساس نہیں ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ معجزہ کسی نبی کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ جب چاہتے ہیں، اس کا مظاہرہ فرما دیتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٤۔ ٩٥۔ جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو کرتہ دے کر مصر سے کنعان کی طرف روانہ کیا اور کہا کہ اس کرتہ کو لے جاؤ اور والد بزرگوار کے منہ پر ڈالو ان کی آنکھیں اچھی ہوجاویں گی پھر تم اپنے سارے گھر کو لے کر میرے پاس چلے آؤ اور یہ قافلہ مصر سے جس وقت روانہ ہوا تو آٹھ دن کے فاصلہ کی راہ سے خداوند عالم کے حکم سے ہوا اس کرتے کی بو لے کر اڑی اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) تک اس کو پہنچایا اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ عبد اللہ بن عباس (رض) کے ایک قول کے موافق یہ کرتہ وہی کرتہ تھا جو حضرت جبرئیل نے ابراہیم (علیہ السلام) کو جنت سے لا کردیا تھا اور جس کی برکت سے آگ ان پر گلزار بن گئی تھی اور یہ کرتہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے حصہ میں آکر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو ملا تھا اور آپ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے گلے میں باندھ دیا تھا اور جس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کنوئیں میں ڈالے گئے تھے تو جبرئیل (علیہ السلام) نے آکر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پہنایا تھا یہ کرتہ جنت کا تھا اس لئے اس کی بو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی ناک میں اتنی دور و دراز مسافت سے پہنچی اور آپ نے پہچان لیا کہ یہ جنت کی بو ہے اس لئے آپ نے اپنے مقام پر بیٹھے بیٹھے اہل کنعان میں سے جو لوگ ان کے پاس حاضر تھے ان سے اور اپنے پوتوں سے کہا کہ اگر تم لوگ مجھے مجنوں اور دیوانہ نہ سمجھو اور ملامت نہ کرو تو میں کہہ سکتا ہوں کہ آج مجھے یوسف (علیہ السلام) کی بو آتی ہے ان لوگوں نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی بات کا یہ جواب دیا کہ واللہ تم اسی خبط میں اب تک پڑے ہو کہاں یوسف (علیہ السلام) اور کہاں اس کی بو عرصہ ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) کا کہیں پتہ نہیں اصل یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ تمہیں از حد محبت تھی اور اسی محبت کا یہ تقاضا ہے کہ تم اب تک اس کے ملنے کی امید رکھتے ہو ہماری سمجھ میں تو یہ بات ہرگز نہیں آتی یہ لوگ دراصل اس بات سے ناواقف تھے کہ قافلہ بشارت دینے والا مصر سے چل چکا ہے اور یوسف (علیہ السلام) کے بھائی یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ لے کر آرہے ہیں یہ لوگ اپنے خیال میں یوسف (علیہ السلام) کو مردہ سمجھے ہوئے تھے اس لئے انہوں نے یہ بات کہی۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی حدیث جو گزر چکی ہے اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ لوح محفوظ کے نوشتہ کے موافق اب وہ وقت آگیا تھا کہ یو سف (علیہ السلام) کے زندہ ہونے کی خبر یعقوب (علیہ السلام) کو پہنچ جاوے اس لئے مصر کا قافلہ تو ابھی راستہ میں ہی رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہوا کے ذریعہ سے یوسف (علیہ السلام) کی خبر یعقوب (علیہ السلام) کو پہنچادی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:94) فصلت العیر۔ قافلہ روانہ ہوا۔ تفندون۔ اصل میں تفندونی تھا۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ ی ضمیر مفعول واحد متکلم۔ تم مجھے بہکا ہوا بتاتے ہو۔ الفند کے معنی ہیں رائے کی کمزوری۔ (باب تفعیل ) سے۔ التفنید بمعنی کسی کو کمزور رائے یا فاتر العقل بتانا۔ فند اصل میں پہاڑ کی چوٹی کو کہتے ہیں اسی سے بوڑھے کھوسٹ کو فند کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی عمر کی انتہا کو پہنچ چکا ہوتا ہے۔ لولا ان تفندون۔ اگر تم مجھ کو یہ نہ کہو کہ بوڑھا بہک گیا ہے۔ سٹھیا گیا ہے۔ اگر تم مجھے بیوقوف خیال نہ کرو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ اس سے انبیا کی غیر معمولی قوتوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ ادھر قافلہ مصر سے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کا کرتا لے کر چلتا ہے اور ادھر حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کو اس کی خوشبو آنے لگتی ہے لیکن اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انبیا کی یہ قوتیں ان کا ذاتی کمال نہ تھیں بلکہ سراسر اللہ تعالیٰ کی عطا کردی تھیں۔ حضرت یوسف ( علیہ السلام) قریب کے جنگل میں کنویں میں پڑ رہے اور پھر برسوں تک مصر پر حکمران رہے مگر کبھی حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کو ان کی خوشبو نہ آئی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٩٤ تا ١٠٤ اسرار و معارف ادھریعقوب (علیہ السلام) بےقراری سے منتظر تھے کہ واپس آنے والے کیا خبر لاتے ہیں لیکن اللہ کی شان کا ظہور عجیب طریقے سے ہوا۔ کشف اور مشاہدہ کہ جب وہ قافلہ جس میں وہ آدمی بھی شامل تھا جس کے پاس یوسف (علیہ السلام) کی قمیض تھی کنعان پہنچا تو یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا اگر تم اسے میری دیوانگی نہ کہو تو آج مجھے یوسف کی خوشبوآرہی ہے تو سننے والوں نے بڑے آرام سے کہہ دیا کہ وہم اب آپ کا مرض بن چکا ہے اور آپ ہمیشہ ہی امید رکھین گے کہ یوسف (علیہ السلام) زندہ ہیں اور ایک روز مجھ سے آملیں گے لیکن عجیب بات یہ جو پہلے بھی لکھی جاچکی کہ مصر جو کم وبیش آٹھ دن کی مسافت پر تھا وہاں سے خوشبو آنے لگی مگر خود کنعان کے کنویں اور قافلے والوں کے پاس سے نہ آئی پھر مصر میں بھی انھیں برسوں بیت چکے تھے پہلے تو نہ آئی اس کا آسان ساجواب یہ ہے کہ کشف اور مشاہد ہ ازقسم ثمرات ہے جو ہمیشہ وہبی ہوتے ہیں جب چاہے بتا بھی دے دکھا بھی دے اور جو نہ چاہے نہ بتائے ۔ جب تک اسے منظور تھا نہ یوسف (علیہ السلام) نے اطلاع بھجوائی اور نہ ہوانے خوشبوپہنچائی اور جب اس نے اجازت بخشی تو انھوں نے بھی پیغام روانہ کردیا اور ہوا بھی خوشبولے اڑی۔ چنانچہ خوشخبری لانے والا آپہنچا اور جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا تھا ان کا کرتہ یعقوب (علیہ السلام) نے آنکھوں سے ملاتو وہ روشن ہوگئیں اور آپ نے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ مجھے اللہ نے ان باتوں سے باخبر فرمار کھا ہے جو تم لوگ نہیں جانتے اس لئے میں نے کبھی نہیں مانا کہ یوسف فوت ہوچکے ہیں ۔ مجھے یہ خبر تھی کہ وہ حاکم بنیں گے اور نبی بھی مبعوث ہوں گے یہ الگ بات ہے کہ وہ کہاں ہیں لیکن یہ خبرتھی کہ ملاقات نصیب ہوگی ۔ نیک لوگوں سے دعا کرانا درست ہے تو اب بات چھپنے سے رہی پھر بھائی پہلے یوسف (علیہ السلام) سے مل کرمعافی حاصل کرچکے تھے چناچہ سب واقعہ عرض کردیا کہ قصور وارہم ہی ہیں لیکن اب آپ ہمیں معاف فرما کر اللہ کریم سے ہماری معافی کی دعافرمائیے ۔ تو ثابت ہوا کہ انبیاء کرام سے اور اللہ کے دوسرے نیک بندوں سے دعا کرانا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے ۔ تو انھوں نے فرمایا انشاء اللہ میں بہت جلدی تمہارے لئے دعا کروں گا ۔ غالبا آپ یوسف (علیہ السلام) سے بھی بات سننا اور ان سے معاف کرانا چاہتے تھے کہ اگر کسی نے کسی کا حق مارا ہو یا ایذاپہنچائی ہو تو قاعدہ یہی ہے کہ اس کی تلافی کرائی جائے اور اللہ کریم سے بھی بخشش طلب کی جائے کیونکہ محض دعا سے تو کسی کا حق ادا نہیں ہوتا اگر حقدار کے ملنے کی کوئی امید نہ ہو اور معاملہ مال کا ہو تو صدقہ کرکے ثواب اسے پہنچا دے اور اگر ایسا نہیں تو پھر دعا کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ۔ نیز فرمایا اللہ بہت بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے یعنی اس کے در سے امید مغفرت رکھنا ہی زیب دیتا ہے یعنی خطاکار کونا امیدنہ کرنا چاہیئے اور چھوڑنہ دینا چاہیئے کہ اس طرح اس کی اصلاح کی امید نہ رہے گی۔ چنانچہ سارا خاندان مصرروانگی کے لئے تیار ہوگیا ۔ راشن اور سواریاں وغیرہ یوسف (علیہ السلام) نے مصر سے ساتھ روانہ کردی تھیں۔ تقریبانوے سے ایک صدتک افراد تھے جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان کے تھے اور مصرپہنچے بنی اسرائیل انہی کی نسل تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مصر سے نکلے تو پونے سات لکھ تھے ۔ جب یہ سب خاندان مصر پہنچاتویوسف (علیہ السلام) نے باہر نکل کر استقبال فرمایا اور اپنے والدین کی بہت عزت افزائی کی اور سب خاندان سے فرمایا کہ یہ ملک مصر آپ سب کا خادم ہے یہاں آپ کو ہر طرح سے امن اور سلامتی اور سب خاندان سے فرمایا کہ یہ ملک مصر آپ سب کا خادم ہے یہاں آپ کو ہر طرح سے امن اور سلامتی نصیب ہوگی اور سب کو لے کر کمرہ خاص میں جو شاہ کی جلوہ گاہ تھا تشریف لائے اور والدین کو اپنے خاص تخت پر بٹھایا مگر وہ سب یوسف (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ میں گرگئے ۔ غالباسجدہ تعظیم سجدہ عبادت سے مختلف بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات صرف سرجھکا نے کو سجدہ تعظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے اور سجدہ تعظیم پہلی شرائع میں منع نہ تھا البتہ سجدہ عبادت ہر شریعت میں غیر اللہ کے لئے حرام رہا مگر اس آخری شریعت میں سجدہ تعظیم بھی ممنوع ہوگیا ۔ تعبیر کے ظاہر ہونے میں مدت لگ سکتی ہے تویوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے والدمحترم ! یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو بچپن میں میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ سورج چاند اور گیارہ ستارے مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ میرے پروردگار نے اسے سچ کردکھایا۔ اہل اللہ کا انداز اور واقعات کے بارے ان کی رائے اور پھر اپنی بیتی والدما جد اور اہل خاندان کو بایں انداز سنائی کہ ہر ہرلفظ سے اظہارتشکرٹپک رہا ہے کہ سارے واقعہ کو مختصر کرکے اور زلیخا کی زیادتی اور اس کے بدجیل کی مصیبت کے مقابل جیل سے خلاصی پر اظہار شکر فرما رہے ہیں کہ مجھ پر اللہ کا کتنا کرم ہے جس نے مجھے جیل نکالکر تخت شاہی پر جلوہ گر کردیا پھر ساری جدائی اور اس کے صدموں کی بجائے انجام کار ملاقات پر اظہار تشکر فرما رہے ہیں کہ میرارب کتنا کریم ہے نہ صرف آپ سے ملاقات کا اہتمام فرمادیا بلکہ آپ سب کو بھی دیہات کی مصیبت سے نکال کر یہاں شہر کی سہولیات میں لے آیا۔ رہا آپ سے جدائی کا واقعہ تو جیسا کہ آپ نے بھی فرمایا تھا واقعی شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان جھگڑاڈال دیا۔ ذراشان کریمی ملاحظہ ہو کہ خود تو سات برس کے تھے اور بےقصور بھی تھے مگر فریق تو تھے تو بھائیوں کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے خود کو بھی جھگڑے میں شامل قراردے رہے ہیں اور اہل اللہ کی یہی امتیازی شان ہوتی ہے کہ ہر بات سے حسن پہلو لیتے ہیں اور انجام کار چونکہ انھیں ہمیشہ نفع ملتا ہے لہٰذا ان نتائج کے اعتبار سے بات کرتے ہیں اور اللہ کی شان ہی ایسی ہے کہ جو کرنا ہے اس کے لئے ایسے ایسے لطیف اسباب پیدا فرمایا ہے کہ کسی کو اس کی خبر نہیں ہوتی ۔ بھلا بھائیوں کو کب پتہ تھا کہ یہ مصر سلطان بننے لئے جارہا ہے ۔ لیکن اللہ جو سب کچھ جانتا ہے اپنی حکمت بالغہ کے مطابق اسباب پیدافرماتا رہتا ہے ۔ دعاکا سلیقہ اور پھر بڑے سلیقے سے دعا فرمائی۔ پہلے ان نعمتوں کا اظہار فرمایا جو اللہ کریم نے بخش رکھی تھیں اور پھر حرف مدعازبان پر لائے کہ اے میرے پروردگار ! تو نے مجھے حکومت وسلطنت بخشی اور علوم کے خزانے عطافرمائے کہ تیری عطا ایسی ہی وسیع تر ہوتی ہے جیسی تیری تخلیق ہے ہے اور تو ہی اکیلا ارض وسما کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میرا دنیا وآخرت میں صرف تو ہی کا رساز ہے اور جب تو نے اس قدرانعامات بخشے تو اتنا کرم مزید فرمانا کہ مجھے اسلام پر ہی موت آئے اور دار دنیا سے دار بقاپہنچوں تو تیرے صالح اور محبوب بندوں میں شمار کیا جاؤں ۔ اگر چہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں اور انھیں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا کہ کبھی ان سے یہ شان نبوت سلب ہوجائے گی اس کے باوجود اظہار تشکر کا یہ بہترین طریقہ اختیار فرماتے ہیں کہ اپنی عاجزی کا اقرار کرکے اللہ کریم سے ہی کرم کے طالب ہوتے ہیں اور یہ تعلیم امت کے لئے بھی ہے کہ ولی یا نیک کا مدار تو انجام پر ہے جس کی اس کو خبر نہیں لہٰذا ہر آن بہترانجام کا طلب کرنا ہی صحیح طریقہ ہے ۔ چناچہ یعقوب (علیہ السلام) مصر میں فوت ہوئے مگر اپنے علاقہ میں لے جاکرآباؤواجداد کے ساتھ دفن کئے گئے اور یوسف (علیہ السلام) عمر شریف پوری فرما کر مصر میں مدفون ہوئے تا وقتیکہ بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ نکلے تو ان کا تابوت بھی ساتھ لے گئے ۔ علم غیب اور اخبارغیب اے حبیب ! یہ قصہ بھی ان کی غیب کی اخبار سے ہے جو آپ کو بذریعہ وحی بتایا گیا کہ آپ کے دنیا میں جلوہ افروز ہونے سے ہزروں بر پہلے بیت چکا تھا پھر نہ آپ نے پڑھا نہ کسی سے سیکھا یا سناتو یہ بھی آپ کی نبوت پ ر اور آپ پر وحی الٰہی کے نزول پر ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت ا ن کے پاس تھوڑی تھے جب یہ سب واقعات ظہور پذیر ہوئے یا مختلف لوگوں نے مختلف تربیریں اختیار کیں اور ان سے مختلف نتائج ظہور پذیر ہوئے ۔ یہ واقعات غیب کی خبر کہلائے ۔ تو ثابت ہوا کہ اللہ کریم اپنے بندوں کو غیب کی خبریں پہنچا تے ہیں (رح) خصوصا انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو اور سب سے زیادہ آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب پر اطلاع دی گئی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان کے مطابق تھی مگر یہ علم کسی ذریعے سے پہنچتا ہے کشف الہام القاء وجدان یا پھر انبیاء کو سب سے مضبوط ذریعہ جو نصیب ہوتا ہے وہ وحی الٰہی کا ہے اور نبی کا کشف والہام تو کیا نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے لیکن یہ سب علم غیب نہیں کہلائے گا علم غیب صرف اللہ کا خاصہ ہے جس میں کوئی بھی دوسرا اس کا شریک نہیں اور آسان لفظوں میں علم غیب کی تعریف یہ ہے کہ بغیر کسی سبب کے حاصل ہو۔ اگر درمیان میں سبب یاواسطہ آگیا تو غیب کی خبر کہلائے گا علم غیب نہ ہوگا اور بغیر واسطے یا کسی ذریعے کے جاننایہ صرف اللہ کریم کا خاصہ ہے۔ اب رہا لوگوں کا معاملہ ! تو یہ ان کے اس تعلق پہ ہے کہ اللہ کریم سے کیسا ہے ۔ محض آپ کی خواہش سے کچھ نہ ہوگا ۔ آپ اس بارہ میں کتنی حرص بھی رکھتے ہوں مگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے سوائے ان چند خوش نصیبوں کے جن کے دل کا حال اس قدرنہ بگڑا ہو کہ بالکل تباہ ہوکرواپسی کے قابل نہ رہے اور آپ اس حال پر مغموم نہ ہوا کریں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں سے تو کچھ لینا نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اللہ کے حکم کی تعمیل میں محنت کر رہے ہیں اور وہ آپ کا اجر سلامت ہے ۔ ہاں ! لوگوں کی تو صرف خیر خواہی ہے اور وہ بھی صرف اللہ کی رضا مندی کے لئے۔ لہٰذا آپ کا درکشادہ ہے چاہے تو سارا عالم استفادہ کرے اور اگر نہ کریں گے تو یہ ان کی بدنصیبی ۔ جیسا کہ مفسرین کے مطابق یہ سوال کرنے والے بھی ایمان نہ لائے تھے حالانکہ قصہ یوسف (علیہ السلام) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوری تفصیل سے بیان فرمادیا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 94 تا 98 فصلت جدائی ہوئی، جدا ہوا العیر قافلہ اجد میں پاتا ہوں تفندون تم مجھے بہکا ہوا نہ سمجھو ضلل بہکنا القدیم پرانا البشیر خوش خبری دینے والا القہ اس نے ڈالا وجھ چہرہ ارتد لوٹ آیا بصیر دیکھنا، بینائی لم اقل میں نے نہیں کہا استغفر بخشش مانگ لے ذنوب گناہ خطیئین خطا کرنے والے، گناہ کرنے والے سوف بہت جلد، عنقریب تشریح آیت نمبر 94 تا 98 گزشتہ آیات میں حضرت یوسف کا یہ جملہ نقل کیا گیا ہے کہ تم میری قمیص لے کر جاؤ اور ان کے (حضرت یعقوب کے) چہرے پر ڈالو تو ان کی بصارتو اپس آجائے گی اور اس کے بعد تم سب یہیں مصر میں آجانا، چناچہ یہ قمیص مصر سے روانہ ہوئی ادھر حضرت یعقوب کو حضرت یوسف کے قمیص کی خوشبو آنا شروع ہوگئی یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب حضرت یوسف کو ان کے بھائیوں نے کنعان کے ایک اندھے کنوئیں میں پھینک دیا تھا جو حضرت یعقوب سے بہت دور نہ تھا اس وقت تو ان کو یہ نہ معلوم ہوسکا کہ ان کا لخت جگر ان سے چند میل کے فاصلے پر نہایت کسمپرسی کی حالت میں ایک اندھے کنوئیں میں پڑا ہوا ہے لیکن جب ہزاروں میل دور سے حضرت یوسف کا پیرھن روانہ کیا جاتا ہے تو ان کو اس کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ اللہ کا نظام ہے کہ اللہ اپنے نبیوں کو جتنا اور جس وقت جو بھی علم دینا چاہے وہ دے دیتا ہے اور جب نہیں دینا چاہتا تو قریب کی چیز بھی نظر نہیں آتی۔ جس طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر یہ افواہ اڑا دی گئی کہ حضرت عثمان غنی جو کہ مکرمہ میں کفار مکہ کو سمجھانے گئے تھے ان کو شہید کردیا گیا ہے ۔ اس افواہ کے سنتے ہی تمام مسلمانوں میں ایک بےچینی پھیل گئی اس موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اپنے دست مبارک پر تمام مسلمانوں سے بیعت لی جس کو ” بیعت رضوان “ کہا جاتا ہے اور طے کیا گیا کہ جب تک خون عثمان کا بدلہ نہیں لیں گے اس وقت تک ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ کچھ دیر کے بعد معلوم ہوا کہ حضرت عثمان زندہ ہیں اور کسی نے ان کے متعلق غلط افواہ اڑا دی تھی۔ یہ سن کر سب مسلمان اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہوگئے۔ اس واقعہ میں اگر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عثمان کے لئے بیعت لے رے تھے اس وقت آپ کو معلوم نہ تھا کہ حضرت عثمان غنی زندہ ہیں یا نہیں۔ اسی طرح کے اور بہت سے واقعات بھی پیش کئے جاسکتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ انبیاء کرام کو اللہ ہی علم عطا فرماتا ہے ان کو اتنا ہی علم حاصل ہوتا ہے جو اللہ ان کو دینا چاہتا ہے وہ خود عالم الغیب نہیں ہوتے۔ سب سے زیادہ غیب کا علم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب کے سب سے زیادہ جاننے والے تھے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ہی عالم الغیب تھے بلکہ اللہ کی ذات ہی وہ ذات ہے جو غیب اور شہادہ کو جانتا ہے اور اللہ کی ذات ہی عالم الغیب ہے۔ حضرت یعقوب کو جب حضرت یوسف کے پیرھن کی خوشبو آنا شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے گھرو الوں سے کہا کہ میں یوسف کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں کہیں تم یہ نہ کہنے لگنا کہ میں بڑھاپے میں بہک رہا ہوں۔ سب نے کہا کہ اب یوسف کو مرے ہوئے بھی عرصہ ہوگیا اب یوسف اور اس کے پیرھن کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے ایسا لگتا ہے کہ وہی پرانا وہم اور خیال پھر سے تازہ ہوگیا ہے۔ لیکن جب کچھ ہی عرصہ کے بعد حضرت یوسف کا پیرھن لایا گیا اور ان کے چہرہ پر ڈالا گیا تو ان کی بینائی واپس آگئی اور فرمایا کہ دیکھو میں نہیں کہتا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ بہت کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ حضرت یعقوب کی مراد یہ تھی کہ مجھے اس بات کا یقین تھا کہ یوسف زندہ ہیں کیونکہ انہوں نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر تو ابھی سامنے آئی نہیں اور بنی اسرائیل کی سربلندی کے لئے جو اللہ کا وعدہ ہے وہ نعمت تو ابھی پوری ہوئی نہیں۔ لہٰذا میرا دل کہتا ہے کہ یوسف زندہ ہیں۔ جب حضرت یعقوب کی بینائی واپس آگئی اور حضرت یعقوب کے چہرے پر پھر وہی مسکراہٹ آگئی تو سب بھائیوں نے اپنے والد سے عرض کیا کہ واقعی ہم خطا کار ہیں ہم سے بہت بڑی بھول ہوئی۔ اب آپ رب سے ہمارے گناہوں کی معافی کی درخواست کردیجیے کہ وہ ہمیں معاف فرما دے ہمیں اپنے گناہوں کا اعتراف ہے۔ اس کے جواب میں حضرت یعقوب نے یہ نہیں فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں بلکہ آپ نے فرمایا کہ میں بہت جلد تمہارے لئے دعائے مغفرت کروں گا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ تمام بھائی جہاں اپنے والد کو شدید اذیت پہنچانے کے ذمہ دار تھے وہیں حضرت یوسف کو اذیتیں دینے کے بھی مجرم تھے اس لئے ممکن ہے کہ آپ نے یہ سو چاہو کہ جب یوسف معاف کردیں گے تو میں بھی اللہ سے ان کی معافی کے لئے درخواست کروں گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ والد یہ دیکھنا چاہتے ہوں کہ ان کے بیٹوں نے جس ندامت کا اظہار کیا ہے وہ وقتی جذبہ ہے یا وہ واقعی اپنے کئے پر شرمندہ ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یہ معجزہ تھا یعقوب (علیہ السلام) کا اس کرتہ میں جو یوسف (علیہ السلام) کے بدن کا اثر تھا وہ محسوس ہوگیا اور چونکہ معجزہ اختیاری نہیں ہوتا اس سے پہلے یہ ادراک نہ ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب دوسری جانب کنعان کے منظر میں بھی غیر متوقع انکشافات ہو رہے ہیں اور کنعان کے مناظر اب یوسف (علیہ السلام) کے اس خواب کی آخری تعبیر پر ختم ہوتے ہیں جو انہوں نے بچپن میں دیکھا تھا۔ آیت نمبر ٩٤ تا ٩٥ یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو ! یہ کیا کہہ رہے ہیں ، کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اس قدر طویل عرصہ کے بعد بھی یوسف (علیہ السلام) زندہ ہوگا اور یہ بوڑھا اس کی بو سونگھ رہا ہوگا !۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہتا ہے میں یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو پارہا ہوں اگر تم میرا مذاق نہ اڑاؤ، درحقیقت میں یہ خوشبو پا رہا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ادھر مصر سے قافلہ چلا ، ادھر کنعان میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بو پا رہے ہیں۔ یہ کیونکر ہوگیا ، کیا یہ قافلہ مصر سے چلا تو ان کو بو آنے لگی۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ قافلہ مصر سے چلا اور انہوں نے بو کو سونگھ لیا۔ اس قدر دور سے۔ لیکن آیت میں مصر کی تصریح نہیں ہے ، ہو سکتا ہے کہ قافلہ کنعان کے قریب کسی دورا ہے سے جب جدا ہوا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے مقام رہائش کے قریب انہیں یہ خوشبو آگئی ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مصر کی دوری سے بطور معجزہ اس بو کو محسوس کرنے کو معبد سمجھتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ یہ معجزہ ہوا ہو ۔ کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) دونوں نبی ہیں۔ ہمارا مقصد اور طریقہ یہ ہے کہ آیت قرآن جس قدر مفہوم دیتی ہیں ہم اسی پر توقف کریں۔ خصوصاً جبکہ آیت پر اضافی مفہوم کے لئے سند صحیح کے ساتھ کوئی روایت بھی مروی نہ ہو۔ یہاں بھی اس بات پر صحیح سند سے مروی کوئی روایت نہیں ہے کہ یہ خوشبو مصر سے آئی ۔ محض قیاس اور دلالتہ النص سے ایسے مفہوم کو اخذ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے اردگرد جو لوگ بیٹھے تھے ان کے اندر وہ احساس نہ تھا جو رب نے ان کو عطا کیا تھا۔ چناچہ انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو کو نہ پایا۔ قالوا تاللہ انک لفی ضللک القدیم (١٢ : ٩٥) ” انہوں نے کہا خدا کی قسم بیشک آپ اپنی پرانی غلط فہمی میں پڑے ہیں “۔ آپ اپنی پرانی غلط فہمی میں مبتلا ہیں ، اب بھی یوسف (علیہ السلام) کا انتظار کر رہے ہیں حالانکہ وہ ان راستوں پر چل نکلا ہے جن سے واپسی ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس پوری کہانی میں جگہ جگہ معجزات اور مناجات ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

79: فرزندان یعقوب (علیہ السلام) کا قافلہ جب مصر سے روانہ تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے پوتوں اور دیگر اہل قرابت سے فرمایا آج مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے اگر تم مجھے بےعقل نہ کہو اور میری بات مان لو تو تمہیں میری بات کی سچائی عنقریب معلوم ہوجائے گی۔ لَوْلَا کا جواب محذوف ہے ای لتعلمون ذلک۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو حضرت یعقوب (علیہ السلام) تک کس طرح پہنچی اس کے بارے میں امام رازی فرماتے ہیں کہ یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ پہنچائی تھی۔ والتحقیق ان یقال انہ تعالیٰ اوصل تلک الرائحۃ الیہ علی سبیل اظھار المعجزات لان وصول الرائحۃ الیہ من ھذہ المسافۃ البعیدۃ امر مناقض للعادۃ فیکون معجزۃ الخ (کبیر ج 18 ص 208) ۔ ” قَالُوْا تَااللہِ الخ “ پوتوں وغیرہ نے یہ بات سن کر کہا دادا ابا جان ! آپ اپنی پرانی بھول میں ہیں اور اب تک یوسف سے دوبارہ ملاقات کے آرزو مند ہیں۔ بھلا یوسف اب آپ کو کہاں سے مل سکتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

94 ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے فرمانے کے مطابق یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ لیکر قافلہ کے ہمراہ روانہ ہوئے اور جب مصر سے قافلہ نکلا اور شہری حدود سے جدا ہوا تو کنعان میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے ساتھیوں سے کہنا شروع کیا کہ میں آج یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں اور مجھ کو یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آرہی ہے اگر تم نے میری بات کو بڑھاپے کی کم عقلی سے نہ سمجھا اور یہ خیال نہ کیا کہ میں بڑھاپے کی وجہ سے بہکی بہکی باتیں کر رہا ہوں تو تم میری صدیق کرو گے۔ یعنی قافلہ ادھر مصر سے روانہ ہوا اور یہاں ان کے باپ یعقوب (علیہ السلام) نے یہ کہنا شروع کیا کہ مجھ کو یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آرہی ہے واقعہ بھی یہی ہے کہ جب امتحان کی گھڑیاں ختم ہوجاتی ہیں تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا معجزہ تھا لیکن معجزے کا ظہور بھی مشیت الٰہی کے ماتحت ہوا کرتا ہے۔ حضرت سعدی (رح) نے کیا خوب فرمایا ہے۔ یکے پر سید آں، گم کردہ فرزند کے اے پیر گہر روشن خردمند زمصرش بوئے پیراہن شمیدی چر اور چاہ کنعانش نہ دیدی بفگتا حال ما برق جہان است دمے پیدا و دیگر دم نہانست گہے بر طارم اعلی تشینم گہے برپشت پائے خود نہ بینم یعنی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے کشف اور ان کی روشن ضمیری کی حالت بھی عجیب و غریب ہے۔ کنعان کے کنوئیں میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کئی دن رہے لیکن حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو معلوم نہ ہوا اور یہاں مصر سے قافلہ چلا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آنے لگی ، اسی کا جواب ہے۔ گہے بر طارم اعلیٰ نشینم گہے برپشت پائے خود نہ بینم