Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 12

سورة الرعد

ہُوَ الَّذِیۡ یُرِیۡکُمُ الۡبَرۡقَ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنۡشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ ﴿ۚ۱۲﴾

It is He who shows you lightening, [causing] fear and aspiration, and generates the heavy clouds.

وہ اللہ ہی ہے جو تمہیں بجلی کی چمک ڈرانے اور امید دلانے کے لئے دکھاتا ہے اور بھاری بادلوں کو پیدا کرتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Clouds, Thunder and Lightning are Signs of Allah's Power Allah says: هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ ... It is He Who shows you the lightning, Allah states that He has full power over Al-Barq (lightning), which is the bright light that originates from within clouds. Ibn Jarir recorded that; Ibn Abbas once wrote to Abu Al-Jald asking about the meaning of Al-Barq, and he said that it is water. ... خَوْفًا وَطَمَعًا ... as a fear and as a hope. Qatadah commented on Allah's statement, "Fear for travelers, for they feel afraid of its harm and hardship, and hope for residents, awaiting its blessing and benefit and anticipating Allah's provisions." Allah said next, ... وَيُنْشِىءُ السَّحَابَ الثِّقَالَ And it is He Who brings up the clouds, heavy. meaning, He originates the clouds that are heavy and close to the ground because of being laden with rain. Mujahid said that; this part of the Ayah is about clouds that are heavy with rain. Allah's statement,

بجلی کر گرج بجلی بھی اس کے حکم میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک سائل کے جواب میں کہا تھا کہ برق پانی ہے ۔ مسافر اسے دیکھ کر اپنی ایذاء اور مشقت کے خوف سے گھبراتا ہے اور مقیم برکت ونفع کی امید پر رزق کی زیادتی کا لالچ کرتا ہے ، وہی بوجھل بادوں کو پیدا کرتا ہے جو بوجہ پانی کے بوجھ کے زمین کے قریب آ جاتے ہیں ۔ پس ان میں بوجھ پانی کا ہوتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ کڑک بھی اس کی تسبیح وتعریف کرتی ہے ۔ ایک اور جگہ ہے کہ ہر چیز اللہ کی تسبیح وحمد کرتی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بادل پیدا کرتا ہے جو اچھی طرح بولتے ہیں اور ہنستے ہیں ۔ ممکن ہے بولنے سے مراد گرجنا اور ہنسنے سے مراد بجلی کا ظاہر ہونا ہے ۔ سعد بن ابراہیم کہتے ہیں اللہ تعالیٰ بارش بھیجتا ہے اس سے اچھی بولی اور اس سے اچھی ہنسی والا کوئی اور نہیں ۔ اس کی ہنسی بجلی ہے اور اس کی گفتگو گرج ہے ۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ برق ایک فرشتہ ہے جس کے چار منہ ہیں ایک انسان جیسا ایک بیل جیسا ایک گدھے جیسا ، ایک شیر جیسا ، وہ جب دم ہلاتا ہے تو بجلی ظاہر ہوتی ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گرج کڑک کو سن کر یہ دعا پڑھتے دعا ( اللہم لا تقتلنا بغضبک ولا تہلکنا بعذابک وعافنا قیل ذالک ) ( ترمذی ) اور روایت میں یہ دعا ہے ( سبحان من سبح الرعد بحمدہ ) حضرت علی گرج سن کر پڑھتے سبحان من سبحت لہ ابن ابی زکریا فرماتے ہیں جو شخص گرج کڑک سن کر کہے دعا ( سبحان اللہ وبحمدہ ) اس پر بجلی نہیں گرے گی ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ گرج کڑک کی آواز سن کر باتیں چھوڑ دیتے اور فرماتے دعا ( سبحان اللہ الذی یسبح الرعد بحمدہ والملائکتہ من خیفتہ ) اور فرماتے کہ اس آیت میں اور اس آواز میں زمین والوں کے لئے بہت تنزیر وعبرت ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تمہارا رب العزت فرماتا ہے اگر میرے بندے میری پوری اطاعت کرتے تو راتوں کو بارشیں برساتا اور دن کو سورج چڑھاتا اور انہیں گرج کی آواز تک نہ سناتا ۔ طبرانی میں ہے آپ فرماتے ہیں گرج سن کر اللہ کا ذکر کرو ۔ کیونکہ ذکر کرنے والوں پر کڑا کا نہیں گرتا ۔ وہ بجلی بھیجتا ہے جس پر چاہے اس پر گراتا ہے ۔ اسی لئے آخر زمانے میں بکثرت بجلیاں گریں گی ۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ قیامت کے قریب بجلی بکثرت گرے گی یہاں تک کہ ایک شخص اپنی قوم سے آ کر پوچھے گا کہ صبح کس پر بجلی گری ؟ وہ کہیں گے فلاں فلاں پر ۔ ابو یعلی راوی ہیں آنحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک مغرور سردار کے بلانے کو بھیجا اس نے کہا کون رسول اللہ ؟ اللہ سونے کا ہے یا چاندی کا ؟ یا پیتل کا ؟ قاصد واپس آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا کہ دیکھئے میں نے تو آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ متکبر ، مغرور شخص ہے ۔ آپ اسے نہ بلوائیں آپ نے فرمایا دوبارہ جاؤ اور اس سے یہی کہو اس نے جا کر پھر بلایا لیکن اس ملعون نے یہی جواب اس مرتبہ بھی دیا ۔ قاصد نے واپس آ کر پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ نے تیسری مرتبہ بھیجا اب کی مرتبہ بھی اس نے پیغام سن کر وہی جواب دینا شروع کیا کہ ایک بادل اس کے سر پر آ گیا کڑکا اور اس میں سے بجلی گری اور اس کے سر سے کھوپڑی اڑا لی گئی ۔ اس کے بعد یہ آیت اتری ۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک یہودی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ تانبے کا ہے یا موتی کا یا یاقوت کا ابھی اس کا سوال پورا نہ ہوا تھا جو بجلی گری اور وہ تباہ ہو گیا اور یہ آیت اتری ۔ قتادہ کہتے ہیں مذکور ہے کہ ایک شخص نے قرآن کو جھٹلایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کیا اسی وقت آسمان سے بجلی گری اور وہ ہلاک ہو گیا اور یہ آیت اتری ۔ اس آیت کے شان نزول میں عامر بن طفیل اور ازبد بن ربیعہ کا قصہ بھی بیان ہوتا ہے ۔ یہ دونوں سرداران عرب مدینے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کو مان لیں گے لیکن اس شرط پر کہ ہمیں آدھوں آدھ کا شریک کرلیں ۔ آپ نے انہیں اس سے مایوس کر دیا تو عامر ملعون نے کہا واللہ میں سارے عرب کے میدان کو لشکروں سے بھر دوں گا آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے ، اللہ تجھے یہ وقت ہی نہیں دے گا پھر یہ دونوں مدینے میں ٹھرے رہے کہ موقعہ پا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غفلت میں قتل کر دیں چنانچہ ایک دن انہیں موقع مل گیا ایک نے تو آپ کو سامنے سے باتوں میں لگا لیا دوسرا تلوار تو لے پیچھے سے آ گیا لیکن اس حافظ حقیقی نے آپ کو ان کی شرارت سے بچا لیا ۔ اب یہاں سے نامراد ہو کر چلے اور اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے عرب کو آپ کے خلاف ابھارنے لگے اسی حال میں اربد پر آسمان سے بجلی گری اور اس کا کام تو تمام ہو گیا عامر طاعون کی گلٹی سے پکڑا گیا اور اسی میں بلک بلک کر جان دی اور اسی جیسوں کے بارے میں یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ جس پر چاہے بجلی گراتا ہے ۔ اربد کے بھائی لیبد نے اپنے بھائی کے اس واقعہ کو اشعار میں خوب بیان کیا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ عامر نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو مجھے کیا ملے گا ؟آپ نے فرمایا جو سب مسلمانوں کا حال وہی تیرا حال ۔ اس نے کہا پھر تو میں مسلمان نہیں ہوتا ۔ اگر آپ کے بعد اس امر کا والی میں بنوں تو میں دین قبول کرتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا یہ امر خلافت نہ تیرے لئے ہے نہ تیری قوم کے لئے ہاں ہمارا لشکر تیری مدد پر ہو گا ۔ اس نے کہا اس کی مجھے ضرورت نہیں اب بھی نجدی لشکر میری پشت پناہی پر ہے مجھے تو کچے پکے کا مالک کر دیں تو میں دین اسلام قبول کر لوں ۔ آپ نے فرمایا نہیں ۔ یہ دونوں آپ کے پاس سے چلے گئے ۔ عامر کہنے لگا واللہ میں مدینے کو چاروں طرف لشکروں سے محصور کر لوں گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تیرا یہ ارادہ پورا نہیں ہونے دے گا ۔ اب ان دونوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ایک تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باتوں میں لگائے دوسرا تلوار سے آپ کا کام تمام کر دے ۔ پھر ان میں سے لڑے گا کون ؟ زیادہ سے زیادہ دیت دے کر پیچھا چھٹ جائے گا ۔ اب یہ دونوں پھر آپ کے پاس آئے ۔ عامر نے کہا ذرا آپ اٹھ کر یہاں آئیے ۔ میں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ اٹھے ، اس کے ساتھ چلے ، ایک دیوار تلے وہ باتیں کرنے لگا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پشت کی جانب پڑی تو آپ نے یہ حالت دیکھی اور وہاں سے لوٹ کر چلے آئے ۔ اب یہ دونوں مدینے سے چلے حرہ راقم میں آ کر ٹھرے لیکن حضرت سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں پہنچے اور انہیں وہاں سے نکالا ، راقم میں پہنچے ہی تھے جو اربد پر بجلی گری اس کا تو وہیں ڈھیر ہو گیا ۔ عامر یہاں سے بھاگ چلا لیکن دریح میں پہنچا تھا جو اسے طاعون کی گلٹی نکلی ۔ بنو سلول قبیلے کی ایک عورت کے ہاں یہ ٹھرا ۔ وہ کبھی کبھی اپنی گردن کی گلٹی کو دباتا اور تعجب سے کہتا یہ تو ایسی ہے جیسے اونٹ کی گلٹی ہوتی ہے ، افسوس میں سلولیہ عورت کے گھر پر مروں گا ۔ کیا اچھا ہوتا کہ میں اپنے گھر ہوتا ۔ آخر اس سے نہ رہا گیا ، گھوڑا منگوایا ، سوار ہوا اور چل دیا لیکن راستے ہی میں ہلاک ہو گیا پس ان کے بارے میں یہ آیتیں ( اللہ یعلم سے من وال ) تک نازل ہوئیں ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا ذکر بھی ہے پھر اربد پر بجلی گرنے کا ذکر ہے اور فرمایا ہے کہ یہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں ۔ اس کی عظمت وتوحید کو نہیں مانتے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے مخالفوں اور منکروں کو سخت سزا اور ناقابل برداشت عذاب کرنے والا ہے ۔ پس یہ آیت مثل آیت ( وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ 50؀ ) 27- النمل:50 ) کے ہے یعنی انہوں نے مکر کیا اور ہم نے بھی اس طرح کہ انہیں معلوم نہ ہو سکا ۔ اب تو خود دیکھ لے کہ ان کے مکر کا انجام کیا ہوا ؟ ہم نے انہیں اور ان کی قوم کو غارت کر دیا ۔ اللہ سخت پکڑ کرنے والا ہے ۔ بہت قوی ہے ، پوری قوت وطاقت والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 جس سے راہ گیر مسافر ڈرتے ہیں اور گھروں میں مقیم کسان اور کاشت کار اس کی برکت و منفعت کی امید رکھتے ہیں۔ 12۔ 2 بھاری بادلوں سے مراد، وہ بادل ہیں جس میں بارش کا پانی ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] پانی سے لدے ہوئے بادلوں کے وزن کا اندازہ کچھ اس بارش سے اور کچھ اس رقبہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ جہاں یہ بادل برستا ہے۔ ہوا جو ایک ہلکے سے کاغذ کا بھی بوجھ برداشت نہیں کرتی اور وہ زمین پر گرپڑتا ہے۔ کروڑوں ٹن پانی والے بادلوں کے بوجھ کو اس طرح اپنے دوش پر اٹھائے پھرتی ہے۔ جس کا تصور کرنے سے ہی اللہ کی بےپناہ قدرت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ پانی سے بھرے ہوئے بادل کبھی تہ بہ تہ بنتے جاتے ہیں۔ اس پانی میں کہربائی قوت موجود ہوتی ہے۔ کسی تہ میں مثبت بجلی ہوتی ہے، کسی میں منفی۔ جب یہ بادل ملتے ہیں تو بجلی کے جذب و انجذاب سے زبردست دھماکہ اور آتشیں شعلہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی آتشیں شعلہ کو برق یا چمکنے والی بجلی کہتے ہیں اور اس دھماکہ کو رعد یا کڑک کہتے ہیں۔ برق تو فوراً اہل زمین کو نظر آجاتی ہے۔ لیکن رعد یا کڑک چند لمحے بعد سنائی دیتی ہے۔ کیونکہ آواز کی رفتار روشنی کی رفتار کی نسبت بہت کم ہوتی ہے۔ اکثر تو یہ بجلی انھیں بادلوں کے پانی میں جذب ہوجاتی ہے اور جب یہ زیادہ مقدار میں پیدا ہو یا کسی دوسری وجہ سے زمین پر گرتی ہے۔ ایسی گرنے والی بجلی کو صاعقہ (ج۔ صواعق) کہتے ہیں۔ لہذا انسان جب بجلی چمکتے دیکھتا ہے تو اسے امید تو یہ ہوتی ہے کہ باران رحمت برسے گی اور خوف یہ کہ مہیب کڑک کہیں اسے بہرانہ کردے۔ اسی لیے سخت کڑک میں انسان اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھوس لیتا ہے اور یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں بجلی گر کر تباہی کا باعث نہ بن جائے۔ یہ تو وہ توجیہہ ہے جو ہمارے ماہرین طبیعیات اور سائنس دان پیش کرتے ہیں۔ لیکن اسلامی عقیدہ کی رو سے یہ رعد اور برق وغیرہ طبعی قوانین کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ بلکہ کائنات کے انتظام پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے۔ وہی مدبرات امر ہیں۔ بادل اور بارش پر میکائیل فرشتہ مقرر ہے۔ وہی بادلوں کو ہانکتا اور چلاتا ہے اور اس طرف ہانکتا ہے۔ جدھر اللہ کا حکم ہو۔ پھر بارش اسی مقام پر برستی ہے۔ جہاں اللہ کی مرضی ہو۔ اسی فرشتہ کے کوڑا مارنے سے رعد اور برق پیدا ہوتی ہے اور گرنے والی بجلی بھی صرف وہاں گرتی ہے جہاں اس فرشتہ کو اللہ کا حکم ہوتا ہے اور اللہ کو اس کا تباہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ چناچہ : سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب آپ گرج کی آواز سنتے تو فرماتے : اللّٰھُمَّ لاَ تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلاَ تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَا فِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ (ترمذی، ابو اب الدعوات باب مایقول اذا سمع الرعد) بادلوں کے برسنے، ان کی روانی اور ان کے سمت اختیار کرنے پر اللہ تعالیٰ کا جس قدر کنٹرول ہے۔ اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے ہوتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ایک آدمی جنگل میں جارہا تھا۔ اس نے بادل سے ایک آواز سنی جیسے کوئی کہہ رہا ہے کہ جا کر فلاں شخص کے باغ کو سیراب کرو۔ وہ بادل ایک طرف چلا۔ پھر وہاں ایک پتھریلی زمین پر برسا۔ ایک نالی نے وہ سب پانی جمع کیا۔ وہ آدمی اس پانی کے پیچھے پیچھے چلا۔ آگے چل کر اس نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے باغ کو سیراب کرنے کے لیے بیلچہ سے اس کی نالی درست کر رہا ہے۔ نالی درست ہوئی تھی کہ بارش کا یہ پانی وہاں پہنچ گیا۔ پیچھے پیچھے چلنے والایہ شخص اللہ کی قدرت پر بہت متعجب ہوا اور باغ والے سے پوچھا اللہ کے بندے ! تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے وہی نام بتلایا جو اس نے بادل سے سنا تھا۔ اب باغ والے نے اس شخص سے پوچھا : اللہ کے بندے ! تم میرا نام کیوں پوچھتے ہو۔ وہ کہنے لگا : میں نے اس بادل سے جس کے پانی سے تو اپنا کھیت سیراب کر رہا ہے۔ یہ آواز سنی تھی کہ جاکر فلاں شخص کے باغ کو سیراب کرو۔ اس میں تمہارا ہی نام لیا گیا تھا۔ اب تم یہ بتلاؤ کہ تمہارا وہ کون سا عمل ہے جس کی وجہ سے اللہ تم پر اتنا مہربان ہے ؟ باغ والا کہنے لگا : اب جبکہ تم نے یہ بات سن ہی لی ہے تو میں تمہیں بتادیتا ہوں۔ اس باغ سے جو پیداوار ہوتی ہے اس کا ایک تہائی حصہ صدقہ کردیتا ہوں اور ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور ایک تہائی اسی باغ میں لوٹا دیتا ہوں && (یعنی اگلی فصل کے خرچ اخراجات پر صرف کرتا ہوں) (مسلم، کتاب الزہد، باب فضل الانفاق علی المساکین وابن السبیل) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرکین بھی تو یہی کہتے ہیں کہ بادلوں یا بارش کا مالک فلاں فرشتہ یا دیوتا ہے اور موت کا فلاں اور فلاں کام کا فلاں تو پھر ان میں اور مسلمانوں کے عقائد میں فرق کیا ہوا ؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مشرکوں کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ فلاں فرشتہ یا فلاں دیوتا بادل یا بارش کا دیوتا ہے۔ جہاں چاہے بارش برسائے۔ اسی لحاظ سے اس کی عبادت کرکے اسے خوش رکھنے یا اس کے غضب سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان فرشتوں یا دیوتاؤں کو تدبیر امور میں اللہ کا شریک بنایا جاتا ہے لیکن اسلامی عقیدہ کی رو سے فرشتے مالک و مختار نہیں بلکہ اللہ کے فرمانبردار غلام اور مامور ہیں۔ اسی لیے ان آیات میں اللہ نے واضح طور پر فرما دیا کہ کڑک بھی اور فرشتے بھی دونوں اللہ کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور یہ عین بندگی اور غلامی ہے۔ جیسے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

هُوَ الَّذِيْ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے ایسے نشان بیان فرمائے ہیں جو بیک وقت امید اور ڈر کے حامل ہیں، جو رحمت کا پیش خیمہ بھی بن سکتے ہیں اور موجب زحمت بھی۔ مثلاً جب بجلی چمکتی ہے تو امید بندھتی ہے کہ بارش ہوگی مگر ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں تباہی کا موجب نہ بن جائے، بادل دیکھ کر رحمت کی بارش کی امید بندھ جاتی ہے مگر ساتھ ہی یہ فکر بھی دامن گیر رہتی ہے کہ کہیں سیلاب نہ آجائے۔ پس انسان کو چاہیے کہ اللہ کی رحمت کا امید وار رہے اور اس کے عذاب سے بھی ڈرتا رہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that, it was said in verse 12: هُوَ الَّذِي يُرِ‌يكُمُ الْبَرْ‌قَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ. It means that it is Allah Ta` ala Who makes you see the lightening and the thunder which can become a matter of fear for human beings lest it may destroy what it strikes. Then, it has a dimension of hope too by raising expectations that rains may follow the thunder, rains which support animal and human lives. And then, He is the One who lifts heavy and huge clouds up from the surface of the sea as the monsoons and carries these water-laden clouds post-haste through the atmosphere to places near and far off and has them deliver their rains over lands He chooses in accordance with His decree and corresponding to the measure determined by Him.

(آیت) هُوَ الَّذِيْ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّيُنْشِئُ السَّحَاب الثِّقَالَ یعنی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پاک ہے جو تمہیں برق و بجلی دکھلاتا ہے جو انسان کے لئے خوف بھی بن سکتی ہے کہ جس جگہ پڑجائے سب کچھ خاک کر ڈالے اور طمع بھی ہوتی ہے کہ بجلی کی چمک کے بعد بارش آئے گی جو انسان اور حیوانات کی زندگی کا سہارا اور وہی ذات پاک ہے جو بڑے بڑے بھاری بادل سمندر سے مان سون بنا کر اٹھاتا ہے اور پھر ان پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو فضا میں بڑی سرعت کے ساتھ کہیں سے کہیں لے جاتا ہے اور اپنے حکم قضا وقدر کے مطابق جس زمین پر چاہتا ہے برساتا ہے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

هُوَ الَّذِيْ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّيُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ 12۝ۚ برق البَرْقُ : لمعان السحاب، قال تعالی: فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة/ 19] ( ب رق ) البرق کے معنی بادل کی چمک کے ہیں قرآن میں ہے : فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة/ 19] اس میں اندھیرے پر اندھیرا چھارہا ) ہو اور بادل ) گرج ( رہا ) ہو اور بجلی کوند رہی ہو ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] ، ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ طمع الطَّمَعُ : نزوعُ النّفسِ إلى الشیء شهوةً له، طَمِعْتُ أَطْمَعُ طَمَعاً وطُمَاعِيَةً ، فهو طَمِعٌ وطَامِعٌ. قال تعالی: إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء/ 51] ، أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة/ 75] ، خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف/ 56] ، ( ط م ع ) الطمع کے معنی ہیں نفس انسانی کا کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ میلان ۔ طمع ( س ) طمعا وطماعیۃ کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ مائل ہونا طمع وطامع اس طرح مائل ہونے والا قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء/ 51] ہمین امید ہے کہ ہمارا خدا ہمارے گناہ بخش دیگا ۔ أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة/ 75]( مومنوں ) کیا تم آرزو رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین کے قائل ہوجائیں گے ۔ خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف/ 56] وڑانے اور امید دلانے کیلئے نشأالسحاب نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] ( ن ش ء) النشا نشاء السحاب کا جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) اور وہ تمہیں کو بارش کے وقت بجلی چمکتی ہوئی دکھاتا ہے کہ بارش سے مسافر کو اپنے سازوسامان کے بھیگ جانے کا خوف بھی ہوتا ہے اور مقیم کو خواہش وامید ہوتی ہے کہ اس کی کھیتی سیراب ہوجائے اور وہ بادلوں کو بھی جو بارش سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں پیدا کرتا اور ان کو بلند کرتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (هُوَ الَّذِيْ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّيُنْشِئُ السَّحَاب الثِّقَالَ ) گہرے بادلوں کی گرج چمک میں خوف کے سائے بھی ہوتے ہیں اور امید کی روشنی بھی کہ شاید اس بارش سے فصلیں لہلہا اٹھیں اور ہماری قحط سالی خوشحالی میں بدل جائے۔ یعنی ایسی صورت حال میں خوف ورجاء کی کیفیت ایک ساتھ دلوں پر طاری ہوتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢۔ اس آیت میں اللہ پاک نے یہ ذکر کیا کہ بجلی بھی خدا کے حکم کے تابع ہے وہی جب چاہتا ہے بڑے بڑے ابر کے ٹکڑوں کے ساتھ بجلی کو بھیج دیتا ہے جس کو تم لوگ دیکھتے ہو اور بعضے خوف کرنے لگتے ہیں اور بعضے طمطع کرتے ہیں مطلب یہ ہے کہ مسافر جو راستہ چلتا ہوا ہوتا ہے رعد کی کڑک اور بجلی کی چمک دیکھ کر ڈر جاتا ہے کہ اب رستہ کیوں کر طے ہوگا کس طرح منزل پر پہنچیں گے اور جو لوگ اپنے گھروں میں ہوتے ہیں ان کو ایک گو نہ خوشی ہوتی ہے کہ بادل اگر برس گیا تو بڑا فائدہ ہے غلہ خوب پیدا ہوگا رزق میں زیادتی ہوجائے گی۔ غرض اللہ تعالیٰ ہوا کے ذریعہ سے پانی کے بھرے ہوئے بادل پیدا کردیتا ہے اور جہاں حکم ہوتا ہے وہاں مینہ برستا ہے۔ سورت الروم میں آوے گا کہ پہلے اللہ کے حکم سے ہوا چلتی ہے جو بادلوں کو ابھارتی اور پھیلاتی ہے اور ان کو تہ برتہ کردیتی ہیں۔ پھر ان بادلوں میں سے مینہ برستا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے زیاد بن خالد جہنی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک دفعہ رات کو مینہ برسا اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ صبح اٹھ کر یہ کہویں گے کہ اللہ نے اپنے فضل سے یہ مینہ برسایا وہ اللہ کی نعمت کی شکر گزاری ادا کریں گے اور جو لوگ یہ کہویں گے کہ تاروں کی گردش کے اثر سے یہ مینہ برسا وہ اللہ کی نعمت کے ناشکر گزار ہیں ١ ؎ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جسکا حاصل یہ ہے کہ یہ منکرین حشر کچھ فقط حشر کے باب میں ہی اللہ کی قدرت کے منکر نہیں ہیں بلکہ اللہ کی قدرت کی اور باتوں میں بھی ان کو شیطان نے بہکا رکھا ہے۔ مثلاً مینہ تو اللہ کی قدرت سے برستا ہے اور یہ لوگ اس کو تاروں کی گردش کا اثر بتلاتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ تاروں کو اور ان کی گردش کو آخر کس نے پیدا کیا ہے بغیر اس کے حکم کے تاروں میں اثر کہاں سے آسکتا ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ١٤١ ج ١ باب قول اللہ عزوجل و تجعلون رزقکم انکم تکذبون۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:12) یریکم۔ وہ تم کو دکھاتا ہے۔ اری یری (افعال ) اراء ۃ سے مضارع ۔ واحد مذکر غائب کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ خوفا وطمعا۔ ہر دو منصوب بوجہ حال ہونے کے ہیں۔ یہ برق کا بھی حال ہوسکتا ہے اور مخاطبین کا بھی۔ پہلی صورت میں برق ذا خوف وذا طمع یعنی برق جس میں خوف اور طمع ہو۔ دوسری صورت میں کہ تم اس سے خائف اور طامع ہو۔ خوف کی حالت اس طرح کہ کہیں بجلی گر کر نقصان کا باعث نہ بن جائے اور طمع کی حالت کہ بارش ہوگی اور کھیتیاں سیراب ہوں گی۔ ینشیئ۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ انشأ ینشیء انشاء (افعال) نشأ مادہ۔ ینشیء السحاب۔ وہ بادل کو اٹھاتا ہے۔ وینشیء اللہ الشیء ۔ اللہ پیدا کرتا ہے انشأ الحدیث والکلام۔ وضع کرنا۔ ابتدء کرنا۔ ونشأ زید۔ عمدہ شعر کہنا۔ ونشأ ۔ پیدا ہونا زندہ ہونا۔ نشأۃ الثانیۃ۔ دوسری دفعہ پیدا ہونا۔ دوبارہ زندہ ہونا۔ السحاب الثقال۔ موصوف وصفت۔ بھاری بادل۔ بوجھل بادل۔ (پانی سے بھرے ہوئے) السحاب اسم جنس ہے۔ مذکر۔ مؤنث واحد۔ جمع۔ سب پر استعمال ہوتا ہے۔ الثقال ثقیل کی جمع ہے۔ ثقل بوجھ۔ ثقیل۔ بوجھل ۔ بھاری۔ گراں بار۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے ایسے نشان بیان فرمائے ہیں جو بیک وقت امید و ہم کے حامل ہیں جو رحمت کا پیش خیمہ بھی بن سکتے ہیں اور موجبِ زحمت بھی۔ مثلاً جب بجلی چمکتی ہے تو امید بندھتی ہے کہ بارش ہوگی۔ مگر ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں تباہی کا موجب نہ بن جائے۔ بادل دیکھ کر بارا رحمت کی امید بندھ جاتی ہے مگر ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی دامنگیر رہتا ہے کہ کہیں سیلاب نہ آجائے پس انسان کو چاہیے کہ اللہ کی رحمت کا امیدوار رہے اور اس کے عذاب سے بھی ڈرتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 12 تا 15 البرق بجلی ۔ چمک طمع امید ینشئی وہ اٹھاتا ہے السحاب بادل الثقال بھاری یسبح تسبیح کرتا ہے الرعد کڑک خیفۃ (اس کے ) خوف (سے) یرسل وہ بھیجتا ہے الصواعق بجلیاں۔ کڑک یصیب وہ پہنچاتا ہے۔ گراتا ہے یجادلون وہ جھگڑتے ہیں شدید المحال سخت پکڑنے والا دعوۃ الحق سچائی کی پکار لایستجیبون وہ جواب نہیں دیتے ہیں باسط پھیلانے والا لیبلغ تاکہ وہ پہنچے فاہ منہ بالغ پہنچنے والا طوع خوشی کرہ مجبوری بےبسی ظلل (ظل) ۔ سائے الغدو صبح الاصال شام تشریح : آیت نمبر 12 تا 15 یہ کائنات اور اس کا نظام کیا ہے ؟ اس کی حقیقت کا تو ہمیں علم نہیں ہے اس کا علم صرف اللہ کو ہے البتہ اپنی معلومات اور تحقیق سے ہمیں جو بھی نظر آتا ہے ہم اس کا اظہار کردیتے ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں یا سوچ رہے ہیں وہ واقعی سچ ہے۔ دنیا کے سائنسدان، فلاسفر اور دانش و ریہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے جو نظر یہ پیش کیا ہے وہ اتنا صحیح ہے کہ اس میں تبدیلی ناممکن ہے مثلاً دو ہزار سال تک دنیا بھر کے سائنسدان اور فلاسفرز کا یہ خیال تھا کہ زمین ساکن ہے، آسمان اس کے گرد گھوم رہا ہے اور چاند، سورج اور ستارے آسمان پر جڑے ہوئے ہیں۔ صرف ایک دوربین کی ایجاد نے دو ہزار سال کے اس فلسفے کو تلپٹ کر کے رکھ دیا اور یہ ثابت کردیا کہ زمین تو خود گردش میں ہے وہ اپنے سورج کے گرد گھوم کر دن، رات، ہفتے، مہینے اور سال بنا رہی ہے۔ اس طرح ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ روزانہ سورج نکل رہا ہے، چاند چمک رہا ہے، ستارے ٹمٹا رہے ہی، اونچے اونچے پہاڑ میخوں کی طرح زمین میں گڑے ہوئے ہیں، دریا، ندیاں بہہ رہی ہیں اور سمندر موجیں مار رہا ہے، ہواؤں کے دوش پر بادل اڑ رہے ہیں، گرج چمک کے ساتھ آنکھوں کو چکا چوند کرنے والی بجلی چمک رہی ہے، بارشیں برس رہی ہیں، زمین میں ایک نئی زندگی کروٹیں لے رہی ہے۔ لیکن اتنے بڑے نظام کو کون چلا رہا ہے، جب ایک مشین بھی خود بخود بن کر اپنے آپ کام نہیں کرسکتی تو کیا اس پوری کائنات کو پیدا کرنے والا اور چلانے والا کوئی نہیں ہے۔ ہر انسان کی فطرت چلا اٹھے گی کہ اس کائنات کو پیدا کر کے اس کو چلانے والی ذات کوئی ہے اور صرف اللہ ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک نظام تو وہ ہے جو ہمیں نظر آتا ہے اور دن رات اس تجربے سے ہم گذرتے ہیں۔ لیکن اس نظام کے پیچھے ایک اور روحانی نظام کارفرما ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا مثلاً یہ یہ دیکھتے ہیں کہ گرمی پڑی، سمندر سے مان سون اٹھا، بادل بنے اور کڑک چمک کے ساتھ کسی جگہ جا کر برس گئے اور مردہ زمین میں ایک نئی زندگی پیدا ہوگئی۔ لیکن قرآن کریم اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے نظام پر اللہ نے فرشتے مقرر کئے ہوئے ہیں حدیث میں آتا ہے کہ ” رعد “ ایک فرشتہ کا نام ہے جو بجلی کے کوڑے سے بادلوں کو ہانکتا ہے یہ فرشتہ اللہ کی تسبیح کرتا رہتا ہے، انسان اور حیوان ان کی اس تسبیح کی آواز تو نہیں سنتے البتہ بادلوں کی ہیبت ناک آواز کو سب سنتے ہیں۔ مشرکین اور کفار کا عقیدہ یہ ہے کہ جب ان کا معبود ان سے ناراض ہوجاتا ہے تو یہ گرجچ چمک اور کڑک پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جس بجلی کو تم اس امید کے ساتھ دیکھتے ہو کہ وہ برس کر تمہارے کھیتوں کو سیراب کر دے گی اور اس کڑک اور گرج اور بجلی سے تم خوف زدہ ہوجاتے ہو جو چمکتی رہتی ہے اور دلوں کو ہلا ڈالتی ہے۔ یہ سب کچھ تمہیں کون دکھاتا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔ بادلوں کی اس گرج چمک سے اس کے فرشتے بھی خوف سے اس کی تسبیح کرنے لگتے ہیں اور اس کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں۔ پھر اللہ جس پر چاہتا ہے اس بجلی کو گراتا ہے۔ اس وقت وہ کفار اللہ کو پکارنے کے بجائے اپنے جھوٹے معبودوں کو پکارنے لگتے ہیں۔ حالانکہ وہ لوگ جن جھوٹے معبودوں کو پکارتے ہیں اس کائنات کے نظام میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے وہ ایک بےحقیقت اور بےجان چیزیں ہیں۔ پھر بھی وہ اپنے ان معبودوں سے مانگتے ہیں ۔ ایسا ہی ہے جیسے کوئی پیاسا آدمی پانی کی طرف ہاتھ بڑھائے تاکہ وہ اس کے منہ تک پہنچ جائے اور وہ پانی اس کے منہ تک نہ پہنچے۔ یعنی جیسے یہ کوشش لا حاصل اور فضول ہے اسی طرح غیر اللہ کو پکارنا اس کو سجدے کرنا انتہائی احمقانہ حرکت ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ فرمایا کہ کیا تم نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ اس کائنات کی ہر چیز خوشی سے یا مجبوری سے اسی کے سامنے سجدہ کررہی ہے۔ اس کے حکم کی تعمیل کر رہی ہے اور صبح و شام کے سائے بھی در حقیقت اسی معبود حقیقی کو سجدے کر رہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیات میں یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی ابتدا، انتہا سے باخبر ہے اور اسی نے انسان پر نگران مقرر کیے ہوئے ہیں۔ اب ارشاد ہوتا ہے، کہ وہی ذات ہے جو تمہیں آسمان سے گرجتی اور چمکتی ہوئی بجلی دکھاتا ہے۔ جس کے گرجنے چمکنے سے تم سہمے جاتے ہو، اس حال میں کہ اپنے دلوں میں بارش کی امید لیے ہوئے ہوتے ہو۔ وہی فضا اور ہوا میں بھاری بھر کم بادلوں کو اٹھائے اور چلائے رکھتا ہے جس بجلی کی کڑک سے تم ڈرتے ہو۔ درحقیقت وہ اپنی زبان میں اپنے رب کی حمد کرتی ہے اور فرشتے اپنے رب سے لرزاں اور ترساں رہتے ہیں۔ اللہ جہاں چاہتا ہے بجلی کو گرنے کا حکم صادر کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر تدبیر اور منصوبہ بندی کرنے والا ہے۔ لیکن مشرکوں اور منکروں کی حالت یہ ہے کہ وہ پھر بھی اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ کافر اللہ تعالیٰ کی ذات کا منکر ہوتا ہے اور مشرک اللہ تعالیٰ کو ماننے کے باوجود اس کی صفات میں دوسروں کو شریک کرتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں جھگڑا کرنے کے مترادف قرار دیا ہے حالانکہ مشرک اور کافر جانتے ہیں کہ زمین و آسمان کو بنانے والا شمس و قمر کو تسخیر کرنے والا، پہاڑوں کو نصب کرنے والا اور ان کے درمیان دریا بہانے والا۔ پانی سے مختلف قسم کے پھل پیدا کرنے والا اور انسان کو اس کی ماں کے رحم سے لے کر موت تک پالنے اور اس کی نگرانی کرنے والا۔ موت کے بعد اٹھا کر محشر میں اپنے سامنے کھڑا کرنے والا صرف ایک اللہ ہے۔ ان تمام کاموں اور امور میں زمین و آسمان میں کوئی ہستی نہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک وسہیم ہو۔ مشرک یہ حقیقت جاننے کے باوجود باطل معبودوں کے بارے میں بحث و تکرار کرتا ہے اور کافر اتنی بڑی حقیقت کا انکار کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ أَقْبَلَتْ یَہُودُ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوْا یَآأَبَا الْقَاسِمِ أَخْبِرْنَا عَنِ الرَّعْدِ مَا ہُوَ قَالَ مَلَکٌ مِّنَ الْمَلاآءِکَۃِ مُوَکَّلٌ بالسَّحَابِ مَعَہٗ مَخَارِیْقُ مِّنْ نَارٍ یَّسُوقُ بِہَا السَّحَابَ حَیْثُ شَآء اللّٰہُ فَقَالُوْا فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِیْ نَسْمَعُ قَالَ زَجْرُہٗ بالسَّحَابِ إِذَا زَجَرَہٗ حَتّٰی یَنْتَہِیَ إِلٰی حَیْثُ أُمِرَ قَا لُوْا صَدَقْتَ )[ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورة الرعد وہو حدیث صحیح ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہودی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا اے ابو القاسم ! ہمیں کڑک کے بارے میں خبر دیجئے کہ وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا فرشتوں میں سے ایک فرشتہ بادلوں پر مقرر ہے۔ اس کے پاس آگ کے کوڑے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ بادلوں کو ہانکتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا وہ آواز کیا ہے جو ہم سنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ فرشتہ بادلوں کو چلاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔ “ مسائل ١۔ آسمانوں سے بجلیوں کی چمک دکھانے والا اور بھاری بادلوں کو بلند کرنے والا اللہ ہے۔ ٢۔ آسمانی بجلی بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھتی ہے۔ ٣۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جب اور جہاں چاہے بجلیاں گرا دیتا ہے۔ ٥۔ لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کر رہی ہے : ١۔ رعد اس کی حمد و تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الرعد : ١٢) ٢۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الحدید : ١) ٣۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (نبی اسرائیل : ٤٤) ٤۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں اور مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ (الشوریٰ : ٥) ٥۔ مومن اللہ کی حمد اور تسبیح بیان کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔ (السجدۃ : ١٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب سیاق کلام ہمیں ایک دوسری وادی میں لے جاتا ہے۔ یہ وادی بھی اس کے ساتھ متصل اور مربوط ہے جس میں ہم ابھی گھوم رہے تھے۔ یہ وادی وہ ہے جہاں طبعی مناظر اور نفس انسانی کے شعور کے مناظر باہم ملتے ہیں۔ اس وادی کے مناظر طبیعی ، ان کا پرتو اور ان کے اثرات انسانی شعور کی تصویر میں باہم جمع ہوجاتے ہیں۔ خوف ، ڈر ، جدو جہد ، امید اور خوف باہم ملے ہوئے ہیں اور انسانی شعور اس وادی میں مختلف تاثرات لیتا ہے۔ آیت ١٢ تا ١٦ چمک ، گرج اور بادل عام مناظر ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات ان مناظر میں سے برق بھی گرتی ہے۔ یہ وہ مناظر ہیں جو ہر انسان کو متاثر کرتے ہیں چاہے کوئی ان کی طبعی حقیقت سے واقف ہو یا نہ ہو ، یہاں قرآن مجید ان کو پیش کرتے ہوئے ، ان کے ساتھ ملائکہ ، تسبیح ، سجود ، خوف ، طمع اور ان مشاہد کے سائے کا بھی ذکر کرتا ہے اور اس بات کا بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ سچی پکار کیا ہے اور باطل اور ناحق پکار کیا ہے۔ ان مناظر میں ایک دوسرے شخص کی شکل یوں پیش کی جاتی ہے جو پانی پینا چاہتا ہے لیکن اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا ، بلکہ ہاتھ کھول کر اور منہ کھولے ہوئے یہ تمنا کرتا ہے کہ پانی خودبخود اس کے منہ میں پڑجائے ، جبکہ وہ پڑنے والا نہیں ، ایک قطرہ بھی۔ یہ تمام مناظر ، مثالیں اور اشیاء اس آیت میں محض اتفاقاً اور بےمقصد جمع نہیں کردی گئی ، ان سب چیزوں کا دراصل مدعا سے تعلق ہے۔ بلکہ یہ مناظر انسان کو ڈرانے ، امید ،۔۔۔ پیہم اور طمع اور خوف اور نفع و نقصان کی امید دلانے اور اللہ کے ساتھ انسانوں نے جو دوسرے شریک ٹھہرا رکھے ان کی قوت کی نفی کے لئے لائے گئے ہیں۔ ھو الذی ۔۔۔۔۔۔۔ وطمعا (١٣ : ١٢) ” وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور امیدیں بھی بندھتی ہیں “۔ اللہ وہ ذات ہے جو تمہیں یہ تکوینی مظاہر دکھاتا ہے۔ یہ اس کائنات کے طبیعی اور موسمی مظاہر ہیں جسے اس نے پیدا کیا ہے اور اس خاص انداز پر اس نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے اور یہ خواص ان اشیاء کے اندر پیدا کئے ہیں۔ وہ بجلی جو اللہ تمہیں دکھاتا ہے ، یہ اس کے قانون قدرت کے مطابق کام کرتی ہے۔ تم اس سے ڈر بھی جاتے ہو کیونکہ اس کی ماہیت ہی ایسی ہے جو اعصاب کو ہلا مارتے ہے۔ کبھی کبھی یہ بجلی برق بن کر بھی گرتی ہے اور خوفناک شکل میں تباہی بھی مچاتی ہے۔ جیسا کہ بارہا تم کو ۔۔۔ بھی ہوا ہوگا۔ تم اس چمک اور بجلی کے بعد باراں رحمت کے امیدوار بھی ہوتے ہو ، کیونکہ اس چمک اور گرج کے بعد بعض اوقات موسلا دھار بارش ہوتی اور مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ وینشیء السحاب الثقال (١٣ : ١٢) ” وہی ہے جو بارش سے لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے “۔ بادلوں کا پیدا کرنے والا بھی وہی ہے۔ سحاب۔۔۔۔ اس جنس کا واحد سحابہ ہے جو بادل کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں۔ ثقال سے مراد وہ بادل ہیں جو بارش کی وجہ سے بوجھل ہیں۔ یہ بادل اللہ کے پیدا کردہ ناموس فطرت کے مطابق پیدا ہوتے ہیں اور موسلا دھار بارشیں برساتے ہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ قانون قدرت اس طرح نہ وضع کرتا تو نہ بادل ہوتے اور نہ یوں بارشیں ہوتیں۔ یہ کہہ کر کہ بادل کس طرح پیدا ہوتے ہیں اور بارشیں کس طرح برستی ہیں ، ان کی علمی اور سائنسی کیفیت معلوم ہونے سے ان کی خوبصورتی اور سحر آفرینی میں کوئی کمی نہیں آتی۔ نہ اس سے اس مفہوم میں فرق پڑتا ہے جو قرآن کریم نے اخذ کیا ہے۔ کیونکہ یہ تمام کام اور عمل صرف اللہ کے پیدا کردہ تکوینی نظام کے مطابق ہوتا ہے ، اس میں کسی انسان کی صنعت کاری کا کوئی دخل نہیں ہے۔ نہ انسانوں کا اس پورے نظام میں کوئی دخل و عمل ہے۔ یہ تکوینی اور طبیعی قواعد جن کے مطابق یہ کائنات چل رہی ہے نہ خود کائنات نے پیدا کئے ہیں اور نہ خود بخود چل پڑے ہیں ، اس میں جو کچھ بھی چل رہا ہے ایک خالق مطلق کی وجہ سے چل رہا ہے۔ رعد ، باد ، باران کے مناظر میں ایک خاص منظر ہوتا ہے ۔ یہ طویل اور کڑاکے کی آواز۔ یہ بھی اس کرۂ ارض کے قوانین قدرت کا ایک مظاہرہ ہے اور اللہ کی صنعت کاری ہے۔ اس کا سائنسی تجزیہ جو بھی ہو ، اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ یہ اللہ کی تخلیق کا ایک حصہ ہے۔ یہ حمد و تسبیح اس معنی میں کرتا ہے کہ یہ اس قانون قدرت کے مطابق رواں دواں ہے جس کے مطابق اللہ نے یہ نظام بنایا ہے ، جیسا کہ ہر خوبصورت بنائی ہوئی چیز کو دیکھ کر بنانے والی کی حمد و ثنا بےساختہ ہوتی رہتی ہے اور اس کی مصنوعہ چیز کے آثار اور جمال اور افادیت کو دیکھ کر ہر کوئی تعریف کرتا ہے۔ اسی طرح اس کائنات کے اندر پائے جانے والے کمالات اور حیرت انگیز افادیت کی چیزوں کو دیکھنے سے بےساختہ اللہ کی تسبیح زبان پر آجاتی ہے۔ تسبیح کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے اور رعد تو خود ہی پکار رہی ہے ۔ بہرحال ہم ان چیزوں کی تسبیح کو ابھی تک نہیں سمجھ سکے اور نہ سمجھتے ہوئے بھی ہم ان حقائق پر ایمان لاتے ہیں ۔ خود اپنے بارے میں بھی ابھی تک ہم کم ہی جانتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد ہم یہ بھی معلوم کرلیں کہ یہ چیزیں کیسے تسبیح کرتی ہیں۔ یہاں قرآن کریم نے رعد کے بارے میں ایسا انداز بیان اختیار کیا ہے کہ گویا رعد ایک زندہ مخلوق ہے اور وہ تسبیح کر رہی ہے ، قرآن کریم کا یہ مخصوص انداز ہے کہ وہ مناظر قدرت کو آثار زندگی سے مزین کردیتا ہے حالانکہ یہ مناظر قدرت خاموش ہوتے ہیں اور یہ اس لیے کہ اس پورے منظر میں تمام دوسرے مناظر زندہ ہیں جیسا کہ میں نے اپنی کتاب التصویر الغنی فی القرآن میں تفصیلات دی ہیں۔ اس منظر میں چونکہ زندہ چیزوں کے مناظر ہیں مثلاً تسبیح کر رہے ہیں۔ اللہ کو پکارنا ، شرکاء کو پکارنا اور یہ منظر کہ ایک آدمی پانی کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے کہ وہ خود بخود منہ میں پڑجائے جبکہ وہ پڑنے والا نہیں ہے ، تو ایسے مناظر جن میں ایک طرف پکار ، بندگی اور حرکت ہے ، رعد کو بھی زندہ تصور کر کے تسبیح اور دعاء کی نسبت اس کی طرف کردی گئی۔ اب اس منظر کو ذرا مزید خوفناک بنایا جاتا ہے ، خوف ، دعاء ، برق اور رعد اور بھاری بادل اور یا دو باراں کے ساتھ اب بجلیاں بھی گرتی دکھائی دیتی ہیں ، اور کسی بےچارے پر برق گرتی ہے۔ یہ بجلی جس طرح گرتی ہے وہ اس کائنات کے قدرتی نظام کا حصہ ہے۔ بعض اوقات یہ برق ایسے شخص پر گر جاتی ہے جسے اللہ مزید مہلت دینا نہیں چاہتا کیونکہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اب مہلت دینا مناسب نہیں لہٰذا بعض لوگ اس برق کے ذریعے ہلاک کر دئیے جاتے ہیں۔ اور تعجب انگیز بات یہ ہے کہ رعد و برق اور طوفان بادوباراں کی اس فضا میں ، اور رعد اور برق کی جانب سے تسبیح اور ملائکہ کی جانب سے حالت خوف میں اظہار اطاعت ، اور اللہ کے ان غضبناک مظاہر قدرت کے عروج کی حالت میں بھی بعض لوگ ایسے ہیں جو ذات باری کے متعلق شبہات کا اظہار کرتے ہیں ، اللہ کے بارے میں مجادلے اور مباحثے کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کی قدرت کے مظاہر بلکہ خوفناک مظاہر وہ خود بچشم سر دیکھ رہے ہیں۔ وھم یجادلون۔۔۔۔۔۔ المحال (١٣ : ١٣) ” یہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں حالانکہ اس کی چال بڑی زبردست ہے “۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ جو ذات باری میں کلام کرتے ہیں لیکن اس ہولناک فضا ، گریہ وزاری اور رعد اور برق ، چیخ اور دھاڑ اور اس ہنگامہ خیز فضا میں جس کی تمام چیزیں وجود باری پر دلالت کرتی ہیں ایسے چند لوگوں کی آواز دب کر رہ جاتی ہے۔ کیونکہ اس کائنات کے تمام قابل ذکر مناظر اللہ کی وحدانیت ، اللہ کی تسبیح و تہلیل پر دلیل ناطق ہیں ، پھر فرشتوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو ہر وقت اللہ کے خوف کے مارے کانپتے رہتے ہیں ، لہٰذا ان مناظر کی موجودگی ، اور ان فرشتوں کے خوف اور تمام انسانوں کے خوف کی اس فضا میں اللہ کے بارے میں کلام کرنے والوں کی بات شا ذو نادر ہے اور بےمحل ہے۔ یہ لوگ اللہ کے بارے میں کلام کرتے ہیں ، مثلاً یہ کہ وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں حالانکہ حقیقت پکارے گا ، لاحاصل پکارتا رہے گا۔ لہ دعوۃ الحق والذین ۔۔۔۔۔۔ فی ضلل (١٣ : ١٤) ” اسی کو پکارنا برحق ہے۔ رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں ، وہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ انہیں پکارنا ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا ، حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں۔ بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیر بےہدف ! “ یہ منظر بھی بولتا منظر ہے ، متحرک اور پر معنی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک پکار حق ، اور وہی اس بات کی مستحق ہے اور حقیقت پسندانہ ہے اور اس کے سوا جو پکاریں بھی ہیں وہ باطل ، بےفائدہ اور گمراہانہ ہیں۔ کیا تم ذرا غور نہیں کرتے کہ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو پکارتے ہیں ان میں سے ایک شخص کی مثال ایسی ہے کہ وہ پیاسا ہے اور پیاس کی وجہ سے نڈھال ہو رہا ہے ، اس نے بازو پھیلا رکھے ہیں ، ہاتھ کھول رکھے ہیں ، منہ کھلا ہے اور مسلسل پکار رہا ہے کسی کو ، اپنے سامنے موجود پانی کو ، اے پانی میرے منہ میں آکر پڑجا۔ حالانکہ وہ پڑنے والا نہیں ہے۔ یہ شخص اس پکار اور جدو جہد میں تھک کر چور ہوجاتا ہے اور اس کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ یہ ہے مفہوم اس آیت کا۔ وما ھو۔۔۔۔۔۔ فی ضلل (١٣ : ١٤) حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں۔ بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیرے بےہدف ! “ یہ مثال اس فضا میں دی گئی ہے کہ ایک پیاس سے نڈھال آدمی ایک قطرۂ آب بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ ایسی فضا میں جس میں ہر طرف برق اور باد و باراں کا طوفان ہے اور یہ تمام خوفناک مناظر اللہ کے قانون قدرت کے مطابق متحرک ہیں۔ جس وقت یہ ناکام اور غلط کار لوگ اللہ کے سوا دوسرے الہوں کو پکارتے ہیں ، غیر اللہ سے امید رکھتے ہیں اور غیر اللہ کے سامنے دست بدعاء ہوتے ہیں ، یہ پوری کائنات اور اس کی ہر چیز اللہ کے سامنے سر بسجود ہوتی ہے ، یہ سب لوگ اور یہ سب مخلوق اللہ کے حکم کے تابع ہے اور اللہ کے قانون قدرت میں جکڑی ہوئی ہے۔ اللہ کی سنت کے مطابق چل رہی ہے۔ اس مخلوق میں سے جو مومن ہے وہ خوشی اور مرضی سے اطاعت کرتا ہے اور جو کافر ہیں وہ بھی کرھا اطاعت کرتے ہیں کیونکہ کوئی چیز ارادۂ الٰہی سے نہیں نکل سکتی اور نہ کوئی چیز ناموس الٰہیہ سے نکلتی ہے۔ وللہ یسجد من۔۔۔۔ الاصال (١٥) السجدہ ” وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً وکرھاً سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح وشام اس کے آگے جھکتے ہیں “۔ کیونکہ یہ فضا ہی عبادت اور بندگی اور پکار کی فضا ہے۔ سیاق کلام میں قرآن اللہ کے احکام بجا لانے کو لفظ عبادت سے تعبیر کرتا ہے کیونکہ سجدے میں انسان غایت درجہ خضوع اور اطاعت اختیار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آسمانوں اور زمین کی مخلوق کا ذکر بھی کردیا جاتا ہے۔ اور اس کائنات کی تمام چیزوں کے سائے کو بھی اللہ کا مطیع کہا گیا کہ ان چیزوں کے سائے بھی اللہ کے سامنے جھکتے ہیں۔ گویا وہ اللہ کی عبادت اور بندگی کرتے ہیں کیونکہ یہ اطاعت الٰہیہ سے سرموانحراف نہیں کرسکتے اور وہ قانون قدرت کے یوں تابع ہیں جس طرح وہ شخص تبابع ہوتا ہے جو اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ یہ تمثیل بھی ہے اور حقیقت بھی ، کیونکہ سایہ سورج کی کرنوں کے تابع ہوتا ہے۔ اس تمثیل کا اس منظر کی فضا پر بھی اثر پڑتا ہے گو سجدے بھی دو قسم کے ہیں۔ افراد کے سجدے اور سایوں کے سجدے۔ اور یہ پوری کائنات بھی اللہ کے تابع فرمان ہے۔ چاہے راہ ایمان سے تابع ہو یا غیر ایمان یعنی قانون قدرت کے ذریعے۔ سب کی سب کائنات بہرحال سر بسجود ہے۔ اور یہ بدبخت مشرک ایسے ہیں جو ان حالات میں بھی غیر اللہ کو پکارتے ہیں۔ اس عجیب و غریب منظر اور اس پر تاثیر فضا میں اب ان سے پوچھا جاتا ہے ، ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں جن کا جواب ہاں کے سوا کچھ نہیں اور یوں ان کو اضحو کہ بنایا جاتا ہے۔ قل من رب السموت۔۔۔۔۔۔ الواحد القھار (١٣ : ١٦) ” ان سے پوچھو ، آسمان و زمین کا رب کون ہے ؟۔۔۔ کہو ، اللہ۔ پھر ان سے کہو کہ حقیقت یہ ہے کہ تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھہرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ؟ کہو ، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے ؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں ؟ اور اگر ایسا نہیں تو کیا ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اس کی وجہ سے ان پر تخلیق کا معالہ مشتبہ ہوگیا ؟ ۔۔۔۔ کہو ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے ، سب پر غالب ! “ ان سے پوچھو اور حال یہ ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے اللہ کے ارادے اور اللہ کی قدرت سے ماخوذ ہے۔ اللہ کی قدرت میں بندھا ہوا ہے خواہ وہ راضی ہو یا نہ ہو۔ یہ بوجھ کہ کون ہے رب السموات والارض ؟ یہ سوال اس لیے نہیں کیا گیا کہ وہ کوئی جواب دیں اس کا جواب تو سیاق کلام میں آگیا ہے۔ یہ سب اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ اپنی زبان سے اقرار کرلیں۔ جواب تو یہی ہے کہ ” اللہ “ ہے۔ پھر دوسرا سوال یہ کہ تم جن کو پکارتے ہو کیا وہ اپنے نفع ونقصان کے بھی مالک ہیں۔ یہ سوال بھی محض ان کی گوشمالی اور ان کو ذلیل کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ تم سوال کرتے جاؤ، جبکہ یہ مسئلہ بالکل واضح ہے۔ حق و باطل میں امتیاز ہوچکا ہے۔ اس قدر امتیاز ہوچکا ہے کہ جس طرح اندھے اور صاحب بصارت میں فرق ہے یا جس طرح روشنی اور تاریکی میں فرق ہے۔ اعمی اور بصیر میں اشارہ اس طرف ہے کہ ایک مومن بصیر ہوتا ہے اور ایک کافر اندھا ہوتا ہے ۔ کیونکہ اندھا پن ہی انسان کو سچائی کے دیکھنے سے روکتا ہے حالانکہ یہ سچائی ظاہر و باطن ہے۔ اور اس کے آثار زمین و آسمان میں محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ ظلمات اور نور کے تذکرے سے بھی منکرین کے حالات اور مومنین کے حالات کی طرف اشارہ ہے۔ اندھیرا دیکھنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے اور ان کی حالت بھی یہ ہے کہ ان کے اور سچائی کے درمیان پردے حائل ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ ہستیاں جن کو یہ لوگ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں انہوں نے کوئی مخلوق پیدا کی ہے جس طرح مخلوقات اللہ تعالیٰ نے پیدا کی۔ اس طرح ان کو یہ شبہ پیدا ہوگیا کہ شاید یہ بھی خالقیت میں شریک ہیں یا ان کو شبہ ہوگیا کہ کون سی مخلوق اللہ کی ہے اور کون سی مخلوق ان ہستیوں کی ہے۔ یوں وہ بےچارے معذور ہیں اور یوں اس غلطی کا ارتکاب ممکن ہے کہ انہوں نے اللہ کی ذات وصفات میں ان دوسروں کو شریک کرلیا۔ کیونکہ اس ضرورت میں یہ ہستیاں صفت خالقیت میں شریک تھیں لیکن اگر کسی اور کی کوئی مخلوق ہی نہیں ہے تو پھر شرکت چہ معنی وارد۔ یہ اس قوم کے ساتھ ایک مذاق ہے کہ جو دعویٰ تو یہ کرتی ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک خالق ہے اور پھر دوسروں کو اللہ کے ساتھ شریک بھی ٹھہراتی ہے۔ حالانکہ یہ ٹھہراتے ہوئے شریک خودان کے قول کے مطابق بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو الٰہ بھی مانتے ہیں ، ان کی بندگی بھی کرتے ہیں ، لہٰذا فکرو نظر و عقل و بصیرت کا یہ نہایت ہی گھٹیا نمونہ ہے۔ اور اس حقارت آمیز مذاق کے بعد یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے جس میں کوئی کلام اور مجادلہ کی گنجائش نہیں ہے۔ قل اللہ۔۔۔۔۔ القھار (١٣ : ١٦) ” کہو ، ہر چیز کا خالق اللہ ہے ، وہ یکتا اور سب پر غالب ہے “۔ یعنی تخلیق میں بھی وہ واحد اور یکتا ہے۔ غلبے اور زبردستی میں بھی وہی یکتا ہے۔ قہار کے معنی ہیں انتہائی درجے کا غالب حکمران۔ عقیدۂ توحید اور رد شرک کو یہاں یوں احاطہ کیا جاتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں اللہ ہی کے سامنے سجدہ ریز ہیں ، خواہ کوئی چیز خوشی سے سجدہ کرے (انسان) یا مجبوری سے اور اس سبق کے آخر میں اللہ کی قہاریت کا ذکر کر کے مسئلہ توحید کو یوں بیان کیا گیا کہ اللہ ایسا حکمران ہے جو غایت درجہ غالب اور گرفت والا ہے۔ زمین و آسمان کی سب چیزیں اس کی مطیع فرمان ہیں جیسا کہ رعد و برق اور کڑک سب کی سب اللہ کی تسبیح کرنے میں ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی اندھا یا پتھر دل انسان ہی ہو سکتا ہے جو اللہ کا خوف نہ محسوس کرے اور ایسے شخص کی قسمت میں ہلاکت اور بربادی ہی ہے۔ قبل اس کے کہ ہم اس سبق پر بات ختم کریں ضروری ہے کہ طرز ادا کے حوالے سے ہم بعض متقابل امور پر غور کریں۔ مثلاً گرج و چمک اور بھاری بادلوں کے اندر خوف اور امید کا ذکر ہے ، جو متقابل ہیں۔ سحاب کے ساتھ ثقال کا ذکر ہے اور ثقل کی وجہ سے وہ دھیمی رفتار سے چلتے ہیں جبکہ چمک اور برق نہایت ہی تیز رفتار ہوتی ہے۔ یہ دونوں مفہوم بھی باہم متقابل اور متضاد ہیں۔ رعد کی تسبیح اللہ کی حمد کے ساتھ ہے اور ملائکہ کی تسبیح خوف کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں بھی باہم متقابل مفہوم ہیں۔ دعوت حق اور دعوت باطل دونوں متقابل مقاصد ہیں۔ زمین و آسمان بھی باہم متقابل ہیں ، سجدۂ رضا و مجبوری ، طوعاً و کرھاً بھی باہم متقابل مفہوم ہیں۔ افراد اور ان کے سائے ، صبح وشام ، اعمی وبصیر ، ظلمات اور نور ، خالق حقیقی اور شرکائے عاجزین ، جو نفع ونقصان کا مالک ہے اور ان کے شرکاء کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اس طرح اس پورے سبق میں باہم متضاد اور متقابل امور کا ذکر کر کے حق و باطل کو سمجھایا گیا ہے۔ اور یہ نہایت ہی خوبصورت طرز ادا ہے اور ہے بھی عجیب و غریب ہم آہنگی کے ساتھ۔ اب ہم ذرا مزید آگے بڑھتے ہیں۔ اللہ حق و باطل کی ایک اور مثال بیان فرماتے ہیں۔ ایک دعوت حق ہے جو ہمیشہ زمین پر باقی رہتی ہے اور ایک دعوت باطل ہے جو ادھر چلتی ہے جدھر ہوا کا رخ ہو۔ ایک بھلائی ہے جو پروقار اور جمی رہتی ہے۔ ایک شر اور برائی ہے جو پھلتی پھولتی نظر آتی ہے۔ یہاں جو مثال دی جا رہی ہے وہ اللہ واحد اور قہار کی قوت کیا ہے۔ یہ مثال بھی انہی مناظر قدرت کی ہم جنس ہے جو اس سبق کا موضوع خاص ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بادل اور بجلی اور رعد کا تذکرہ ان آیات میں بجلی اور بادل اور کڑک کا تذکرہ فرمایا ‘ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے اور اس کی تکوین اور تخلیق سے وجود میں آتی ہیں ‘ اللہ تعالیٰ بجلی کو بھیج دیتا ہے لوگ اسے دیکھتے ہیں پھر دیکھنے والوں میں بعض تو اس سے ڈر جاتے ہیں مثلاً مسافر راستوں میں ہوتے ہیں وہ ڈرتے ہیں کہ بارش ہونے لگی تو ہمارا کیا بنے گا ‘ اور بعض لوگ اسے دیکھ کر نفع کی امید باندھتے ہیں کہ بارش ہوگی تو کھیت کی آبیاری ہوگی اور بارش اچھی ہوگی۔ (وَیُنْشِءُی السَّحَاب الثِّقَالَ ) (اور اللہ تعالیٰ بھاری بادلوں کو پیدا فرما دیتا ہے۔ یہ بادل ایسی جگہ جا کر برس پڑتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے سورة اعراف میں فرمایا (وَھُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیَاحَ بُشَرًام بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ حَتّٰی اِذَا اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بْہِِ الْمَآءُ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ ) اور اللہ وہی ہے جو خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے اور اس کی رحمت یعنی بارش کے آنے سے پہلے یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم کسی ایسی جگہ بادل کو روانہ کردیتے ہیں جو مردہ تھی یعنی اس میں کسی درخت یا گھاس کا کوئی نشان بھی نہ تھا پھر ہم اس جگہ میں پانی اتار دیتے ہیں پھر اس پانی کے ذریعے ہر طرح کے پھل نکال دیتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ یہ تیسری عقلی دلیل ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کے درمیان ” جَوۃ “ (فضا) پر اپنے اقتدار اعلیٰ اور تسلط کامل کا ذکر فرمایا ہے۔ بادل، بادلوں سے مینہ برسانا اور بادلوں کی گرج چمک سب اسی کے اختیار میں ہے۔ ” خَوْفًا وَّطَمَعًا “ جب بجلی چمکتی ہے تو لوگوں کے دلوں میں خوف اور طمع کے ملے جلے جذبات موجزن ہوتے ہیں خوف اس لیے ہوتا ہے کہ کہیں بجلی گر کر تباہی نہ مچادے اور ساتھ ہی باران رحمت کے نزول کی امید بھی ہوتی ہے۔” وَیُسَبحُ الرَّعْدُ “ رعد اس فرشتے کا نام ہے جو بادلوں پر مؤکل ہے رعد فرشتہ اور اس کے علاوہ دیگر فرشتے اللہ تعالیٰ ہیبت سے اس کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے ہیں۔ جب وہ چاہتا ہے آسمانی بجلی بھیج دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے ہلاک کردیتا ہے۔ ” وَھُمْ یُجَادِلُوْنَ فِیْ اللہِ الخ “ زجر برائے مشرکین ہے اللہ تعالیٰ ایسے جلال وجبروت اور ایسی طاقت سطوت کا مالک ہے مگر معاندین پھر بھی صفات الوہیت میں اسے یکتا ویگانہ نہیں مانتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12 ۔ اللہ تعالیٰ کی مقدس اور یکتا وہ ذات ہے جو تم کو ڈرانے اور خوف ڈلانے کو اور بارش کی طمع اور امید دلانے کو بجلی چمکتی ہوئی دکھلاتا ہے اور پانی سے بھرے ہوئے بوجھل اور بھاری بادل اٹھا لاتا ہے ۔ یعنی بجلی کی چمک سے دونوں باتیں ہوتی ہیں بارش کی امید اور بجلی گرنے کا خوف۔