Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 16

سورة الرعد

قُلۡ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ قُلِ اللّٰہُ ؕ قُلۡ اَفَاتَّخَذۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لِاَنۡفُسِہِمۡ نَفۡعًا وَّ لَا ضَرًّا ؕ قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ۬ ۙ اَمۡ ہَلۡ تَسۡتَوِی الظُّلُمٰتُ وَ النُّوۡرُ ۬ ۚ اَمۡ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ خَلَقُوۡا کَخَلۡقِہٖ فَتَشَابَہَ الۡخَلۡقُ عَلَیۡہِمۡ ؕ قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُوَ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ ﴿۱۶﴾

Say, "Who is Lord of the heavens and earth?" Say, " Allah ." Say, "Have you then taken besides Him allies not possessing [even] for themselves any benefit or any harm?" Say, "Is the blind equivalent to the seeing? Or is darkness equivalent to light? Or have they attributed to Allah partners who created like His creation so that the creation [of each] seemed similar to them?" Say, " Allah is the Creator of all things, and He is the One, the Prevailing."

آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ کہہ دیجئے! اللہ کہہ دیجئے! کیا تم پھر بھی اس کے سوا اوروں کو حمایتی بنا رہے ہو جو خود اپنی جان کے بھی بھلے برے کا اختیار نہیں رکھتے کہہ دیجئے کہ کیااندھا اور بینا برابر ہو سکتا ہے؟ یا کیا اندھیریا ں اور روشنی برابر ہوسکتی ہے کیا جنہیں یہ اللہ کا شریک ٹھرا رہے ہیں انہوں نے بھی اللہ کی طرح مخلوق پیدا کی ہے کہ ان کی نظر میں پیدائش مشتبہ ہوگئی ہو ، کہہ دیجئے کہ صرف اللہ ہی تمام چیزوں کا خالق ہے وہ اکیلا ہے اور زبردست غالب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Affirming Tawhid Allah says: قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ قُلِ اللّهُ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاء لاَ يَمْلِكُونَ لاَِنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا ... Say: "Who is the Lord of the heavens and the earth!" Say: "(It is) Allah." Say: "Have you then taken (for worship) Awliya' (protectors) other than Him, such as have no power either for benefit or for harm to themselves!" Allah affirms here that there is no deity worthy of worship except Him, since they admit that He alone created the heavens and the earth and that He is their Lord and the Disposer of all affairs. Yet, they take as lords others besides Allah and worship them, even though these false gods do not have the power to benefit or harm themselves, or those who worship them. Therefore, the polytheists will not benefit or have harm removed from them by these false deities. Are those who worship the false deities instead of Allah equal to those who worship Him alone, without partners, and thus have a light from their Lord. This is why Allah said here, ... قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الاَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ أَمْ جَعَلُواْ لِلّهِ شُرَكَاء خَلَقُواْ كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ... Say: "Is the blind equal to the one who sees! Or darkness equal to light! Or do they assign to Allah partners who created the like of His creation, so that the creations seemed alike to them!" Allah asks, `Do these polytheists worship gods besides Him that rival Him in what He created! Have their false deities created similar creations to those Allah created and, thus, they are confused between the two types of creations, not knowing which was created by others besides Allah!' Rather, the Ayah proves that the truth is nothing like this. There is none similar to Allah, nor does He have an equal, a rival, anyone like Him, a minister, a son, or a wife. Allah is glorified in that He is far away from all that is ascribed to Him. These idolators worship gods that they themselves admit were created by Allah and are subservient to Him. They used to say during their Talbiyah: "Here we rush to Your obedience. There is no partner for You, except Your partner, You own him and he owns not." Allah also mentioned their polytheistic statements in other Ayat, مَا نَعْبُدُهُمْ إِلاَّ لِيُقَرِّبُونَأ إِلَى اللَّهِ زُلْفَى We worship them only that they may bring us near to Allah. (39:3) Allah admonished them for this false creed, stating that only those whom He chooses are allowed to intercede with Him, وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَـعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ Intercession with Him profits not except for him whom He permits. (34:23) وَكَمْ مِّن مَّلَكٍ فِى السَّمَـوَتِ And there are many angels in the heavens.....(53:26) and, إِن كُلُّ مَن فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ إِلاَّ اتِى الرَّحْمَـنِ عَبْداً لَّقَدْ أَحْصَـهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدّاً وَكُلُّهُمْ ءَاتِيهِ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ فَرْداً There is none in the heavens and the earth but comes unto the Most Gracious (Allah) as a servant. Verily, He knows each one of them, and has counted them a full counting. And everyone of them will come to Him alone on the Day of Resurrection. (19:93-95) If all are Allah's servants, then why do any of them worships each other without proof or evidence that allows them to do so Rather, they rely on sheer opinion and innovation in the religion, even though Allah has sent all of His Prophets and Messengers, from beginning to end, prohibiting this practice (polytheism) and ordering them to refrain from worshipping others besides Allah. They defied their Messengers and rebelled against them, and this is why the word of punishment struck them as a worthy recompense, وَلاَ يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا And your Lord treats no one with injustice. (18:49) Allah's statement, ... قُلِ اللّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ Say: "Allah is the Creator of all things; and He is the One, the Irresistible."

اندھیرا اور روشنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ۔ یہ مشرکین بھی اس کے قائل ہیں کہ زمین وآسمان کا رب اور مدبر اللہ ہی ہے ۔ اس کے باوجود دوسرے اولیا کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ وہ سب عاجز بندے ہیں ۔ ان کے تو کیا خود اپنے بھی نفع نقصان کا انہیں کوئی اختیار نہیں پس یہ اور اللہ کے عابد یکساں نہیں ہو سکتے ۔ یہ تو اندھیروں میں ہیں اور بندہ رب نور میں ہے ۔ جتنا فرق اندھے میں اور دیکھنے والے میں ہے ، جتنا فرق اندھیروں اور روشنی میں ہے اتنا ہی فرق ان دونوں میں ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ کیا ان مشرکین کے مقرر کردہ شریک اللہ ان کے نزدیک کسی چیز کے خالق ہیں ؟ کہ ان پر تمیز مشکل ہو گئی کہ کسی چیز کا خالق اللہ ہے ؟ اور کس چیز کے خالق ان کے معبود ہیں ؟ حالانکہ ایسا نہیں اللہ کے مشابہ اس جیسا اس کے برابر کا اور اس کی مثل کا کوئی نہیں ۔ وہ وزیر سے ، شریک سے ، اولاد سے ، بیوی سے ، پاک ہے اور ان سب سے اس کی ذات بلند و بالا ہے ۔ یہ تو مشرکین کی پوری بیوقوفی ہے کہ اپنے چھوٹے معبودوں کو اللہ کا پیدا کیا ہوا ، اس کی مملوک سمجھتے ہوئے پھر بھی ان کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہیں ۔ لبیک پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا اللہ ہم حاضر ہوئے تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ شریک کہ وہ خود تیری ملکیت میں ہے اور جس چیز کا وہ مالک ہے ، وہ بھی دراصل تیری ہی ملکیت ہے ۔ قرآن نے اور جگہ ان کا مقولہ بیان فرمایا ہے کہ آیت ( مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى Ǽ۝ ) 39- الزمر:3 ) یعنی ہم تو ان کی عبادت صرف اس لالچ میں کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں ۔ ان کے اس اعتقاد کی رگ گردن توڑتے ہوئے ارشاد ربانی ہوا کہ اس کے پاس کوئی بھی اس کی اجازت بغیر لب نہیں ہلا سکتا ۔ آسمانوں کے فرشتے بھی شفاعت اس کی اجازت بغیر کر نہیں سکتے ۔ سورۃ مریم میں فرمایا زمین وآسمان کی تمام مخلوق اللہ کے سامنے غلام بن کر آنے والی ہے ، سب اس کی نگاہ میں اور اس کی گنتی میں ہیں اور ہر ایک تنہا تنہا اس کے سامنے قیامت کے دن حاضری دینے والا ہے ۔ پس جبکہ سب کے سب بندے اور غلام ہونے کی حیثیت میں یکساں ہیں پھر ایک کا دوسرے کی عبادت کرنا بڑی حماقت اور کھلی بے انصافی نہیں تو اور کیا ہے ؟ پھر اس نے رسولوں کا سلسلہ شروع دنیا سے جاری رکھا ۔ ہر ایک نے لوگوں کو سبق یہ دیا کہ اللہ ایک ہی عبادت کے لائق ہے ۔ اس کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں لیکن انہوں نے نہ اپنے اقرار کا پاس کیا نہ رسولوں کی متفقہ تعلیم کا لحاظ کیا ، بلکہ مخالفت کی ، رسولوں کو جھٹلایا تو کلمہ عذاب ان پر صادق آ گیا ۔ یہ رب کا ظلم نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یہاں تو پیغمبر کی زبان سے اقرار ہے۔ لیکن قرآن کے دوسرے مقامات سے واضح ہے کہ مشرکین کا جواب بھی یہی ہوتا تھا۔ 16۔ 2 یعنی جب تمہیں اقرار و اعتراف ہے کہ آسمان و زمین کا رب اللہ ہے جو تمام اختیارات کا بلا شرکت غیر مالک ہے پھر تم اسے چھوڑ کر ایسوں کو کیوں دوست اور حمائتی سمجھتے ہو جو اپنی بابت بھی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ 16۔ 3 یعنی جس طرح اندھا اور بینا برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح موحد اور مشرک برابر نہیں ہوسکتے اس لئے کہ موحد توحید کی بصیرت سے معمور ہے جب کہ مشرک اس سے محروم ہے۔ موحد کی آنکھیں ہیں، وہ توحید کا نور دیکھتا ہے اور مشرک کو یہ نور توحید نظر نہیں آتا، اس لئے وہ اندھا ہے۔ اسی طرح، جس طرح اندھیریاں اور روشنی برابر نہیں ہوسکتی۔ ایک اللہ کا پجاری، جس کا دل نورانیت سے بھرا ہوا ہے، اور ایک مشرک، جو جہالت و توہمات کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے، برابر نہیں ہوسکتے۔ 16۔ 4 یعنی ایسی بات نہیں ہے کہ یہ کسی شبے کا شکار ہوگئے ہوں بلکہ یہ مانتے ہیں کہ ہر چیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] من دون اللہ کسی چیز کے خالق ومالک نہیں تو ان کا تصرف کہاں سے آگیا ؟:۔ مشرکین مکہ یہ بات تسلیم کرتے تھے کہ آسمانوں اور زمین کا نیز کائنات کی ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے۔ تخلیق کائنات میں ان کے معبودوں کا کوئی حصہ نہیں اور یہ بھی مسلمہ امر ہے کہ خالق اپنے مخلوق پر پورا پورا تصرف رکھتا ہے۔ اب ان سے سوال یہ ہے کہ جب تمہارے معبودوں نے کوئی چیز بنائی ہی نہیں تو وہ تصرف کائنات میں شریک کیسے بن گئے اور تمہیں یہ کہاں سے اشتباہ پیدا ہوگیا کہ وہ بھی تصرف کائنات میں شریک اور حصہ دار ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ کوئی چیز پیدا کرنا تو درکنار وہ تو خودمخلوق اور محتاج ہیں جو اپنے بھی نفع و نقصان کے مالک نہیں تو وہ تمہیں کیا فائدہ پہنچا سکیں گے یا تمہاری تکلیف کیا دور کرسکیں گے۔ اب ایک شخص ان دلائل کی روشنی میں چلتا ہے۔ اور صرف اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ کیونکہ وہی خالق اور نفع و نقصان کا مالک ہے اور دوسرا دلائل کی طرف نظر ہی نہیں کرتا اور آباؤ اجداد کی اندھی تقلید پر ہی جم رہا ہے تو کیا ان دونوں کی حالت ایک جیسی ہوسکتی ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : یعنی اگر ایسا ہوتا کہ دنیا میں کچھ چیزیں تو اللہ نے پیدا کی ہوتیں اور کچھ دوسروں نے، یا بعض کی پرورش اور روزی کا سامان کرنے والا رب اللہ تعالیٰ ہوتا اور بعض کا کوئی دوسرا، یا کسی نفع نقصان کا مالک اللہ تعالیٰ ہوتا اور کسی کا مالک دوسرا، تب تو ان مشرکوں کے شرک کی کوئی بنیاد ہوسکتی تھی کہ یہ بھی خالق ہونے کی وجہ سے مستحق عبادت ہیں، مگر جب یہ خود مانتے ہیں کہ زمین و آسمان کی ہر چیز پیدا کرنے والا اللہ اور صرف اللہ ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک قرار دیں۔ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ۔۔ : یہ مشرک اور موحد کی مثال ہے، کیونکہ موحد دیکھنے والی آنکھ، سوچنے والا دل رکھتا ہے، جبکہ مشرک بصارت اور بصیرت دونوں سے خالی سر ا سر اندھا ہے۔ موحد نور توحید سے روشن ہوتا ہے، جبکہ مشرک ایک نہیں ہزاروں اندھیروں میں ہے۔ نور کو واحد اور ظلمات کو جمع لائے، کیونکہ ہدایت اور سیدھا راستہ ایک اور گمراہی کے راستے بیشمار ہیں۔ وَّهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ : وہی ہے جو ایک ہے، سب پر غالب ہے، کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The outcome of both parables is that foam does appear prominent for a while on the real thing, but it finally gets to be thrown away and the real thing remains. Similar is the case of the false. Though the false may, for a short while, appear to have overcome the true, but the false is finally subdued and eliminated and that which is true remains and stands manifestly proven. (Tafsir A1-Jalalayn)

خلاصہ تفسیر : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے کہئے کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار (یعنی موجد و مبقی یعنی خالق وحافظ) کون ہے (اور چونکہ اس کا جواب متعین ہے اس لئے جواب بھی) آپ (ہی) کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہے کہ اللہ ہے (پھر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کہئے کہ کیا (یہ دلائل توحید سن کر) پھر بھی تم نے خدا کے سوا دوسرے مددگار (یعنی معبودین) قرار دے رکھے ہیں جو (بوجہ غایت عجز کے) خود اپنی ذات کے نفع نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے (اور پھر شرک کے ابطال اور توحید کے احقاق کے بعد اہل توحید واہل شرک اور خود توحید و شرک کے درمیان اظہار فرق کے لئے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ (بھی) کہئے کہ کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوسکتا ہے (یہ مثال ہے مشرک اور موحد کی) یا کہیں تاریکی اور روشنی برابر ہو سکتی ہے (یہ مثال ہے شرک اور توحید کی) یا انہوں نے اللہ کے ایسے شریک قرار دے رکھے ہیں کہ انہوں نے بھی (کسی چیز کو) پیدا کیا ہو جیسا خدا (ان کے اعتراف کے موافق بھی) پیدا کرتا ہے پھر (اس وجہ سے) ان کو (دونوں کا) پیدا کرنا ایک سا معلوم ہواہو (اور اس سے استدلال کیا ہو کہ جب دونوں یکساں خالق ہیں تو دونوں یکساں معبود بھی ہوں گے اس کے متعلق بھی) آپ (ہی) کہہ دیجئے کہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی (اپنی ذات وصفات کمال میں) واحد ہے (اور سب مخلوقات پر) غالب ہے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل فرمایا پھر (اس پانی سے) نالے (بھر کر) اپنی مقدار کے موافق چلنے لگے (یعنی چھوٹے نالے میں تھوڑا پانی اور بڑے نالے میں زیادہ پانی) پھر وہ سیلاب (کا پانی ) خس و خاشاک کو بہا لایا جو اس (پانی) کی (سطح کے) اوپر (آرہا) ہے (ایک کوڑا کرکٹ تو یہ ہے) اور جن چیزوں کو آگ کے اندر ( رکھ کر) زیور یا اور اسباب (ظروف وغیرہ) بنانے کی غرض سے تپاتے ہیں اس میں بھی ایسا ہی میل کچیل (اوپر آجاتا) ہے (پس ان دو مثالوں میں دو چیزیں ہیں ایک کار آمد چیز کہ اصل پانی اور اصل مال ہے اور ایک ناکارہ چیز کہ کوڑا کرکٹ میل کچیل ہی غرض) اللہ تعالیٰ حق (یعنی توحید و ایمان وغیرہ) اور باطل (یعنی کفر و شرک وغیرہ) کی اسی طرح کی مثال بیان کر رہا ہے (جس کی تکمیل اگلے مضمون سے ہوتی ہے) سو (ان دونوں مذکورہ مثالوں میں) جو میل کچیل تھا وہ تو پھینک دیا جاتا ہے اور جو چیز لوگوں کے کارآمد ہے وہ دنیا میں (نفع رسانی کے ساتھ) رہتی ہے (اور جس طرح حق و باطل کی مثال بیان کی گئی) اللہ تعالیٰ اسی طرح (ہر ضروری مضمون میں) مثالیں بیان کیا کرتے ہیں، معارف و مسائل : حاصل دونوں مثالوں کا یہ ہے کہ جیسا کہ ان مثالوں میں میل کچیل برائے چندے اصلی چیز کے اوپر نظر آتا ہے لیکن انجام کار وہ پھینک دیا جاتا ہے اور اصلی چیز رہ جاتی ہے، اسی طرح گو چند روز حق کے اوپر غالب نظر آئے لیکن آخر کار باطل محو اور مغلوب ہوجاتا ہے اور حق باقی اور ثابت رہتا ہے کذا فی الجلالین۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ قُلِ اللّٰهُ ۭ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ لَا يَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا ۭ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ڏ اَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ ڬ اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۭ قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ 16 ؁ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ شبه الشِّبْهُ والشَّبَهُ والشَّبِيهُ : حقیقتها في المماثلة من جهة الكيفيّة، کاللّون والطّعم، وکالعدالة والظّلم، والشُّبْهَةُ : هو أن لا يتميّز أحد الشّيئين من الآخر لما بينهما من التّشابه، عينا کان أو معنی، قال : وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، أي : يشبه بعضه بعضا لونا لا طعما وحقیقة، ( ش ب ہ ) الشیبۃ والشبۃ کے اصل معنی مماثلت بلحاظ کیف کے ہیں مثلا لون اور طعم میں باہم مماثل ہونا یا عدل ظلم میں اور دو چیزوں کا معنوی لحاظ سے اس قدر مماثل ہونا کہ ایک دوسرے سے ممتاز نہ ہو سکیں شبھۃ کہلاتا ہے پس آیت کریمہ : ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے میں متشابھا کے معنی یہ ہیں کہ وہ میوے اصل اور مزہ میں مختلف ہونے کے باوجود رنگت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں گے خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے قهر القَهْرُ : الغلبة والتّذلیل معا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقال : وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد/ 16] ( ق ھ ر ) القھر ۔ کے معنی کسی پر غلبہ پاکر اسے ذلیل کرنے کے ہیں اور ان دنوں ( یعنی غلبہ اور تذلیل ) میں ستے ہر ایک معنی میں علیدہ علیدہ بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد/ 16] اور وہ یکتا اور زبردست ہے ۔ قهر القَهْرُ : الغلبة والتّذلیل معا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقال : وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد/ 16] ( ق ھ ر ) القھر ۔ کے معنی کسی پر غلبہ پاکر اسے ذلیل کرنے کے ہیں اور ان دنوں ( یعنی غلبہ اور تذلیل ) میں ستے ہر ایک معنی میں علیدہ علیدہ بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد/ 16] اور وہ یکتا اور زبردست ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مکہ والوں سے کہئے کہ آسمانوں اور زمین کا خالق کون ہے ؟ سو اگر وہ جواب میں اللہ کہہ دیں تو ٹھیک ورنہ آپ ہی فرمادیجیے کہ اللہ خالق ہے پھر یہ کہیے کہ کیا پھر بھی تم نے اللہ کے علاوہ دوسرے معبود بنارکھے ہیں۔ جو خود اپنی ذات کو بھی نفع پہنچانے اور نقصان کے دور کرنے پر طاقت نہیں رکھتے ، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے یہ فرما دیجیے کیا کافر اور مومن دونوں برابر ہوسکتے ہیں یا کہیں کفر و ایمان میں برابری ہوسکتی ہے یا انہوں نے اللہ کے ایسے بتوں کو شریک قرار دے رکھا ہے کہ انہوں نے بھی کسی چیز کو پیدا کیا ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا تو اس واسطے ان کو تمام مخلوق ایک سی معلوم ہوئی جس کی وجہ سے انکو مخلوقات خداوندی اور اپنے بتوں کی پیدا کردہ چیز میں امتیاز باقی نہ رہا ہو تو آپ اس کے متعلق فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے یہ بت کسی چیز کے خالق نہیں، اس کے علاوہ اور کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں اور وہ واحد ہے اور اپنی تمام مخلوق پر غالب ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ) یعنی ان مشرکین کا معاملہ تو یوں لگتا ہے جیسے ان کے معبودوں نے بھی کچھ مخلوق پیدا کر رکھی ہے اور کچھ مخلوق اللہ کی ہے۔ اب وہ بےچارے اس شش و پنج میں پڑے ہوئے ہیں کہ کون سی مخلوق کو اللہ سے منسوب کریں اور کس کس کو اپنے ان معبودوں کی مخلوق مانیں ! جب ایسا نہیں ہے اور وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اس کا خالق اور مالک اللہ ہے تو پھر اللہ کو اکیلا اور واحد معبود ماننے میں وہ کیوں شکوک و شبہات کا شکار ہو رہے ہیں ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26. It will be worthwhile to note that though the question, “Who is the Lord of the heavens and the earth?” was put to the disbelievers, Allah told the Prophet (peace be upon him) to answer it himself and say, “Allah”. This was because the disbelievers hesitated to answer it one way or the other. They could not say that it was not Allah for they themselves believed that Allah was the Creator of everything. On the other hand, they could not acknowledge this fact in so many words in answer to such question. For, they would then have to acknowledge the doctrine of Tauhid. Then no basis could have been left in favor of shirk. As they realized their weak position, they would not give any answer to such questions. That is why Allah asks His Messenger (peace be upon him) to put such questions to the disbelievers: “Who is the Creator of the heavens and the earth? Who is the Lord of the Universe? Who sustains you with provisions of life?” When they do not give any answer to such questions, Allah asks His Messenger (peace be upon him) to say “Allah” in answer. He then proceeds on with this argument: When Allah does all these things, how do the deities you worship come in? 27. The blind man is the person who cannot see any of the countless signs of the Oneness of Allah, though these lie spread over before him in the universe. On the other hand, the seeing man is the person who can see in every particle of the universe and in every leaf of grass and tree signs pointing to their Creator. Thus the question that has been posed means: O disbelievers, if you are blind to the signs, why should the one who can see the signs should behave like a blind man and stumble along like you? 28. Here “light” means the light of the knowledge of the truth which the Prophet (peace be upon him) and his followers possessed. In contrast to this, there was the “darkness” of ignorance in which the disbelievers were wandering about. The question that has been posed means to ask this: Why should those, who have received the light, extinguish it and wander about in the darkness like you? Well, if you do not know the worth of the light, you may choose to wander in the darkness. But how can you expect the one who has received the light and who appreciates the difference between the light and the darkness, and who is seeing the right way as if in broad daylight, to leave the light and wander about in the darkness? 29. The question is intended to impress on the disbelievers that there is absolutely no reason why they should practice shirk. When they themselves admit that their gods did not create even an iota in the universe and that they do not have even the smallest and most insignificant share in the creation, there remains no ground for them to cherish any doubts about it. Why should, then, their false gods and deities share the rights and powers of the Real Creator? 30. The Arabic word Qahhar literally means “The one who rules over all by virtue of His own power, and keeps all under His complete control.” This fact that He is “the One, the Prevailing” follows naturally from the preceding fact that “Allah is the Creator of all things” for this fact was also acknowledged by the mushriks and was never denied by them. This is so because the Creator of everything should logically be Unique, and every other thing or being must necessarily be His creation. Therefore nothing could be the equal of the Creator or partner in His Being, attributes, powers and rights. Likewise, the Creator must have complete power and control over His Creation. For, it can never be imagined that the Creator would create anything over which He has not full control. Therefore, the one who acknowledges Allah to be the Creator must also acknowledge Him to be the Unique and the All-Powerful. After this, there remains no reason why one should worship anyone other than the Creator or invoke someone else for help in resolving his difficulties and fulfilling his needs.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :26 واضح رہے کہ وہ لوگ خود اس بات کے قائل تھے کہ زمین و آسمان کا رب اللہ ہے ۔ وہ اس سوال کا جواب انکار کی صورت میں نہیں دے سکتے تھے ، کیونکہ یہ انکار خود ان کے اپنے عقیدے کے خلا ف تھا ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر وہ اقرار کی صورت میں بھی اس جواب دینے سے کتراتے تھے ، کیونکہ اقرار کے بعد توحید کا ماننا لازم آجاتا تھا اور شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد باقی نہیں رہتی تھی ۔ اس لیے اپنے مؤقف کی کمزوری محسوس کر کے وہ اس سوال کے جواب میں چپ سادھ جاتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان سے پوچھو زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ کائنات کا رب کون ہے؟ تم کو رزق دینے والا کون ہے؟ پھر حکم دیتا ہے کہ تم خود کہو کہ اللہ ، اور اس کے بعد یوں استدلال کرتا ہے کہ جب یہ سارے کام اللہ کے ہیں تو آخر یہ دوسرے کون ہیں جن کی تم بندگی کیے جا رہے ہو؟ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :27 اندھے سے مراد وہ شخص ہے جس کے آگے کائنات میں ہر طرف اللہ کی وحدانیت کے آثار و شواہد پھیلے ہوئے ہیں مگر وہ ان میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھ رہا ہے ۔ اور آنکھوں والے سے مراد وہ ہے جس کے لیے کائنات کے ذرے ذرے اور پتے پتے میں معرفت کردگار کے دفتر کھلے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالی کے اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ عقل کے اندھو ! اگر تمہیں کچھ نہیں سوجھتا تو آخر چشم بینا رکھنے والا اپنی آنکھیں کیسے پھوڑے؟ جو شخص حقیقت کو آشکار دیکھ رہا ہے اس کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ وہ تم بے بصیرت لوگوں کی طرح ٹھوکریں کھاتا پھرے؟ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :28 روشنی سے مراد علم حق کی وہ روشنی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کو حاصل تھی ۔ اور تاریکیوں سے مراد جہالت کی وہ تاریکیاں ہیں جن میں منکرین بھٹک رہے تھے ۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ جس کو روشنی مل چکی ہے وہ کس طرح اپنی شمع بجھا کر اندھیروں میں ٹھوکریں کھانا قبول کر سکتا ہے؟ تم اگر نور کے قدر شناس نہیں ہو تو نہ سہی ۔ لیکن جس نے اسے پالیا ہے ، جو نور و ظلمت کے فرق کو جان چکا ہے ، جو دن کے اجالے میں سیدھا راستہ صاف دیکھ رہا ہے ، وہ روشنی کو چھوڑ کر تاریکیوں میں بھٹکتے پھرنے کے لیے کیسے آمادہ ہو سکتا ہے؟ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :29 اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ اگر دنیا میں کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہوتیں اور کچھ دوسروں نے ، اور یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا کہ خدا کا تخلیقی کام کونسا ہے اور دوسروں کا کونسا ، تب تو واقعی شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد ہو سکتی تھی ۔ لیکن جب یہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ ان کے معبودوں میں سے کسی نے ایک تنکا اور ایک بال تک پیدا نہیں کیا ہے ، اور جب انہیں خود تسلیم ہے کہ خلق میں ان جعلی خداؤں کا ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہیں ہے ، تو پھر یہ جعلی معبود خالق کے اختیارات اور اس کے حقوق میں آخر کس بنا پر شریک ٹھیرا لیے گئے؟ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :30 اصل میں لفظ قھّار استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں” وہ ہستی جو اپنے زور سے سب پر حکم چلائے اور سب کو مغلوب کر کے رکھے“ ۔ یہ بات کہ ” اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے “ ، مشرکین کی اپنی تسلیم کردہ حقیقت ہے جس سے انہیں کبھی انکار نہ تھا ۔ اور یہ بات کہ ” وہ یکتا اور قہار ہے“ اس تسلیم شدہ حقیقت کا لازمی نتیجہ ہے جس سے انکار کرنا ، پہلی حقیقت کو مان لینے کے بعد ، کسی صاحب عقل کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے کہ جو ہر چیز کا خالق ہے ، وہ لامحالہ یکتا و یگانہ ہے ، کیونکہ دوسری جو چیز بھی ہے وہ اسی کی مخلوق ہے ، پھر بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مخلوق اپنے خالق کی ذات ، یا صفات ، یا اختیارات ، یا حقوق میں اس کی شریک ہو؟ اسی طرح وہ لامحالہ قہّار بھی ہے ، کیونکہ مخلوق کا اپنے خالق سے مغلوب ہو کر رہنا عین تصور مخلوقیت میں شامل ہے ۔ غلبہ کامل اگر خالق کو حاصل نہ ہو تو وہ خلق ہی کیسے کر سکتا ہے ۔ پس جو شخص اللہ کو خالق مانتا ہے اس کے لیے ان دو خالص عقلی و منطقی نتیجوں سے انکار کرنا ممکن نہیں رہتا ، اور اس کے بعد یہ بات سراسر غیر معقول ٹھیرتی ہے کہ کوئی شخص خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کرے اور غالب کو چھوڑ کر مغلوب کو مشکل کشائی کے لیے پکارے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

19: مشرکین عرب جن دیوتاؤں کو خدا مان کر ان کی عبادت کرتے تھے، عام طور سے وہ یہ مانتے تھے کہ انہوں نے کائنات کی تخلیق میں کوئی حصہ نہیں لیا ؛ بلکہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کی ہے، لیکن ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے خدائی کے بہت سے اختیارات ان کو دے رکھے ہیں، اس لئے ان کی عبادت کرنی چاہئے، تاکہ وہ اپنے اختیارات ہمارے حق میں استعمال کریں، اور اللہ تعالیٰ سے ہماری سفارش بھی کریں، اس آیت میں اول تو یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ من گھڑت دیوتا کوئی نفع یا نقصان اپنے آپ کو بھی نہیں پہنچا سکتے، دوسروں کو تو کیا پہنچائیں گے، پھر فرمایا گیا ہے کہ اگر ان دیوتاؤں نے بھی اللہ تعالیٰ کی طرح کچھ پیدا کیا ہوتا تب بھی ان کو خدا کا شریک ماننے کی کوئی وجہ ہوسکتی تھی، لیکن نہ واقعۃ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے اور نہ اکثر اہل عرب کا ایسا عقیدہ ہے، پھر ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دے کر ان کی عبادت کرنے کا آخر کیا جواز ہے؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ مشرک بھی اس بات کے قائل ہیں کہ خدا کے سوا کوئی خالق و رازق نہیں پھر ان سے کہو کہ تم خدا کے سوا ایسے معبود کیوں ٹھہراتے ہو جن کو خود اپنی جان کے نفع نقصان کا ذرہ برابر اختیار نہیں ہے پھر فرمایا کہ جو لوگ خدا کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں وہ گویا دل کے اندھے ہیں کہ ان کے دلوں میں تاریکی ہے اور جو لوگ خالص خدا کے مانتے والے ہیں ان کے دلوں میں ایمان کی روشنی ہے اس لئے فرمایا کہ بینا اور نابینا یکساں نہیں ہوتا اور نہ روشنی اور تاریکی یکساں ہوتی ہے ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے پھر فرمایا کہ مشرکوں نے جن کو اپنا معبود ٹھہرا لیا کس سند اور کس دلیل سے کیا ان معبودوں نے بھی خدا کی طرح مخلوق پیدا کی آسمان زمین بنائے سورج چاند ستارے پیدا کئے کہ ان بت پرستوں کو بتوں کے خالق و رازق ہونے کا شبہ پڑا گیا پھر فرمایا ان بت پرستوں سے کہہ دیا جاوے کہ ہر شے کا خالق وہی خدا ہے جو تنہا اور اکیلا ہے اور بڑے قہر والا ہے اس کے سامنے کسی کی کچھ نہیں چلتی صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بےبرے لوگوں کو اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے اپنی رحمت سے مہلت دیتا ہے اور جب پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ ایسی زبردست ہے کہ پھر اس کی پکڑ سے چھٹکارا دشوار ١ ؎ ہے۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ مشرک لوگ اللہ کو خالق رازق جان کر جو جو شیطان کے بہکانے سے شرک میں گرفتار ہیں تو یہ ان کو معلوم رہے کہ اللہ کی صفت قہاری کی بھی ہے جب وہ اپنی صفت کے موافق پکڑے گا تو بالکل ہلاک کر دے گا اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے۔ بدر کی لڑائی کے وقت اس صفت قہاری کا ظہور جو کچھ ہوا صحیح بخاری و مسلم کے انس بن مالک (رض) کی روایتوں کے حوالہ سے اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ ٢ ؎ اللہ پاک نے اس آیت میں دو مثالیں بیان کیں جس سے حق و ناحق کو سمجھایا فرمایا کہ جب ہم آسمان سے مینہ برساتے ہیں تو وہ زمین پر بہ نکلتا ہے اور تالاب ندی نالے اپنی حیثیت کے موافق پانی لے لیتے ہیں کوئی زیادہ کوئی کم اسی طرح انسان کے دل میں یہی فرق ہے کسی کا دل زیادہ علم دین حاصل کرنے کی گنجائش رکھتا ہے اور کوئی دل کم پھر فرمایا کہ اس ندی نالے کے پانی میں جھاگ اٹھتا ہے یہ ایک مثل ہے اور سونا چاندی وغیرہ گلانے کے وقت بھی جھاگ اٹھتا ہے اسی طرح حق و ناحق ہے کہ پانی سے جس طرح زمین کو فائدہ پہنچتا ہے اور سونا چاندی کام میں آتے ہیں اور ان دونوں کا جھاگ سوکھ سوکھا کرجاتا رہتا ہے اس کو قیام نہیں رہتا اسی طرح حق بات ہمیشہ قائم رہتی ہے اور ناحق بات کو کوئی قیام نہیں جاگ کی طرح کبھی وہ ٹھہر نہیں سکتی اور حق بات سے ہمیشہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں ناحق سے کوئی فائدہ نہیں حاصل ہوسکتا۔ صحیحین میں ابو موسیٰ اشعری (رض) سے ایک حدیث ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو علم و ہدایت خدا نے دے کر مجھے بھیجا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے مینہ کسی پر بسا اور زمین نے اس کو قبول کرلیا اور اس سے سبزہ گھاس وغیرہ اگے اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے مینہ کسی پر برسا اور زمین نے اس کو قبول کرلیا اور اس سے سبزہ گھاس وغیرہ اگے اور بعض زمین ناہموار تھی اس نے پانی کو روک رکھا اس پانی سے انسان نے فائدہ اٹھایا اور بعض زمین ایسی تھی نہ پانی کو روکا نہ جانوروں نے پیا نہ گھاس اگا نہ سبزہ یہی مثال اس علم اور ہدایت کی ہے بعضوں نے اپنی طاقت اور ذہن کے موافق اس کو سمجھ کر عمل کیا اور بعضوں نے دوسروں کو بھی تعلیم دی اور بعضے ایسے ہیں جنہوں نے اس کی طرف مطلق توجہ نہیں کی اور جو علم ہدایت میں لے کر آیا ہوں اس کو قبول نہیں کیا ٣ ؎ گویا یہ چکنے پتھر کی طرح ہیں کہ اس پر پانی ٹھہرتا ہی نہیں آیت اور حدیث کی مثالوں کے ملانے سے آیت کا یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ قرآن کی برحق نصیحت کے اثر سے سب ناحق باتیں پانی اور سونے چاندی کے جھاگ کی طرح جزیرہ عرب سے اٹھ کر دین حق قائم ہوگیا اور ناہموارزمین کی طرح کے ناہموار لوگ بڑے ٹوٹے ہیں رہے۔ ١ ؎ جلد ہذا ص ٢٠٥۔ ٢ ؎ جلد ہذا ص ٢٠٢، ٢٠٨۔ ٣ ؎ صحیح بخاری ص ١٨ باب فضل من علم و علم۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:16) افا تخذتم۔ میں ہمزہ استفہامیہ ہے۔ ف استبعاد کے لئے ہے۔ ای بعد ان علمتموہ رب السموت والارض اتخذتم من دونہ اولیائ۔ کیا یہ جاننے کے بعد بھی کہ وہ (اللہ تعالیٰ ) ارض وسماوات کا پروردگار ہے تم اس کے سوا دوسروں کو کارساز یا حمایتی قرار دیتے ہو۔ ھل یستوی۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ استواء (افتعال) مصدر۔ استوی یستوی برابر ہونا ھل یستوی۔ استفہام انکاری ہے۔ برابر نہیں ہے۔ کیا برابر ہے (یعنی برابر نہیں ہے) ھل تستوی۔ کیا وہ برابر ہوسکتی ہے۔ برابر نہیں ہوسکتی۔ مضارع واحد مؤنث غائب ۔ یہ بھی استفہام انکاری ہے۔ یعنی تاریکی اور روشنی برابر نہیں ہے۔ فتشابہ الخلق علیہم۔ اور نتیجۃًان پر (اللہ کی مخلوق اور ان کے اولیائے باطل کی مخلوق) باہم مشتبہ ہوگئی۔ گڈ مڈ۔ القھار۔ صیغہ مبالغہ۔ ایسا زبردست غالب کہ جس کے مقابلہ میں سب ذلیل ہوں۔ قھر یقھر (فتح) قھر وقھر۔ مصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی اگر ایسا ہوتا کہ دنیا میں کچھ چیزیں تو اللہ نے پیدا کی ہوتیں اور کچھ دوسروں نے تب تو ان مشرکوں کے شرک کی کوئی بنیاد ہوسکتی تھی کہ یہ خالق ہونے کی وجہ سے مستحق عبادت ہیں۔ مگر جب یہ خود مانتے ہیں کہ زمین و آسمان کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ اور صرف اللہ ہی تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک قرار دیں۔ (وحیدی) ۔ 1 ۔ سب پر غالب ہے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 16 من کون ؟ افاتخذتم کیا پھر تم نے بنا لیا ہے تستوی برابر ہوتا ہے الاعمی اندھا البصیر دیکھنے والا الظلمت اندھیرے النور روشنی تشابہ شبہ پڑگیا القھار (اللہ کی صفت) زبردست غلبہ والا تشریح : آیت نمبر 16 عرب کے کفار اور مشرکین غیر اللہ کو سجدے کرتے تھے۔ بتوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوتے اور اپنی تمناؤں کی تکمیل کے لئے دعائیں کرتے تھے لیکن اس کیس اتھ ساتھ وہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ اس کائنات کو اور اس کے ذرے ذرے کو اللہ نے پیدا کیا ہے وہ ساری کائنات کا خلاق ومالک ہے جب ان سے یہ پوچھا جاتا تھا کہ پھر تم اس ایک اللہ کی عبادت و بندگی کیوں نہیں کرتے اور بتوں کے وسیلے سے کیوں مانگتے ہو ؟ ان کا جواب یہی ہوتا تھا کہ ہم اللہ ہی کو مانتے ہیں وہی سب کچھ کرنے والا ہے۔ لیکن ہم ان بتوں کو اللہ کی بارگاہ میں سفارشی سمجھتے ہیں یعنی جب تک یہ ہماری دعائیں اللہ تک نہ پہنچا دیں اس وقت تک اللہ ہماری نہیں سنے گا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اللہ تو ایسا ہے کہ انسان کی رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے وہ اتنا قریب ہے کہ جب کوئی مومن سجدہ کرتا ہے تو اس کا سر زمین پر نہیں بلکہ اللہ کے قدموں میں ہوتا ہے۔ وہ رات کی تنہائیوں میں چھپ کر مانگے یا دن کی روشنی میں کھلم کھلا مانگے وہ اپنے بندوں کی سنتا ہے۔ اس تک بات پہنچنے کے لئے کسی واسطے یا وسیلے کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان جب بھی مانگے صرف اللہ ہی سے مانگے وہ اس کی ہر مراد کو پورا فرمائے گا۔ آج کل بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ براہ راست کسی کی نہیں سنتا بلکہ اس کے لئے وسیلہ کی ضرورت ہے جس طرح کسی آفیسر کے پاس جانے کے لئے پہلے سیکریٹری کے پاس جانا پڑتا ہے پھر آفیسر تک پہنچتا ہے۔ میں جب بھی ایسی بات سنتا ہوں تو ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے مثال بھی دی تو انگریزی نظام حکومت کی جس میں آفیسر تک پہنچنے کے لئے سیکریٹریوں کی لائن ہوتی ہے۔ اگر یہ لوگ خلفاء راشدین کی مثال دیتے تو بات سمجھ میں آتی کیونکہ خلفاء راشدین تو وہ تھے جن کے گھروں میں یا ان گورنروں کے ہاں کوئی سیکریٹری نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ براہ راست ہر شخص سے ہر وقت ملتے تھے۔ یہ سیکریٹریوں کی بیماری تو انگریزی بہادر کے نظام کا حصہ ہے اسلامی نظام کا حصہ نہیں ہے۔ بہرحال یہ لوگ جاہلوں کو سمجھانے کے لئے ایسی جاہلانہ مثالیں دیتے ہیں جس کی کوئی تک نہیں ہے خلاصہ یہ ہے کہ کفار مکہ بھی بتوں کو معبود نہیں بلکہ اللہ کے پاس سفارشی مانتے تھے اللہ نے اس آیت میں یہی سوال کیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے پوچھئے آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے کون ان کا رب ہے ؟ فرمایا کہ اے نبی ! ان سے کہہ دیجیے اللہ ہی ان تمام چیزوں کو پیدا کرنے والا پروردگار ہے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے پوچھئے کہ پھر تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت و بندگی کیوں کرتے ہو جو اپنے نفع اور نقصان کے مالک بھی نہیں ہیں یہ تمہیں کیا نفع اور نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے کہئے کہ کیا ایک اندھا اور آنکھوں والا برابر ہو سکتا ہے۔ کیا اندھیرا اور روشنی یکساں ہو سکتے ہیں۔ یقینا نہیں ۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو توحید کے منکر ہیں اور اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان کو آنکھوں کے نور اور روشنی سے محروم شخص بتایا لیکن جو لوگ اللہ کو ماننے والے اسی کی عبادت و بندگی کرنے والے ہیں اللہ کے نور سے آراستہ آنکھوں والے ہیں۔ فرمایا کہ ان کو یہ نظر نہیں آتا جن کو وہ اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہیں کہ وہ خود اپنے وجود میں دوسروں کے ہاتھوں کے محتاج ہیں جنہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا بلکہ وہ انسانی ہاتھوں سے پیدا کئے گئے ہیں۔ فرمایا کہ اس قدر واضح اور روشن بات کو سمجھنے میں آخر کس شک و شبہ کی گنجائش ہے ؟ فرمایا کہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق اور مالک ہے وہ اپنی ذات میں ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے وہ کائنات کی ساری قوتوں کا تنہا مالک ہے یعنی صرف ایک اللہ ہی تمام تر عبادتوں اور بندگیوں کا مستحق ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یہ مثال ہے مشرک اور موحد کی۔ ف۔ 5۔ یہ مثال ہے شرک اور توحید کی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے اور اس کے سامنے سجدہ ریز اور اس کی فرمانبرداری میں لگی ہوئی ہے مگر کافر اور مشرک اللہ تعالیٰ کی خالص فرمانبرداری سے گریز کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے چند سوال کیے گئے ہیں۔ کافر اور مشرک اس لحاظ سے برابر ہیں کہ کافر مجبور ہو کر اللہ تعالیٰ کا اقرار کرتا ہے اور مشرک انتہائی مشکل کے وقت خالصتاً اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے گویا کہ مشرک اور کافر اپنے اپنے انداز میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا مجبوراً اقرار کرتے ہیں۔ اسی لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ ان لوگوں سے استفسار فرمائیں کہ زمین و آسمان کا رب کون ہے ؟ اگر یہ خاموشی اختیار کریں تو آپ انہیں فرمائیں کہ صرف ایک اللہ ہی زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا ہے۔ مشرکین سے پھر پوچھیے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا خیر خواہ اور کارساز سمجھ لیا ہے جو اپنے بارے میں نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ کیا اندھا اور دیکھنے والا اندھیرے اور روشنی برابر ہوسکتے ہیں ؟ کیا جن کو اللہ کا شریک بنایا جاتا ہے انہوں نے کوئی ایسی چیز پیدا کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ چیز کے مشابہ ہو ؟ اگر یہ لوگ ان باتوں کا جواب نہیں دیتے تو آپ ضرور جواب دیں کہ اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور اکیلا ہی قہار اور زبردست ہے۔ اس فرمان میں مشرکین سے براہ راست تین سوال کیے گئے ہیں کہ زمین و آسمان کا رب کون ہے ؟ کیونکہ ہر دور کے مشرک کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔ لہٰذا ان کی خاموشی کو ہاں سمجھتے ہوئے اگلا سوال کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اس سوال کا جواب مشرکین کی طرف سے یوں دیا گیا ہے۔ ١۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا سورج اور چاند کو کس نے مسخر فرمایا ؟ ان کا جواب ہوگا کہ زمین و آسمان اللہ ہی نے پیدا کیے ہیں اور چاند، سورج کو بھی اسی نے مسخر کیا ہے۔ اس اقرار کے باوجود یہ لوگ کیوں بہک چکے ہیں۔ ٢۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کون آسمان سے بارش نازل فرما کر مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ اس کا جواب بھی ان کی طرف سے یہی تھا اور ہے کہ صرف اللہ ہی سب کچھ کرتا ہے اے نبی ! فرمائیں کہ سب کچھ اللہ ہی کرتا ہے تو پھر یہ تم کیوں نہیں سمجھتے۔ (العنکبوت : ٦١ تا ٦٣) ٣۔ ان سے یہ سوال کیا گیا کہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے اس کا حقیقی مالک کون ہے ؟ اگر تم جانتے ہو تو اس کا جواب دو ۔ ان سے پوچھیے کہ پھر نصیحت حاصل کیوں نہیں کرتے ؟ ٤۔ ان سے پھر سوال کیجئے کہ ساتوں آسمان اور عرش عظیم کا رب کون ہے ؟ ان کا جواب ہے کہ اللہ ہی ان کا رب ہے۔ فرمائیے کہ پھر کیوں شرک سے باز نہیں آتے۔ ٥۔ سوال ہوا کہ ہر چیز کس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کون ہر چیز کی حفاظت کرتا ہے ؟ اللہ کے سوا اور کوئی ہے۔ مشرکین اس کا یہی جواب دیا کرتے ہیں کہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہر چیز کا کنٹرول ہے۔ فرمائیں کہ پھر کیا تمہیں جادو ہوگیا ہے کہ حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ (المومنون ٨٥ تا ٨٩) مشرکین کے جواب کے بعد اب ان سے ان شریکوں کے بارے میں دوسوال کیے جاتے ہیں۔ کیا جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا اپنا خیر خواہ اور نفع و نقصان کا مالک سمجھتے ہو وہ اپنے نفع و نقصان کا اختیار رکھتے ہیں ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اندھا اور دیکھنے والا ‘ اندھیرے اور روشنی برابر ہوسکتے ہیں ؟ ظاہر ہے یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے جب توحید کی حقیقت اور شرک کا بےحیثیت ہونا ظاہر ہوچکا ہے تو پھر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات کے حوالے سے ” وحدہ لاشریک “ کیوں نہیں سمجھتے ؟ کیا دنیا میں کوئی ایسی مخلوق ہے۔ جو ان کے معبود ان باطل نے پیدا کی ہو یا یہ چیز اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ، کسی چیز کے مشابہ ہو۔ جس و جہ سے انہیں شرک اور توحید میں اختلاط نظر آتا ہے اور جسے سمجھنا ان کے لیے مشکل ہوچکا ہے۔ جس بنا پر یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا، بیشک اولیا، جنات یا ملائکہ ہوں کوئی بھی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پیدا نہیں کرسکتا۔ لہٰذا اللہ ہی ہر چیز کا واحد خالق ہے اور وہ زبردست قدرت رکھنے والا ہے۔ یہاں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ توحید کا عقیدہ رکھنے والا شخص بینا ہے اور شرک کرنے والا اندھا ہے۔ کیونکہ اسے زبردست قدرت رکھنے والے اللہ کی قدرتیں دکھائی نہیں دیتیں۔ شرک ہر قسم کے اندھیرے ہیں اور توحید اللہ کا نور اور روشنی ہے۔ جو شخص اس روشنی کی تلاش کی جستجو کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے شرک و بدعت کے اندھیروں سے نکال کر توحید کی جلوہ گاہ میں پہنچنے کی توفیق دیتا ہے۔ (آل عمران : ٢٥٧) مسائل ١۔ مکہ کے مشرک زمین و آسمان کا خالق اور مالک اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اکیلا ہے اور ہر کسی پر غالب ہے۔ ٣۔ مشرک اللہ تعالیٰ کو سب کچھ مان کر بھی دوسروں کو نفع و نقصان کا مالک سمجھتے ہیں۔ ٤۔ اندھا اور بینا، تاریکی اور روشنی برابر نہیں ہوسکتے، اسی طرح خالق اور مخلوق برابر نہیں ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے کوئی چیز پیدا نہیں کی ہے۔ ٦۔ ہر چیز کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ تفسیر بالقرآن نفع اور نقصان کا صرف اللہ ہی مالک ہے : ١۔ کیا تم اللہ کے سوا دوسروں کو خیر خواہ سمجھتیہو۔ جو اپنے بھی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الرعد : ١٦) ٢۔ میں انپے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے ؟ (یونس : ٤٩) ٣۔ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں ؟ (المائدۃ : ٧٦) ٤۔ اگر اللہ تمہیں نفع و نقصان میں مبتلا کرنا چاہے کون ہے جو اس سے بچالے گا۔ (الفتح : ١١) ٥۔ معبودان باطل اپنی جانوں کے نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ (الفرقان : ٣) ٦۔ فرما دیجیے میں اپنے نفس کے بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ (الاعراف : ١٨٨) ٧۔ (اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیں کہ مجھے تمہارے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں۔ (الجن : ٢١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بینا اور نابینا اور نور اور اندھیرے برابر نہیں ہوسکتے : پھر فرمایا (قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ ) (آپ ان سے سوال کیجئے کیا نابینا اور بینا برابر ہوسکتے ہیں) نابینا سے مشرک مراد ہیں جو اس ذات پاک کی عبادت نہیں کرتا جو مستحق عبادت ہے ‘ اور غیر اللہ کی عبادت میں لگا ہوا ہے اور بینا سے موحد مراد ہے جو یہ جانتا ہے کہ مجھے صرف اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرنا ہے اور پھر وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتا ہے جس طرح آنکھوں سے معذور اندھا دیکھنے والے کے برابر نہیں ہوسکتا اسی طرح مومن اور مشرک برابر نہیں ہوسکتے ‘ پھر فرمایا (اَمْ ھَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ ) (کیا اندھیریاں اور نور برابر ہوسکتے ہیں) اندھیریوں سے تمام انواع کفر مراد ہیں اور اسی لیے اسے جمع لایا گیا ہے اور نور سے ایمان اور توحید مراد ہے جس طرح حسیات میں اندھیریاں اور روشنی برابر نہیں اسی طرح دینیات میں ایمان اور کفر برابر نہیں ‘ کافروں کے جتنے بھی دین ہیں وہ سب ملۃ واحدہ ہیں ‘ ان کا دین اور اہل ایمان کا دین الگ ہے ‘ ایمان اور کفر برابر نہیں ‘ مومن اور کافر بھی برابر نہیں ایمان جنت میں لے جانے والا ہے اور کفر دوزخ میں پہنچانے والا ہے۔ سورۂ انعام میں فرمایا (اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا) (جو شخص مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کردیا اور اس کے لیے ایسا نور مقرر کردیا جس کے ذریعہ وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کیا یہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کا حال یہ ہے کہ وہ اندھیریوں میں ہے اور ان سے نکلنے والا نہیں) ۔ پھر فرمایا (اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَاَءَ خَلَقُوْا کَخَلْقِہٖ فَتَشَابَہَ الْخَلْقُ عَلَیْھِمْ ) (کیا ایسی بات ہے کہ ان لوگوں نے جنہیں اللہ کا شریک قرار دیا ہے انہوں نے کچھ مخلوق پیدا کی ہے پھر انہیں مخلوق میں اشتباہ ہوگیا ہو کہ یہ مخلوق تو اللہ کی ہے اور یہ مخلوق شرکاء کی ہے اس اشتباہ اور التباس کی وجہ سے وہ غیر اللہ کی عبادت کرنے لگے) یہ سب استفہام انکاری کے طور پر ہے اور مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی خالق ہے سب کو اسی نے وجود بخشا ہے اس کو سب ہی مانتے ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ ہی عبادت کا مستحق ہے ‘ اگر کسی اور نے بھی کوئی مخلوق پیدا کی ہوتی تو اشتباہ ہونے کا موقع ہوتا کہ اس نے بھی بعض چیزوں کی تخلیق کی ہے لہٰذا یہ بھی مستحق عبادت ہونا چاہئے (العیاذ باللہ) لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے کچھ پیدا کیا ہی نہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا جو معبود انہوں نے تجویز کئے ہیں وہ کسی چیز کی پیدائش پر قادر ہی نہیں اگر سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو پیدا نہیں کرسکتے۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ ) لہٰذا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی عبادت کا مستحق نہیں۔ (قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ وَّھُوَ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ ) ۔ آپ فرما دیجئے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے لہٰذا وہی سب کا معبود ہے اور وہی واحد حقیقی ہے اور وہ الوہیت میں اور ربوبیت میں منفرد اور متوحد ہے اور وہ سب پر غالب ہے ساری مخلوق مقہور اور مغلوب ہے جو مخلوق اور مقہور ہو وہ خالق وقہار جل جلالہ کا شریک کیسے ہوسکتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18: یہ پانچویں عقلی دلیل ہے علی سبیل العتراف من الخصم اور یہ ماقبل سے اقوی ہے کیونکہ مشہور ہے صح الشہادات ما یشہد بہ الاعداء۔ مشرکین مانتے تھے کہ زمین و آسمان کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ” قُلِ اللہ “ یہاں یہاں ہمزہ استفہام تقریری محذوف ہے ” قل ءَ اللہ “ یعنی اللہ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ 19:۔ یہ دلائل مذکورہ پر دوسرا ثمرہ ہے بطور زجر و الزام مذکورہ دلائل سے واضح اور ثابت ہوگیا کہ ساری کائنات کا خالق مالک اور متصرف اللہ تعالیٰ ہی مگر اس کے باوجود تم نے اللہ کی عاجز مخلوق اور اس کے بےبس بندوں کو کارساز اور حاجت روا بنا لیا جو تمہیں نفع و نقصان تو کیا پہنچائیں گے وہ تو اپنے نفع و نقصان کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔ تم تو بالکل ہی عقل کے اندھے ہو۔ آپ فرما دیجیے کہ اندھا اور بینا برا نہیں ہوسکتے اور نہ اندھیرا اور روشنی برابر ہوسکتی ہے اَعمٰی (اندھے) مراد مشرک ہے جو وضوع دلائل کے باوجود توحید کو نہیں مانتے اور بَصِیْرٌ (بینا) سے مراد موحد ہے۔ اسی طرح ظلمات سے کفر و شرک کے اندھیرے اور نور سے توحید کی روشنی مراد ہے۔ 20:۔ کیا انہوں نے ایسوں کو اللہ کا شریک بنایا ہے جنہوں نے اللہ کی مخلوق کے مانند کوئی مخلوق پیدا کی ہے اس لیے ان پر معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے اور انہوں نے ان کو مستحق الوہیت سمجھ لیا ہے حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور جن کو انہوں نے اللہ کا شریک بنایا ہے ان کے بارے میں خود انہیں تسلیم ہے کہ انہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا۔ لہذا وہ معبود اور الٰہ ہونے کا استحقاق بھی نہیں رکھتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

16 ۔ اے پیغمبر آپ ان سے پوچھتے کہ آسمان و زمین کا پروردگار کون ہے اور چونکہ اس کا جواب ظاہر ہے اس لئے آپ فرما دیجئے کہ زمین و آسمان کا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے آپ ان سے کہئے پھر کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے ہوا ایسوں کو اپنا حمایتی اور مدد گار بنا رکھا ہے جو خود اپنے نفع اور ضرر کا اختیار نہیں رکھتے آپ ان سے کہئے کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوسکتا ہے یا کہیں اندھیریاں اور اجالا برابر ہوسکتا ہے یا ان مشرکوں نے اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے شرکاء مقرر کئے ہیں اور قرار دے رکھے ہیں کہ انہوں نے بھی کچھ ایسی چیزیں پیدا کی ہوں اور ایسی مخلوق پیدا کی ہو جیسے اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے کہ وہ مخلوق ان مشرکوں پر خدا کی پیدا کردہ محلوق سے مل کر مشتبہ ہوگئی ہے اور شرکاء کی اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ وہ مخلوق ایک سی معلوم ہوتی ہے آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہے اکیلا سب مخلوقات پر غالب ۔ یعنی آسمان و زمین کا خالق اور ان کو قائم رکھنے والا کون ہے پھر یہ دلائل توحید سن کر تم ایسوں کو رفیق اور حمایتی قرار دیتے ہو جو اپنے ہی نفع نقصان کے مالک نہیں ، چہ جائے کہ دوسروں کے کام آئیں اس کے بعد مشرک اور مومن کا اور شرک و توحید کا فرق بیان فرمایا اور عد م مساوات کا اظہار کیا اندھا اور سوجھا کا اندھیرا اور اجالا ایک دوسرے کے برابر نہیں ۔ پھر فرمایا کیا اللہ کے ساتھ ایسے شرکاء قرار دے لئے ہیں جنہوں نے خدا کی طرح کوئی مخلوق پیدا کی ہو اور وہ ان پر مشتبہ ہوگئی ہو اور یہ شناخت نہیں ہوسکتی کہ خدا کی مخلوق کون سی ہے اور شرکاء کی کون سی ہے یعنی اپنے شرکاء کا جائز ہ لو جب کوئی بات بھی ان میں نہیں ہے ، تو اس خالق ، واحد اور قہار کے شرکاء تجویز کرنے اور قرار دینے کا مطلب سوائے گمراہی اور ضلالت کے اور کیا ہے۔