Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 2

سورة الرعد

اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّکُمۡ تُوۡقِنُوۡنَ ﴿۲﴾

It is Allah who erected the heavens without pillars that you [can] see; then He established Himself above the Throne and made subject the sun and the moon, each running [its course] for a specified term. He arranges [each] matter; He details the signs that you may, of the meeting with your Lord, be certain.

اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کررکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ۔ پھر وہ عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے اسی نے سورج اور چاند کو ما تحتی میں لگا رکھا ہے ۔ ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے وہی کام کی تدبیر کرتا ہے وہ اپنے نشانات کھول کھول کر بیان کر رہا ہے کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کر لو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Clarifying Allah's Perfect Ability Allah tells; اللّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ ... Allah is He Who raised the heavens, Allah mentions His perfect ability and infinite authority, since it is He Who has raised the heavens without pillars by His permission and order. He, by His leave, order and power, has elevated the heavens high above the earth, distant and far away from reach. The heaven nearest to the present world encompasses the earth from all directions, and is also high above it from every direction. The distance between the first heaven and the earth is five hundred years from every direction, and its thickness is also five hundred years. The second heaven surrounds the first heaven from every direction, encompassing everything that the latter carries, with a thickness also of five hundred years and a distance between them of five hundred years. The same is also true about the third, the fourth, the fifth, the sixth and the seventh heavens. Allah said, اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَـوَتٍ وَمِنَ الاٌّرْضِ مِثْلَهُنَّ It is Allah who has created seven heavens and of the earth the like thereof. (65:12) Allah said next, ... بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ... ..without any pillars that you can see. meaning, `there are pillars, but you cannot see them,' according to Ibn Abbas, Mujahid, Al-Hasan, Qatadah, and several other scholars. Iyas bin Mu`awiyah said, "The heaven is like a dome over the earth," meaning, without pillars. Similar was reported from Qatadah, and this meaning is better for this part of the Ayah, especially since Allah said in another Ayah, وَيُمْسِكُ السَّمَأءَ أَن تَقَعَ عَلَى الاٌّرْضِ إِلاَّ بِإِذْنِهِ He withholds the heaven from falling on the earth except by His permission. (22:65) Therefore, Allah's statement, تَرَوْنَهَا (...that you can see), affirms that there are no pillars. Rather, the heaven is elevated (above the earth) without pillars, as you see. This meaning best affirms Allah's ability and power. Al-Istawa', Rising above the Throne Allah said next, ... ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ... Then, He rose above (Istawa) the Throne. We explained the meaning of the Istawa' in Surah Al-A`raf (7:54), and stated that it should be accepted as it is without altering, equating, annulling its meaning, or attempts to explain its true nature. Allah is glorified and praised from all that they attribute to Him. Allah subjected the Sun and the Moon to rotate continuously Allah said, ... وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لاَجَلٍ مُّسَمًّى ... He has subjected the sun and the moon, each running (its course) for a term appointed. It was said that the sun and the moon continue their course until they cease doing so upon the commencement of the Final Hour, as Allah stated, وَالشَّمْسُ تَجْرِى لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَـا And the sun runs on its fixed course for a term (appointed). (36:38) It was also said that the meaning is: until they settle under the Throne of Allah after passing the other side of the earth. So when they, and the rest of the planetary bodies reach there, they are at the furthest distance from the Throne. Because according to the correct view, which the texts prove, it is shaped like a dome, under which is all of the creation. It is not circular like the celestial bodies, because it has pillars by which it is carried. This fact is clear to those who correctly understand the Ayat and authentic Hadiths. All the (praise is due to) Allah and all the favors are from Him. Allah mentioned the sun and the moon here because they are among the brightest seven heavenly objects. Therefore, if Allah subjected these to His power, then it is clear that He has also subjected all other heavenly objects. ... يُدَبِّرُ الاَمْرَ ... He manages and regulates all affairs; Allah said in other Ayat, لااَ تَسْجُدُواْ لِلشَّمْسِ وَلااَ لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُواْ لِلَّهِ الَّذِى خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ Prostrate yourselves not to the sun nor to the moon, but prostrate yourselves to Allah Who created them, if you (really) worship Him. (41:37) and, وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَتٍ بِأَمْرِهِ أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالاٌّمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَـلَمِينَ And (He created) the sun, the moon, the stars subjected to His command. Surely, His is the creation and commandment. Blessed is Allah, the Lord of all that exists! (7:54) Allah's statement next, ... يُفَصِّلُ الايَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاء رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ He explains the Ayat in detail, that you may believe with certainty in the Meeting with your Lord. means, He explains the signs and clear evidences that testify that there is no deity worthy of worship except Him. These evidences prove that He will resurrect creation if He wills, just as He started it.

کمال قدرت اور عظمت سلطنت ربانی دیکھو کہ بغیر ستونوں کے آسمان کو اس نے بلند بالا اور قائم کر رکھا ہے ۔ زمین سے آسمان کو اللہ نے کیسا اونچا کیا اور صرف اپنے حکم سے اسے ٹھرایا ۔ جس کی انتہا کوئی نہیں پاتا ۔ آسمان دنیا ساری زمین کو اور جو اس کے ارد گرد ہے پانی ہوا وغیرہ سب کو احاطہ کئے ہوے ہے اور ہر طرف سے برابر اونچا ہے ، زمین سے پانچ سو سال کی راہ پر ہے ، ہر جگہ سے اتنا ہی اونچا ہے ۔ پھر اس کی اپنی موٹائی اور دل بھی پانچ سو سال کے فاصلے کا ہے ، پھر دوسرا آسمان اس آسمان کو بھی گھیرے ہوئے ہے اور پہلے سے دوسرے تک کا فاصلہ وہی پانچ سو سال کا ہے ۔ اسی طرح تیسرا پھر چوتھا پھر پانچواں پھر چھٹا پھر ساتواں جیسے فرمان الٰہی ہے آیت ( اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ 12۝ۧ ) 65- الطلاق:12 ) یعنی اللہ نے سات آسمان بیدا کئے ہیں اور اسی کے مثل زمین ۔ حدیث شریف میں ہے ساتوں آسمان اور ان میں اور ان کے درمیان میں جو کچھ ہے وہ کرسی کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے کہ چٹیل میدان میں کوئی حلقہ ہو اور کرسی عرش کے مقابلے پر بھی ایسی ہی ہے ۔ عرش کی قدر اللہ عزوجل کے سوا کسی کو معلوم نہیں ۔ بعض سلف کا بیان ہے کہ عرش سے زمین تک کا فاصلہ پچاس ہزار سال کا ہے ۔ عرش سرخ یاقوت کا ہے ۔ بعض مفسر کہتے ہیں آسمان کے ستون تو ہیں لیکن دیکھے نہیں جاتے ۔ لیکن ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں آسمان زمین پر مثل قصبے کے ہے یعنی بغیر ستون کے ہے ۔ قرآن کے طرز عبارت کے لائق بھی یہی بات ہے اور آیت ( ویمسک السماء ان تقع علی الارض ) سے بھی ظاہر ہے پس ترونھا اس نفی کی تاکید ہو گی یعنی آسمان بلا ستون اس قد بلند ہے اور تم آپ دیکھ رہے ہو ، یہ ہے کمال قدرت ۔ امیہ بن ابو الصلت کے اشعار میں ہے ، جس کے اشعار کی بابت حدیث میں ہے کہ اس کے اشعار ایمان لائے ہیں اور اس کا دل کفر کرتا ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ یہ اشعار حضرت زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہے جن میں ہے وانت الذی من فصل من ورحمتہ بعثت الی موی رسولا منادیا فقلت لہ فاذہب وہارون فادعوا الی اللہ فرعون الذی کان طاغیا وقولا لہ ہل انت سویت ہذہ بلا عمدا وثوق ذالک بانیا ولوالا لہ ہل انت سویت وسطہا منیرا انا جنک الیل ہادیا وقولا لنا من انبت الحب فی الثری فیصبح منہ العشب یفتر دابیا ویخرج منہ حبہ فی روسہ ففی ذالک ایات لمن کان واعیا یعنی تو وہ اللہ ہے جس نے اپنے فضل وکرم سے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کو مع ہارون علیہ السلام کے فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور ان سے فرما دیا کہ اس سرکش کو قائل کرنے کے لئے اس سے کہیں کہ اس بلند وبالا بےستون آسمان کو کیا تو نے بنایا ہے ؟ اور اس میں سورج چاند ستارے تو نے پیدا کئے ہیں ؟ اور مٹی سے دانوں کو اگانے والا پھر ان درختوں میں بالیں پیدا کر کے ان میں دانے پکانے والا کیا تو ہے ؟ کیا قدرت کی یہ زبردست نشانیاں ایک گہرے انسان کے لئے اللہ کی ہستی کی دلیل نہیں ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوا ۔ اس کی تفسیر سورہ اعراف میں گزر چکی ہے ۔ اور یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ جس طرح ہے اسی طرح چھوڑ دی جائے ۔ کیفیت ، تشبیہ ، تعطیل ، تمثلیل سے اللہ کی ذات پاک ہے اور برتر وبالا ہے ۔ سورج چاند اس کے حکم کے مطابق گردش میں ہیں اور وقت موزوں یعنی قیامت تک برابر اسی طرح لگے رہیں گے ۔ جیسے فرمان ہے کہ سورج اپنی جگہ برابر چل رہا ہے اس کی جگہ سے مراد عرش کے نیچے ہے جو زمین کے تلے سے دوسری طرف سے ملحق ہے یہ اور تمام ستارے یہاں تک پہنچ کر عرش سے اور دور ہو جاتے ہیں کیونکہ صحیح بات جس پر بہت سی دلیلیں ہیں یہی ہے کہ وہ قبہ ہے متصل عالم باقی آسمانوں کی طرح وہ محیط نہیں اس لئے کہ اس کے پائے ہیں اور اس کے اٹھانے والے ہیں اور یہ بات آسمان مستدیر گھومے ہوئے آسمان میں تصور میں نہیں آ سکتی جو بھی غور کرے گا اسے سچ مانے گا ۔ آیات واحادیث کا جانچنے والا اسی نتیجے پر پہنچے گا ۔ وللہ الحمد والمنہ صرف سورج چاند کا ہی ذکر یہاں اس لیے ہے کہ ساتوں سیاروں میں بڑے اور روشن یہی دو ہیں پس جب کہ یہ دونوں مسخر ہیں تو اور تو بطور اولیٰ مسخر ہوئے ۔ جیسے کہ سورج چاند کو سجدہ نہ کرو سے مراد اور ستاروں کو بھی سجدہ نہ کرنا ہے ۔ پھر اور آیت میں تصریح بھی موجود ہے فرمان ہے آیت ( وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ 54؀ ) 7- الاعراف:54 ) یعنی سورج چاند اور ستارے اس کے حکم سے مسخر ہیں ، وہی خلق و امر والا ہے ، وہی برکتوں والا ہے وہی رب العالمین ہے ۔ وہ اپنی آیتوں کو اپنی وحدانیت کی دلیلوں کو بالتفصیل بیان فرما رہا ہے کہ تم اس کی توحید کے قائل ہو جاؤ اور اسے مان لو کہ وہ تمہیں فنا کر کے پھر زندہ کر دے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 استوا علی العرش کا مفہوم اس سے قبل بیان ہوچکا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا عرش پر قرار پکڑنا ہے۔ محدثین کا یہی مسلک ہے وہ اس کی تاویل نہیں کرتے، جیسے بعض دوسرے گروہ اس میں اور دیگر صفات الٰہی میں تاویل کرتے ہیں۔ تاہم محدثین کہتے ہیں کہ اس کی کیفیت نہ بیان کی جاسکتی ہے اور نہ اسے کسی چیز سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ (لیس کمثلہ شیء وہو السمیع البصیر) الشوری 2۔ 2 اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ ایک وقت مقرر تک یعنی قیامت تک اللہ کے حکم سے چلتے رہیں گے جیسا کہ فرمایا (والشمس تجری لمستقرلھا ذلک تقدیر العزیز العلیم) یسین۔ اور سورج اپنے ٹھہرنے کے وقت تک چل رہا ہے دوسرے معنی یہ ہیں کہ چاند اور سورج دونوں اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتے ہیں سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں مکمل کرلیتا ہے جس طرح فرمایا (والقمر قدرنہ منازل) یسین۔ ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کردی ہیں سات بڑے بڑے سیارے ہیں جن میں سے دو چاند اور سورج ہیں یہاں صرف ان دو کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہی دو سب سے زیادہ بڑے اور اہم ہیں جب یہ دونوں بھی اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو دوسرے سیارے تو بطریق اولی اس کے تابع ہونگے اور جب یہ اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو یہ معبود نہیں ہوسکتے معبود تو وہی ہے جس نے ان کو مسخر کیا ہوا ہے اس لیے فرمایا (لَا تَسْجُدُوْا للشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ ) 41 ۔ فصلت :37) حم السجدہ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا اگر تم صرف اس کی عبادت کرنا چاہتے ہو۔ ( ۙ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ ) 16 ۔ النحل :12) الاعراف سورج چاند اور تارے سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] آسما نوں کے ستون یا کشش ثقل ؟۔ یعنی اس بات کا امکان ہے کہ آسمان ستونوں یا سہاروں پر قائم ہوں لیکن وہ ستون یا سہارے غیر مرئی ہوں، انھیں ہم دیکھ نہیں سکتے۔ چناچہ تفسیر ابن کثیر میں سیدنا ابن عباس (رض) ، مجاہد، حسن بصری، قتادہ اور بعض دوسروں سے ایسی ہی روایت کی گئی ہے۔ ان غیر مرئی سہاروں کو ہم آج کل کی زبان میں کشش ثقل کہہ سکتے ہیں۔ [٣] اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ کی تفسیر کے لیے دیکھئے (٧: ٥٤ کا حاشیہ نمبر ٥٤) [٤] سیا روں کی گر دش تا قیامت۔ یہ مقررہ مدت قیامت ہے۔ جب یہ سارا نظام کائنات درہم برہم کردیا جائے گا۔ اس آیت میں پہلے سورج اور چاند کا ذکر فرمایا۔ آگے فرمایا : (کُلٌ یَّجْرِیْ لاِجَلٍ مُّسَمًّی) حالانکہ کل کا لفظ دو کے لیے نہیں آتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سورج اور چاند کی طرح کے سب سیارے اپنی اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں اور یہ قیامت تک چلتے ہی رہیں گے۔ ضمناً اس سے دو باتیں اور معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ سورج کو ساکن سمجھتے ہیں یا سمجھتے رہے وہ غلطی پر ہیں۔ لفظ جریان کا اطلاق گردش محوری پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بھی ضروری ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ہماری زمین بھی چونکہ ایک سیارہ ہے۔ اس لیے اس کی گردش بھی ثابت ہوتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب [٥] کا ئنات کے نظام سے وجود باری تعالیٰ کی دلیل۔ یعنی سیاروں کی گردش کے جو قاعدے اور قوانین مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ ان کے پابند ہیں۔ ذرہ بھر ادھر ادھر نہیں ہوسکتے۔ پھر وہ ہر وقت اپنے اس نظام کی نگرانی بھی کر رہا ہے۔ کیونکہ جو چیز ہر وقت حرکت میں رہے وہ خراب بھی ہوسکتی ہے۔ گھس بھی جاتی ہے۔ اس کی حرکت میں کمی بھی واقع ہوسکتی ہے۔ حتیٰ کہ کسی وقت وہ تباہ بھی ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی تمام باتوں کی تدبیر بھی کر رہا ہے ان سیاروں کو صرف ان کی قوت جاذبہ اور دافعہ کے سپرد ہی نہیں کر رکھا بلکہ ان کی پوری پوری نگہداشت اور ان کی تدبیر یا واقع ہونے والی خامیوں کا علاج بھی کر رہا ہے۔ [٦] کا ئنات کے وجود سے معاد پر دلیل۔ اس جملہ میں موجودہ نظام کائنات کو یوم آخرت پر دلیل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے یعنی جو قادر مطلق ایسا عظیم کارخانہ کائنات وجود میں لاسکتا ہے اور اس پر کنٹرول رکھ سکتا ہے اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا چنداں مشکل نہیں اور اس دلیل کی دوسری صورت یہ ہے کہ جو ہستی اس نظام کائنات کو ایسے تناسب، عدل اور حکمت کے ساتھ چلا رہی ہے۔ کیا وہ انسان کو ایسا ہی بےلگام چھوڑ سکتی ہے کہ وہ اس دنیا میں جو کچھ کرنا چاہے کرتا پھرے اور اس سے کچھ مؤاخذہ نہ کیا جائے۔ لہذا اللہ کے عدل اور حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ جن لوگوں نے اپنی ساری زندگی ظلم و ستم ڈھانے میں گزاری ہے۔ ان کو ان کی بدکرداریوں کی ضرور سزا دی جائے۔ اسی طرح جن لوگوں نے اپنے آپ کو ساری زندگی میں اللہ تعالیٰ کی حدود وقیود میں جکڑے رکھا۔ انھیں اس کا بدلہ بھی ضرور دیا جائے اور اس دنیا میں چونکہ انسان کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ لہذا از روئے عدل و حکمت دوسری زندگی کا قیام ضروری ہوا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ : لفظ ” اَللّٰهُ “ اس پاک ہستی کا ذاتی نام ہے جس نے سب کچھ بنایا اور اسے چلا رہا ہے۔ اس ایک لفظ میں اس کی ساری صفات آجاتی ہیں۔ ایمان اس ہستی کی توحید، اس کے رسولوں کی تصدیق اور اس کے سامنے قیامت کو پیش ہونے کے عقیدے کا نام ہے۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے آسمان و زمین میں اپنی قدرت کی کچھ نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے، تاکہ وہ توحید و رسالت اور قیامت پر ایمان لے آئے۔ سب سے پہلے آسمان کا ذکر فرمایا، سورة نازعات (٢٧) میں فرمایا : ” کیا تمہیں (پہلی بار یا دوبارہ) پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کو ؟ “ اپنے وجود اور آسمان کے وجود کا مقابلہ کرکے تو دیکھو، اور فرمایا : (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) [ المؤمن : ٥٧ ] ” یقیناً آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے۔ “ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا : ” عَمَدٍ “ اسم جمع ہے، جمع نہیں، اس کا مفرد ” عَمُوْدٌ“ یا ” عِمَادٌ“ ہے۔ (شعراوی) اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس قدر وسیع اور عظیم آسمانوں کو کسی بھی قسم کے ستونوں کے بغیر بلند کردیا، تم خود انھیں دیکھ رہے ہو کہ ان کے نیچے کوئی ستون نہیں، جب کہ تم چھوٹی سے چھوٹی چھت بھی دیواروں یا ستونوں کے بغیر نہیں بنا سکتے۔ محض اپنی قدرت اور بےپناہ قوت کے ساتھ اتنا اونچا بنانے کے بعد وہیں تھام کر رکھنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے، چناچہ فرمایا : (وَيُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ) [ الحج : ٦٥ ] ” اور وہ آسمان کو تھام کر رکھتا ہے، اس سے کہ زمین پر گرپڑے مگر اس کے اذن سے۔ “ مزید دیکھیے سورة فاطر (٤١) اس صورت میں ” تَرَوْنَهَا “ (تم انھیں دیکھتے ہو) میں ضمیر کا مرجع لفظ ” السَّمٰوٰتِ “ ہوگا اور ” تَرَوْنَهَا “ الگ نیا جملہ ہوگا کہ تم خود آسمانوں کو اس حالت میں دیکھ رہے ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ” تَرَوْنَهَا “ کو ” عَمَدٍ “ کی صفت قرار دیا جائے، پھر ترجمہ یہ ہوگا کہ اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر بلند فرمایا جنھیں تم دیکھتے ہو، گویا ستون ہیں مگر تمہیں نظر نہیں آتے، نہ کہیں نگاہ کے لیے رکاوٹ بنتے ہیں۔ آیت دونوں معنوں کا امکان رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے دونوں ممکن ہیں، اس لیے ترجمہ میں بھی دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ علمائے تفسیر میں سے کسی نے پہلے معنی کو ترجیح دی اور کسی نے دوسرے کو۔ امام المفسرین طبری (رض) نے فرمایا، حق یہ ہے کہ ہم بھی اسی طرح کہیں جیسے اللہ نے فرمایا۔ (خلاصہ) یعنی پورے علم کے بغیر ایک معنی کو ترجیح نہ دیں۔ (واللہ اعلم) (یہاں طبری کے فیصلے کی پوری عبارت نہایت پُر لطف ہے) کیا معلوم کہ کسی وقت تجزیے سے ثابت ہوجائے کہ فضا میں نظر نہ آنے والی کوئی چیز موجود ہے جس پر آسمان قائم ہیں۔ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ : قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا سات جگہ آتا ہے، سورة اعراف (٥٤) ، یونس (٣) ، رعد (٢) ، طٰہٰ (٥) ، فرقان (٥٩) ، سجدہ (٤) اور حدید (٤) اللہ تعالیٰ کے تعلق سے عرش کا ذکر اکیس (٢١) مرتبہ اور ملکہ سبا کے تعلق سے چار (٤) مرتبہ آیا ہے۔ مستوی علی العرش کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٥٤) اور سورة حاقہ (١٧) ۔ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ : یہاں سے اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اپنی چند نہایت واضح نعمتیں ذکر فرمائیں۔ تسخیر کا معنی ہے کسی کو اپنے تابع اور قابو میں کرلینا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو اپنے تابع اور پوری طرح پابند کر رکھا ہے، اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں جس طرح جس کام پر لگا دیا ہے وہ اس سے بال برابر ادھر ادھر نہیں ہوتے۔ جو مدت مقرر کی ہے اس کے عین مطابق مقرر وقت پر چل رہے ہیں، یعنی قیامت تک یا اپنے دورے کے مقرر وقت کے مطابق، نہ ان کی رفتار بدلتی ہے نہ طلوع وغیرہ کے نظام میں فرق آتا ہے۔ سورج اپنا دورہ سال میں پورا کرتا ہے، چاند ایک ماہ میں۔ کسی بھی سیارے یا سورج اور چاند کا آپس میں نہ کوئی ٹکراؤ ہے نہ حادثہ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت و حکمت کی کتنی بڑی نشانی ہے۔ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ : کسی کام کی تدبیر کا معنی اسے اس کے سب سے اچھے، مضبوط اور مکمل طریقے پر چلانا ہے۔ مختصر سے عطا کردہ اختیار سے تم جو تدبیریں کرتے ہو ان کا نتیجہ بھی دیکھ لو، کوئی پوری ہوتی ہے کوئی نہیں اور کوئی کسی حادثے کی نذر ہوجاتی ہے اور اس عزیز و حکیم کی تدبیر امور کو دیکھو۔ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ : اس میں کائنات میں موجود نشانیاں بھی شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں پر نازل شدہ آیات بھی کھول کر بیان کرنا ہے کہ دونوں کس قدر واضح ہیں، جن کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ : یعنی ان تمام آیات کی تفصیل کا مقصد تمہیں یہ یقین دلانا ہے کہ ایسی عظیم مخلوقات کو پیدا کرنے اور ان کی تدبیر کرنے والے پروردگار کے لیے تمہیں دوبارہ پیدا کرنا کچھ مشکل نہیں اور ہر حال میں تمہیں اس کے سامنے پیش ہونا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

It was said: اللَّـهُ الَّذِي رَ‌فَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا Allah is the One who raised the heavens without pillars. You see them. On Seeing the Sky It is generally said that the blue colour we see up is the colour of the sky. But physicists say that we see it so because of the intermingling of light and dark. Below, there is the light from the stars, and above, it is dark. As a result, the onlooker outside sees it as blue, similar to the re¬flection of light on deep water which appears blue. There are verses of the Qur&an where seeing the sky has been mentioned, as has been done in this very verse which says: تَرَوْنَهَا (You see them), and the words appearing in another verse (88:18) are: وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُ‌فِعَتْ & (And do you not see) towards the sky as to how it has been raised - 88:18.) & First of all, the scientific determination of physicists does not stand counter to it because it is possible that the colour of the sky might as well be bluish, or may have some other colour, but it is sighted as blue due to the admixture of the dark behind and the light in between. Moreover, the possibility that the colour of the sky is a component of the atmosphere cannot be rejected as supported by valid proof. Then, it is also possible that places where &seeing the sky& has been mentioned in the Qur’ an, the expression employed there may be legal and figurative aiming to establish that the existence of the sky stands proved under decisive arguments and is as good as seen. (Ruh al-Ma’ ani) After that, it was said: ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ Then He positioned Himself on the Throne ... This mode of taking over the Seat of Power is beyond human compre¬hension. Understanding it is impossible. Here, it is sufficient to believe that this state of Istiwa& or positioning on the Arsh& or Throne is someth¬ing matching with the Divine Status as due, and that is what is meant here. In the next sentence: وَسَخَّرَ‌ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ ۖ كُلٌّ يَجْرِ‌ي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى (and subjugated the sun and the moon, each one running to an appointed time), the word: سَخَّرَ : translated as &subjugated& means that they both are constantly doing what they have been assigned to do. Thousands of years have gone by but there never has been the least increase or decrease in their move¬ment, nor do they get tired, nor do they ever start doing something else contrary to what they have been programmed to do. As for their &running to an appointed time,& it could also mean that both of them are moving on to the same appointed time which stands determined as the final term called Qiyamah or Doomsday for this entire world of our experi-ence. Once they reach that stage in time, this whole system of theirs will reach its end. And it could also mean that Allah Ta’ ala has determined a particu¬lar speed and orbit for every planet. It always keeps moving on its orbit at the speed set for it. The Moon completes its orbit in one month and the Sun does it in a year. Certainly mind-boggling is the very presence of these great planets. Then, no less astonishing is the phenomena of their flawless functioning. Here they are moving on a particular orbit maintaining a particular speed precisely and perfectly for thousands of years in a state that their machinery faces no wear and tear or breakage, nor does it require any kind of greasing or servicing. Think of the revolutionary advancements of science in human technology in our day. Can any human invention around match this model? The truth is that it is impossible to locate even a thousandth part of it anywhere in the world despite human inge¬nuity being at its highest pinnacle. This great system of nature is deliver¬ing a message, very loud and very clear. It is telling us that there certain¬ly is some Being who has made, moved and maintained this system, a Being far beyond the reach of human perception and intelligence. In Reality, It is Allah who Makes Things Work for Human Beings while Their Role in It is Nominal After that comes the powerful statement: يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ (He manages all matters). If man so pleased with the ways and means which help make things work for him were to open his eyes, he would realize that his plans and measures could neither create nor make things in the real sense. The outcome of all his efforts and workings is no more than get¬ting to learn how to make the best use of what has been created by Allah Ta’ ala. Besides, even the system of harnessing what is universally available for use is outside the ambit of power exercised by human beings. The rea¬son is that human beings depend on hundreds and thousands of others like him, and on animals, and on many other live and inert members of Divine creation. These they cannot put on their jobs just by dint of their plans and efforts. This is the function of the Divine power. It has linked up everything, as if in a chain, and in a way that everything gets to be drawn into the desired action. You need to build a house. You find a whole range of servers from the architect to the builder and the finisher, hundreds of human beings offering their career and craft all set to an¬swer your call. You need building materials. They lie stacked in stores and shops ready to be delivered where you want them. Was it within your power and control to assemble all these things on your own just by the brute force of your money or measures and, on top of it, commission all those human beings into your service? Let us part with your individual example at this point. The fact is that this system cannot be estab¬lished and activated through the force of law, even by the mightiest of the mighty government anywhere in the world. There is no doubt about the fact that the logistic support of this viably running universal system is the work of Allah Ta` ala alone, the Ever-Living, the Self-Sustaining Sustainer of all (Al-Haiyy, Al-Qaiyyum). If human beings still hasten to claim that all this comes from their plans and workings, there is not much that can be said about their claim, for ignorance shall remain what it is. The next sentence in the verse is: يُفَصِّلُ الْآيَاتِ (making the signs plain). It may mean the verses of the Qur’ an which have been revealed by Allah Ta’ ala in details and then, it was through the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that He elaborated and explained them. And the word, الْآيَاتِ (al-ayat) could also mean the &signs& of the most perfect power of Allah Ta` ala which are spread out in the heavens and the earth, even in the very existence of human beings themselves. These are before human sight all the time and everywhere, so many and so plain. Said in the last sentence of the verse was: لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَ‌بِّكُمْ تُوقِنُونَ (so that you may be sure of meeting your Lord). This means that Allah Ta` ala has initiated and activated this whole universe and its astonishing system of operation so that by pondering over it you may come to believe in and become certain of the Hereafter (&Akhirah) and the Doomsday (Qiyamah). The reason is that once you have pondered over the creation of this universe and its wonderous system, any likelihood of doubting that it may be beyond the power of Allah Ta’ ala to resurrect human be¬ings in the Hereafter simply cannot be entertained. And once we realize that it is within His power, and possible, and that it has been reported by no less a person than the one about whom it is universally settled that he never said anything in his whole life which was not the truth - then, there remains no room for doubt that this phenomena is real, actu¬al and proven.

ارشاد فرمایا : اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا یعنی اللہ ایسا ہے جس نے آسمانوں کے اتنے بڑے وسیع اور بلند رقبہ کو بغیر کسی ستون کے اونچا کھڑا کردیا جیسا کہ تم ان آسمانوں کو اسی حالت میں دیکھ رہے ہو کیا آسمان کا جرم آنکھوں سے نظر آتا ہے : عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نیلا رنگ جو ہمیں اوپر نظر آتا ہے آسمان کا رنگ ہے مگر فلاسفہ کہتے ہیں کہ یہ رنگ روشنی اور اندہیری کی آمیزش سے محسوس ہوتا ہے کیونکہ نیچے ستاروں کی روشنی اور اس کی اوپر اندھیرہ ہے تو باہر سے رنگ نیلا محسوس ہوتا ہے جیسے گہرے پانی پر روشنی پڑتی ہے تو وہ نیلا نظر آتا ہے قرآن کریم کی چند آیات ایسی ہیں جن میں آسمان کے دیکھنے کا ذکر ہے جیسے اسی آیت مذکورہ میں تَرَوْنَهَا کے الفاظ ہیں اور دوسری آیت میں وَاِلَى السَّمَاۗءِ كَيْفَ رُفِعَتْ کے الفاظ ہیں فلاسفہ کی یہ تحقیق اول تو اس کے منافی نہیں کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ آسمان کا رنگ بھی نیلگوں ہو یا کوئی دوسرا رنگ ہو مگر درمیانی روشنی اور اندھیری کے امتزاج سے نیلا نظر آتا ہو اس سے انکار کی کوئی دلیل نہیں کہ اس فضاء کے رنگ میں آسمان کا رنگ بھی شامل ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن کریم میں جہان آسمان کے دیکھنے کا ذکر ہے وہ حکمی اور مجازی ہو کہ آسمان کا وجود ایسے یقینی دلائل سے ثابت ہے کہ گویا دیکھ ہی لیا (روح المعانی) اس کے بعد فرمایا (آیت) ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ یعنی پھر عرش پر جو تخت سلطنت کے مشابہ ہے قائم اور اس طرح جلوہ فرما ہوا جو اس کی شان کے لائق ہے اس جلوہ فرمانے کی کیفیت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا اتنا اعتقاد رکھنا کافی ہے کہ جس طرح کا استواء شان الہی کے شایان ہے وہ مراد ہے۔ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند مسخر اور تابع حکم کیا ہوا ہے ان میں سے ایک معین رفتار سے چلتا ہے۔ مسخر کرنے سے مراد یہ ہے کہ دونوں کو جس جس کام پر لگادیا ہے برابر لگے ہوئے ہیں ہزاروں سال گذر گئے ہیں لیکن نہ کبھی ان کی رفتار میں کمی بیشی ہوتی ہے نہ تھکتے ہیں نہ کبھی اپنے مقررہ کام کے خلاف کسی دوسرے کام میں لگتے ہیں اور معین مدت کی طرف چلنے کے معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ پورے عالم دنیا کے لئے جو آخری مدت قیامت متعین ہے سب اسی کی طرف چل رہے ہیں اس منزل پر پہنچ کر ان کا یہ سارا نظام ختم ہوجائے گا۔ اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہر ایک سیارے کے لئے ایک خاص رفتار اور خاص مدار مقرر کردیا ہے وہ ہمیشہ اپنے مدار پر اپنے مدار پر اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ چلتا رہتا ہے چاند اپنے مدار کو ایک ماہ میں پورا کرلیتا ہے اور آفتاب سال بھر میں پورا کرتا ہے۔ ان سیاروں کا عظیم الشان وجود پھر ایک خاص مدار پر خاص رفتار کے ساتھ ہزاروں سال سے یکساں انداز میں اسی طرح چلتے رہنا کہ نہ کبھی ان کی مشین گھستی ہے نہ ٹوٹتی ہے نہ اس کو گریسنگ کی ضرورت ہوتی ہے انسانی مصنوعات میں سائنس کی اس انتہائی ترقی کے بعد بھی اس کی نظیر تو کیا اس کا ہزارواں حصہ ملنا بھی ناممکن ہے یہ نظام قدرت بآواز بلند پکار رہا ہے کہ اس کو بنانے اور چلانے والی کوئی ایسی ہستی ضرور ہے جو انسان کے ادراک و شعور سے بالاتر ہے ہر چیز کی تدبیر درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے انسانی تدبیر برائے نام ہے : يُدَبِّرُ الْاَمْرَ یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے انسان جو اپنی تدبیروں پر نازاں ہے ذرا آنکھ کھول کر دیکھے تو معلوم ہوگا کہ اس کی تدبیر کسی چیز کو نہ پیدا کرسکتی ہے نہ بنا سکتی ہے اس کی ساری تدبیروں کا حاصل اس سے زیادہ نہیں کہ خداوند سبحانہ وتعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کا صحیح استعمال سمجھ لے تمام اشیاء عالم کے استعمال کا نظام بھی اس کی قدرت سے خارج ہے کیونکہ انسان اپنے ہر کام میں دوسرے ہزاروں انسانوں، جانوروں، اور دوسری مخلوقات کا محتاج ہے جن کو اپنی تدبیر سے اپنے کام میں نہیں لگا سکتا قدرت خداوندی ہی نے ہر چیز کی کڑی دوسری چیز سے اس طرح جوڑی ہے کہ ہر چیز کھینچی چلی آتی ہے آپ کو مکان بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو نقشہ بنانے والے آرکٹیکٹ سے لے رنگ و روغن کرنے والوں تک سینکڑوں انسان اپنی جان اور اپنا ہنر لئے ہوئے آپ کی خدمت کو تیار نظر آتے ہیں سامان تعمیر جو بہت سی دکانوں میں بکھرا ہوا ہے سب آپ کو تیار مل جاتا ہے کیا آپ کی قدرت میں تھا کہ اپنے مال یا تدبیر کے زور سے یہ ساری چیزیں مہیا اور سارے انسانوں کو اپنی خدمت کے لئے حاضر کرلیتے آپ تو کیا کوئی بڑی سے بڑی حکومت بھی قانون کے زور سے یہ نظام قائم نہیں کرسکتی بلاشبہ یہ تدبیر اور نظام عالم کا قیام صرف حی وقیوم ہی کا کام ہے انسان اگر اس کو اپنی تدبیر قرار دے تو جہالت کے سوا کیا ہے يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ یعنی وہ اپنی آیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے اس سے مراد آیات قرآنی بھی ہو سکتی ہیں جن کو حق تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ نازل فرمایا پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ مزید ان کا بیان اور تفسیر فرمائی۔ اور آیات سے مراد آیات قدرت یعنی اللہ جل شانہ کی قدرت کاملہ کی نشانیاں جو آسمان زمین اور خود انسان کے وجود میں موجود ہیں وہ بھی ہو سکتی ہیں جو بڑی تفصیل کے ساتھ ہر وقت ہر جگہ انسان کی نظر کے سامنے ہیں لَعَلَّكُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ یعنی یہ سب کائنات اور ان کا عجیب و غریب نظام و تدبیر اللہ تعالیٰ نے اس لئے قائم فرمائے ہیں کہ تم اس میں غور کرو تو تمہیں آخرت اور قیامت کا یقین ہوجائے کیونکہ اس نظام عجیب اور پیدائش عالم پر نظر کرنے کے بعد یہ اشکال تو رہ نہیں سکتا کہ آخرت میں انسان کے دوبارہ پیدا کرنے کو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج سمجھیں اور جب داخل قدرت اور ممکن ہونا معلوم ہوگیا اور ایسی ہستی نے اس کی خبر دی جس کی زبان پوری عمر میں کبھی جھوٹ پر نہیں چلی تو اس کے واقع اور ثابت ہونے میں کیا شک رہ سکتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ ۝ رفع الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ( ر ف ع ) الرفع ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے عمد العَمْدُ : قصد الشیء والاستناد إليه، والعِمَادُ : ما يُعْتَمَدُ. قال تعالی: إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ [ الفجر/ 7] ، أي : الذي کانوا يَعْتَمِدُونَهُ ، يقال : عَمَّدْتُ الشیء : إذا أسندته، وعَمَّدْتُ الحائِطَ مثلُهُ. والعَمُودُ : خشب تَعْتَمِدُ عليه الخیمة، وجمعه : عُمُدٌ وعَمَدٌ. قال : فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ [ الهمزة/ 9] وقرئ : فِي عَمَدٍ ، وقال : بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ، وکذلک ما يأخذه الإنسان بيده مُعْتَمِداً عليه من حدید أو خشب . ( ع م د ) العمد کے معنی کسی چیز کا قصد کرنے اور اس پر ٹیک لگانا کے ہیں اور العماد وہ چیز ہے جس پر ٹیک لگائی جائے یا بھروسہ کیا جائے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ [ الفجر/ 7] جو ارم ( کہلاتے تھے اتنے ) دراز قد ۔ میں العماد سے وہ چیزیں مراد ہیں جن پر انہیں بڑا بھروسہ تھا محاورہ ہے ۔ عمدت الشئی کسی چیز کو سہارا دے کر کھڑا کرنا عمدت الحائط دیوار کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور العمود اس لکڑی ( بلی ) کو کہتے ہیں جس کے سہارے خیہا کو کھڑا کیا جاتا ہے اس کی جمع عمد آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ ، [ الهمزة/ 9] ( یعنی آگ کے ) لمبے لمبے ستونوں میں ۔ اور ایک قرات میں فی عمد ہے نیز فرمایا : ۔ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ستونوں کے بغیر جیسا کہ تم دیکھتے ہو ۔ نیز العمود ہر اس لکڑی یا لوہے کو کہتے ہیں جس پر سہارا لگا کر انسان کھڑا ہوتا ہے استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے عرش العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها [ البقرة/ 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] ( ع رش ) العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت ا لبئر ہے جس کے معنی کنویں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ دبر والتدبیرُ : التفکّر في دبر الأمور، قال تعالی: فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات/ 5] ، يعني : ملائكة موكّلة بتدبیر أمور، ( د ب ر ) دبر ۔ التدبیر ( تفعیل ) کسی معاملہ کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے اس میں غور و فکر کرنا قرآن میں ہے :۔ فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات/ 5] پھر دنیا کے ) کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ یعنی وہ فرشتے جو امور دینوی کے انتظام کیلئے مقرر ہیں ۔ تفصیل : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] ( ف ص ل ) الفصل التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ لفی أَلْفَيْتُ : وجدت . قال اللہ : قالُوا بَلْ نَتَّبِعُ ما أَلْفَيْنا عَلَيْهِ آباءَنا [ البقرة/ 170] ، وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] . ( ل ف ی) الفیت کے معنی وجدت یعنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ قالُوا بَلْ نَتَّبِعُ ما أَلْفَيْنا عَلَيْهِ آباءَنا[ البقرة/ 170] بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ۔ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں نے دروازے کے پاس اس کے شوہر کو پایا ۔ يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا ھکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢) اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو پیدا کیا اور بغیر ستون کے ان کو زمین پر کھڑا کردیا، تم ان آسمانوں کو اسی طرح دیکھ رہے ہو یہ ایسے ستون ہیں جن کو تم نہیں دیکھ رہے اور آسمانوں کے اونچا کرنے سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ عرش پر تھا اور پھر عرش پر متمکن ہوا یعنی علم وقدرت کے اعتبار سے قریب وبعید سب اس کے نزدیک برابر ہیں اور چاند وسورج کی روشنی کو انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہر ایک اپنے مدار پر ایک وقت مقررہ میں چلتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ بندے کے تمام کاموں کی نگرانی کرتے ہیں وہی تنزیل مصیبت کو بذریعہ فرشتوں کے نازل فرماتا ہے یہ قرآن پاک اوامرو نواہی کو صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم مرنے کے بعد کی تصدیق کرو،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا) اس کائنات کے اندر جو بلندیاں ہیں انہیں ستونوں یا کسی طبعی سہارے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے باہمی کشش کا ایک عظیم الشان نظام وضع کیا گیا ہے جس کے تحت تمام کہکشائیں ستارے اور سیارے اپنے اپنے مقام پر رہ کر اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ (كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى) یعنی اس کائنات کی ہرچیز متحرک ہے چل رہی ہے یہاں پر سکون اور قیام کا کوئی تصور نہیں۔ دوسرا اہم نکتہ جو یہاں بیان ہوا وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی ہر شے کی عمریا مہلت مقرر ہے۔ ہر ستارے ہر سیارے ہر نظام شمسی اور ہر کہکشاں کی مہلت زندگی مقرر و معینّ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2. In other words, “Allah is He who raised the heavens without (any) pillars that you can see.” Though there is nothing apparent and visible that is supporting these heavens, yet there is an invariable and imperceptible Power which is not only holding but keeping in its place each and every one of these huge heavens and whatever is in between them. 3. For further details of “Then He established upon the Throne,” please refer to (E.N. 41 of Surah Al-Aaraf). Here the purpose will be served if it is understood that this thing has been mentioned in the Quran at many places in order to bring out clearly the fact that Allah has not only created the earth, but also rules over His Kingdom, and that His universe is a factory that is not working automatically as some ignorant people seem to think nor is it being ruled by many gods as other ignorant people seem to believe. But it is a regular system that is being run and ruled over by its Creator. 4. It should be noted here that the addressees themselves accepted the truth of all the claims that have been made in this verse. Therefore no proofs were required of the facts that it is Allah Who has raised up the heavens without any visible support and subjected the sun and the moon to a fixed order. These things have been mentioned here only as arguments to prove that Allah is the sole Sovereign and ruler of the entire universe. Now let us consider this question: How can such an argument as this convince those who do not believe at all in the existence of God nor acknowledge that He is the Creator of the universe and the Director of all of its affairs? The answer is that the arguments in support of the doctrine of Tauhid advanced in the Quran to convince the mushriks equally apply against the atheists to prove the existence of God. It is like this: The entire universe, the earth, the moon, the sun and the countless heavenly bodies constitute a perfect system which is working under the same all powerful law. This is a proof that such a system must have been designed by some All-Powerful Sovereign, Who possesses wisdom and unerring knowledge. This proves conclusively the existence of that Allah Who has no other equal nor associate nor partner. For there can be no system without an administrator, no law without a ruler, no wisdom without a sage, and no knowledge without the possessor of that knowledge. Above all, no one can ever conceive that there can be any creation without a Creator except the one who is obdurate or has no sense left in him at all. 5. This system is not only a standing proof of the fact that an All-Powerful Sovereign is ruling over it, but is also an evidence of the great wisdom underlying it. It also bears witness that there is nothing everlasting in it. Everything in it remains for a fixed term after which it comes to an end. This is equally true for each and every component part of it as well as for the whole system. It is quite evident from its physical structure that there is nothing everlasting and immortal. There must be some fixed term for the system as a whole, after the expiry of which it shall come to an end. Then there shall be another world. Therefore it is most likely that there shall be Resurrection as predicted in the Quran: nay, its inevitability is beyond any doubt. 6. Allah makes plain those signs which help prove the truth of what the Prophet (peace be upon him) was informing them. These signs are spread all over the universe and everyone who observes these with open eyes can perceive that the realities towards which the Quran invites the people are testified by these signs. 7. The preceding signs have been cited to prove two things. First, the universe has only one Creator and Administrator. Second, there shall be life in the Hereafter in which everyone shall be judged in the divine court and awarded rewards and punishments on merit. As the first thing was quite obvious, it has not been mentioned in the conclusion drawn from the signs. But the second thing, life in the Hereafter, has been mentioned because that was rather hidden from perception. Therefore it has specifically been stated that these signs have been made plain in order to convince you that you shall meet your Lord in the Hereafter and render an account of all your actions in this world. Now let us consider how these signs help prove life in the Hereafter. These make it evident in two ways. (1) When we consider how big heavenly bodies as the sun and the moon are completely subject to the will of Allah, our hearts feel convinced that Allah Who has created these things and regulated their movements so orderly around their orbits, has undoubtedly the power to bring to life the whole human race after its death. (2) The terrestrial system also proves that its Creator is All- Wise. Therefore it can never be imagined that the All-Wise Creator could have created man and endowed him with wisdom and intelligence and invested him with power and authority, and then left him free to do what he liked with these, without being responsible and accountable for their use or abuse. For His Wisdom demands that He should take full account of all the acts and deeds of man in this world. It requires that He should take to task those who committed aggressions and compensate their victims and He should give rewards to those who practiced virtue and punishments to those who did wicked deeds. In short, His Wisdom requires that He should call to account every human being and demand: How did you carry out the trust that was placed in your hands in the shape of your wonderful body with its wonderful faculties and the numerous resources of the earth? It may be that a foolish and unjust ruler of this world might entrust the affairs of his kingdom in the hands of his agents and then forget to call them to account, but such a thing can never be expected from the All-Wise and All-Knowing Allah. It is this way of observing and considering the heavenly bodies that can convince us that life in the Hereafter is both possible and inevitable.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :2 بالفاظ دیگر آسمانوں کو غیر محسوس اور غیر مرئی سہاروں پر قائم کیا ۔ بظاہر کوئی چیز فضائے بسیط میں ایسی نہیں ہے جو ان بے حد و حساب اجرام فلکی کو تھامے ہوئے ہو ۔ مگر ایک غیر محسوس طاقت ایسی ہے جو ہر ایک کو اس کے مقام و مدار پر روکے ہوئے اور ان عظیم الشان اجسام کو زمین پر یا ایک دوسرے پر گرنے نہیں دیتی ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :3 اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف حاشیہ نمبر ٤۱ ۔ مختصرا یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ عرش ( یعنی سلطنت کائنات کے مرکز ) پر اللہ تعالی کی جلوہ فرمائی کو جگہ جگہ قرآن میں جس غرض سے بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو صرف پیدا ہی نہیں کر دیا ہے بلکہ وہ آپ ہی اس سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے ۔ یہ جہان ہست و بود کوئی خود بخود چلنے والا کارخانہ نہیں ہے ، جیسا کہ بہت سے جاہل خیال کرتے ہیں ، اور نہ مختلف خداؤں کی آماج گاہ ہے ، جیسا کہ بہت سے دوسرے جاہل سمجھے بیٹھے ہیں ، بلکہ یہ ایک باقاعدہ نظام ہے جسے اس کا پیدا کرنے والا خود چلا رہا ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :4 یہاں یہ امر ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ مخاطب وہ قوم ہے جو اللہ کی ہستی کی منکر نہ تھی ، نہ اس کے خالق ہونے کی منکر تھی ، اور نہ یہ گمان رکھتی تھی کہ یہ سارے کام جو یہاں بیان کیے جا رہے ہیں ، اللہ کے سوا کسی اور کے ہیں ۔ اس لیے بجائے خود اس بات پر دلیل لانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی کہ واقعی اللہ ہی نے آسمانوں کو قائم کیا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو ایک ضابطے کا پابند بنایا ہے ۔ بلکہ ان واقعات کو ، جنہیں مخاطب خود ہی مانتے تھے ، ایک دوسری بات پر دلیل قرار دیا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا اس نظام کائنات میں صاحب اقتدار نہیں ہے جو معبود قرار دیے جانے کا مستحق ہو ۔ رہا یہ سوال کہ جو شخص سرے سے اللہ کی ہستی کا اور اس کے خالق و مدبر ہونے ہی کا قائل نہ ہو اسکے مقابلے میں یہ استدلال کیسے مفید ہوسکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی مشرکین کے مقابلے میں توحید کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل دیتا ہے وہی دلائل ملاحدہ کے مقابلے میں وجود باری کے اثبات کے لیے بھی کافی ہیں ۔ توحید کا سارا استدلال اس بنیاد پر قائم ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری کائنات ایک مکمل نظام ہے اور یہ پورا نظام ایک زبردست قانون کے تحت چل رہا ہے جس میں ہر طرف ایک ہمہ گیر اقتدار ، ایک بے عیب حکمت ، اور بے خطا علم کے آثار نظر آتے ہیں ۔ یہ آثار جس طرح اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کے بہت سے فرمانروا نہیں ہیں ، اسی طرح اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کا ایک فرمانروا ہے ۔ نظم کا تصور ایک ناظم کے بغیر ، قانون کا تصور ایک حکمران کے بغیر ، حکمت کا تصور ایک حکیم کے بغیر ، علم کا تصور ایک عالم کے بغیر ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلق کا تصور ایک خالق کے بغیر صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو ہٹ دھرم ہو ، یا پھر وہ جس کی عقل ماری گئی ہو ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :5 یعنی یہ نظام صرف اسی امر کی شہادت نہیں دے رہا ہے کہ ایک ہمہ گیر اقتدار اس پر فرمانروا ہے اور ایک زبردست حکمت اس میں کام کر رہی ہے ، بلکہ اس کے تمام اجزا اور ان میں کام کرنے والی ساری قوتیں اس بات پر بھی گواہ ہیں کہ اس نظام کی کوئی چیز غیر فانی نہیں ہے ۔ ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس کے اختتام تک وہ چلتی ہے اور جب اس کا وقت آن پورا ہوتا ہے تو مٹ جاتی ہے ۔ یہ حقیقت جس طرح اس نظام کے ایک ایک جزء کے معاملے میں صحیح ہے اسی طرح اس پورے نظام کے بارے میں بھی صحیح ہے ۔ اس عالم طبیعی کی مجموعی ساخت یہ بتا رہی ہے کہ یہ ابدی و سرمدی نہیں ہے ، اس کے لیے بھی کوئی وقت ضرور مقرر ہے جب یہ ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا عالم برپا ہوگا ۔ لہٰذا قیامت ، جس کے آنے کی خبر دی گئی ہے ، اس کا آنا مُستبَعد نہیں بلکہ نہ آنا مُستبَعد ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :6 یعنی اس امر کی نشانیاں کہ رسول خدا جن حقیقتوں کی خبر دے رہے ہیں وہ فی الواقع سچی حقیقتیں ہیں ۔ کائنات میں ہر طرف ان پر گواہی دینے والے آثار موجود ہیں ۔ اگر لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آجائے کہ قرآن میں جن جن باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے زمین و آسمان میں پھیلے ہوئے بے شمار نشانات ان کی تصدیق کر رہے ہیں ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :7 اوپر جن آثار کائنات کو گواہی میں پیش کیا گیا ہے ان کی یہ شہادت تو بالکل ظاہر و باہر ہے کہ اس عالم کا خالق و مدبر ایک ہی ہے ، لیکن یہ بات کہ موت کے بعد دوسری زندگی ، اور عدالت الہٰی میں انسان کی حاضری ، اور جزا و سزا کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خبریں دی ہیں ان کے برحق ہونے پر بھی یہی آثار شہادت دیتے ہیں ، ذرا مخفی ہے اور زیادہ غور کرنے سے سمجھ میں آتی ہے ۔ اس لیے پہلی حقیقت پر متنبہ کرنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی ، کیونکہ سننے والا محض دلائل کو سن کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ ان سے کیا ثابت ہوتا ہے ۔ البتہ دوسری حقیقت پر خصوصیت کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے رب کی ملاقات کا یقین بھی تم کو انہی نشانیوں پر غور کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے ۔ مذکورہ بالا نشانیوں سے آخرت کا ثبوت دو طرح سے ملتا ہے: ایک یہ کہ جب ہم آسمانوں کی ساخت اور شمس و قمر کی تسخیر پر غور کرتے ہیں تو ہمارا دل یہ شہادت دیتا ہے کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان اجرام فلکی پیدا کیے ہیں ، اور جس کی قدرت اتنے بڑے بڑے کروں کو فضا میں گردش دے رہی ہے ، اس کے لیے نوع انسانی کو موت کے بعد دوبارہ پیدا کر دینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ اسی نظام فلکی سے ہم کو یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا کمال درجے کا حکیم ہے ، اور اس کی حکمت سے یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کہ وہ نوع انسانی کو ایک ذی عقل و شعور صاحب اختیار و ارادہ مخلوق بنانے کے بعد ، اور اپنی زمین کی بے شمار چیزوں پر تصرف کی قدرت عطا کر نے کے بعد ، اس کے کارنامہ زندگی کا حساب نہ لے ، اس کے ظالموں سے باز پرس اور اس کے مظلوموں کی داد رسی نہ کرے ، اس کے نیکوکاروں کو جزا اور اس کے بدکاروں کو سزا نہ دے ، اور اس سے کبھی یہ پوچھے ہی نہیں کہ جو بیش قیمت امانتیں میں نے تیرے سپرد کی تھیں ان کے ساتھ تونے کیا معاملہ کیا ۔ ایک اندھا راجہ تو بے شک اپنی سلطنت کے معاملات اپنے کار پردازوں کے حوالے کر کے خواب غفلت میں سرشار ہو سکتا ہے ، لیکن ایک حکیم و دانا سے اس غلط بخشی و تغافل کیشی کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ اس طرح آسمانوں کا مشاہدہ ہم کو نہ صرف آخرت کے امکان کا قائل کرتا ہے ، بلکہ اس کے وقوع کا یقین بھی دلا تا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: یعنی یہ آسمان ایسے ستونوں پر نہیں کھڑے ہیں جو آنکھوں سے نظر آ سکیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ ہی کے سہارے انہیں کھڑا کیا ہوا ہے۔ آیت کی یہ تفسیر حضرت مجاہدؒ سے مروی ہے (روح المعانی 110:13) 3: ’’استواء‘‘ کے لفظی معنیٰ سیدھا ہونے، قابو پانے اور بیٹھ جانے کے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ مخلوقات کی طرح نہیں ہیں، اس لئے اُن کا اِستواء بھی مخلوقات جیسا نہیں۔ اس کی ٹھیک ٹھیک کیفیت اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے ہم نے اس لفظ کا اُردو میں ترجمہ کرنے کے بجائے اسی لفظ کو برقرار رکھا ہے، کیونکہ ہمارے لئے اتنا ایمان رکھنا کافی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عرش پر اس طرح کا اِستواء فرمایا، جو اُن کی شان کے لائق ہے۔ اس سے زیادہ کسی بحث میں پڑنے کی نہ ضرورت ہے، نہ ہماری محدود عقل اس کا احاطہ کرسکتی ہے۔ 4: اشارہ اس طرف ہے کہ یہ چاند سورج بے مقصد گردش نہیں کر رہے ہیں، ان کے سپرد ایک کام ہے جو وہ انتہائی نظم و ضبط اور استقامت کے ساتھ اس طرح انجام دئیے جارہے ہیں کہ اُن کے نظام الاوقات میں ایک لمحے کا بھی فرق نہیں آتا۔ اگر غور کیا جائے تو ان کے سپرد پوری دُنیا کی خدمت ہے، لہٰذا ایک ہوش مند اِنسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ یہ عظیم الشان مخلوقات اُس کی خدمت کیوں انجام دے رہی ہیں؟ اگر خود اُس کے سپرد کوئی بڑی خدمت نہیں ہے تو چاند سورج کو کیا ضرورت ہے کہ وہ مستقل طور پر اِنسان کی خدمت انجام دیں؟ 5: یعنی آخرت کا یقین پیدا کرلو۔ اور وہ اس طرح کہ جس ذات نے اتنی حیرت انگیز کائنات پیدا فرمائی ہے۔ وہ اس بات پر کیوں قادر نہیں ہوسکتی کہ اِنسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کردے۔ نیز اس کی حکمت اور انصاف سے بعید ہے کہ وہ اچھے اور بُرے، ظالم اور مظلوم دونوں کے ساتھ ایک جیسا معاملہ کرے، اور اُس نے اِس دُنیا کے بعد کوئی ایسا عالم پیدا نہ کیا ہو جس میں نیک لوگوں کو اُن کی نیکی کا اچھا بدلہ اور بُرائی کرنے والوں کو اُن کی بُرائی کی سزا دی جا سکے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢۔ اگرچہ مجاہد اور عکرمہ اور ایک روایت میں عبد اللہ بن عباس (رض) سے بعض تفسیروں میں اس آیت کے معنے یہ بیان کئے گئے ہیں کہ قاف پہاڑ پر ایک ستون ہے اس پر اس طرح آسمان قائم ہے جس طرح ایک چوبہ ڈیرہ چوب پر قائم ہوتا ہے اور وہ ستون اہل دنیا کو نظر نہیں آتا اس لئے یہ فرمایا ہے کہ آسمان بغیر ایسے ستون کے بلند کیا جس کو تم دیکھ نہیں سکتے لیکن صحیح معنے آیت کے یہی ہیں کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے کی بات ہے کہ آسمان بلا ستون کے اللہ تعالیٰ نے بلند کیا ہے کیونکہ ستون ہوتا تو آخر تم کو نظر آتا غرض سورة الحج کی آیت { السمآء ان تقع علی الارض } (ص ٢٢: ٦٥) میں اور سورة الفاطر کی آیت { ان اللہ یمسک السموات والارض ان تزولا } (٣٥: ٤١) میں اللہ تعالیٰ نے آسمان کا تھامنا اپنی ذات پاک کی طرف منسوب فرمایا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بلا کسی روک تھام کے محض اللہ کی قدرت کے آسمان تھما ہوا ہے۔ سورة اعراف میں گزر چکا ہے کہ آیت { ثم استوی علی العرش } صفات الٰہی کی متشابہ آیتوں میں سے ہے اور صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت عائشہ (رض) کی حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متشابہ آیتوں کی تاویل سے منع فرمایا ہے ٣ ؎ (٣ ؎ تفسیر ہذا جلد اول ص ٢٢٢) اس واسطے { ثم استوی علی العرش } کی تفسیر یہی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا اللہ تعالیٰ کی شان کے مناسب ہے اسی طرح سے بلا مشابہت دنیا کے بادشاہوں کی تخت نشینی کے اللہ تعالیٰ عرش پر ہے جس کی تفصیلی کیفیت اللہ کو ہی معلوم ہے محکم اور متشابہ آیتوں کی صحیح تعریف یہ ہے کہ جس آیت کا مطلب از خود یا کسی دوسری آیت یا حدیث کے ذریعہ سے معلوم ہو سکے وہ آیت محکم ہے نہیں تو متشابہ جو علماء یہ کہتے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے متشابہ آیت کا مطلب محکم آیت یا حدیث کے ذریعے سے معلوم کیا جاوے ان کا مقصود متشابہ کے لفظ سے وہ مبہم آیت ہے جس کے مطلب کا معلوم کرنا کسی دوسری محکم آیت یا حدیث پر منحصر ہے اور حقیقت میں اس طرح کی آیتیں محکم آیتوں کی ایک قسم ہے کیوں کہ اوپر کی صحیح تعریف کے موافق اصل متشابہ آیت کا مطلب کسی دوسری آیت یا حدیث سے نہیں معلوم ہوسکتا دوسری آیت یا حدیث سے مبہم آیتوں کا مطلب ہوجانے کی مثالیں سورت آل عمران میں گزر چکی ہیں { و سخر الشمس والقمر } اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج چاند کے طلوع اور غروب کے جو وقت مقرر ہیں وہ ان کے تابع ہیں { کل یجری } سے سورج کی ذاتی گردش ثابت ہوتی ہے جس سے ان اہل ہیت کے قول کا ضعف نکلتا ہے جو سورج کی ذاتی گردش کے قائل نہیں ہیں بلکہ سورج کی گردش کو آسمان کی گردش کا تابع بتلاتے ہیں صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ نے سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے ١ ؎ معتبر سند سے شعب الایمان بیہقی تفسیر ابن ابی حاتم اور مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ لوح محفوظ میں تمام دنیا کا حال جو لکھا ہوا ہے اس میں سے ہر شب قدر کو ایک سال کے انتظامات کی نقل فرشتوں کو دنیا کا سال بھر کا کام چلانے کے لئے مل جاتی ہے ٢ ؎ یہ حدیثیں یدبرالا امر کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ازلی تدبیر اور اس کے انتظامات کے موافق ہوتا ہے۔ اس تفسیر سے طبیعات والوں کے اس قول کا ضعف نکلتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ طبیعتوں کے اثر سے ہوتا ہے اللہ کی قدرت کا اس میں کچھ دخل نہیں ہے علاوہ اس کے طبیعات والوں کا یہ قول عقلی طور پر بھی یوں ضعیف معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بہت سے کام خلاف طبیعت نظر آتے ہیں کیونکہ مثلاً سورج کی طبیعت ہر چیز کا سکھا دینا اب اناج میں تو سورج کا کام طبیعت کے موافق ہے اور اکثر میوہ جات میں طبیعت کے بر خلاف سورج سے کام لیا جاتا ہے کہ دھوپ سے مثلاً آم میں رس اور انگور میں گودا پیدا ہوتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ طبیعتیں ایک صاحب قدرت کے حکم کی تابع ہیں ورنہ طبیعتوں میں یہ شعور کہاں ہے کہ وہ مختلف کام انجام دے سکیں آخر کو فرمایا کہ یہ قدرت کی نشانیاں انسان کو تفصیل وار اس لئے سمجھائی جاتی ہیں کہ وہ ان نشانیوں سے قدرت والے کو پہچانے اور اس کے احکام کو مانے اور یہ جان لیوے کہ ایک دن ہر انسان کو نیک اور بد کے حساب کے لئے اللہ کے روبرو کھڑا ہونا پڑے گا مسند بزار اور طبرانی کے حوالہ سے معاذ بن جبل (رض) کی معتبر روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ہر شخص کو چار باتوں کی جواب دہی کے لئے ضرور اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا پڑے گا (١) تمام عمر کس کام میں لگا رہا (٢) جوانی میں کیا کیا (٣) کیوں کر کمایا اور کہاں کہاں خرچ کیا (٤) جو کچھ دین سیکھا تو اس پر کیا عمل کیا۔ (٣) یہ حدیث اللہ تعالیٰ سے ملنے اور اس کے سامنے کھڑے ہونے کی گویا تفسیر ہے۔ ١ ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص ٢٢٣ ٢ ؎ جلد ہذا ص ٢١١۔ ٣ ؎ تفسیر الدرا المنثور ص ٢٤ ج ٦ تفسیر سورة الدخان۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:2) عمد۔ ستون۔ اس کی جمع عمود وعمار ہے۔ ترونہا۔ میں ہا ضمیر کا مرجع السموت بھی ہوسکتا ہے اور اس صورت میں ترجمہ ہوگا۔ اللہ وہ (صاحب قدرت و حکمت ) ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں بلند کیا۔ جیسا کہ تم انہیں (سماوات کو) دیکھ رہے ہو۔ یا اس ضمیر کا مرجع عمد ہے اس صورت میں ترجمہ ہوگا۔ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں کے بلند کیا جن کو تم دیکھ سکو۔ (یعنی ستون ہیں تو سہی لیکن تم ان کو دیکھ نہیں سکتے۔ (اس صورت میں کشش ثقل ۔ قدرت ِ الٰہی ۔ امرِ ربی وغیرہ کو غیر مرئی ستون کا نام دیا جاسکتا ہے) ۔ استوی علی العرش ط۔ پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو 2: 29 ۔ 7:54 ۔ 10:3) کل۔ ای کل واحد منہما۔ دونوں میں سے ہر ایک۔ یعنی سورج اور چاند ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے۔ کہ شمس اور قمر کے الفاظ بطور جنس استعمال ہوئے ہوں۔ اور شمس سے مراد کائنات میں لاتعداد ستارے ہوں جن کے گرد کئی سیارے گھومتے ہیں اور قمر سے مراد وہ تمام سیّارے ہوں جو اپنے نظام میں ستاروں کے گرد گھومتے ہیں۔ اور اس صورت میں کل سے ہر ایک ستارہ اور ہر ایک سیّارہ مراد ہوگا۔ لاجل مسمی۔ ایک مقررہ میعاد تک۔ یدبر۔ ای اللہ یدبر ۔ اللہ تعالیٰ تدبیر فرماتا ہے انتظام فرماتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یعنی تم ان آسمانوں کو دیکھ رہے ہو کہ ان میں کوئی ستون نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مھض اپنی قدرت اور امر سے انہیں تھام رکھا ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے : ویمسک السماء ان نفع علی ا الرض الا باذنہ۔ اور وہ آسمان کو زمین پر گر پڑنے سے روکے ہوئے ہیں مگر اس کی اجازت سے۔ (حج :56) اس صورت میں ” ترونھا “ میں ھا ضمیر کا مرجع سمٰوٰت ہوں گے اور یہ جملہ مستانفہ ہوگا یا حال مقدرہ۔ اور اگر اسے عمد (ستونوں) کے لئے قرار دیا جائے تو ترجمہ یہ ہوگا “ بغیر ایسے ستونوں کے جو تمہیں نظرآئیں “۔ مطلب یہ ہے کہ ستون تو ہیں مگر تمہیں نظر نہیں آتے علمائے تفسیر نے آیت کے دونوں مفہوم بیان کئے ہیں واللہ اعلم (ابن کثیر۔ روح) ۔ 4 ۔ یعنی قیامت تک یا اپنا دورہ مکمل کرنے تک واضح رہے کہ سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں پورا کرتا ہے۔ قرآن نے جن حقائق کو ضمنی طور پر ذکر کیا ہے موجودہ سائنسی تحقیقات پر ان کو نہیں پرکھ سکتے۔ سائنسی نظریات میں تو آئے دن تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور قرآن و صحیح حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ غیر متبدل اور لاریب فیہ ہے۔ 5 ۔ یعنی تم یہ سمجھ لو کہ جس خدا نے ایسی عظیم الشان مخلوقات کو پیدا کیا، اس کے لئے تمہیں دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی زمین و آسمان میں احکام جاری کرنے لگا۔ 7۔ چناچہ سورج اپنے مدار کو سال بھی میں قطع کرلیتا ہے اور چاند مہینہ بھر میں۔ 8۔ یعنی بعث ونشر کا یقین کرلو اس کے امکان کا تو اس طرح کہ جب اللہ ایسی عظیم چیزوں کی تخلیق پر قادر ہے تو مردوں کو زندہ کرنے پر کیوں قادر نہیں ہوگا اور اس کے وقوع کا یقین اس طرح کہ مخبر صادق نے ایک امرممکن کے وقوع کی خبر دی لامحالہ وہ واقع ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس ہستی نے قرآن نازل فرمایا اس کی صفات کا بیان۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق، تدبیر اور حکمتوں کو دیکھنے کے لیے ایک سرسری نظر کا ئنات کی تشکیل اور تدبیر پر ڈالیں۔ کائنات اور اس کا نظام : اب تک جو کائنات معلوم ہوئی ہے اسے اگر مکعب کلو میٹر میں ناپا جائے۔ ایک مکعب کلومیٹر ایک کلومیٹر لمبائی، ایک کلومیٹر چوڑائی اور ایک کلومیٹر اونچائی ہے تو پوری معلوم کائنات کا گھیراؤ نکالنے کے لیے ایک کے آگے 69 صفر لگانے پڑیں گے تب حساب پورا ہوگا۔ اس کے باوجود کائنات لامحدود ہے اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ مسلسل انتہائی تیز رفتاری سے مزید پھیل رہی ہے۔ ہماری زمین جس نظام شمسی میں شامل ہے اس کی وسعت کا یہ حال ہے کہ زمین سورج سے صرف 15 کروڑ کلومیٹر دور ہے جبکہ پلوٹو سیارے کا سورج سے فاصلہ 15 اَرب 91 کروڑ کلومیٹر ہے۔ ہماری زمین کا قطر 12754 کلومیٹر ہے۔ سورج کا قطر 14 لاکھ کلومیٹر ہے یعنی زمین سے 109 گنا بڑا ہے۔ قطر کی یہ وسعت تو کچھ بھی نہیں۔ ہماری کہکشاں کا قطر ایک لاکھ 17x کھرب کلو میٹر ہے۔ اس کہکشاں میں ایک کھرب ستارے پائے جاتے ہیں اور اب تک ایسی کھرب سے زائد کہکشائیں دریافت ہوچکی ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کائنات کے درمیان ایک کہکشاں ایسی ہے جس کے گرد تمام کہکشائیں چکر کاٹ رہی ہیں۔ ان کا ایک چکر 25 کروڑ سال میں پورا ہوتا ہے۔ سورج کا وزن دس کھرب 19889 کھرب ٹن ہے یعنی زمین سے تقریباً سوا تین لاکھ گنا زیادہ اور درجۂ حرارت تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اس میں 40 لاکھ ٹن ہائیڈروجن گیس فی سکینڈ استعمال ہوتی ہے اور اس کی سطح کا درجہ حرارت 6000 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ سورج کی حرارت ابھی مزید 5 اَرب سال کے لیے کافی ہے۔ ہماری کہکشاں کا وزن سورج سے 4 کھرب گنا زیادہ ہے اور اس کا فاصلہ کائنات کے مرکز سے اڑھائی لاکھ 10x کھرب کلومیٹر ہے۔ سب سے لمبی کہکشاں کی لمبائی تقریباً ایک ارب 10x کھرب کلو میٹر اور موٹائی دس کھرب 5x کروڑ 30 لاکھ کلومیٹر ہے۔ اس کی روشنی 20 کھرب سورجوں کی روشنی کے برابر اور اس کا قطر ہماری کہکشاں سے 80 گنا زیادہ ہے۔ روشنی ایک شمسی سال میں تقریباً 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے 95 کھرب کلومیٹر فاصلہ طے کرتی ہے اسے نوری سال کہا جاتا ہے اور یہ کہکشاں ہماری زمین سے ایک ارب 7 کروڑ نوری سال دور ہے۔ اگر تمام ستارے ایک جیسے فاصلے سے دیکھے جاسکیں تو Carinaeta سب سے زیادہ روشن ہوگا۔ اس کی روشنی سورج سے 65 لاکھ گنا زیادہ ہے۔ 1989 ء میں فلکیات دانوں نے خلاء میں عظیم دیوار (Great Wall) کی دریافت کا اعلان کیا۔ یہ کہکشاؤں کا مجموعہ ہے۔ اس کی لمبائی دس کھرب x ساڑھے سات ارب کلومیٹر ہے۔ اس کی چوڑائی دس کھرب 2.6x ارب کلومیٹر ہے اور اس کی گہرائی دس کھرب 22x کروڑ کلومیٹر ہے۔ اندازہ ہے کہ ایک کہکشانی نظام ایسا ہے کہ اس کی جو شعاعیں اس کہکشاں سے چار ارب نوری سال پہلے روانہ ہوئی تھیں وہ آج پہنچی ہیں۔ یعنی اس کہکشاں کی روشنی نے زمین تک پہنچنے کے لیے چار ارب 95x کھرب کلومیٹر فاصلہ طے کیا ہے۔ ہماری قریب ترین کہکشاں Andromeda Galaxy M31 ہے۔ اس کا ہماری کہکشاں سے فاصلہ 22 لاکھ 99x کھرب کلومیٹر ہے۔ اس کا وزن 3 کھرب سورجوں کے برابر اور اس کا قطر 95x130000 کھرب کلومیٹر ہے۔ اس کا حجم ہماری کہکشاں سے دگنا ہے۔ اس میں تقریباً 4 کھرب ستارے ہیں۔ بعض کہکشاؤں کا قطر 2 ہزار سے 8 لاکھ نوری سال، وزن 10 لاکھ سے 100 کھرب سورجوں کے برابر اور روشنی دس لاکھ سے 1 کھرب سورجوں کی روشنی کے برابر ہے۔ کہکشائیں کیا سب سے بڑی چیزیں ہیں ؟ جی نہیں ! کہکشائیں مل کر Cluster بناتی ہیں۔ Cluster میں سینکڑوں سے لے کر ہزاروں کہکشائیں ہوسکتی ہیں۔ ہماری کہکشاں جس Cluster میں ہے یہ 30 کہکشاؤں کا مجموعہ ہے جبکہ Spiral Galaxy M100 تقریباً 2500 کہکشاؤں کا مجموعہ ہے۔ پھر Super Cluster درجنوں Clusters پر مشتمل ہوتا ہے۔ ابھی تک دکھائی دینے والی کائنات میں تقریباً 10 لاکھ Super Cluster ہیں۔ ایک Cluster کی کہکشاؤں کا آپس میں فاصلہ 10 لاکھ 95x کھرب کلومیٹر سے 20 لاکھ 95x کھرب کلومیٹر تک ہوتا ہے اور Clusters کے درمیان آپس کا فاصلہ اس سے سو گنا زیادہ ہے۔ Spherical Cluster میں 10 ہزار کہکشائیں ہیں۔ Quasars کائنات کے اب تک دریافت شدہ روشن ترین اجسام ہیں۔ زیادہ دور ہونے کی وجہ سے یہ بھی چھوٹے ستاروں کی طرح نظر آتے ہیں۔ ان کی روشنیاں جو آج ہم تک پہنچی ہیں یہ دراصل 10 ارب نوری سال پہلے وہاں سے چلی تھیں۔ ہمارے نظام شمسی جتنا Quasar دس کھرب سو رجوں سے زیادہ روشن جبکہ ہماری کہکشاں کی مجموعی روشنی سے سو گنا زیادہ روشن ہوتا ہے۔ 10 Quasar 3cg سے 16 اَرب نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اگر ہم 7 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کریں تو کائنات عبور کرنے میں تین ہزار کھرب سال لگیں گے وہ بھی اگر کائنات محدود ہو تو جبکہ کائنات لامحدود ہے۔ زمین کی وسعت : زمین کا کرہ فضا میں سیدھا نہیں کھڑا بلکہ 23 درجے کا زاویہ بناتا ہوا ایک طرف جھکا ہوا ہے۔ یہ جھکاؤ ہمیں ہمارے موسم دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں زمین کا زیادہ سے زیادہ حصہ آبادکاری کے قابل ہوجاتا ہے اور مختلف نباتات اور پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ زمین اپنے محور پر 1000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے لٹو کی کی مانند گھوم رہی ہے۔ اگر زمین کی رفتار 100 میل فی گھنٹہ ہوتی تو ہمارے دن اور رات موجودہ دن اور رات سے دس گنا زیادہ لمبے ہوتے۔ زمین کی تمام ہریالی اور ہماری فصلیں سو گھنٹے کی مسلسل دھوپ میں جھلس جاتیں اور جو بچ رہتیں وہ لمبی سرد رات میں سردی کی نذر ہوجاتیں۔ اگر زمین کی اوپر کی پرت صرف دس فٹ اور موٹی ہوتی تو ہماری فضا میں آکسیجن کا وجود نہ ہوتا جس کے بغیر حیوانی اور انسانی زندگی ناممکن ہوتی۔ اسی طرح اگر سمندر چند فٹ اور گہرے ہوتے تو وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن جذب کرلیتے اور زمین کی سطح پر کسی قسم کی نباتات زندہ نہ رہ سکتیں۔ اگر آکسیجن 21% کی بجائے 50% یا اس سے زیادہ مقدار میں فضا کا جزو ہوتی تو سطح زمین کی تمام چیزوں میں آتش پذیری کی صلاحیت اتنی بڑھ جاتی کہ ایک درخت کے آگ پکڑتے ہی سارا جنگل بھک سے اڑ جاتا۔ زمین کے گرد ہوا کا غلاف اس انداز سے رکھا گیا ہے کہ زمین پر اس کا دباؤ مناسب رہے تاکہ انسان سانس لینے میں دشواری محسوس نہ کرے۔ اور باہر سے آنے والے شہاب ثاقب رگڑ سے ہی جل جائیں۔ شہاب ثاقب ہر روز اوسطاً 2 کروڑ کی تعداد میں 6 سے 40 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے کرۂ ہوائی (ہوا کے غلاف) میں داخل ہوتے ہیں۔ اگر یہ موجودہ غلاف کی نسبت لطیف ہوتا تو شہاب ثاقب زمین کے اوپر ہر آتش پذیر مادے کو جلا دیتے اور سطح زمین کو چھلنی کردیتے۔ اگر زمین کے اوپر سے ہوا کا یہ غلاف کھینچ لیا جائے تو تمام جاندار آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجائیں۔ اگر زمین کا حجم کم یا زیادہ ہوتا تو اس پر زندگی محال ہوجاتی۔ مثلاً اگر زمین کا قطر موجودہ کی نسبت چوتھائی ہوتا تو کشش ثقل کی اس کمی کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ پانی اور ہوا کو اپنے اوپر روک نہ سکتی۔ جیسا کہ جسامت کی اس کمی کی وجہ سے چاند میں واقع ہوا ہے۔ چاند پر اس وقت نہ تو پانی ہے اور نہ کوئی ہوائی کرہ ہے۔ ہوا کا غلاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ رات کے وقت بےحد سرد ہوتا ہے اور دن کے وقت تنور کی مانند جلنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس اگر زمین کا قطر موجودہ کی نسبت سے دگنا ہوتا تو اس کی کشش ثقل دگنی ہوجاتی۔ جس کے نتیجے میں ہوا جو اس وقت زمین کے اوپر 5 سو میل کی بلندی تک پائی جاتی ہے وہ کھنچ کر بہت نیچے تک سمٹ آتی۔ اس کے دباؤ میں فی مربع انچ 15 تا 30 پونڈ کا اضافہ ہوجاتا، جس کا رد عمل مختلف صورتوں میں زندگی کے لیے نہایت مہلک ثابت ہوتا۔ اور اگر زمین سورج جتنی بڑی ہوتی اور اس کی کثافت برقرار رہتی تو اس کی کشش ثقل ڈیڑھ سو گنا بڑھ جاتی۔ ہوا کے غلاف کی موٹائی گھٹ کر 5 سو میل کی بجائے صرف 4 میل رہ جاتی۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ ہوا کا دباؤ ایک ٹن فی مربع انچ تک جا پہنچتا۔ اس غیر معمولی دباؤ کی وجہ سے زندہ اجسام کا نشوو نما ممکن نہ رہتا۔ ایک پونڈ وزنی جانور کا وزن ایک سو پچاس پونڈ ہوجاتا۔ انسان کا جسم گھٹ کر گلہری کے برابر ہوجاتا اور اس میں کسی قسم کی ذہنی زندگی ناممکن ہوجاتی کیونکہ انسانی ذہانت حاصل کرنے کے لیے بہت کثیر مقدار میں اعصابی ریشوں کی موجودگی ضروری ہے اور اس طرح پھیلے ہوئے ریشوں کا نظام ایک خاص درجہ کی جسامت میں ہی پایا جاسکتا ہے۔ سورج کی اہمیت : سب سے روشن کہکشاں کی مجموعی روشنی سورج سے 3 ہزار کھرب گنا زیادہ ہے۔ سورج جو ہماری زندگی کا سرچشمہ ہے، اس کی حرارت اتنی زیادہ ہے کہ بڑے بڑے پہاڑ بھی اس کے سامنے جل کر راکھ ہوجائیں مگر وہ ہماری زمین سے اتنے مناسب فاصلے پر ہے کہ یہ ” کائناتی انگیٹھی “ ہمیں ہماری ضرورت سے ذرا بھی زیادہ گرمی نہ دے سکے۔ اگر سورج دگنے فاصلے پر چلا جائے تو زمین پر اتنی سردی پیدا ہوجائے کہ ہم سب لوگ جم کر برف بن جائیں اور اگر وہ آدھے فاصلے پر آجائے تو زمین پر اتنی حرارت پیدا ہوگی کہ تمام جاندار اور پودے جل بھن کر خاک ہوجائیں گے۔ چاند کی حقیقت : چاند ہم سے تقریباً 384, 400 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کی بجائے اگر وہ صرف پچاس ہزار کلومیٹر دور ہوتا تو سمندروں میں مد و جزر کی لہریں اتنی بلند ہو تیں کہ تمام کرۂ ارض دن میں دو بار پانی میں ڈوب جاتا اور بڑے بڑے پہاڑ موجوں کے ٹکرانے سے رگڑ کر ختم ہوجاتے۔ چاند کی اس مناسب کشش کی وجہ سے سمندروں کا پانی متحرک رہتا ہے اسی وجہ سے پانی صاف ہوتا رہتا ہے۔ سورج اپنی غیر معمولی کشش سے ہماری زمین کو کھینچ رہا ہے اور زمین ایک مرکز گریز قوت کے ذریعے اس کی طرف کھنچ جانے سے اپنے آپ کو روکتی ہے۔ اس طرح وہ سورج سے دور رہ کر فضا کے اندر اپنا وجود باقی رکھے ہوئے ہے۔ اگر کسی دن زمین کی یہ قوت ختم ہوجائے تو وہ تقریباً 6000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کی طرف کھنچنا شروع ہوجائے گی اور چند ہفتوں میں سورج کے اندر اس طرح جا گرے گی جیسے کسی بہت بڑے الاؤ کے اندر کوئی تنکا گرجائے۔ (بحوالہ : سائنس اور قرآن از ہارون یحیٰ ) (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِےْرَ الْخَلَآءِقِ قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِخَمْسِےْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ قَالَ وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآءِ )[ رواہ مسلم : باب حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسَی عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیریں لکھ دیں تھیں اور اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے قائم کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔ ٣۔ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کے حکم سے وقت مقرر کے مطابق چل رہے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں تفصیل سے بیان فرماتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا یقین رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن آسمان کے بارے میں قرآنی معلومات : (یہاں ہم آسمان کے بارے میں چند آیات پیش کرتے ہیں ) ١۔ اللہ نے آسمانوں کو بغیر ستون کے قائم کیا۔ (الرعد : ٢) ٢۔ اللہ نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا۔ (الانبیاء : ٣٢) ٣۔ آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے۔ (الانبیاء : ٣٠) ٤۔ اللہ نے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا۔ (البقرۃ : ٢٢) ٥۔ پھر اللہ آسمان کی طرف متوجہ ہوئے اور وہ دھویں کی صورت میں تھا۔ ( حٰم السجدۃ : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٢ تا ٧ آسمان کیا ہیں اور ان کا مفہوم مختلف ادوار میں لوگ کیا سمجھتے رہے ہیں ۔ یہ اور بات ہے ، لیکن یہ ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔ یہ ایک عظیم منفر اور عظیم کائنات ہے۔ جب بھی کوئی ان پر غور کرتا ہے اور معلومات حاصل کرتا چلا جاتا ہے تو ان کی عظمت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ پھر یہ سب نظام کسی ظاہری سہارے کے بغیر قائم ہے۔ جس طرح اس زمین پر کوئی چیز بغیر سہارے کے نہیں ہوتی ، ایسا سہارا جو ہمیں نظر آئے۔ بغیر عمد ترو نہا۔ یہ اس پوری کائنات کی تصویر کشی کے سلسلے میں پہلا ٹچ ہے اور انسانی وجدان اور قوت مدرکہ کے لئے یہ ایک پہلی ضرب ہے ، خصوصاً جبکہ انسان اس عظیم کائنات پر غور کر رہا ہو اور وہ سوچے کہ وہ عظیم قوت کون ہے جو اس عظیم کائنات کی خالق ہے اور جس نے اسے یوں ٹھہرا رکھا ہے۔ یہ اللہ ہی ہو سکتا ہے۔ لوگ ستون کے ساتھ یا بغیر ستون زمین کے کسی کونے پر ایک چھوٹی سی عمارت تعمیر کرتے ہیں اور پھر ان عمارتوں کی تعریفیں کرتے ہیں کہ یہ کس قدر عظیم عمارت ہے ؟ کس قدر خوبصورت عمارت ہے ؟ لیکن وہ ان بلندیوں اور خوبصورتیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جو اس کائنات کے اندر موجود ہیں۔ بغیر ستونوں کے کرمات اپنی اپنی جگہ قائم ہیں۔ اس کائنات کے پیچھے جو قدرت کارفرما ہے اور جو عظمت پوشیدہ ہے اور پھر اس کے اندر اس قوت نے جو خوبصورتی و دیعت کی ہے وہ بھی قابل دید ہے۔ یہ عظیم کائنات جو ہماری نظروں میں ہے اور وہ عظیم کائنات جو ہماری نظروں سے ابھی اوجھل ہے اور جہاں کائنات کا دارالخلافہ ہے۔ ثم استوی علی العرش (١٣ : ٢) ” پھر وہ عرش پر متمکن ہوا “۔ یہ کائنات اگر بلند ہے تو عرش الٰہی بلند تر ہے۔ اور اگر یہ کائنات عظیم ہے تو عرش الٰہی عظیم تر ہے۔ ہر استواء کا مفہوم وسعت ، عظمت اور تمکن ہے اور قرآن کریم نے لفظ استوی محض انسان کی قاصر قوت مدرکہ کو سمجھانے کے لئے استعمال کیا ہے کیونکہ انسانی قوت مدرکہ محدود اور کمزور ہے۔ یہ قدرت کے قلم معجز رقم کا ایک دوسرا ٹچ ہے۔ پہلا ٹچ تو ان بلندیوں کی بابت تھا جو انسان کو نظر آتی ہیں اور یہ دوسرا ٹچ ان بلندیوں کے بارے میں ہے جو ہماری محدود نظر کے دائرہ نظارہ سے ماوراء ہیں۔ سیاق کلام میں یہ دونوں تصاویر ایک جگہ نظر آتی ہیں۔ اب بلندی کے عمومی تصور سے نیچے آکر ، تسخیر کائنات کے مضمون کو لیا جاتا ہے۔ شمس وقمر کو اللہ نے جس فضا میں مسخر کر رکھا ہے اس کو ہم دیکھتے ہیں اور اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ جس قدر ہم ان کے بارے میں جان سکے ہیں ، اس میں اس نظام کی عظمت دامن فکر کو پکڑتی ہے ، اور عقل کو دعوت دیتی ہے کہ یہ عظیم قوتیں اللہ عظیم کے قبضہ قدرت میں ہیں جس کے سامنے ہم نے حاضری دینی ہے۔ پھر جس منظر کی تصویر کھینچی گئی ہے اس کے اندر بیشمار متقابل مناظر ہیں۔ ایک تو اس کائنات کی وہ بلندیاں ہیں جو نظر آتی ہیں لیکن اس کے بالمقابل وہ بلندیاں بھی ہیں جو ہماری نظر سے اوجھل ہیں۔ پھر ایک تو اس کائنات کی بلندی اور اس بلندی اور عظمت کے بالمقابل اس عظیم کائنات کی بےبسی اور تسخیر ہے ، شمس و قمر کا باہم مقابلہ ہے ، رات اور دن کا مقابلہ ہے اور ستاروں اور سیاروں کا باہم مقابلہ ہے۔ پھر بلندیوں اور تسخیر کائنات کے علاوہ اس کے اندر ایک ممتاز پہلو حکمت الٰہیہ کا مدبرانہ پہلو ہے۔ کل یجری لاجل مسمی (١٣ : ٢) ” کہ ہر چیز ایک وقت مقرر تک چل رہی ہے “۔ اس کی بلندی اور چلت پھرت ایک مقرر وقت تک ہے ، اور یہ وقت ایک مقرر کردہ ناموس الٰہی میں طے شدہ ہے۔ یہ وقت شمس و قمر کے دورہ یومیہ اور مدار میں چکر دونوں میں مقرر ہے۔ کسی جگہ بھی وہ اس اجل مسمی سے منحرف نہیں ہو سکتے اور وہ وقت بھی مقرر ہے جس اس پورے نظام کو لپیٹ کر رکھ دیا جائے گا اور یہ پوری کائنات ختم کردی جائے گی۔ یدبر الامر ( ١٣ : ٢) ” اللہ ہی اس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے “۔ یعنی اس طرح کہ شمس و قمر اپنے اوقات کے مطابق اور اپنے وقت مقرر تک کے لئے ٹھیک ٹھیک جا رہے ہیں اور چلتے رہیں گے اور جو ذات باری ان عظیم الشان کرامات کو اس فضائے بسیط میں یوں بغیر ظاہری سہارے کے چلا رہی ہے ، اس ذات نے ان کے لئے ایک وقت مقرر کردیا ہے اور یہ کسی صورت میں بھی وقت مقررہ سے آگے نہیں بڑھ سکتے کیونکہ وہ ذات برتر مدبر ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ جلیل القدر ہے۔ اللہ کی مدبرانہ شان کا ایک مظہریہ ہے کہ یفصل الایت (١٣ : ٢) ” وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے “۔ ان کو منظم طریقے سے باہم مربوط انداز میں پیش کرتا ہے اور ہر ایک چیز کو اپنی مقررہ میعاد پر لاتا ہے۔ اسباب کے مطابق لاتا ہے اور مقاصد متعین کر کے لاتا ہے۔ یہ کیوں ؟ لعلکم بلقاء ربکم توقنون (١٣ : ٢) ” شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو “۔ کیونکہ جب ایک انسان دیکھتا ہے کہ آیات الٰہیہ مفصل اور مربوط ہیں اور ان کی پشت پر کائناتی آیات بھی موید ہیں ، یہ تکوینی آیات وہ ہیں جو اللہ نے اس کائنات میں اس کی تخلیق کے وقت سے ودیعت کی ہوئی ہیں اور ان قدرتی دلائل اور آثار کے ساتھ ساتھ اللہ نے کتابی آیات و دلائل بھی نازل کئے اور یوں ان کی تائید فرمائی۔ ان تمام آیات دلائل کے نتیجے میں انسان لازمی طور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے۔ وہاں انسانی اعمال کی جانچ پڑتا ہوگی ، ان اعمال پر ان کو جزاء و سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے یہ وہ نتائج ہیں جن کا اظہار حکمت تخلیق سے ہوتا ہے۔ اب مناظر قدرت کی تصویر کشی کا یہ عظیم خط عالم بالا سے عالم زیریں کی طرف آتا ہے اور عالم زیریں کی تصویر کشی یوں کی جاتی ہے۔ وھو الذی مد الارض۔۔۔۔۔۔ یتفکرون (١٣ : ٣) ” اور وہی ہے جس نے زمین پھیلا رکھی ہے ، اس میں پہاڑ کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دئیے ہیں ، اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کئے ہیں اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے ۔ ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں “۔ اس زمین کی تصویر کشی میں پہلا رنگ اس کا بچھایا جانا ہے۔ نظروں کے سامنے یہ بچھی ہوئی ہے اور طول و عرض میں یہ وسیع ہے۔ اگرچہ اس کی حقیقی شکل گول ہے ، گول ہونے کے ساتھ ساتھ یہ طویل و عریض ہے۔ یہ ہے اس تصویر کشی کا پہلا رنگ۔ اس کے بعد اس تصویر میں اونچے اونچے پہاڑ نمودار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد پہاڑوں کے درمیان میں نہریں نظر آتی ہیں۔ یوں اس زمین کے ابتدائی خدو خال متعین ہوتے ہیں جو اس منظر کو نہایت ہی موزوں بناتے ہیں۔ زمین کے عمومی خدو خال کے تعین کے لئے ضروری ہے کہ یہاں نہایت ہی اصولی اور عمومی مظاہر کا تذکرہ ہو ، زمین کے اندر زندگی کا اہم اصول اور اس زندگی کو قائم رکھنے کا اصولی مظہر یعنی حیوانی اور نباتی زندگی کے اندر مادہ اور نر کی تقسیم ، حیوانی زندگی میں نر اور مادہ کا وجود تو ظاہر ہے لیکن نباتاتی حیات کے اندر نر و مادہ کا نظام جو بذات خود قیام حیات کے لیے ایک اصول ہے۔ من کل الثمرت جعل فیھا روجین اثنین (١٣ : ٣) ” اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں “۔ یہ تو ہے پہلا اصولی مظہر اور یغشی الیل النہار (١٣ : ٣) ” اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے “۔ تمام ثمرات کے جوڑے کیے ہیں ۔ ایک درخت میں دو قسم کے اعضاء ہوتے ہیں۔ مادہ یا نر یا بعض درخت مادہ ہوتے ہیں۔ اور بعض نر ہوتے ہیں۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو انسان کے لئے اس کائنات کے اسرار رموز کی نشاندہی کی راہ کھولتی ہیں۔ یعنی رات اور دن اور حیوانات میں نر و مادہ کے رنگ تو ظاہر ہیں ، پھلوں کے اندر تناسل و توالد ایک راز تھا۔ خود رات اور دن کا یہ منظر کہ رات اور دن آگے پیچھے آرہے ہیں۔ ایک دوسرے کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ ان کا نظام بڑا ہی عجیب اور سحر انگیز ہے۔ یہ گہرے غوروفکر کا موضوع ہے۔ رات کا آنا اور دن کا بھاگ جانا ، فجر کا نمودار ہونا اور رات کے اندھیروں کا چھٹ جانا ۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کو ہم رات اور دن دیکھتے دیکھتے اس کے ساتھ ایسے مانوس اور مالوف ہوگئے ہیں کہ ہمارے پردۂ احساس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ تعجب انگیز اور حیران کن ہیں۔ اگر ہم اپنی عادت کو ذرا دور پھینک دیں اور اپنے ذہنی جمود کو ترک کر کے اس کائنات کو شاعرانہ حساسیت کے ساتھ دیکھیں اور اس رات دن کے چلتے رہنے کو ایک معمولی چیز نہ سمجھیں تو گردش ایام کا یہ نظام ایک گہری حکمت الٰہیہ کا پتہ دیتا ہے اور نظر آتا ہے کہ اس کے اندر صائع کائنات کی عجیب کاری گری عیاں ہے۔ ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون (١٣ : ٣) ” ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں “۔ اس منظر کو چھوڑ کر آگے بڑھنے سے قبل ، مناسب ہے کہ ہم ان تقابلی امور پر ایک نظر دوڑائیں جو اس منظر میں پیش کئے گئے ہیں۔ مثلاً ایک طرف اپنی جگہ ۔۔۔ ہوئے بلند پہاڑ ہیں اور دوسری طرف بہتے ہوئے ندی نالے اور دریا ہیں۔ تمام پھلوں میں نر اور مادہ ہیں۔ رات اور دن ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل ہیں ، زمین ہے جو بچھی ہوئی ہے اور آسمان ہے جو بہت بلندیوں پر ہے ، اور دونوں اس عظیم کائنات کے اہم اور باہم متکافل نکتے ہیں۔ دونوں عظیم کائنات کے اجزاء ہیں۔ یہ تو تھے اس کائنات اور ارض وسما کے عمومی خدو خال اور بڑی لکیریں۔ اب ذرا زمین کے نہایت ہی باریک خطوط اور رنگ ڈھنگ ملاحظہ کریں۔ وفی الارض قطع۔۔۔۔۔۔۔ یعقلون (١٣ : ٤) ” اور دیکھو زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے متصل واقع ہوتے ہیں۔ انگور کے باغ ہیں ، کھیتیاں ہیں۔ کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دہرے ، سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے ، مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کم تر۔۔۔۔ سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں “۔ یہ مظاہر قدرت ایسے ہیں کہ ہم میں سے اکثر لوگ ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن ان کے اندر یہ خیال بھی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ان کی حقیقت معلوم کریں۔ وفی الارض قطع متجورت (١٣ : ٤) ” اور زمین میں قطعات ہیں جو ایک دوسرے کے متصل واقع ہوئے ہیں “۔ ان قطعات کی خصوصیات الگ الگ ہیں۔ اگر یہ قطعات الگ الگ خصوصیت اور نوعیت کے نہ ہوتے تو ان کو قطعات نہ کہا جاتا بلکہ قطعہ کہا جاتا۔ یعنی ان میں بعض قطعات اچھے اور زرخیز ہیں اور بعض بنجر اور چٹیل ہیں۔ بعض صحراء میں جو بےآب وگیاہ ہیں اور بعض خالص چٹانیں ہیں۔ اور ان میں بھی پھر مختلف درجات کے ٹکڑے ہیں انواع و اقسام کے۔ بعض شہروں اور آبادیوں کے لئے ، بعض جنگلوں اور سبزیوں کے لئے ، اور بعض بےآب وگیاہ اور مردہ میدان ہیں۔ اور بعض آبی ہیں اور بعض بارانی اور اس طرح قسم قسم کے ٹکڑے ہیں جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور باہم مفصل بھی ہیں اور سب کے سب اس زمین کا حصہ ہیں۔ یہ تھے زمین کی تصویر کشی کے سلسلے کے ابتدائی اور عمومی خطوط ۔ اس کے بعد اب اس تصویر میں تفصیلی رنگ بھرے جاتے ہیں اور مختلف جزوی چیزیں نمودار ہوتی ہیں۔ فصل ، کھجور اور انگور۔ یہ نباتات۔۔۔۔ انگور وہ نباتات ہیں جو زمین پر چھتوں اور درختوں پر رینگتے ہیں۔ کھجور ان نباتات کی نمائندہ ہے جو اونچے اونچے درختوں کی شکل میں ہوتے ہیں اور دوسرے فصل ، پھول اور غلے کا نمائندہ جو درمیانی شکل میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ ان تینوں کے ذکر سے تین قسم کے مختلف مناظر کی طرف اشارہ مطلوب ہے۔ یوں اس تصویر میں رنگ بھرے جاتے ہیں اور اس کے اندر مختلف نمائندہ نباتات کے نمونے دئیے جاتے ہیں۔ یہ کھجور کے درخت اکہرے بھی ہیں اور دہرے بھی ہیں۔ یعنی بعض کا تنا ایک ہی ہے اور بعض ایک ہی جڑ سے دوہرے بھی ہیں ، دو یا اس سے زیادہ۔ سب ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں ، ایک ہی مٹی ہوتی ہے لیکن سب درختوں کے پھل مختلف ہیں اور مختلف ذائقہ رکھتے ہیں۔ ونفضل بعضھا علی بعض فی الاکل (١٣ : ٤) ” مگر مزے میں ہم بعض کو بعض پر فضیلت دیتے ہیں “۔ ایک ہی خطے کے مختلف پھل اور نباتات ہم نے چکھے ہیں۔ ہر ایک کا ذائقہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ انسان کے دل و دماغ کو قرآن کریم جس نکتے کی طرف متوجہ کرتا ہے کیا کبھی ہم نے اس پر غور کیا ہے۔ ایسے ہی نکات ہیں جن کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم ایک جدید کتاب ہے۔ کیونکہ قرآن کریم انسانی احساس اور وجدان اور شعور کو پیش پا افتادہ حقائق کے بارے میں تازگی بخشتا ہے۔ خواہ یہ مناظر کائنات سے متعلق ہوں یا نفس انسانی سے متعلق ہوں۔ یہ نکات اس قدر زیادہ ہیں کہ انسان اگر پوری عمر لگادے تو ان کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ اور نہ ہی قرآن کے نکات اور عجائبات آنے والے ادوار میں ختم ہوں گے۔ ان فی ذلک لایت لقوم یعقلون (١٣ : ٤) ” بیشک اس میں آیات و نشانات ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں “۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں پھر ایک نیا تقابل پایا جاتا ہے۔ زمین کے دو ٹکڑے باہم مقابل اور مختلف قسم کے ہیں۔ کھجور کے درخت بھی اکہرے اور دہرے باہم مقابل ہیں۔ پھر مختلف پھلوں کے ذائقے مختلف ہیں۔ اور نباتات بھی مختلف ہیں ، فصل ، درخت اور انگور۔ اس وسیع تر کائنات پر یہ سر سری نظر ڈالنے کے بعد اب لوگوں پر تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے کہ جو لوگ اس کائنات اور انفس و آفاق میں پائے جانے والے دلائل اور نشانات پر غور نہیں کرتے اور ان کی عقل اس نتیجے تک نہیں پہنچ پاتی کہ اس عظیم کائنات کا کوئی خالق بھی ہے یا کوئی عظیم قوت ، قدرت اور حکمت مدبرہ ایسی موجود ہے جو اسے چلا رہی ہے تو گویا ان کے عقول جمود کا شکار ہیں۔ ان کے دل تنگ ہیں ، اور ان کی سوچ کے سوتے خشک ہوچکے ہیں۔ کیا یہ صورت حالات تعجب انگیز نہیں ؟ وان تعجب فعجب ۔۔۔۔۔ خلدون (١٣ : ٥) ” اگر تمہیں تعجب کرنا ہے ، تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کئے جائیں گے ؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔ یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہے تعجب انگیز بات اور اس پر تعجب کرنا چاہئے کہ جو یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو پھر ہمیں دوبارہ اٹھایا جائے گا ؟ اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ جس ذات نے اس عظیم کائنات کی تخلیق کی ہے ، جو اسے موجودہ حیرت انگیز انداز سے چلا رہا ہے وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ لوگوں کو جدید شکل میں از سر نو زندہ کر دے۔ اگر کوئی اس کو بعید از امکان سمجھتا ہے تو وہ اپنے خالق اور مدبر کائنات کا دراصل انکار کرتا ہے۔ ایسے لوگوں نے دراصل اپنی عقل کو قید رکھا ہے اور وہ اپنی عقل سے کام نہیں لیتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو سزا بھی ایسی ہی دے گا کہ ان کے گلوں میں بڑے طوق پڑے ہوں گے۔ چناچہ جب کہ ان کا عمل ایسا ہے یعنی عقل کو باندھنا ، ایسی ہی سزا ہے یعنی ان کے گلوں میں بڑے بڑے طوق باندھنا۔ اس لیے کہ انہوں نے اس خصوصیت انسانیہ کو معطل کردیا ہے جس کی وجہ سے انسان دوسرے حیوانات پر مکرم ہے۔ انہوں نے دنیا میں پسماندگی اختیار کر رکھی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت میں ان کے لیے ایسی زندگی تجویز کی ہے جو اس حیات دنیا سے بھی پسماندہ ہو کیونکہ یہ لوگ فکر و شعور اور احساس وجدان کو معطل کر کے یہاں محض حیوانات کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ یہ لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ اللہ ان کو ایک جدید مخلوق کے طور پر کس طرح اٹھائے گا ؟ لیکن ان کا یہ تعجب ہی دراصل تعجب انگیز ہے۔ یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ ان پر جلدی عذاب لے آئیں تو یہ بھی تعجب انگیز ہے کہ وہ ہدایت کا مطالبہ کرنے اور اللہ کی رحمت کے طلبگار ہونے کے بجائے عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ویستعجلونک بالسیئۃ قبل الحسنۃ (١٣ : ٦) ” اور یہ لوگ بھلائی سے پہلے برائی کے لئے جلدی مچا رہے ہیں “۔ یہ لوگ اس کائنات اور انفس و آفاق میں غور نہیں کرتے ، حالانکہ اللہ کی نشانیاں اس پوری کائنات میں بکھری پڑی ہیں ، زمین میں بھی ہیں ، آسمان میں بھی ہیں۔ پھر کیا یہ لوگ اس سے پہلے ہلاک ہونے والے لوگوں کے لئے ایک مثال اور نمونہ عبرت بن کر رہ گئے۔ وقد خلت من قبلھم المثلت (١٣ : ٦) ” حالانکہ ان سے پہلے عبرتناک مثالیں گزر چکی ہیں “۔ اور یہ لوگ ان مثالوں پر غور نہیں کرتے حالانکہ ان میں ان کے لیے سامان عبرت تھا۔ اللہ تو اپنے بندوں پر بہت رحم کرنے والا ہے۔ اگرچہ وہ ایک عرصہ کے لئے ظلم کرتے ہیں ، اللہ لوگوں کے لئے اپنی رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھتا ہے تا کہ وہ توبہ کے راستے اس میں داخل ہوں۔ لیکن عذاب صرف ان لوگوں پر نازل کرتا ہے جو عذاب الٰہی کے نزول پر اصرار کرتے ہیں۔ وہ گناہوں میں گھرے جا رہے ہوں اور اللہ کے کھلے دروازے سے اندر جانے کے لئے تیار نہ ہوں۔ وان ربک لشدید العقاب (١٣ : ٦) ” بیشک تیرا رب سخت سزا دینے والا ہے “۔ یہاں سیاق کلام میں اللہ کی مغفرت کو اس کی سزا پر مقدم رکھا گیا ہے ، جبکہ یہ لوگ عذاب کے مطالبے میں جلدی کر رہے تھے ، اور ہدایت قبول کرنے سے انکاری تھے تا کہ معلوم ہو کہ وہ بھلائی کس قدر عظیم ہے جو اللہ لوگوں کے لئے چاہتا ہے جبکہ یہ لوگ خود اپنے لیے ایک عظیم شر چاہتے ہیں۔ اس صورت حالات کے نتیجے میں نظر آتا ہے کہ یہ لوگ بصیرت کے اندھے ہیں ، دلوں کے اندھے ہیں اور یہ کہ وہ نار جہنم کے مستحق ہیں بوجہ اپنی ہٹ دھرمی کے۔ اس کے بعد روئے سخن اس مضمون کی طرف مڑ جاتا ہے کہ ان لوگوں کا رویہ کس قدر عجیب ہے کہ ان کو اس کائنات کے اندے بیشمار جا بجا بکھرے ہوئے دلائل تکوینی تو نظر نہیں آتے ، مگر یہ لوگ ایک مخصوص معجزہ طلب کرتے ہیں۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صرف ایک معجزہ طلب کرتے ہیں اور کائنات کے ہزارہا معجزات پر ان کی نظر نہیں ہے۔ ویقول الذین ۔۔۔۔ قوم ھاد (١٣ : ٧) ” یہ لوگ جنہوں نے تمہارے بات ماننے سے انکار کردیا ہے ، کہتے ہیں کہ اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری ؟ تم تو محض خبردار کرنے والے ہو ، اور ہر قوم کے لئے راہنما ہے “۔ یہ لوگ ایک معجزہ طلب کرتے ہیں ، جبکہ معجزات کا صدور رسول کے اپنے اختیار میں نہیں ہے ، نہ ان کی ذاتی خصوصیت ہے۔ معجزات تو اللہ بھیجتا ہے اور اس وقت بھیجتا ہے جب اللہ اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تو محض ڈرانے والے ہیں جس طرح آپ سے قبل رسولوں کا منصب یہ تھا کہ وہ لوگوں کو ڈرانے والے تھے ۔ اللہ نے بیشمار اقوام کی ہدایت کے لئے بیشمار رسول بھیجے ہیں۔ لہٰذا معجزات ارسال کرنا اس ذات کا کام ہے جو اس کائنات اور بندوں کا مدبر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آسمانوں کی بلندی ‘ شمس وقمر کی تسخیر اور زمین کے پھیلاؤ ‘ پھلوں کی انواع و اقسام میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت کی نشانیاں ہیں یہاں سے سورة الرعد شروع ہو رہی ہے اس کی ابتداء المر سے ہے جو حروف مقطعات میں سے ہے ان کے معنی اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں ‘ پہلے تو فرمایا (تِلْکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ ) یہ کتاب کی یعنی قرآن کی آیات ہیں ‘ پھر فرمایا (وَالَّذِیْ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ ) اور آپ کے رب کی طرف سے جو آپ کی طرف نازل کیا گیا وہ حق ہے ‘ اس کا حق ہونا امر واقعی ہے کوئی مانے نہ مانے وہ بہر حال حق ہے (وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ ) (لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے) چونکہ لوگ فکرونظر سے کام نہیں لیتے اپنے رواج اور باپ دادوں کے اتباع ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اس لئے ایمان قبول نہیں کرتے۔ پھر فرمایا (اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا) (اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمانوں کو اونچائی پر بغیر ستونوں کے بنا دیا) اتنے بڑے بڑے آسمان ہیں جو بغیر کسی ستون کے بلندی پر قائم ہیں اور آسمان تمہاری نظروں کے سامنے ہیں جنہیں تم دیکھ رہے ہو۔ (ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ) (پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا) استواء علی العرش کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا جو مسلک ہے ہم سورة اعراف (رکوع ٦) کی تفسیر میں بیان کرچکے ہیں۔ (وَسَخَّرَ الشَّمْسَ والْقَمَرَ ) (اور چاند اور سورج کو مسخر فرما دیا) انہیں جس کام میں لگایا ہے اسی میں لگے ہوئے ہیں (کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی) (ان میں سے ہر ایک وقت مقرر کے مطابق چلتا ہے) اللہ تعالیٰ نے جو نظام ان کے لیے مقرر فرما دیا ہے اسی کے مطابق چلتے ہیں ہر ایک کا مدار مقرر ہے ان کی تیز رفتاری اسی مدار پر ہے۔ سورة یٰسین میں آفتاب کے بارے میں فرمایا (وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ) (اور آفتاب اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے یہ اندازہ باندھا ہوا ہے اس کا جو زبردست علم والا ہے) ۔ پھر فرمایا (لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَا اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ ) (نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے اور دونوں ایک ایک دائرہ میں تیر رہے ہیں) ۔ بعض حضرات نے لِاَجَلٍ مُّسَمًّی سے دنیا کا وجود مراد لیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ چاند سورج دونوں وقت معین تک چل رہے ہیں اور وقت معین قیامت کا قائم ہونا ہے جب قیامت قائم ہوگی تو یہ چاند اور سورج کا نظام ختم ہوجائے گا۔ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ اللہ تعالیٰ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے یعنی عالم سفلی اور عالم علوی میں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ہے جس طرح چاہتا ہے تدبیر فرمایا ہے۔ (یُفَصِّلُ الْاٰیَاتِ لَعَلَّکُمْ بِلِقَآءِ رَبِّکُمْ تُوْقِنُوْنَ ) (وہ آیات کو تفصیل کے ساتھ بیان فرماتا ہے تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو) اس سے بعض حضرات نے آیات قرآنیہ مراد لی ہیں اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ آیات سے دلائل توحید مراد ہیں خواہ دلائل تشریعیہ ہوں (جو آیات قرآنیہ کو بھی شامل ہیں) اور خواہ دلائل تکوینیہ ہوں جن میں سے بعض کا ذکر اسی آیت میں گزر چکا ہے ان آیات کا بیان فرمانا اس لئے ہے کہ تم غور اور فکر سے کام لو اور یہ سمجھ لو کہ جب اللہ تعالیٰ ایسی ایسی عظیم چیزوں کے پیدا فرمانے پر قادر ہے تو بدرجہ اولیٰ ان مردوں کو زندہ کرنے پر قدرت رکھتا ہے اسی کے حکم سے قیامت قائم ہوگی اور وہ مردوں کو زندہ فرمائے گا جو حساب کے موقع پر حاضر ہوں گے اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے فرمائے گا اسی کو بِلِقَآءِ رَبِّکُمْ سے تعبیر فرمایا (وَھُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ ) (اور اللہ وہی ہے جس نے زمین کو پھیلا دیا اور اس میں بوجھل پہاڑ پیدا فرما دئیے جو اپنی اپنی جگہوں پر جمے ہوئے ہیں) سورة لقمان میں فرمایا (وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِکُمْ ) کہ اللہ نے زمین پر بھاری بوجھل پہاڑوں کو ڈال دیا تاکہ زمین تمہارے ساتھ حرکت نہ کرے ‘ اس میں پہاڑوں کے پیدا فرمانے اور ان کو بوجھل بنانے اور زمین پر جما دینے کی حکمت بیان فرمائی وَاَنْھٰرًا (اور اللہ نے زمین میں نہریں پیدا فرمائیں) یہ نہریں انسانوں کے لیے پانی پینے اور جانوں کو پلانے اور کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتیں ہیں ‘ آیت شریفہ میں جو یہ فرمایا ہے کہ زمین کو پھیلا دیا یہ پھیلا ناز میں کے کرہ ہونے کے منافی نہیں ہے اگر زمین کروی ہو جیسا کہ اہل سائنس کہتے ہیں کہ تو یہ زمین کے پھلاؤ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ پھیلاؤ کے لیے کسی چیز کا اول سے آخیر تک سطح واحد ہونا ضروری نہیں ہے ‘ زمین چونکہ بہت بڑی ہے اس لئے انسانوں کو اس پر رہنا چلنا پھرنا اور سفر کرنا ایسا محسوس ہوتا ہے جیسا کہ سطح واحد پر ہی جا رہے ہیں ‘ چیونٹی کے طول وعرض کو جو ایک بہت بڑی گیند سے نسبت سے ہے انسانوں کی آبادیوں کو زمین کے پھیلاؤ سے وہ نسبت بھی نہیں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ پہلی عقلی دلیل۔ سورة یوسف میں مسئلہ توحید ہر پہلو سے واضح ہوگیا اور سورة یوسف میں دلیل نقلی تفصیلی سے ثابت کردیا گیا کہ کارساز اور عالم لغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے یہ مسئلہ اب بالکل بدیہی ہوچکا ہے۔ اب مسئلہ کو اور زیادہ کھولنے کے لیے سورة رعد میں مزید گیارہ دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ آٹھ عقلی، دو وحی اور ایک نقلی۔ یہ پہلی عقلی دلیل ہے۔ خبر کی تعریف مفید حصر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کائنات دو حصوں میں منقسم ہے علویات اور سفلیات علویات سے وہ عالم مراد ہے جو کر ات عناصر سے ماورا ہے۔ آسمان، سورج اور چاند وغیرہ اور سفلیات سے کرہ ارضی کی مخلوق مراد ہے۔ یہاں ” بِلِقَاءِ رَبِّکُمْ تُوِْقِنُوْنَ “ تک علویات کا ذکر ہے اور اس کے بعد ” لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ “ تک سفلیات کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عالم علوی اور عالم سفلی پر اپنا کام قبضہ و اقتدار اور مکمل تصرف و اختیار بیان کر کے واضح فرمایا کہ ساری مخلوق کا کارساز اور ہر ایک کی پناہ گاہ بھی میں ہی ہوں میرے سوا اور کوئی کارساز نہیں ” بِغَیْرِ عَمَدٍ “ اس نے محض اپنی قدرت کاملہ سے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر تھام رکھا ہے ” ثُمَّ اسْتَویٰ عَلَی الْعَرْشِ “ محسوس طور پر تخت پر بیٹھنا مراد نہیں بلکہ سارے جہاں پر بلا شرکت غیرے اقتدار و سلطنت مراد ہے۔ استولی بالاقتدار و نفوذ السلطان (مدارک ج 2 ص 186) ۔ اس کی پوری تحقیق سورة اعراف کی تفسیر میں ملاحظہ ہو (حاشیہ نمبر ص 63) ۔ ” وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ “ سورج اور چاند کو اس نے جس کام پر لگا دیا ہے وہ باضابطہ اپنی ڈیوٹی دے رہیں گے۔ ” یُدَبِّرُ الْاَمْرَ “ ساری کائنات کا نظام اسی کی تدبیر سے چل رہا ہے اس میں کوئی اور دخیل نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

2 ۔ اللہ تعالیٰ ایسا قادر مطلق ہے جس نے آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے بلند اور استوار کردیا جیسا کہ تم ان کو دیکھتے ہو پھر وہ عرش پر اپنی نشان کے موافق قائم اور جلوہ گر ہوا اور اس نے سورج و چاند کو کام میں لگا رکھا ہے کہ ہر ایک ان میں سے اپنے مدار پر ایک وقت معین پر چلتا رہتا ہے اور ایک وقت معین یعنی قیامت تک چلتا رہے گا وہ اللہ تعالیٰ تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے اور اپنے دلائل تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے تا کہ تم اپنے پروردگار کی پیشی میں حاضر ہونے اور اس سے ملنے کا یقین کرو۔ یعنی سورة یوسف (علیہ السلام) کے آخر میں رسالت پر بحث تھی اس سورت کی شروع میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل مذکور ہیں اور آسمان و زمین میں جو اس کی قدرت کی کارفرمائیاں ہیں ان پر توجہ دلائی گئی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں چلتا ہے بڑی مدت تک یعنی قیامت تک یا اپنے اپنے دور تک سورج ایک برس تک اور چاند ایک مہینے تک پھر نیا دور شروع کرتے رہیں ۔ 12 ۔ ہم نے تیسیر میں دونوں تفسیروں کی رعایت رکھی ہے۔