Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 15

سورة إبراهيم

وَ اسۡتَفۡتَحُوۡا وَ خَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیۡدٍ ﴿ۙ۱۵﴾

And they requested victory from Allah , and disappointed, [therefore], was every obstinate tyrant.

اور انہوں نے فیصلہ طلب کیا اور تمام سرکش ضدی لوگ نامراد ہوگئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاسْتَفْتَحُواْ ... And they sought victory and help, refers to the Messengers who sought the help and victory of their Lord over their nations, according to Abdullah bin Abbas, Mujahid and Qatadah. Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said that; this Ayah refers to the nations, invoking Allah's victory against themselves! Some idolators said, اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَـذَا هُوَ...  الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَأءِ أَوِ ايْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ O Allah! If this (Qur'an) is indeed the truth (revealed) from You, then rain down stones on us from the sky or bring on us a painful torment. (8:32) It is possible that both meanings are desired here, for the idolators (of Quraysh) invoked Allah against themselves on the day of Badr, and the Messenger of Allah invoked Him for victory and support. Allah said to the idolators then, إِن تَسْتَفْتِحُواْ فَقَدْ جَأءَكُمُ الْفَتْحُ وَإِن تَنتَهُواْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ (O disbelievers) if you ask for a judgment, now has the judgment come unto you; and if you cease (to do wrong), it will be better for you. (8:19) Allah knows best. Allah said next, ... وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ and every obstinate, arrogant dictator was brought to a complete loss and destruction. those who were arrogant and rebelled against the truth. Allah said in other Ayat, أَلْقِيَا فِى جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ مَّنَّـعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُّرِيبٍ الَّذِى جَعَلَ مَعَ اللَّهِ إِلَـهاً ءَاخَرَ فَأَلْقِيَـهُ فِى الْعَذَابِ الشَّدِيدِ (Allah will say to the angels): "Both of you throw into Hell every stubborn disbeliever - hinderer of good, transgressor, doubter, who set up another deity with Allah. Then both of you cast him in the severe torment." (50:24-26) The Prophet said, إِنَّهُ يُوْتَى بِجَهَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَتُنَادِي الْخَلَيِقَ فَتَقُولُ إِنِّي وُكِّلْتُ بِكُلِّ جَبَّارٍ عَنِيد On the Day of Resurrection, Jahannam (Hellfire) will be brought and it will call the creatures, saying, "I was given the responsibility of every rebellious tyrant." Therefore, every tyrant has earned utter demise and loss when the Prophets invoked Allah, the Mighty, the Able for victory. Allah said next,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 اس کا فاعل ظالم مشرک بھی ہوسکتے ہیں کہ انہوں نے بالآخر اللہ سے فیصلہ طلب کیا۔ یعنی اگر یہ رسول سچے ہیں تو یا اللہ ہم کو اپنے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر دے جیسے مشرکین مکہ نے کہا ( اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِن... َا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ) 8 ۔ الانفال :32) ' اور جب کہ ان لوگوں نے کہا، اے اللہ ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے '۔ جس طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ نے اس قسم کی آرزو کی تھی جس کا ذکر اللہ نے (انفال۔ 19) میں کیا ہے یا اس کا فاعل رسول ہوں کہ انہوں نے اللہ سے فتح و نصرت کی دعائیں کیں، جنہیں اللہ نے قبول کیا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] یعنی ایک طرف تو رسول اللہ اللہ سے فتح و نصرت کے لیے دعا مانگ رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف مخالفین یہ مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب کیوں نہیں لے آتے جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے رہتے ہو۔ اس وقت اللہ رسولوں کی مدد کرتا ہے اور سرکش معاندین اور ہٹ دھرم لوگوں کا سر کچل دیتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاسْتَفْتَحُوْا ۔۔ : فتح کا معنی قرآن مجید میں ” فتح و نصرت “ بھی آیا ہے اور ” فیصلہ “ بھی۔ ” َاسْتَفْتَحُوْا “ کا معنی انھوں نے فتح و نصرت مانگی، یا انھوں نے فیصلہ مانگا اور اس کا فاعل پیغمبر بھی ہوسکتے ہیں اور کفار بھی۔ اگر معنی فتح و نصرت ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ پیغمبروں نے بیشمار آزمائشیں آنے پر ... اپنے رب سے فتح و نصرت کی دعا کی جو قبول ہوئی، فرمایا : ( حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ ) [ البقرۃ : ٢١٤ ] ” یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے کہہ اٹھے، اللہ کی مدد کب ہوگی ؟ سن لو بیشک ! اللہ کی مدد قریب ہے۔ “ اگر ” َاسْتَفْتَحُوْا “ کا فاعل کفار ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ ” کافروں نے اپنے داتاؤں اور دستگیروں سے فتح و نصرت کی دعا مانگی مگر وہ ناکام ہوئے۔ “ اگر فتح کا معنی فیصلہ ہو تو مطلب ہوگا کہ پیغمبروں اور ان پر ایمان لانے والوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، فرمایا : (رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفٰتِحِيْنَ ) [ الأعراف : ٨٩ ] ” اے ہمارے رب ! تو ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ “ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر سرکش و سخت عناد رکھنے والا ناکام و نامراد ہوا۔ یا مطلب یہ ہے کہ کفار نے اللہ تعالیٰ سے فیصلے کی دعا کی، فرمایا : (وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ) [ الأنفال : ٣٢ ] ” اور جب انھوں نے کہا کہ اے اللہ ! اگر صرف یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔ “ ” َاسْتَفْتَحُوْا “ کے ان چاروں معنوں میں سے جو معنی بھی کریں وہ درست ہے اور قرآن مجید کے مختلف مقامات پر چاروں معانی موجود ہیں۔ قرآن کا اعجاز دیکھیے کہ ایک ہی لفظ ایسا بولا جو چاروں پر صادق آتا ہے۔ غرض دنیا میں نتیجہ یہ نکلا کہ ہر سرکش اور سخت عناد رکھنے والا کافر ناکام اور نامراد ہوا۔ رہا آخرت کا انجام تو وہ آئندہ آیت میں مذکور ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ 15۝ۙ اسْتِفْتَاحُ : طلب الفتح أو الفتاح . قال : إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جاءَكُمُ الْفَتْحُ [ الأنفال/ 19] ، أي : إن طلبتم الظّفر أو طلبتم الفتاح۔ أي : الحکم أو طلبتم مبدأ الخیرات۔ فقد جاء کم ذلک بمجیء النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم . وقوله : وَكانُوا ... مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا [ البقرة/ 89] الاستفتاح کے معنی غلبہ یا فیصلہ طلب کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جاءَكُمُ الْفَتْحُ [ الأنفال/ 19] ( کافرو) اگر تم محمدؤ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فتح چاہتے ہو تو تمہارے پاس فتح آچکی ۔ یعنی اگر تم کامیابی یا فیصلہ طلب کرتے ہو تو وہ آچکا ہے اور یا یہ معنی ہیں کہ اگر تم مبدء خیرات طلب کرتے ہو تو آنحضرت کی بعثت سے تمہیں مل چکا ہے اور آیت کریمہ : وَكانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا [ البقرة/ 89] اور وہ پہلے ہمیشہ کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے ۔ خاب الخَيْبَة : فوت الطلب، قال : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] ، وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه/ 61] ، وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس/ 10] . ( خ ی ب ) خاب ( ض ) کے معنی ناکام ہونے اور مقصد فوت ہوجانے کے ہیں : قرآن میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہوگیا ۔ وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه/ 61] اور جس نے افتر ا کیا وہ نامراد رہا ۔ وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس/ 10] اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥) اور ہر ایک قوم اپنے نبی کے خلاف مدد چاہنے لگی اور جتنے متکبر، سرکش اور حق وہدایت سے گمراہ لوگ تھے، وہ سب کے سب مدد چاہنے کے وقت بےمراد ہوئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ ) جو لوگ کفر و شرک پر ڈٹے رہتے وہ اس بات پر بھی اپنے رسول سے اصرار کرتے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان آخری فیصلہ ہوجانا چاہیے۔ پھر جب اللہ کی طرف سے وہ آخری فیصلہ عذاب استیصال کی صورت میں آتا تو اس کے نتیجے میں سرکش اور ہٹ دھرم قوم کو نیست و ناب... ود کردیا جاتا۔ ایسے منکرین حق کی تباہی و بربادی کا نقشہ قرآن حکیم میں اس طرح کھینچا گیا ہے : (کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْہَا) (الاعراف : ٩٢) ” وہ ایسے ہوگئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں “ اور (فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰٓی اِلَّا مَسٰکِنُہُمْ ) ( الاحقاف : ٢٥ ) یعنی وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے دیار و امصار میں صرف ان کے محلات و مساکن ہی نظر آتے تھے جبکہ ان کے مکینوں کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ اور یہ سب کچھ تو ان لوگوں کے ساتھ اس دنیا میں ہوا جبکہ آخرت کی بڑی سزا اس کے علاوہ ہے جس کو جھیلتے ہوئے ان میں سے ہر ایک سرکش ضدی اس طرح نشان عبرت بنے گا :  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24. In order to grasp the real significance of these historical events, it should be kept in view that these are being related here as answers to those objections which the disbelievers of Makkah raised before the Prophet (peace be upon him). As the conditions there at the time of the revelation of this Surah were exactly like those of the peoples of the former Prophets, they have been cited here ... to warn the Quraish along with the other mushriks of Arabia of the consequences, as if to say: The former disbelievers challenged their Messengers and were destroyed and the believers were established in the land. Likewise your future also entirely depends on the attitude you adopt towards the message of your Prophet. If you accept this, you will be allowed to remain in the land of Arabia, and if you reject it you shall be utterly uprooted from here. The subsequent events proved that this prophecy was literally fulfilled within fifteen years after this, for there remained not a single mushrik in the whole of Arabia.  Show more

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :24 ملحوظ خاطر رہے کہ یہاں اس تاریخی بیان کے پیرایہ میں دراصل کفار مکہ کو ان باتوں کا جواب دیا جا رہا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے ۔ ذکر بظاہر پچھلے انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں کے واقعات کا ہے مگر چسپاں ہو رہا ہے وہ ان حالات پر جو اس سورہ کے ... زمانہ نزول میں آ رہے تھے ۔ اس مقام پر کفار مکہ کو ، بلکہ مشرکین عرب کو گویا صاف صاف متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مستقبل اب اس رویے پر منحصر ہے جو دعوت محمدیہ کے مقابلے میں تم اختیار کرو گے ۔ اگر اسے قبول کر لو گے تو عرب کی سرزمین میں رہ سکو گے ، اور اگر اسے رد کر دو گے تو یہاں سے تمہارا نام و نشان تک مٹا دیا جائے گا ۔ چنانچہ اس بات کو تاریخی واقعات نے ایک ثابت شدہ حقیقت بنا دیا ۔ اس پیشین گوئی پر پورے پندرہ برس بھی نہ گزرے تھے کہ سر زمین عرب میں ایک مشرک بھی باقی نہ رہا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: یعنی پیغمبروں سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر تم سچے ہو تو اللہ تعالیٰ سے کہہ کر ایسا عذاب ہم پر بھجوا دو جس سے حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے۔ یہ بات کہہ کر وہ در اصل پیغمبروں کا متکبرانہ انداز میں مذاق اڑاتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٥۔ ١٧۔ رسولوں نے اپنے رب سے کفار پر فتح چاہی اور بعض مفسروں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کفار نے بھی چاہا کہ یہ رسول سچے ہوں تو ان لوگوں پر عذاب آجاوے غرض کہ دونوں معنے یہاں ممکن ہیں پھر فرمایا کہ تکبر کرنے والے اور خدا پر ایمان نہ لانے والے کلمہ توحید سے منہ موڑنے والے ہلاک ہوئے اور اللہ نے اپنے رسولوں ... اور ان کے ساتھ مومنوں کو فتح دی اور پھر ان کفار کے لئے یہ حکم فرمایا کہ فقط اس ہلاکت پر ہی بس نہیں ہے ان کے سامنے جہنم بھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو یہ لوگ ہلاک ہوئے اور ساری ملکیت پر ان ہی مومنوں کا قبضہ ہوا اور آخرت میں جہنم بھی ان کے واسطے تیار ہے وہاں پانی کی جگہ پینے کی پیپ کا ملا ہوا جوش کھاتا ہوا پانی غرض ایسی چیزیں پینے کو دی جاویں گی جس کو یہ لوگ پی نہ سکیں گے مارے بدبو کے حلق سے نیچے نہ اتریں گی۔ فرشتے عذاب کے ہتھوڑے مار مار کر زبردستی پلائیں گے بمشکل گھونٹ گھونٹ حلق سے نیچے اتاریں گے اور ہر طرف سے موت دکھائی دے گی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی تکلیف اور سختی ہوگی کہ گویا اب موت آئی اور اب آئی مگر وہاں موت کہاں وہاں تو موت ذبح کردی جائے گی پھر مرنا کیسا اس کے بعد فرمایا کہ اس پر بس نہ اور مستدرک حاکم میں ابو امامہ (رض) سے ایک روایت ہے کہ دوزخیوں کے منہ کے پاس جب پیپ لائی جاوے گی تو آنتیں کٹ کر پائخانہ کی راہ سے نکل پڑیں گی اگرچہ ترمذی نے ابو امامہ (رض) کی اس حدیث کو غریب کہا ہے لیکن حاکم نے اس کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ١ ؎ ہے۔ یہاں تو فقط دوزخیوں کو جو چیزیں پلائی جاویں گی ان کا ذکر ہے سورت الغاشیہ میں آوے گا کہ ان لوگوں کو ایک کانٹوں دار گھاس لگالی جاویے گی جو حلق میں پھنس جاوے گی تو اس وقت یہ کھولتا ہوا پیپ کا پانی ان لوگوں کو پلا دیا جاوے گا صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخ کی آگ کی تیزی دنیا کی آگ سے ستر حصے زیادہ ہے۔ ٢ ؎ سوا ان حدیثوں کے دوزخ کے عذابوں کی تفصیل اور بہت سی صحیح حدیثوں میں ہے۔ یہ سب حدیثیں عذاب غلیظ کی گویا تفسیر ہیں۔ ١ ؎ الترغیب ص ٣١٩۔ ٣٢٠ ج ٢ فصل نے شراب اہل النار۔ ٢ ؎ الترغیب ص ٣١٥ ج ٢ فصل نے شدۃ حرھا الخ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:15) استفتحوا۔ ماضی جمع مذکر غائب انہوں نے فیصلہ مانگا۔ انہوں نے فتح چاہی ۔ استفتاح (استفعال) سے جس کے معنی غلبہ یا فیصلہ طلب کرنے کے ہیں۔ فتح کے معنی غلبہ کی مثال نصر من اللہ وفتح قریب۔ (61:13) (تمہیں) خدا کی طرف سے مدد (نصیب ہوگی) اور فتح عنقریب (ہوگی) اور کی مثال قل یوم الفتح لا ینفع الذین ک... فروا ایمانہم (33:29) کہہ دیجئے (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کہ فیصلہ کے روز (یعنی روز قیامت ) کافروں کو ان کا ایمان لانا ذرا بھی نفع نہ دے گا۔ یا۔ ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق (7:89) اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمادے۔ استفتحوا کا فاعل کون ہے۔ ضمیر کا مرجع انبیاء بھی ہوسکتے ہیں اور کفار بھی۔ پہلی صورت میں انبیاء نے کفار سے مایوس ہوکر فتح کی دعا کی۔ اور اللہ نے کفار کو نامراد کردیا۔ دوسری صورت میں کفار نے دعا مانگی کہ اگر یہ انبیاء سچے ہیں تو پر عذاب نازل کر۔ چناچہ عذاب آیا جس نے ہر سرکش کو نامراد کر دیا خاب ۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ خیبۃ سے (باب ضرب) وہ نامراد ہوا۔ وہ خراب ہوا۔ اس کا مطلب فوت ہوا۔ الخیبۃ کے معنی ناکام ہونے اور مقصد فوت ہوجانے کے ہیں۔ اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے وقد خاب من افتری۔ (20:61) اور جس نے افتراء کیا نامراد ہو ہوگیا۔ یا فینقلبوا خائبین۔ (3:127) کہ وہ ناکام ہوکر واپس جائیں۔ جبار۔ زبردست دبائو والا۔ زور کرنے والا۔ سرکش۔ مجبور کرنے والا۔ خود اختیار ۔ جبر۔ سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ الجبر۔ کے اصل معنی زبردستی اور دبائو سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں۔ اس صورت میں یہ ذات باری تعالیٰ کے لئے وصف مدح ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان ناجائز تعلق سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرے یا کسی غیر حق بات کو زبردستی منوائے یا کروائے تو ایک مذموم صفت ہے اور اسی معنی میں آیہ ہذا میں اس کا استعمال ہوا ہے۔ یعنی زبردستی کرنے والا سرکش۔ عنید۔ عناد رکھنے والا۔ مخالف۔ ضدّی۔ جان بوجھ کر حق کی مخالفت کرنے والا۔ بروزن فعیل بمعنی فاعلصفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ اس کی جمع عند ہے (عند (باب نصر وضرب) وعند (باب سمع) عند (باب کرم) حق کی مخالفت کرنا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یا فیصلہ چاہا ” استفتحوا “ کے یہ دونوں معنی ہوسکتے ہیں اور قرا ان کی مختلف آیات میں ان معنوں میں یہ استعمال ہوا ہے۔ مدد مانگنے کے معنی میں ہو تو اس سے مراد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور فیصلہ چاہنے کے معنی ہیں ہو تو اس سے مراد کفار ہوں گے۔ (رازی) ۔ 4 ۔ یعنی پیغمبروں کا اللہ تعالیٰ ک... و پکارنا تھا کہ مدد آئی اور ان کے تمام دشمن تباہ و برباد ہوگئے۔ نہ وہ رہے اور نہ ان کا گھمنڈ۔ یہ تو ان کا دنیا میں حشر ہوا۔ (قرطبی) ۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی ہلاک ہوگئے اور جو ان کی مراد تھی کہ اپنے کو اہل حق سمجھ کر فتح وظفر چاہتے تھے وہ حاصل نہ ہوئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ١٥ تا ١٧ یہ ایک عجیب منظر ہے ، اس میں ہر سرکش ڈکٹیٹر تباہ حال ہوتا ہے ، اس دنیا کے میدان جنگ میں یہ شکست کھاتا ہے ، لیکن یہ منظر اسے کھڑا کر کے ایک دوسرا تخیلاتی منظر اسکرین پر بولا جاتا ہے۔ اب یہ آخرت میں جہنم کے اندر ہے ، اس جہنم میں یہ شدید پیاساے اور اس کو انسانی زخموں سے بہنے والا سیا... ل مادہ پلایا جا رہا ہے ، یہ اسے نہیں پینا چاہتا مگر اسے یہ مشروب بجبر پلایا جاتا ہے۔ یہ اس کے حلق سے نہیں اتر رہا کیونکہ یہ تو تلخ اور بدمزہ ہے۔ گندہ اور مکروہ مشروب ۔ اس ڈکٹیٹر کی طرف سے اظہار کراہیت اور تکلیف الفاظ کی اسکرین پر صاف و شفاف نظر آتے ہیں۔ صورت یہ ہے کہ ہر طرف سے اس پر آنے والا عذاب اس قدر شدید ہے کہ شاید ابھی مرجائے مگر اسے مرنے کی تو اجازت ہی نہیں ہے۔ شدید عذاب پر عذاب اس پر آرہا ہے ، اسی لئے تو نہیں مرتا۔ یہ ایک عجیب منظر ہے۔ اس میں ایک شکست خوردہ جبار اور ڈکٹیٹر کی تصویر کشی کی گئی ہے اور اس تصویر کے پس منظر میں دکھائی جاتی ہے جس طرح کسی منظر کے درمیان میں تخیل آتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَاسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ ) (الآیات الثلاث) اس میں حضرات مفسرین نے دو وجوہ لکھی ہیں اول یہ کہ واسْتَفْتَحُوْا کی ضمیر مرفوع مستتر حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ...  سے مدد طلب کی اور فیصلہ چاہا، یہ معنی لینا بھی سیاق کلام کے موافق ہے اور اس کی نظیر حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی دعا ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگی تھی جب ان کی قوم نے ان سے یوں کہا تھا کہ تم ہمارے دین میں واپس آجاؤ ورنہ ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ اس پر ان حضرات نے جو جواب دیا تھا وہ سورة اعراف میں مذکور ہے، ساتھ ہی وہاں ان کی یہ دعا بھی نقل فرمائی ہے۔ (رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ ) (اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما دیجیے اور آپ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں) اس صورت میں سورة ابراہیم کی آیت بالا کا یہ مطلب ہوا کہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور ان کے مقابلہ میں جو سرکش ضدی تھے وہ نامراد ہوئے برباد ہوئے دنیا و آخرت دونوں جگہ کے عذاب میں مبتلا ہوئے اس کے بعد کچھ آخرت کے عذاب کی تفصیل مذکور ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ (وَاسْتَفْتَحُوْا) کی ضمیر امتوں کی طرف راجع ہو اور اس صورت میں مطلب ہوگا کہ جب حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی قوموں کو سمجھاتے رہے اور وہ لوگ انکار پر اصرار کرتے رہے تو اسی طرح شدہ شدہ وہ وقت آگیا کہ ان کی قوموں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں عرض کیا کہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ ہوجانا چاہیے اور اس بات کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ لوگ جو ہمیں وعید سناتے ہیں کہ اگر تم ایمان نہ لائے تو ہلاک ہوجاؤ گے اور تم پر عذاب آجائے گا تو ہمارے انکار کرنے پر اگر عذاب آنا ہے تو آجائے، یہ ایسا ہے جیسے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے کہا تھا (فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ) اور جیسے شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا تھا (فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ ) اور جیسا کہ قریش نے کہا (عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ ) اور یہ بھی کہا (اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِاءْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ) ان لوگوں کا اس طرح کی باتیں کرنا اور عذاب لانے کی درخواست کرنا استہزاء اور تمسخر کے طریقہ پر تھا چونکہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی باتوں پر یقین نہیں کرتے تھے اس لیے بطور تمسخر ایسی باتیں کرتے تھے لیکن عذاب کو دعوت دینا ان کے لیے وبال بن گیا اور واقعی عذاب آگیا، جب عذاب آیا تو سرکش اور ضدی عذاب میں مبتلا ہوگئے اور دنیا سے نامراد ہو کر چلے گئے، وہ سمجھتے تھے کہ حضرات انبیاء ( علیہ السلام) کی بات نہ ماننے میں کامیابی ہے حالانکہ ان کی بات ماننے میں کامیابی تھی اور نہ ماننے میں نامرادی تھی، یہ تو ان کو دنیا میں سزا ملی کہ عذاب میں گرفتار ہوئے اور جس عذاب کو مذاق میں طلب کرتے تھے اس نے سچ مچ آگھیرا اور آخرت کا عذاب اس کے سوا ہوگا وہاں دوزخ میں داخل ہونا پڑے گا جہاں بہت سے عذابوں کے علاوہ کھانے پینے کا بھی عذاب ہوگا جب پانی پینے کے لیے طلب کریں گے تو وہ پانی سراپا پیپ ہوگا پینے کو تو دل نہ چاہے گا لیکن مجبوری میں پینا پڑے گا یہ پیپ کا پانی خود دوزخیوں کے جسموں سے نکل کر بہتا ہوگا کافر اسے مشکل سے گھونٹ گھونٹ کرکے پئے گا اور گلے سے اتار نہ سکے گا لیکن پھر بھی پئے گا اور پینا پڑے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ اس کا فاعل رسل (علیہم السلام) ہیں یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ ہمارے اور مشرکین کے درمیان آخری فیصلہ فرما دے ” رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ “ یا اس کا فاعل مشرکین ہیں۔ مشرکین نے بھی اپنے دین کو حق سمجھ کر پیغمبروں سے کہا تھ اگر تم سچے ہو تو ہم پر ع... ذاب لے آؤ تاکہ ہمارے تمہارے درمیان آخری فیصلہ ہوجائے یا انہوں نے اللہ تعالیی سے دعا مانگی ہو کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہمیں ہلاک کردے۔ ” قال الرسول انھم کذبونی فافتح بینی و بینھم فتحًا وقالت الامم ان کان ھؤلاء صادقین فعذبنا وعن ابن عباس ایضا نظیرہ ائتنا بِعَذَابِ اللہِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ “ (قرطبی ج 9 ص 349) ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تو ہر معاند و سرکش نہایت ذلیل ہوا اور ماننے والے ذلت ورسوائی سے محفوظ رہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

15 ۔ اور فریقین فیصلہ طلب کرنے لگے اور ہر سرکش اور معاند ہلاک و نامراد ہوا ۔ یعنی ادھر تو کفار نے مطالبہ کیا کہ جو وعدے کرتا ہے ان کو لے آ ۔ ادھر انبیاء کی خواہش ہوئی کہ ان کی سرکشی حد سے تجاوز کرگئی اب تو آخری فیصلہ ہوجانا چاہئے۔ چناچہ عذاب میں مبتلا کئے گئے اور نتیجہ یہ ہوا ہوسکتا ہے کہ صرف کفار ن... ے ہی فیصلہ کا مطالبہ کیا ہو۔  Show more