Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 31

سورة إبراهيم

قُلۡ لِّعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَ لَا خِلٰلٌ ﴿۳۱﴾

[O Muhammad], tell My servants who have believed to establish prayer and spend from what We have provided them, secretly and publicly, before a Day comes in which there will be no exchange, nor any friendships.

میرے ایمان دار والے بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازوں کو قائم رکھیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے رہیں اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی نہ دوستی اور محبت ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command for Prayer and Charity Allah commands: قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ امَنُواْ يُقِيمُواْ الصَّلَةَ وَيُنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلنِيَةً ... Say to My servants who have believed, that they should perform the Salah, and spend (in charity) out of the sustenance We have given them, secretly and openly, Allah orders His servants to obey Him, fulfill His rights and be kind to His creatures. He ordained the prayer, which affirms the worship of Allah alone, without partners, and to spend from the provisions that He has granted them, by paying the due Zakah, spending on relatives and being kind to all others. Establishing the prayer requires performing it on time, perfectly, preserving its act of bowing having humility during it, and preserving its prostrations. Allah has ordained spending from what He granted, in secret and public, so that the people save themselves, ... مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ ... before the coming of a Day, the Day of Resurrection, ... لااَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلااَ خِلاَلٌ on which there will be neither mutual bargaining nor befriending. on which no ransom will be accepted from anyone, if he seeks to buy himself. Allah said in another Ayah, فَالْيَوْمَ لاَ يُوْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ وَلاَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ So this Day no ransom shall be taken from you, nor of those who disbelieved. (57:15) Allah said here, وَلاَ خِلَلٌ (nor befriending), Ibn Jarir commented, "Allah says that on that Day, there will be no friendship between friends that might save those deserving punishment from it. Rather, on that Day, there will be fairness and justice." Qatadah said, "Allah knows that in this life, there is mutual bargaining and there are friendships which people benefit from. A man chooses his friends and the reasons behind befriending them; if it was for Allah's sake, their friendship should be maintained, but if it was for other than Allah, their friendship is bound to be cutoff." I say that the meaning of this, is that; Allah the Exalted is declaring that on that Day, no mutual bargaining or ransom will avail anyone, even if he ransoms himself with the earth's fill of gold if he could find that amount! No friendship or intercession shall avail one if he meets Allah while a disbeliever. Allah the Exalted said, وَاتَّقُواْ يَوْمًا لاَّ تَجْزِى نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْيًا وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَـعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ And fear the Day when no person shall avail another, nor shall compensation be accepted from him, nor shall intercession be of use to him, nor shall they be helped. (2:123) and, يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَـكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لاأَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاأَ خُلَّةٌ وَلاأَ شَفَـعَةٌ وَالْكَـفِرُونَ هُمُ الظَّـلِمُونَ O you believe! Spend of that with which We have provided for you, before a Day comes when there will be no bargaining, nor friendship, nor intercession. And it is the disbelievers who are the wrongdoers. (2:254)

احسان اور احسن سلوک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی اطاعت کا اور اپنے حق ماننے کا اور مخلوق رب سے احسان وسلوک کرنے کا حکم دے رہا ہے فرماتا ہے کہ نماز برابر پڑھتے رہیں جو اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت ہے اور زکوٰۃ ضرور دیتے رہیں قرابت داروں کو بھی اور انجان لوگوں کو بھی ۔ اقامت سے مراد وقت کی ، حد کی ، رکوع کی ، خشوع کی ، سجدے کی حفاظت کرنا ہے ۔ اللہ کی دی ہوئی روزی اس کی راہ میں پوشیدہ اور کھلے طور پر اس کی خوشنودی کے لئے اوروں کو بھی دینی چاہئے تاکہ اس دن نجات ملے جس دن کوئی خرید و فروخت نہ ہو گی نہ کوئی دوستی آشنائی ہو گی ۔ کوئی اپنے آپ کو بطور فدیے کے بیچنا بھی چاہے تو بھی ناممکن جیسے فرمان ہے آیت ( فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْيَةٌ وَّلَا مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ ۭ هِىَ مَوْلٰىكُمْ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ 15؀ ) 57- الحديد:15 ) یعنی آج تم سے اور کافروں سے کوئی فدیہ اور بدلہ نہ لیا جائے گا ۔ وہاں کسی کی دوستی کی وجہ سے کوئی چھوٹے گا نہیں بلکہ وہاں عدل و انصاف ہی ہو گا ۔ خلال مصدر ہے ۔ امراء لقیس کے شعر میں بھی یہ لفظ ہے ۔ دنیا میں لین دین ، محبت دوستی کام آ جاتی ہے لیکن وہاں یہ چیز اگر اللہ کے لئے نہ ہو تو محض بےسود رہے گی ۔ کوئی سودا گری ۔ کوئی شناسا وہاں کام نہ آئے گا ۔ زمین بھر کر سونا فدیے میں دینا چاہے لیکن رد ہے کسی کی دوستی کسی کی سفارش کافر کو کام نہ دے گی ۔ فرمان الہٰی ہے آیت ( وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ 48؀ ) 2- البقرة:48 ) اس دن کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرو ، جس دن کوئی کسی کو کچھ کام نہ آئے گا ، نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا ، نہ کسی کو کسی کی شفاعت نفع دے گی نہ کوئی کسی کی مدد کر سکے گا ۔ فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ ۭ وَالْكٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ٢٥٤؁ ) 2- البقرة:254 ) ایمان دارو جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے ، تم اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ بیوپار ہے نہ دوستی نہ شفاعت ۔ کافر ہی دراصل ظالم ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 نماز کو قائم کرنے کا مطلب ہے کہ اسے اپنے وقت پر اور نماز کو ٹھیک طریقہ کے ساتھ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے، جس طرح کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ انفاق کا مطلب ہے زکوٰۃ ادا کی جائے، اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے اور دیگر ضرورت مندوں پر احسان کیا جائے یہ نہیں کہ صرف اپنی ذات اور اپنی ضروریات پر تو بلا دریغ خوب خرچ کیا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی جگہوں پر خرچ کرنے سے گریز کیا جائے۔ قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ جہاں نہ خریدو فروخت ممکن ہوگی نہ کوئی دوستی ہی کسی کام آئے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : انسان سارے ہی اللہ کے بندے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کا ” عِبَادِیْ “ (میرے بندے) کہنا بہت بڑی عزت افزائی ہے، جیسا کہ فرمایا : (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا) [ بنی إسرائیل : ١ ] ” پاک ہے وہ جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا۔ “ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان لوگوں سے کہہ دیں جن میں دو وصف ہیں، ایک تو یہ کہ وہ صرف میرے بندے ہیں، کسی غیر کے نہیں، جو اپنے نام عبداللہ، عبد الرحمٰن اور ان جیسے رکھتے ہیں، نہ کہ عبد الحسین، عبد النبی، پیراں دتہ، غوث بخش وغیرہ اور جو قولاً و عملاً صرف میری عبادت اور بندگی کرتے ہیں، نہ کہ کسی غیر کی اور دوسرا وصف یہ کہ وہ ایمان لے آئے ہیں۔ يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُنْفِقُوْا ۔۔ : یہ دونوں فعل لام امر مقدر کی وجہ سے مجزوم ہیں۔ اقامت کا معنی ہے سیدھا کرنا، یعنی نماز کو درست کرکے پڑھیں، اس میں ہمیشگی، وقت پر ادا کرنا، تمام ارکان کو صحیح ادا کرنا اور خشوع کے ساتھ ادا کرنا سب کچھ آجاتا ہے۔ نماز میں بندگی کی ہر قسم کا کچھ نہ کچھ حصہ آجاتا ہے، قبلہ کی طرف رخ حج سے مناسبت رکھتا ہے، قیام، رکوع سجود اور دو زانو ہونا غلامی اور بندگی کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں، نماز کے دوران میں کھانے پینے وغیرہ سے اجتناب روزے سے مناسبت رکھتا ہے، کاروبار چھوڑ کر آنا اس شخص کے لیے ممکن ہی نہیں جو اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنے پر تیار ہی نہیں اور کئی اور چیزیں ایسی ہیں جو صرف نماز ہی میں ہیں، کسی اور عبادت میں نہیں۔ قرآن مجید میں اکثر نماز اور زکوٰۃ یا خرچ کرنا اکٹھا آیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی ان دونوں کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً : اس میں دو باتوں کی طرف توجہ لازم ہے۔ ایک تو لفظ ” مِنْ “ ہے کہ اللہ نے ہمیں جو کچھ دیا ہے جان، مال، اولاد، قوت، علم، عزت، غرض جو شمار ہی نہیں ہوسکتا، وہ سارے کا سارا ہم سے خرچ کرنے کا مطالبہ نہیں کیا، کیونکہ اسے ہماری کمزوری کا علم ہے جو اس نے سورة محمد کی آیت (٣٦، ٣٧) میں ذکر فرمائی ہے۔ دوسرا لفظ ” رَزَقْنَا “ ہے کہ تم نے جو کچھ خرچ کرنا ہے ہمارے دیے ہوئے میں سے کرنا ہے، اگر یہ سوچو گے تو دل میں بخل نہیں آئے گا اور اگر سب کچھ اپنا سمجھو گے تو مشکل ہی سے خرچ کرسکو گے۔ ” سِرًّا “ یعنی پوشیدہ اس لیے کہ وہ ریا سے پاک ہے اور ” وَّعَلَانِيَةً “ یعنی علانیہ اس لیے کہ دوسروں کو رغبت ہو، یا فرض زکوٰۃ ہو تو علانیہ دو ، کیونکہ چھپا کردینے سے زکوٰۃ نہ دینے کی تہمت کا خطرہ ہے۔ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ : ” خِلٰلٌ“ یہ باب مفاعلہ کا مصدر ہے، بمعنی دلی دوستی، مراد ہے قیامت کا دن کہ جس میں نیک اعمال خریدے جاسکیں گے نہ کسی کی دوستی اور محبت کام آئے گی کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچا سکے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی نیک عمل بکتے نہیں اور کوئی دوستی سے رعایت نہیں کرتا۔ “ (موضح) اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا : (اَلْاَخِلَّاۗءُ يَوْمَىِٕذٍۢ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ ) [ الزخرف : ٦٧ ] ” سب خلیل (دلی دوست) اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقی لوگ۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Said in the last sentence of verse 31 was: مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ (be-fore there comes a day in which there is neither trade nor friendship). The word: خِلَال (khilal) used here can be taken as the plural form of خُلَّۃُ (khullah) which means selfless friendship. Then, this word could also be taken as a verbal noun of the derived form of مُفَاعلۃ (mufa` alah), such as qital, difa` etc. In that case, it would mean a friendship between two per-sons which is mutual and sincere. This sentence relates to both the injunctions of Salah and Sadaqah described above. The core sense of the injunction is that now is the time to act. Allah Ta` ala has blessed you with the necessary strength and time to make your Salah. And if you have missed any of your Salah in the past due to negligence, make amends and do the qala& (replacement of missed Salah) for it. Similarly, your wealth is in your possession today and by spending it in the way of Allah you can make it work for you particularly for the good of your eternal life. But, lest you forget, the day is coming when both these options will be taken away from you. Neither will your bodies remain active enough to make your Salah, nor will you have any wealth in your possession which you could use to pay for rights wasted. And on that day, there is going to be no buying and selling, no transac¬tions through which you could buy something, through which you could expiate for shortcomings and sins. And on that day, mutual friendships and personal relationships will not work as well. No friend, no matter how dear, will be able to carry the burden of sins committed by another, nor will he find any way to somehow remove the punishment due against him. The word: یَوم (yowm: a day) obviously means the day of Resurrection (Al-Hashr) and the day of Doom (Al-Qiyamah). Then, it could also be said that it may be the day of one&s death because all these signs start showing up immediately from the time of death when one is left without any ability to do anything, nor does wealth stay in the possession of its owner ready to leave the world of his experience behind. Injunctions and Instructions As for the statement that no friendship will work for anyone on the day of Qiyamah (31), it means what will not work there will be friend-ships based solely on material interests. But, those who maintain friend-ships and relationships for the sake of Allah and for what is done to serve the interests of His revealed religion will still work at that time as well, for the good servants of Allah who are accepted in His sight will intercede on behalf of others as it has been reported in many ahadith. And the Qur&an itself says: &those who were friends to each other in the life of the world will turn into enemies to one another wishing to put the blame for their sin on a friend and absolve themselves of it, except those who fear Allah - 43:67.& This is so because there too the people of Taqwa, those who act right in fear of Allah, will be able to put in a good word for each other by way of helping them out. In the third, fourth and fifth verses (32-34), after recounting the major blessings of Allah Ta’ ala, human beings have been invited to worship and obey Him. They are told that it is Allah alone who has created the heavens and the earth on which depends the emergence and survival of human existence. Then, He sent water down from the sky through which He created produce of many kinds so that they can serve as sustenance for them. The word: الثَّمَرات (ath-thamarat) is the plural form of ثَمَرَہ (thama¬rah) which is the end product of everything. Therefore, included under &ath-thamarat& is everything which becomes for human beings their food, dress or a home to live in - because, the word: رِزَق (rizq) translated as &sustenance& in this verse covers all human needs. (Mazhari)

(آیت) مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ۔ لفظ خلال خلۃ کی جمع بھی ہو سکتی ہے جس کے معنی بےغرض دوستی کے ہیں اور اس لفظ کو باب مفاعلۃ کا مصدر بھی کہہ سکتے ہیں جیسے قتال دفاع وغیرہ اس صورت میں اس کے معنی دو شخصوں کے آپس میں دونوں طرف سے مخلصانہ دوستی کرنے کے ہوں گے اس جملہ کا تعلق اوپر کے بیان کئے ہوئے دونوں حکم یعنی نماز اور صدقہ کے ساتھ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آج تو اللہ تعالیٰ نے طاقت فرصت عطا فرما رکھی ہے کہ نماز ادا کریں اور اگر پچھلی عمر میں غفلت سے کوئی نماز رہ گئی ہے تو اس کی قضاء کریں اسی طرح آج مال تمہاری ملک اور قبضہ میں ہے اس کو اللہ کے لئے خرچ کر کے دائمی زندگی کا کام بنا سکتے ہو لیکن وہ دن قریب آنے والا ہے جب کہ یہ دنوں قوتیں اور قدرتیں تم سے لے لی جائیں گی نہ تمہارے بدن نماز پڑھنے کے قابل رہیں گے نہ تمہاری ملک اور قبضہ میں کوئی مال رہے گا جس سے ضائع شدہ حقوق کی ادائیگی کرسکو اور اس دن میں کوئی بیع وشرا اور خریدو فروخت بھی نہ ہو سکے گی کہ آپ کوئی ایسی چیز خرید لیں جس کے ذریعہ اپنی کوتاہیوں اور گناہوں کا کفارہ کرسکیں اور اس دن میں آپس کی دوستیاں اور تعلقات بھی کام نہ آسکیں گے کوئی عزیز دوست کسی کے گناہوں کا بار نہ اٹھا سکے گا اور نہ اس کے عذاب کو کسی طرح ہٹا سکے گا اس دن سے مراد بظاہر حشر و قیامت کا دن ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ موت کا دن ہو کیونکہ یہ سب آثار موت ہی کے وقت سے ظاہر ہوجاتے ہیں نہ بدن میں کسی عمل کی صلاحیت رہتی ہے نہ مال ہی اس کی ملک میں رہتا ہے۔ احکام و ہدایات : اس آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ قیامت کے روز کسی کی دوستی کسی کے کام نہ آئے گی اس کا مطلب یہ ہے کہ محض دنیاوی دوستیاں اس روز کام نہ آئیں گی لیکن جن لوگوں کی دوستی اور تعلقات اللہ کے لئے اور اس کے دین کے کاموں کے لئے ہوں ان کی دوستی اس وقت بھی کام آئے گی کہ اللہ کے نیک اور مقبول بندے دوسروں کی شفاعت کریں گے جیسا کہ احادیث کیثرہ میں منقول ہے اور قرآن عزیز میں ارشاد ہے (آیت) اَلْاَخِلَّاۗءُ يَوْمَىِٕذٍۢ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ ۔ یعنی وہ لوگ جو دنیا میں باہم دوست تھے اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے کہ یہ چاہیں گے کہ دوست پر اپنا گناہ ڈال کر خود بری ہوجائیں مگر وہ لوگ جو تقوی شعار ہیں کیونکہ اہل تقوی وہاں بھی ایک دوسرے کی مدد بطریق شفاعت کرسکیں گے۔ تیسری، چوتھی اور پانچویں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نعمتوں کی یاد دہانی کرا کے انسان کو اس کی عبادت و اطاعت کی طرف دعوت دی گئی ہے ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے جس پر انسانی وجود کی ابتداء اور بقاء موقوف ہے پھر آسمان سے پانی اتارا جس کے ذریعہ طرح طرح کے ثمرات پیدا کئے تاکہ وہ تمہارا رزق بن سکیں لفظ ثمرات، ثمرہ کی جمع ہے ہر چیز سے حاصل ہونے والے نتیجہ کو اس کا ثمرہ کہا جاتا ہے اس لئے لفظ ثمرات میں وہ تمام چیزیں بھی شامل ہیں جو انسان کی غذا بنتی ہیں اور وہ چیزیں بھی جو اس کا لباس بنتی ہیں اور وہ چیزیں بھی جو اس کے رہنے سہنے کا مکان بنتی ہیں کیونکہ لفظ رزق جو اس آیت میں مذکور ہے وہ ان تمام ضروریات انسانی پر حاوی اور شامل ہے (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ 31؁ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو سرر الْإِسْرَارُ : خلاف الإعلان، قال تعالی: سِرًّا وَعَلانِيَةً [إبراهيم/ 31] ، وقال تعالی: وَيَعْلَمُ ما تُسِرُّونَ وَما تُعْلِنُونَ [ التغابن/ 4] ، وقال تعالی: وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ [ الملک/ 13] ، ويستعمل في الأعيان والمعاني، والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة/ 78] ، وسَارَّهُ : إذا أوصاه بأن يسرّه، وتَسَارَّ القومُ ، وقوله : وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ [يونس/ 54] ، أي : کتموها ( س ر ر ) الاسرار کسی بات کو چھپانا یہ اعلان کی ضد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سِرًّا وَعَلانِيَةً [إبراهيم/ 31] اور پوشیدہ اور ظاہر اور فرمایا : ۔ وَيَعْلَمُ ما تُسِرُّونَ وَما تُعْلِنُونَ [ التغابن/ 4]( کہ ) جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں خدا کو ( سب ) معلوم ہے ۔ وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ [ الملک/ 13] اور تم ( لوگ ) بات پوشیدہ کہو یا ظاہر ۔ اور اس کا استعمال اعیال ومعانی دونوں میں ہوتا ہے السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ نیز فرمایا۔ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة/ 78] کہ خدا ان کے بھیدوں اور مشوروں تک سے واقف ہے ۔ سارۃ ( مفاعلہ ) کے معنی ہیں کسی بات کو چھپانے کی وصیت کرنا بيع البَيْع : إعطاء المثمن وأخذ الثّمن، والشراء :إعطاء الثمن وأخذ المثمن، ويقال للبیع : الشراء، وللشراء البیع، وذلک بحسب ما يتصور من الثمن والمثمن، وعلی ذلک قوله عزّ وجل : وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] ، وقال عليه السلام : «لا يبيعنّ أحدکم علی بيع أخيه» أي : لا يشتري علی شراه . ( ب ی ع ) البیع کے معنی بیجنے اور شراء کے معنی خدید نے کے ہیں لیکن یہ دونوں &؛ہ ں لفظ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور مبیع کے لحاظ سے ہوتا ہے اسی معنی میں فرمایا : ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت ( یعنی ) معددے ہموں پر بیچ ڈالا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا کہ : «لا يبيعنّ أحدکم علی بيع أخيه» کوئی اپنے بھائی کی خرید پر خرید نہ کرے ۔ خُلَّةُ : المودّة، إمّا لأنّها تتخلّل النّفس، أي : تتوسّطها، وإمّا لأنّها تخلّ النّفس، فتؤثّر فيها تأثير السّهم في الرّميّة، وإمّا لفرط الحاجة إليها، يقال منه : خاللته مُخَالَّة وخِلَالًا فهو خلیل، وقوله تعالی: وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء/ 125] ، قيل : سمّاه بذلک لافتقاره إليه سبحانه في كلّ حال الافتقار المعنيّ بقوله : إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] ، وعلی هذا الوجه قيل :( اللهمّ أغنني بالافتقار إليك ولا تفقرني بالاستغناء عنك) الخلتہ ۔ مودت دوستی محبت اور دوستی کو خلتہ یو تا اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دل کے اندر سرایت کر جاتی ہے ۔ اور یا اس لئے کہ وہ دل کے اندر داخل ہوکر اس طرح اثر کرتی ہے جس طرح تیر نشانہ پر لگ کر اس میں نشان ڈال دیتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے : اور آیت کریمہ : وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء/ 125] اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لئے خلیل کہا ہے کہ وہ ہر ہال میں باری تعالیٰ کے محتاج تھے اور یہ احتیاج ویسے ہی ہے ۔ جس کی طرف آیت ؛ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں کہا گیا ہے ؛ ( اللهمّ أغنني بالافتقار إليك ولا تفقرني بالاستغناء عنك) اے اللہ مجھے اپنی احتیاج کے ساتھ غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کر کے کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے مومن بندوں سے کہہ دیجیے کہ وہ پانچوں نمازوں کی کمال وضو، رکوع وجود اور تمام آداب اور اس کے تمام واجبات اور اہتمام کے ساتھ پابندی رکھیں اور جو ہم نے ان کو اموال دیے ہیں ان میں سے چھپا کر اور ظاہر کر کے صدقہ کیا کریں۔ قیامت کے آنے سے پہلے کہ جس میں نہ فدیہ ہوگا اور نہ دوستی کافر و مومن کسی کو کسی کی دوستی فائدہ مند نہ ہوگی ان خوبیوں کے مالک اصحاب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ (قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ ) یہاں یہ نکتہ لائقِ توجہ ہے کہ قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے رسول اللہ کو مخاطب کر کے اہل ایمان کو بالواسطہ حکم دیا جا رہا ہے اور یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے اہل ایمان کو براہ راست مخاطب نہیں کیا گیا۔ اس سلسلے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ پورے مکی قرآن میں یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے براہ راست مسلمانوں سے خطاب نہیں کیا گیا۔ (سورۃ الحج میں ایک مقام پر یہ الفاظ آئے ہیں مگر اس سورة کے مکی یا مدنی ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔ ) اس میں جو حکمت ہے وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ جہاں تک مجھے اس کی وجہ سمجھ میں آئی ہے وہ میں آپ کو بتاچکا ہوں کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا طرز خطاب امت کے لیے ہے اور مکی دور میں مسلمان ابھی ایک امت نہیں بنے تھے۔ مسلمانوں کو امت کا درجہ مدینہ میں آکر تحویل قبلہ کے بعد ملا۔ پچھلے دو ہزار برس سے امت مسلمہ کے منصب پر یہودی فائز تھے۔ انہیں اس منصب سے معزول کر کے محمد رسول اللہ کی امت کو امت مسلمہ کا درجہ دیا گیا اور تحویل قبلہ اس تبدیلی کی ظاہری علامت قرار پایا۔ یعنی یہودیوں کے قبلہ کی حیثیت بطور قبلہ ختم کرنے کا مطلب یہ قرار پایا کہ انہیں امت مسلمہ کے منصب سے معزول کردیا گیا ہے۔ چناچہ قرآن میں یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ کے ذریعے مسلمانوں سے خطاب اس کے بعد شروع ہوا۔ (وَيُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ) یہ آیت سورة البقرۃ کی آیت ٢٥٤ سے بہت ملتی جلتی ہے۔ وہاں بیع اور دوستی کے علاوہ شفاعت کی بھی نفی کی گئی ہے : (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ) ۔ یعنی اس دن سے پہلے پہلے ہمارے عطا کردہ رزق میں سے خرچ کرلو جس میں نہ کوئی بیع ہوگی نہ کوئی دوستی کام آئے گی اور نہ ہی کسی کی شفاعت فائدہ مند ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41. That is, the believers should adopt an attitude of gratitude in contrast to the disbelievers (Ayat 29). The practical form their gratitude should take is that they should establish Salat and spend their wealth in the way of Allah. 42. That is, on that Day none shall be able to rescue himself either by ransom or by intercession.

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :41 مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کی روش کفار کی روش سے مختلف ہونی چاہیے ۔ وہ تو کافر نعمت ہیں ۔ انہیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اس شکر گزاری کی عملی صورت یہ ہے کہ نماز قائم کریں اور خدا کی راہ میں اپنے مال خرچ کریں ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :42 یعنی نہ تو وہاں کچھ دے دلا کر ہی نجات خریدی جا سکے گی اور نہ کسی کی دوستی کام آئے گی کہ وہ تمہیں خدا کی پکڑ سے بچالے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: اس سے مراد حساب و کتاب کا دن ہے۔ اس دن کوئی شخص پیسے خرچ کر کے جنت نہیں خرید سکے گا اور نہ دوستی کے تعلقات کی بنا پر اپنے آپ کو عذاب سے بچا سکے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:31) یقیموا۔ مضارع منصوب اقامۃ سے صیغہ جمع مذکر غائب وہ ٹھیک ٹھیک ادا کریں۔ پابندی سے ادا کریں۔ خلال۔ دوستی۔ باب مفاعلۃ سے مخالۃ مصدر نیز خلۃ کی جمع بھی ہوسکتی ہے۔ جس کے معنی دوستی کے ہیں۔ خلیل دوست۔ گہرا دوست۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ۔ مراد ہے قیامت کا دن، جس میں نیک اعمال خریدے جاسکیں گے نہ کسی کی دوستی اور محبت کام آئے گی کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچا سکے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یعنی نیک عمل بکتے نہیں اور کوئی دوستی سے رعایت نہیں کرتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مطلب یہ کہ عبادات بدنیہ ومالیہ کو ادا کرتے رہیں کہ یہی شکر ہے نعمت کا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : توحید کے فوائد اور شرک کے نقصانات کا ذکر کرنے کے بعد توحید کے تقاضوں کا بیان ہے۔ مخلوق ہونے کے ناطے تمام انسان اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں مگر جن لوگوں نے کفر و شرک اختیار کیا وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی سے نکل کر شیطان کے بندے بن جاتے ہیں۔ قرآن مجید نے انہیں ” عبدالطاغوت “ قرار دیا ہے۔ ان کے مقابلے میں جنہوں نے عقیدۂ توحید اپنایا انہیں قرآن مجید آمنوا کے اعزاز سے نوازتا ہے۔ انھیں اللہ تعالیٰ اپنے بندے قرار دیتا ہے۔ جن کے بارے میں سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا :” آپ انہیں فرمائیں کہ اے اللہ کے بندو ! توحید کا تقاضا ہے کہ پانچ وقت نماز قائم کرو جو کچھ اللہ نے تمہیں عطا فرمایا اس میں پوشیدہ اور اعلانیہ طور پر خرچ کرتے رہو۔ تاآنکہ وہ دن آپہنچے جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی نہ کسی کی دوستی کام آئے گی۔ “ اس فرمان میں واضح اشارہ ہے کہ یقیناً توحید اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور دنیا و آخرت کی کامیابی کی کلید ہے مگر جو شخص جان بوجھ کر اس کے تقاضے پورے نہیں کرتا، جنہیں قرآن و حدیث میں ارکان اسلام کے نام سے بیان کیا گیا ہے۔ بیشک بالآخر جنت میں داخل ہوگا لیکن ارکان اسلام پورے نہ کرنے کی وجہ سے اسے جہنم میں جانا پڑے گا۔ نہ معلوم وہ کتنی مدت تک سزا بھگتتا رہے گا اس لیے ایمان یعنی عقیدۂ توحید کے بعد قرآن و حدیث میں بار بار اس بات پرزور دیا گیا ہے کہ ایمان لانے کے بعد انسان کو ارکان اسلام کی پاپندی کرنا ہوگی۔ یہاں ایمان کے بعد اسلام کے بنیادی ارکان میں سے نماز اور انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ نماز میں انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور باجماعت نماز پڑھنے سے ٢٧ گنا زیادہ ثواب پانے کے ساتھ اپنے بھائیوں کے قریب ہونے اور آپس کے حالات جاننے کا موقع ملتا ہے۔ نماز کے ساتھ زکوٰۃ انفاق فی سبیل اللہ کی لازمی صورت ہے اس سے صاحب ثروت حضرات کو حکم ہے کہ پانچ وقت مسجد میں اکٹھا ہونے والے ساتھیوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھیں۔ نماز کی ادائیگی اور انفاق فی سبیل اللہ کا احساس اجا گر کرنے کے لیے فرمایا کہ اس دن کے آنے سے پہلے ان امورکا خیال رکھو، جس دن نہ لین دین ہوگا اور نہ مجرم کو کسی کا واسطہ اور دوستی کام آئے گی۔ (عن أُمَامَۃَ یَقُوْلُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَخْطُبُ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ فَقَالَ اتَّقُوا اللَّہَ رَبَّکُمْ وَصَلُّوْا خَمْسَکُمْ وَصُوْمُوْا شَہْرَکُمْ وَأَدُّوْا زَکَاۃَ أَمْوَالِکُمْ وَأَطِیْعُوْا ذَا أَمْرِکُمْ تَدْخُلُوْا جَنَّۃَ رَبِّکُمْ )[ رواہ الترمذی : کتاب الصلاۃ، الباب الأخیر وہو حدیث صحیح ] ” حضرت امامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حجۃ الوداع کے موقعہ پر خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا اللہ سے ڈر جاؤ جو تمہارا رب ہے۔ پانچ نمازیں پڑھو، رمضان کے روزے رکھو، اپنے مالوں سے زکٰوۃ ادا کرو اور صاحب امر لوگوں کی اطاعت کرو۔ تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ “ مسائل ١۔ ایمان والوں کو نماز قائم کرنے کا حکم ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرنا چاہیے۔ ٣۔ قیامت کے دن خریدو فروخت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن دوستی کام آئے گی اور نہ رشوت چلے گی : ١۔ اس دن نہ دوستی کام آئے گی نہ لین دین ہوگا۔ (ابراہیم : ٣١) ٢۔ قیامت کے دن سے ڈر جاؤ جس دن کوئی معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (البقرۃ : ٤٨) ٣۔ قیامت کے دن مجرم سونا بھر کر زمین دے، تب بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ (آل عمران : ٩١) ٤۔ مجرم خواہش کرے گا جو کچھ زمین میں ہے سب کچھ دے کر عذاب سے بچ جائے۔ (المائدۃ : ٣٦) ٥۔ قیامت کے دن مجرم اپنے اہل و عیال بطور فدیہ پیش کرے گا۔ ( المعارج : ١١ تا ١٣) ٦۔ اس دن کے آنے سے پہلے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کرو جس دن سفارش اور دوستی کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ : ٢٥٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٣١ میرے بندوں سے کہیں کہ میرا شکر اقامت صلوٰۃ کے ذریعہ ادا کریں۔ نماز شکر الٰہی ادا کرنے کا مخصوص ترین طریقہ ہے۔ پھر میرا شکر ادا کرنے کا اہم طریقہ انفاق فی سبیل اللہ ہے جو کچھ میں نے ان کو دیا ہے ، اس سے اعلانیہ اور خفیہ خرچ کریں۔ خفیہ اس وقت جب لینے والوں کی عزت نفس کی حفاظت بھی مقصود ہو اور دینے والوں کی مروت بھی محفوظ ہو ، کیونکہ جو لوگ تفاخر ، ظاہر داری اور مقابلے کے لئے خرچ کرتے ہیں وہ انفاق فی سبیل اللہ نہیں ہوتا ، اور اعلانیہ وہاں خرچہ کریں جہاں صدقات واجبہ کا ادا کرنا مقصود ہو ، اور جہاں انفاق کو مثالی بنانا مقصود ہو ، دونوں طریقوں میں سے کسی طریقے کا انتخاب کرنے والے کے ضمیر پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اور ان کو یہ بھی کہہ دیں کہ انفاق کا بھی ایک وقت ہے ، ایک مہلت ہے ، جب مہلت ختم ہوگئی تو پھر نہ تجارت ہوگی ، نہ مال بڑھے گا اور نہ دوستیاں ہوں گی اور نہ انفاق کے لئے ہاتھ میں کچھ ہوگا۔ وہاں تو اچھے اعمال ہی کام آئیں گے۔ من قبل ان یاتی یوم لا بیع فیہ ولا خلل (١٤ : ٣١) ” قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی اور نہ دوست نواز ہو سکے گی “۔ اب اللہ تعالیٰ اس کائنات کی عظیم کتاب کو کھول کر اپنے انعامات گنواتے ہیں۔ یہ عظیم اور ناقابل شمار انعامات ہیں۔ اس کتاب کے بڑے بڑے صفحات ہیں اور ان کے اندر تاحد نظر اقسام والوان کے انعامات ہیں۔ دور تک پھیلے ہوئے آسمان ، یہ زمین ، شمس و قمر ، رات اور دن کی گردش ، آسمانوں سے نازل ہونے والا پانی ، زمین سے اگنے والے انواع و اقسام کے نباتات ، سمندر ، سمندری مخلوق اور جہاز رانی ، زمین کی ندیاں ، نالے اور دریا ، غرض وہ سب کچھ جو انسان رات اور دن دیکھ رہا ہے۔ لیکن لوگ اپنی جہالت اور جاہلیت کی وجہ سے ان صفحات کو نہیں پڑھتے۔ ان میں غوروفکر نہیں کرتے۔ بیشک انسان ظالم اور ناشکرا ہے۔ اللہ کی نعمتوں کو چھوڑ کر کفر اپناتا ہے۔ اللہ کے ساتھ شریک بناتا ہے حالانکہ اللہ وحدہ خالق و رازق ہے اور اس پوری کائنات کو اسی نے انسان کے لئے مسخر رکھا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن نہ بیع ہوگی نہ دوستی اس کے بعد فرمایا (قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) (الآیۃ) کہ آپ میرے مومن بندوں سے فرما دیں کہ اس دن کے آنے سے پہلے جس میں کوئی خریدو فروخت اور دوستی نہ ہوگی، نماز قائم کریں اور جو مال ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ طور پر اور ظاہر طور پر خرچ کریں، اس میں نماز اور انفاق کا حکم دیا، پوشیدہ طور پر مال کو خرچ کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ نفس کو ریا کاری کا موقع نہیں ملتا اور ظاہراً خرچ کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ دوسروں کو بھی عمل خیر کی توفیق ہوجاتی ہے، لوگوں کے سامنے نیک عمل کرنے کا نام ریا کاری نہیں ریا کاری اس جذبے کا نام ہے کہ لوگ معتقد ہوں اور تعریف کریں، جس کسی کو اس جذبہ پر قابو ہو وہ لوگوں کے سامنے خرچ کرے (یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَ لَا خِلٰلٌ) (جس دن نہ بیع ہوگی اور نہ دوستی ہوگی) اس سے قیامت کا دن مراد ہے وہاں مال دے کر کوئی مجرم نہیں چھوٹ سکتا اور جان کے بدلہ میں کچھ قبول نہیں کیا جاسکتا، اور دنیا میں جو کسی کی کسی سے دوستی تھی اور اس دوستی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جاتی تھی یہ دوستی وہاں کچھ کام نہ آئے گی نہ کوئی نیا دوست بنے گا نہ پرانی دوستی فائدہ دے گی اس لیے دنیا اور اہل دنیا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کریں ہاں جو لوگ متقی ہیں ان سے دوستی کریں ان کی دوستی آخرت میں بھی منقطع نہ ہوگی اور اس سے شفاعت کا فائدہ ہوگا۔ کما قال تعالیٰ (اَلْاَخِلَّاءُ یَوْمَءِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِِلَّا الْمُتَّقِیْنَ ) (تمام دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے بجز خدا سے ڈرنے والوں کے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32:۔ یہ توحید پر تیسری عقلی دلیل ہے یہ دلیل تفصیلی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام عالم کا خالق ہے عالم علوی (اصمان، سورج، چاند) ۔ عالم سفلی (زمین، دریا، سمندر، حجر وشجر، بحر وبر) اور فضاء آسمانی میں جو کچھ ہے بادل بارش وغیرہ سب پر اللہ تعالیٰ کا قبضہ ہے اور ساری کائنات اس کے اختیار و تصرف میں اور اس کی مطیع فرمان ہے۔ زمین و آسمان کو اس نے پیدا کیا، بارش وہ برساتا اور پھل بھی وہی پیدا کرتا ہے، سمندروں میں بحری جہاز اس کے حکم سے چلتے ہیں، دریا میں بحری جہاز اس کے حکم سے چلتے ہیں، دریا اور ندیاں اس کے تابع فرمان ہیں۔ سورج چاند اور دن رات ہمارے نفع کے لیے اس کے حکم سے اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ تو کیا پھر اللہ کے سوا کوئی اور کارساز اور مالک و مختار ہے ؟ ہرگز نہیں۔ اہل بدعت اس آیت سے اولیاء اللہ کے متصرف و مختار ہونے پر استدلال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے یہ سب کچھ تمہارے تابع کردیا ہے۔ مگر یہ استدلال سراسر باطل ہے اول اس لیے کہ لَکُمْ میں ضمیر خطاب عام ہے جو تمام بنی آدم حتی کہ کفار کو بھی شامل ہے۔ دوم اس لیے کہ تسخیر سے یہ مراد نہیں کہ سب کچھ ان کے تابع فرمان کردیا گیا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے حکم سے تمہارے فائدے کے کاموں میں لگا دیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

31 ۔ اب آگے مومنین کو ارشاد ہے اے پیغمبر میرے ان بندوں سے جو ایمان والے ہیں کہہ دیجئے کہ وہ نماز پڑھا کریں اور وہ نماز کی پابندی رکھیں اور جو روزی ہم نے ان کو دی ہے اس میں سے اس دن کے آنے سے پہلے پہلے پوشیدہ اور ظاہر کچھ خرچ اور خیرات بھی کیا کریں جس دن نہ تجارت ہوگی نہ اس دن کسی قسم کی خریدو فروخت ہوگی اور نہ اس دن کوئی دوستی کام آئے گی ۔ یعنی وہ حشر کا دن ہے جس میں صرف نیک اعمال ہی کام آسکتے ہیں ، نہ کوئی بیع شرا چلتی ہے کہ نیک اعمال خرید لئے جائیں نہ اس دن کوئی دوست ہوگا جو بدون اعمال صالحہ کے محض دوستی کی بناء پر کام آجائے نا سپاسوں کے مقابلے میں شکر گزاروں کا ذکر فرمایا خفیہ علانیہ کی بحث تیسرے پارہ میں گزر چکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جیسا موقع ہو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی نیک عمل بکتے نہیں اور دوستی سے کوئی رعایت نہیں کرتا ۔ 12