A Lexical Note of Explanation The word: اَلشِيَعِ in the first verse (10) is the plural form of: شِیعہ (shah) which means the follower or helper of a person. Then, it is also used to denote a group which agrees upon particular beliefs and theoretical as¬sumptions. So, the sense of the statement is that Allah Ta’ ala has sent messengers among every group or sect. Here, by using the word: فِی in فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ ( in place of اِلٰی : ila: to (translated as &among the groups of earlier peoples& ), the hint given is that the messenger for every group was sent from among that particular group so that people would find it easy to trust him, and that he too, by being aware of their taste and tem¬perament, could make appropriate plans to work for their reform.
اللغات : الشیع جمع شیعہ کی ہے جس کی معنی کسی شخص کے پیروکار و مددگار کے بھی آتے ہیں اور ایسے فرقہ کو بھی شیعہ کہا جاتا ہے جو خاص عقائد ونظریات پر اتفاق رکھتے ہوں مراد یہ ہے کہ ہم نے ہر فرقہ اور ہر گروہ کے اندر رسول بھیجے ہیں اس میں لفظ الیٰ کے بجائے فِيْ شِيَعِ الْاَوَّلِيْنَ فرما کر اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ ہر گروہ کا رسول اسی گروہ کے لوگوں میں سے بھیجا گیا تاکہ لوگوں کو اس پر اعتماد کرنا آسان ہو اور یہ بھی ان کی طبائع اور مزاج سے واقف ہو کر ان کی اصلاح کے لئے مناسب پروگرام بنا سکے۔ خلاصہ تفسیر : اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کی تکذیب سے غم نہ کیجئے کیونکہ یہ معاملہ انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے چنانچہ) ہم نے آپ سے پہلے بھی پیغمبروں کو اگلے لوگوں کے بہت سے گروہوں میں بھیجا تھا (اور ان کی یہ حالت تھی کہ) کوئی رسول ان کے پاس ایسا نہیں آیا جس کے ساتھ انہوں نے استہزاء نہ کیا (جو کہ تکذیب کی بدترین قسم ہے پس جس طرح ان لوگوں کے دلوں میں یہ استہزاء پیدا ہوا تھا) اسی طرح ہم یہ استہزا ان مجرمین (یعنی کفار مکہ) کے قلوب میں ڈال دیتے ہیں (جس کی وجہ سے) یہ لوگ قرآن پر ایمان نہیں لاتے اور یہ دستور پہلوں سے ہی ہوتا آیا ہے (کہ انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب کرتے رہے ہیں پس آپ مغموم نہ ہوں) اور (ان کے عناد کی یہ کیفیت ہے کہ فرشتوں کا آسمان سے آنا تو درکنار اس سے بڑھ کر) اگر (خود ان کو آسمان پر بھیج دیا جائے اس طرح سے کہ) ہم ان کے لئے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیں پھر یہ دن کے وقت (جس میں نیند اور اونگھ وغیرہ کا بھی شبہ نہ ہو) اس (دروازہ) میں (سے آسمان کو) چڑھ جاویں تب بھی یوں کہہ دیں کہ ہماری نظر بند کردی گئی تھی (جس سے ہم اپنے کو آسمان پر چڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور واقع میں نہیں چڑھ رہے اور نظر بندی میں کچھ اسی واقعہ کی تخصیص نہیں) بلکہ ہم لوگوں پر تو بالکل جادو کر رکھا ہے (اگر ہم کو اس سے بڑھ کر بھی کوئی معجزہ دکھلایا جائے گا وہ بھی واقع میں معجزہ نہ ہوگا)