Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 10

سورة الحجر

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ فِیۡ شِیَعِ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۱۰﴾

And We had certainly sent [messengers] before you, [O Muhammad], among the sects of the former peoples.

ہم نے آپ سے پہلے اگلی امتوں میں بھی اپنے رسول ( برابر ) بھیجے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Idolators of Every Nation made a Mockery of their Messengers Allah says, وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الاَوَّلِينَ وَمَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلاَّ كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِوُونَ

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسکین دیتا ہے کہ جس طرح لوگ آپ کو جھٹلا رہے ہیں اسی طرح آپ سے پہلے کے نبیوں کو بھی وہ جھٹلا چکے ہیں ۔ ہر امت کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہوئی ہے اور اسے مذاق میں اڑایا گیا ہے ۔ ضدی اور متکبر گروہ کے دلوں میں بہ سبب ان کے حد سے بڑھے ہوئے گناہوں کے تکذیب رسول سمو دی جاتی ہے یہاں مجرموں سے مراد مشرکین ہیں ۔ وہ حق کو قبول کرتے ہی نہیں ، نہ کریں ۔ اگلوں کی عادت ان کے سامنے ہے جس طرح وہ ہلاک اور برباد ہوئے اور ان کے انبیاء نجات پا گئے اور ایمان دار عافیت حاصل کر گئے ۔ وہی نتیجہ یہ بھی یاد رکھیں ۔ دنیا آخرت کی بھلائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں اور دونوں جہان کی رسوائی نبی کی مخالفت میں ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ ۔۔ :” شِيَعِ “ ” شِیْعَۃٌ“ کی جمع ہے، معنی ہے لوگوں کا ایسا گروہ جو ایک طریقے اور مذہب پر متفق ہو، خواہ نیک ہوں یا بد۔ یہاں یہ لفظ برے شیعہ یعنی بری جماعت کے معنی میں ہے، جیسا کہ اس آیت میں ہے : (اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ) [ الأنعام : ١٥٩] ” بیشک وہ لوگ جنھوں نے اپنے دین کو جدا جدا کرلیا اور کئی گروہ بن گئے، تو کسی چیز میں بھی ان سے نہیں۔ “ البتہ صافات میں نیک معنی میں ہے : (وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيم) [ الصآفات : ٨٣ ] ” اور بیشک اس کے گروہ میں سے ابراہیم بھی ہے۔ “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ ان کے جھٹلانے اور استہزا سے رنجیدہ نہ ہوں، ہر زمانے میں کفار نے انبیاء کی اسی طرح ہنسی اڑائی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

A Lexical Note of Explanation The word: اَلشِيَعِ in the first verse (10) is the plural form of: شِیعہ (shah) which means the follower or helper of a person. Then, it is also used to denote a group which agrees upon particular beliefs and theoretical as¬sumptions. So, the sense of the statement is that Allah Ta’ ala has sent messengers among every group or sect. Here, by using the word: فِی in فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ ( in place of اِلٰی : ila: to (translated as &among the groups of earlier peoples& ), the hint given is that the messenger for every group was sent from among that particular group so that people would find it easy to trust him, and that he too, by being aware of their taste and tem¬perament, could make appropriate plans to work for their reform.

اللغات : الشیع جمع شیعہ کی ہے جس کی معنی کسی شخص کے پیروکار و مددگار کے بھی آتے ہیں اور ایسے فرقہ کو بھی شیعہ کہا جاتا ہے جو خاص عقائد ونظریات پر اتفاق رکھتے ہوں مراد یہ ہے کہ ہم نے ہر فرقہ اور ہر گروہ کے اندر رسول بھیجے ہیں اس میں لفظ الیٰ کے بجائے فِيْ شِيَعِ الْاَوَّلِيْنَ فرما کر اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ ہر گروہ کا رسول اسی گروہ کے لوگوں میں سے بھیجا گیا تاکہ لوگوں کو اس پر اعتماد کرنا آسان ہو اور یہ بھی ان کی طبائع اور مزاج سے واقف ہو کر ان کی اصلاح کے لئے مناسب پروگرام بنا سکے۔ خلاصہ تفسیر : اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کی تکذیب سے غم نہ کیجئے کیونکہ یہ معاملہ انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے چنانچہ) ہم نے آپ سے پہلے بھی پیغمبروں کو اگلے لوگوں کے بہت سے گروہوں میں بھیجا تھا (اور ان کی یہ حالت تھی کہ) کوئی رسول ان کے پاس ایسا نہیں آیا جس کے ساتھ انہوں نے استہزاء نہ کیا (جو کہ تکذیب کی بدترین قسم ہے پس جس طرح ان لوگوں کے دلوں میں یہ استہزاء پیدا ہوا تھا) اسی طرح ہم یہ استہزا ان مجرمین (یعنی کفار مکہ) کے قلوب میں ڈال دیتے ہیں (جس کی وجہ سے) یہ لوگ قرآن پر ایمان نہیں لاتے اور یہ دستور پہلوں سے ہی ہوتا آیا ہے (کہ انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب کرتے رہے ہیں پس آپ مغموم نہ ہوں) اور (ان کے عناد کی یہ کیفیت ہے کہ فرشتوں کا آسمان سے آنا تو درکنار اس سے بڑھ کر) اگر (خود ان کو آسمان پر بھیج دیا جائے اس طرح سے کہ) ہم ان کے لئے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیں پھر یہ دن کے وقت (جس میں نیند اور اونگھ وغیرہ کا بھی شبہ نہ ہو) اس (دروازہ) میں (سے آسمان کو) چڑھ جاویں تب بھی یوں کہہ دیں کہ ہماری نظر بند کردی گئی تھی (جس سے ہم اپنے کو آسمان پر چڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور واقع میں نہیں چڑھ رہے اور نظر بندی میں کچھ اسی واقعہ کی تخصیص نہیں) بلکہ ہم لوگوں پر تو بالکل جادو کر رکھا ہے (اگر ہم کو اس سے بڑھ کر بھی کوئی معجزہ دکھلایا جائے گا وہ بھی واقع میں معجزہ نہ ہوگا)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ شِيَعِ الْاَوَّلِيْنَ 10؀ شيع الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات/ 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص/ 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر/ 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر/ 51] . ( ش ی ع ) الشیاع کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب ایندھب ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات/ 83] اور ان ہی یعنی (علیہ السلام) کے پیروں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص/ 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر/ 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر/ 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ سے پہلے بھی رسولوں کو پچھلے لوگوں کے بہت سے گروہوں میں بھیجا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ (وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ شِيَعِ الْاَوَّلِيْنَ ) شِیَع ‘ شِیْعَۃ کی جمع ہے اور اس کے معنی الگ ہو کر پھیلنے والے گروہ کے ہیں۔ جیسے حضرت نوح کے بیٹوں کی نسلیں بڑھتی گئیں تو ان کے قبیلے اور گروہ علیحدہ ہوتے گئے اور یوں تقسیم ہو ہو کر روئے زمین پر پھیلتے گئے۔ اردو الفاظ ” اشاعت “ اور ” شائع “ بھی اسی مادہ سے مشتق ہیں ‘ چناچہ ان الفاظ میں بھی پھیلنے اور پھیلانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠۔ ١٣۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے اپنے رسول کو یہ تسلی دی کہ کفار اور مشرکین جو تمہارے ساتھ ٹھٹے کرتے ہیں اور تمہیں چھیڑتے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے تم سے پہلے جو رسول گزرے ہیں ان کے ساتھ بھی ان کی قوم نے یہی معاملہ کیا ہے تم ان کی دل لگی سے بددل نہ ہو اور جس طرح ان رسولوں نے صبر کیا تم بھی صبر کرو ان کے مسخراپن کرنے سے ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم وحی کا بھیجنا اور قرآن کا اتارنا بند کردیں گے یہ لوگ جس بات پر جمے ہوئے ہیں جمنے دو ہم ان کے بہکے ہوئے خیال کو اور بھی پختہ کردیتے ہیں کہ تم پر اور قرآن پاک پر یہ لوگ ایمان نہ لائیں اور اس ایمان نہ لانے کا جو نتیجہ پہلی قوموں کا ہوا وہ ان لوگوں کو معلوم ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ بھی انہیں لوگوں کی طرح قہر الٰہی میں آجائیں اور ہلاک کر دئیے جائیں اور دنیا سے بالکل ان کی بنیاد ہی اکھیڑ دی جائے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے ١ ؎۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں اپنے علم ازلی کے موافق یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے اور کتنے آدمی دوزخ میں جانے کے قابل۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پہلے صاحب شریعت نبی نوح (علیہ السلام) سے لے کر اس آخر زمانہ تک جو گنہگار لوگ اللہ کے رسولوں سے مسخرا پن کرتے چلے آئے ہیں اس کا سبب یہی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے علم الٰہی کے موافق ان لوگوں کی یہی حالت لوح محفوظ میں لکھی گئی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اگرچہ عام طور پر سب لوگوں کی ہدایت کے لئے رسول بھیجے کتابیں نازل کیں لیکن راہ راست پر وہی لوگ آویں گے جن کی قسمت میں راہ راست پر آنا لکھا گیا ہے یہ ازلی بد قسمت لوگ کسی طرح راہ راست پر نہ آویں گے ازلی بد قسمتی کے سبب سے دوزخ میں جانے کے قابل کاموں کے خیال ان کے دل میں آویں اور جمیں گے اور مرتے دم تک یہ لوگ کام بھی ویسے ہی کریں گے اور آخر کا انجام بھی وہی ہوگا جو ان سے پہلے کے نافرمان لوگوں کا ہوا کہ دنیا میں طرح طرح کے عذابوں سے وہ لوگ ہلاک کر دئیے گئے اور عقبیٰ کے عذاب میں بھی گرفتار ہوئے اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی حدیث گزر چکی ٢ ؎ ہے۔ کہ بدر کی لڑائی میں مشرکین مکہ کے سرکش لوگوں کو اللہ کے فرشتوں نے دوزخ کی آگ کے کوڑے مار کر مار ڈالا اور صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی یہ روایتیں بھی گزر چکی ٣ ؎ ہیں کہ مرتے ہی یہ لوگ عقبیٰ کے عذاب میں گرفتار ہوگئے اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچا پا لیا۔ ١ ؎ جلد ہذا ص ٢٠٢۔ ١٤٢۔ ٢٣٥۔ ٢٤٠۔ ٢٤٦۔ ٢ ؎ یعنی صفحہ سابقہ پر۔ ٣ ؎ جلد ہذا ٢٠٢۔ ٢٠٨۔ ٢٢٤۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:10) قد ارسلنا۔ کے بعد اس کا مفعول محذوف ہے۔ ای ولقد ارسلنا رسلاً ۔ بیشک ہم نے رسول بھیجے۔ شیع۔ شیعۃ کی جمع۔ فرقے۔ گروہ۔ شیعۃ۔ وہ فرقہ یا گروہ جو کسی بات پر باہم متفق ہو۔ اس کا اصل شیاع ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی لکڑیاں جن کے ذریعے سے بڑی بڑی لکڑیوں کو آگ لگائی جاتی ہے۔ الشیاع کے معنی منتشر ہونا اور تقویت دینا کے بھی ہیں۔ جیسے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی۔ یا شاع القوم قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی۔ اسی سے اشاعۃ خبر کا پھیلانا ہے۔ گروہ کے معنی میں اور جگہ قرآن میں آیا ہے وجعل اہلھا شیعا۔ (28:4) وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا۔ قوم اور فرقہ کے معنوں میں آیا ہے ھذا من شیعتہ و ھذا من عدوہ۔ (28:15) یہ (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کا ہے اور یہ (دوسرا) اس کے دشمنوں میں سے ہے۔ یہاں شیع الاولین بمعنی پہلی قومیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 10 تا 15 شیع جماعتیں، گروہ یستھزء ون وہ مذاق اڑاتے ہیں نسلک ہم چلاتے ہیں خلت گذر گئی گذر گئے سنۃ الاولین گذرے ہوؤں کے طریقے فتحنا ہم نے کھول دیا یعرجون وہ چڑھتے ہیں سکرت باندھ دی گئی، روک دی گئی۔ مسحورون جادو کا اثر کئے گئے۔ تشریح : آیت نمبر 10 تا 15 کفار و مشرکین ہمیشہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچی تعلیمات کا جواب دینے یا اس کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کا مذاق اڑاتے اور ایسا انداز اختیار کرتے جس سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت ذہنی اذیت پہنچتی تھی۔ مثلاً وہ کہتے تھے کہ اگر آپ نبی ہیں تو آپ کے ساتھ فرشتے کیوں نہ بھیج دیئے گئے جو آپ کے آگے پیچھے چلتے اور ہم ان کو دیکھ کر آپ کو اللہ کا نبی تسلیم کرلیتے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم فرشتے بھیج سکتے ہیں ہماری قدرت سے یہ باہر نہیں ہے لیکن اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ فرشتے اس وقت بھیجتا ہے جب کسی قوم کی تقدیر کا فیصلہ کر کے اس پر عذاب مسلط کرنا ہوتا ہے چونکہ اللہ بھی ان کفار کو مزید مہلت دے رہا ہے۔ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو پھر اللہ کا فیصلہ آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ان آیات میں مزید تسلی دیتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کفار و مشرکین کے مذاق اڑانے کی پرواہ نہ کریں۔ آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے گئے ہیں ان کا اسی طرح مذاق اڑایا گیا ہے۔ بلکہ ہم نے ان کے خیالات کے مطابق ان کو اپنی مجرمانہ حرکتیں کرنے کا پورا پورا موقع دیا تاکہ وہ اپنے جرم پر جم کر پہلے لوگوں کی طرح حرکتیں کرتے رہیں۔ فرمایا کہ جس کو ایمان لانا ہے اس کے لئے چند سچی باتیں ہی کافی ہیں لیکن جنہوں نے کفر و شرک پر جم جانے کا فیصلہ کرلیا ہے ان کے لئے اگر آسمان کے دروازے بھی کھول دیئے جائیں اور وہ ان پر چڑھ کر سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تب بھی وہ یہی کہیں گے کہ ایسا لگتا ہے جیسے ہماری نظر بندی کردی گئی تھی یا ہم پر جادو کردیا گیا تھا اور ہمیں وہ نظر آیا جو حقیقت نہیں تھا (نعوذ باللہ) فرمایا کہ یہ ان کی کافرانہ ضد اور ہٹ دھرمی ہے جو ان کی زندگی کا بھیانک پہلو ہے ” میں نہ مانوں “ کی رٹ نے ان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے مذاق اڑانے اور طرح طرح کے مطالبات سے آپ رنجیدہ نہ ہوں آپ اپنا کام کئے جایئے۔ وہ وقت دور نہیں ہے جب یہی مذاق اڑانے والے اپنی بوٹیاں نوچتے ہوں گے اور اس وقت ان کا پچھتانا ان کے کام نہ آسکے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سابقہ امتوں نے بھی اپنے رسولوں کا استہزاء کیا معاندین اگر آسمان پر چڑھ جائیں تب بھی ایمان لانے والے نہیں ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مشرکین مکہ استہزاء اور تمسخر کا معاملہ کرتے تھے آپ کو اس سے تکلیف ہوتی تھی اللہ جل شانہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ سے پہلے جو رسول آئے ان کی قوموں نے ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا۔ رسولوں کی تکذیب بھی کی اور ان کا تمسخر بھی کیا جو حال ان لوگوں کا تھا وہی ان لوگوں کا حال ہے، جیسے ہم نے ان لوگوں کے دلوں میں تکذیب داخل کی اسی طرح ان مجرمین یعنی کفار مکہ کے قلوب میں بھی داخل کردی، یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی عادت رہی ہے کہ لوگوں نے اپنے اپنے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تکذیب کی پھر انہیں عذاب میں مبتلا فرمایا یہ لوگ بھی تکذیب کر رہے ہیں اور مستحق عذاب ہو رہے ہیں۔ مزید فرمایا کہ ان لوگوں کو ماننا ہی نہیں ہے (قرآن کا معجزہ سامنے ہے دوسرے معجزات بھی دیکھتے رہتے ہیں لیکن ایمان نہیں لاتے) فرشتوں کے آنے کی فرمائش کر رہے ہیں اگر فرشتے آجائیں تب بھی انہیں ماننا نہیں، یہ لوگ عناد پر تلے ہوئے ہیں ان کی ضد کا یہ عالم ہے کہ اگر ہم ان کے لیے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیں پھر یہ دن کے وقت اس دروازے میں چڑھ جائیں (جبکہ اونگھ نیند کا وقت بھی نہیں ہوتا) تب بھی یہ نہ مانیں گے بلکہ آسمان کا دروازہ کھلنے اور آسمان پر خود سے چڑھنے کے باوجود (وہ بھی دن دہاڑے) یوں کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کردی گئی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے کو آسمان پر چڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے اس جادو کی وجہ سے یہ سب کچھ ہمیں نظر آ رہا ہے اور حقیقت میں کچھ نہیں ہے، جب کسی قوم کا یہ حال ہو کہ کھلی آنکھوں معجزات دیکھے اور انہیں جادو بتاوے اس قوم سے ایمان لانے کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

10 ۔ اور یقینا ہم نے گزشتہ لوگوں کے بہت سے فرقوں اور گروہوں میں آپ سے پہلے بھی رسول بھیجے تھے۔