Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 19

سورة الحجر

وَ الۡاَرۡضَ مَدَدۡنٰہَا وَ اَلۡقَیۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ وَ اَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ مَّوۡزُوۡنٍ ﴿۱۹﴾

And the earth - We have spread it and cast therein firmly set mountains and caused to grow therein [something] of every well-balanced thing.

اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا ہے اور اس پر ( اٹل ) پہاڑ ڈال دیئے ہیں اور اس میں ہم نے ہرچیز ایک معین مقدار سے اگادی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We have spread out the earth, and have placed firm mountains in it, and caused all kinds of things to grow in it, in due proportion. Allah mentions His creation of the earth and how He spread it out, and the firm mountains, valleys, lands and sands that he has placed in it, and the plants and fruits that He causes to grow in their appropriate locations. مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ all kinds of things in due proportion. Ibn Abbas said that; this means with their predetermined proportions. This was also the opinion of Sa`id bin Jubayr, Ikrimah, Abu Malik, Mujahid, Al-Hakim bin Utaybah, Al-Hasan bin Muhammad, Abu Salih and Qatadah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٠ ١] ہر چیز کی پیدائش اور افزائش اللہ کے مقررہ اندازے کے مطابق ہی ہوسکتی ہے :۔ موجودہ تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ نباتات کی ہر نوع میں تناسل کی اس قدر زبردست طاقت ہے کہ اگر صرف ایک ہی پودے کو زمین میں بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا موقع دیا جائے تو چند ہی سالوں میں اسی جنس کے پودے تمام روئے زمین پر پھیل جائیں اور کسی دوسری قسم کے پودے کے لیے کوئی جگہ باقی نہ رہے اور یہ حکیم وعلیم اور قادر مطلق کا سوچا سمجھا اندازہ ہی ہے جس کے مطابق بیشمار قسم کی نباتات اس زمین پر اگ رہی ہے اور ہر نوع کی پیداوار اپنی ایک مخصوص حد تک پہنچ کر رک جاتی ہے مزید یہ کہ ہر نوع کی پیداوار کو اس علاقہ کی ضرورت اور وہاں کے لوگوں کی طبیعت کے مطابق پیدا کیا جاتا ہے۔ بالکل یہی صورت انسان کے نطفہ کی ہے۔ اس کے ایک دفعہ کے انزال میں بارآور کرنے والے اتنی کثیر تعداد میں جرثومے پائے جاتے ہیں جو تمام دنیا کی عورتوں کو بار آور کرسکتے ہیں۔ یہ بس اللہ کی حکمت ہی ہے کہ وہ جتنے انسان پیدا کرنا چاہتا ہے اتنے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ پھر ہر چیز زمین سے خوراک حاصل کرکے بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہے لیکن وہ بھی ایک مخصوص حد تک پہنچ کر رک جاتی ہے مثلاً آج کل انسان عموماً پانچ سے چھ فٹ تک لمبا ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی انسان دوگنی خوراک کھا کر بارہ فٹ لمبا ہوجائے۔ یہی حال دوسری مخلوق کا ہے خواہ یہ نباتات کی قسم سے ہو یا حیوانات کی قسم سے یا انسان ہو۔ غرض جاندار کیا اور بےجان کیا۔ ہر چیز کے ہر ہر پہلو سے تعلق رکھنے والی اللہ نے حدیں مقرر کر رکھی ہیں جن سے وہ تجاوز نہیں کرسکتیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا : اب زمین اور اس پر پیدا کردہ اشیاء کو توحید کی دلیل کے لیے بیان کیا جا رہا ہے۔ ” مَدَدْنٰهَا “ ” مَدَّ یَمُدُّ “ (ن) کا معنی ہے کھینچنا، پھیلانا۔ جب ہم زمین کی وسعت اور پھیلاؤ کو دیکھتے ہیں تو وہ اتنی ہے کہ اس پر چلنے پھرنے، رہنے، کاشت کرنے، مکان یا سڑکیں بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی، مگر آنکھوں کو اس کی انتہا نظر نہیں آتی، خواہ کتنا سفر کرلیں۔ یہ پھیلاؤ اور مدّ دلیل ہے کہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے گول بنایا ہے، ورنہ اگر یہ مربع یا کسی اور شکل کی ہوتی تو یہ پھیلاؤ کسی جگہ جا کر ختم ہوجاتا، اب تو گول زمین کی تصویریں بھی آچکی ہیں اور تجربے سے بھی یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے، اس کے باوجود اس کا جھکاؤ ایسا عجیب ہے کہ نہ نظر آتا ہے اور نہ اس کلیے میں کوئی فرق پڑتا ہے کہ ” پانی اپنی سطح ہموار رکھتا ہے “ مگر سیکڑوں برس پہلے اس حقیقت کو وہی بیان کرسکتا تھا جس نے اسے پیدا کیا اور پھیلایا ہے۔ وَاَلْقَيْنَا فِيْهَا : ” رَوَاسِيَ “ ” رَاسِیَۃٌ“ کی جمع ہے جو ” رَسَا یَرْسُوْ “ (ن) کا اسم فاعل ہے، جس کا معنی کسی بھاری چیز کا گڑا ہوا ہونا ہے۔ مراد پہاڑ ہیں جن کا اکثر حصہ زمین کے اندر اور باقی باہر ہوتا ہے۔ اس سے ایک دوسری حقیقت بھی ثابت ہوتی ہے کہ زمین کو متحرک بنایا گیا ہے، تبھی اس پر بھاری پہاڑ زمین کی گردش میں توازن رکھنے کے لیے گاڑ دیے گئے، تاکہ تیز رفتاری کے باوجود اس میں لرزش اور تھرتھراہٹ پیدا نہ ہو، جیسا کہ گاڑی کے پہیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لیے ان کی مختلف جگہوں پر ضرورت کے مطابق لوہے وغیرہ کے ٹکڑے لگا دیے جاتے ہیں۔ ایک اور آیت میں بھی یہ اشارہ موجود ہے : (وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِىَ تَمُــرُّ مَرَّ السَّحَابِ ) [ النمل : ٨٨] ” اور تو پہاڑوں کو دیکھے گا، انھیں گمان کرے گا کہ وہ جمے ہوئے ہیں، حالانکہ وہ بادلوں کے چلنے کی طرح چل رہے ہوں گے۔ “ وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ :” فِيْهَا “ یعنی زمین میں ہر چیز اتنی اگائی اور پیدا کی جتنی اس کی ضرورت تھی، نہ کسی چیز کو بلاضرورت پیدا کیا اور نہ ایک خاص حد سے بڑھنے دیا۔ ” فِيْهَا “ میں ضمیر جبال (پہاڑوں) کے لیے بھی ہوسکتی ہے، یعنی پہاڑوں کے اندر ہر چیز یعنی معدنیات وغیرہ پورے اندازے سے پیدا کیں۔ (شوکانی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Divine Wisdom: Balanced Provision for Human Needs One sense of the expression: مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ (everything in balance - 19) is what has been taken in the present translation of the text, that is, it was in His infinite wisdom that He caused everything that grows to grow in a determined measure, not less than that which would have made life difficult, and not too much which would have also brought diffi¬culties of a different nature. If grains like wheat and rice and the best of fruits around were to grow in such excess that stockpiles of them remain behind even after their liberal consumption by human beings and ani¬mals, then, it is obvious that they would go bad, or their possible storage (in ideal natural state) will be difficult under varying conditions, and if they had to be dumped, then, not much space will be left for such mega dumpings. This tells us that it was also within the power of Allah Ta’ ala that He would have caused grains and fruits on which human life depends to grow in such abundance that everyone would have them free everywhere so much so that, despite their care-free use, stores upon stores of them would have kept lying around. But, this situation could have turned into a punishment for human beings, therefore, these were provided in a par¬ticular measure and balance so that their worth and value remains ac¬tively recognized, and that they are not left over only to go to waste ei¬ther. And this expression: مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ (everything in balance) could also be taken in the sense that Allah Ta’ ala has created everything that grows in a suitable and proportionate manner which gives it beauty and attraction. Trees are different, so are their trunks, branches, leaves, flowers and fruits. Different are their sizes, shapes, colours and tastes. at one readily sees is their happy balance and delightful looks. Everyone enjoys having them around. But, a full comprehension of the wisdom which has gone into their making is not possible for any human being.

خلاصہ تفسیر : اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس (زمین) میں بھاری بھاری پہاڑ ڈال دیئے اور اس میں ہر قسم کی (ضرورت کی پیداوار) ایک معین مقدار سے اگائی اور ہم نے تمہارے واسطے اس (زمین) میں معاش کے سامان بنائے (جس میں ضروریات زندگی کی تمام چیزیں داخل ہیں جو کھانے پینے پہننے اور رہنے سہنے سے متعلق ہیں) اور (یہ سامان معاش اور ضروریات زندگی صرف تم کو ہی نہیں دیا بلکہ) ان کو بھی دیا جن کو تم روزی نہیں دیتے (یعنی وہ تمام مخلوقات جو ظاہر میں بھی تمہارے ہاتھ سے خوردو نوش اور زندگی گذارنے کا سامان نہیں پاتے ظاہر اس لئے کہا کہ گھر کے پالتو جانور بکری، گائے، بیل، گھوڑا، گدھا وغیرہ بھی اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے اپنی روزی اور ضروریات معاش حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے پاتے ہیں مگر ظاہری طور پر ان کے خوردو نوش اور رہائش کا انتظام انسانوں کے ہاتھوں ہوتا ہے ان کے علاوہ تمام دنیا کے بری اور بحری جانور، پرندے اور درندے ایسے ہیں جن کے سامان معاش میں کسی انسانی ارادے اور عمل کا کوئی دخل اور شائبہ بھی نہیں پایا جاتا اور یہ جانور اتنے بےحد و بیشمار ہیں کہ انسان نہ ان سب کو پہچان سکتا ہے نہ شمار کرسکتا ہے) اور جتنی چیزیں (ضروریات زندگی سے متعلق ہیں ہمارے پاس سب کے خزانے کے خزانے (بھرے پڑے) ہیں اور ہم (اپنی خاص حکمت کے مطابق) اس (چیز) کو ایک معین مقدار سے اتارتے رہتے ہیں اور ہم ہی ہواؤں کو بھیجتے رہتے ہیں جو بادل کو پانی سے بھر دیتی ہیں پھر ہم ہی آسمان سے پانی برساتے ہیں پھر وہ پانی تم کو پینے کو دیتے ہیں اور تم اس کو ذخیرہ کر کے رکھنے والے نہ تھے (کہ اگلی بارش تک اس ذخیرہ کو استعمال کرتے رہتے) اور ہم ہی ہیں کہ زندہ کرتے ہیں اور مارتے ہیں اور (سب کے مرنے کے بعد) ہم ہی باقی رہ جاویں گے اور ہم ہی جانتے ہیں تم میں سے آگے بڑھ جانے والوں کو اور ہم جانتے ہیں پیچھے رہنے والوں کو اور بیشک آپ کا رب ہی ان سب کو (قیامت میں) محشور فرماوے گا (یہ اس لے فرمایا کہ اوپر توحید ثابت ہوئی ہے اس میں منکر توحید کی سزاء کی طرف اشارہ کردیا) بیشک وہ حکمت والا ہے (ہر شخص کو اس کے مناسب بدلہ دے گا اور) علم والا ہے (سب کے اعمال کی اس کو پوری خبر ہے) معارف و مسائل : حکمت الہیہ ضروریات معاش میں تناسب وموزونیت : مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ کا ایک مفہوم تو وہی ہے جو ترجمہ میں لیا گیا ہے کی بتقاضائے حکمت ہر اگنے والی چیز کی ایک مقدار معین اگائی جس سے کم ہوجاتی تو زندگی میں دشواریاں پیدا ہوجاتیں اور زیادہ ہوجاتی تو بھی مشکلات پیدا کرتی انسانی ضرورت کے گندم اور چاول وغیرہ اور بہتر سے بہتر عمدہ پھل اگر اتنے زیادہ پیدا ہوجائیں جو انسانوں اور جانوروں کے کھانے پینے کے بعد بھی بہت بچ رہیں تو ظاہر ہے کہ وہ سڑیں گے ان کا رکھنا بھی مشکل ہوگا اور پھینکنے کے لئے جگہ نہ رہے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں تو یہ بھی تھا کہ جن دانوں اور پھلوں پر انسان کی زندگی موقوف ہے ان کو اتنا زیادہ پیدا کردیتے کہ ہر شخص کو ہر جگہ مفت مل جایا کرتے اور بےفکری سے استعمال کرنے کے بعد بھی ان کے بڑے ذخیرے پڑے رہتے لیکن یہ انسان کے لئے عذاب ہوجاتا اس لئے ایک خاص مقدار میں نازل کئے گئے کہ ان کی قدر و قیمت بھی باقی رہے اور بیکار بھی نہ بچیں۔ اور مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمام اگنے والی چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تناسب اور موزونیت کے ساتھ پیدا کیا ہے جس سے اس میں حسن اور دل کشی پیدا ہوتی، مختلف رنگ اور ذائقے کے پیدا کئے گئے جس کے تناسب اور حسین منظر سے تو انسان فائدہ اٹھاتا ہے مگر ان کی تفصیلی حکمتوں کا ادراک کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَاَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ 19؀ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ مد أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] . ( م د د ) المد کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ رسا يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] ، وقال : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] ، أي : جبالا ثابتات، وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات/ 32] ، ( ر س و ) رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] اور انچے انچے پہاڑ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات/ 32] اور پہاڑوں کو ( اس میں گاڑ کر ) پلادیا ۔ نبت النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] ( ن ب ت ) النبت والنبات ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ وزن الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً [ الكهف/ 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ( و زن ) الوزن ) تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩) اور ہم نے زمین کو پانی پر پھیلایا اور اس زمین پر بھاری بھاری پہاڑ ڈال دیے جو اس کے لیے میخیں ہوگئے اور ہم نے ان پہاڑوں یا زمین میں بنائی ہوئی چیزیں اور ہر قسم کے پھل ایک مقررہ مقدار سے اگائے یا یہ مطلب ہے کہ تمام چیزیں پیدا کیں جن کا وزن کیا جاتا ہے جیسا کہ سونا، چاندی، لوہا، پیتل وغیرہ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَاَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ ) زمین کے یہ لنگر پہاڑ ہیں جن کے بارے میں قرآن بار بار کہتا ہے کہ یہ زمین کی حرکت کو متوازن رکھنے (Isostsasy) کا ایک ذریعہ ہیں۔ (وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ ) کائنات کے اس خدائی نظام میں ہرچیز کی مقدار اور تعداد اس حد تک ہی رکھی گئی ہے جس حد تک اس کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی چیز اس مقررہ حد سے بڑھے گی تو وہ اس نظام میں خلل کا باعث بنے گی۔ مثلاً بعض مچھلیوں کے انڈوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ یہ تمام انڈے اگر مچھلیاں بن جائیں تو چند ہی سالوں میں ایک مچھلی کی اولاد اس زمین کے حجم سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جائے۔ بہر حال اس کائنات کے نظام کو درست رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرچیز کو ایک طے شدہ اندازے اور ضرورت کے مطابق رکھا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13. The growth of every kind of plant in a limited extent is another sign of the wisdom and power of Allah. For the generative power of every vegetable plant is so great that if free growth had been allowed to even one kind of plant, it would have covered the whole surface of the earth. But it is by the design of the All-Wise and All-Powerful Creator that every kind of vegetable is produced in a balanced measure. There is another aspect of the vegetable life. Each and every kind of it is allowed to grow only to a fixed size, height, and thickness, which is a proof of the fact that the Creator himself prescribed the structure, the shape, the size, the height, the leaves and branches, and the number of each and every plant, and no plant is allowed to go beyond any of these fixed limits.

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :13 اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے ایک اور اہم نشان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ نباتات اور ہر نوع میں تناسُل کی اس قدر زبردست طاقت ہے کہ اگر اس کے صرف ایک پودے ہی کی نسل کو زمین میں بڑھنے کا موقع مل جاتا تو چند سال کے اندر روئے زمین پر بس وہی وہ نظر آتی ، کسی دوسری قسم کی نباتات کے لیے کوئی جگہ نہ رہتی ۔ مگر یہ ایک حکیم اور قادر مطلق کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے مطابق بے حد و حساب اقسام کی نباتات اس زمین پر اگ رہی ہیں اور ہر نوع کی پیداوار اپنی ایک مخصوص حد پر پہنچ کر رک جاتی ہے ۔ اسی منظر کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہر نوع کی جسامت ، پھیلاؤ ، اٹھان اور نشوونما کی ایک حد مقرر ہے جس سے نباتات کی کوئی قسم بھی تجاوز نہیں کر سکتی ۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ہر درخت ، ہر پودے اور ہر بیل بوٹے کے لیے جسم ، قد ، شکل ، برگ و بار اور پیداوار کی ایک مقدار پورے ناپ تول اور حساب و شمار کے ساتھ مقرر کر رکھی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: قرآن کریم نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ شروع میں جب زمین کو سمندر پر بچھایا گیا تو وہ ڈولتی تھی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پیدا فرمائے ؛ تاکہ وہ زمین کو جما کر رکھیں، دیکھئے سورۃ نحل آیت نمبر : ١٥

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٩۔ ٢٠۔ آسمان چاند سورج تاروں کے پیدا کرنے کا حال بیان کر کے زمین کے پیدا کرنے کا ذکر کیا کہ ہم نے زمین کو مشرق سے مغرب تک اور جنوب سے شمال تک پانی پر بچھا دیا ہے اور اس پر جا بجا پہاڑوں کے بوجھ رکھ دئیے ہیں اور خوب اچھی طرح مضبوط کردیا ہے جس طرح کیلیں ٹھونک کر تخت وغیرہ مضبوط بنائے جاتے ہیں اور زمین میں سے طرح طرح کی اشیاء پھل میوے ترکاریاں غلے روٹی ان اسی طرح پہاڑوں میں سے چاندی سونے لوہے وغیرہ کی کانیں غرض ہر چیز نہایت موزو نیت سے پیدا کی اور اس میں تمہاری روزی رکھی ہے تم بھی کھاتے پیتے ہو اور اپنے بال بچوں کو بھی کھلاتے پلاتے ہو اپنے جانوروں کو بھی چراتے ہو اور جس مخلوق کو تم جانتے بھی نہیں کہ کہاں ہیں اور کیا ہیں ان کی بھی روزی خدا نے اسی زمین میں رکھی ہے یہ اسی خدا کا کام ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال لونڈی غلاموں اور سواری کے جانوروں کو بھی ہم دیتے ہیں تو کھاتے ہیں اگر ہم نہیں دیں گے تو بھوکے مریں گے یہ گمان تمہارا محض غلط ہے سب کی روزی خدا کے ہاتھ میں ہے وہی تم سے دلواتا ہے تو تم کیا دے سکتے ہو۔ سورت النمل میں آوے گا کہ جب زمین پانی پر بچھائی گئی تو ملتی تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے زمین کے خوب جم جانے کے لئے اس میں پہاڑ ٹھونکے۔ صحیح بخاری ١ ؎ کے حوالہ سے سعید بن زید (رض) کے قصہ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص بالشت بھر زمین بھی کسی کی ناحق طور پر دبا لیوے گا تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کے اسی قدر ٹکڑے کا ایک طوق بنایا جا کر اس شخص کے گلے میں ڈالا جاوے گا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد اور ترمذی میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک زمین سے دوسری زمین تک پانسو برس کے راستے کا فاصلہ ٢ ؎ ہے۔ سورت نحل کی آیت { والقی فی الارض رواسی ان تمید بکم } اور اوپر کی حدیثوں کو ان آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اوپر تلے سات زمینیں پانی پر لمبائی میں بچھائی گئی ہیں ایک زمین سے دوسری زمین پانسو برس کے راستے پر ہے اس سے اہل ہیئت کے اس قوت کا ضعیف ہونا نکلتا ہے کہ ایک زمین سے دوسری زمین تک کچھ فاصلہ نہیں ہے اور بعضے متکلمین نے یہ جو لکھا ہے کہ زمین ایک ہے سات نہیں ہیں یہ قول بھی سعید بن زید (رض) کی حدیث کے مخالف پڑتا ہے۔ معایش معیشت کی جمع ہے کھانے پینے پہننے کی وہ سب چیزیں معیشت کہلاتی ہیں جن پر آدمی کی زندگی کا مدار ہے مسند امام احمد اور مستدرک حاکم میں معتبر سند سے حضرت علی (رض) کی روایت ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے سے آدمی کا رزق ٣ ؎ بڑھتا ہے۔ صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں ثوبان (رض) کی معتبر حدیث ہے کہ کثرت گناہوں کے سبب سے آدمی کے رزق گھٹ جاتا ٤ ؎ ہے۔ ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ جس طرح آدمی کی معیشت کی چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں اسی طرح ان کے گھٹتے اور بڑھتے کے اسباب بھی دنیا میں پیدا کئے ہیں۔ ١ ؎ ص ٣٣٢ ج ١ باب اثم من ظلم شیأمن الارض۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص۔ ٥١ باب بدء الخلق الخ۔ ٣ ؎ الترغیب ص ١٢٩ ج ٢ الترغی فی الرحم۔ ٤ ؎ الترغیب ص ١٢٣ ج ٢ باب التزھیب من ارتکاب النفائر و المحضرات من الذنوب الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:19) مددنھا۔ مددنا۔ ماضی جمع متکلم۔ ہم نے پھیلایا۔ ہم نے پھیلا دیا۔ ھا ضمیر کا مرجع الارض ہے۔ المد کے اصل معنی (لمبائی میں) کھینچنے کے ہیں اور بڑھانے کے ہیں۔ اسی سے عرصہ دراز کو مدّۃ کہتے ہیں۔ اور قرآن مجید میں ہے الم تر الی ربک کیف مد الظل (25:45) تو نے نہیں دیکھا کہ تیرا رب سائے کو کس طرح دراز کر کے پھیلا دیتا ہے۔ القینا۔ ماضی جمع متکلم۔ ہم نے ڈالا۔ القاء (افعال) سے۔ فیھا۔ ای فی الارض ۔ اس میں یعنی زمین میں۔ رواسی۔ راسیۃ کی جمع۔ بوجھ۔ پہاڑ۔ رسو مادہ۔ رسا الشیٔ (باب نصر) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں۔ ارسی (افعال) معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے وقدور راسیات۔ (34:13) اور بڑی بڑی بھاری دیگیں جو ایک جگہ جمع رہیں۔ رواسی شمخت۔ (77:27) اونچے اونچے پہاڑ۔ پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے۔ موزون۔ اسم مفعول واحد مذکر۔ شیٔ کی صفت ہے الوزن (تولنا) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں۔ عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے ہیں جو ترازو کے ذریعہ معین کی جائے جیسے قرآن مجید میں ہے وزنوا بالقسطاس المستقیم (17:35) ترازو سیدھی رکھ کر تو لا کرو۔ اور اقمیموا الوزن بالقسط۔ (55:9) اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو۔ لہٰذا موزون بمعنی اندازہ کی ہوئی۔ جانچی ہوئی۔ مناسب۔ اور وانبتنا فیھا من کل شیء موزون۔ کے معنی ہوئے : اور ہم نے اس میں ہر مناسب چیز اگائی ۔ یاموزون۔ مقدر بمقدار معین تقتضیہ حکمتہ۔ ایک مقررہ اندازہ کے مطابق جس کو اس کی حکمت متقاضی ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا۔ اور اس میں ہم نے ہر ایک چیز ایک اندازے کے مطابق اگائی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ دلائل سماوی کے بعد اب قدرت کے ان دلائل کا بیان ہے جو زمین پر ہیں۔ (رازی) ۔ یعنی ہر چیز اتنی اگائی اور پیدا کی جتنی اسکی ضرورت تھی نہ کسی چیز کو بلا ضرورت پیدا کیا اور نہ ایک خاص حد سے بڑھنے دیا۔ یا ” فیھا میں ” ھا “ کی ضمیر جبال کے لئے ہے یعنی پہاڑوں کے اندر ہر چیز یعنی معدنیات پورے اندازے سے پیدا کیں۔ (شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آسمان کے ذکر کے بعد زمین کا تذکرہ اور ظاہری جسامت کے حوالے سے سب سے بڑی مخلوق پہاڑوں کا بیان۔ سورۃ الانبیاء کی آیت ٣٠ میں زمین و آسمان کی ابتدائی ہیئت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ کیا اللہ کے منکر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اس نے زمین و آسمان کو کس طرح ایک دوسرے سے الگ کیا۔ حالانکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ سورة السجدۃ کی آیت ٩ تا ١٣ میں قدرے تفصیل بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دن میں بنایا۔ اس کے بعد اس پر پہاڑ نصب کیے پھر دو دن میں آسمانوں کی تکمیل کی اور ہر آسمان کے متعلقات کو انہیں اپنے اپنے مقام پر ٹھہرنے کا حکم صادر فرمایا۔ بعد ازاں آسمان دنیا کو ستاروں کے ساتھ خوبصورت کیا اور اس کی حفاظت کا بندوبست فرمایا۔ یہ سب غالب اور ہر چیز کا علم رکھنے والے اللہ کے فرمان کے عین مطابق ہوا۔ یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے زمین کو پھیلا کر اس میں پہاڑوں کا ایک وسیع سلسلہ جما دیا اور زمین میں ہر چیز کو مقررہ مقدار اور معیار سے پیدا کیا۔ اس میں لوگوں کی معیشت کا بندوبست فرمایا اور ان کے رزق کا بندو بست بھی کیا جن کا رزق تمہارے ذمہ نہیں ہے۔ یہاں زمین کو پھیلانے کا ذکر کرنے کے بعد پہاڑوں اور زمین کی نباتات کا ذکر فرمایا ہے۔ ان آیات میں دو باتوں کا ذکر آیا ہے۔ ایک تو ہر چیز کو نہایت متناسب اور موزوں انداز سے پیدا کیا گیا ہے۔ جس کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ ہر چیز اپنے تخلیقی معیار کو پہنچ کر خود بخود ایک مقام پر جا کر کے ٹھہر جاتی ہے۔ انسان اپنی تخلیق پر غور کرے تو اس حقیقت کو جان کر ششدر رہ جاتا ہے۔ کہ اس کا ہر عضو تخلیق کے مقررہ معیار پر پہنچ کر ایک موزوں شکل و صورت میں ٹھہر جاتا ہے۔ اگر خالق کائنات کا ضابطۂ تخلیق اپنی موزونیت کے اصول پر نہ رہے تو انسان کے ناک، کان اور آنکھیں کتنی خوف ناک اور بےڈھنگی ہوسکتی تھیں۔ ایک انسان کے باقی سب اعضاء موزوں اور مناسب شکل و صورت میں ہوں۔ لیکن اس کی ناک ہی صرف آدھا فٹ لمبی ہوجائے۔ تو وہ کتنا خوفناک انسان ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا کرشمہ اور اس کا ناقابل فراموش احسان ہے کہ اس نے ہر چیز کو ایک متعین شکل و صورت اور مقدار سے پیدا کیا ہے۔ جنس انسانی کے اعتبار سے اگر دنیا میں ہمیشہ مردوں یا عورتوں کی بہتات رہتی تو سلسلۂ تخلیق کس طرح متناسب رہ سکتا تھا۔ یہی صورت حال نباتات کی ہے۔ ایک علاقے میں ایک جنس کی پیداوار زیادہ ہے تو دوسرے علاقے میں کسی دوسری چیز کی پیداوار زیادہ ہوگی تاکہ رسد و نقل کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کریں۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ زمین کو صرف فرش کے طور پر ہی نہیں پھیلایا گیا بلکہ اس میں انسانوں کی معیشت اور رزق کا نہایت مناسب نظام قائم کردیا گیا ہے۔ انسان تو اپنی روزی خود کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن زمین اور اس کے اندر یہاں تک کہ فضاؤں میں بسنے والی مخلوق کو صرف اللہ تعالیٰ رزق مہیا کرتا ہے۔ ہر کسی کی روزی اس کی ضرورت کے مطابق پہنچائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں لا محدود خزانے ہیں جسے وہ ہر وقت اور ہر دور میں مناسب اور اپنے ہاں متعین مقدار کے مطابق نازل کرتا رہتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو پھیلایا اور اس میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ زمین میں ہر چیز اندازے کے مطابق اگاتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر کھانے والے کا رزق پیدا کر رکھا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز متعین مقدار کے مطابق نازل فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے اور اس کے پاس ہر چیز کے لا محدود خزانے ہیں : ١۔ ہم نے اس زمین میں تمہارے لیے معاش کا سامان بنایا اور ان کے لیے بھی جنہیں تم روزی نہیں دیتے۔ (الحجر : ٢٠) ٢۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی رزق کو فراخ اور تنگ کرتا ہے۔ (الزمر : ٥٢) ٣۔ زمین میں ہر قسم کے چوپاؤں کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔ (ھود : ٢) ٤۔ بیشک اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ (الذاریات : ٥٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ١٩ تا ٢٠ اس کائنات کی فضاؤں میں ایک قسم کی وسعت اور عظمت پائی جاتی ہے۔ آسمانوں میں بڑے بڑے قلعوں کا ذکر ہے۔ لفظ بروج کے تلفظ میں بھی ایک قسم کا زمزمہ اور عظمت ہے۔ “ شہاب ” کو لفظ مبین سے بیان کیا گیا۔ اس میں ایک عظمت کی طرف اشارہ ہے۔ زمین میں پہاڑوں کو رواسی کہا گیا اور ان پہاڑوں کے بھاری بھرکم ہونے کا اظہار لفظ الفینا سے کیا گیا۔ پھر نباتات کو موزون کی صفت سے موصوف کیا گیا۔ موزون لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے بھاری بھرکم ہے۔ اگرچہ یہاں مفہوم یہ ہے کہ اپنی پیچیدہ ساخت کے اعتبار سے وہ محکم اور متوازن ہے۔ پھر عظمت کی اس فضا میں معیشت کے بجائے معایش کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور اسے نکرہ کی صورت میں مجمل چھوڑا گیا ہے۔ پھر من لستم لہ برزقین (١٥ : ٢٠) میں بھی تمام زندہ مخلوقات کی طرف اشارہ کردیا گیا جو اس کرۂ ارض پر پائی جاتی ہیں۔ غرض تعبیرات ، الفاظ اور مفاہیم ، ہر اعتبار سے اس منظر میں عظمت ہی عظمت پائی جاتی ہے۔ یہ تکوینی آیت ہے۔ یہ آفاق کائنات سے گزر کر انفس کو بھی لیتی ہے۔ یہ وسیع تر سرزمین جو دعوت نظارہ اور دعوت سپردے رہی ہے ، یہ عظیم الشان پہاڑ جو سینہ گیتی پر ابھرے ہوئے ہیں اور یہ قسم قسم کے نباتات جو اس میں اگے ہوئے ہیں اور پھر بات اس پہلو پر مرکوز ہوتی ہے کہ یہ سب کے سب انسانوں کے مفاد کے لئے ہیں۔ اس کرۂ ارض پر زندگی کا سروسامان اور نوع نوع کی خوراکیں ، آیت میں ان کو مجمل چھوڑ دیا گیا ہے تا کہ ان کی وسعت اور عظمت کی طرف اشارہ ہو ، یہ سب کچھ اے انسان ، تیرے لئے ہے اور پھر تمہارے لیے ایسی مخلوقات بھی پیدا کی گئی ہیں کہ جو تمہارے لیے مفید ہیں اور تم ان کو پالیتے نہیں ہو۔ اللہ اور صرف اللہ ان کو پالتا ہے۔ تم اس طرح ایک امت اور مخلوق ہو ، جس طرح دوسری مخلوقات ہیں جن کی تعداد اور انواع بھی کسی کو معلوم نہیں ہے۔ یہ نوع نوع کی مخلوق اللہ کے رزق خاص پر پلتی ہے۔ اور اللہ نے ، اے انسان انہیں مفت تمہاری خدمت میں لگایا ہے۔ پھر بعض صنف مخلوقات ایسی ہے کہ اللہ کے رزق پر پلتی ہے اور ان پر کوئی فرائض نہیں ہیں۔ یہ تمام انواع و اقسام کی مخلوقات اور ان کے لئے قسم قسم کا رزق ، اللہ تعالیٰ نے پورا پورا ، اس کائنات میں پیدا کر رکھا ہے اور یہ سب مخلوق اور ان کا سامان زیست اللہ کے دست قدرت اور تصرف ذاتی میں ہے اور اللہ اپنی سنت کے مطابق جس طرح چاہتا ہے تمام امور میں تصرف فرماتا ہے اور اپنے احکام اپنی مخلوقات کے اندر جاری فرماتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

زمین کا پھیلاؤ اور اس کے پہاڑ اور درخت معرفت الٰہی کی نشانیاں ہیں آسمان کے بروج اور آسمان کی زینت اور شیاطین سے ان کی حفاظت کا ذکر فرمانے کے بعد زمین کے پھیلانے کا اور اس میں بھاری بھاری پہاڑ ڈال دینے کا تذکرہ فرمایا، زمین بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی مخلوق ہے زمین پر لوگ بستے ہیں اور آسمان کی طرف بار بار دیکھتے ہیں دونوں اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ پر دلالت کرتے ہیں اور سورة لقمان میں فرمایا (وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِکُمْ ) (اور اللہ نے زمین میں بھاری بھاری پہاڑ ڈال دئیے تاکہ وہ تمہیں لے کر حرکت نہ کرنے لگے۔ ) تفسیر روح المعانی ص ٢٩ ج ١٤ میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پانی پر پھیلا دیا تو وہ کشتی کی طرح ڈگمگانے لگی لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس میں بھاری پہاڑ پیدا فرما دئیے تاکہ وہ حرکت نہ کرے ان پہاڑوں کے بارے میں سورة نبا میں فرمایا ہے : (اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِہٰدًا وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا) (کیا ہم نے زمین کو فرش اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا) یہ استفہام تقریری ہے مطلب یہ ہے کہ ہم نے پہاڑوں کو زمین کی میخیں یعنی کیلیں بنا دیا یعنی پہاڑوں کو زمین میں گاڑ دیا جس سے وہ ٹھہر گئی لیکن یہ ایک سبب ظاہری کے طور پر ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی ہے تو پہاڑ بھی پھٹ جاتے ہیں اور زمین بھی ہل جاتی ہے اور پہاڑ اور زمین حرکت کرنے لگتے ہیں پھر فرمایا (وَاَنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ ) (اور ہم نے زمین میں ہر قسم کی چیز ایک معین مقدار سے اگائی) موزون کے بارے میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ای مقدر بمقدار معین تقتضیہ الحکمۃ فھو مجاز مستعمل فی لازم معناہ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

19 ۔ اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس میں بھاری بھاری پہاڑ رکھ دیئے اور ہم نے زمین میں ہر چیز ایک معین مقدر سے اگائی ۔ یعنی زمین میں ہر قسم کی نباتات کو ایک معین مقدار کے ساتھ اگایا اور ایک خاص تناسب اور حسن کے ساتھ اگایا۔