Commentary Divine Wisdom: Balanced Provision for Human Needs One sense of the expression: مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ (everything in balance - 19) is what has been taken in the present translation of the text, that is, it was in His infinite wisdom that He caused everything that grows to grow in a determined measure, not less than that which would have made life difficult, and not too much which would have also brought diffi¬culties of a different nature. If grains like wheat and rice and the best of fruits around were to grow in such excess that stockpiles of them remain behind even after their liberal consumption by human beings and ani¬mals, then, it is obvious that they would go bad, or their possible storage (in ideal natural state) will be difficult under varying conditions, and if they had to be dumped, then, not much space will be left for such mega dumpings. This tells us that it was also within the power of Allah Ta’ ala that He would have caused grains and fruits on which human life depends to grow in such abundance that everyone would have them free everywhere so much so that, despite their care-free use, stores upon stores of them would have kept lying around. But, this situation could have turned into a punishment for human beings, therefore, these were provided in a par¬ticular measure and balance so that their worth and value remains ac¬tively recognized, and that they are not left over only to go to waste ei¬ther. And this expression: مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ (everything in balance) could also be taken in the sense that Allah Ta’ ala has created everything that grows in a suitable and proportionate manner which gives it beauty and attraction. Trees are different, so are their trunks, branches, leaves, flowers and fruits. Different are their sizes, shapes, colours and tastes. at one readily sees is their happy balance and delightful looks. Everyone enjoys having them around. But, a full comprehension of the wisdom which has gone into their making is not possible for any human being.
خلاصہ تفسیر : اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس (زمین) میں بھاری بھاری پہاڑ ڈال دیئے اور اس میں ہر قسم کی (ضرورت کی پیداوار) ایک معین مقدار سے اگائی اور ہم نے تمہارے واسطے اس (زمین) میں معاش کے سامان بنائے (جس میں ضروریات زندگی کی تمام چیزیں داخل ہیں جو کھانے پینے پہننے اور رہنے سہنے سے متعلق ہیں) اور (یہ سامان معاش اور ضروریات زندگی صرف تم کو ہی نہیں دیا بلکہ) ان کو بھی دیا جن کو تم روزی نہیں دیتے (یعنی وہ تمام مخلوقات جو ظاہر میں بھی تمہارے ہاتھ سے خوردو نوش اور زندگی گذارنے کا سامان نہیں پاتے ظاہر اس لئے کہا کہ گھر کے پالتو جانور بکری، گائے، بیل، گھوڑا، گدھا وغیرہ بھی اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے اپنی روزی اور ضروریات معاش حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے پاتے ہیں مگر ظاہری طور پر ان کے خوردو نوش اور رہائش کا انتظام انسانوں کے ہاتھوں ہوتا ہے ان کے علاوہ تمام دنیا کے بری اور بحری جانور، پرندے اور درندے ایسے ہیں جن کے سامان معاش میں کسی انسانی ارادے اور عمل کا کوئی دخل اور شائبہ بھی نہیں پایا جاتا اور یہ جانور اتنے بےحد و بیشمار ہیں کہ انسان نہ ان سب کو پہچان سکتا ہے نہ شمار کرسکتا ہے) اور جتنی چیزیں (ضروریات زندگی سے متعلق ہیں ہمارے پاس سب کے خزانے کے خزانے (بھرے پڑے) ہیں اور ہم (اپنی خاص حکمت کے مطابق) اس (چیز) کو ایک معین مقدار سے اتارتے رہتے ہیں اور ہم ہی ہواؤں کو بھیجتے رہتے ہیں جو بادل کو پانی سے بھر دیتی ہیں پھر ہم ہی آسمان سے پانی برساتے ہیں پھر وہ پانی تم کو پینے کو دیتے ہیں اور تم اس کو ذخیرہ کر کے رکھنے والے نہ تھے (کہ اگلی بارش تک اس ذخیرہ کو استعمال کرتے رہتے) اور ہم ہی ہیں کہ زندہ کرتے ہیں اور مارتے ہیں اور (سب کے مرنے کے بعد) ہم ہی باقی رہ جاویں گے اور ہم ہی جانتے ہیں تم میں سے آگے بڑھ جانے والوں کو اور ہم جانتے ہیں پیچھے رہنے والوں کو اور بیشک آپ کا رب ہی ان سب کو (قیامت میں) محشور فرماوے گا (یہ اس لے فرمایا کہ اوپر توحید ثابت ہوئی ہے اس میں منکر توحید کی سزاء کی طرف اشارہ کردیا) بیشک وہ حکمت والا ہے (ہر شخص کو اس کے مناسب بدلہ دے گا اور) علم والا ہے (سب کے اعمال کی اس کو پوری خبر ہے) معارف و مسائل : حکمت الہیہ ضروریات معاش میں تناسب وموزونیت : مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ کا ایک مفہوم تو وہی ہے جو ترجمہ میں لیا گیا ہے کی بتقاضائے حکمت ہر اگنے والی چیز کی ایک مقدار معین اگائی جس سے کم ہوجاتی تو زندگی میں دشواریاں پیدا ہوجاتیں اور زیادہ ہوجاتی تو بھی مشکلات پیدا کرتی انسانی ضرورت کے گندم اور چاول وغیرہ اور بہتر سے بہتر عمدہ پھل اگر اتنے زیادہ پیدا ہوجائیں جو انسانوں اور جانوروں کے کھانے پینے کے بعد بھی بہت بچ رہیں تو ظاہر ہے کہ وہ سڑیں گے ان کا رکھنا بھی مشکل ہوگا اور پھینکنے کے لئے جگہ نہ رہے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں تو یہ بھی تھا کہ جن دانوں اور پھلوں پر انسان کی زندگی موقوف ہے ان کو اتنا زیادہ پیدا کردیتے کہ ہر شخص کو ہر جگہ مفت مل جایا کرتے اور بےفکری سے استعمال کرنے کے بعد بھی ان کے بڑے ذخیرے پڑے رہتے لیکن یہ انسان کے لئے عذاب ہوجاتا اس لئے ایک خاص مقدار میں نازل کئے گئے کہ ان کی قدر و قیمت بھی باقی رہے اور بیکار بھی نہ بچیں۔ اور مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمام اگنے والی چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تناسب اور موزونیت کے ساتھ پیدا کیا ہے جس سے اس میں حسن اور دل کشی پیدا ہوتی، مختلف رنگ اور ذائقے کے پیدا کئے گئے جس کے تناسب اور حسین منظر سے تو انسان فائدہ اٹھاتا ہے مگر ان کی تفصیلی حکمتوں کا ادراک کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔