Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 26

سورة الحجر

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿ۚ۲۶﴾

And We did certainly create man out of clay from an altered black mud.

یقیناً ہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا فرمایا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Substances from which Mankind and Jinns were created Allah says: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الاِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ وَالْجَأنَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ

خشک مٹی صلصال سے مراد خشک مٹی ہے ۔ اسی جیسی آیت ( خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ 14۝ۙ ) 55- الرحمن:14 ) ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ بو دار مٹی کو حما کہتے ہیں ۔ چکنی مٹی کو مسنون کہتے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تر مٹی ۔ اوروں سے مروی ہے بو دار مٹی اور گندھی ہوئی مٹی ۔ انسان سے پہلے ہم نے جنات کو جلا دینے والی آگ سے بنایا ہے ۔ سموم کہتے ہیں آگ کی گرمی کو اور حرور کہتے ہیں دن کی گرمی کو ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس گرمی کی لوئیں اس گرمی کا سترہواں حصہ ہیں ۔ جس سے جن پیدا کئے گئے ہیں ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ جن آگ کے شعلے سے بنائے گئے ہیں یعنی آگ سے بہت بہتر ۔ عمرو کہتے ہیں سورج کی آگ سے ۔ صحیح میں وارد ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے اور جن شعلے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جو تمہارے سامنے بیان کر دیا گیا ہے ۔ اس آیت سے مراد حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت و شرافت اور ان کے عنصر کی پاکیزگی اور طہارت کا بیان ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 مٹی کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے اس کے مختلف نام ہیں، خشک مٹی، بھیگی ہوئی، گوندھی ہوئی بدبودار خشک ہو کر کھن کھن بولنے لگے تو اور جب آگ سے پکا لیا جائے تو (ٹھیکری) کہلاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا جس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم خاکی کا پتلا مٹی سے بنایا گیا، جب وہ سوکھ کر کھن کھن کرنے لگا (صلصال) ہوگیا۔ تو اس میں روح پھونکی گئی، اسی طرح صلصالِ کو قرآن میں دوسری جگہ (فخار کی ماند کہا گیا ہے (خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ) 55 ۔ الرحمن :14) ' پیدا کیا انسان کو کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا '

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧ ١] آدم کی پیدائش مٹی سے ہوئی :۔ مٹی کے لیے عربی زبان میں عام لفظ تراب ہے جو ہر طرح کی مٹی پر بولا جاسکتا ہے۔ جیسے سیدنا آدم کے متعلق ایک مقام پر فرمایا : (خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ 59؀) 3 ۔ آل عمران :59) تاہم تراب کا لفظ عموماً خشک مٹی کے لیے بولا جاتا ہے اور انسان کے پتلے کی ساخت میں مٹی کی جن اقسام کا ذکر قرآن میں آیا ہے وہ یہ ہیں۔ طین یعنی گیلی مٹی یا وہ خشک مٹی جس میں پانی ملایا گیا ہو طین لازب چپک دار گیلی مٹی ( چکنی مٹی) اس کے بعد اسی مٹی کو حَمَاٍمَّسْنُوْنٍ کی شکل دی گئی یعنی ایسی مٹی یا گارا جو گل سڑ کر سیاہ رنگ کی ہوگئی ہو خمیر اٹھ رہا ہو اور بو پیدا ہوگئی ہو۔ ایسی ہی مٹی سے آدم کا پتلا بنایا گیا۔ پھر اسے حرارت یا آگ میں اس قدر تپایا گیا کہ وہ کھنکھنانے سے کھن کھن کی آواز پیدا کرتا ایسی مٹی کو صَلْصَالٍ اور صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ کا نام دیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کی پیدائش میں غالب عنصر مٹی ہی تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ ۔۔ : اس سورت میں آیت (١٦) (وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا ) سے دلائلِ توحید کا بیان چلا آ رہا ہے، جب اوپر کی آیات میں مختلف چیزوں کی تخلیق کو بطور دلیل ذکر کیا تو اب انسان کے پیدا کیے جانے کو بطور دلیل ذکر کیا جا رہا ہے، الغرض یہ دلائلِ توحید میں ساتویں قسم ہے۔ (کبیر) مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ : عربی زبان میں خشک مٹی کو ” تُرَابٌ“ کہتے ہیں، جب اسے بھگو دیا جائے تو وہ ” طِیْنٌ“ کہلاتی ہے، پھر جب مدت تک پڑی رہنے سے وہ سیاہ ہوجائے تو اسے ” حَمَاٍ “ کہتے ہیں، بدبو بھی آنے لگے تو ” حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ “ (بدبو دار کیچڑ) کہتے ہیں، پھر جب وہ خشک ہو کر کھن کھن بجنے لگے تو وہ ” صَلْصَالٍ “ کہلاتی ہے۔ ” مَّسْنُوْنٍ “ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جس کی تصویر بنائی گئی ہو، جیسا کہ ” سُنَّۃُ الْوَجْہِ “ کا معنی ” صُوْرَۃُ الْوَجْہِ “ آتا ہے اور ” مَّسْنُوْنٍ “ کا معنی ملائم و نرم بھی ہے۔ آیات و تفاسیر سے آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کی ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے پوری زمین سے خشک مٹی لی، جیسا کہ سورة آل عمران (٥٩) میں آدم (علیہ السلام) کو ” تُرَاب “ سے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور جیسا کہ ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَھَا مِنْ جَمِیْعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُوْ آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْھُمُ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْیَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ وَالسَّھْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ ) [ أبوداوٗد، السنۃ، باب في القدر : ٤٦٩٣۔ ترمذی : ٢٩٥٥۔ أحمد : ٤؍٤٠٠، ح : ١٩٦٠١، و صححہ الألباني ]” اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی سے پیدا فرمایا، جو اس نے ساری زمین سے لی، تو بنی آدم اس زمین کے اندازے کے مطابق وجود میں آئے، ان میں سرخ، سفید، سیاہ اور اس کے مابین لوگ ہیں اور نرم، سخت خبیث، طیب اور اس کے مابین بھی ہیں۔ “ پھر اس میں پانی ڈالا تو وہ ” طِیْنٌ“ ہوگئی، پھر اسے مدتوں پڑا رہنے دیا، جب وہ کالی سیاہ اور ملائم و نرم ہوگئی تو آدم (علیہ السلام) کا ڈھانچہ اور شکل و صورت بنائی، فرمایا : (وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ) [ الأعراف : ١١ ] جب وہ سوکھ کر کھن کھن بجنے لگا تو اس میں اپنی خاص پیدا کردہ روح پھونکی، جیسا کہ اس جگہ ” صَلْصَالٍ “ کا ذکر ہے اور اس کے خوب خشک ہونے کا ذکر سورة رحمن (١٤) میں ہے، فرمایا : (مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ) کہ وہ کھنکھنانے والی مٹی آگ میں پکی ہوئی مٹی کی طرح کھنکھنانے والی تھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : اور ہم نے انسان کو (یعنی اس نوع کی اصل اول آدم (علیہ السلام) کو) بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گارے کی بنی ہوئی تھی پیدا کیا (یعنی اول گاڑے کو خوب خمیر کیا کہ اس میں بو آنے لگی پھر وہ خشک ہوگیا کہ وہ خشک ہونے سے کھن کھن بولنے لگا جیسا مٹی کے برتن چٹکی مارنے سے بجا کرتے ہیں پھر اس خشک گارے سے آدم کا پتلا بنایا جو بڑی قدرت کی علامت ہے) اور جن کو (یعنی اس نوع کی اصل ابو الجان کو) اس کے قبل (یعنی آدم (علیہ السلام) کے قبل) آگ سے کہ وہ (غایت لطافت کی وجہ سے) ایک گرم ہوا تھی پیدا کرچکے تھے مطلب یہ کہ چونکہ اس آگ میں اجزائے دخانیہ نہ تھے اس لئے وہ مثل ہوا کے نظر نہ آتی تھی کیونکہ آگ کا نظر آنا اجزائے کثیفہ کے اختلاط سے ہوتا ہے اس کو دوسری آیت میں اس طرح فرمایا ہے وَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ) اور وہ وقت یاد کرنے قابل ہے جب آپ کے رب نے ملائکہ سے (ارشاد) فرمایا کہ میں ایک بشر کو (یعنی اس کے پتلے کو) بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گارے کی بنی ہوگی پیدا کرنے والا ہوں سو میں جب اس کو (یعنی اس کے اعضائے جسمانیہ کو) پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی (طرف سے) جان ڈال دوں تو تم سب اس کے روبرو سجدہ میں گر پڑنا سو (جب اللہ تعالیٰ نے اس کو بنا لیا تو) سارے کے سارے فرشتوں نے (آدم (علیہ السلام) کو) سجدہ کیا مگر ابلیس نے کہ اس نے اس بات کو قبول نہ کیا کہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ شامل کرنے ہو (یعنی سجدہ نہ کیا) اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابلیس تجھ کو کون سا امر باعث ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا کہنے لگا کہ میں ایسا نہیں کہ بشر کو سجدہ کروں جس کو آپ نے بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گارے کی بنی ہے پیدا کیا ہے (یعنی ایسے حقیر و ذلیل مادہ سے بنایا گیا ہے کیونکہ میں نورانی مادہ آتش سے پیدا ہوا ہوں تو نورانی ہو کر ظلمانی کو کیسے سجدہ کروں) ارشاد ہوا تو (اچھا پھر) آسمان سے نکل کیونکہ بیشک تو (اس حرکت سے) مردود ہوگیا اور بیشک تجھ پر میری) لعنت قیامت تک رہے گی (جیسا دوسری آیت میں ہے عَلَيْكَ اللَّعْنَتِی یعنی قیامت تک جو محل رحمت نہ ہو تو پھر قیامت میں تو مرحوم ہونے کا احتمال ہی نہیں پس جس وقت تک احتمال تھا اس کی نفی کردی اور اس سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اس میں تو مہلت مانگنے سے پہلے ہی مہلت دینے کا وعدہ ہوگیا بات یہ ہے کہ مقصود قیامت تک عمر دینا نہیں ہے کہ یہ شبہ ہو بلکہ مطلب یہ ہے کہ حیات دنیویہ میں تو ملعون ہے گو وہ قیامت تک ممتد کیوں نہ ہو) کہنے لگا (کہ اگر مجھ کو آدم کی وجہ سے مردود کیا ہے) تو پھر مجھ کو (مرنے سے) مہلت دیجئے قیامت کے دن تک (تاکہ ان سے اور ان کی اولاد سے خوب بدلہ لوں) ارشاد ہوا (جب تو مہلت مانگتا ہے) تو (جا) تجھ کو معین وقت کی تاریخ تک مہلت دی گئی کہنے لگا اے میرے رب بسبب اس کے کہ آپ کے ان بندوں کے جو ان میں منتخب کئے گئے ہیں (یعنی آپ نے ان کو میرے اثر سے محفوظ رکھا ہے) ارشاد ہوا کہ (ہاں) یہ (منتخب ہوجانا جس کا طریقہ اعمال صالحہ و اطاعت کاملہ ہے) ایک سیدھا راستہ ہے جو مجھ تک پہنچتا ہے (یعنی اس پر چل کر ہمارے مقرب ہوجاتا ہے) واقعی میرے ان (مذکور) بندوں پر تیرا ذرا بھی بس نہ چلے گا ہاں مگر جو گمراہ لوگوں میں تیری راہ پر چلنے لگے (تو چلے) اور (جو لوگ تیری راہ پر چلیں گے) ان سب کا ٹھکانا جہنم ہے جس کے سات دروازے ہیں ہر دروازہ (میں سے جانے) کیلئے ان لوگوں کے الگ الگ حصے ہیں (کہ کوئی کسی دروازے سے جائے گا کوئی کسی دروازے سے)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 26؀ۚ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے صلل أصل الصَّلْصَالِ : تردُّدُ الصّوتِ من الشیء الیابس، ومنه قيل : صَلَّ المسمارُ «3» ، وسمّي الطّين الجافّ صَلْصَالًا . قال تعالی: مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن/ 14] ، مِنْ صَلْصالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] ، والصُّلْصَلَةُ : بقيّةُ ماءٍ ، سمّيت بذلک لحکاية صوت تحرّكه في المزادة، وقیل : الصَّلْصَالُ : المنتن من الطین، من قولهم : صَلَّ اللحمُ ، قال : وکان أصله صَلَّالٌ ، فقلبت إحدی الّلامین، وقرئ : (أئذا صَلَلْنَا) «1» أي : أنتنّا وتغيّرنا، من قولهم : صَلَّ اللّحمُ وأَصَلَّ. ( ص ل ل ) اصل میں صلصان کے معنی کسی خشک چیز سے آواز آنا کے ہیں اسی سے صل المسار کا محاورہ ہے ۔ جس کے معنی میخ کو کسی چیز میں ٹھونکنے سے آواز پیدا ہونا کے ہیں اور ( گھنگنے والی ) خشک مٹی کو بھی صلصال کہاجاتا ہے قرآن میں ہے : مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن/ 14] ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی مٹی سے مِنْ صَلْصالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] کھنکنے والی خشک مٹی یعنی سنے ہوئے گارے سے ۔ اور صلصلۃ کے معنی باقی ماندہ پانی کے میں کیونکہ مشکیزہ میں باقی ماندہ پانی کے ہلنے سے کھنکناہٹ کی آواز پیدا ہوتی ہے بعض نے کہا ہے کہ صلصان کے معنی سڑی ہوئی مٹی کے ہیں اور یہ صل اللحم سے مشتق ہے جس کے معنی گوشت کے بدبودار ہوجانے کے ہیں صلصان اصل میں صلال ہے ایک لام کو صاد سے بدل دیا گیا ہے اور آیت کریمہ :(أئذا صَلَلْنَا) کیا جب ہم زمین میں ملیامیٹ ہوجائیں گے ۔ میں ایک قرات صللنا بھی ہے یعنی جب ہم گل سٹر گئے اور یہ صل اللحم واصل کے محاورہ سے مشتق ہے ۔ حماء ۔ گارا۔ کیچڑ۔ الحمی سے حماء مادہ۔ الحمأ سیاہ بدبودار مٹی۔ احما تھا۔ میں نے اسے کیچڑ سے بھر دیا۔ اور جگہ قرآن میں ہے عین حمئۃ۔ سیاہ بدبودار۔ کیچڑ والا چشمہ۔ مسنون وقوله : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] ، قيل : متغيّر، وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ [ البقرة/ 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة «1» . سنن اور آیت : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦۔ ٢٧) اور ہم نے آدم (علیہ السلام) کو بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گارے کی تھی پیدا کیا اور ابو الجن کو آدم (علیہ السلام) سے پہلے ایسی آگ سے جس میں دھواں نہیں تھا پیدا کرچکے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ) حَمَاٍ مَسْنُون سے سنا ہوا گارا مراد ہے ‘ جس سے بدبو بھی اٹھ رہی ہو۔ اس رکوع میں یہ ثقیل اصطلاح تین مرتبہ استعمال ہوئی ہے۔ انسان کے مادۂ تخلیق کے حوالے سے قرآن میں جو مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں ‘ ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے مرحلے پر تراب یعنی مٹی کا ذکر ہے ‘ چناچہ فرمایا : (وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ) ( الروم : 20) ۔ مٹی میں پانی مل کر گارا بن جائے تو اس گارے کو عربی میں ” طِین “ کہتے ہیں۔ لہٰذا انسان کی تخلیق کے سلسلے میں طین کا ذکر بھی قرآن میں متعدد بار ہوا ہے۔ سورة الاعراف میں ہم شیطان کا یہ قول پڑھ آئے ہیں : (خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ ) مجھے تو نے بنایا آگ سے اور اس (آدم) کو بنایا مٹی سے “۔ طین کے بعد ” طین لازب “ کا مرحلہ ہے۔ سورة الصّٰفٰت میں فرمایا گیا : (اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِيْنٍ لَّازِبٍ ) ” طین لازب “ اصل میں وہ گارا ہے جو عمل تخمیر (fermentation) کی وجہ سے لیس دار ہوچکا ہو۔ عام طور پر گارے میں کوئی organic matter بھوسہ وغیرہ ملانے سے اس کی یہ شکل بنتی ہے۔ ” طین لازب “ کے بعد اگلا مرحلہ ” حماٍ مسنون “ کا ہے۔ اگر لیس دار گارا زیادہ دیر تک پڑا رہے اور اس میں سٹراند پیدا ہوجائے تو اس کو ” حماٍ مسنون “ کہا جاتا ہے۔ پھر اگر یہ سنا ہو اگارا (حماٍ مسنون) خشک ہو کر سخت ہوجائے تو یہ کھنکنے لگتا ہے۔ آپ نے کسی دریا کے ساحل کے قریب یا کسی دلدلی علاقے میں دیکھا ہوگا کہ زمین کے اوپر خشک پپڑی سی آجاتی ہے ‘ جس پر چلنے سے یہ آواز پیدا کر کے ٹوٹتی ہے۔ ایسی مٹی کے لیے قرآن نے ” صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ “ (الرحمن : ١٤) کی اصطلاح استعمال کی ہے ‘ یعنی ٹھیکرے جیسی کھنکھناتی مٹی۔ انسان کے مادہ تخلیق کے لیے مندرجہ بالا تمام الفاظ میں سے صرف ایک بنیادی لفظ ہی کفایت کرسکتا تھا کہ ہم نے انسان کو مٹی سے بنایا ‘ لیکن اس ضمن میں ان مختلف الفاظ (تُرَاب ‘ طِین ‘ طِین لازب ‘ صَلصالٍ مِّن حماٍ مسنون اور صلصالٍ کالفَخَّار) کے استعمال میں یقیناً کوئی حکمت کارفرما ہوگی۔ ممکن ہے یہ تخلیق کے مختلف مراحل (stages) کا ذکر ہو اور اگر ایسا ہے تو نظریہ ارتقاء (Evolution Theory) کے ساتھ بھی اس کی تطبیق (corroboration) ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ انسان کی تخلیق اگر خصوصی طور پر بھی عمل میں آئی ہو تو ہوسکتا ہے کہ باقی حیوانات ارتقائی انداز میں پیدا کیے گئے ہوں۔ بہرحال زمین کی حیوانی حیات کے بارے میں سائنس بھی قرآن سے متفق ہے کہ یہ تمام مخلوق مٹی اور پانی سے بنی ہے۔ ادھر قرآن فرماتا ہے کہ مبدأ حیات پانی ہے اور اس سلسلے میں سائنس کا نظریہ بھی یہی ہے کہ ساحلی علاقوں میں مٹی اور پانی کے اتصال سے دلدل بنی ‘ پھر اس دلدل کے اندر عمل تخمیر (fermentation) کے ذریعے سڑاند پیدا ہوئی تو وہاں ایلجی (Algai) یا امیبا (Amoeba) کی صورت میں نباتاتی یا حیوانی حیات کا آغاز ہوا۔ چناچہ سائنسی تحقیق یہاں قرآن سے اتفاق کرتی نظر آتی ہے ‘ گویا : ” متفق گر دید رائے بو علی بارائے من ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17. The Arabic word salsal means the dried clay which produces a sound like pottery. Hams is the black mud which has become so rotten as to be in a fermented state. Masnun has a double meaning: (a) rotten clay which has become greasy, (b) clay which has been molded into a shape. It is clear from the wording of the text that at first the image of man was made of clay from rotten earth and when it dried up, soul was breathed into it. Thus the Quran positively refutes the Darwinian theory of evolution that man came into existence after passing through continuous genetic adaptations. It will, therefore, be a futile attempt, as some modernized commentators have done, to prove that theory from the Quran.

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :17 یہاں قرآن اس امر کی صاف تصریح کرتا ہے کہ انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتا ہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیا ہے ، جیسا کہ نئے دور کے ڈارونییت سے متاثر مفسرین قرآن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، بلکہ اس کی تخلیق کی ابتداء براہ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَأِ ٍ مَّسْنُوْنٍ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے ۔ حَمأ عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بُو پیدا ہو چکی ہو ، یا بالفاظ دیگر خمیر اٹھ آیا ہو ۔ مسنون کے دو معنی ہیں ۔ ایک معنی ہیں متغیر ، منتن اور املس ، یعنی ایسی سڑی ہوئی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیدا ہو گئی ہو ۔ دوسرے معنی میں مصوَّر اور مصبوب ، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو ۔ صلصال اس سوکھے گارے کو کہتے ہیں جو خشک ہو جانے کے بعد بجنے لگے ۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اٹھی ہوئی مٹی کا ایک پتلا بنایا گیا تھا جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر روح پھونکی گئی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: اس سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق ہے جس کا مفصل واقعہ سورۃ بقرہ (30، 34) میں گذر چکا ہے اور وہاں فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے سے متعلق ضروری نکات بھی بیان ہوچکے ہیں

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٦۔ ٢٧۔ فرمایا کہ انسان کھنکھناتی ہوئی مٹی سے بنایا اور جن کو آگ کی لو سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) و مجاہد و قتادہ کا قول ہے کہ صلصال خشک مٹی کو کہتے ہیں اور حما مسنون گوندھی ہوئی کیچڑ کو کہتے ہیں اللہ پاک نے جب آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو پاک و صاف سوکھی مٹی کو پانی میں گوندھ کر خمیر بنایا اور اس سے آدم (علیہ السلام) کا پتلا بنا کر اس میں روح کو پھونک دیا ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدم (علیہ السلام) کا پتلہ بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام زمین کی مٹی لی ہے۔ اسی واسطے اولاد آدم کی حالت مختلف ہے کوئی گورا ہے کوئی کالا کوئی خوش مزاج ہے اور کوئی بد مزاج۔ ابن حبان نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ١ ؎۔ یہ حدیث اس بات کی تفسیر ہے کہ آیت میں انسان سے مقصود آدم (علیہ السلام) ہیں کیونکہ اس حدیث کے موافق ان ہی کے پتلہ کے لئے تمام زمین کی مٹی لی گئی ہے پھر اس کے بعد اولاد آدم کی پیدائش کا سلسلہ منی سے جو قرار پایا ہے اس کا ذکر قرآن شریف اور صحیح حدیثوں میں جدا آیا ہے سورت بقرہ میں سلف کے قول گزر چکے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پیدا ہونے سے دو ہزار برس پہلے زمین پر جنات رہتے تھے وہی قول اس بات کی تفسیر ہے کہ جنات کی پیدائش انسان سے پہلے ہے سورت الرحمن میں آوے گا۔ { وخلق الجان من مارج من نار } [٦٦۔ ١٥١] اس کی تفسیر میں صحیح قول حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنات کو خالص آگ کی لو سے پیدا کیا ہے کہ اس میں دھویں کا کچھ ملاؤ نہیں ٢ ؎ تھا۔ اگرچہ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا یہی قول نارا لسموم کی تفسیر ہے لیکن بعض روایتوں میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے السموم کی تفسیر گرم ہوا کی بھی آئی ہے اوپر کی تفسیر سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم کا پتلہ مٹی اور پانی سے اور جنات کا پتلہ آگ کی لو سے بنا ہے لیکن حکماء کہتے ہیں کہ انسان میں مٹی کا جز اور جنات میں آگ کا غالب ہے ورنہ پوری سرشت دونوں پتلوں کی آگ پانی ہوا خاک ان چار چیزوں سے ہے ٣ ؎۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کا پتلہ بنا کر بغیر روح پھونکنے کے یونہی چھوڑ دیا تھا شیطان اس پتلے کو اندر سے خالی دیکھ کر یہ کہا کرتا تھا کہ جاندار ہونے کے بعد پتلہ کسی بات کی سہارا لور برداشت نہ کرسکے گا۔ اس حدیث سے حکما کے قول کے پابند لوگ یہ بات نکال سکتے ہیں کہ روح کے پھونکے جانے سے پہلے اس کھوکھلے پتلے میں ٹھنڈی گرم ہوا گھسی اور حکماء کے قول کے موافق آگ پانی ہوا خاک ان چار چیزوں سے پتلے کی سرشت قرار پائی مگر حکماء کے قول کی تائید میں کوئی صاف دلیل شرعی نہیں ہے۔ ١ ؎ تنقیح الرواۃ۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٥٠ ج ٢۔ ٣ ؎ ص ٢٢٧ ج ٢ باب خلق الانسان خلقا لا یتمالک عن انس (رض) ومشکوٰۃ ص ٥٠٦ باب بدر الخلق الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:26) صلصال۔ صلصال (مادّہ ص ل ل) کے اصل معنی کسی خشک چیز سے آواز آنے کے ہیں۔ جیسے صل المسمار۔ جس کے معنی میخ کو کسی چیز میں ٹھونکنے سے آواز پیدا ہونے کے ہیں اور کھنکنے والی خشک مٹی کو بھی صلصال کہتے ہیں۔ صلصال کے معنی سڑی ہوئی مٹی کے بھی ہیں اور یہ صل اللحم سے مشتق ہے جس کے معنی گوشت کے بدبودار ہوجانے کے ہیں۔ صلصال۔ اصل میں صلال ہے۔ ایک لام کو ص سے بدل دیا گیا ہے۔ اور آیت کریمہ أ اذا ضللنا فی الارض۔ (32:10) کیا جب ہم زمین میں ملیامیٹ ہوجائیں گے۔ میں ایک قرأت صللنا بھی ہے یعنی جب ہم گل سڑ گئے۔ حما۔ گارا۔ کیچڑ۔ الحمی سے حماء مادہ۔ الحمأ سیاہ بدبودار مٹی۔ احما تھا۔ میں نے اسے کیچڑ سے بھر دیا۔ اور جگہ قرآن میں ہے عین حمئۃ۔ سیاہ بدبودار۔ کیچڑ والا چشمہ۔ مسنون۔ اسم مفعول واحد مذکر۔ سن مصدر۔ (باب نصر) متغیر۔ سڑا ہوا۔ سنت رسول ، رسول کا طریقہ۔ مسنون۔ سنت کے مطابق۔ صلصال من حما مسنون۔ کھنکھنے والی مٹی جو پہلے سڑی ہوئی بدبودار کیچڑ کی شکل میں تھی۔ علماء لغت نے لکھا ہے کہ مختلف حالتوں میں مٹی کے مختلف نام ہیں۔ (1) پانی میں بھگونے سے پہلے تراب کہتے ہیں۔ جیسے اکفرت باالذی خلقک من تراب۔ (18:37) کیا تو اس ذات سے انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا۔ (2) پانی میں بھیگ جائے تو اسے طین (کیچڑ) کہتے ہیں۔ انا خلقنہم من طین لا زب۔ (37:11) ہم نے ان کو چپکتے گارے سے پیدا کیا۔ (3) جب کافی عرصہ بھیگی رہے یہاں تک کہ اس کی رنگت سیاہ ہوجائے تو اسے حما کہتے ہیں۔ (4) جب اس سیاہ کیچڑ میں بدبو پیدا ہوجائے یا اسے کوئی اور صورت دی جائے تو اسے مسنون کہتے ہیں۔ (5) اور جب سیاہ بدبودار کیچڑ خشک ہوجائے تو اسے صلصال کہتے ہیں۔ (6) جب خشک۔ سیاہ۔ بدبودار۔ کیچڑ آگ میں پکائی جائے تو اسے فخار کہتے ہیں۔ خلق الانسان من صلصال کالفخار۔ (55:14) اس نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ اس سورة میں آیت : ’ ولقد جعلنا فی السماء برزجا الک “ سے دلائل توحید کا بیان چلا آرہا ہے۔ جب اوپر کی آیت میں حیوانات کی تخلیق کو بطور دلیل ذکر کیا تو اب انسان کے پیدا کئے جانے کو بطور دلیل ذکر کیا جا رہا ہے۔ الغرض دلائل توحید میں یہ ساتویں قسم دلیل کی ہے۔ (کبیر) ۔ عربی زبان میں خشک مٹی کو تراب کہتے ہیں جب اسے بھگو دیا جائے تو وہ سین کہلاتی ہے پھر جب خوب گوندھ دینے کے بعد اس میں سے بو آنے لگے تو اسے ” حماء مسنون “ کہا جاتا ہے۔ پھر تب خشک ہو کر کھن کھن بولنے لگے تو وہ صلصال کہلاتی ہے اور اسے جب آگے میں پکا دیا جائے تو فخار کہتے ہیں۔ آیت میں الفاظ کی ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہوئے گار سے حضرت آدم ( علیہ السلام) کا پتلا تیار کیا گیا ہوگا پھر جب وہ سوکھ کر کھن کھن بولنے لگا تو اسمیں روح پھونکی گئی ہوگی۔ (کبیر) ۔ یہی مضمون ایک مرفوع حدیث سے بھی ثابت ہے۔ (ترمذی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٣) اسرارومعارف خود انسان کو بھی تو ہم نے ہی پیدا کیا سڑے ہوئے مٹی گارے سے جو خشک ہوچکا تھا ۔ (جنات کو پہلے پیدا کیا گیا) قبل ازیں ہم جنات کو آگ کی لو سے پیدا کرچکے تھے یعنی آگ کی وہ تپش جو ایک گرم ہوا کی صورت میں تھی کہ آگ کا نظر آنا اجزائے کثیفہ کی ملاوٹ سے ہوتا ہے ورنہ وہ بہت لطیف ہوتی ہے تو گویا جنات کا وجود اسی سے پیدا ہوا جو نظر نہیں آتا ، اور جنات پہلے سے زمین پر آباد کئے گئے تھے ،۔ پھر وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے جب آپ کے رب نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میں کھنکتے اور سڑے ہوئے گارے سے ایک بشر تخلیق کر رہا ہوں جب وہ بن چکے اور میں اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گر جانا ، (روح اور نفخ روح) روح کی تحقیق میں اہل علم میں بڑی لمبی بحث ہے اور اسی موضوع پر دونوں طرف ہزاروں دلائل موجود ہیں کہ روح کوئی جسم ہے یا مجرد جوہر ہے صاحب معارف القرآن کے مطابق جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ روح ایک جسم لطیف ہے اور یہی حق ہے جوہر مجرد فلاسفہ کا قول ہے جس کو بعض صوفیہ نے بھی قبول کیا ہے مگر اس موضوع پر سب سے خوبصورت تحقیق صاحب تفسیر مظہری حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) کی ہے فرماتے ہیں روح دو قسم کی ہے علوی اور سفلی ، روح علوی مادہ سے پاک اللہ جل جلالہ کی ایک مخلوق ہے جس کی حقیقت کا ادراک ممکن نہیں اور اہل کشف کو اس کا مقام عرش کے اوپر نظر آتا ہے کہ عرش سے زیادہ لطیف ہے اور بنظر کشفی اوپر نیچے پانچ درجات میں محسوس کی جاتی ہے جو یہ ہیں قلب ، روح ، سرخفی ، اخفی اور یہ سب عالم امر کے لطائف ہیں جس کی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ (آیت) ” قل الروح من امر ربی “۔ یہاں تک کہ قاضی صاحب (رح) کی بات تھی اس کی تھوڑی سی وضاحت یہ ہے کہ عرش نو ہیں جن کی وسعتوں کا اندازہ انسان کے لیے ممکن نہیں کہ زمین خلا اور ساتھ آسمانوں تک کا سارا جہان مل کر پہلے عرش کے مقابل اتنا سا ہے جیسے کسی صحرا میں ایک معمولی انگشتری پڑی ہو جس ارض وسما اور ما بینھما کے فاصلے ماپنا اور ستاروں اور سیاروں کے حجم انسانی علم سے بہت آگے ہیں تو پھر عرش کی عظمت کا اندازہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ دوسرا عرش پہلے سے بزرگ تر اور تیسرا اس سے بڑا ہے حتی کہ اسی طرح (٩) نو عرش ہیں جب ان کی انتہا آتی ہے تو عالم خلق ختم ہوجاتا ہے اور عالم امر شروع ہوتا ہے جہاں مادہ مادی وجود تو کیا دائرہ تخلیق ہی ختم ہوگیا اور عالم امر کا پہلا دائرہ ہی اتنا وسیع ہے کہ (٩) عرشوں تک کی ساری کائنات اس ایک دائرے کے مقابل ایسی ہی ہے جیسے کسی صحرا کے اندر انگشتری اور حجابات الہیہ تک ایسے ہی بیالیس ٤٢ دائرے ہیں جو سب ایک دوسرے سے ایسے ہی بڑے ہیں اور اسی عالم امر سے روح جسد انسانی میں وارد ہو کر اسے زندگی کی حرارت عطا کرتی ہے جو براہ راست قلب میں آتی ہے جہاں سب سے پہلے حیات پیدا ہوتی ہے اور پھر پانچوں لطائف روشن کرتی ہے ۔ قاضی صاحب (رح) کے مطابق (روح سفلی اور بخار لطیف ہے جو عناصر اربعہ یعنی آگ مٹی ہوا اور پانی کے ملنے اور ان میں روح کی حرارت سے پیدا ہو کر نس نس میں پھیل جاتی ہے اس کا یہ سرایت کرنا ہی پھونکنے اور نفخ سے تعبیر کیا گیا ہے) یہ روح سفلی ہی ہے جو خواہشات اور جسمانی ضروریات کا احساس اور ضرورت پیدا کرتی ہے اور روح علوی اگر غالب رہے تو ان امور میں اللہ جل جلالہ کی اطاعت کرتا ہے جس سے روح علوی مزید قوت حاصل کرتی ہے اور عالم امر سے اس کا تعلق مضبوط تر ہوتا جاتا ہے لیکن اگر روح سفلی یا جسے نفس بھی کہا گیا یہ غالب ہوجائے تو انسان محض خواہشات کا بندہ بن کر گناہ اور نافرمانی میں غرق ہوجاتا ہے اور روح علوی کی تجلی جو روح سفلی پر تھی اور جس نے اسے شرف انسانیت بخشا تھا کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہے اور کفر پر بالکل منقطع ہوجاتی ہے اسی لیے کفار کو کتاب اللہ میں کالانعام یعنی چوپاؤں اور حیوانات کی مثل قرار دیا گیا کہ ان میں صرف روح سفلی ہی ہوتی ہے اور عالم امر کی اس لطیف تر تجلی سے ان کے قلوب کا تعلق نہیں ہوتا اسی لیے کفار کو آخرت میں انسانی چہرہ بی نصیب نہ ہوگا اور جانوروں ہی کی طرح جہنم میں چلائینگے انبیاء جب مبعوث ہوتے ہیں تو اسی روح علوی کو حیات نو عطا کرتے ہیں اور ایمان لانے والوں کو نبی کی ایک نگاہ مقام صحابیت یعنی روح علوی کا روشن ترین حال عطا کرتی ہے اور یہی نعمت حاصل کرنے کیلئے صحبت شیخ کی ضرورت بھی ہے ورنہ روح سفلی اپنا کام طبعی طور پر کرتی رہتی ہے روح علوی مادہ سے بالاتر محض امر الہی سے پیدا ہونے والی ایک لطیف تر شے ہے اسی لیے تجلیات باری کو قبول کرنے کی استعداد رکھتی ہے جو انسان کے علاوہ کسی مخلوق کو حاصل نہیں نیز قاضی صاحب (رح) بھی لکھتے ہیں کہ انسان وجود میں غالب عنصر اگرچہ مٹی ہے لہذا اسی سے تعبیر فرمایا گیا ورنہ درحقیقت دس چیزوں سے مرکب تھے جن میں پانچ عالم خلق کی مٹی ، آگ ہوا ، پانی اور ان سے پیدا ہونے والا بخار لطیف جو روح سفلی یا نفس کہلاتا ہے اور پانچ عالم امر کی ہیں یعنی قلب ، ، روح ، سر ، خفی اور اخفی اسی جامعیت کے سبب نور معرفت اور نار عشق و محبت کا متحمل ہوا جس کا نتیجہ بےکیف معیت الہی کا حصول ہے اور اسی عظمت کے باعث ملائکہ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ، واللہ اعلم بالثواب۔ (ابلیس اور اس کے حوالے سے ایک مسئلہ) لہذا سب فرشتے مل کر سجدے میں چلے گئے سوائے ابلیس کے جس نے انکار کردیا اور سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا یہ اگرچہ جنات میں سے تھا مگر عبادات وریاضات سے ترقی کرتا ہوا فرشتوں میں جا شامل ہوا اور اس وقت وہیں موجود تھا لہذا اسی حکم میں شامل تھا ، لیکن اس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا ارشادہ ہوا کہ اے ابلیس تجھے سجدہ کرنے سے کس بات نے روکا تو کہنے لگا میں کوئی ایسا ویسا نہیں ہوں کہ اس کیچڑ اور گارے سے بنے انسان کو سجدہ کروں تو ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا اور تو مردود ہوا اور تجھے تا قیامت اللہ جل جلالہ کی رحمت سے محروم کردیا گیا یعنی ہمیشہ کے لیے کہ بعد قیامت تو پھر امید ہی نہ رہی تو یہ مسئلہ یہاں ثابت ہوگیا کہ جس طرح شیطان اپنی بڑائی کو دل میں رکھ کر مجاہدہ کرتا رہا اور فرشتوں تک میں شامل ہوگیا ایسے ہی کوئی طالب اپنی شہرت اور بڑائی کے لیے مجاہدہ کرکے شیخ کی صحبت میں منازل سلوک حاصل کرسکتا ہے مگر آکار شیطان کا بھانڈھا پھوٹا اور مردود ہوا ایسے ہی یہ شخص بھی ایک روز سب کچھ کھو کر محروم ہوجاتا ہے اور اس نعمت سے محروم ہو کر مرتا ہے ، تو ابلیس کہنے لگا کہ پروردگار عالم مجھے مہلت و فرصت عطا کر اور اس روز تک مجھے رہنے دے جس روز مردے زندہ ہوں گے کہ میں انسان سے مقابلہ کروں گا فرمایا تجھے ایک معلوم وقت تک یعنی فناء دنیا تک مہلت دی جاتی ہے کہ فناء عالم کے وقت اسے بھی موت کی وادی سے گزرنا ہوگا تو کہنے لگا پروردگار جیسے تو نے تکوینی طور پر مجھے گمراہ کردیا اپنی غلطی کا اعتراف پھر بھی نہ کیا بلکہ اسے اللہ جل جلالہ کی طرف منسوب کردیا جو تکبر اور گمراہی کا نتیجہ تھا تو میں بھی قسم کھاتا ہوں کہ انسانوں کو گناہ بڑے سجا کر دکھاؤں گا اور انہیں گمراہ کروں گا سوائے تیرے خاص بندوں کے جنہیں تو نے اپنے لیے چن لیا ان پر میرا داؤ نہ چلے گا یعنی وہ گمراہ نہ ہوں گے غلطی کا صدور ناممکن نہیں کہ بھول چوک ہو سکتی ہے مگر اللہ جل جلالہ کے بندے اس پر قائم نہیں رہتے توبہ کرکے رحمت باری کو پا لیتے ہیں ، فرمایا یہی خلوص اور صرف میرے اور میری رضا مندی کے لیے اپنے کو مخصوص کردینا ہی تو مجھ تک سیدھا راستہ ہے ، اور بیشک جو میرے بندے ہوں گے ان پر تیرا بس نہ چلے گا تیرا زور بھی انہی پر چلے گا جو میری راہ ترک کر کے تیری پیروی اختیار کریں گے اور تیرے بہکاوے میں آجائیں گے مگر یاد رکھ ایسے سب لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے جس کے سات دروازے یا سات درجے ہیں اور جیسا کوئی کرے اسی کے مطابق ہر درجے کے لوگ بانٹ دیئے جائیں گے اور الگ الگ کردیئے جائیں گے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 26 تا 44 صلصال وہ مٹی جو سوکھ کر سخت ہوجائے اور بجنے لگے ۔ مسنون گوندھی گئی۔ السموم لو۔ نفخت میں نے پھونک دیا۔ پھونک ماردی، حما سڑی ہوئی مٹی، کیچڑ۔ جان جن۔ سویت میں نے برابر کردیا۔ ٹھیک کرلیا۔ روحی میری روح ، قعوا گرپڑو۔ ابی انکار کیا۔ ان یکون یہ کہ وہ ہو۔ مالک تجھے کیا ہوا۔ لم اکن میں نہیں ہوں بشر انسان۔ اخرج نکل جا۔ لعنت لنت، اللہ کی رحمت سے دوری۔ انظرنی تو مجھے مہلت دیدے۔ یبعثون (اٹھائے جائیں گے) ۔ اغویت (اغوائ) تو نے سیدھی راہ سے ہٹا دیا ۔ سلطن قوت، زور الغوین بہکنے والے۔ موعد وعدہ کی جگہ۔ سبعۃ ابواب سات دروازے۔ جزاء حصہ۔ مقسوم تقسیم کیا گیا۔ تشریح : آیت نمبر 26 تا 44 اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آیات میں کائنات اور اس کے عظیم الشان نظام کا ذکر فرمایا تھا کہ اس اللہ نے ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ زمین، آسمان، چاند، سورج ، ستارے ، شجر و حجر، دریا و سمندر اور ہر طرح کے پھلوں کو پیدا کیا تاکہ انسان اپنی زندگی کا سامان حاصل کرسکے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان اور جنات کی تخلیق، انسانی عظمت کے سامنے فرشتوں کو سجدہ کرنے اور ابلیس کی نافرمانیوں کا تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد ہے کہ ہم نے انسان کو کھنکھناتے ہوئے سیاہ سڑے گارے سے بنایا ہے اور جنات کو انسانوں سے بھی پہلے ایسی آگ سے پیدا کیا جو صاف و شفاف اور بغیر دھوئیں کے تھی۔ اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ میں ایسی مٹی سے انسان کو بنا رہا ہوں جو بجنے والی اور سڑے گارے والی ہے۔ جب میں انسانی پتہ بنا کر اس میں روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدہ کرنا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔ لیکن ابلیس (شیطان) جو قوم جنات سے تھا اور فرشتوں کا سردار تھا اس نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ اے ابلیس جب میں نے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا تو تجھے کیا ہوا کہ تو نے اس کو سجدہ نہیں کیا۔ ابلیس نے کہا کہ میں ایسے بشر کو کیسے سجدہ کرسکتا تھا جو بجنے والی سڑی ہوئی مٹی سیپ یدا کیا گیا ہے۔ یعنی میں تو صاف شفاف آگ سے پیدا کیا گیا ہوں جس میں دھواں تک نہ تھا جب کہ انسان ایک حقیر مادہ سے پیدا کیا گیا ہے۔ اس کو میرے قدموں پر جھکنا چاہئے تھا۔ یہ اس کا تکبر اور پانی ذات کی بڑائی تھی جو اللہ کو پسند نہیں آئی۔ فرمایا کہ اے ابلیس تو یہاں سے نکل جا (جنت سے، آسمانوں سے ، گروہ ملائکہ سے) تو اللہ کی بارگاہ سے نکالا ہوا ہوگیا اور بیشک قیامت تک تیرے اوپر لعنت برستی رہے گی یعنی تو اللہ کی رحمت سے دور رہے گا۔ مزید تکبر کرتے ہوئے کہنے لگا کہ اے اللہ ! مجھے اس دن تک می ہلت دیجیے جب سارے انسان دوبارہ اٹھائی جائیں گے یعنی قیامت تک۔ اللہ نے فرمایا کہ ایک مدت مقرر تک یعنی قیامت تک تجھے مہلت دیدی گئی۔ ابلیس کہنے لگا کہ اے اللہ جیسا کہ تو نے مجھے (بھٹکا دیا (نعوذ باللہ، اللہ پر ہی الزام لگا دیا) میں بھی زمین میں ان کے دل فریب نظارے بکھیر دوں گا اور ان کو گمراہ کروں گا۔ ہاں البتہ وہ لوگ جو تیرے خالص بندے ہیں میں ان کا کچھ نہ کرسکوں گا۔ اللہ نے فرمایا کہ یہی راستہ سیدھا میری طرف آتا ہے یعنی یہی لوگ جو صراط مستقیم پر ہوں گے ان پر تیرا کوئی زور نہ چل سکے گا۔ رہے وہ لوگ جو تیرے پیچھے چلیں گے ان سے دوزخ کو بھر دوں گا، فرمایا کہ جہنم کے ساتھ دروازے ہیں ان کفار کے جیسے اعمال ہوں گے میں اس کے مطابق ان کو ان دروازوں سے گذار دوں گا۔ ان آیات سے متعلق چند ضروری وضاحتیں ملاحظہ کر لیجیے۔ 1) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہر جگہ یہی ارشاد فرمایا ہے کہ اس نے انسانوں کو ایک ایسی مٹی اور گارے سے بنایا ہے جو سڑا وہا، سیاہ اور کھنکھنانے والا اور بجنے والا مادہ ہے ۔ یعنی انسان کو یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئے کہ وہ زمین کے اعلیٰ ترین مادے سے نہیں بلکہ سڑے ہوئے مادہ سے پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اللہ نے اس انسان کو کائنات میں عظمت عطا فرمائی ہے اور شیطان کے تکبر نے اسے قیامت تک اللہ کی بارگاہ سے نکلوا دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصل چیز اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی تعمیل ہے انسان میں خوبی اس کے حکم اور اطاعت سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ 2) تکبر اتنی بری چیز ہے کہ وہ عزازیل جو قوم جنتا سے تھا اور تمام فرشتوں کا سردار بنا دیا گیا تھا جب اس نے اللہ کے حکم کی تعمیل نہیں کی، تکبر، غرور اور بڑائی اختیار کی تو اللہ نے اس کو نہ صرف فرشتوں کی سرداری ، جنت کی راحتوں اور عزت سے محروم کردیا بلکہ قیامت تک اس کو ابلیس اور شیطان کا نام دے دیا اور فرما دیا کہ جو شخص بھی اس متکبر اور غرور کا کہا مانے گا اللہ اس سے اسی طرح ناراض ہو کر اس کو ابدی جہنم میں جھونک دے گا۔ اللہ تعالیٰ کو تکبر اور نافرمانی کرنے والے سخت ناپسند ہیں۔ 3) جو اللہ کے نیک اور مخلص بندے ہیں شیطان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ ان کی حفاظت اللہ کی طرف سے کی جاتی ہے۔ ایسے ہی لوگ صراط مستقیم پر ہیں اور جنت کی ابدی راحتوں کے مستحق ہیں۔ 4) اس کے برخلاف شیطان کے طریقوں کو اپنانے والے جیسے ان کے اعمال ہیں گے ہر ایک کے لئے ایک دروازہ بنا دیا ہے۔ جہنم کے کل سات دروازے ہیں۔ ان لوگوں کو ان دروازوں سے گذرنا ہوگا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جس طرح جہنم کے ساتھ دروازے ہیں اسی طرح جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ ان دروازوں سے اپنے اعمال کے مطابق ہر شخص جنت میں داخل ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی اس نوع کی اصل اول یعنی آدم (علیہ السلام) کو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : زمین و آسمانوں اور پہاڑوں کی تخلیق کے ذکر کے بعد انسان کی تخلیق کا بیان۔ یہاں بڑے لطیف انداز میں لوگوں کو موت کے بعد جی اٹھنے پھر حشر کے میدان میں اکٹھا ہونے کی دلیل دی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اے لوگو ! ذرا غور کرو جس نے تمہیں بدبودار گارے اور کھڑکھڑانے والی مٹی سے پیدا کیا ہے اور تم سے پہلے جنات کو آگ کی لو سے پیدا کیا۔ کیا وہ قیامت کے دن تمہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا ؟ کیوں نہیں، یقیناً وہ پیدا ہی نہیں بلکہ سب کو اپنے حضور جمع کر کے تمہارے اعمال پر تمہیں جزا یا سزا بھی دے گا۔ قرآن مجید نے اس بات کو باربار بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ مگر بعض لوگ اس حقیقت کو نہیں مانتے اور وہ اپنے مشاہدے اور غلط تجربات کی بنیاد پر اس حقیقت کو ٹھکراتے ہیں۔ حالانکہ نہ صرف اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا بلکہ اس سے پہلے جنوں کو آگ کی لو سے پیدا فرمایا ہے۔ اس فرمان کا مقصد یہ ہے کہ جس اللہ نے مٹی سے انسان کو پہلے بغیر کسی نمونے کے پیدا کیا ہے۔ کیا وہ اس مٹی سے دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا ؟ ملائکہ، جن اور انسان کی تخلیق : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خُلِقَتِ الْمَلاَ ءِکَۃُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ )[ رواہ مسلم : باب فِی أَحَادِیثَ مُتَفَرِّقَۃٍ ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو بھڑکتی ہوئی آگ سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ “ انسان ہر دیکھنے والے درند پرند کو نظر آتا ہے جبکہ جن کسی کو نظر نہیں آتے۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّاصَوَّرَ اللّٰہُ اٰدَمَ فِیْ الْجَنَّۃِ تَرَکَہٗ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ یَتْرُکَہٗ فَجَعَلَ اِبْلِیْسُ یُطِیْفُ بِہٖ یَنْظُرُ مَا ھُوَفَلَمَّارَاٰہُ اَجْوَفَ عَرَفَ اَنَّہٗ خُلِقَ خَلْقًا لَایَتَمَالَکُ ) [ رواہ مسلم : باب خُلِقَ الإِنْسَانُ خَلْقًا لاَ یَتَمَالَکُ ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی جنت میں شکل و صورت بنائی تو اس کے پیکر کو جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا جنت میں اسی طرح رہنے دیا۔ ابلیس نے اس کے گرد گھومنا شروع کیا اور غور کرتا رہا کہ یہ کیا ہے ؟ جب اس نے مجسمہ کو دیکھا کہ یہ اندر سے کھوکھلا ہے ‘ تو وہ سمجھ گیا کہ یہ ایک ایسی مخلوق تخلیق کی جارہی ہے، جو مستقل مزاج نہیں ہوگی۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ خَلَقَ اللَّہُ آدَمَ عَلَی صُورَتِہِ ، طُولُہُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَہُ قَالَ اذْہَبْ فَسَلِّمْ عَلَی أُولَءِکَ النَّفَرِ مِنَ الْمَلاَءِکَۃِ جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا یُحَیُّونَکَ ، فَإِنَّہَا تَحِیَّتُکَ وَتَحِیَّۃُ ذُرِّیَّتِکَ فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ فَقَالُوا السَّلاَمُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ فَزَادُوہُ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ ، فَکُلُّ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلَی صُورَۃِ آدَمَ ، فَلَمْ یَزَلِ الْخَلْقُ یَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّی الآنَ )[ رواہ البخاری : باب بَدْءِ السَّلاَمِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنی صورت کے مطابق بنایا اور اس کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ جب آدم کی تخلیق ہوچکی تو اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ فرشتوں کی جماعت کے پاس جاؤ اور انہیں سلام کہو اور جو وہ جواب دیتے ہیں اسے سنووہ تیرے لیے اور تیری اولاد کے لیے تحفہ ہوگا۔ آدم (علیہ السلام) نے فرشتوں کو سلام کہا تو فرشتوں نے سلام کا جواب دیا اور حمۃ اللہ کا اضافہ کیا ہر انسان کی جنت میں آدم کی صورت ہوگی تب سے لے کر آج تک آدم کی اولاد کے قد میں کمی واقع ہوتی آرہی ہے “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کو انسانوں سے پہلے آگ کی لو سے پیدا فرمایا۔ تفسیر بالقرآن تخلیق انسانی کے مختلف مراحل : ١۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر : ٢٦) ٢۔ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٣۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٤۔ حوا کو آدم سے پیدا فرمایا۔ (النساء : ١) ٥۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٦۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر۔ (الحج : ٥) ٧۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن : ٦٧) ٨۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف : ٣٧) ٩۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم : ٢٠) ١٠۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذرا اب اس قصے کے مناظر کو یہاں ہم تفصیل سے لیتے ہیں۔ آیت نمبر ٢٦ تا ٢٧ قصے کے آغاز ہی میں یہ کہا جاتا ہے کہ انسان اور جنات یا شیطانوں کی فطرتوں میں یوم تخلیق کائنات سے ہی فرق امتیاز ہے۔ انسان کو بجنے والی خشک مٹی سے پیدا کیا گیا جو سڑی ہوئی خمیری مٹی یعنی کیچڑ سے لی گئی تھی یعنی اس مٹی کو ٹھوکا جائے تو بجتی ہے اور شیطان کو نار سموم یا آگ کی لپیٹ یا شعلے سے بنایا گیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوگا کہ انسان کے مزاج میں ایک جدید عنصر بھی داخل ہوا ہے یعنی انسان کے اندر اللہ نے اپنی روح پھونکی ہے۔ رہا شیطان تو وہ نار سموم ہی کی طبیعت پر قائم ہے۔ واذ قال ربک ۔۔۔۔۔ حما مسنون (٢٨) فاذا سویتہ ۔۔۔۔ سجدین (٢٩) فسجد الملئکۃ کلھم اجمعون (٣٠) الا ابلیس۔۔۔۔ السجدین (٣١) قال یا بلیس ۔۔۔۔۔ السجدین (٣٢) قال لم اکن ۔۔۔۔۔ مسنون (٣٣) قال ۔۔۔۔ رجیم (٣٤) وان علیک ۔۔۔۔ یوم الدین (٣٥) ( ١٥ : ٣١ تا ٣٥) “ پھر یاد کرو اس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ “ میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔ جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا ”۔ چناچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ، سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا ”۔ اس نے کہا “ میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے ”۔ رب نے فرمایا : “ اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تو مردود ہے اور اب روز جزاء تک تجھ پر لعنت ہے ”۔ پھر یاد کرو اس موقع کو کہ جب اللہ فرشتوں کے ساتھ ہمکلام ہوا۔ یہ کب کی بات ہے ؟ کہاں یہ واقعہ پیش آیا ؟ اس کی تفصیلی کیفیت کیسی تھی ؟ ان سوالات کا جاب ہم نے پارۂ اول میں سورة بقرہ میں دے دیا ہے۔ وہ یہ کہ ان سوالات کا شافی جواب ہی نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ عالم بالا کی کہانی ہے اور ہمارے پاس کوئی نص صریح نہیں ہے کیونکہ عالم غیب سے متعلق کسی سوال کا جواب ہم صرف نص صریح ہی سے دے سکتے ہیں۔ جو لوگ ایسے سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی سعی لا حاصل کر رہے ہیں اور ان کی باتوں پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ انسان کو ایسی مٹی سے کیسے بنایا گیا جو سڑی ہوئی تھی اور اس خمیری مٹی سے بنا کر اس کو کسی طرح خشک کردیا گیا تھا کہ وہ بجتی تھی۔ پھر یہ کہ اس کے اندر روح کس طرح ڈال دی گئی۔ ہم صاف صاف کہتے ہیں کہ ان امور کی تفصیلی کیفیات سے ہم بیخبر ہیں۔ کسی صورت میں بھی ہم از سر نو اس کیفیت کا سائنسی تجزیہ نہیں کرسکتے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کی جو آیات وارد ہیں۔ ان کو پیش نظر رکھتے ہیں ، خصوصاً یہ آیت کہ۔ ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین (٢٣ : ٢) “ ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ”۔ اور دوسری آیت میں ہے۔ ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من ماء مھین “ ہم نے انسان کو مٹی کی ست سے پیدا کیا جو حقیر پانی کی شکل میں ہے ”۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی اصلیت اور زندگی کی حقیقت اس زمین کی مٹی سے ہے اور انسان کے اندر وہی اہم عناصر موجود ہیں جو اس زمین کے اہم عناصر ترکیبی ہیں۔ اسی طرح انسان اور تمام دوسرے زندوں کے اجسام انہی عناصر سے بنے ہوئے ہیں۔ لفظ سلالۃ ایک خاصل انداز کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہاں تک تو قرآن اشارہ کرتا ہے اور اس کے الفاظ سے یہ مفہوم نکلتا ہے ، لیکن اس سے آگے جدید دور کے انکشافات سے جو کچھ معلوم ہوا اسے قرآن مجید سے اخذ کرنا ایک تکلف ہی ہے۔ موجودہ آیات ان مفاہیم کی متحمل نہیں ہیں۔ جہاں تک سائنسی تحقیقات کا تعلق ان کا اپنا ایک انداز ہے۔ سائنسی تحقیقات اپنے وسائل و ذرائع کے ساتھ جاری رہیں گی۔ اور سائنسی تحقیقات کے نتائج فرضی ہوتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات اپنے وسائل ذرائع کے ساتھ جاری رہیں گی۔ اور سائنسی تحقیقات کے نتائج فرض ہوتے ہیں اور وہ حقائق نہیں بلکہ نظریات ہوتے ہیں ۔ ان نظریات میں سے بعض حقائق کا روپ نہیں اختیار کرتے وہ بحث و تمحیص کے بعد بدل بھی جاتے ہیں لیکن ان سائنسی تحقیقات کا کوئی نتیجہ بھی ان اصولی حقائق سے متضاد نہیں ہوتا جو قرآن میں ثبت ہیں۔ قرآن کریم نے جو ابتدائی حقیقت دی ہے وہ صرف یہ ہے کہ “ ابتداء انسان کو مٹی کے ست سے تخلیق کیا گیا ہے اور اس کی تخلیق میں پانی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ لہٰذا ابتدائی حقیقت جو قرآن کریم نے بیان کی ہے ، اپنی جگہ باقی ہے ، بعد میں آنے والے نظریات اس کی تفصیلات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیچڑ اور اس کے اندر پائے جانے والے عناصر طبیبہ نے ایک زندہ انسان کی شکل کس طرح اختیار کی۔ کس طرح اعضا بنے اور کس طرح انسان کی شکل و صورت وجود میں آئی۔ یہ وہ راز ہے جس کے علل و اسباب معلوم کرنے سے انسان آج تک بےبس ہے۔ پہلے خلیے کو زندگی کس طرح ملی۔ انسان اور زندگی کی نشو ونما پر کام کرنے والے سائنس دان آج تک اس راز سے آگاہ نہیں ہو سکے۔ رہی اعلیٰ درجے کی انسانی زندگی جس کے اندر فہم و فراست کی قوتیں موجود ہیں ، اس کے اندر ایسی امتیازی قوتیں موجود ہیں جن کے ذریعے انسان نے پوری کائنات کو مسخر کرلیا ہے ، تمام دوسرے درجے کے زندہ حیوانات کو قابو کرلیا ہے۔ اس حضرت انسان کو اس پوری دنیا پر فیصلہ کن برتری حاصل ہے۔ یہ تو وہ عظیم راز ہے جس کے بارے میں انسانی نظریات آج تک مخبوط الحواس ہیں۔ لیکن اس اہم راز کے بارے میں قرآن کریم انسان کو نہایت ہی سادہ ، واضح اور اجمالی علم دیتا ہے۔ سویتہ ونفخت فیہ من روحی (١٥ : ٢٩) ( جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو ) تو درحقیقت یہ اللہ کی پیدا کردہ روح ہے جو اس حقیر عضویاتی مخلوق کو ایک بلند انسانی مخلوق بنا دیتی ہے۔ لیکن اہم سوال یہی ہے کہ یہ کیسے ہوا ؟ اس کا جواب یہ حقیقت ہے کہ اس انسان کو اس قدر قوت مدرکہ دی کب گئی ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھ سکے۔ چناچہ مسلمانوں کا موقف یہ ہے کہ وہ اس راز کا ادراک ہی نہیں کرسکتے۔ یہ موقف نہایت ہی ٹھوس ہے اور ہم اس پر بڑے اطمینان سے کھڑے ہیں۔ اس سے قبل یعنی تخلیق انسان سے قبل اللہ نے شیطان کو آگ کی لپیٹ سے پیدا کیا تھا۔ شیطان اور شیطانی قوت تخلیق آدم سے بھی پہلے موجود تھی۔ یہ ہے وہ علمی اور یقینی اطلاع جو اللہ نے ہمیں دی ہے۔ رہی یہ بات کہ ذلت شیطانی کی کیفیت کیا ہے اور اس کی تخلیق کی تفصیلات کیا ہیں تو یہ ایک دوسری حقیقت ہے اور اللہ نے ہمارا یہ فرض قرار نہیں دیا کہ ہم ان لاحاصل چیزوں میں فضول بحثیں اور تحقیقات کریں۔ ہاں ہم اس ناری مخلوق کی بعض صفات سے ضرور واقف ہیں اور آگ کی لپیٹ اور شعلوں کو بھی جانتے ہیں اور اس قوت کی ناری صفات انسانی ذات پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ کیونکہ وہ آگ سے ہیں۔ نیز ہمیں اس قدر معلوم ہے کہ جنات کی ذات صفات میں اذیت اور برق رفتاری شامل ہے کیونکہ ان کی تخلیق نار سموم سے ہے۔ اس قصے کے درمیان میں سے یہ بات بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان میں صفت غرور اور تکبر پایا جاتا ہے۔ چونکہ شیطان جن تھا اس لیے غرور و استکبار اس کے مزاج کا خاصہ ہونا چاہئے کیونکہ نار کے ساتھ یہ صفات لگا کھاتی ہے۔ انسان کی تخلیق چونکہ سڑے ہوئے گارے سے ہوئی ، جو خشک ہو کر صلصال بن گیا تھا یعنی بجنے کی آواز اس سے نکلتی تھی۔ پھر اس میں ذات باری کی طرف سے ایسی روح پھونکی گئی جس کی وجہ سے زندہ مخلوق کی یہ صنف دوسری مخلوقات سے ممتاز ہوگئی ۔ پھر اسے مخصوص انسانی صفات بھی عطا ہوئیں۔ اور ان صفات میں سے اہم صفت انسان کی وہ علمی ترقی تھی جو وہ انسانیات کے شعبے میں کر رہا تھا۔ یہ نفح روح ، دراصل انسان کو عالم بالا سے مربوط کردیتی ہے۔ یہی صفت ہے جو انسان کو خدا رسیدگی کی قوت دیتی ہے اور یہی قوت انسان کو یہ صلاحیت دیتی ہے کہ وہ خدا سے ہدایت اخذ کرسکے ، یوں حضرت انسانی جسمانی اور مادی اور حواس کی دنیا سے بلند ہوجائے اور اس عالم تجرید میں کام کرے ، جس میں دل و دماغ جو لانی دکھاتے ہیں۔ اس طرح انسان کو وہ راز عطا کیا جاتا ہے جس تک انسان ایسے حالات میں پہنچتا ہے کہ وہ زمان و مکان سے وراء ہوتا ہے اور دائرہ حواس سے آگے بڑھ کر غیر محدود تصورات کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ اونچے درجات حاصل کرنے کے باوجود انسان کے ساتھ مادیت کی آلودگی بہرحال قائم رہتی ہے۔ اس کا مزاج مادی ہی رہتا ہے اور وہ مادی ضروریات اور کمزوریوں کا شکار رہتا ہے۔ وہ کھاتا ہے ، پیتا ہے ، لباس کا محتاج ہوتا ہے۔ طبعی میلانات اور جنسی خواہشات رکھتا ہے۔ کمزوریاں اور کو تاہیاں اس میں ہوتی ہیں اور اپنے جسمانی اور تصوراتی کمزوری کی وجہ سے پھر اس سے برے افعال سرزد ہوتے ہیں۔ اسلام کا منشا اور اعلیٰ نصب العین یہ ہے کہ انسان ، انسان مادی اور مٹی کے تقاضوں اور روحانی اور علوی تقاضوں کے درمیان ایک حسین توازن کے اعلیٰ اور ارفع مقام تک پہنچ جائے۔ یہ وہ ترقی یافتہ اور بلند مقام ہے جسے ہم کمال بسری سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسلام انسان سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اپنے عناصر ترکیبی میں سے کسی ایک کو نظر انداز کر دے اور یا خالص روحانی بن جائے ، رہبان ہو یا ہندو ، جوگی ہو یا خالص مادہ پرست بن جائے اور مادی اقدار کے سوا تمام اعلیٰ اقدار کی نفی کر کے حیوان بن جائے۔ اگر انسان ان دونوں عناصر میں سے کسی ایک ہی کا انتخاب کرے گا تو وہ کبھی بھی کمال و ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتا۔ جو قومیں صرف ایک عنصر کو پیش نظر رکھ کر انسان کو نرمی دیتی ہیں وہ ان مقاصد کے خلاف کام کر رہی ہیں جن کے لئے اس مخلوق کی تخلیق کی گئی ہے۔ جو لوگ انسان کی جسمانی قوتوں کو معطل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہی ہیں جو انسان کی روحانی قوتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں فریق انسان کے سیدھے فطری مزاج کے خلاف جا رہے ہیں۔ ایسے لوگ انسان سے وہ کام لینا چاہتے ہیں جس کے بارے میں خالق انسان کا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں کیونکہ یہ لوگ جسد انسانی کے ایک حصے کو کاٹ رہے ہیں ، لہٰذا وہ اس سلسلے میں خدا کے سامنے جوابدہ ہوں گے کیونکہ وہ فطرت کے خلاف جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو تنبیہ کی جو رہبانیت اختیار کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے تھے ۔ مثلاً یہ کہ بعض نے کہا کہ وہ کبھی عورت کے قریب نہ جائے گا۔ بعض نے کہا کہ وہ صائم الدہر ہوگا ، کبھی بھی افطار نہ کرے گا۔ کسی نے کہا کہ وہ ساری ساری رات عبادت کرے گا۔ ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں سوئے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو سخت تنبیہ فرمائی۔ حدیث عائشہ کے آخر میں ہے : فمن رغب عن سنتی فلیس منی “ جو شخص میری سنت سے منہ موڑے گا وہ میری امت سے نہ ہوگا ”۔ اسلام نے انسان کے لئے قوانین شریعت کی جو ضابطہ بندی کی ہے وہ اسی اصول پر کی ہے ۔ اسلام نے اخلاق و قانون کا ایسا ضابطہ دیا ہے جو اسی اصول پر مبنی ہے اور اس میں انسان کی تمام فطری صلاحیتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اسلام انسان کی صلاحیتوں میں سے کسی صلاحیت کی بیخ کنی نہیں کرتا ، ہاں اسلام ان صلاحیتوں کے درمیان ایک قسم کا توازن ضرور قائم کرتا ہے تا کہ ان میں سے کوئی طاقت اور صلاحیت حد اعتدال سے تجاوز نہ کر جائے اور کوئی صلاحیت دوسری کو ختم نہ کر دے۔ کیونکہ توازن بگاڑنے سے بہرحال غیر متواز صلاحیت ختم ہوگی اور انسان کی بعض خصوصیات کو وجود ہی باقی نہ رہے گا۔ اور یوں انسان ایک شرعی جرم کا مرتکب ہوگا کیونکہ اللہ کا یہ بھی حکم ہے کہ اپنی فطری قوتوں کو محفوظ رکھو اور ان کی نشوونما کرو۔ کیونکہ یہ اللہ کی عطا کردہ ہیں اور کسی مقصد کے لئے ہیں ، محض اضافی نہیں ہیں اور نہ بےمقصد ہیں۔ یہ تھیں وہ بعض باتیں اور کچھ خیالات جو انسان کی تخلیق کی حقیقت پر غور کرنے کے بعد دل میں اترے۔ قرآن کریم تخلیق انسان کے بارے میں یہی حقائق ذہن نشین کراتا ہے۔ اب مناسب ہے کہ ہم اس قصے کے مشاہد اور مناظر کی طرف آئیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

انسان اور جنات کی تخلیق، ابلیس کو سجدہ کرنے کا حکم اور اس کی نافرمانی اور ملعونیت، بنی آدم کو ورغلانے کے لیے اس کا قسم کھانا اور لمبی عمر کی درخواست کرنا، مخلصین کے بہکانے سے عاجزی کا اقرار، ابلیس کا اتباع کرنے والوں کے لیے داخلہ دوزخ کا اعلان ان آیات میں انسان اور جنات کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا اور یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک بشر کو پیدا فرمانے والا ہوں جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدہ میں گرپڑنا، چناچہ جب اس بشر کی تخلیق ہوگئی اور روح پھونک دی گئی جس کے پیدا فرمانے کا پہلے سے اعلان فرمایا تھا تو تمام فرشتے اس بشر کو سجدہ کرنے کے لیے گرپڑے۔ یہ نئی مخلوق جسے سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تھا یہاں اسے انسان اور بشر فرمایا ہے اور سورة بقرہ اور سورة اعراف اور سورة بنی اسرائیل وغیرہ میں اس کا نام لیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو، حضرت آدم (علیہ السلام) سب سے پہلے انسان تھے ان کی ساری اولاد بنی نوع انسان یہ لفظ ” انس “ سے لیا گیا ہے چونکہ بنی آدم کو انس کی ضرورت ہے تنہائی ناگوار ہے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے اور مانوس ہوتے ہیں اس لیے انسان کا نام انسان ہی رکھا گیا۔ انسان جنس کے لیے بولا جاتا ہے تمام بنی آدم مرد اور عورت انسان ہیں، بنی آدم کے لیے دوسرا لفظ بشر استعمال فرمایا ہے انسان کے سر پر تو اچھی طرح بال ہوتے ہیں لیکن اس کا باقی بشرہ یعنی کھال کا ظاہری حصہ بالوں سے اس طرح بھرا ہوا نہیں ہوتا جیسے چوپاؤں کے جسم پر بڑے بڑے بال ہوتے ہیں اور کھال ان بالوں میں چھپی رہتی ہے اس بےبال والے جسم کی مناسبت سے انسان کو بشر کہا جاتا ہے۔ صلصال اور حماً مسنون کا مصداق انسانی تخلیق کا ذکر فرماتے ہوئے سورة مومن میں فرمایا کہ تراب (مٹی) سے پیدا فرمایا اور سورة ص میں فرمایا کہ طین (کیچڑ) سے پیدا فرمایا اور یہاں سورة حجر میں فرمایا کہ صلصال بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا اور ساتھ ہی (مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ) بھی فرمایا حما کالے رنگ کی کیچڑ اور مسنون سڑی ہوئی چیز جس میں پڑے پڑے تغیر آگیا ہو اور بدبو پیدا ہوگئی ہو اور سورة رحمن میں فرمایا (خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ ) (اللہ نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا فرمایا) پانی ملانے سے پہلے یہ تراب تھی پانی ملا دیا گیا تو کیچڑ ہوگئی یہ کیچڑ ایک زمانہ تک پڑی رہی تو سڑ گئی اور کالی ہوگئی پھر اس سے حضرت آدم (علیہ السلام) کا پتلا بنایا گیا وہ پتلا سوکھ گیا تو وہ ٹھیکرے کی طرح بجنے والی چیز بن گیا روح پھونکنے سے پہلے جو مختلف احوال و ادوار گزرے ان کو آیات قرآنیہ میں بیان فرمایا ہے کوئی ایک حالت دوسری حالت کے معارض نہیں ہے جنات کی تخلیق کے بارے میں فرمایا (وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّار السَّمُوْمِ ) (اور ہم نے جن کو اس سے پہلے آگ سے پیدا کیا جو ایک گرم ہوا تھی) اس میں اس بات کی تصریح ہے کہ جنات کی تخلیق انسان سے پہلے ہوئی آیت کریمہ میں لفظ الجان فرمایا ہے اس سے جنس جنات کا باپ مراد ہے جو سب سے پہلے پیدا ہوا حضرت آدم (علیہ السلام) ابو البشر ہیں اور الجان ابو الجن ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے ابلیس مراد ہے وہ تمام جنات کا باپ ہے لیکن یہ بات کسی سند سے منقول نہیں ہے آکام المرجان میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جنات کا باپ (جو سب سے پہلے پیدا کیا گیا) اس کا نام سومی تھا پھر اس سے جنات کی نسل چلی، نیز یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے پہلے جنات زمین میں رہتے تھے اور ان کی پیدائش سے پہلے جنات کی آبادی کو زمین میں دو ہزار سال گزر چکے تھے (اور ایک قول یہ ہے کہ چالیس سال گزرے تھے) یہ زمین میں فساد کرتے تھے خون بہاتے تھے حتیٰ کہ انہوں نے یوسف کو قتل کردیا جو ان کا بادشاہ تھا اور ایک قول یہ ہے کہ وہ ان کا پیغمبر تھا۔ فرشتوں نے جب اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان سنا کہ زمین میں ایک خلیفہ پیدا فرمانے والا ہوں تو وہ جنات پر قیاس کرکے بول اٹھے کہ آپ ایسی مخلوق کو پیدا فرمائیں گے جو دنیا میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے جس کا تذکرہ سورة بقرہ کے چوتھے رکوع میں گزر چکا ہے۔ لفظ جان اور جن کا مادہ جنن ہے، جو مضاعف ہے آخر میں دو نون ہیں یہ مادہ چھپانے اور پوشیدہ کرنے پر دلالت کرتا ہے چونکہ جنات انسانوں کی آنکھوں سے پوشیدہ رہتے ہیں اس لیے انہیں جنات کہا جاتا ہے۔ یہاں سورة حجر میں جنات کی پیدائش نارسموم سے بتائی ہے اور سورة رحمن میں (وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ) فرمایا ہے مارج وہ آگ جس میں دھواں نہ ہو دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ جنات کی تخلیق ایسی آگ سے ہے جو گرم ہوا کی طرح سے تھی دھویں کے اجزاء شامل نہ ہونے کی وجہ سے نظر نہ آتی تھی لفظ سموسم سے لیا گیا ہے سم عربی میں زہر کو کہتے ہیں صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس کا معنی نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ الریح الحارۃ التی تقتل یعنی وہ گرم ہوا جو قتل کردیتی ہے، پھر لکھا ہے و سمیت سموما لانھا بلطفھا تنفذ فی مسام البدن و منہ السم القاتل (یعنی اس کا نام سموم اس لیے رکھا گیا کہ اپنی لطافت کی وجہ سے بدن کے مسامات میں نفوذ کرلیتی ہے اور زہر کو اسی لیے سم قاتل کہا جاتا ہے) اس کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں والمراد من النار المفرطۃ الحرارۃ (یعنی نارسموم سے وہ آگ مراد ہے جو بہت زیادہ گرم ہو) چونکہ ابلیس جن کی جنس سے ہے جیسا کہ سورة کہف میں (کَانَ مِنَ الْجِنِّ ) فرمایا ہے اس لیے اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور یوں کہا (خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ ) (آپ نے مجھے آگ سے اور اس کو کیچڑ سے پیدا کیا) اپنے خیال میں اس نے اپنے کو برتر سمجھا اور اپنے مادہ تخلیقی یعنی آگ کو افضل اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے مادہ تخلیق یعنی مٹی کو کمتر سمجھا یہ اس کی بہت بڑی غلطی تھی مادہ نار میں فساد ہے اور مادہ تراب میں تعمیر ہے اس لیے آگ مٹی سے افضل نہیں ہوسکتی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

26 ۔ اور بلا شبہ ہم نے انسان کو مٹی کے ایک ایسے سڑے ہوئے بدبو دار گارے سے پیدا کیا جو خشک ہونے کے بعد کھنکھناتی اور کھن کھن کی آواز دیتی تھی ۔ یعنی مٹی جب پک جاتی ہے تو چٹکی مارنے سے کھن کھن کی آواز دیتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے پہلے گارے سے انسان کا پتلا بنایا پھر وہ پتلا خشک ہوگیا تو اس کو درجہ بدرجہ زنی دی یہاں تک کہ اس میں روح ڈالی گئی۔ انسان سے مراد یہاں ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں ۔