Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 34

سورة الحجر

قَالَ فَاخۡرُجۡ مِنۡہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ ﴿ۙ۳۴﴾

[ Allah ] said, "Then get out of it, for indeed, you are expelled.

فرمایا اب تو بہشت سے نکل جا کیونکہ تو راندہ ٔدرگاہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Expulsion of Iblis from Jannah, and His Reprieve until the Day of Resurrection Allah tells: قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ

ابدی لعنت پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکومت کا ارادہ کیا جو نہ ٹلے ، نہ ٹالا جا سکے کہ تو اس بہترین اور اعلی جماعت سے دور ہو جا تو پھٹکارا ہوا ہے ۔ قسامت تک تجھ پر ابدی اور دوامی لعنت برسا کرے گی ۔ کہتے ہیں کہ اسی وقت اس کی صورت بد گئی اور اس نے نوحہ خوانی شروع کی ، دنیا میں تمام نوحے اسی ابتدا سے ہیں ۔ مردود و مطرود ہو کر پھر آتش حسد سے جلتا ہوا آرزو کرتا ہے کہ قیامت تک کی اسے ڈھیل دی جائے اسی کو یوم البعث کہا گیا ہے ۔ پس اسکی یہ درخواست منظور کی گئی اور مہلت مل گئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِيْمٌ 34؀ۙ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ رجم الرِّجَامُ : الحجارة، والرَّجْمُ : الرّمي بالرِّجَامِ. يقال : رُجِمَ فهو مَرْجُومٌ ، قال تعالی: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء/ 116] ، أي : المقتولین أقبح قتلة، وقال : وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود/ 91] ، إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] ، ويستعار الرّجم للرّمي بالظّنّ ، والتّوهّم، وللشّتم والطّرد، نحو قوله تعالی: رَجْماً بِالْغَيْبِ وما هو عنها بالحدیث المرجّم «7» وقوله تعالی: لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] ، أي : لأقولنّ فيك ما تكره والشّيطان الرَّجِيمُ : المطرود عن الخیرات، وعن منازل الملإ الأعلی. قال تعالی: فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل/ 98] ، وقال تعالی: فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر/ 34] ، وقال في الشّهب : رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک/ 5] ( ر ج م ) الرجام ۔ پتھر اسی سے الرجیم ہے جس کے معنی سنگسار کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رجمۃ ۔ اسے سنگسار کیا اور جسے سنگسار کیا گیا ہوا سے مرجوم کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء/ 116] کہ تم ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] کیونکہ تمہاری قوم کے لوگ تمہاری خبر پائیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ پھر استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان تو ہم ، سب وشتم اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے رَجْماً بِالْغَيْب یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں ۔ (176) ، ، وماھو عنھا بالحدیث المرکم ، ، اور لڑائی کے متعلق یہ بات محض انداز سے نہیں ہے ۔ اور شیطان کو رجیم اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ خیرات اور ملائم اعلیٰ کے مراتب سے راندہ ہوا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل/ 98] تو شیطان مردود کے وسواس سے خدا کی پناہ مانگ لیاکرو ۔ فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر/ 34] تو بہشت سے نکل جا کہ راندہ درگاہ ہے ۔ اور شھب ( ستاروں ) کو رجوم کہا گیا ہے قرآن میں ہے :۔ رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک/ 5] ان کی شیاطین کے لئے ایک طرح کا زوبنایا ہے ۔ رجمۃ ورجمۃ ۔ قبر کا پتھر جو بطور نشان اس پر نصب کیا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ (قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِيْمٌ) آدم کو سجدہ کرنے کے حکم الٰہی کا انکار کر کے تم راندہ درگاہ ہوچکے ہو۔ اب یہاں سے فی الفور نکل جاؤ !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٤۔ ٣٨۔ جب شیطان نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور تکبر کی راہ سے اپنے کو آدم سے افضل سمجھا تو اللہ پاک کا یہ حکم اس کے حق میں صادر ہوا کہ تو فرشتوں کے زمرہ سے نکل جا اور اگر کبھی ادھر کا قصد کرے تو تجھ پر انگارے برسیں گے اور قیامت تک تجھ پر پھٹکار ہوتی رہے گی یہاں مفسروں نے یہ بیان کیا ہے کہ قیامت تک پھٹکار ہونے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ قیامت کے بعد پھر اس پر لعنت نہ ہوگی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس وقت تک صرف لعنت ہی لعنت ہے اور بعد قیامت کے لعنت سے بڑھ کر اس پر عذاب بھی ہوگا۔ اس عذاب کے سامنے وہ اس پھٹکار کو بھول جائے گا بہر حال جب اس کو یہ معلوم ہوگیا کہ خدا نے قیامت تک عذاب کو اس کے حق میں موقوف رکھا ہے تو اس نے خدا سے یہ سوال کیا کہ مجھے اس وقت معلوم تک ڈھیل دی جائے اور میں اس روز تک زندہ رہوں۔ اس سے پہلے نہ مروں اللہ جل شانہ نے اس کی بات منظور کی اور فرمایا کہ اس وقت معلوم تک تجھ کو ڈھیل دی گئی اور اس سے پہلے تجھے موت بھی نہیں آئے گی۔ اس نے اس خیال سے قیامت تک زندہ رہنے کا سوال کیا کہ آدم کی اولاد جب تک زندہ رہے گی میں اس کو بہکا بہکا کر راہ راست سے علیحدہ رکھوں گا اور جس طرح آخرت میں مجھ پر عذاب ہوگا اسی طرح آدم (علیہ السلام) کی اولاد پر بھی عذاب ہوتے دیکھوں گا حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا یہ قول ہے کہ اسرافیل (علیہ السلام) جو پہلی مرتبہ صور پھونکیں گے جس سے کل مخلوق بیہوش ہوجائے گی اس وقت تک ابلیس کی موت ٹل گئی ہے پہلے صور پر سب لوگوں کے ساتھ یہ بھی بیہوش ہوجائے گا پھر دوسرا صور چالیس برس کے بعد پھونکا جائے گا جس سے کل لوگ ہوشیار ہوں گے یہاں تک کہ قبروں سے مردے بھی جی اٹھیں گے اس وقت ابلیس بھی اٹھے گا اور یہی چالیس برس تک اس کا بیہوش پڑا رہنا گویا اس کی موت ہے۔ اگرچہ حکم الٰہی کی مخالفت اور گنہگاروں سے بھی ہوجاتی ہے کیونکہ گناہ کا ہر ایک کام حکم الٰہی کے مخالف ہے لیکن شیطان نے یہ نافرمانی تکبر کی راہ سے کی اور سرکشی سے اس کا اقرار اللہ تعالیٰ کے روبرو کر کے پھر اس پر اصرار بھی کیا اس لئے اللہ تعالیٰ کی اس پر یہ خفگی ہوئی کہ بغیر توبہ کی توفیق کے اس کو ہمیشہ کے لئے ملعون ٹھہرا دیا برخلاف آدم (علیہ السلام) کے کہ وہ گیہوں کھا کر نادم اور پشیمان ہوئے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی۔ معتبر سند سے طبرانی اور مستدرک حاکم میں عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبر کو اللہ تعالیٰ کے غصہ کا سبب فرمایا ١ ؎ ہے یہ حدیث شیطان کے آسمان پر سے اتارے جانے اور ہمیشہ کے لئے ملعون ٹھہرنے کی گویا تفسیر ہے۔ ١ ؎ الترغیب ص ١٨٧ ج ٢ مطلب فی مادرد فی الکبر

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:34) منھا میں ضمیر ھا واحد مؤنث غائب کا مرجع یا سماء ہے یا جنۃ ہے یا زمرۂ ملائکہ (محذوف ) ہے۔ رجیم۔ مردود۔ راندہ ہوا۔ ملاحظہ ہو (15:17) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ نے جونہی حکم صادر فرمایا تو تمام کے تمام ملائکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے سر بسجود ہوگئے۔ سوائے ابلیس کے وہ اکڑا رہا اور اس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے استفسار فرمایا۔ تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ سجدہ نہیں کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اس نافرمانی اور سرکشی پر رب ذوالجلال سے معافی طلب کرتا لیکن اس نے یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ کی گستاخی اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی عیب جوئی کی کہ میں ایک بشر کو کیوں سجدہ کروں جس کو تو نے بدبودار اور کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ مسائل ١۔ ابلیس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ ٢۔ شیطان نے تکبر کی بنیاد پر سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو اپنی بارگاہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔ ٤۔ قیامت تک شیطان پر لعنت و پھٹکار ہوگی۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٣٤ تا ٣٥ اب اس کا حسد ، بغض اور شرارت کا مزاج سامنے آتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

34 ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جانکل یہاں سے بلا شبہ تو مردود اور راندہ ہوا ہے۔ یعنی آسمانوں سے نکل یا جنت سے نکل یا اس مرتبہ علیا سے نکل کہ تو اس مرتبہ کا مستحق نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں شاید یہ ہی مراد ہو کہ انگارے پھینکتے ہیں اور نکالا زمین سے کہ انسان بسیں 12