Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 85

سورة الحجر

وَ مَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ ؕ وَ اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ فَاصۡفَحِ الصَّفۡحَ الۡجَمِیۡلَ ﴿۸۵﴾

And We have not created the heavens and earth and that between them except in truth. And indeed, the Hour is coming; so forgive with gracious forgiveness.

ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو حق کے ساتھ ہی پیدا فرمایا ہے اور قیامت ضرور ضرور آنے والی ہے ۔ پس تو حسن و خوبی ( اور اچھائی ) سے درگزر کر لے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The World has been created for some Purpose, then the Hour will come Allah says, وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلاَّ بِالْحَقِّ وَإِنَّ السَّاعَةَ لاتِيَةٌ ... And We did not create the heavens and the earth and all that is between them except with the truth, and the Hour is surely coming, i.e., with justice to - لِيَجْزِىَ الَّذِينَ أَسَاءُواْ بِمَا عَمِلُواْ requite those who do evil with that which they have done. (53:31) Allah says, وَمَا خَلَقْنَا السَّمَأءَ وَالاٌّرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَـطِلً ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنَ النَّارِ And We did not create the heaven and the earth, and all that is between them without purpose! That is what those who disbelieve think! Then let those who disbelieve be warned of the Fire! (38:27) أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَـكُمْ عَبَثاً وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُونَ فَتَعَـلَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ "Did you think that We created you in play, and that you would not be brought back to Us!" So exalted be Allah, the Truth, the King, none has the right to be worshipped but He, the Lord of the Honored Throne! (23:115-116) ... فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ so overlook their faults with gracious forgiveness. Allah informed His Prophet about the Hour, and that it will be the faults of the idolators when they insult him and reject the Message that he brings to them. This is like the Ayah, فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَـمٌ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (o turn away from them, and say: "Salam (Peace!)." But they will come to know! (43:89) Mujahid, Qatadah and others said: "This was before fighting was prescribed." It is as they said, because this Surah was revealed in Makkah and fighting was prescribed after the Hijrah. إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلَّقُ الْعَلِيمُ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیاں اللہ نے تمام مخلوق عدل کے ساتھ بنائی ہے ، قیامت آنے والی ہے ، بروں کو برے بدلے نیکوں کو نیک بدلے ملنے والے ہیں ۔ مخلوق باطل سے پیدا نہیں کی گئی ۔ ایسا گمان کافروں کا ہوتا ہے اور کافروں کے لئے ویل دوزخ ہے ۔ اور آیت میں ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ بلندی والا ہے اللہ مالک حق جس کے سوا کوئی قابل پرستش نہیں عرش کریم کا مالک وہی ہے ۔ پھر اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ مشرکوں سے چشم پوشی کیجئے ، ان کی ایزا اور جھٹلانا اور برا کہنا برداشت کر لیجئے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ان سے چشم پوشی کیجئے اور سلام کہہ دیجئے انہیں ابھی معلوم ہو جائے گا ۔ یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے تھا یہ آیت مکیہ ہے اور جہاد بعد از ہجرت مقرر اور شروع ہوا ہے ۔ تیرا رب خالق ہے اور خالق مار ڈالنے کے بعد بھی پیدائش پر قادر ہے ، اسے کسی چیز کی بار بار کی پیدا ئش عاجز نہیں کر سکتی ۔ ریزوں کو جب بکھر جائیں وہ جمع کر کے جان ڈال سکتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ڲ بَلٰى ۤ وَهُوَ الْخَــلّٰقُ الْعَلِـيْمُ 81؀ ) 36-يس:81 ) ، آسمان و زمین کا خالق کیا ان جیسوں کی پیدائش کی قدرت نہیں رکھتا ؟ بیشک وہ پیدا کرنے والا علم والا ہے وہ جب کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو اسے ہو جانے کو فرما دیتا ہے بس وہ ہو جاتی ہے ۔ پاک ذات ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

85۔ 1 حق سے مراد وہ فوائد و صالح ہیں جو آسمان و زمین کی پیدائش سے مقصود ہیں۔ یا حق سے مراد محسن (نیکوکار) کو اس کی نیکی کا اور بدکار کو اس کی برائی کا بدلہ دینا ہے۔ جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا ' اللہ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے تاکہ بروں کو ان کی برائیوں کا اور نیکوں کو ان کی نیکی کا بدلہ دے (النجم۔ 31)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦] ان قوموں پر عذاب الٰہی نازل کرکے ان کی بیخ وبن سے اکھاڑ دینے کی وجہ یہ تھی کہ ان کا طرز زندگی کسی ٹھوس حقیقت پر مبنی نہیں تھا بلکہ اوہام پرستی اور باطل پر تھا جبکہ کائنات کی ہر ایک چیز ٹھوس حقائق پر پیدا کی گئی ہے اور انہی حقائق سے یہ دلیل بھی ملتی ہے کہ یہ کائنات بےمقصد پیدا نہیں کی گئی اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ قیامت ضرور قائم ہونا چاہیے اور مجرم لوگ تو ہمیشہ روز آخرت اور اللہ کے حضور باز پرس کے تصور کے منکر رہے ہیں۔ لہذا ان کا انجام ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ اور اب یہ مشرکین مکہ جو اسی ڈگر پر چل رہے ہیں ان کا بھی وہی انجام ہونے والا ہے لہذا ان سے الجھنے کی ضرورت نہیں۔ آپ ابھی ان سے درگزر سے کام لیجئے۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ وہ مناسب وقت پر ان سے خود نمٹ لے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔۔ : ” بِالْحَقِّ “ کا معنی صحیح، با مقصد کام جو ہو کر رہنے والا ہو، جو بےکار، بےمقصد نہ ہو اور جسے کوئی روک نہ سکے۔ اس کے بالمقابل باطل ہے، فرمایا : (بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ ) [ الأنبیاء : ١٨] ” بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں۔ “ چار انبیاء کے واقعات کے بعد اب اللہ تعالیٰ کی عظیم مخلوق آسمان و زمین اور ان کے درمیان بیشمار مخلوقات کی طرف توجہ دلائی، جن میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور عظمت و قدرت پر دلالت کرتی ہے۔ فرمایا کہ یہ سب ہم نے بےمقصد پیدا نہیں کیا، بلکہ یہ سب کچھ تمہاری ضروریات کے لیے ہے اور ان میں سے ہر چیز کے لیے اللہ کا حکم ماننا ہر حال میں لازم ہے، کسی کو اختیار ہی نہیں کہ وہ سرتابی کرسکے۔ صرف انسانوں اور جنوں کو آزمائش کے لیے کچھ اختیار دیا ہے، اگر اس کا صحیح استعمال کریں گے تو دنیا و آخرت میں اللہ کے انعامات کے مستحق ہوں گے، جیسے ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ ذکر ہوا ہے، غلط استعمال کریں گے تو یا تو دنیا ہی میں اللہ کی گرفت میں آجائیں گے، جیسے لوط، شعیب اور صالح کی قومیں اللہ کے عذاب کی گرفت میں آئیں۔ اس کے بعد یقیناً قیامت آنے والی ہے، اس میں نیکوں کو ان کی نیکی کا پورا بدلہ دے گا، اگر دنیا میں بدلہ نہیں ملا تو وہاں کسر نکال دی جائے گی، اسی طرح بروں کو ان کی بدی کا پورا بدلہ ملے گا اور اگر دنیا میں انھیں مہلت ملی رہی تو وہاں کسر پوری کردی جائے گی۔ اس لیے آپ اور آپ کے ساتھی ان کفار کی زیادتی پر صبر کریں اور ان کی زبان درازی سے درگزر فرمائیں (دیکھیے آل عمران : ١٨٦) اور درگزر بھی خوبصورت طریقے سے، تاکہ قطع تعلق سے دعوت کا راستہ بند نہ ہوجائے۔ یہ سارا بیان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لیے ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ ۭ وَاِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيْلَ 85؀ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ صفح صَفْحُ الشیءِ : عرضه وجانبه، كَصَفْحَةِ الوجهِ ، وصَفْحَةِ السّيفِ ، وصَفْحَةِ الحَجَرِ. والصَّفْحُ : تركُ التّثریب، وهو أبلغ من العفو، ولذلک قال : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة/ 109] ، وقد يعفو الإنسان ولا يَصْفَحُ. قال : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] ، وصَفَحْتُ عنه : أولیته مني صَفْحَةٍ جمیلةٍ معرضا عن ذنبه، أو لقیت صَفْحَتَهُ متجافیا عنه، أو تجاوزت الصَّفْحَةَ التي أثبتّ فيها ذنبه من الکتاب إلى غيرها، من قولک : تَصَفَّحْتُ الکتابَ ، وقوله : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] ، فأمر له عليه السلام أن يخفّف کفر من کفر کما قال : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل/ 127] ، والمُصَافَحَةُ : الإفضاء بِصَفْحَةِ الیدِ. ( ص ف ح ) صفح ۔ کے معنی ہر چیز کا چوڑا پہلو یا جانب کے مثلا صفحۃ السیف ( تلوار کا چوڑا پہلو ) صفحتہ الحجر ( پتھر کی چوڑی جانب وغیرہ ۔ الصفح ۔ ( مصدر ) کے معنی ترک ملامت اور عفو کے ہیں مگر یہ عفو سے زیادہ بلیغ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة/ 109] تو تم معاف کرو داور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا دوسرا حکم بھیجے ۔ میں عفو کے بعد صفح کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات انسان عفو یعنی درگزر تو کرلیتا ہے لیکن صفح سے کا م نہیں لیتا یعنی کسی سے اس قدر درگزر کرنا کہ اسے مجرم ہی نہ گروانا جائزنیز فرمایا : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اس لئے درگذر کرو اور اسلام کہہ دو ۔ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] تو تم ان سے اچھی طرح درگزر کرو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] بھلا اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوئے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ صفحت عنہ (1) میں نے اس سے درگذر کرتے ہوئے اسے صفح جمیل کا والی بنایا یعنی اسکے جرم سے کلیۃ اعراض برتا (2) اس سے دور ہوتے ہوئے ایک جانب سے ملا (3) میں نے کتاب کے اس صفحہ سے تجاوز کیا جس میں اس کا جرم لکھ رکھا تھا ۔ اس صورت میں یہ تصفحت الکتاب سے ماخوذ ہوگا ۔ جس کے معنی کتاب کے صفحات کو الٹ پلٹ کردیکھنے کے ہیں قرآن میں ہے : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] اور قیامت توضرور آکر رہے گی لہذا تم ( ان سے ) ا چھی طرح سے درگذر کرو ۔ اس آیت میں آنحضرت کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے غم کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل/ 127] اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور جو یہ بد اندیش کر رہے ہیں اس سے تنگ دل نہ ہو ۔ المصافحۃ مصافحہ کرنا ۔ ہاتھ ملانا ۔ جمیل الجَمَال : الحسن الکثير، وذلک ضربان : أحدهما : جمال يخصّ الإنسان في نفسه أو بدنه أو فعله . والثاني : ما يوصل منه إلى غيره . وعلی هذا الوجه ما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ اللہ جمیل يحبّ الجمال» «2» تنبيها أنّه منه تفیض الخیرات الکثيرة، فيحبّ من يختص بذلک . وقال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل/ 6] ، ويقال : جَمِيلٌ وجَمَال علی التکثير . قال اللہ تعالی: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف/ 83] ( ج م ل ) الجمال کے معنی حسن کثیر کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) وہ خوبی جو خاص طور پر بدن یا نفس یا عمل میں پائی جاتی ہے ۔ (2) وہ خوبی جو دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے اسی معنی میں مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا (66) ان اللہ جمیل يحب الجمال ۔ کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو محبوب رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیرات کثیرہ کا فیضان ہوتا ہے لہذا جو اس صفت کے ساتھ متصف ہوگا ۔ وہی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا ۔ اور قرآن میں ہے :۔ وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل/ 6] اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو ۔۔ تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے ۔ اور جمیل و جمال وجمال مبالغہ کے صیغے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف/ 83] اچھا صلہ ( کہ وہی ) خوب ( ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٥) اور ہم نے تمام مخلوقات اور ان عجائبات کو حق و باطل کے اظہار اور ان کفار پر حجت قائم کرنے کے لیے پیدا کیا ہے اور قیامت ضرور آنے والی ہے تو آپ خوبی کے ساتھ انھیں معاف کیجیے، یہ آیت، آیت قتال کے ساتھ منسوخ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اس سورة کی آخری پندرہ آیات دعوت دین کے اعتبار سے بہت اہم ہیں) آیت ٨٥ (وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بالْحَقِّ ) یہ کائنات ایک با مقصد تخلیق ہے کوئی کھیل تماشا نہیں۔ ہندو مائتھالوجی کی طرز پر یہ کوئی رام کی لیلا نہیں ہے کہ رام جی جس کو چاہیں راجہ بنا کر تخت پر بٹھا دیں اور جسے چاہیں تخت سے نیچے پٹخ دیں بلکہ یہ کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کی تخلیق با معنی اور با مقصد ہے۔ اس حقیقت کو سورة آل عمران میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَاب النَّارِ ) ” اے ہمارے رب ! تو نے یہ کائنات بےمقصد نہیں بنائی تیری ذات اس سے بہت اعلیٰ اور پاک ہے لہٰذا ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔ “ (وَاِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌ) چونکہ یہ کائنات اور اس کی ہرچیز حق کے ساتھ تخلیق کی گئی ہے لہٰذا اس حق کا منطقی تقاضا ہے کہ ایک یوم حساب آئے ‘ لہٰذا قیامت آکر رہے گی۔ اس کائنات کا بغور جائزہ لینے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس کی تمام چیزیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو منطقی سوال اٹھتا ہے کہ پھر انسان کو کس لیے پیدا کیا گیا ہے ؟ اور انسان کے اندر جو اخلاقی حس پیدا کی گئی ہے ‘ اسے پیدائشی طور پر نیکی اور بدی کی جو تمیز دی گئی ہے یہاں دنیا میں اس سے کیا نتائج بر آمد ہو رہے ہیں ؟ اس دنیا میں تو اخلاقیات کے اصولوں کے برعکس نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہاں چور ڈاکو اور لٹیرے عیش کرتے نظر آتے ہیں اور نیک سیرت لوگ فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔ لہٰذا اس صورت حال کا منطقی تقاضا ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہو جس میں ہر شخص کا پورا پورا حساب ہو اور ہر شخص کو ایسا صلہ اور بدلہ ملے جو اس کے اعمال کے عین مطابق ہو۔ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيْلَ ) یہ مجرم لوگ ہماری پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے۔ قیامت آئے گی اور یہ لوگ ضرور کیفر کردار کو پہنچیں گے ‘ مگر ابھی ہم انہیں ڈھیل دینا چاہتے ہیں مزید کچھ دیر کے لیے مہلت دینا چاہتے ہیں۔ چناچہ آپ فی الحال ان کی دل آزار باتیں برداشت کریں ‘ ان کی معاندانہ سرگرمیوں کے جواب میں صبر کریں اور احسن انداز میں اس سب کچھ کو نظر انداز کردیں۔ اسّ رویے اور ایسے طرز عمل سے آپ کے درجات بلند ہوں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

47. This was to reassure the Prophet (peace be upon him) that ultimately he would come out successful because he was propagating the truth, and the entire universe was based on truth. Such an assurance was urgently needed because at that time falsehood appeared to be triumphant over the truth. This implies: O Prophet, do not worry at all at the apparent success of falsehood for this is temporary. Likewise the difficulties, the obstacles and the troubles in the way of truth are not permanent. Take courage, and have confidence in the cause of the truth and you will triumph over falsehood because the whole system of the universe is akin to truth and averse to falsehood. Therefore, truth is permanent and falsehood is perishable. Refer to (E.Ns 25-26, 35-39 of Surah Ibrahim).

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :47 یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین و تسلی کے لیے فرمائی جا رہی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت بظاہر باطل کا جو غلبہ تم دیکھ رہے ہو اور حق کے راستہ میں جن مشکلات اور مصائب سے تمہیں سابقہ پیش آ رہا ہے ، اس سے گھبراؤ نہیں ۔ یہ ایک عارضی کیفیت ہے ، مستقل اور دائمی حالت نہیں ہے ۔ اس لیے زمین و آسمان کا یہ پورا نظام حق پر تعمیر ہوا ہے نہ کہ باطل پر ۔ کائنات کی فطرت حق کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے نہ کہ باطل کے ساتھ ۔ لہٰذا یہاں اگر قیاس و دوام ہے تو حق کے لیے نہ کہ باطل کے لیے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ابراہیم حواشی ۲۵ – ۲٦ – ۳۵ تا ۳۹ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

29: یعنی اس کائنات کو پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نیک لوگوں کو آخرت میں انعام دیا جائے، اور نافرمانوں کو سزا دی جائے، لہذا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ ان کافروں کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہیں، بلکہ ان کا فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کرے گا۔ 30: درگزر سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان کو تبلیغ نہ کی جائے ؛ بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کو سزا دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے، مکی زندگی میں ان سے لڑنے کی بھی اجازت نہیں تھی، اور ان کی طرف سے جو اذیتیں مسلمانوں کو پہنچ رہی تھیں، ان کا بدلہ لینے کا بھی حکم نہیں تھا، در گزر کرنے سے یہ مراد ہے کہ فی الحال ان سے کوئی بدلہ بھی نہ لو، اس طرح مسلمانوں کو تکلیفوں کی بھٹی سے گزار کر ان میں اعلی اخلاق پیدا کئے جارہے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:85) اصفح۔ صفح سے امر واحد مذکر حاضر۔ تو درگذر کر۔ تو کنارہ کشی کر ( باب فتح) ۔ الصفح الجمیل۔ ایسی کنارہ کشی، ایسا درگذر کہ اس میں غم وتردّد یا شکوہ شکایت نہ ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی یہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو آپ صبر اور درگزر سے کام لیجیے وقت آنے پر ان کو ضرور بدلہ دیا جائے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ بلکہ اس مصلحت سے پیدا کیا کہ ان کو دیکھ کر صانع کے عالم کے وجود اور وحودت اور عظمت پر استدلال کر کے اس کے احکام کی اطاعت کریں اور بعد اقامت اس حجت کے جو ایسا نہ کرے وہ معذب ہو۔ 8۔ درگزر کا مطلب یہ ہے کہ اس غم میں نہ پڑیئے، اس کا خیال نہ کیجئے اور خوبی یہ کہ شکوہ شکایت بھی نہ کیجئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مجرموں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ رہے گی اور قیامت برپا نہیں ہوگی۔ حالانکہ قیامت یقیناً برپا ہو کر رہے گی۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) توحید و رسالت کے بعد جس عقیدہ پر سب سے زیادہ زور دیتے تھے وہ مر کر اٹھنا اور اللہ کے حضور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ جسے عرف عام میں فکر آخرت کا عقیدہ کہا جاتا ہے۔ انسان جب آخرت کی جواب دہی کی فکر سے آزاد ہوجاتا ہے تو وہ نہ صرف دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے بلکہ وہ ہر کام میں من مرضی کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ دنیا پرستی اور لذت نفس کی خاطر وہ جرائم میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ بالآخر وہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ رہنی ہے اور اللہ تعالیٰ نے محض اسے اپنی دل لگی کے لیے پیدا کیا۔ اس باطل اور بےبنیاد نظریہ کی تردید کے لیے قرآن مجید میں سینکڑوں دلائل دیے گئے ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دنیا نے ہمیشہ قائم نہیں رہنا اور بالآخر انسان نے اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا اور اسے اچھے یا برے انجام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس بات کو مختصر الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” ہم نے زمین و آسمانوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے حق کے ساتھ تخلیق فرمایا ہے۔ “ (الاحقاف : ٣) حق سے مراد ہے کہ انہیں بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ بلکہ سب انسان کی خدمت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ جو لوگ اپنے رب کی عبادت میں زندگی صرف کریں گے وہ جزا پائیں گے اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے بجائے اس کی نافرمانی کا راستہ اختیار کیا انہیں ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ لہٰذا اے پیغمبر ! قیامت کا برپا ہونا یقینی ہے جو لوگ اس کا انکار کرتے اور آخرت کو جھٹلاتے ہوئے لایعنی گفتگو کرتے ہیں ان سے الجھنے کی بجائے صبروتحمل اختیار کرکے انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دیں۔ یقیناً آپ کا رب سب کو پیدا کرنے اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ ، فَذَلِکَ حینَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ ، أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہِ وَلاَ یَطْوِیَانِہِ ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہِ فَلاَ یَطْعَمُہُ ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَہْوَ یَلِیطُ حَوْضَہُ فَلاَ یَسْقِی فیہِ ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أُکْلَتَہُ إِلَی فیہِ فَلاَ یَطْعَمُہَا)[ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ کَہَاتَیْنِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کر تمام کے تمام لوگ ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت اس کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا جو اس سے قبل نہ ایمان لایا اور نہ اس نے نیک اعمال کیے۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا دکاندار کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ حوض پروارد ہونے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ انسان اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ “ مسائل ١۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، بےمقصدپیدا نہیں کیا گیا۔ ٢۔ قیامت ضرور آئے گی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت برپا ہو کر رہے گی : ١۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے۔ (الحجر : ٨٥) ٢۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے اور اللہ قبروالوں کو اٹھائے گا۔ (الحج : ٧) ٣۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الکہف : ٢١) ٤۔ بیشک قیامت آنے والی ہے۔ میں اس کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر کسی کو جزا یا سزا ملے۔ (طہٰ : ١٥) ٥۔ اے لوگو ! اللہ سے ڈر جاؤ بیشک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ (الحج : ١) ٦۔ کافر ہمیشہ شک میں رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اچانک آجائے۔ (الحج : ٥٥) ٧۔ ہم نے قیامت کے دن جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب تیار کیا ہے۔ (الفرقان : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١١٨ ایک نظر میں یہ ہیں وہ سنن الٰہیہ جن میں تخلف ممکن نہیں ہے۔ یہ کائنات اللہ کے ان نوامیس اور سنن کے مطابق چلتی ہے۔ یہی قوانین و نوامیس کائنات اور زندگی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جماعت اور تحریکات کو بھی یہی کنٹرول کرتے ہیں۔ ہدایت و ضلالت کے نتائج بھی ان نوامیس الٰہیہ کے مطابق برآمد ہوتے ہیں۔ اقوام کا انجام اور آخرت کا حساب و کتاب بھی انہی نوامیس فطرت کے مطابق ہوتا ہے۔ اس سورة کا ہر سبق انہی نوامیس فطرت اور سنت الٰہیہ کے مطابق اختتام پذیر ہوتا ہے اور مختلف اسالیب میں سنن الٰہیہ کو پیش کرتا ہے۔ یہ نوامیس فطرت اللہ کی تمام مخلوقات کے اندر پائے جاتے ہیں اور یہی حق ہے اور فطرت کائنات اسی حق پر قائم ہے۔ چناچہ اس سورة کے خاتمے پر اس عظیم سچائی کو واضح کر کے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ سچائی زمین و آسمان اور ان کے درمیان پائے جانے والے تمام موجودات کی فطرت میں عیاں ہے۔ یہ کہ قیامت برپا ہونے والی ہے۔ یہ اس کائنات کا فطری انجام ہے اور اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے ، اور یہ کہ تمام رسولوں کی دعوت ایک ہے اور اس ناموس فطرت کے مطابق ہے۔ تمام رسولوں کے درمیان قدرت مشترک یہ ہے کہ وہ ایک ہی عظیم حق کے حامل ہیں جو روشن ہے۔ یہاں بتایا جاتا ہے کہ یہ سچائی تمام مخلوقات کے اندر موجود ہے ، اور اللہ ہی اس سچائی کا خالق ہے۔ ان ربک ھو الخلق العلیم (١٥ : ٨٦) “ یقیناً تمہارا رب سب کا خالق ہے اور سب کچھ جانتا ہے ”۔ لہٰذا اس سچائی کو آگے بڑھنا چاہئے اور اس سچائی پر جو اسلامی دعوت برپا ہے اسے چاہئے کہ وہ آگے بڑھے۔ داعیان حق کسی کی پرواہ نہ کریں اور آگے بڑھیں۔ اور دعوت کے مخالفین اور مذاق اڑانے والوں کی کوئی پرواہ نہ کریں۔ فاصدع بما تومر واعرض عن المشرکین ( ١٥ : ٩٤) “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو حکم دیا جاتا ہے اسے صاف صاف بتائیں اور مشرکین کو نظر انداز کردیں ”۔ اللہ کی سنت بھی اپنی راہ پر گامزن ہے ، وہ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹی۔ سنت الٰہیہ کی پشت پر جو سچائی ہے اور یہ سچائی دعوت اسلامی ، قیام قیامت اور تخلیق ارض سے وابستہ ہے۔ یہ سچائی ان تمام چیزوں سے متعلق ہے جو زمین و آسمان میں موجود ہیں اور جو اخلاق علیم کی پیدا کردہ ہیں۔ یہ ایک یاد دہانی اور تنبیہ ہے جس پر اس سورة کا خامتہ ہو رہا ہے اور یہ تنبیہ انسان کو اس عظیم سچائی کی طرف متوجہ کرتی ہے جس پر یہ وجود قائم ہے۔ آیت نمبر ٨٥ تا ٨٦ یہ تبصرہ کہ آسمان و زمین کی تخلیق ایک سچائی کے ساتھ ہوئی ہے ایک عظیم اور اہم تبصرہ ہے یعنی یہ کہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو چیزیں بھی ہیں یہ سچائی کے ساتھ پیدا کردہ ہیں۔ یہ انداز بیان بھی عجیب ہے کہ تمام موجودات حق کے سوا کسی اور ناموس پر پیدا نہیں کئے گئے۔ سوال یہ ہے کہ اس فقرے کا حقیقی مفہوم کیا ہے ؟۔ وما خلقنا السموت والارض وما بینھما الا بالحق (١٥ : ٨٥) “ ہم نے آسمان و زمین کو اور ان کی سب موجودات کو حق کے سوا کسی اور بنیاد پر خلق نہیں کیا ”۔ مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کی تخلیق میں سچائی کا گہرا دخل ہے۔ یہ سچائی کائنات کی گہرائیوں میں ہے۔ کائنات کی رفتار کے ضابطے میں سچائی موجود ہے۔ کائنات کا انجام اور خاتمہ بھی حق پر ہوگا۔ اس کائنات کے وجود میں سچائی ہے اور اس کی منصوبہ بندی اور اس کے نقشہ تخلیق میں سچائی ہے ، یعنی یہ کہ یہ بطور کھیل تماشا پیدا نہیں کی گئی۔ نہ یہ کائنات اتفاقاً وجود میں آگئی ہے۔ اس کے اصل نقشے اور منصوبے میں نہ دھوکہ و فریب ہے ، نہ کھوٹ ہے اور نہ یہ باطل مخلوق ہے۔ اس پر اگر بظاہر باطل چھایا ہوا نظر آتا بھی ہے تو وہ اوپر ہوا ہوتا ہے ، باطل اس کائنات کے حقیقی عناصر میں سے نہیں ہے۔ اس کائنات کی ساخت میں سچائی بہت گہری ہے۔ اس کے عناصر ترکیبی وہ ہیں جو حق کے عناصر ترکیبی ہیں۔ اس میں نہ وہم ہے ، نہ فریب ہے۔ وہ قوانین جو عناصر کائنات کو جوڑے رکھتے ہیں ، وہ سچائی پر مبنی ہیں اور ان قوانین میں کبھی بھی تخلف نہیں ہوتا۔ نہ ان میں تبدیلی آتی ہے اور نہ ان میں اضطراب ہوتا ہے۔ نہ ان میں کوئی التباس اور افراتفری ہوتی ہے۔ اس کائنات کی تدبیر اور کنٹرول نہایت ہی گہرے ضوابط پر ہے۔ اور اسے سچائی کے ساتھ چلایا جا رہا ہے۔ اس کائنات کے چلانے کے لئے جو نوامیس و ضوابط وضع کئے گئے ہیں وہ صحیح اور عادلانہ ہیں۔ اس کائنات کے انجام میں بھی حق گہرائی تک رچا بسا ہے۔ نہایت ہی محکم قوانین کے مطابق اس کائنات کے تمام نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان اشیاء کے اندر جو تغیر و تبدل بھی وقوع پذیر ہوتا ہے وہ سچائی کے ساتھ ہوتا ہے۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان اشیاء کے اندر جو تغیر و تبدل بھی وقوع پذیر ہوتا ہے وہ سچائی کے ساتھ ہوتا ہے اور سچائی کے لئے ہوتا ہے ۔ اس کائنات میں جزاء و سزا کا ہر واقعہ اور ہر اصول سنت الٰہیہ کے مطابق ہے اور کوئی واقعہ سنت الہٰیہ کے برخلاف وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ قیامت جو یقیناً وقوع پذیر ہونے والی ہے ، وہ اسی سچائی کا نتیجہ ہے ، کیونکہ کائنات کی تخلیق حق کے ساتھ ہوئی ہے ، لہٰذا قیامت نے ایک دن واقعہ ہونا ہے ، یہ ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ جس ناموس کے مطابق یہ کائنات قائم و دائم ہے اور رواں دواں ہے ، اسی حق کا تقاضا ہے کہ ایک دن قیامت آئے۔ یہ بذات خود حق ہے۔ جب قیامت حق ہے تو اس کا وقوع بھی حق ہے۔ فاصفح الصفح الجمیل (١٥ : ٨٥) “ لہٰذا ان لوگوں کی بیہودگیوں پر شریفانہ درگذر سے کام لیں ”۔ اور اپنے دل کو تنگ نہ کریں ، اور کسی کے ساتھ بغض و عداوت نہ رکھیں کیونکہ سچائی بہرحال سچ ہو کر رہنے والی ہے۔ ان ربک ھو الخلق العلیم ( ١٥ : ٨٦) “ بیشک تمہارا رب سب کا خالق ہے اور سب کچھ جانتا ہے ”۔ وہ پیدا کرنے والا ہے ، وہ جانتا ہے کہ اس نے کیا پیدا کیا اور کیوں پیدا کیا ؟ چونکہ اس نے سب کچھ پیدا کیا ہے لہٰذا ہر چیز کی ماہیت میں حق و دیعت شدہ ہے۔ لہٰذا جس طرح سچائی سے اس جہان کا آغاز ہوا اسی طرح سچائی پر اس کا اختتام ہوگا ۔ کیونکہ سچائی اس کائنات کی اصل ماہیت ہے اور سچائی کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ باطل ہے ، کھوٹ ہے ، ختم ہونے والی ہے اور زندہ و تابندہ اور دائماً سچائی نے رہنا ہے جو قلب کائنات کے اندر ودیعت شدہ ہے۔ رسول جو پیغام لے کر آئے ہیں وہ بھی اس کائناتی سچائی ہی کا ایک حصہ ہے ، اور اس کا ظہور بشکل قرآن ہے ، جو حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو حکمت کے موافق پیدا فرمایا ہے آیت بالا میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور کچھ ان کے درمیان ہے صرف حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے، حق کے ساتھ پیدا فرمانے کا یہ مطلب ہے کہ ان کی پیدائش حکمت کے موافق ہے عبرت کے لیے ہے، ان کی تخلیق میں خالق تعالیٰ شانہٗ کی توحید پر دلائل ہیں اور ان کا وجود معرفت حاصل کرنے کے لیے جیسا کہ سورة آل عمران میں فرمایا (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا) (عقل والے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب آپ نے یہ سب بےفائدہ پیدا نہیں فرمایا) صاحب روح المعانی نے ص ٧٧ ج ١٤ آیت کا مطلب بتاتے ہوئے اس انداز سے بات کی ہے کہ ما سبق سے بھی ارتباط ہوجاتا ہے وہ لکھتے ہیں ای الاخلقا متلبسا بالحق والحکمۃ بحیث لایلائم استمرار الفساد و استقرار الشرور، وقد اقتضت الحکمۃ اھلاک امثال ھولاء دفعًا لفسادھم وارشادا لمن بقی الی الصلاح (یعنی مگر آپ نے مخلوق کو حق و حکمت کے ساتھ پیدا کیا اس طرح کہ وہ پیدائش فساد کے قائم رہنے اور شرور کے موجود رہنے کے لیے مناسب نہیں ہے لہٰذا حکمت ان لوگوں کے فساد کو رفع کرنے اور باقی لوگوں کی صحیح راہنمائی کے لیے ان کے ہلاک کرنے کا تقاضا کرتی ہے) مطلب یہ ہے کہ ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے حق اور حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ حکمت کا تقاضا ہے کہ دنیا میں شر اور فساد جگہ نہ پکڑلیں اور فساد ہمیشہ نہ ہوتا رہے، حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ جن لوگوں کا پہلے ذکر ہوا ہے ان جیسوں کو ہلاک کرکے فساد کو رفع کردیا جائے اور بعد میں آنے والوں کے لیے ہدایت ہوجائے جو ان سے عبرت حاصل کریں اور اصلاح کی راہ پر چلیں۔ صاحب روح المعانی نے بعض حضرت سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ الحق سے عدل مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسی لیے پیدا کیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عدل اور انصاف کے ساتھ جزاء دے، لوگ آسمان اور زمین کے درمیان رہیں گے اور اچھے برے اعمال کریں گے تو قیامت کے دن ان کی جزا پالیں گے۔ (وَ اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ) (اور بلاشبہ قیامت ضرور آنے والی ہے) جو لوگ کفر پر مرگئے خواہ عذاب سے ہلاک ہوئے ہوں بلا عذاب موت آئی ہو ان سب کو اور ہر نیک و بد کو قیامت کے دن حاضر ہونا ہے، جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی وہ وہاں بھی سزا پالیں گے، اس میں نبی کرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ قیامت کے دن ان سے بدلہ لے لیا جائے گا۔ مزید فرمایا (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ ) (کہ آپ خوبی کے ساتھ درگزر کیجیے) علماء نے فرمایا ہے کہ صفح جمیل ایسے درگزر کرنے کو کہتے ہیں کہ جس میں ملامت اور عتاب نہ ہو، بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے قتال کا حکم آنے سے پہلے درگزر کرنے کا حکم تھا اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حسن خلق اور بردباری اور مدارات کے ساتھ ان کو دعوت دیتے رہیں حکمت و موعظت حسنہ، حلم اور خوش خلقی کے ساتھ دعوت دیتے رہنا اپنی جگہ محمود چیز ہے لہٰذا منسوخ ماننے کی کوئی ضرورت نہیں پھر فرمایا (اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ ) (بلاشبہ آپ کا رب بڑا خالق ہے بڑا عالم) اسے سب کا حال معلوم ہے تکذیب کرنے والوں کا جھٹلانا اور آپ کا صبر کرنا اسے اس سب کا علم ہے وہ مخالفین کو مخالفت کی سزا دے گا اور آپ کو اجر وثواب اور رفع درجات سے نوازے گا آپ تمام امور اسی کے سپرد کیجیے اور غمگین نہ ہوئیے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

29:۔ تخویف دنیوی کے تین نمونے ام سابقہ سے بیان کرنے کے بعد دوسری مختصرف عقلی دلیل کا ذکر فرمایا۔ یعنی ہم نے زمین و آسمان کو اظہار حق اور اثبات توحید کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کا ذرہ ذرہ ہماری قدرت کاملہ پر شہادت دے ” وَ اِنَّ السَّاعَةَ الخ “ یہ تخویف اخروی ہے۔ ” فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلِ “ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پہلی تسلی ہے کہ معاندین استہزاء کرتے ہیں تو آپ درگذر فرمائیں استہزاء کا بدلہ ہم ان کو دے دیں گے۔” ھُوَ الْخَلَّاُقُ الْعَلِیْمُ “ الخلاق مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی ساری کائنات کو پیدا کرنا اس پر کوئی دشوار نہیں اس کے لیے بہت ہی آسان ہے۔ ساری کائنات کو پیدا کرنا اور ایک جان کو پیدا کرنا اللہ کے لیے یکساں ہے چناچہ ارشاد ہے۔ ” مَا خَلْقُکُمْ وَ لَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ “ (لقمان رکوع 3) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

85 ۔ اور ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ اس کے مابین ہے بغیر کسی حکمت و مصلحت اور تدبیر کے نہیں پیدا کیا اور یقینا قیامت آنے والی ہے آپ خوبی اور سنجیدگی کے ساتھ ان کافروں کو در گزر کیجئے اور ان سے کنارہ کیجئے یہ تسلی کے طور پر فرمایا کہ قیامت آنے والی ہے۔ وہاں ان نافرمانوں کو پورا پورا بدلہ ملے گا آپ ان سے عفو و صفح کا معاملہ کیجئے۔ صفح جمیل یہ کہ کنارا کرنے میں کوئی خوف و گھبراہٹ نہ ہو شکایت و شکوہ نہ ہو اور انتقام کی سعی اور کوشش نہ ہو ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں پہلی امتوں کا حال سنا کر فرمایا کہ یہ جہان خالی نہیں سر پر ایک مدبر ہے۔ ہر چیز کا تدراک کرنے والا پورا تدراک آخر کو قیامت ہے اور کنارا پکڑنے کو فرمایا جب حکم پہنچا چکے او کافر ضد پر آئے تب حکم ہوا جھگڑنے سے فائدہ نہیں وعدے کی راہ دیکھو۔ 12