Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 119

سورة النحل

ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیۡنَ عَمِلُوا السُّوۡٓءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ وَ اَصۡلَحُوۡۤا ۙ اِنَّ رَبَّکَ مِنۡۢ بَعۡدِہَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۱۹﴾٪  21

Then, indeed your Lord, to those who have done wrong out of ignorance and then repent after that and correct themselves - indeed, your Lord, thereafter, is Forgiving and Merciful.

جو کوئی جہالت سے برے عمل کرلے پھر توبہ کرلے اور اصلاح بھی کرلے تو پھر آپ کا رب بلاشک و شبہ بڑی بخشش کرنے والا اور نہایت ہی مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُواْ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ... Then, your Lord for those who did evil out of ignorance, Some of the Salaf said that this means that everyone who disobeys Allah is ignorant. ... ثُمَّ تَابُواْ مِن بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُواْ ... and afterward repent and do righteous deeds, meaning, they give up the sins they used to commit and turn to doing acts of obedience to Allah. ... إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا ... verily, after that, your Lord is... means, after that mistake ... لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ...Pardoning, Most Merciful.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٢] توبہ کے قبول ہونے کی شرائط :۔ توبہ کی قبولیت کی شرائط کا ذکر پہلے سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٦٠ اور سورة انعام کی آیت نمبر ٥٤ کے تحت گزر چکا ہے۔ مختصراً یہ کہ انسان نے جو گناہ کیا ہو وہ بھول کر یا لاعلمی کی بنا پر کیا ہو۔ دوسرے یہ کہ جب اسے گناہ کا احساس ہو تو فوراً اللہ کے حضور توبہ کرے پھر اس گناہ کے آئندہ کبھی نہ کرنے کا عہد کرے پھر اگر اس جرم میں کسی کا حق غصب کیا ہو تو اس سے معاف کرائے یا اسے کسی نہ کسی طریقہ سے ادائیگی کرے تو امید ہے کہ اللہ اس کا گناہ معاف کر دے گا اور اگر گناہ ہی دیدہ دانستہ یا بددیانتی کی بنا پر کرے کہ بعد میں توبہ تائب کرلیں گے یا گناہ سے توبہ کے بعد پھر اسی گناہ کا اعادہ کرتا جائے یا اگر کسی کا حق اس کے ذمہ واجب الادا ہو اور نہ وہ اس سے معاف کرائے اور نہ ہی ادائیگی کی کوشش کرے تو ایسی صورت میں اس کی توبہ قبول ہونے کی کم ہی توقع ہوسکتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْۗءَ بِجَــهَالَةٍ ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام گناہ گاروں کو، وہ یہودی ہوں یا عیسائی یا مشرک یا مسلمان، سب کو توبہ اور اصلاح کے بعد بےانتہا مغفرت اور رحمت کی نوید سنائی ہے۔ یاد رہے کہ یہاں جہالت کا معنی لاعلمی نہیں بلکہ بےوقوفی اور اکھڑ پن ہے، جو آدمی سے بےعقلی کے کاموں کا ارتکاب کرواتا ہے، جیسا کہ گھر سے نکلنے کی لمبی دعا میں ہے : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ أَنْ ۔۔ أَجْھَلَ أَوْ یُجْھَلَ عَلَيَّ ) ” اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ۔۔ میں کسی پر جہالت کروں یا کوئی مجھ پر جہالت کرے۔ “ [ أبوداوٗد، الأدب، باب ما یقول إذا خرج من بیتہ : ٥٠٩٤۔ ابن ماجہ : ٣٨٨٤، و صححہ الألباني ] اور عمرو بن کلثوم نے کہا ؂ أَلَا لَا یَجْھَلَنْ أَحَدٌ عَلَیْنَا فَنَجْھَلْ فَوْقَ جَھْلِ الْجَاھِلِیْنَا ” خبردار ! ہم پر کوئی جہالت کا ارتکاب ہرگز نہ کرے، ورنہ ہم جاہلوں کی جہالت سے بڑھ کر جہالت کریں گے۔ “ اس حدیث اور شعر سے جہل کا مفہوم واضح ہوتا ہے جو یہاں مراد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر گناہ لاعلمی سے ہو یا جان بوجھ کر، ہوتا ہی بےوقوفی اور جہالت سے ہے، اسلام سے پہلے والے زمانے کو اسی لیے زمانۂ جاہلیت کہتے ہیں۔ دیکھیے سورة انعام (٥٤) ، نساء (١٨، ١٩) اور سورة فرقان (٦٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Repentance from Sin brings Forgiveness: Is it Open or Restricted? In the last verse (119): ثُمَّ إِنَّ رَ‌بَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ (Then your Lord – for those who did evil through ignorance ...), it will be noticed that the sense of ignorance has been conveyed by the use of the word: جَهَالَةٍ (jahalah), not: جَھل (jahl). As for the word: جَھل (jahl), it is employed as an antonym of: عِلَم (` ilm: knowledge) and releases the sense of a lack of knowledge or understanding while the word: جَهَالَةٍ (jahalah) denotes acting ignorantly - even if done knowingly. This tells us that the forgiveness of sins through Taubah (repentance) is not restricted to a situation where a sin is com¬mitted with lack of understanding or volition. (Rather, a true taubah or repentance may forgive all sins, even though committed deliberately).

توبہ سے گناہ کی معافی عام ہے خواہ بےسمجھی سے کرے یا جان بوجھ کر : آیت ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْۗءَ بِجَــهَالَةٍ میں لفظ جہل نہیں بلکہ جہالت استعمال فرمایا ہے جہل تو علم کے بالمقابل آتا ہے اور بےعلمی بےسمجھی کے معنی میں ہے اور جہالت کا لفظ جاہلانہ حرکت کے لئے بولا جاتا ہے اگرچہ جان بوجھ کر کرے اس سے معلوم ہوگیا کہ توبہ سے گناہ کی معافی بےسمجھی یا بےاختیاری کے ساتھ مقید نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْۗءَ بِجَــهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْٓا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١١٩۝ۧ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے جهل الجهل علی ثلاثة أضرب : - الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام . - والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه . - والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ج ھ ل ) الجھل ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔ ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ صلح والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] ( ص ل ح ) الصلاح اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٩) پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا رب ایسے لوگوں کے لیے جنہوں نے جہالت سے جان بوجھ کر یا اس سے ناواقف ہو کر کوئی برا کام کرلیا ہو اور اس کے بعد توبہ کرلی اور نیک اعمال پرکار بند ہوگئے تو آپ کا رب اس توبہ کے بعد بڑی مغفرت کرنے والا اور ان پر بڑی رحمت کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٩ (ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْۗءَ بِجَــهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْٓا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) جو لوگ جذبات کی رو میں بہہ کر یا نادانی میں کوئی گناہ کر بیٹھیں ‘ پھر توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیں اور غلط روش سے باز آجائیں تو ایسے لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ ضرور غفورو رحیم ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:119) من بعدھا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع توبہ ہے (جیسا کہ ثم تابوا من بعد ذلک سے ظاہر ہے) یا اس کا مرجع الاصلاح ہے جو کہ توبہ میں مندرج ہے اور توبہ کی تکمیل کے لئے شرط ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اوپر شرک کفر کے اصول و فروع یعنی انکار توحید و انکار رسالت وتحریم کا ابطال اور رد کیا گیا ہے چونکہ مشرکین مکہ جن سے ان مضامین کا اول خطاب ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں تھے اور اپنے کو ان کے طریقے پر بتلاتے تھے اس لیے آگے مضامین مذکورہ کی تقویت کے لیے کان امة میں ابراہیم کے مقتدائے خلق ہونا جس کا حاصل نبوت و رسالت ہے اور لیک من المشرکین میں مع سیاق وسباق ان کا مشرک نہ ہونا کہ توحید ہے اور انما جعل السبت میں اشارة طیبة کا ان کے یہاں حرام نہ ہونا اور قانتا کے عموم سے تحلیل حرام وتحریم حلال بالہوی دونوں کانہ ہونا اور اجتبہ وھداہ واٰتنیہ میں اس طریقہ کی اور حاصب طریقہ کی فضیلت اور درمیان میں ثم اوحیناالیک میں جناب رسول اللہ کا اس طریقہ پر ہونا مع اثبات رسالت کے بیان فرماتے ہیں تاکہ انکو اپنے طریقہ مخالف ملت ابراہیم کے ترک کی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ موافقہ ملت ابراہیمہ کے اختیار کی ترغیب ہو جس کے لوازم سے رسالت محمدیہ کا انکار سے بالخصوص باز آنا بھی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ظلم کرنے کے باوجود جن لوگوں کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر انسان خطا کا پتلا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک معاف کرتا رہتا ہے۔ جب تک انسان اس کے حضور معافی کا خواستگار رہتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے گناہوں پر اصرار کرتے ہوئے اس کا جواز پیش کرے تو پھر اسے توبہ کی توفیق نہیں ملتی۔ جس کے بارے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جس نے بھی برے کام کیے پھر اس کے گناہوں نے اسے گھیر لیا ایسے لوگ اہل جہنم ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ : ٨١) البتہ جنہوں نے جہالت کی بناء پر گناہ کیے اور پھر توبہ کی یقیناً اللہ انہیں معاف کرنے والا، نہایت مہربان ہے یہاں توبہ کی قبولیت کے لیے ایک شرط عائد کی ہے کہ توبہ کرنے کے بعد وہ شخص نہ صرف اپنے عقیدہ اور کردار کی اصلاح کرے بلکہ اس کی وجہ سے جتنے لوگ گناہ کی طرف مائل ہوئے حتی المقدور ان کی اصلاح کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہوگی۔ (عن عائشۃ ..... فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبِہٖ ثُمَّ تَابَ تَاب اللَّہُ عَلَیْہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں۔۔ آپ نے فرمایا یقیناً جب بندہ اپنے گناہ کا اعتراف کرتا اور، توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر رجوع فرماتا ہے۔ “ توبہ کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے اور ہر شخص کی توبہ نزع کے وقت سے پہلے قبول ہوسکتی ہے۔ نزع سے مراد موت کی وہ گھڑی ہے جب مرنے والے کو دنیا کے بجائے آخرت نظر آنے لگتی ہے۔ (کُلُّ بَنِيْٓ آدَمَ خَطَّاءٌ وَّخَیْرُ الْخَطَّآءِیْنَ التَّوَّابُوْنَ ) [ رواہ ابن ماجہ : کتاب الزھد، باب ذکر التوبۃ ] ” آدم کی ساری اولاد خطا کار ہے اور بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں۔ “ (مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ یُغَرْغِرَ نَفْسُہٗ قَبِلَ اللّٰہُ مِنْہُ ) [ رواہ احمد ] ” جس نے موت کے آثار ظاہرہونے سے پہلے توبہ کرلی اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ “ ( اَلتَّآءِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ ) [ رواہ ابن ماجۃ : کتاب الزھد ] ” گناہ سے توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے کے برابر ہوجاتا ہے۔ “ توبہ کی شرائط : توبہ کرنے والا اپنے گناہ پر نادم، آئندہ رک جانے کا عہد اور گناہ کے اثرات کو مٹانے کی کوشش کرے۔ جہالت کے بارے میں مفسرِقرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ انسان ہر گناہ جہالت کی وجہ سے ہی کیا کرتا ہے بیشک اسے معلوم ہو کہ فلاں کام کرنا گناہ اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے۔ البتہ اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ جو شخص گناہ کرنے سے پہلے یہ نیت کرے کہ جو کام میں کرنے لگا ہوں بیشک وہ گناہ ہے۔ مگر اس کے بعد میں توبہ کرلوں گا ایسی صورت میں گناہ کی سنگینی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس سے سمجھدار اور صاحب ایمان شخص کو ہر حال میں بچنا چاہیے۔ مسائل ١۔ انسان سے برے اعمال سرزد ہوجاتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ ٣۔ برے اعمال سرزد ہونے کی صورت میں توبہ اور اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ تفسیر باالقرآن توبہ کی فضیلت اور شرائط : ١۔ وہ لوگ جو جہالت کی بنا پر برے عمل کرتے ہیں اور اس کے بعد توبہ اور اپنی اصلاح کرتے ہیں اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (النحل : ١١٩) ٢۔ جو شخص جرم کرنے کے بعد توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرے بیشک اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (المائدۃ : ٣٩) ٣۔ اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کے لیے بہتر ہے۔ (التوبۃ : ٧٤) ٤۔ یقیناً میں اسے معاف کردوں گا جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔ (طٰہٰ : ٨٢) ٥۔ جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے اور عمل صالح کرے تو میں اس کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دوں گا۔ (الفرقان : ٧٠) ٦۔ اے ایمان والو ! خالص توبہ کرو۔ (التحریم : ٨) ٨۔ اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو گے تو ہم (اللہ) تمہارے چھوٹے گناہ دور کردیں گے۔ (النساء : ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ توبہ قبول فرماتا ہے اور مغفرت فرماتا ہے گزشتہ چند رکوع میں متعدد احکام مذکور ہیں اور احکام کی خلاف ورزیوں پر آخرت کے عذاب کی وعید اور توبہ کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رحمت کا وعدہ بھی مذکور ہے۔ اس رکوع کے ختم پر بھی ان لوگوں کے لیے مغفرت اور رحمت کا وعدہ فرمایا جنہوں نے جہالت یعنی حماقت سے گناہ کرلیے پھر توبہ کرلی۔ اور احوال و اعمال درست کرلیے اگر کوئی کافر و مشرک بھی توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اس کا بھی سب کچھ معاف کردیا جاتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی شان غفاریت ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

98:۔ ” ثم “ تعقیب زکری کے لیے ہے یعنی پھر یہ بات بھی سن لو اور یہ بھی ” ضرب اللہ مثلا “ سے متعلق ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان تھا کہ اس نے مشرکین مکہ کو عذاب سے بالکلیہ ہلاک نہیں کردیا بلکہ انہیں سوچنے، سمجھنے اور عبرت پکڑنے کے لیے مزید مہلت دی اس لیے جو لوگ نادانی اور بےسمجھی سے کفر و شرک کرتے رہے ہیں اگر وہ اب بھی یعنی عذاب قحط اٹھ جانے کے بعد بھی صدق دل سے توبہ کر کے دین اسلام قبول کرلیں، کفر و شرک سے باز آجائیں اور اعمال صالحہ کو بجا لائیں تو اللہ تعالیٰ ایسا مہربان ہے کہ ان کے تمام سابقہ گناہ معاف کردے گا۔ ” السوء “ سے مراد شرک ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے منقول ہے۔ السوء الشرک قالہ ابن عباس (رض) (قرطبی ج 10 ص 197)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

119 ۔ پھر بیشک آپ کا پروردگار ان لوگوں کے لئے جنہوں نے جہالت اور نا دانی سے کوئی برا کام کرلیا پھر اس برائی کے بعد انہوں نے توبہ کرلی اور انہوں نے اپنی اصلاح کرلی تو بیشک آپ کا پروردگار اس توبہ کے بعد بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ برے اعمال سے مراد ہر قسم کی برائی ہے یا حلال کو حرام کرلینا ۔ جہالت کا مطلب یہ ہے کہ نا دانی سے کوئی برا عمل کرلیا یا جو شخص گناہ کرتا ہے تو وہ بےعقل ہوتا ہے اگر عقل سے کام لے اور تھوڑی سی توجہ اور سمجھ سے کام لے تو گناہ سے بچ سکتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں جو برا کام کرلے وہ جاہل ہے ۔ بہرحال برے کام کرنے والے اپنے کفریات اور اپنے افتراء سے توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں اور آئندہ کے لئے اپنے اعمال کی اصلاح کریں تو سابقہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی حلال حرام میں جھوٹ بنایا تھا جب مسلمان ہوئے تو بخشے گئے۔