3. This means the Spirit of Prophethood with which a Prophet is imbued in order to fulfill his mission by word and deed. The Quran has called this the Spirit in several places, for this has the same relation to the mission of a Prophet and his moral life, which the soul has to the physical human life.
4. As one of the things, which prompted the disbelievers to challenge the Prophet (peace be upon him) for scourge, was their presumption that he was not a true Prophet. Allah told them categorically that he was a true Prophet who had been imbued with the Spirit which We had sent down on him.
“Spirit of His command, upon whom He wills.” This is the answer to the objections which the chiefs of the Quraish used to raise against the Prophet (peace be upon him): Had Allah wanted to send a Messenger to them, was there no one better than Muhammad (peace be upon him), son of Abdullah, for this mission. Why did He not choose one of the big chiefs of Makkah or Taif for the purpose? Such absurd objections needed no other answer than this that is why such an answer has been given in several places of the Quran as if to say: Allah knows best how to do His work, and does not stand in need of any advice from you. He chooses for His mission anyone whom He considers fit for it.
5. This verse declares the essence of the Spirit of Prophethood, which is this: Godhead belongs to one Allah alone, so only He is worthy of fear. Therefore, there is no other anchor that might make fast and hold together human moral system than His fear. For it is the fear of His displeasure and His punishment, and the fear of the consequences of His disobedience which alone can act as a strong deterrent to restrain one from deviation. That is why mankind has been admonished: Fear Me.
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :3
یعنی روح نبوت کو جس سے بھر کر نبی کام اور کلام کرتا ہے ۔ یہ وحی اور یہ پیغمبرانہ اسپرٹ چونکہ اخلاقی زندگی میں وہی مقام رکھتی ہے جو طبعی زندگی میں روح کا مقام ، اس لیے قرآن میں متعدد مقامات پر اس کے لیے روح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اسی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے عیسائیوں نے روح القدس کو تین خداؤں میں سے ایک خدا بنا ڈالا ۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :4
فیصلہ طلب کرنے کے لیے کفار جو چیلنج کر رہے تھے اس کے پس پشت چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار بھی موجود تھا ، اس لیے شرک کی تردید کے ساتھ اور اس کے معا بعد آپ کی نبوت کا اثبات فرمایا گیا ۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بناوٹی باتیں ہیں جو یہ شخص بنا رہا ہے ۔ اللہ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ نہیں ، یہ ہماری بھیجی ہوئی روح ہے جس سے لبریز ہوکر یہ شخص نبوت کر رہا ہے ۔
پھر یہ جو فرمایا کہ اپنے جس بندے پر اللہ چاہتا ہے یہ روح نازل کرتا ہے ، تو یہ کفار کے ان اعتراضات کا جواب ہے جو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے کہ اگر خدا کو نبی ہی بھیجنا تھا تو کیا بس محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ ہی اس کام کے لیے رہ گیا تھا ، مکے اور طائف کے سارے بڑے بڑے سردار مر گئے تھے کہ ان میں سے کسی پر بھی نگاہ نہ پڑ سکی! اس طرح کے بیہودہ اعتراضات کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا ، اور یہی متعدد مقامات پر قرآن میں دیا گیا ہے کہ خدا اپنے کام کو خود جانتا ہے ، تم سے مشورہ لینے کی حاجت نہیں ہے ، وہ اپنے بندوں میں جس کو مناسب سمجھتا ہے آپ ہی اپنے کام کے لیے منتخب کر لیتا ہے ۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :5
اس فقرے سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ روح نبوت جہاں جس انسان پر بھی نازل ہوئی ہے یہی ایک دعوت لے کر آئی ہے کہ خدائی صرف ایک اللہ کی ہے اور بس وہی اکیلا اس کا مستحق ہے کہ اس سے تقویٰ کیا جائے ۔ کوئی دوسرا اس لائق نہیں کہ اس کی ناراضی کا خوف ، اس کی سزا کا ڈر ، اور اس کی نافرمانی کے نتائج بد کا اندیشہ انسانی اخلاق کا لنگر اور انسانی فکر و عمل کے پورے نظام کا محور بن کر رہے ۔