Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 20

سورة النحل

وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾

And those they invoke other than Allah create nothing, and they [themselves] are created.

اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالٰی کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے ، بلکہ وہ خود پیدا کیئے ہوئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Those whom they invoke besides Allah have not created anything, but are themselves created. Allah tells that the idols which people call on instead of Him cannot create anything, they are themselves created, as Al-Khalil (Ibrahim) said: قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ "Do you worship that which you (yourselves) carve, while Allah has created you and what you make!" (37:-96)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 اس میں ایک چیز کا اضافہ ہے یعنی صفت (خالقیت) کی نفی کے ساتھ نقصان یعنی کمی (عدم خالقیت) کا اثبات (فتح القدیر) ُ

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] ان کے بنائے ہوئے شریکوں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی چیز کو پیدا تو کیا خاک کریں گے۔ وہ تو خود مخلوق ہیں اور جو مخلوق ہو وہ اپنے بنانے والے کا محتاج بھی ہوگا۔ نیز جو چیز مخلوق ہو وہ ضرور فنا بھی ہوگی۔ لہذا ایسے شریک نہ خود الٰہ ہوسکتے ہیں اور نہ صفات الوہیت میں اللہ کے شریک بن سکتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔ : اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں ان کی بےبسی اور عجز کے بیان کے لیے تین اوصاف بیان فرمائے، پہلا یہ کہ وہ کچھ پیدا نہیں کرتے، بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں، خالق صرف ایک ہی ہے، کیونکہ اگر ان کے معبود نیک یا بد فوت شدہ لوگ ہیں تو ان کا خالق اللہ ہے اور وہ نہ زندگی میں کچھ پیدا کرسکتے تھے نہ اب کرسکتے ہیں۔ اس کی تفصیل اسی سورت کی آیت (١٧) ، سورة رعد (١٦) اور سورة حج (٧٣) میں دیکھیں اور اگر ان کے مجسمے یا ان کی قبریں ہیں تو وہ بھی کچھ پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ انھیں تم خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہو، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : (اَ تَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ ) [ الصافات : ٩٥ ] ” کیا تم اس کی عبادت کرتے ہو جسے خود تراشتے ہو۔ “ اگر تمہارے معبود تراشے ہوئے بت ہیں یا قبریں، تو خالق ان کا بھی اللہ تعالیٰ ہے تم نہیں، جیسا کہ اس سے اگلی آیت میں فرمایا : (ۙوَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ) [ الصافات : ٩٦ ] ” حالانکہ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم بناتے ہو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ 20۝ۭ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠۔ ٢١) اور جن کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر پوجا کرتے ہیں، وہ کسی بھی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے جیسا کہ ہم پیدا کرسکتے ہیں بلکہ وہ خود ذلیل مخلوق ہیں اور وہ بہت مردہ ہیں، ان کے ان معبودوں کو اتنی بھی خبر نہیں کہ وہ قبروں سے کب اٹھائے جائیں گے اور پھر حساب ہوگا یا یہ کہ کفار کو یہ بھی خبر نہیں کہ کب حساب ہوگا یا یہ کہ فرشتوں کو معلوم نہیں کہ حساب و کتاب کب ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ ) انبیاء و رسل ہوں ملائکہ ہوں یا اولیاء اللہ سب مخلوق ہیں خالق صرف اللہ کی ذات ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:20) والذین یدعون من دون اللہ لا یخلقون شیئا میں یدعون من دون اللہ صفت ہے الذین کی۔ یعنی وہ (معبودانِ باطل ) جن کو (مشرکین) اللہ کے سوا پکارتے ہیں۔ کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی ان کے وجود کو تو اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے۔ گویہ تراشے خراشے ان کے ہیں۔ یا خلق بمعنی تخت “ (تراشنا) ہی ہو۔ جیسا کہ سورة صافات (آیت 95) میں ہے۔ العبدون ماتحبون کہ تم ان بتوں کی پوجا کرتے ہو، جن کو تم خود اپنے ہاتھ سے تراشتے ہو۔ (کذافی الروح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْءًا وَّ ھُمْ یُخْلَقُوْنَ ) (اور یہ لوگ جن کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں یعنی ان کی عبادت کرتے ہیں اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں وہ کوئی چیز بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ تو خود ہی مخلوق ہیں) جو چیز مخلوق ہے اس کا یہ مقام نہیں کہ معبود بن جائے یا اسے معبود مان لیا جائے۔ عبادت کے لائق صرف خالق ہی ہے جل مجدہ وثناء

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ دونوں دعو وں پر تین دلائل ذکر کرنے کے بعد ان کا ثمرہ ذکر کیا گیا ” لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّ ھُمْ یُخْلَقُوْنَ “ یہ پہلی دو دلیلوں پر متفرع ہے۔ ان دلیلوں سے معلوم ہوا کہ سب کچھ کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور مشرکین جن بندگانِ خدا کو بزعم خود متصرف و مختار سمجھ کر پکارتے ہیں پیدائش کائنات میں ان کا کوئی دخل نہیں بلکہ وہ خود ایک عاجز مخلوق ہیں۔” اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاءٍ “ یہ تیسری دلیل پر متفرع ہے یعنی سب کچھ جاننے والا تو اللہ تعالیٰ ہے اور مشرکین کے مزعومہ معبود تو فوت ہوچکے ہیں، وہ ان کی دعاء اور پکار سے بیخبر ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ قبروں سے کب اٹھائے جائیں گے۔ ” اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ سے عموم مجاز کے طور پر مشرکین کے تمام معبود مراد ہیں خواہ وہ جماد ہوں خواہ ذوی العقول ہوں۔ وجوز ان یکون المراد من المخبر عنہ بما ذکر ما یتناول جمیع معبوداتھم من ذوی العقول وغیرھم فیرتکب فی (اموات) عموم المجاز لیشمل ماکان لہ حیاۃ ثم مات کعزیر او سیموت کعیسی والملائکۃ علیھم الصلوۃ والسلام و ما لیس من شانہ الحیاۃ اصلا کالاصنام (روح ج 14 ص 120) ۔ شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) تعالیٰ موضح قرآن میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں۔ ” شایدیہ ان کو فرمایا جو مرے بزرگوں کو پوجتے ہیں “۔ علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں :۔ یعنی جن چیزوں کو خدا کے سوا پوجتے ہیں سب مردے (بےجان) ہیں۔ خواہ دواماً مثلا بت یا فی الحال مثلاً جو بزرگ مرچکے اور ان کی پوجا کی جاتی ہے یا انجام و مآل کے اعتبار سے مردہ ہیں مثلاً حضرت مسیح، روح القدس اور ملائکۃ اللہ جن کی بعض فرقے پرستش کرتے ہیں الخ (تفسیر عثمانی) لہذجب سب کچھ کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر حاجات میں صرف اسی کو پکارو اور غیر اللہ کو مت پکارو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

20 ۔ اور یہ منکر اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی عبادت کرتے ہیں اور جن کو پکارا کرتے ہیں وہ کوئی چیز نہیں پیدا کرسکتے اور وہ کسی کو پیدا تو کیا کریں گے وہ تو خود مخلوق اور پیدا شدہ ہیں۔ یعنی وہ تو خود اپنے وجود میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں کسی اور کو وجود کیا خاک بخشیں گے۔