Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 36

سورة النحل

وَ لَقَدۡ بَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ ہَدَی اللّٰہُ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ حَقَّتۡ عَلَیۡہِ الضَّلٰلَۃُ ؕ فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۳۶﴾

And We certainly sent into every nation a messenger, [saying], "Worship Allah and avoid Taghut." And among them were those whom Allah guided, and among them were those upon whom error was [deservedly] decreed. So proceed through the earth and observe how was the end of the deniers.

ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ ( لوگو ) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو ۔ پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالٰی نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ ... And We have indeed sent a Messenger to every Ummah (community, nation) (saying): "Worship Allah (alone), and shun the Taghut (all false deities)." Allah continued sending Messengers to mankind with this Message, from the first incidence of Shirk that appeared among the Children of Adam, in the people to whom Nuh was sent - the first Messenger sent by Allah to the people of this earth - until He sent the final Messenger, Muhammad, whose call was addressed to both men and Jinn, in the east and in the west. All of the Messengers brought the same Message, as Allah says: وَمَأ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلاَّ نُوحِى إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ أَنَاْ فَاعْبُدُونِ And We did not send any Messenger before you (O Muhammad) but We revealed to him (saying): None has the right to be worshipped but I (Allah), so worship Me (alone and none else)." (21:25) وَاسْيلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَأ أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَـنِ ءَالِهَةً يُعْبَدُونَ And ask (O Muhammad) those Messengers of Ours whom We sent before you: "Did We ever appointed to be worshipped besides the Most Gracious (Allah)" (43:45) And in this Ayah, Allah says: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ ... And We have indeed sent a Messenger to every Ummah (community, nation) (saying): "Worship Allah (alone), and shun the Taghut (all false deities)." So how could any of the idolators say, لَوْ شَاء اللّهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ (If Allah had so willed, we would not have worshipped any but Him), The legislative will of Allah is clear and cannot be taken as an excuse by them, because He had forbidden them to do that upon the tongue of His Messengers, but by His universal will (i.e., by which He allows things to occur even though they do not please Him). He allowed them to do that as it was decreed for them. So there is no argument in that for them. Allah created Hell and its people both the Shayatin (devils) and disbelievers, but He does not like His servants to disbelieve. And this point constitutes the strongest proof and the most unquestionable wisdom. Then Allah informs us that He rebuked them with punishment in this world, after the Messengers issued their warning, thus He says: ... فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّللَةُ فَسِيرُواْ فِي الاَرْضِ فَانظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ Then among them were some whom Allah guided, and among them were some who deserved to be left to stray. So travel through the land and see the end of those who denied (the truth). This means: ask about what happened to those who went against the Messengers and rejected the truth, see how: دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلِلْكَـفِرِينَ أَمْثَـلُهَا Allah destroyed them completely, and a similar (end awaits) the disbelievers. (47:10) and, وَلَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَكَيْفَ كَانَ نكِيرِ And indeed those before them belied (the Messengers of Allah), so then how terrible was My denial (punishment). (67:18) Then Allah told His Messenger إِن تَحْرِصْ عَلَى هُدَاهُمْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي مَن يُضِلُّ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 مذکورہ شبہ کے ازالے کے لئے مزید فرمایا کہ ہم نے تو ہر امت میں رسول بھیجا اور یہ پیغام ان کے ذریعے سے پہنچایا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ لیکن جن پر گمراہی ثابت ہوچکی تھی، انہوں نے اس کی پرواہ ہی نہ کی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦] طاغوت کے معنی :۔ طاغوت کا اطلاق ہر اس شخص، ادارے، بادشاہ یا حکومت پر ہوسکتا ہے جو اللہ کا نافرمان ہو اور لوگ اس کی اطاعت پر مجبور ہوں۔ ایسا شخص یا ادارہ یا بادشاہ اللہ کا باغی ہوتا ہے اور اپنے زیر اثر لوگوں کو اپنی بات منوانا چاہتا ہے اور یہی کام شیطان کا ہوتا ہے لہذا اس لفظ کا ترجمہ عموماً شیطان سے کردیا جاتا ہے اور اگر انسان اللہ کے احکام کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ہی نفس کی اتباع کرنے لگے تو اس کے نفس پر بھی طاغوت کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ [٣٧] تذکیر بایام اللہ :۔ جب بھی کوئی رسول اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا اور اس نے اللہ کی عبادت اور اپنی فرمانبرداری کی دعوت دی تو اس کی قوم دو حصوں میں بٹ جاتی رہی۔ ایک ماننے والے اور دوسرے اس دعوت سے انکار کرنے والے۔ اب تم محض تاریخ یا لوگوں سے سنی سنائی باتوں پر اعتبار مت کرو۔ بلکہ خود چل پھر کر خود حالات کا جائزہ لو اور دیکھو کہ کیا عذاب الٰہی انہی لوگوں پر نہیں آیا تھا جنہوں نے انبیاء کی دعوت کو جھٹلا دیا تھا۔ قوم عاد، ثمود، نوح، قوم لوط، اصحاب مدین اور قوم فرعون یہ سب قومیں ایسی ہیں جو تمہارے آس پاس ہی رہا کرتی تھیں۔ اور تمہارے لیے وہاں جاکر ان کا انجام دیکھنا آسان بھی ہے۔ پھر ایسا ایک دو بار نہیں ہوا۔ بلکہ جتنی قوموں کے حالات سے تم مطلع ہوسکتے ہو ان سب سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کیا پھر بھی تم ان مسلسل تاریخی شہادتوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے ؟ اور یہ سوچ نہیں سکتے کہ اگر ہم بھی اپنے رسول کی تکذیب کریں گے تو ہمارا بھی یہی انجام ہوسکتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا ۔۔ : ” الطَّاغُوْتَ “ یہ ” طَغٰی یَطْغٰی طَغْوًا “ (ف) سے ہے، آخر میں واؤ اور تاء مبالغہ کے لیے آتی ہیں، جیسا کہ ” ملکوت “ بہت بڑا ملک۔ ” طاغوت “ کا لفظ ” طُغْیَانٌ“ سے مشتق ہے جس کے معنی اپنی حد سے بڑھنے کے ہیں۔ یہ شیطان، معبود باطل اور ہر اس شخص پر بولا جاتا ہے جو گمراہی کی طرف دعوت دینے والا ہو۔ (شوکانی) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” جو ناحق سرداری کا دعویٰ کرے، کچھ سند نہ رکھے ایسے کو طاغوت کہتے ہیں۔ بت، شیطان اور زبردست ظالم سب ہی طاغوت ہیں۔ “ (موضح) اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ ۔۔ : چونکہ مشرکین نے دعویٰ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے شرک پر راضی ہے، ورنہ وہ ہمیں شرک کیوں کرنے دیتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے لام تاکید اور ” قَدْ “ برائے تحقیق لا کر نہایت تاکید کے ساتھ ان کی تردید فرماتے ہوئے یہ بات کہی کہ ہم نے تو ہر امت میں رسول بھیجا ہی توحید کی دعوت اور شرک کی تردید کے لیے ہے۔ (دیکھیے انبیاء : ٢٥) مگر ہم نے کسی کو توحید یا شرک پر مجبور نہیں کیا، بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں عطا کرکے کفر و ایمان کے دونوں راستے بتا کر اختیار دے دیا۔ (دیکھیے دہر : ٢، ٣) اشرف الحواشی میں ہے، یعنی ہر پیغمبر نے اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرنے اور طاغوت سے بچتے رہنے کی دعوت دی، پھر بعض نے تو دعوت کو قبول کرلیا اور ہدایت پا گئے، مگر بعض نے اپنے کفر و شرک پر اصرار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر گمراہی ثبت کردی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کی اس کے امر سے موافقت ضروری نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ایمان کا حکم تو سب کو دیتا ہے مگر اللہ کے ارادہ کے مطابق ہدایت بعض کو ہوتی ہے۔ (شوکانی) فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ۔۔ : یعنی ان کے تباہ شدہ آثار دیکھ کر بتاؤ کہ کیا رسولوں کو جھٹلانے والوں پر اللہ کا عذاب نہیں آیا، لہٰذا یہ سمجھنا انتہائی حماقت ہے کہ کفر و شرک کا ارتکاب اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کے ذریعے سے اپنی رضا مندی کا راستہ بتایا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے پیغمبروں کی پیروی ضروری ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Has a Rasul of Allah appeared in India and Pakistan too? From verse 36 in the present Surah: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّ‌سُولًا (And We did raise a messenger among every people), as well as from verse 24 of Surah Fatir: وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ‌ (And there is no group of people among whom there has not been a warner - 35:24), it outwardly appears that messen-gers may have also been sent to areas now known as India and Pakistan - whether residents of the area, or located in another country whose de¬puties or emissaries had reached there. Then, there is the verse of Surah Al-Qasas: لِتُنذِرَ‌ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ‌ (so that you may warn a people unto whom came no warner - 28:46). The sense released by the verse is that no war¬ner had come before him to the people unto whom the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was sent. This can be answered by saying that this obviously refers to the people of Arabia who became the first addressees of the prophetic mission of Sayyidna Muhammad al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - the fact being that no prophet since Sayyidna Ismail (علیہ السلام) had appeared among them. Therefore, the title given to these people in the Holy Qur&an was |"Ummiyyin|" (the unlettered ones). This does not necessarily imply that no prophet came before him in the rest of the world as well. Allah knows best.

کیا ہندوستان و پاکستان میں بھی اللہ کا کوئی رسول آیا ہے ؟ (آیت) وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا۔ اس آیت سے نیز دوسری (آیت) وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ سے ظاہرا یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان وپاکستان کے علاقوں میں بھی اللہ کے پیغمبر ضرور آئے ہوں گے۔ خواہ وہ یہیں کے باشندے ہوں یا کسی دوسرے ملک میں ہوں اور ان کے نائب اور مبلغ یہاں پہنچنے ہوں اور آیت لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ سے جو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس امت کی طرف بھیجے گئے ہیں ان کی طرف آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں آیا اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد بظاہر وہ قوم عرب ہے جو آپ کی بعثت ونبوت کی سب سے پہلے مخاطب ہوئی کہ ان میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد سے کوئی رسول نہیں آیا تھا اسی لئے ان لوگوں کا لقب قرآن کریم میں امین رکھا گیا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ باقی دنیا میں بھی آپ سے پہلے کوئی رسول نہ آیا ہو واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلٰلَةُ ۭ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ 36؀ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں جنب أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال، ( ج ن ب ) الجنب اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ سير السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ صدق وکذب الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ الکذب یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦) جیسا کہ ہم نے آپ کو آپ کی قوم کی طرف بھیجا ہے، اسی طرح ہم نے ہر ایک قوم کی طرف کسی نہ کسی رسول کو بھیجا ہے، اس بات کے لیے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے قائل ہو اور بتوں یا شیطان یا کاہن کی پوجا کو چھوڑو۔ سو جن کی طرف ہم نے رسولوں کو بھیجا تھا ان میں سے بعض ایسے بھی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے دین کی ہدایت کردی اور انہوں نے رسولوں کی دعوت پر لبیک کہی اور کچھ پر گمراہی کا ثبوت ہوگیا، انہوں نے رسولوں کی دعوت ایمانی کو قبول نہیں کیا تو زمین میں سفر کرکے دیکھو کہ پیغمبروں کی تکذیب کرنے والوں کا کیسا برا انجام ہوا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ) طاغوت کا لفظ ’ طغٰی ‘ سے مشتق ہے جس کے معنی سرکشی کے ہیں۔ لہٰذا جو کوئی اللہ کی بندگی اور اطاعت سے سرکشی اور سرتابی کر رہا ہو وہ طاغوت ہے چاہے وہ انسان ہو یا جن کسی ریاست کا کوئی ادارہ ہو آئین ہو یا خود ریاست ہو۔ بہر حال جو بھی اللہ کی اطاعت سے سرتابی کر کے اس کی بندگی سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا وہ گویا اللہ کے مقابلے میں حاکمیت کا دعویدار ہوگا اور اسی لیے طاغوت کے زمرے میں شمار ہوگا۔ طاغوت سے کنارہ کشی کا حکم سورة البقرۃ کی آیت ٢٥٦ میں اس طرح آیا ہے : (فَمَنْ یَّکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم باللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیق لاَ انْفِصَامَ لَہَا) ” جس کسی نے کفر کیا طاغوت سے اور ایمان لایا اللہ پر تو یقیناً اس نے تھام لیا ایک مضبوط حلقہ جس کو ٹوٹنا نہیں ہے۔ “ (فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ ) تم اپنے تجارتی قافلوں کے ساتھ اصحاب حجر کی بستیوں سے بھی گزرتے ہو تم نے قوم ثمود کے محلات کے کھنڈرات بھی دیکھے ہیں۔ تم قوم مدین کے انجام سے بھی واقف ہو اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ سدوم اور عامورہ کی بستیوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوا تھا۔ یہ تمام تاریخی حقائق تمہارے علم میں ہیں اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ان سب کو کس جرم کی سزا بھگتنا پڑی تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

32. That is, you are not justified in excusing yourselves for these sins, saying that it is the will of God for We sent Messengers to every ummat, who told the people in plain words that they should worship Us and none else, and should not follow and obey taghut. Besides this, We have already warned you that We do not approve of your deviations. Why should you then put forward this excuse for your deviations? Do you mean to say that We ought to have sent such Messengers as would have forced you to follow the right way instead of bringing you to it by preaching? Please refer to (E.N. 80 of Surah Al-Anaam) for the distinction between God’s will and God’s approval). 33. That is, Whenever a Messenger came to a people, they were divided into two groups. (1) Those who accepted the message (and that, too, could not have been possible except with the will of Allah). (2) Those who rejected it and stuck to their deviation (For explanation see (E.N. 28 of Surah Al-Anaam). 34. That is, you can see for yourselves the lesson of human history. It is this that the people, who rejected the message, incurred the scourge of Allah like Pharaoh and the people of Pharaoh, while Prophet Moses (peace be upon him) received the blessings of Allah.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :32 یعنی تم اپنے شرک اور اپنی خود مختارانہ تحلیل و تحریم کے حق میں ہماری مشیت کو کیسے سند جواز بنا سکتے ہو ، جبکہ ہم نے ہر امت میں اپنے رسول بھیجے اور ان کے ذریعہ سے لوگوں کو صاف صاف بتا دیا کہ تمہارا کام صرف ہماری بندگی کرنا ہے ، طاغوت کی بندگی کے لیے تم پیدا نہیں کیے گئے ہو ۔ اس طرح جبکہ ہم پہلے ہی معقول ذرائع سے تم کو بتا چکے ہیں کہ تمہاری ان گمراہیوں کو ہماری رضا حاصل نہیں ہے تو اس کے بعد ہماری مشیت کی آڑ لے کر تمہارا اپنی گمراہیوں کو جائز ٹھیرانا صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ تم چاہتے تھے کہ ہم سمجھانے والے رسول بھیجنے کے بجائے ایسے رسول بھیجتے جو ہاتھ پکڑ کر تم کو غلط راستوں سے کھینچ لیتے اور زبردستی تمہیں راست رو بناتے ۔ ( مشیت اور رضا کے فرق کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام حاشیہ نمبر ۸۰ ۔ سورہ زمر حاشیہ نمبر ۲۰ ) ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :33 یعنی ہر پیغمبر کی آمد کے بعد اس کی قوم دو حصوں میں تقسیم ہوئی ۔ بعض نے اس کی بات مانی ( اور یہ مان لینا اللہ کی توفیق سے تھا ) اور بعض اپنی گمراہی پر جمے رہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام حاشیہ نمبر ۲۸ ) ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :34 یعنی تجربے سے بڑھ کر تخلیق کے لیے قابل اعتماد کسوٹی اور کوئی نہیں ہے ۔ اب تم خود دیکھ لو کہ تاریخ انسانی کے پے درپے تجربات کیا ثابت کر رہے ہیں ۔ عذاب الہٰی فرعون و آل فرعون پر آیا یا موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل پر؟ صالح علیہ السلام کے جھٹلانے والوں پر آیا یا ماننے والوں پر ؟ ہود علیہ السلام اور نوح علیہ السلام اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کے منکرین پر آیا یا مومنین پر؟ کیا واقعی ان تاریخی تجربات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جن لوگوں کو ہماری مشیت نے شرک اور شریعت سازی کے ارتکاب کا موقع دیا تھا ان کو ہماری رضا حاصل تھی ؟ اس کے برعکس یہ واقعات تو صریحا یہ ثابت کر رہے ہیں کہ فہمائش اور نصیحت کے باوجود جو لوگ ان گمراہیوں پر اصرار کرتے ہیں انہیں ہماری مشیت ایک حد تک ارتکاب جرائم کا موقع دیتی چلی جاتی ہے اور پھر ان کا سفینہ خوب بھر جانے کے بعد ڈبو دیا جاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: طاغوت شیطان کو بھی کہتے ہیں اور بتوں کو بھی، لہذا اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شیطان کے پیچھے نہ چلو اور یہ بھی کہ بت پرستی سے اجتناب کرو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:36) ان اعبدوا اللہ ۔ ای کان یقول لہم اعبدوا اللہ۔ اجتنبوا۔ امر جمع مذکر حاضر۔ تم بچو۔ تم پرہیز کرو۔ تم اجتناب کرو۔ (باب افتعال) ۔ الطاغوت۔ شیطان۔ ہر وہ معبود جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا پرستش کی جائے۔ لہٰذا ساحر۔ کاہن۔ سرکش کو طاغوت کہیں گے۔ معبود باطل وداعی الی الضلالۃ۔ حقت علیہ۔ ثبتت۔ وجبت علیہ۔ (اور بعض کے لئے ضلالت) واجب ہوگئی (بوجہ ان کی سرکشی اور پیغام انبیاء سے بےاعتنائی برتنے کے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 لہٰذا اگر کا فریج بحثی یا ہٹ دھرمی کرتے ہیں اور ایمان نہ لائیں تو پیغمبروں سے اس پر باز پرس نہ ہوگی ہدایت و گمراہی کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : یہ نادانوں کی باتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو فلاں کام برا لگتا تو کیوں کرنے دیتا۔ آخر ہر فرقے کے نزدیک بعض کام برے ہیں پھر وہ کیوں ہوتے ہیں۔ یہاں جواب مجمل فرمایا کہ رسول تو برے کاموں سے منع کرتے آئے ہیں مگر جس کی قسمت تھی اس نے ہدایت پائی جس کو خراب ہونا تھا خراب ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کا تقاضا یوں ہی ہوا ہے۔ (از موضح) 7 طاغوت کا لفظ طغیان سے مشتق ہے جس کے معنی اپنی حد سے بڑھنے کے ہیں۔ یہ شیطان معبود باطل اور ہر اس شخص پر بولا جاسکتا ہے جو ضلالت کی طرف داعی ہو۔ شوکانی شاہ صاحب لکھتے ہیں جو ناحق سرداری کا دعویٰ کرے کچھ سند نہ رکھے ایسے کو طاغوت کہتے ہیں۔ بت شیطان اور زبردست ظالم سب ہی ہیں۔ (از موضح) 8 ینی ہر پیغمبر نے اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرنے اور طاغوت سے بچتے رہنے کی دعوت دی۔ پھر بعض نے تو دعوت کو قبول کرلیا اور ہدایت پا گئے مگر بعض نے اپنے کفر و شرک پر اصرار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر گمراہی ثبت کردی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کی اس کے امر سے موافقت ضروری نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان کا حکم تو سب کو دیتا ہے مگر اللہ کی ارادہ کے مطابق ہدایت بعض کو ہوتی ہے۔ (شوکانی) 9 یعنی ان کے تباہ شدہ آثار دیکھ کر بتائو کہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں آیا۔ لہٰذا یہ سمجھنا انتہائی حماقت ہے کہ کفر و شرک کا ارتکاب اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ اپنی رضا مندی کا راستہ بتایا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے پیغمبروں کی پیروی ضروری ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ لقد بعثنا فی کل امة رسولا سے ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان والوں کے لئے بھی زمانہ قدیم میں کچھ رسول مبعوث ہوئے ہیں، خواہ ہند ہی میں پیدا ہوئے اور رہے ہوں یا کسی اور ملک میں رہتے ہوں اور یہاں ان کے نائب تبلیغ کے لئے آئے ہوں۔ 3۔ مطلب یہ کہ کفار اور انبیاء میں یہ معاملہ اسی طرح چلا آرہا ہے اور ہدایت واضلال کے متعلق اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی یوں ہی جاری ہے کہ مجادلہ کفار کا بھی قدیم، تعلیم انبیاء (علیہم السلام) کی بھی قدیم اور سب کا ہدایت نہ پانا بھی قدی، پھر آپ کو غم کیوں ہو۔ 4۔ پس اگر وہ گمراہ نہ تھے تو ان پر عذاب کیوں نازل ہوا، اور واقعات اتفاقیہ ان کو اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ خلاف عادت ہوئے، اور انبیاء (علیہم السلام) کی پیشنگوئی کے بعد ہوئے اور مونین اس سے بچے رہے، پھر اس کے عذاب ہونے میں کیا شک ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ انبیاء کا کام اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا اور لوگوں پر حجت قائم کرنا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر امت میں نبی مبعوث فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم اس وقت تک کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک اس میں رسول مبعوث نہ کیا جائے۔ (بنی اسرائیل : ١٥) دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا کہ رسول لوگوں کو خوشخبری دینے والے اور برے اعمال کے انجام سے ڈرانے والے تھے۔ تاکہ ان رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت یعنی بہانہ باقی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ بڑا زبردست اور حکمت والا ہے۔ (النساء : ١٦٥) اسی اصول کے پیش نظر یہاں ارشاد فرمایا کہ ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا۔ جو لوگوں کو یہی بتلاتا اور سمجھاتا رہا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے بچو۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے ہدایت پائی اور باقی پر گمراہی ثابت ہوگئی۔ گمراہوں کا انجام دیکھنے کے لیے زمین پر چل، پھر کر دیکھو تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ حق کو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ امت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسول کو مبعوث کیا جاتا تھا۔ نبی کی تشریف آوری کے بعد یہ امت دو حصوں میں تقسیم ہوجایا کرتی تھی۔ خوش نصیب لوگ رسول پر ایمان لے آتے۔ حقیقی معنوں میں وہی اس رسول کی امت ہوتے تھے۔ اس امت کو امت ایجابہ کہا جاتا ہے۔” یعنی انبیا۔ کی دعوت قبول کرنے والے لوگ “۔ باقی لوگوں کو ” امت دعوت “ کہتے ہیں یعنی وہ لوگ جس کے لیے نبی بھیجا جاتا ہے۔ انبیاء ( علیہ السلام) کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات کے حوالے سے ایک سمجھیں اور زندگی کے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو مقدم جانیں۔ اس کے ساتھ ہر اس قوت کا انکار کریں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف لے جانے والی ہو۔ بیشک انسان کا ضمیر ہو یا معاشرے کے رسم و رواج اور کسی پارلیمنٹ کا فیصلہ یا حکومت کا قانون، اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں یہ تمام کے تمام طاغوت سمجھے جائیں گے۔ عبادت کا یہی مفہوم انبیاء کرام (علیہ السلام) سمجھاتے اور کر کے دکھلایا کرتے تھے۔ لیکن پیغمبروں کے سمجھانے کے باوجود کچھ لوگ ہدایت یافتہ ہوئے اور باقی گمراہی پر جمے رہے۔ اے لوگو ! ان کا انجام دیکھنے کے لیے ان کے علاقوں میں جا کر دیکھو کہ انبیاء ( علیہ السلام) کی تکذیب کرنے والوں کا کس قدر برا انجام ہوا۔ اس کے ساتھ ہی سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی کہ آپ ان لوگوں کی ہدایت کے لیے جس قدر خواہش کا اظہار اور محنت کریں۔ آپ ان کو ہدایت یافتہ نہیں بنا سکتے کیونکہ جسے بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے۔ اسے ہدایت دینے میں کوئی بھی مددگار ثابت نہیں ہوسکتا۔ ہدایت اسی شخص کو نصیب ہوتی ہے۔ جو اس کی تمنا اور کوشش کرتا ہے۔ بصورت دیگر اللہ تعالیٰ جبراََ کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرتا۔ مسائل ١۔ ہر امت کی طرف رسول بھیجا گیا۔ ٢۔ ہر رسول نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیا اور شیطان کی عبادت سے روکا۔ ٣۔ انبیاء (علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں کے انجام پر نظر رکھنی چاہیے۔ ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرسکتے تھے۔ تفسیر بالقرآن توحید و رسالت کے منکرین کا انجام : ١۔ زمین میں چل، پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (النحل : ٣٦) ٢۔ ہم نے ان سے انتقام لیا دیکھئے جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الزخرف : ٢٥) ٣۔ قیامت کے دن منکرین کے لیے ہلاکت ہے۔ (الطور : ١١) ٤۔ منکرین کے لیے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ہے۔ (الواقعۃ : ٩٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ) (اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا اور رسولوں کا یہ پیغام تھا کہ اللہ کی عبادت کرو اور شیطان کے اتباع سے دور رہو) مخاطبین میں دونوں طرح کے لوگ ہوئے بعض کو تو اللہ نے ہدایت دی جنہوں نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی بات مانی اور ان پر ایمان لائے اس کو فرمایا (فَمِنْھُمْ مَّنْ ھَدَی اللّٰہُ ) اور ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو کفر پر اڑے رہے حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت پر کان نہ دھرا اور ان پر ایمان نہ لائے اسی کو فرمایا (وَمِنْھُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ ) جن لوگوں سے قرآن نے خطاب فرمایا ان کے سامنے حق کی دعوت رکھ دی اور پرانی امتوں میں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کیا تھا ان پر جو عذاب آئے ان کو بیان فرما دیا یہاں بھی منکرین و مکذبین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا (فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ ) (کہ زمین میں چلو پھرو پھر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ یہ توحید پر دلیل نقلی اجمالی ہے نیز جواب شکوی ہے۔ ہم اس سے پہلے ہر امت میں رسول بھیج چکے ہیں اور ہر رسول کو ہم نے یہی وحی بھیجی تھی کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور غیر اللہ کی عبادت اور پکار سے اجتناب کرو۔ جب ہم نے ہر پیغمبر کے پاس اسی مضمون کی وحی بھیجی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو تو تمہارا یہ کہنا غلط ٹھہرا کہ اگر اللہ کی مرضی ہوتی تو ہم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرتے۔ کیونکہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہی تھی کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے اور نہ اس کے سوا کسی اور کے لیے تحریمات کی جائیں۔ 29:۔ ” طَاغُوْت “ ہر وہ معبود ہے جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے۔ الطاغوت وھو اسم کل معبود من دون اللہ (خازن و معالم ج 4 ص 90) المراد بہ اجتنبوا عبادۃ ما تعبدون من دون اللہ فسمی الکل طاغوتا (کبیر ج 5 ص 454) ۔ یا طاغوت سے شیطان اور ہر داعی ضلالت مراد ہے۔ الطاغوت ھو الشیطان و کل من یدعوا الی الضلالۃ (ابو السعود ج 5 ص 461) ۔ 30:۔ تخویف دنیوی ہے۔ یعنی پہلے مکذبین کا حال دیکھ لو تمہارا بھی یہی حشر ہوگا۔ ” اِنْ تَحْرِصْ “ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ فرمایا ان کے دلوں پر ان کی مسلسل ضد اور عناد کی وجہ سے مہر جباریت لگ چکی ہے اس لیے اب آپ ان کے ایمان لانے کی کوئی امید نہ رکھیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

36 ۔ اور بلا شبہ ہم ہر قوم اور ہر امت میں اس مقصد کے لئے رسول بھیجتے رہے ہیں کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور گمراہی کی طرف بلانے والے شیطان کی راہ سے بچتے رہے۔ پس ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت بخشی اور ان کی رہنمائی فرمائی اور ان میں سے کچھ وہ لوگ تھے جن پر گمراہی متحقق اور ثابت ہوچکی ہے پھر اب تم زمین میں چلو پھر و اور چل پھر کر دیکھو کہ پیغمبروں کی تکذیب کرنیوالوں کا انجام کیسا ہوا۔ طاغوت کا ترجمہ حضرت شاہ صاحب (رح) نے ہر ڈنگا کیا ہے چناچہ فرماتے ہیں ہڑ دنگا وہ جو ناحق سرداری کا دعویٰ کرے جو کچھ سند نہ رکھے ایسے کو طاغوت کہتے ہیں شیطان اور بت اور ظالم سردار سب یہی ہیں۔ 12