Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 66

سورة النحل

وَ اِنَّ لَکُمۡ فِی الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَۃً ؕ نُسۡقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہٖ مِنۡۢ بَیۡنِ فَرۡثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیۡنَ ﴿۶۶﴾

And indeed, for you in grazing livestock is a lesson. We give you drink from what is in their bellies - between excretion and blood - pure milk, palatable to drinkers.

تمہارے لئے تو چوپایوں میں بھی بڑی عبرت ہے کہ ہم تمہیں اس کے پیٹ میں جو کچھ ہے اسی میں سے گوبر اور لہو کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے سہتا پچتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Lessons and Blessings in Cattle and the Fruit of the Date-palm and Grapevine Allah says, وَإِنَّ لَكُمْ ... there is for you (- O mankind -) ... فِي الاَنْعَامِ ... in the cattle, meaning camels, cows and sheep, ... لَعِبْرَةً ... a lesson, meaning a sign and an evidence of the wisdom, power, mercy and kindness of the Creator. ... نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ ... We have made a drink for you out of what is in its belly, meaning its singular forms refers to one cattle, or it could refer to the whole species. For cattle are the creatures which provide a drink from what is in their bellies and in another Ayah it is `in their bellies.' Either way is plausible. He said, ... مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا ... from between excretions and blood, pure milk; meaning it is free of blood, and is pure in its whiteness, taste and sweetness. It is between excrement and blood in the belly of the animal, but each of them goes its own way after the food has been fully digested in its stomach. The blood goes to the veins, the milk goes to the udder, the urine goes to the bladder and the feces goes to the anus. None of them gets mixed with another after separating, and none of them is affected by the other. ... لَّبَنًا خَالِصًا سَأيِغًا لِلشَّارِبِينَ pure milk; palatable to the drinkers. meaning nothing to cause one to choke on it. When Allah mentions milk and how He has made it a palatable drink for mankind, He follows this with a reference to the drinks that people make from the fruits of the date palm and grapevine, and what they used to do with intoxicating Nabidh (drink made from dates) before it was forbidden. Thus He reminds them of His blessings, and says:

خوشگوار دودھ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا گواہ ہے اونٹ گائے بکری وغیرہ بھی اپنے خالق کی قدرت و حکمت کی نشانیاں ہیں ۔ بطونہ میں ضمیر کو یا تو نعمت کے معنی پر لوٹایا ہے یا حیوان پر چوپائے بھی حیوان ہی ہیں ۔ ان حیوانوں کے پیٹ میں جو الا بلا بھری ہوئی ہوتی ہے ۔ اسی میں سے پروردگار عالم تمہیں نہایت خوش ذائقہ لطیف اور خوشگوار دودھ پلاتا ہے ۔ دوسری آیت میں بطونہا ہے دونوں باتیں جائز ہیں ۔ جیسے آیت ( كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ 11۝ۚ فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَهٗ 12۝ۘ ) 80 ۔ عبس:12-11 ) میں ہے اور جیسے آیت ( وَاِنِّىْ مُرْسِلَةٌ اِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ 35؀ ) 27- النمل:35 ) میں ہے پس جاء میں مذکر لائے ۔ مراد اس سے مال ہے جانور کے باطن میں جو گوبر خون وغیرہ ہے ، معدے میں غذا پہنچی وہاں سے خون رگوں کی طرف دوڑ گیا ، دودھ تھن کی طرف پہنچا ، پیشاب نے مثانے کا راستہ پکڑا ، گوبر اپنے مخرج کی طرف جمع ہوا نہ ایک دو سرے سے ملے نہ ایک دوسرے کو بدلے ۔ یہ خالص دودھ جو پینے والے کے حلق میں با آرام اتر جائے اس کی خاص نعمت ہے ۔ اس نعمت کے بیان کے ساتھ ہی دوسری نعمت بیان فرمائی کہ کھجور اور انگور کے شیرے سے تم شراب بنا لیتے ہو ۔ یہ شراب کی حرمت سے پہلے ہے ۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں چیزوں کی شراب ایک ہی حکم میں ہے جیسے مالک رحمتہ اللہ علیہ شافعی رحمتہ اللہ علیہ احمد اور جمہور علماء کا مذہب ہے اور یہی حکم ہے اور شرابوں کا جو گہیوں جو ، جوار اور شہد سے بنائی جائیں جیسے کہ احادیث میں مفصل آ چکا ہے ۔ یہ جگہ اس کی تفصیل کی نہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں شراب بناتے ہو جو حرام ہے اور اور طرح کھاتے پیتے ہو جو حلال ہے مثلاً خشک کھجوریں ، کشمش وغیرہ اور نیند شربت بنا کر ، سرکہ بنا کر اور کئی اور طریقوں سے ۔ پس جن لوگوں کو عقل کا حصہ دیا گیا ہے ، وہ اللہ کی قدرت و عظمت کو ان چیزوں اور ان نعمتوں سے بھی پہچان سکتے ہیں ۔ دراصل جو ہر انسانیت عقل ہی ہے ۔ اسی کی نگہبانی کے لئے شریعت مطہرہ نے نشے والی شرابیں اس امت پر حرام کر دیں ۔ اسی نعمت کا بیان سورہ یٰسین کی آیت ( وَجَعَلْنَا فِيْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّــرْنَا فِيْهَا مِنَ الْعُيُوْنِ 34؀ۙ ) 36-يس:34 ) میں ہے یعنی زمین میں ہم نے کھجوروں اور انگوروں کے باغ لگا دئیے اور ان میں پانی کے چشمے بہا دئیے تاکہ لوگ اسکا پھل کھائیں ، یہ انکے اپنے بنائے ہوئے نہیں ۔ کیا پھر بھی یہ شکر گزاری نہیں کریں گے ؟ وہ ذات پاک ہے جس نے زمین کی پیداوار میں اور خود انسانوں میں اور اس مخلوق میں جسے یہ جانتے ہی نہیں ہر طرح کی جوڑ جوڑ چیزیں پیدا کر دی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

66۔ 1 اَنْعَام (چوپائے) سے اونٹ، گائے، بکری (اور بھیڑ، دنبہ) مراد ہوتے ہیں۔ 66۔ 2 یہ چوپائے جو کچھ کھاتے ہیں، معدے میں جاتا ہے، اسی خوراک سے دودھ، خون، گوبر اور پیشاب بنتا ہے، خون رگوں میں اور دودھ تھنوں میں اسی طرح گوبر اور پیشاب اپنے اپنے مخرج میں منتقل ہوجاتا ہے اور دودھ میں نہ خون کی رنگت شامل ہوتی ہے اور نہ گوبر پیشاب کی بدبو۔ سفید اور شفاف دودھ باہر آتا ہے جو نہایت آسانی سے حلق سے نیچے اتر جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٣] دودھ کی پیدائش میں اللہ کی قدرتیں :۔ فرث کا اطلاق صرف اس قسم کی لید یا گوبر پر ہوتا ہے جو پیٹ یا معدہ میں موجود ہو اور جب مقعد کے راستہ گوبر وغیرہ کی صورت میں نکل آئے تو وہ فرث نہیں ہے بلکہ اسے روث کہتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانی کے بعد دوسری بڑی مشروب نعمت دودھ کا ذکر فرمایا۔ دودھ کی پیدائش حیرت انگیز طریقے سے مادہ کے پیٹ میں ہوتی ہے۔ اسی طرف اس آیت میں توجہ دلائی گئی ہے۔ اس میں ایک تو اللہ کی قدرت یہ ہے کہ ایک ہی جنس کے نر ہوں یا مادہ۔ دونوں ایک جیسی خوراک کھاتے ہیں۔ اس خوراک میں سے کام کی چیز جس سے انسان کی زندگی قائم رہتی ہے خون بنتا ہے۔ باقی فضلہ مقعد وغیرہ کے راستہ خارج ہوجاتا ہے لیکن مادہ میں اسی ایک ہی خوراک سے ایک تیسری چیز دودھ بھی بنتا ہے اور وہ صرف مادہ میں ہی بنتا ہے نر میں نہیں بنتا۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ خون اور گوبر جیسی دو حرام اور گندی چیزوں سے تیسری چیز دودھ جو حاصل ہوتا ہے وہ حلال، نہایت سفید، خوش رنگ، پاکیزہ، خوشگوار اور مزیدار ہوتا ہے پھر یہ محض ایک مشروب ہی نہیں بلکہ انسانی جسم کی تربیت کے لیے مکمل غذا کا کام دیتا ہے۔ یہ صرف پیاس کو نہیں بجھاتا بلکہ بھوک بھی مٹا دیتا ہے۔ اور شیردار جانور کے بچوں کی ابتدائی تربیت اسی دودھ پر ہی ہوتی ہے۔ پھر مویشیوں کے پیٹ میں یہ دودھ اس قدر افراط سے پیدا ہوتا ہے کہ ان کے بچوں کی تربیت کے بعد مویشیوں کے مالکوں کو بھی خاصی مقدار میں دودھ حاصل ہوجاتا ہے۔ دودھ پلانے والی مادہ کے جسم میں دودھ تیار کرنے والے اعضاء تو اس کی بلوغت کے وقت نمودار ہوجاتے ہیں جنہیں عرف عام میں پستان کہا جاتا ہے۔ اور دودھ کے بننے کے بارے میں سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مادہ کے پستان یا دودھ بنانے والی یہ مشینری صرف اس وقت اپنا کام شروع کرتی ہے جب مادہ کو حمل قرار پا جاتا ہے۔ اس سے پہلے اگرچہ پستان موجود ہوتے ہیں مگر وہ کوئی کام نہیں کرتے اور جب حمل قرار پاتا ہے تو یہ مشینری اپنے فطری کام کا آغاز کردیتی ہے۔ حتیٰ کہ بچہ کی پیدائش تک مادہ کا خون دودھ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور نوزائیدہ بچہ کو بروقت اللہ تعالیٰ اس کی خوراک مہیا کردیتا ہے اور بچہ کو دودھ پینے کا سلیقہ بھی سکھا دیتا ہے۔ اور یہ کام کچھ اس انداز سے سرانجام پاتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بےپناہ قدرتوں، حکمتوں اور مصلحتوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۔۔ :” الْاَنْعَامِ “ لفظاً مفرد ہے، افعال کا وزن یہاں جمع کے لیے نہیں بلکہ یہ اسم جمع ہے، جیسے ” رَھْطٌ“ ، ” قَوْمٌ“ اور ” بَقْرٌ“ وغیرہ۔ یہاں لفظ کی رعایت سے اس کے لیے واحد مذکر کی ضمیر ” بُطُوْنِهٖ “ لائی گئی ہے، سورة مومنون (٢١) میں ” نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهَا “ جمع کے معنی کی رعایت سے مؤنث کی ضمیر لائی گئی ہے۔ ” الْاَنْعَامِ “ اصل میں اونٹوں کو کہتے ہیں، کیوں وہ بہت بڑی نعمت ہیں، اس کے ساتھ گائے اور بھیڑ بکری کو بھی ” الْاَنْعَامِ “ کہہ لیتے ہیں۔ سورة انعام (١٤٣، ١٤٤) ، میں ان کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ ” لَعِبْرَةً “ میں تنوین تعظیم کی ہے، بہت بڑی عبرت، معنی ہے عبور کرنا، ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا، ایک چیز سے ایسی نصیحت حاصل کرنا جو دوسری جگہ کام دے۔ ” نُسْقِيْكُمْ “ قرآن میں ” سَقٰی “ اور ” أَسْقٰی “ دونوں لفظ آئے ہیں، اکثر لوگ ان کا ایک ہی معنی کردیتے ہیں، جبکہ ان میں فرق ہے، ” سَقٰی یَسْقِیْ “ پلانا اور ” أَسْقٰی یُسْقِیْ “ پلانے کے لیے دینا، یعنی ہم تمہیں پلانے کے لیے دیتے ہیں، خود پی لو یا کسی کو پلا دو ۔ ” فَرْثٍ “ چوپاؤں کی ہضم شدہ خوراک جب تک اوجھڑی میں رہے، جب باہر نکلے تو اسے ” رَوْثٌ“ کہتے ہیں۔ ” لَّبَنًا خَالِصًا “ گوبر کی بو اور رنگ اور خون کی سرخی دونوں سے خالص، سفید اور لذیذ دودھ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی کتنی عظیم نشانی ہے، کوئی ہے جو گوبر اور خون میں سے خالص دودھ کشید کرسکے ؟ ” سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ “ ” سَاغَ یَسُوْغُ “ جو آسانی سے حلق میں اتر جائے۔ دودھ ایک مکمل غذا ہے، اس لیے بچے کی مکمل پرورش کے لیے دودھ ہی کافی ہوتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پھر میرے پاس شراب کا ایک برتن اور دودھ کا ایک برتن اور شہد کا ایک برتن لایا گیا تو میں نے دودھ کو پسند کیا تو جبریل (علیہ السلام) نے فرمایا، یہ فطرت ہے، آپ بھی اس پر ہیں اور آپ کی امت بھی۔ [ بخاری، الأشربۃ، باب شرب اللبن۔۔ : ٥٦١٠، عن أنس بن مالک (رض) ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ثَلَاثٌ لَا تُرَدُّ الْوَسَاءِدُ وَالدُّھْنُ وَاللَّبَنُ ) [ ترمذی الأدب، باب ما جاء في کراھیۃ رد الطیب : ٢٧٩٠، عن ابن عمر۔۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٢؍١١٨، ح : ٦١٩ ] ” تین چیزیں رد نہیں کی جاتیں، گاؤ تکیے، تیل (خوشبو) اور دودھ۔ “ 3 اللہ تعالیٰ نے اپنے اکیلے معبود ہونے اور مخلوق کو دوبارہ زندہ کرنے کی دلیل کے لیے چوپاؤں میں سے ایک چیز کا ذکر فرمایا۔ دیکھیے وہ گھاس اور چارا جو حیوان کھاتے ہیں، وہ پانی اور مٹی سے پیدا ہوتا ہے۔ مٹی اور پانی کو گھاس اور چارے میں بدلنا، پھر جانور کے پیٹ میں اسے خون سے بدلنا، پھر اسے دودھ میں بدلنا کس قدر باعث عبرت ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری طرح قادر ہے کہ تمام چیزوں کو ایک حالت سے دوسری جس حالت میں چاہے بدل دے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The pronoun in: بُطُونِہٖ (butunihi: their bellies) reverts back to: (al-an am: cattle). Since the word al-an’ am is plural in the feminine gender, it required that the word used for it should have been: بُطُونِھَا (butuniha), as it appears in Surah Al-Mu&minun: نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهَا (We provide you, out of what there is in their bellies - 23:21). Al-Qurtubi explains this by saying that consideration has been made of the meaning of the plural in Surah Al-Mu&minun where the pronoun has been used in the feminine gender. And, in Surah Al-Nahl, the pronoun has been used in the masculine gender in consideration of the plu¬ral word as such. Examples of this usage abound in Arabic where a sin¬gular pronoun is made to revert to a plural word. As for bringing out pure milk from between feces and blood, Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbss (رض) said: When the fodder eaten by an ani¬mal settles in its stomach, the stomach heats it up as a result of which the waste by-product from the fodder settles down leaving milk above with blood being on top of it. Then, nature has entrusted the next job with the liver. It separates the three and directs them to where they be-long. Blood goes to veins. Milk goes to the udder of the animal. Now, left in the stomach is waste which is excreted as feces or dung. Rulings 1. From this verse we learn that eating good food is not against Zuhd (the way of life marked by not inclining towards worldly enjoyments for the sake of maintaining an ideal state of spiritual purity) specially when it has been acquired with Halal (lawful) means and provided that no ex¬travagance has been made in it. This is as stated by Hadrat Hasan al-Basri (رح) . (Al-Qurtubi) 2. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: When you eat something, say: اللھم بارک لٰنا فیہ وَ اَطعِمنَا خَیراً مِّنہُ Y Allah, bless it for us and have us eat better than it. And he said: When you drink milk, say اللھم بارک لٰنا فیہ وَ زِدنَا مِنہُ Allah, bless it for us and give us more of it. In the second prayer, he did not ask for something &better than it& (as in the first prayer) for, in human cuisine, there is no nutrient better than milk. Therefore, nature has made milk the very first food given to every man and animal through breast-feeding by mothers. (Al-Qurtubi)

خلاصہ تفسیر : اور (نیز) تمہارے لئے مواشی میں بھی غور درکار ہے (دیکھو) ان کے پیٹ میں جو گوبر اور خون (کا مادہ) ہے اس کے درمیان میں سے (دودھ کا مادہ کہ ایک حصہ خون کا ہے بعد ہضم کے جدا کر کے تھن کے مزاج سے ان کا رنگ بدل کر اس کو) صاف اور گلے میں آسانی سے اترنے والا دودھ (بنا کر) ہم تم کو پینے کو دیتے ہیں ، معارف و مسائل : بطونہ کی ضمیر انعام کی طرف راجع ہے لفظ انعام جمع مونث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ بطونہا کہا جاتا جیسا کہ سورة مؤمنین میں اسی طرح نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهَا فرمایا گیا ہے قرطبی نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ سورة مؤ منون میں معنی جمع کی رعایت کر کے ضمیر مؤ نث لائی گئی اور سورة نحل میں لفظ جمع کی رعایت سے ضمیر مذکر استعمال ہوئی اور محاورات عرب میں اس کی نظیریں بیشمار ہیں کہ لفظ جمع کی طرف ضمیر مفرد راجع کی جاتی ہے۔ گوبر اور خون کے درمیان سے صاف دودھ نکالنے کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جانور جو گھاس کھاتا ہے جب وہ اس کے معدہ میں جمع ہوجاتا ہے تو معدہ اس کو پکاتا ہے معدہ کے اس عمل سے غذا کا فضلہ نیچے بیٹھ جاتا ہے اوپر دودھ ہوجاتا ہے اور اس کے اوپر خون پھر قدرت نے یہ کام جگر کے سپرد کیا ہے کہ ان تینوں قسموں کو الگ الگ ان کے مقامات میں تقسیم کردیتا ہے خون کو الگ کر کے رگوں میں منتقل کردیتا ہے اور دودھ کو الگ کر کے جانور کے تھنوں میں پہنچا دیتا ہے اور اب معدہ میں صرف فضلہ باقی رہ جاتا ہے جو گوبر کی صورت میں نکلتا ہے۔ مسئلہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ لذیذ اور شیرین کھانے کا استعمال زہد کے خلاف نہیں ہے جبکہ اس کو حلال طریقے سے حاصل کیا گیا ہو اور اس میں اسراف اور فضول خرچی نہ کی گئی ہو حضرت حسن بصری نے ایسا ہی فرمایا ہے (قرطبی مسئلہ : رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم کوئی کھانا کھاؤ تو یہ کہو اللہم بارک لنا فیہ واطعمنا خیرا منہ (یعنی یا اللہ اس میں ہمارے لئے برکت عطا فرما اور آئندہ اس سے اچھا کھانا نصیب فرما) اور فرمایا کہ جب دودھ پیو تو یہ کہو اللہم بارک لنا فیہ وزدنا منہ (یعنی یا اللہ ہمارے لئے اس میں برکت دیجئے اور زیادہ عطا فرمائیے) اس سے بہتر سوال اس لئے نہیں کیا کہ انسانی غذا میں دودھ سے بہتر کوئی دوسری غذا نہیں ہے اسی لئے قدرت نے ہر انسان وحیوان کی پہلی غذا دودھ ہی بنائی ہے جو ماں کی چھاتیوں سے اسے ملتی ہے (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ 66؀ نعام [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . ( ن ع م ) نعام النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔ عبرت والعِبْرَةُ : بالحالة التي يتوصّل بها من معرفة المشاهد إلى ما ليس بمشاهد . قال تعالی: إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] ، فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ [ الحشر/ 2] عبرت والاعتبار اس حالت کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ کسی دیکھی چیز کی وساطت سے ان دیکھے نتائج تک پہنچا جائے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے ۔ فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ [ الحشر/ 2] اے اصحاب بصیرت اس سے عبرت حاصل کرو ۔ سقی السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ : أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ( س ق ی ) السقی والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔ بطن أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم/ 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر : 58- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر : ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن . قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» . وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته . ( ب ط ن ) البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛{ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ } ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔ فرث قال تعالی: مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَناً خالِصاً [ النحل/ 66] ، أي : ما في الکرش، يقال : فَرَثْتُ كبده . أي : فتنتها، وأَفْرَثَ فلان أصحابه : أوقعهم في بليّة جارية مجری الفرث . ( ف ر ث ) الفرث جو کچھ جانور کی اجھڑی کے اندر ہوتا ہے اسے فرث کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَناً خالِصاً [ النحل/ 66] گوبر اور لہو میں سے کس طرح خالص دودھ فرث کبدہ میں نے اس لے جگر کو پارہ پارہ کردیا ۔ افرث فلان اصحابہ فلاں نے اپنے ساتھیوں کو ایسی مصیبت میں مبتلا کردیا جو بمنزلہ فرث کے تھی ( یعنی ریزہ ریزہ کردینے کردینے والی ۔ لبن اللَّبَنُ جمعه : أَلْبَانٌ. قال تعالی: وَأَنْهارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ [ محمد/ 15] ، وقال : مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَناً خالِصاً [ النحل/ 66] ، ولَابِنٌ: كثر عنده لبن، ولَبَنْتُهُ : سقیته إياه، وفرس مَلْبُونٌ ، وأَلْبَنَ فلان : كثر لبنه، فهو مُلْبِنٌ. وأَلْبَنَتِ الناقة فهي مُلْبِنٌ: إذا کثر لبنها، إمّا خلقة، وإمّا أن يترک في ضرعها حتی يكثر، والْمَلْبَنُ : ما يجعل فيه اللّبن، وأخوه بِلِبَانِ أمّه، قيل : ولا يقال : بلبن أمّه «1» . أي : لم يسمع ذلک من العرب، وکم لَبَنُ غنمک «2» أي : ذوات الدّرّ منها . واللُّبَانُ : الصّدر، واللُّبَانَةُ أصلها الحاجة إلى اللّبن، ثم استعمل في كلّ حاجة، وأمّا اللَّبِنُ الذي يبنی به فلیس من ذلک في شيء، الواحدة : لَبِنَةٌ ، يقال : لَبَّنَه يُلَبِّنُهُ «3» ، واللَّبَّانُ : ضاربه . ( ل ب ن ) اللبن ۔ دودھ ج البان ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْهارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ [ محمد/ 15] اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزہ نہیں بدلے گا ۔ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَناً خالِصاً [ النحل/ 66] من بین فرث ودم لبنا خالصا ۔ اور اس غذا سے جو نہ فضلہ بنی ہو اور نہ فون ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں ۔ لابن ۔ بہت دودھ والا ۔ لبنتہ میں نے اسے دودھ پلایا ۔ فرس ملنون ۔ دودھ سے پر ورش کیا ہوا گھوڑا ۔ البن فلان بہت سے دودھ کا مالک ہونا اور ایسے آدمی کو ملبن کہا جاتا ہے ۔ البنت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی بہت دودھ والی ہوگئی عام اس سے کہ طبعی طور پر ہو یا تھنوں میں دودھ چھوڑنے کی وجہ سے ہو ۔ الملبن دودھ دوہنے کا برتن اور ھو اخوہ بلبان امہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس کا ر ضاعی بھائی ہے اور اس محاورہ میں لبان امہ کی بجائے لبن امہ کہنا ۔ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ اہل عرب سے مسموع نہیں ہے کیونکہ یہ اہل عرب سے مسموع نہیں ہے ۔ کم لبن غنمک یعنی تیری بکریوں میں دودھ دودھ والی کتنی ہیں ۔ اللبان کے منعی صدر یعنی سینہ کے ہیں اور لبانۃ کے اصل معنی تو دودھ کی ضرورت کے ہیں مگر مطلق ضرورت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اللبن جس کے منعی عمارتی اینٹ کے ہیں اور اس کا واحد لبنۃ ہے اس کا لبن ( دودھ ) سے کوئی معنوی تعلق نہیں ہے اللبن ( اینٹ ) سے لبنہ ( یلبنہ کے معنی اینٹ سے مارنے کے ہیں اور اینٹ بنانے والے کو لبان کہا جاتا ہے ۔ خلص الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه، ويقال : خَلَّصْته فَخَلَصَ ، ولذلک قال الشاعر : 146- خلاص الخمر من نسج الفدام «3» قال تعالی: وَقالُوا ما فِي بُطُونِ هذِهِ الْأَنْعامِ خالِصَةٌ لِذُكُورِنا [ الأنعام/ 139] ، ويقال : هذا خالص وخالصة، نحو : داهية وراوية، وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم . وقوله : وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة/ 139] ، إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] ، فإخلاص المسلمین أنّهم قد تبرّؤوا ممّا يدّعيه اليهود من التشبيه، والنصاری من التثلیث، قال تعالی: مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ [ الأعراف/ 29] ، وقال : لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قالُوا إِنَّ اللَّهَ ثالِثُ ثَلاثَةٍ [ المائدة/ 73] ، وقال : وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ [ النساء/ 146] ، وهوكالأوّل، وقال : إِنَّهُ كانَ مُخْلَصاً وَكانَ رَسُولًا نَبِيًّا [ مریم/ 51] ، فحقیقة الإخلاص : التّبرّي عن کلّ ما دون اللہ تعالی. ( خ ل ص ) الخالص ( خالص ) اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ خلصتہ فخلص میں نے اسے صاف کیا تو وہ صاف ہوگیا اسی بنا پر شاعر نے کہا ہے جیسے شراب صافی سے صاف ہوکر نکل آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا ما فِي بُطُونِ هذِهِ الْأَنْعامِ خالِصَةٌ لِذُكُورِنا [ الأنعام/ 139] اور یہ بھی کہتے ہیں جو بچہ ان چار پایوں کے پیٹ میں ہے وہ خالص ہمارے مردو کے لئے ہے ۔ محاورہ میں ( مذکر ومؤنث ) دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جیسے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة/ 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔ میں مخلص بندہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ نہ تو یہود کی طرح تشبیہ کا عقیدہ رکھتے تھے اور نہ ہی عیسایوں کی طرح کے تثلیث قائل تھے چناچہ تثلیث کے متعلق فرمایا : ۔ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قالُوا إِنَّ اللَّهَ ثالِثُ ثَلاثَةٍ [ المائدة/ 73] وہ لوگ ( بھی ) کافر ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ خدا تین میں کا تیسرا ہے اور مسلمانوں کے متعلق فرمایا : ۔ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ [ الأعراف/ 29] کہ اخلاص کیساتھ ۔ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ [ النساء/ 146] اور خالص خدا کے فرمانبرردار ہوگئے ۔ نیز موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّهُ كانَ مُخْلَصاً وَكانَ رَسُولًا نَبِيًّا [ مریم/ 51] بیشک وہ ہمارے برگزیدہ اور پیغمبر مرسل تھے ۔ اور حقیقتا اخلاص ماسوری اللہ سے بیزار ہونیکا کا نام ہے ۔ ساغ سَاغَ الشّراب في الحلق : سهل انحداره، وأَسَاغَهُ كذا . قال : سائِغاً لِلشَّارِبِينَ [ النحل/ 66] ، وَلا يَكادُ يُسِيغُهُ [إبراهيم/ 17] ، وسَوَّغْتُهُ مالا مستعار منه، وفلان سوغ أخيه : إذا ولد إثره عاجلا تشبيها بذلک . ( س و غ ) ساغ الشراب فی لخلق کے معنی شراب کے آسانی کے ساتھ حلق سے نیچے اتر جانا کے ہیں واساغہ کزا ( افعال ) کے معنی حلق سے نیچے اتار نے کے چناچہ قرآن میں ہے ۔ سائِغاً لِلشَّارِبِينَ [ النحل/ 66] پینے والوں کے لئے خوش گوار ہے ۔ وَلا يَكادُ يُسِيغُهُ [إبراهيم/ 17] اور گلے سے نہیں اتار سکے گا ۔ اور اسی سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے سو غتہ مال میں نے اس کے لئے مال خوشگوار بنادیا یعنی مباح کردیا اور پھر اس کے کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان سوغ اخیہ کا محاورہ اس بچے کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو اپنے بھائی کے بعد جلدی دی پیدا ہو ( یہ مذکر ومونث دونوں کے حق ميں بولا جاتا ہے شرب الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ، يقال : شَرِبْتُهُ شَرْباً وشُرْباً. قال عزّ وجلّ : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُوقال : فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] ، والشِّرْبُ : النّصيب منه «5» قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین، قال الهذليّ في صفة عير : صخب الشّوارب لا يزال كأنهوقوله تعالی: وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] ، قيل : هو من قولهم : أَشْرَبْتُ البعیر أي : شددت حبلا في عنقه، قال الشاعر : 264- فأشربتها الأقران حتی وقصتها ... بقرح وقد ألقین کلّ جنین «2» فكأنّما شدّ في قلوبهم العجل لشغفهم، وقال بعضهم «3» : معناه : أُشْرِبَ في قلوبهم حبّ العجل، وذلک أنّ من عادتهم إذا أرادوا العبارة عن مخامرة حبّ ، أو بغض، استعاروا له اسم الشّراب، إذ هو أبلغ إنجاع في البدن «4» ، ولذلک قال الشاعر : 265- تغلغل حيث لم يبلغ شَرَابٌ ... ولا حزن ولم يبلغ سرور «5» ولو قيل : حبّ العجل لم يكن له المبالغة، [ فإنّ في ذکر العجل تنبيها أنّ لفرط شغفهم به صارت صورة العجل في قلوبهم لا تنمحي ] «6» وفي مثل : أَشْرَبْتَنِي ما لم أشرب «7» ، أي : ادّعيت عليّ ما لم أفعل . ( ش ر ب ) الشراب کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور ہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشر بۃ ہے اور شرتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» جو شخص اس میں سے پانی پے لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ چناچہ انہوں نے اس سے پی لیا ۔ نیز فرمایا : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] اور پیو گے بھی تو ایسے جیسے پیا سے اونٹ پیتے ہیں ۔ الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔ ھزلی نے گور خر کے متعلق کہا ہے ( الکامل ) ( 257 ) صخب الشوارب لا یزال کانہ اس کی مونچھیں سخت گویا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] اور ان ( کے کفر کے سبب ) بچھڑا ) گویا ) ان کے دلوں میں رچ گیا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ اشربت البعیر کے محاورہ سے ماخوز ہے جس کے معنی اونٹ کے گلے میں رسی باندھنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 258 ) واشرب تھا الا قران حتیٰ وقص تھا بقوح وقد القین کل جنین میں نے انہیں باہم باندھ لیا حتیٰ کہ قرح ( منڈی ) میں لا ڈالا اس حال مین کہ انہوں نے حمل کرا دیئے تھے ۔ تو آیت کے معنی یہ ہیں کہ گویا بچھڑا ان کے دلوں پر باندھ دیا گیا ہے ۔ اور بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پلادی گئی ہے کیونکہ عربی محاورہ مین جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الو فر ) ( 259 ) تغلفل حبت لم یبلغ شرابہ ولا حزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں تک پہنچ گئی جہاں کہ نہ شراب اور نہ ہی حزن د سرور پہنچ سکتا ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں اس قدر زیادہ نہیں تھی تو ہم کہیں گے کیوں نہیں ؟ عجل کا لفظ بول کر ان کی فرط محبت پر تنبیہ کی ہے کہ بچھڑے کی صورت ان کے دلوں میں اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ محو نہیں ہوسکتی تھی مثل مشہور ہے ۔ اشر بتنی مالم اشرب یعنی تونے مجھ پر جھوٹا الزم لگانا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

جانوروں کے دودھ کے بارے میں قول باری ہے (نسقیکم مما فی بطونہ من بین فرس ودم لبنا خالصا سائقا للثاربین۔ ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں یعنی خالص دودھ جو پینے والوں کے لئے نہایت خوشگوار ہے) آیت میں مردہ بکری سے نکالے ہوئے دودھ کی طہارت پر دو وجوہ سے دلالت موجود ہے۔ اول دودھ کی اباحت میں لفظ کا عموم جس میں زندہ حالت میں جانور سے نکالے ہوئے دودھ اور مردہ حالت میں نکالے ہوئے دودھ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ دودھ گوبر اور خون کے درمیان سے خارج ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس دودھ کی طہارت کا حکم لگا دیا حالانکہ دودھ پیدا ہونے کی جگہ وہی ہے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ پیدا ہونے کی جگہ کی نجاست کی وجہ سے دودھ نجس نہیں ہوتا۔ مردہ جانور کا تھن اس کی جائے پیدائش ہے۔ اس کی وجہ سے دودھ اسی طرح نجس نہیں ہوتا جس طرح گوبر اور خون کی مجاورت اور پڑوس کی بنا پر نجس نہیں ہوتا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٦) اور مویشی میں سے ہم تمہارے لیے صاف مزے دار دودھ نکال کر تمہارے پینے کو دیتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٦ (وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً ) چوپایوں کی تخلیق میں بھی تمہارے لیے بڑا سبق ہے۔ ان کو دیکھو غور کرو اور اللہ کی حکمتوں کو پہچانو !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54. “Between excretions and the blood”. This refers to the most wonderful process of the formation of pure milk in the bellies of the cattle. For, the fodder they eat turns into blood, filth and pure milk, which is altogether different from the first two in its nature, color and usefulness. Some cattle produce milk in such abundance that after suckling their young ones a large quantity of it is left to make excellent human food.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :54 گوبر اور خون کے درمیان “ کا مطلب یہ ہے کہ جانور جو غذا کھاتے ہیں اس سے ایک طرف تو خون بنتا ہے ، اور دوسری طرف فضلہ ، مگر انہی جانوروں کی صنف اناث میں اسی غذا سے ایک تیسری چیز بھی پیدا ہو جاتی ہے جو خاصیت ، رنگ و بو ، فائدے اور مقصد میں ان دونوں سے بالکل مختلف ہے ۔ پھر خاص طور پر مویشیوں میں اس چیز کی پیداوار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ضرورت پوری کرنے کے بعد انسان کے لیے بھی یہ بہترین غذا کثیر مقدار میں فراہم کرتے رہتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٦۔ جانوروں اور دودھ والی عورتوں کے پیٹ میں غذا جا کر نجاست پیشاب خون دودھ سب کچھ اسی غذا سے بنتا ہے۔ قدرت الٰہی سے ایک چیز کا رنگ بو اثر دوسری چیز میں ہرگز کچھ باقی نہیں رہتا اگر آدمی غور کرے تو قدرت الٰہی کا یہ بڑا ایک نمونہ ہے اسی نمونہ قدرت کو یاد دلانے کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے تاکہ غافل لوگ ہر روز کے کھانے پینے میں اپنی اولاد کے پلانے میں دودھ کا استعمال جو کرتے ہیں اس استعمال کے وقت دودھ کی پیدائش میں جو قدرت الٰہی ہے اسے وہ ذرا غور کریں اور قدرت کے ذریعہ سے اس قادر مطلق کو پہچان لیں دنیا میں نوکری تجارت، زراعت اللہ کے پیدا کئے ہوئے اسباب ہیں۔ ان اسباب سے روزی حاصل کرنے سے بچہ عاجز ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان دنوں کا اس کا یہ رزق پیدا کیا ہے اور جانوروں کے بچوں کے ساتھ انسان کا ساجھا بھی لگا دیا ہے غرض بچوں کے اس طرح بےخلش رزق کے پیدا ہونے سے انسان کو یقین کرلینا چاہیے کہ رزق سب کا اللہ کی طرف سے ہے یہی غذا بغیر دودھ کے دنوں میں عورت گائے بھینس وغیرہ کھاتے ہیں لیکن دودھ کی ایک بوند پیدا نہیں ہوتی جن دنوں میں آدمی اور جانوروں کے بچوں کو رزق کا پہنچانا اس قادر مطلق کو منظور ہوتا ہے اسے ہمیشہ کی غذا سے دودھ پیدا ہونے لگتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت کی حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جنتی لوگوں کے لئے جنت میں وہ چیزیں پیدا کی گئی ہیں کہ نہ کسی نے وہ چیزیں آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنیں نہ کسی کے دل پر ان کا تصور گزر سکتا ہے ١ ؎۔ اس حدیث کی بنا پر عبد اللہ بن مسعود اور عبد اللہ بن عباس (رض) کا صحیح قول یہ ہے کہ دنیا کی جن چیزوں کے نام جنت کی چیزوں سے ملتے جلتے ہیں وہ فقط نام میں ہی ملتے جلتے ہیں ورنہ جنت کی چیزوں کی تاثیر اور مزہ دنیا کی چیزوں سے بالکل الگ ہے۔ اس حدیث اور اوپر کے دونوں قولوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کا دودھ جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور جنت کے دودھ کی نہر جس کا ذکر سورت محمد میں آوے گا وہ دونوں بالکل الگ الگ چیزیں ہیں دنیاکا دودھ کچھ دیر کے بعد کھٹا ہوجاتا ہے اور جنت کا دودھ سالہا سال اپنے اصلی مزہ پر رہے گا اب یہ ظاہر بات ہے کہ دنیا میں اس طرح کا دودھ نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھا نہ کانوں سے سنا نہ کسی کے دل پر ایسے دودھ کا تصور گزر سکتا ہے جو سالہا سال تک نہ بگڑے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورج گرہن کی نمازیں جنت اور دوزخ کو دیکھا اور صحابہ سے فرمایا کہ اگر جنت کے انگور کی بیل میں سے ایک خوشہ میں توڑ لیتا تو قیامت تک اس کے انگور باقی رہتے ٢ ؎۔ اس حدیث سے بھی وہی بات ثابت ہوتی ہے کہ جنت کے دودھ کی طرح جنت کے میوے بھی دنیا کے میوؤں سے بالکل الگ ہیں کیونکہ دنیا کا کوئی انگور کا خوشہ قیامت تک رہنے کے قابل نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھا نہ کانوں سے سنا نہ کسی کے دل میں ایسے خوشہ کا تصور گزر سکتا ہے۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٩٥ باب صفۃ الجنتہ واھلہا۔ ٢ ؎ صحیح بخاری ص ١٤٢۔ ١٢٤ ج ١ باب صلوٰۃ الکسوف جماعۃ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:66) عبرۃ۔ العبر کے اصل معنی ہیں ایک حالت سے دوسری حالت تک پہنچ جانا۔ مگر العبور کا لفظ خاص کر پانی عبور کرنے پر استعمال ہوتا ہے۔ خواہ کسی طریقہ سے کیا جائے بذریعہ اونٹ ۔ کشتی۔ پل ۔ یا تیر کر یا پیدل۔ العبرۃ اور الاعتبار اس حالت کو کہتے ہیں کہ جس کے ذریعے کسی دیکھی چیز کی وساطت سے ان دیکھے نتائج تک پہنچا جائے۔ امام رازی کے مطابق عبرۃ وہ نشانی ہے کہ جس کے ذریعہ سے جہالت کے مقام کو عبور کر کے علم تک رسائی ہوتی ہے۔ عبرت نصیحت حاصل کرنا۔ دوسرے کے حال سے اپنا حال قیاس کرنا۔ عبرۃ بوجہ عمل ان منصوب ہے۔ بطونہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اس کے پیٹ ۔ بطون بطن کی جمع ہے ہٖ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع الانعام ہے۔ الانعام مذکر مؤنث دونوں طرح مستعمل ہے۔ آیت ہذا میں مذکر آیا ہے۔ لیکن سورة المومنون میں بطور مؤنث استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ان لکم فی الانعام لعبرۃ نسقیکم مما فی بطونہا ولکم فیھا منافع کثیرۃ۔ (23:21) یعنی لفظ کے لحاظ سے مذکر اور اسم جنس کے لحاظ سے مؤنث۔ اسی طرح النخل مذکر بھی آیا ہے جیسے کانہم اعجاز نخل منقعر (54:20) اور مؤنث بھی جیسے کانہم اعجاز نخل خاویۃ (69:7) ۔ فرث۔ واحد۔ وہ گوبر جو جانور کی آنتوں کے اندر ہو اس کی جمع فروک ہے۔ سائغا۔ خوشگوار سوغ سے جس کے معنی آسانی کے ساتھ کھانے پینے کی چیز کا حلق سے نیچے اتر جانا۔ سائغا۔ مزے سے حلق سے نیچے اتر جانے والا۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ نسقیکم مما فی بطورنہ من بین فرث ودم لبنا۔۔ گوبر اور خون کی مابین حالت میں جو (اجزائے خوراک) ان کے شکموں میں ہوتے ہیں ان میں سے خالص اور خوشگوار دودھ (پیدا کر کے) ہم تم کو پلاتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٩) اسرارومعارف ذرا جانوروں ہی کی تخلیق پر غور کرلو کہ ان کے معدے گوبر اور خون سے بھرے ہوتے ہیں مگر انہیں مادوں میں سے ایک حصے کو دودھ بنا دیتا ہے ان کے اندر ایسا نظام بنا دیا ہے کہ خون اور فضلات میں سے صاف ستھرا اور خوشگوار دودھ الگ ہو ، پینے والوں کے لیے ایک بہترین نعمت کی صورت میں نکلتا ہے یعنی ایسی عجیب شئے کہ بہترین غذا بھی ہے اور دوا بھی کہ قدرت نے ہر حیوان کی پہلی غذا یہی مقرر کردی ہے اس لیے حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ دودھ پیو دعا کرو ” اللھم بارک لنا فیہ وزدنامنہ “۔ کہ اے اللہ ہمارے لیے اس میں برکت دے اور یہ نعمت اور زیادہ عطا فرما ، (اچھا اور لذیذ کھانا) اور اس آیہ مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ لذیذ اور اچھا کھانا زہد کیخلاف نہیں جب کہ حلال طریقے سے حاصل کیا جائے اور فضول خرچی نہ کی جائے ، اسی طرح پھلوں کو دیکھ لو صرف انگور اور کھجور سے کیا کچھ نشہ آور مشروب اور کھانے کی بہترین چیزیں بناتے ہو ، یعنی انسان کو نہ صرف بہترین چیزیں کھانے کو دین بلکہ قدرتی چیزوں کو مختلف طرح ملا کر یا پکا کر طرح طرح کے لذیذ کھانے اور صحت بخش اغذیہ و ادویہ بنانے کا شعور بھی عطا فرمایا کہ بجز انسان یہ نعمت کسی جاندار کو حاصل نہیں سب قدرتی پیدا کردہ غذا ہی استعمال کرتے ہیں یہ آیات مکی دور میں نازل ہوئیں جبکہ شراب کی حرمت کا حکم نازل نہ ہوا تھا مگر اس کے باوجود ان سے شراب کا حلال ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ دلیل یہ ہے کہ اللہ کریم کی نعمتوں کو لذت حاصل کرنے کے لیے غلط یا ناجائز طور پر بھی استعمال کرلیتے ہو اور کسی نعمت کا غلط استعمال اس کے نعمت ہونے سے انکار کا باعث تو نہیں بن سکتا نیز اگرچہ ابھی شراب حرام نہ ہوئی تھی مگر یہاں بھی نشہ آور مشروب کے مقابل رزق حسن ارشاد فرما کر ارشاد فرما دیا کہ بہترین رزق یا کھانے وہی ہیں جو نشہ آور نہیں اب ذرا شہد کی مکھی پر غور کرو کہ رب جلیل نے اس کے دل میں کیسی خوبصورت بات ڈال دی کہ پہاڑوں کی چٹانوں میں یا بلند درختوں پر یا بلند عمارتوں میں صاف ستھری فضا میں اور گرد و غبار سے بلند جگہ پر چھتہ بناتی ہے تاکہ شہد نہایت صاف ستھرے اور محفوظ طریقے سے تیار ہو ، بلکہ اوحی فرما کر یہ اشارہ بھی فرمایا کہ اس میں فہم و شعور دوسرے حیوانات کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور اس کے نظام کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بہترین نظام حکومت سامنے آتا ہے تمام امور ملکہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جو ایک نسبتا بہت بڑی مکھی ہوتی ہے یہی مختصر مدت یعنی چند ہفتوں میں ہزاروں انڈے دیتی ہے اور پھر پیدا ہونے والی مکھیوں کے فرائض اور ذمہ داریاں تقسیم کرتی ہے جن میں بعض محافظ ہوتی ہیں اور دوسری کارکن اور کچھ نر مکھیاں غالبا محض آبادی کی زینت ہوتی ہیں کام کرنے والی مکھیوں میں بعض نباتات پر سے مختلف مادے جمع کرکے موم بنا کر فراہم کرتی ہیں تو دوسری خوبصورت مسدس گھر بناتی ہیں اور عموما بیس سے تیس ہزار گھر ایک چھتے میں پائے جاتے ہیں جو پیمائش سے لے کر حسن وصفائی تک بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں بعض انڈوں کی حفاظت اور ان سے نکلنے والے بچوں کی پرورش کرتی ہیں تو دوسری مختلف پھلوں اور پھولوں سے رس حاصل کرکے لاتی ہیں جو ان کے پیٹ میں پہنچ کر شہد کی صورت میں تبدیل ہوتا جاتا ہے یہ خود ان کی اور ان کے بچوں کی غذا بنتا ہے مگر اسی میں رب کریم نے انسانوں کے لیے بھی لذت وشفا بھر دی ہے کہ بہترین اور لذیذ غذا بھی ہے اور اعلی درجے کی دوا بھی محافظ مکھیاں نہ صرف دوسروں سے چھتے کی حفاظت کرتی ہیں ، بلکہ خود چھتے کی مکھی بھی اگر کسی گندگی پر بیٹھ جائے تو اسے اندر داخل نہیں ہونے دیتیں بلکہ ملکہ کے روبرو پیش کرتی ہیں جو اسے قتل کردیتی ہے یہ تو ایک سرسری تذکرہ تھا جو کچھ تحقیق میں سامنے آچکا ہے عقل انسانی کو دنگ کردیتا ہے کہ اللہ کریم نے اس حقیر سی مخلوق کے شعور میں کیسی عجیب بات ڈال دی کہ رنگ برنگے پھولوں اور طرح طرح کے پھلوں سے اس کو حاصل کرکے ایسے الجھے ہوئے راستوں پر چلتی ہے جو اللہ جل جلالہ نے اس کے لیے آسان کردیئے ہیں مگر دوسروں کو اس کا پیچھا کرنا دشوار ہے کہ ایک پھول سے چھتے تک اندازا اسی (٠٠٠ ، ٨٠) ہزار چکر لگاتی ہے اور کمال یہ ہے کہ دوسرے چھتے پر نہیں جاتی اگر کبھی غلطی سے کوئی ایسا کر گزرے تو محافظ اسے گھسنے نہیں دیتے پھر یہ اس کے پیٹ میں محض اس کی غذا نہیں بننے دیتے بلکہ مختلف رنگوں اور اقسام کے شہد کی صورت میں باہر آتے ہیں جس میں انسانوں کے لیے شفا ہے ۔ (مختلف رنگوں سے مراد) شہد کے مختلف رنگوں کا شفا ہونے یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ جس قسم کے پھولوں کا شہد تیار ہوتا ہے جس مرض میں وہ پھول مفید ہوں اس مرض کا بہترین علاج بنتا ہے ، طب کی کتب میں ایک فاضل طبیب کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے انسانی امراض کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے ان کا علاج آٹھ قسم کی جڑی بوٹیوں سے تجویز کیا اور انہوں نے ہر بوٹی کا باغیچہ لگایا جیسے بلغمی امراض کے لیے بنفشہ کھانسی کے لیے ملٹھی وغیرہ جب ان پودوں پر پھول آتے تو ان کے باغیچہ میں شہد کی مکھیاں پالتے جو ان پھولوں سے شہد تیار کرتی تھیں اور وہ اس مرض کا کامیاب ترین علاج ہوتا تھا ۔ (ایک بہترین طریق علاج) جدید تحقیق کے مطابق روس کے ماہرین نے ایک رسالہ شائع کیا تھا کہ شہد کو دودھ کے گلاس میں ڈال کر پیا جائے اور شہد والا نیم گرم دودھ پی کر بستر میں کچھ دیر لیٹ جانا چاہئے رات کو سوتے وقت پی لے یا دن کو پیئے تو بستر میں گھس جائے تو قلب کے تمام امراض کا بہترین علاج ہے ساتھ دوسرے امراض سے بھی شفا بخشتا ہے ۔ شہد آنکھ کا بھی بہترین علاج ہے اور پھوڑے پھنسی پر لیپ کیا جائے تو ٹھیک ہوجاتے ہیں درد کرتے ہوئے دانت پر روئی پر لگا کر رکھیں شفا ہوتی ہے غرض رب کریم نے اسے امراض سے شفا کا سبب بنا دیا ہے اور اس میں غور وفکر کرنے والوں کے لیے بہت بڑی عبرت اور اللہ کریم کی عظمت کی دلیل موجود ہے اور شہد کی مکھی کو یہ شرف نصیب ہے کہ حدیث شریف کے مطابق مکھیاں جہنم میں جا کر اہل جہنم کے لیے عذاب کا باعث بنیں گی مگر شہد کی مکھی نہ جائے گی ، (دوا اور علاج) نیز یہ بھی ثابت ہو ا کہ مرض کیلئے دوا کرنا ہی قدرتی طریقہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ دوا یا جھاڑ پھونک جو ہم کرتے ہیں تو کیا یہ تقدیر کو بدل دیتے ہیں یعنی بیماری سے شفا ہوجاتی ہے تو فرمایا یہ بھی تو تقدیر الہی ہی کی صورت ہیں اور بعض صوفیا سے جو مشہور ہے کہ وہ علاج پسند نہ کرتے تھے تو یہ سکر اور مدہوشی کی باتیں ہیں ، بلکہ شرعا تو علاج نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے ۔ (وحی والقاوکشف وغیرہ) اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ کریم جب عطا فرمانا چاہیں تو علوم کے قدرتی طریقوں سے بھی نوازا کرتے ہیں یہاں وحی کا لفظ القا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے مطلب دل میں چپکے سے باٹ ڈال دینا ہے اصطلاح میں نبی کریم پر کلام کے نازل ہونے کو وحی کہا گیا ہے مگر علم عطا کرنے کی یہ صورتیں جانوروں میں موجود ہیں اور انسان جو شعوری اعتبار سے سب سے افضل واعلی ہے اسے نبوت سے سرفراز فرما کر وحی نبوت سے نوازا اور دوسرے انسانوں تک علم پہنچانے کا باعث بنایا پھر ان سے جنہیں پسند فرمایا نبی کے اتباع کے ذریعے ان میں علم کے حصول کی قوت پیدا کردی اور علم لدنی سے نوازا کہ جس کی مختلف صورتیں الہام والقا اور کشف ہیں نبی کو وحی میں کبھی غلطی نہیں لگتی تو ولی کا کشف یا اس پر ہونے والا الہام والقا بھی چونکہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہوتا ہے کبھی غلط نہیں ہوتا ہاں ولی میں سمجھنے کی وہ قوت نہیں ہوتی جو نبی میں ہوتی ہے لہذا ولی کا کشف صحت کے لیے نبی کے ارشاد کا محتاج ہوتا ہے اگر اس سے ٹکرا جائے تو چھوڑ دیا جائے گا کہ ولی کو سمجھنے میں غلطی لگی اسی اللہ جل جلالہ نے تمہیں بھی پیدا فرمایا صحت جوانی قوت اقتدار سب کچھ دیتا ہے اور پھر موت دے دیتا ہے نیز تم سے بعض تو بڑھانے کی ان سرحدوں کو چھو لیتے ہیں جہاں زندگی باقی ہوتی ہے مگر یہ سب اوصاف معدو م ہوجاتے ہیں اور علم کے بعد انسان کچھ جاننے والا بن جاتا ہے خوب جان لو کہ اللہ جل جلالہ ہی علم والا بھی ہے اور طاقت والا بھی ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 66 تا 67 الانعام چوپائے، مویشی جانور۔ نسقیکم ہم تمہیں پلاتے ہیں، سیراب کرتے ہیں۔ بطون (لبطن) پیٹ۔ بین درمیان۔ فرث گوبر، جانور کی لید۔ دم خون۔ لبن دودھ، لسی۔ سائغ (سوغ) خوش گوار۔ شاربین پینے والے۔ تشریح : آیت نمبر 66 تا 67 کتاب و سنت میں اللہ تعالیٰ کی بےانتہا صفتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان ہی میں سے یہ صفت بھی ہے کہ وہ ” حی وقیوم “ ہے یعنی وہ زندہ ہے اور ہر چیز کو تھامے ہوئے ہے۔ اس کائنات میں انسان جتنا بھی غور کرتا ہے وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس حی وقیوم ذات نے اس پورے نظام کائنات کو سنبھالا ہوا ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے اپنی اس کائنات اور اس کے نظام کو چلاتا ہے۔ چاند، سورج، ستارے، فضائیں، ہوائیں، بادل، بارش، شجر و حجر، جانور اور بدلتے موسم، یہ سب اس کی قدرت کے نمونے ہیں۔ ان آیات میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ انسان نے کبھی ان مزیدار اور خوشبو دار غذاؤں اور پھلوں کی پیدائش پر غور کیا ہے کہ وہ ان چیزوں کو نعمتیں بنا کر کس طرح انسانوں کی غذا بنا دیتا ہے اور اس نے کس طرح ان کو سنبھالا ہوا ہے۔ ایک جانور ہر طرح کی غذا کھاتا ہے۔ اس کے ذریعہ وہ دودھ جیسی نعمت کو پیدا کرتا ہے۔ جاندار کے جسم میں ان غذاؤں سے خون بھی پیدا ہو رہا ہے۔ گوبر جیسی گندگی بھی پیدا ہو رہی ہے لیکن یہ اللہ کی کتنی بڑی قدرت ہے کہ وہ اس فضلے (گوبر) اور خون کے درمیان سے دودھ جیسی غذا کو پیدا کرتا ہے۔ نہ اس میں خون کی رنگت کا اثر ہوتا ہے نہ گوبر کی بدبو ہوتی ہے وہ ایک ایسی خالص غذا بنتی ہے جس کو حلق سے اتارنے میں نہ ان کے بچے کو تکلیف ہوتی ہے نہ بوڑھے اور جوان کو کوئی زحمت ہوتی ہے۔ دودھ جیسی پاکیزہ صحت مند اور مزیدار غذا پیدا کردی جاتی ہے جس سے انسان دودھ، دہی، چھاچھ کے علاوہ بہترین اور صحت مند اصلی گھی بھی حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت ہے کہ وہ بدبو دار اور گندی کھاد جو درختوں، پودوں اور کھیتوں میں ڈالی جاتی ہے اس سے انسان کو ہر طرح کا اناج، طرح طرح کے پھل، پھول، سبزہ، سبزی ملتی ہے اس کے مزے مختلف کردیئے تاکہ انسان ان غذاؤں کی یکسانیت سے اکتا نہ جائے۔ فرمایا کہ ان تمام چیزوں میں عقل و فہم رکھنے والوں کے لئے زبردست عبرت و نصیحت کے پہلو پوشیدہ ہیں۔ انسان دودھ اور اور غذائیں استعمال کرتا ہے لیکن کبھی اس محسن و منعم ذات کا شکریہ بھی ادا کیا جس نے اپنی قدرت کا ملہ سے اتنی عظیم نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ یقینا اللہ کے نیک بندے اپنے پروردگار کا احسان مانتے ہوئے اس کا شکر ادا کرتے ہیں یہی لوگ کامیاب و بامراد ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ آیت سے یہ مراد نہیں کہ پیٹ میں ایک طرف گوبر ہوتا ہے اور ایک طرف خون اور دونوں کے درمیان دودھ رہتا ہے بلکہ پیٹ میں جو غذا ہوتی ہے اس میں وہ اجزا جو آگے چل کردودھ بنیں گے اور وہ اجزاء جو گوبر بن جائیں گے سب مخلوط ہوتے ہیں اللہ ان کو جدا جدا کرتے ہیں کچھ گوبر بن کر وضع ہوجاتا ہے اور کچھ ہضم کبدی میں اخلاط بنتے ہیں جن میں خون بھی ہے پھر اس خون میں وہ حصہ جو آگے چل کر دودھ بنے گا اور وہ حصہ جو دودھ نہ بنے گا یہ دونوں مخلوط ہوتے ہیں اللہ ایک حصہ کو جدا کرکے پستان تک پہنچاتا ہے اور وہ وہاں پہنچ کر دودھ بن جاتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حیوانات اور نباتات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے خالق، رازق ہونے کے ناقابل تردید دلائل۔ دوران خون (بلڈ سرکولیشن) اور دودھ : قرآن پاک کا نزول، دوران خون کی وضاحت کرنے والے اولین مسلمان سائنس دان ابن نفیس سے ٦٠٠ سال پہلے اور اس دریافت کو مغرب میں روشناس کروایا تھا۔ تقریباً تیرہ صدیاں پہلے یہ معلوم ہوا کہ آنتوں کے اندر ایسا کیا کچھ ہوتا ہے جو نظام ہاضمہ میں انجام پانے والے افعال کے ذریعے دیگر جسمانی اعضا کی نشوونما کی ضمانت فراہم کرتا ہے قرآن پاک کی ایک آیت مبارک، جو دودھ کے اجزاء کے ماخذ کی وضاحت کرتی ہے، اس تصور کے عین مطابق ہے۔ مذکورہ بالاتصور کے حوالے سے آیت قرآنی کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ آنتوں میں کیمیائی تعاملات واقع ہوتے ہیں اور یہ آنتوں ہی سے ہضم کردہ غذا سے اخذ کیے ہوئے مادے ایک پیچیدہ نظام سے گزر کر دوران خون میں شامل ہوتے ہیں۔ کبھی وہ مادے جگر سے ہو کر گزرتے ہیں جس کا انحصار ان کی کیمیائی ترکیب پر ہوتا ہے۔ خون ان اجزاء (مادوں) کو تمام اعضا تک پہنچاتا ہے جن میں دودھ پیدا کرنے والے (چھاتیوں کے) غدود بھی شامل ہیں۔ سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنتوں میں موجود غذا کے بعض مادے آنتوں کی دیوار سے سرایت کرتے ہوئے خون کی نالیوں (vEssEls) میں داخل ہوجاتے ہیں، اور پھر خون کے راستے یہ دوران خون کے ذریعے کئی اعضا تک جا پہنچتے ہیں۔ یہ فعلیاتی تصور ہماری سمجھ میں آجائے گا اگر ہم قرآن پاک کی درج ذیل آیات مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے : (وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیْکُمْ مِمَّا فِیْ بُطُونِہٖ مِنٌ بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَآءِغًا للشَّارِبِیْنَ )[ النحل : ٦٦] ” اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے۔ “ (وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیکُمْ مِمَّا فِیْ بُطُوْنِہَا وَلَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ کَثِیْرَۃٌ وَمِنْہَا تَأْکُلُوْنَ )[ المومنون : ٢١] ” اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ایک چیز ( دودھ) ہم تمہیں پلاتے ہیں اور تمہارے لیے ان میں بہت فوائد ہیں۔ ان کو تم کھاتے ہو۔ “ ١٤٠٠ سال قبل، قرآن پاک کی فراہم کردہ یہ وضاحت جو گائے میں دودھ کے پیدا ہونے کے حوالے سے ہے، حیرت انگیز طور پر جدید معلومات سے بھر پور انداز میں ہم آہنگ ہے جس نے اس حقیقت کو حال ہی میں دریافت کیا۔ (قرآن اور سائنس : ازخطبات ڈاکٹر ذاکر نائیک) مسائل ١۔ چوپائے انسان کے لیے باعث عبرت ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ خون اور گوبر کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے۔ ٣۔ پینے والوں کے لیے دودھ انتہائی مزے دار ہے۔ تفسیر بالقرآن دودھ کی حقیقت اور چوپاؤں کے فوائد : ١۔ ہم ان کے پیٹوں سے تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں۔ (النحل : ٦٦) ٢۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے پیدا فرمائے تاکہ تم ان پر سواری کرسکو اور کھا سکو۔ (المومن : ٧٩) ٣۔ چوپاؤں کو پیدا کیا جن کے ذریعے تم سردی سے بچتے ہو اور دیگر فوائد حاصل کرتے ہو۔ (النحل : ٥) ٤۔ تمہارے لیے چوپاؤں کی کھالوں سے ایسے گھر بنائے جنہیں تم نقل مکانی اور قیام دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو۔ (النحل : ٨٠) ٥۔ تمہارے لیے چوپاؤں میں عبرت ہے کہ ان کے پیٹوں میں سے ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور تمہارے لیے ان میں بہت سے فوائد ہیں اور انہی میں سے تم کھاتے بھی ہو۔ (المومنون : ٢١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٦٦ یہ دودھ ، جسے ہم حیوانات کے پستانوں سے نچوڑتے ہیں ، یہ کس چیز سے پیدا ہوتا ہے ؟ یہ گوبر اور خون کے بیچ میں سے نکلتا ہے ۔ فرث اس محصول کو کہتے ہیں جو ہضم کے بعد جگالی کرنے والے جانور کے اوجھ میں رہ جاتا ہے۔ نیز ہضم کے بعد جو محلول رہ جاتا ہے اور اسے آنتیں خون کی شکل میں تبدیلی کردیتی ہیں اسے بھی فرث کہا جاتا ہے۔ یہ خون جسم کے ہر خلیے میں گردش کرتا ہے۔ یہ خون جب جانور کی کھیری میں دودھ کے غدود میں جاتا ہے تو یہ دودھ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ قدرت کا عجوبہ ہے کہ یہ خون دودھ بن جاتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ محلول اور یہ خون کس طرح دودھ کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ پھر ہر قسم کی خوراک کا خلاصہ خون کی شکل کس طرح اختیار کرلیتا ہے۔ پھر اس خون کی قوت میں سے جسم کے ہر خلیے کو اس کی ضرورت کے مطابق غذا کا فراہم ہونا ایک ایسا عمل ہے جو نہایت ہی پیچیدہ اور تعجب انگیز ہے۔ یہ عمل جسم میں ہر سیکنڈ کے حساب سے تکمیل پاتا ہے۔ اس طرح جسم میں جلنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ ہر سیکنڈ میں ، انسانی جسم کی اس پیچیدہ مشینری میں تخریب و تعمیر کا یہ عمل جاری ہے اور اس وقت جاری رہتا ہے جب تک جسم سے روح پرواز نہیں کر جاتی۔ کوئی انسان جس کا شعور زندہ ہو ، وہ ان عجیب عملیات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ، جن میں جسم انسانی کی اس عجیب مشینری کا ہر ذرہ خالق کا ثناخواں نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسی عجیب مشینری ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی پیچیدہ سے پیچیدہ مشینری اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ انسان کے لئے جسم انسانی کے لاتعداد خلیوں میں سے ایک خلیہ بھی بنانا ممکن نہیں ہے۔ ہم نے جسم انسانی میں خوراک کے ہضم ، اس کے خون کی شکل اختیار کرنے اور پھر چلنے اور ختم ہونے کے عمل کا ایک عام جائزہ لیا ہے۔ اس جسم کے اندر ایسے ایسے کام ہو رہے ہیں کہ اگر ان کا سائنسی مطالعہ اور ملاحظہ کیا جائے تو عقل دنگ رہ جائے۔ خود جسم انسانی کے خلیوں میں سے ایک خلیے کا مطالعہ اور اس پر غوروفکر بھی نہ ختم ہونے والی سوچ عطا کرتا ہے۔ ماضی قریب تک یہ تمام عجائبات راز ہی رہے ، اور یہ حقیقت جس کا ذکر یہاں قرآن مجید کر رہا ہے کہ دودھ گوبر اور خون کے درمیان سے نکلتا ہے ، انسان اس سے ماضی قریب تک واقف نہ تھا۔ ادوار سابقہ میں انسان نہ اس کا تصور کرسکتا تھا اور نہ ہمارے دور کی طرح اس کا دقیق سائنسی مطالعہ کرنے کے قابل تھا۔ اس بارے میں کوئی انسان نہ شک کرسکتا ہے اور نہ بحث کرسکتا ہے۔ اس قسم کے پیچیدہ سائنسی حقائق میں سے کسی ایک حقیقت کی طرف قرآن کریم کا واضح طور پر اشارہ کرنا ہی اس بات کے لئے کافی ثبوت ہے کہ قرآن کریم وحی الٰہی پر مشتمل ہے کیونکہ یہ وہ حقیقت ہے جس کا سائنٹیفک علم کسی انسان کو بھی اس دور میں نہ تھا۔ لیکن ان خالص سائنسی حقائق کو اگر ایک طرف بھی چھوڑ دیں تو بھی قرآن کریم میں ایسے دلائل و خصائص موجود ہیں جو اس کے وحی الٰہی ہونے کا اثبات کرتے ہیں۔ ہاں اس قسم کی سائنسی حقیقتوں میں سے ایک واضح حقیقت سامنے آجانا مخالفین اور معاندین کے منہ کو بند کرنے کے لئے کافی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

چوپایوں میں اور شہد کی مکھی میں تمہارے لیے عبرت ہے ان آیات سے پہلے بارش کی نعمت کا تذکرہ تھا کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ فرما دیتا ہے اور اس سے طرح طرح کی غذائیں ملتی ہیں ان آیات میں اولاً دودھ کا اور ثانیاً سکر کا اور اس کے ساتھ رزق حسن کا ثالثاً شہد کا تذکرہ فرمایا۔ دودھ کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ دیکھو چوپایوں میں تمہارے لیے عبرت ہے چوپایوں سے دودھ کے جانور مراد ہیں غور کرو اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے پیٹوں سے دودھ نکال کر پلاتا ہے یہ جانور چارہ اور گھاس پھونس کھاتے ہیں اس سے خون بھی بنتا ہے اور فضلہ یعنی گوبر بھی اور دودھ بھی، یہ دودھ خون اور گوبر کے درمیان سے صاف ستھرا خالص نکلتا ہے اس میں ایک ذرہ بھی گوبر یا خون کا نہیں ہوتا، اور اس دودھ کا پینا نہایت سہل ہے آسانی سے گلے میں اتر جاتا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظاہرہ ہے جانوروں نے کھایا تھا گھاس پھونس اور اس سے پیدا ہوا دودھ، یہ دودھ پیدا ہوا تو چھوٹوں اور بڑوں کے لیے غذا بن گیا۔ معالم التنزیل میں ص ٧٥ ج ٣ حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جانور جب چارہ کھاتا ہے اور اس کے معدہ میں جگہ پکڑ لیتا ہے اور معدہ اسے پیستا ہے تو نیچے گوبر، درمیان میں دودھ اور اوپر خون بن جاتا ہے، پھر باذن اللہ تعالیٰ جگر اپنا کام کرتا ہے خون رگوں میں چلا جاتا ہے اور دودھ تھنوں میں آجاتا ہے اور فضلہ یعنی گوبر اپنی جگہ رہ جاتا ہے حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو یوں دعا کرے۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَاَطْعِمْنَا خَیْرًا مِنْہُ (اے اللہ ہمیں اس میں برکت دے اور ہمیں اس سے بہتر کھلا) اور جب دودھ پیئے تو یوں کہے۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَزِدْنَا مِّنْہُ (اے اللہ ہمیں اس میں برکت دے اور اس میں سے اور زیادہ دے) عام کھانے کی دعا میں اَطْعِمْنَا خَیْرًا مِّنْہُ فرمایا اور دودھ پینے میں وَزِدْنَا مِنْہُ فرمایا اس کا سبب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود ہی بتادیا فانہ لیس شیء من الطعام والشراب الا اللبن کہ دودھ کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کھانے اور پینے دونوں کا کام دیتی ہو۔ (رواہ ابو داؤد ص ٦٨ ج ٢)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

66 ۔ آگے اور دلائل توحید وقدرت بیان فرماتے ہیں اور بلا شبہ تمہارے لئے چو پاپوں میں بھی غور و فکر کرنے اور سمجھنے کا مقام ہے وہ یہ ہے کہ ہم تم کو اس گوبر اور خون کے درمیان سے جو ان کے پیٹوں میں ہوتا ہے ایسا خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے خوشگوار اور خلق میں آسانی سے اترنے والا ہے۔ یعنی چوپاپوں کے پیٹ میں خون بھی ہے اور گوبر بھی ہے چو پائے غذا کو ہضم کرلیتے ہیں تو غذا میں سے خون بنتا ہے پھر اس خون میں سے صاف ستھرا دودھ تھنوں میں پہنچا دیا جاتا ہے جس کو تم دوہ لیتے ہو اور یہ سب باتیں چوپایوں کے پیٹ میں ہوتی ہیں اور اس طرح ہوتی ہیں کہ دودھ میں گوبر اور خون ملنے نہیں پاتا اور یہ خوشگوار دودھ کسی اور طرح حاصل بھی نہیں ہوسکتا ۔ جو یہ سب نعمتیں مہیا کرتا ہے وہی تو قابل پرستش معبود ہے۔