Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 68

سورة النحل

وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعۡرِشُوۡنَ ﴿ۙ۶۸﴾

And your Lord inspired to the bee, "Take for yourself among the mountains, houses, and among the trees and [in] that which they construct.

آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں درختوں اور لوگوں کی بنائی ہوئی اونچی اونچی ٹٹیوں میں اپنے گھر ( چھتے ) بنا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

In the Bee and its Honey there is Blessing and a Lesson Allah says, وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ

وحی سے کیا مراد ہے؟ وحی سے مراد یہاں پر الہام ، ہدایت اور ارشاد ہے ۔ شہد کی مکھیوں کو اللہ کی جانب سے یہ بات سمجھائی گئی کہ وہ پہاڑوں میں ، درختوں میں اور چھتوں میں شہد کے چھتے بنائے ۔ اس ضعیف مخلوق کے اس گھر کو دیکھئے کتنا مضبوط کیسا خوبصورت اور کیسی کاری گری کا ہوتا ہے ۔ پھر اسے ہدایت کی اور اس کے لئے مقدر کر دیا کہ یہ پھلوں ، پھولوں اور گھاس پات کے رس چوستی پھرے اور جہاں چاہے جائے ، آئے لیکن واپس لوٹتے وقت سیدھی اپنے چھتے کو پہنچ جائے ۔ چاہے بلند پہاڑ کی چوٹی ہو ، چاہے بیابان کے درخت ہوں ، چاہے آ بادی کے بلند مکانات اور ویرانے کے سنسان کھنڈر ہوں ، یہ نہ راستہ بھولے ، نہ بھٹکتی پھرے ، خواہ کتنی ہی دور نکل جائے ۔ لوٹ کر اپنے چھتے میں اپنے بچوں ، انڈوں اور شہد میں پہنچ جائے ۔ اپنے پروں سے موم بنائے ۔ اپنے منہ سے شہد جمع کرے اور دوسری جگہ سے بچے ۔ ذللا کی تفسیر اطاعت گزر اور مسخر سے بھی کی گئی ہے پس یہ حال ہو گا سالکہ کا جیسے قرآن میں آیت ( وَذَلَّــلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَمِنْهَا يَاْكُلُوْنَ 72؀ ) 36-يس:72 ) میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ لوگ شہد کے چھتے کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک لے جاتے ہیں ۔ لیکن پہلا قول بہت زیادہ ظاہر ہے یعنی یہ اس کے طریق کا حال ہے ۔ ابن اجریر دونوں قول صحیح بتلاتے ہیں ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مکھی کی عمر چالیس دن کی ہوتی ہے سوائے شہد کی مکھی کے ۔ کئی مکھیاں آگ میں بھی ہوتی ہیں شہد کے رنگ مختلف ہوتے ہیں سفید زرد سرخ وغیرہ جیسے پھل پھول اور جیسی زمین ۔ اس ظاہری خوبی اور رنگ کی چمک کے ساتھ اس میں شفا بھی ہے ، بہت سی بیماریوں کو اللہ تعالیٰ اس سے دور کر دیتا ہے یہاں فیہ الشفاء للناس نہیں فرمایا ورنہ ہر بیماری کی دوا یہی ٹھہرتی بلکہ فرمایا اس میں شفا ہے لوگوں کے لئے پس یہ سرد بیماریوں کی دوا ہے ۔ علاج ہمیشہ بیماریوں کے خلاف ہوتا ہے پس شہد گرم ہے سردی کی بیماری میں مفید ہے ۔ مجاہد اور ابن جریر سے منقول ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے یعنی قرآن میں شفا ہے ۔ یہ قول گو اپنے طور پر صحیح ہے اور واقعی قرآن شفا ہے لیکن اس آیت میں یہ مراد لینا سیاق کے مطابق نہیں ۔ اس میں تو شہد کا ذکر ہے ، اسی لئے مجاہد کے اس قول کی اقتدا نہیں کی گئی ۔ ہاں قرآن کے شفا ہونے کا ذکر آیت ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَا 82؀ ) 17- الإسراء:82 ) میں ہے اور آیت ( وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ڏ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ 57؀ ) 10- یونس:57 ) میں ہے اس آیت میں تو مراد شہد ہے چنانچہ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ کسی نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے بھائی کو دست آ رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اسے شہد پلاؤ ، وہ گیا ، شہد دیا ، پھر آیا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے تو بیماری اور بڑھ گئی ۔ آپ نے فرمایا جا اور شہد پلاؤ ۔ اس نے جا کر پھر پلایا ، پھر حاضر ہو کر یہی عرض کیا کہ دست اور بڑھ گئے آپ نے فرمایا اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ، جا پھر شہد دے ۔ تیسری مرتبہ شہد سے بفضل الٰہی شفا حاصل ہو گئی ۔ بعض اطباء نے کہا ہے ممکن ہے اس کے پیٹ میں فضلے کی زیادتی ہو ، شہد نے اپنی گرمی کی وجہ سے اس کی تحلیل کر دی ۔ فضلہ خارج ہونا شروع ہوا ۔ دست بڑھ گئے ۔ اعرابی نے اسے مرض کا بڑھ جانا سمجھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور شہد دینے کو فرمایا اس سے زور سے فضلہ خارج ہونا شروع ہوا پھر شہد دیا ، پیٹ صاف ہو گیا ، بلا نکل گئی اور کامل شفا بفضل الہی حاصل ہو گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات جو بہ اشارہ الہی پوری ہو گئی ۔ بخاری اور مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹھاس اور شہد سے بہت الفت تھی ۔ آپ کا فرمان ہے کہ تین چیزوں میں شفا ہے ، پچھنے لگانے میں ، شہد کے پینے میں اور داغ لگوانے میں لیکن میں اپنی امت کو داغ لگوانے سے روکتا ہوں ۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ تمہاری دواؤں میں سے کسی میں اگر شفا ہے تو پچھنے لگانے میں ، شہد کے پینے میں اور آگ سے دغوا نے میں جو بیماری کے مناسب ہو لیکن میں اسے پسند نہیں کرتا ۔ مسلم کی حدیث میں ہے میں اسے پسند نہیں کرتا بلکہ نا پسند رکھتا ہوں ۔ ابن ماجہ میں ہے تم ان دونوں شفاؤں کی قدر کرتے رہو شہد اور قرآن ۔ ابن جریر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جب تم میں سے کوئی شفا چاہے تو قرآن کریم کی کسی آیت کو کسی صحیفے پر لکھ لے اور اسے بارش کے پانی سے دھولے اور اپنی بیوی کے مال سے اس کی اپنی رضامندی سے پیسے لے کر شہد خرید لے اور اسے پی لے پس اس میں کئی وجہ سے شفا آ جائے گی اللہ تعالیٰ عز و جل کا فرمان ہے آیت ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا 82؀ ) 17- الإسراء:82 ) یعنی ہم نے قرآن میں وہ نازل فرمایا ہے جو مومنین کے لیے شفا ہے اور رحمت ہے اور آیت میں ہے آیت ( وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً مُّبٰرَكًا فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِيْدِ Ḍ۝ۙ ) 50-ق:9 ) ہم آسمان سے با برکت پانی برساتے ہیں ۔ اور فرمان ہے آیت ( وَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةٍ ۭ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْۗــــــًٔـا مَّرِيْۗـــــــًٔـا Ć۝ ) 4- النسآء:4 ) یعنی اگر عورتیں اپنے مال مہر میں سے اپنی خوشی سے تمہیں کچھ دے دیں تو بیشک تم اسے کھاؤ پیو سہتا پچتا ۔ شہد کے بارے میں فرمان الہی ہے فیہ شفاء للناس شہد میں لوگوں کے لئے شفاء ہے ۔ ابن ماجہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص ہر مہینے میں تین دن صبح کو شہد چاٹ لے اسے کوئی بڑی بلا نہیں پہنچے گی ۔ اس کا ایک راوی زبیر بن سعید متروک ہے ۔ ابن ماجہ کی اور حدیث میں آپ کا فرمان ہے کہ تم سنا اور سنوت کا استعمال کیا کرو ان میں ہر بیماری کی شفا ہے سوائے سام کے ۔ لوگوں نے پوچھا سام کیا ؟ فرمایا موت ۔ سنوت کے معنی ثبت کے ہیں اور لوگوں نے کہا ہے سنوت شہد ہے جو گھی کی مشک میں رکھا ہوا ہو ۔ شاعر کے شعر میں یہ لفظ اس معنی میں آیا ہے پھر فرماتا ہے کہ مکھی جیسی بےطاقت چیز کا تمہارے لئے شہد اور موم بنانا اس کا اس طرح آ زادی سے پھرنا اپنے گھر کو نہ بھولنا وغیرہ یہ سب چیزیں غور و فکر کرنے والوں کے لئے میری عظمت ، خالقیت اور مالکیت کی بڑی نشانیاں ہیں ۔ اسی سے لوگ اپنے اللہ کے قادر حکیم علیم کریم رحیم ہونے پر دلیل حاصل کر سکتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

68۔ 1 وَحَیً سے مراد الہام اور وہ سمجھ بوجھ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی طبعی ضروریات کی تکمیل کے لئے حیوانات کو بھی عطا کی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٥] نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں جو عام مکھی یعنی ذباب سے بڑی ہوتی ہے اور اس سورة کا نام && النحل && اسی نسبت سے ہے کہ صرف اسی سورت میں نحل کا ذکر آیا ہے اور اس مکھی کی طرف وحی کرنے سے مراد فطری اشارہ یا تعلیم ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کی جبلت میں ودیعت کر رکھی ہے جیسے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے تاکہ وہاں سے اپنے لیے غذا حاصل کرسکے حالانکہ اس وقت اسے کسی بات کی سمجھ نہیں ہوتی۔ [٦٦] یہ اسی فطری وحی کا اثر ہے کہ وہ اپنے لیے ایسا چھتا یا اپنا گھر بناتی ہے جسے انسان دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی ماہر انجینئر نے اس کی ڈیزائننگ کی ہے۔ اس چھتے کا ہر خانہ چھ پہلو والا یعنی مسدس ہوتا ہے جس کے تمام ضلعے مساوی لمبائی کے ہوتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے سے متصل یا جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں خالی جگہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ انھیں خانوں میں مکھیاں شہد کا ذخیرہ کرتی ہیں اور بیرونی خانوں پر پہرہ دار مکھیاں ہوتی ہیں۔ جو اجنبی مکھیوں یا کیڑوں کو ان خانوں میں گھسنے نہیں دیتیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ : وحی کا اصل معنی تو اشارۂ سریعہ ہے، یعنی خفیہ طریقے سے بات سمجھا دینا، جو دوسرا نہ سمجھے۔ یہاں مراد الہام ہے، یعنی دل میں ڈال دینا۔ شہد کی مکھی اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ ہے، اس لیے عرب زبان میں اس کا نام ہی ” النَّحْلِ “ رکھا گیا، جو ” نَحَلَ یَنْحَلُ “ (ف) کا مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، اس کا معنی عطیہ ہے، جیسا کہ فرمایا : (ۭوَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةٍ ۭ ) [ النساء : ٤ ] ” اور عورتوں کو ان کے مہر بطور عطیہ (خوش دلی سے) دو ۔ “ اللہ تعالیٰ نے انسان بلکہ ہر مخلوق کی طبیعت اور فطرت میں اس کے فائدے اور نقصان کی پہچان رکھ دی ہے ۔ یہی وہ فطری رہنمائی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة شمس میں فرمایا : (وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا ۝۽فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا) [ الشمس : ٧، ٨ ] ” اور نفس کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ٹھیک بنایا ! پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری (کی پہچان) اس کے دل میں ڈال دی۔ “ البتہ انسان اور دوسری مخلوق کا فرق یہ ہے کہ دوسرے سب فطری ہدایت کے پابند رہتے ہیں، مثلاً جانوروں کو دیکھ لیں، جب ان کا پیٹ بھر جائے تو مجال نہیں کہ ایک لقمہ بھی کھائیں۔ گدھا جسے سب سے کند ذہن سمجھا جاتا ہے، اللہ کی فطری ہدایت کے تحت بچے کو بھی سوار کرلیتا ہے اور پانی کا نالہ آنے پر ٹھہر کر اندازہ کرتا ہے، اگر پار کرسکتا ہو تو چھلانگ لگائے گا ورنہ نہیں۔ یہ انسان ہی ہے جو فطرت کی ہدایت کو جب چاہتا ہے عمل میں لاتا ہے، نہیں چاہتا تو عمل میں نہیں لاتا، کئی دفعہ اتنا کھا جاتا ہے کہ بدہضمی یا ہیضے کا شکار ہوجاتا ہے۔ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا ۔۔ : ” يَعْرِشُوْنَ “ چھپر بنانے سے مراد گھروں کے باہر یا کھیتوں میں بیٹھنے کے لیے سائے والے چھپر بھی ہیں اور بانسوں اور سرکنڈوں وغیرہ کے وہ کھلے چھپر بھی جو انگوروں کی بیلیں چڑھانے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ” مِنْ “ تینوں جگہ تبعیض کے لیے ہے، یعنی ہر پہاڑ، درخت اور چھپر گھر بنانے کے قابل نہیں، ان میں سے مناسب جگہوں کا انتخاب کرو۔ اس کے بعد کھانے پر کوئی پابندی نہیں، ہر پھل میں سے کھاؤ، یعنی

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

* Some ` Ulama have also taken it to mean vinegar, or non-intoxicating wine (nabidh) [ Jassas & Qurlubi ] but it is not necessary to report details about this element of difference. Commentary The first word: أَوْحَىٰ (awha) in the first sentence of verse 68 has not been used here in its technical sense of Way or Revelation. Instead, it appears here in its literal sense which happens when the speaker com¬municates to the addressee something particular, secretly, in a way that the other person remains unable to understand that which has been com-municated. Hence, its translation as &revealed& is also in a literal sense. As for the next word: اَلنَّحل (an-nahl), it is well-established that the honey bee is a distinct entity among non-human life forms particularly in terms of its intelligence and management. Therefore, the way it has been addressed by Allah Ta` ala shows a distinct elegance of its own. For the rest of the creation, particularly for life forms in the animal and insect kingdom, it was said: أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ (He gave everything its form, then provided it with guidance - Taha, 20:50), something stated as a universal law for all of them. But, for this tiny creature, it was specially said: أَوْحَىٰ رَ‌بُّكَ (And your Lord revealed) which has been designed to indi¬cate that it has a prominent status among other life forms by virtue of its intelligence, sense and functional insight. The intelligence of the honey bees can be gauged fairly well by their system of governance. The system of this tiny flier&s life operates on the principles of human politics and government. All management rests with one big bee which is the ruling head of all bees. It is her managerial skill and efficient distribution of work which helps run the whole system soundly and safely. Certainly so unique is her system and so established are its rules and regulations that human mind has but to marvel at the phenomena of the bee. This &queen& itself lays six to twelve thousand eggs in a period of three weeks. By its size, physique and demeanor, it is distinguishable from other bees. This &queen&, following the principle of division of labour, appoints its subjects to handle different matters. Some of them serve on guard duty and do not allow some unknown outsider to enter into the hive. Some stand to protect eggs. Some nurture and train baby bees. Some serve as architects and engineers. The compartments of most roofs made by them range between twenty to thirty thousand. Some bees collect and deliver wax to architects which build homes. They procure this wax material from a whitish powder settled upon vegetation. This material is commonly visible on sugarcane. Some of them sit on different kinds of fruits and flowers and suck their juices which turns into honey while in their bellies. This honey is their food and the food of their children. And the same is, for all of us too, the essence of taste and nutrition, and the prescription of medicine and remedy. These different parties discharge their assigned duties very enthu¬siastically and obey the command of their &queen& most obediently. If one of them happens to perch on filth, the guards of the hive stop the unwary worker on the outside gate and the &queen& kills it. One can only wonder about this system and the performance of its managers and workers. (Al-Jawahir) The first instruction given through: أَوْحَىٰ رَ‌بُّكَ (your Lord revealed) appears in the next sentence: أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا (Make homes in the moun¬tains) which mentions the making of homes. At this point, it is worth not¬ing that every animal makes some sort of a sheltered arrangement to live anyway, then, why is it that bees have been particularly commanded to build &homes& and that too with such considered attention? Further-more, the word used here is that of: بُیُوت (buyut) which is generally used for the places where human beings live, their homes. By doing this two hints have been given. The first hint is towards the fact: Since bees have to prepare honey, therefore, they should first make a safe home. The sec-ond hint is toward another fact: The homes they make will not be like the homes of common animals, instead, their design and construction will be extraordinary. As such, their homes are highly distinct, far differ¬ent from those of other animals, virtually mind-boggling. Their homes are hexagonal in shape. Measuring them with a pair of compasses and rulers will hardly spell out a difference. Other than the hexagonal shape, they never choose any shape such as that of a square, pentagon or any others as some of their corners turn out to be functionally useless. Allah Ta’ ala did not simply order the bees to make homes, He also told them as to where they should be located, that is, it should be at some altitude because such places help provide fresh, clean and al¬most-filtered air flow for the production of honey. Thus, honey stays pro¬tected from polluted air as well as from incidences of breakage or dam-age to the hives. So, it was said: مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ‌ وَمِمَّا يَعْرِ‌شُونَ. (Make homes in the mountains, in the trees and in the structures they raise) so that honey could be prepared in a hygienically safe way. This was the first instruction.

خلاصہ تفسیر : اور (یہ بات بھی غور کے قابل ہے کہ) آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے جی میں یہ بات ڈالی کہ تو پہاڑوں میں گھر (یعنی چھتہ) بنا لے اور درختوں میں (بھی) اور لوگ جو عمارتیں بناتے ہیں ان میں (بھی چھتہ لگا لے چناچہ ان سب موقعوں پر وہ چھتہ لگاتی ہے) پھر ہر قسم کے (مختلف) پھلوں سے (جو تجھ کو مرغوب ہوں) چوستی پھر پھر (چوس کر چھتہ کی طرف واپس آنے کے لئے) اپنے رب کے راستوں میں چل جو (تیرے لئے باعتبار چلنے کے اور یاد رہنے کے) آسان ہیں (چنانچہ بڑی بڑی دور سے بےراستہ بھولے ہوئے اپنے چھتے کو لوٹ آتی ہے پھر جب چوس کر اپنے چھتہ کی طرف لوٹتی ہے تو) اس کے پیٹ میں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (یعنی شہد) جس کی رنگتیں مختلف ہوتی ہیں اس میں لوگوں (کی بہت سی بیماریوں) کے لئے شفاء ہے اس میں (بھی) ان لوگوں کے لئے (توحید کی اور منعم ہونے کی) بڑی دلیل ہے جو سوچتے ہیں ) معارف و مسائل : اَوْحٰى۔ وحی یہاں اپنے اصطلاحی مفہوم میں نہیں ہے بلکہ لغوی معنی میں ہے وہ یہ کہ متکلم مخاطب کو کوئی خاص بات مخفی طور پر اس طرح سمجھا دے کہ دوسرا شخص اس بات کو نہ سمجھ سکے۔ النَّحْلِ ، شہد کی مکھی اپنی عقل و فراست اور حسن تدبیر کے لحاظ سے تمام حیوانات میں ممتاز جانور ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو خطاب بھی امتیازی شان کا کیا ہے باقی حیوانات کے بارے میں تو قانون کلی کے طریقہ پراَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى فرمایا لیکن اس ننھی سی مخلوق کے بارے میں خاص کرکے اَوْحٰى رَبُّكَ فرمایا جس سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا کہ یہ دوسرے حیوانات سے بہ نسبت عقل و شعور اور سوجھ بوجھ میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ شہد کی مکھیوں کی فہم و فراست کا اندازہ ان کے نظام حکومت سے بخوبی ہوتا ہے اس ضعیف جانور کا نظام زندگی انسانی سیاست وحکمرانی کے اصول پر چلتا ہے تمام نظم ونسق ایک بڑی مکھی کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو تمام مکھیوں کی حکمرانی ہوتی ہے اس کی تنظیم اور تقسیم کار کی وجہ سے پورا نظام صحیح سالم چلتا رہتا ہے اس کے عجیب و غریب نظام اور مستحکم قوانین و ضوابط کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے خود یہ ملکہ تین ہفتوں کے عرصہ میں چھ ہزار سے بارہ ہزار تک انڈے دیتی ہے یہ اپنی قد وقامت اور وضع وقطع کے لحاظ سے دوسری مکھیوں سے ممتاز ہوتی ہے یہ بلکہ تقسیم کار کے اصول پر اپنی رعایا کو مختلف امور پر مامور کرتی ہے ان میں سے بعض دربانی کے فرائض انجام دیتی ہیں اور کسی نامعلوم اور خارجی فرد کو اندر داخل نہیں ہونے دیتیں بعض انڈوں کی حفاظت کرتی ہیں بعض نابالغ بچوں کی تربیت کرتی ہیں بعض معماری اور انجنیرنگ کے فرائض ادا کرتی ہیں ان کے تیار کردہ اکثر چھتوں کے خانے بیس ہزار سے تیس ہزار تک ہوتے ہیں بعض موم جمع کرکے معماروں کے پاس پہنچاتی رہتی ہیں جن سے وہ اپنے مکانات تعمیر کرتے ہیں یہ موم نباتات پر جمے ہوئے سفید قسم کے سفوف سے حاصل کرتی ہیں گنے پر یہ مادہ بکثرت نظر آتا ہے ان میں سے بعض مختلف قسم کے پھولوں اور پھلوں پر بیٹھ کر اس کو چوستی ہیں جو ان کے پیٹ میں شہد میں تبدیل ہوجاتا ہے یہ شہد ان کی اور ان کے بچوں کی غذا ہے اور یہی ہم سب کے لئے بھی لذت وغذا کا جوہر اور دوا و شفاء کا نسخہ ہے یہ مختلف پارٹیاں نہایت سرگرمی سے اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتی ہیں اور اپنی ملکہ کے حکم کو دل وجان سے قبول کرتی ہیں ان میں سے اگر کوئی گندگی پر بیٹھ جائے تو چھتے کے دربان اسے باہر روک لیتے ہیں اور ملکہ اس کو قتل کردیتی ہے ان کے اس حیرت انگیز نظام اور حسن کارکردگی کو دیکھ کر انسان حیرت میں پڑجاتا ہے (از الجواہر) بُيُوْتًا سے جو ہدایت دی گئی ہے ان میں سے یہ پہلی ہدایت ہے جس میں گھر بنانے کا ذکر ہے یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ہر جانور اپنے رہنے سہنے کے لئے گھر تو بناتا ہی ہے پھر اس اہتمام سے گھروں کی تعمیر کا حکم مکھیوں کو دینے میں کیا خصوصیت ہے پھر یہاں لفظ بھی بیوت کا استعمال فرمایا جو عموما انسانی رہائش گاہوں کے لئے بولا جاتا ہے اس سے اشارہ ایک تو اس طرف کردیا کہ مکھیوں کو چونکہ شہد تیار کرنا ہے اس کے لئے پہلے سے ایک محفوظ گھر بنالیں دوسرا اس طرف اشارہ کردیا کہ جو گھر یہ بنائیں گی وہ عام جانوروں کے گھروں کی طرح نہیں ہوں گے بلکہ ان کی ساخت و بناوٹ غیر معمولی قسم کی ہوگی چناچہ ان کے گھر عام جانوروں کے گھروں سے ممتاز ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر انسانی عقل بھی ششدر رہ جاتی ہے ان کے گھر مسدس شکل کے ہوتے ہیں پرکار اور مسطر سے بھی اگر ان کی پیمائش کی جائے تو بال برابر بھی فرق نہیں رہتا مسدس شکل کے علاوہ وہ دوسری کسی شکل مثلا مربع اور مخمس وغیرہ کو اس لئے اختیار نہیں کرتیں کہ ان کے بعض کونے بیکار رہ جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے مکھیوں کو محض گھر بنانے کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کا محل وقوع بھی بتلا دیا کہ وہ کسی بلندی پر ہونا چاہئے کیونکہ ایسے مقامات پر شہد کو تازہ اور صاف چھنی ہوئی ہوا پہنچتی رہتی ہے وہ گندی ہوا سے بچا رہتا ہے اور توڑ پھوڑ سے بھی محفوظ رہتا ہے چناچہ فرمایا۔ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ یعنی ان گھروں کی تعمیر پہاڑوں درختوں اور بلند عمارتوں پر ہونی چاہئے تاکہ شہد بالکل محفوظ طریقہ سے تیار ہو سکے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ 68؀ۙ وحی وإمّا بإلقاء في الرّوع کما ذکر عليه الصلاة والسلام : «إنّ روح القدس نفث في روعي» «2» ، وإمّا بإلهام نحو : وَأَوْحَيْنا إِلى أُمِّ مُوسی أَنْ أَرْضِعِيهِ [ القصص/ 7] ، وإمّا بتسخیر نحو قوله : وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل/ 68] أو بمنام کما قال عليه الصلاة والسلام : «انقطع الوحي وبقیت المبشّرات رؤيا المؤمن» فالإلهام والتّسخیر ( و ح ی ) الوحی وحی کی تیسری صؤرت القاء فی لروع کی ہے یعنی دل میں کسی بات کا ڈال دیتا جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی ۔ اور کبھی وحی بذریعہ الہام ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى أُمِّ مُوسی أَنْ أَرْضِعِيهِ [ القصص/ 7] ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اسکو دودھ پلاؤ اور کبھی وحی تسخیر ی ہوتی ہے یعنی کسی چیز کو اس کے کام پر مامور کرنا جیسے فرمایا : ۔ وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل/ 68] اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا : ۔ اور کبھی نیند میں خواب کے ذریعے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ وحی تو منقطع ہوچکی ہے مگر بیشرات یعنی رویا مومن باقی رہ گئے ہیں اور وحی کی ان ہر سہ اقسام یعنی الہام تسخیر نحل النَّحْل : الحَيَوانُ المخصوصُ. قال تعالی: وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل/ 68] والنَّحْلَةُ والنِّحْلَةُ : عَطِيَّة علی سبیل التّبرُّع، وهو أخصُّ من الهِبَة، إذ كلُّ هِبَةٍ نِحْلَةٌ ، ولیس کلُّ نِحْلَةٍ هِبَةً ، واشتقاقه فيما أرى «1» أنه من النَّحْل نظرا منه إلى فعله، فكأنَّ نَحَلْتُهُ : أعطیته عطيّةَ النَّحْلِ ، وذلک ما نبّه عليه قوله : وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ الآية [ النحل/ 68] . وبيَّن الحکماء أنّ النّحل يقع علی الأشياء کلّها فلا يضرّها بوجه، وينفع أعظْمَ نفعٍ ، فإنه يعطي ما فيه الشِّفاء کما وصفه اللهُ تعالی، وسُمِّيَ الصَّدَاقُ بها من حيثُ إنه لا يجب في مقابلته أكثرُ من تمتُّع دون عِوَضِ ماليٍّ ، وکذلک عطيَّةُ الرَّجُل ابْنَهُ. يقال : نَحَلَ ابنَه كذا، وأَنْحَلَهُ ، ومنه : نَحَلْتُ المرأةَ ، قال تعالی: وَآتُوا النِّساءَ صَدُقاتِهِنَّ نِحْلَةً [ النساء/ 4] والانْتِحَالُ : ادِّعَاءُ الشیءِ وتناوُلُه، ومنه يقال : فلان يَنْتَحِلُ الشِّعْرَ. ونَحِلَ جِسْمُهُ نُحُولًا : صار في الدّقّة کالنَّحْل، ومنه : النَّوَاحِلُ للسُّيُوف أي : الرِّقَاق الظُّبَات تصوُّراً لنُحُولِهَا، ويصحُّ أن يُجْعَل النِّحْلَة أصلا، فيُسَمَّى النَّحْل بذلک اعتبارا بفعله . والله أعلم . ( ن ح ل ) النحل شہد کی مکھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل/ 68] اور تمہارے پروردگار نے شہد کی کھیوں کو ارشاد فرمایا ۔ النحلۃ والنحلۃ اس عطیہ کو کہتے ہیں جو تبرعا دیا جائے ۔ یہ ہبہ سے خاص ہے کیونکہ ہر ہبہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر نحلۃ کو ہبہ نہیں کہتے میرے خیال میں یہ نحل سے مشتق ہے اور اس میں مکھی کے فعل کے معنی ملحوظ ہیں تو گویا نحلتہ کے معنی نحل کی طرح عطیہ دینے کے ہیں جس پر کہ آیت : ۔ وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ الآية [ النحل/ 68] میں متنبہ کیا ہے حکماء کا بیان ہے کہ نحل جن پودوں سے غذا لیتی ہے انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ الٹا فائدہ پہنچاتی ہے اور شہد جیسی شفا بخفی چیز لوگوں کو حاصل کر کے دیتی ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق بیان فرمایا ہے ۔ اور نحلۃ ونحلۃ صداق یعنی عورتوں کے مہر کو بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے مقابلہ میں سوائے لذت اندوزی کے اور کوئی مالی معاوضہ حاصل نہیں ہوتا اسی سے اولاد کو عطیہ دینے بر نحل ابنہکذا وانحلہ بولتے ہیں ۔ اور اسی سے نحلت المرءۃ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَآتُوا النِّساءَ صَدُقاتِهِنَّ نِحْلَةً [ النساء/ 4] اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دیدیا کرو ۔ اور محل جسمہ کے معنی دبلا ہو کر مکھی کی طرح باریک ہوجانے کے ہیں ۔ اور اسی سے تیز تلواروں کو ان کی دھاروں کے باریک ہونے کی وجہ سے فواحل کہا جاتا ہے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نحلۃ کو اصل قرادوے کر نحل کو اس سے مشتق مانا جائے ۔ کیونکہ مکھی سے جو شہد حاصل ہوتا ہے وہ بھی فائدہ بخش ہونے کے لحاظ سے ایک قسم کی عطا ہی ہوتی ہے ۔ الا نتحال کے معنی کسی چیز کا ادعاء کرنے اور لینے کے ہیں اسی سے فلان ینتحل الشعر کا محاورہ ہے جس کے معنی شعری سر قہ کرنے کے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ عرش العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها [ البقرة/ 259] ، ومنه قيل : عَرَشْتُ الکرمَ وعَرَّشْتُهُ : إذا جعلت له كهيئة سقف، وقد يقال لذلک المُعَرَّشُ. قال تعالی: مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام/ 141] ، وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل/ 68] ، وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف/ 137] . قال أبو عبیدة «2» : يبنون، واعْتَرَشَ العنبَ : رَكَّبَ عَرْشَهُ ، ( ع رش ) العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ اسی سے عرشت ( ن ) الکرم وعرشتہ کا محاورہ ہے جس کے معنی انگور کی بیلوں کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹیاں بنانا کے ہیں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیل کو معرش بھی کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام/ 141] ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے ہوئے ۔ وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل/ 68] اور درختوں میں اور ان سے جنہیں ٹٹیوں پر چڑھاتے ہیں ۔ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف/ 137] جو ٹٹیوں پر چڑھاتے تھے ۔ ابوعبیدہ نے کہا ہے کہ یعرشون کے معنی یبنون ہیں یعنی جو وہ عمارتیں بناتے تھے اعترش العنب انگور کی بیل کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹی بنائی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٨) اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تو پہاڑوں میں اپنا چھتا بنالے اور درختوں میں بھی اور عمارتوں میں بھی چھتا بنا لے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨ (وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ ) یعنی شہد کی مکھی کی فطرت میں یہ چیز ودیعت کردی گئی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

56. The lexical meaning of the Arabic word wahi is secret inspiration which is felt only by the one who inspires and the other who is inspired with. The Quran has used this word both for the instinctive inspiration by Allah to His creation in general and for the revelation towards His Prophets in particular. Allah sends His wahi to the heavens with His command and they begin functioning in accordance with it (Surah Al-Momin, Ayat 12). He will send this to the earth with His command and it will relate the story of all that had happened on and in it. He sends wahi to the bee and inspires it with faculties to perform the all of its wonderful work instinctively (Ayat 68). The same is true of the bird that learns to fly, the fish that learns to swim, the newly born child that learns to suck milk, etc. Then, it is also wahi with which Allah inspires a human being with a spontaneous idea (Surah Al-Qasas, Ayat 7). The same is the case with all the great discoveries, inventions, works of literature and art, etc. which would not have been possible without the benefit of wahi. As a matter of fact, every human being at one time or the other feels its mental or spiritual influence in the form of an idea or thought or plan or dream, which is confirmed by a subsequent experience to be the right guidance from the unseen wahi. Then there is the wahi (revelation) which is the privilege of the Prophets. This form of wahi has its own special features and is quite distinct from all other forms. The Prophet, who is inspired with it, is fully conscious and has his firm conviction that it is being sent down from Allah. Such a revelation contains doctrines of creed, commandments, laws, regulations and instructions for the guidance of mankind.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :56 وحی کے لغوی معنی ہیں خفیہ اور لطیف اشارے کے جسے اشارہ کرنے والے اور اشارہ پانے والے کے سوا کوئی اور محسوس نہ کر سکے ۔ اسی مناسبت سے یہ لفظ اِلقاء ( دل میں بات ڈال دینے ) اور الہام ( مخفی تعلیم و تلقین ) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی اپنی مخلوق کو جو تعلیم دیتا ہے وہ چونکہ کسی مکتب و درسگاہ میں نہیں دی جاتی بلکہ ایسے لطیف طریقوں سے دی جاتی ہے کہ بظاہر کوئی تعلیم دیتا اور کوئی تعلیم پاتا نظر نہیں آتا ، اس لیے اس کو قرآن میں وحی ، الہام اور القاء کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اب یہ تینوں الفاظ الگ الگ اصطلاحوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔ لفظ وحی انبیاء کے لیے مخصوص ہو گیا ہے ۔ الہام کو اولیاء اور بندگان خاص کے لیے خاص کر دیا گیا ہے ۔ اور القاء نسبۃ عام ہے ۔ لیکن قرآن میں یہ اصطلاحی فرق نہیں پایا جاتا ۔ یہاں آسمانوں پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق ان کا سارا نظام چلتا ہے ( وَاَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآءٍ اَمْرَھَا ۔ حٰمِ السجدہ ) ۔ زمین پر بھی وحی ہوتی ہے جس کا اشارہ پاتے ہی وہ اپنی سرگزشت سنانے لگتی ہے ۔ ( یَوْ مَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَاo بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَاo ۔ الزلزال ) ۔ ملائکہ پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق وہ کام کرتے ہیں ۔ ( اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ ۔ الانفال ) شہد کی مکھی کو اس کا پورا کام وحی ( فطری تعلیم ) کے ذریعہ سے سکھایا جاتا ہے جیسا کہ آیت زیر بحث میں آپ دیکھ رہے ہیں ۔ اور یہ وحی صرف شہد کی مکھی تک ہی محدود نہیں ہے ۔ مچھلی کو تیرنا ، پرندے کو اڑنا اور نوزائیدہ بچے کو دودھ پینا بھی وحی خداوندی ہی سکھایا کرتی ہے ۔ پھر ایک انسان کو غور و فکر اور تحقیق و تجسس کے بغیر جو صحیح تدبیر ، یا صائب الرائے ، یا فکر و عمل کی صحیح راہ سجھائی جاتی ہے وہ بھی وحی ہے ( وَاَوْحِیْنَآ اِلیٰ اُمِّ مُوْسیٰٓ اَنْ اَرْ ضِعِیْہِ ۔ القصص ) ۔ اور اس وحی سے کوئی انسان بھی محروم نہیں ہے ۔ دنیا میں جتنے اکتشافات ہوئے ہیں ، جتنی مفید ایجادیں ہوئی ہیں ، بڑے بڑے مدبرین ، فاتحین ، مفکرین اور مصنفین نے جو معرکے کے کام کیے ہیں ، ان سب میں اس وحی کی کار فرمائی نظر آتی ہے ۔ بلکہ عام انسانوں کو آئے دن اس طرح کے تجربات ہوتے رہتے ہیں کہ کبھی بیٹھے بیٹھے دل میں ایک بات آئی ، یا کوئی تدبیر سوجھ گئی ، یا خواب میں کچھ دیکھ لیا ، اور بعد میں تجربے سے پتہ چلا کہ وہ ایک صحیح رہنمائی تھی جو غیب سے انہیں حاصل ہوئی تھی ۔ ان بہت سی اقسام میں سے ایک خاص قسم کی وحی وہ ہے جس سے انبیاء علیہم السلام نوازے جاتے ہیں اور یہ وحی اپنی خصوصیات میں دوسری اقسام سے بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ اس میں وحی کیے جانے والے کو پورا شعور ہوتا ہے کہ یہ وحی خدا کی طرف سے آرہی ہے ۔ اسے اس کے من جانب اللہ ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے ۔ وہ عقائد اور احکام اور قوانین اور ہدایات پر مشتمل ہوتی ہے ۔ اور اسے نازل کرنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ نبی اس کے ذریعہ سے نوع انسانی کی رہنمائی کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

28: چھتریاں اٹھانے سے مراد وہ ٹٹیاں ہیں جن پر مختلف قسم کی بیلیں چڑھائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر شہد کی مکھی کے گھر بنانے کا ذکر اس لیے فرمایا ہے کہ وہ جو چھتے بناتی ہے وہ عجیب و غریب صنعت کا شاہکار ہوتے ہیں اور عام طور پر وہ یہ چھتے اونچی جگہوں پر بناتی ہے تاکہ اس میں بننے والا شہد زمین کی کثافتوں سے بھی محفوظ رہے۔ اور اسے تازہ ہوا بھی میسر آئے۔ توجہ اس طرف دلائی جا رہی ہے کہ یہ سب کچھ اسے اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے معارف القراان ج : 5 ص 362 تا 367

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٨۔ ٦٩۔ اللہ پاک نے اس آیت میں اپنی ایک اور عجائب قدرت کا حال بیان فرمایا کہ یہ شہد کی مکھیاں جو کچھ بھی جان رکھتی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈال دی ہے کہ پہاڑوں اور درختوں میں جہاں جہاں مناسب سمجھیں اپنے قیام کے لئے گھر بنا لیں یہ مکھی اپنے گھر بنانے میں نہایت ہی سمجھ رکھتی ہے اور اس مضبوطی اور حکمت کے ساتھ اپنا گھر بناتی ہے کہ کیا مجال کہ ذرا بھی سوراخ رہ جائے۔ پھر اللہ پاک نے اس کو طرح طرح کے میوے اور پھلوں سے جنگل اور باغوں میں چل پھر کر کھانے پینے کا حکم دیا اور اسے یہ بھی سمجھ دی کہ اپنے گھر کا رستہ نہ بھولے دور دراز مسافت طے کرنے پر بھی سیدھے اپنے گھر ہی کی طرف واپس آئے پھر یہ بیان فرمایا کہ اس کے پیٹ میں سے رنگ برنگ کا شہد نکلتا ہے جس کا رنگ لال بھی ہوتا ہے۔ زرد بھی ہوتا ہے سبحان اللہ کیا اس کی حکمت ہے کہ ایسی بےحقیقت مکھی سے اتنا بڑا کام لیا شہد کی مکھیاں جب پھلوں اور پھولوں میوؤں کو چوس چوس کر آتی ہیں تو اپنے گھر میں اس چوسے ہوئے رس کو خزانہ کی طرح جمع کرتی جاتی ہیں اور اسی کا نام شہد ہے اور اس کے پروں سے موم بنتا جاتا ہے۔ پھر اللہ پاک نے یہ بیان کیا کہ یہ شہد جو ان مکھیوں سے حاصل ہوتا ہے اس میں انسان کے ہر مرض کی شفا ہے سارے امراض اس کے استعمال سے دفع ہوتے ہیں۔ صحیحین میں ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر کہا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے بھائی کو دست آرہے ہیں آپ نے فرمایا اس کو شہد پلا اس نے جا کر شہد پلایا اور پھر آکر بیان کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے شہد پلایا مگر دست اور زیادہ آنے لگے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے جا جا کر شہد پلا وہ گیا اور جا کر شہد پلایا اس کا بھائی اچھا ہوگیا دست آنے بند ہوگئے ١ ؎۔ شہد کے متعلق ہر مرض میں مفید ہونے کی اکثر حدیثیں ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی ایک روایت یوں ہے کہ شفا تین چیزوں میں ہے پچھنے لگانا اور شہد کا پینا اور جس جگہ درد ہو اس کا داغ دینا ٣ ؎، دوسری حدیث بخاری میں جریر (رض) سے بعینہ یوں ہی ہے مگر اس میں اتنا اور زیادہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں داغ دینے کو دوست نہیں رکھتا ٣ ؎۔ ابن ماجہ میں بسند جید عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ تم دو شفاؤں کو لازم پکڑو وہ ہر مرض کے لئے کامل شفا ہیں شہد اور قرآن ٤ ؎۔ حاصل کلام یہ ہے کہ طب کی تمام معجونوں میں شہد پڑتا ہے جسمانی مرض کو اسی طرح رفع کرتا ہے جس طرح قرآن کی نصیحت دل کے امراض شرک کفر اور نفاق کو رفع کرتی ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٨٤٨ ج ٢ باب الدراء بالعمل و تفسیر ابن کثیر ص ٥۔ ٥ ج ٢۔ ٢ ؎ صحیح بخاری ص ٨٤٨ ج ٢ باب الشفاء فی ثلاث۔ ٣ ؎ صحیح بخاری ص ٨٤٨ ج ٢ باب الدواء بالعسل لیکن بروایت جابر (رض) ۔ ٤ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٧٦ ج ٢ الدرالمنثور ص ١٢٣ ج ٤۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:28) النحل۔ اسم جنس ۔ شہد کی مکھی۔ مکھیاں۔ اتخذی۔ امر واحد مؤنث حاضر۔ اتخاد (افتعال) سے اخذ مادہ۔ یعرشون۔ مضارع جمع مذکر غائب باب ضرب ونصر۔ انگور کی بیلوں کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹیاں بناتے ہیں یا ایسی ٹیٹوں پر وہ جو بیلیں چڑھاتے ہیں۔ العرش۔ اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع عروش ہے۔ نیز ملاحظہ ہو 7:137 ۔ کلی۔ امر واحد مؤنث حاضر ۔ تو کھا۔ اکل یا کل (باب نصر) اکل مصدر۔ اسلکی۔ امر واحد مؤنث حاضر۔ تو چل سلوک مصدر۔ (باب نصر) ۔ سبل۔ سبیل کی جمع۔ راستے ۔ راہیں۔ ذللا۔ ذلول کی جمع ہے۔ بمعنی نرم۔ مطیع۔ مسخر ۔ آسان۔ ذل سے یہ فاسلکی کی ضمیرکا حال ہے۔ فاسلکی سبل ربک ذللا ط۔ پھر بڑی تابعداری وفرماں برداری سے بےچون وچرا اپنے رب کے بتائے راستوں (شہد کی تیاری میں ) چلتی رہ۔ یا یہ سبل کا حال ہے۔ بمعنی راستے جو تیرے لئے آسان کر دئیے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی اس کی فطرت میں یہ چیز ڈالی صوفیہ کرام نے وحی کو حقیقی معنی پر مجمول کیا ہے اور وہ حیوانات کی جمیع صاف میں انبیاء اور رسل کے قائل ہیں اور فلاسفہ جملہ حیوانوں میں نفس ناطقہ مانتے ہیں مگر یہ شرعاً ثابت نہیں۔ (روح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 68 تا 70 اوحی وحی کی ، الہام کیا۔ النخل شہد کی مکھی۔ اتخذی تو بنالے۔ بیوت گھر۔ یعرشون وہ لوگ اونچا اٹھاتے ہیں۔ کلی (مونث) تو کھالے اسلکی تو چل۔ سبل (سبیل) راستے۔ ذلیل آسان کئے ہوئے، ہموار۔ شفاء شفا ہے، صحت ہے۔ یتوفی وہ موت دیتا ہے۔ یرد لوٹایا جاتا ہے۔ ارذل العمر نکمی عمر، بےفائدہ زندگی ۔ لکی لایعلم تاکہ وہ نہ جانے۔ تشریح آیت نمبر 68 تا 70 گزشتہ آیات میں حق تعالیٰ شانہ نے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ انسان اگر اس کائنات کی ایک ایک چیز پر غور کرے گا تو اس کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کائنات خود بخود نہیں چل رہی ہے بلکہ اس کو چلانے والا اور اس کا انتظام کرنے والا ایک اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ہر چیز میں تاثیر پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو چیز جیسی نظر آتی ہے اس کی تاثیر اللہ کے ہاتھ میں ہے مثلاً ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سمندر جس کا پانی انتہائی کڑوا ہے اور اس کا استعمال بظاہر ناممکن ہے اس میں پلنے والی مچھلیاں بھی اپنے گوشت میں کڑواہٹ لئے ہوئے ہوں لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ سمندر کی مچھلی کے گوشت میں پانی کی کڑواہٹ کا اثر تک نہیں ہوتا اس طرح خون اور گوبر (گندگی) کے درمیان سے اس نے دودھ کو پیدا کیا۔ لیکن دودھ میں خون کی رنگت یا گوبر کی بدبو نہیں ہوتی۔ آدمی دن رات دیکھتا ہے کہ گندگی سے بنا ہوا کھاد درختوں پودوں اور کھیتوں میں ڈالا جاتا ہے لیکن اس کھاد کا اثر اس کے اناج اور پھلوں پر نہیں پڑتا۔ فرمایا سی طرح شہد کی ایک مکھی جو بڑی زہریلی ہوتی ہے ۔ اگر کسی کے کاٹ لے تو آدمی تلملا کر رہ جاتا ہے لیکن اللہ نے اس شہد کی مکھی کو ایک خاص عقل، سمجھ اور حسن انتظام کا مادہ عطا فرمایا ہے جس سے وہ فطرت کی اس رہنمائی میں جو اللہ نے اسے عطا فرمائی ہے پھولوں، پھولوں اور پودوں کی مٹھاس کو چوس کر اپنے معدے میں ڈالتی ہے تو وہ رنگ برنگ کا ایک ایسا مفید مرکب بن جاتا ہے جس میں اللہ نے شفاء اور صحت رکھ دی ہے۔ ان آیات میں دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ جس طرح ہر چیز کی تاثیر اللہ کی طرف سے ہے اسی طرح زندگی اور موت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس اللہ نے انسان کو پیدا کیا، وہی موت دیتا ہے یا کسی کسی کو اس نکمی عمر تک پہنچا دیتا ہے جہاں سب کچھ جاننے کے باوجود سب کچھ بھول جاتا ہے اور اس میں اور ایک بچے میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ یہ پوری کائنات کیا ہے ؟ اس کا نظام کیا ہے ؟ اس کو وہی جانتا ہے اور ساری قدرتیں اور طاقتیں اللہ ہی کی ہیں۔ ان آیات کی چند باتوں کی وضاحت بھی ملاحظہ کر لیجیے : اوحی ۔ اس نے وحی کی … قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے وحی کا لفظ بہت سی جگہوں پر ارشاد فرمایا ہے کہ اس نے وحی کی۔ قرآن کریم اور کتب آسمانی بھی وحی کے ذریعہ آئی ہیں۔ لیکن اس وحی میں اور جو اللہ نے کائنات کی مختلف چیزوں کی طرف وحی کی ہے اس میں کیا فرق ہے ؟ اگر غور کیا جائے تو یہ فرق بہت واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی طرف بھی وحی کی ہے اور فرشتوں کی طرف بھی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کی طرف، حضرت موسیٰ کی والدہ کی طرف حضرت مریم کی طرف بھی وحی کی ہے۔ اس لئے وحی کیا ہے ؟ اس کو سمجھ لیا جائے، اصل میں تو خفیہ اور خاموش اشارے کو وحی کہا جاتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ جہاں بھی وحی کا لفظ آئے اس سے وہی مراد ہو جو فرشتے کے ذریعے انبیاء کو عطا کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ اپنی قدت کا اظہار فرما رہے ہیں اس لئے اس وحی کا منشا اس فطری رہنمائی کا بھی ہو سکتا ہے جو اللہ نے ہر مخلوق کی طرف میں رکھ دی ہے۔ مثلاً انسان کا اور جانور کا بچہ اس دنیا میں قدم رکھتے ہی اپنے غذا حاصل کرنے کا طریقہ جانتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ کس طرح تھنوں کو منہ میں لے کر دبائے گا تو اس کی غذا دودھ اس کو حاصل ہوگی۔ یہ اس کی فطرت میں شامل ہے تو اس کو بھی وحی کہہ دیا گیا ہے لیکن درحقیقت وحی حقیقی وہی ہے جس میں اللہ کے حکم سے ایک فرشتہ جو اللہ کی طرف سے اس کی وحی لانے پر مقرر ہے جس کلام کو لے کر آتا ہے اس کو وحی حقیقی کہتے ہیں اس کے علاوہ فطرت کا جو بھی خاموش اشارہ ہے اس کو ہم مجاز وحی کہہ سکتے ہیں یا اس کو الہام کا نام دے سکتے ہیں۔ النحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ شہد کی یہ چھوٹی سی مکھی جس کو اللہ نے ایسی انتظامی صلاحیت دی ہے جس کی تفصیلات سے آدمی حیران ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ شہد کی مکھیوں کا ایک ایسا اعلیٰ ترین نظام ہے جس پر جتنا بھی غور و فکر کیا گیا انسان حیران رہ گیا۔ شہد کی مکھیوں میں باقاعدہ پولیس، فوج، نگران اور حکومت کرنے والی ملکہ متعین ہے۔ اس پر بہت سے حضرات نے اور مفسرین نے شہد کی مکھیوں پر جتنی بھی تحقیق کی ہے وہ بڑی حیرت انگیز ہے اور اس سے اللہ کی قدرت اور شان نمایاں ہے ۔ وہی ایک اللہ ہے جس نے اپنی مخلوق کو بنایا ہے تو ان کی ہدایت کے بھی پورے سامان فراہم کردیئے ہیں۔ یہ شہد کی مکھی اللہ کے حکم اور فطری رہنمائی میں درختوں، شاخوں اور اونچے گھروں میں اپنا چھتا تیار کرتی ہے اور ہر طرح کے پھلوں اور پھولوں سے رس نچوڑ کر ایسا شہد بناتی ہے کہ انسانی عقل حیران ہو کر رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زہریلے جانور میں جو شہید بنایا ہے وہ انسانوں کی بہت سی بیماریوں میں شفا دیتا ہے اور اس کے زہریلے پن کا کوئی اثر شہد میں نہیں آتا بلکہ بہت سے زہروں کا علاج شہد میں رکھ دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ اگر ان کے پھوڑا بھی نکل آتا تو آپ اس پر شہد کا لیپ لگا لیا کرتے تھے۔ بعض حضرات صحابہ نے ان سے اس کی وجہ معلوم کی تو آپ نے جواب میں کہا کہ تم نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا ” فیہ شفاء للناس “ یعنی اس میں لوگوں کے لئے شفاء رکھی گئی ہے (قرطبی) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ کا یہ بھی اظہار فرمایا کہ زندگی، موت، مختصر یا طویل زندگی سب اس کے اختیار میں ہے یہاں تک کہ وہ بعض لوگوں کو اس نکمی عمر تک پہنچا دیتا ہے جہاں پہنچ کر وہ سب کچھ بھول جاتا ہے ایک بچے میں اور اس میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ اسی لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ” ار ذل العمر “ یعنی نکمی عمر سے پناہ مانگی ہے۔ اس موقع پر ایک بات میں عرض کروں گا کہ بعض لوگ جو لمبی عمر کی دعائیں ماگنتے ہیں ان کو اس طرح دعا مانگنی چاہئے کہ اے اللہ اپنے فضل و کرم سے صحت و عافیت اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ لمبی عمر عطا فرماتا کہ میں زیادہ سے زیادہ آپ کے دین کو دنیا میں پھیلا سکوں۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ طویل عمری عطا فرمائے گا تو انشاء اللہ وہ عمر پانے والا نکمی عمر تک نہ پہنچے گا۔ اس بات کو حضرت عکرمہ نے فرمایا ہے کہ قرآن پڑھنے والے کی یہ حالت نہیں ہوگی۔ بعض حضرات طویل عمری کی دعا کرتے ہیں اور کچھ بزرگ بھی طویل عمری کی دعا دیتے ہیں لیکن نامکمل دعا کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اللہ قبول کرلیتا ہے لیکن اس طرح سے کہ وہ دوسروں کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتا ہے۔ فرض کیجیے کہ زندگی کے آخری حصے میں اللہ نے اس کی زندگی بڑھا دی مگر اس کو فالج ہوگیا۔ کوئی حادثہ پیش آگیا اور وہ نابینا ہوگیا یا اعضا سے محروم ہوگیا تو وہ زمین پر رہتا ہے مگر دوسروں کا محتاج۔ اس لئے ہمیشہ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ ایمان کی سلامتی کے ساتھ جتنی بھی عمر عطا فرمائے اس میں ہم آپ کے دین کی سربلندی کے لئے کام کرتے رہیں اور کسی کے محتاج نہ ہوں۔ سوائے اللہ کی محتاجی کے۔ انشاء اللہ ایسی دعا مکمل دعا ہوگی اور اللہ عافیت کے ساتھ قبول و منظور فرمائے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مکھی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی رزاقی اور خلاقی کے دلائل۔ مکھیاں، کیڑے، مکوڑے دیوانہ وار منڈلاتے پھولوں کا طواف کرنے کے ساتھ ساتھ ” Polination “ کا وہ عمل کرتے ہیں جو سب انسان مل کر بھی نہیں کرسکتے۔ ارشاد ربانی ہے : ” تیرے رب نے شہد کی مکھی کو پیغام بھیجا کہ پہاڑوں، درختوں اور بیلوں میں اپنا گھر بنا۔ تمام پھلوں سے رس حاصل کر اور اپنے رب کے دیے ہوئے دستور عمل کو باقاعدگی سے نبھا اور دیکھو تو سہی اس (شہد کی) مکھی کے پیٹ سے رطوبت نکلتی ہے۔ جس کے رنگ طرح طرح کے ہوتے ہیں اور جس میں امراض کی شفا ہے۔ مکھی کے ان اعمال میں ان لوگوں کے لیے اسباق موجود ہیں جو صحیفۂ فطرت میں غور کرتے ہیں۔ “ (النحل : ٦٨۔ ٦٩) مکھیوں کی بارہ ہزار لگ بھگ اقسام ہیں۔ جو ماہرین کے مطابق ” Apridea “ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ شہد کی مکھیاں اپنے رب کی وحی (پیغام) کے مطابق چلتی ہیں۔ ان کو اپنے رب کے بتائے ہوئے دستور عمل کا علم ہے شہد کی مکھیاں گندگی اور نجاست کے نزدیک تک نہیں جاتیں۔ یہ پھولوں اور پھلوں سے رس ” Nectar “ حاصل کرتی ہیں جسے طرح طرح کے عمل کے بعد خالص شہد میں تبدیل کرتی ہیں۔ جرمن سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ ان مکھیوں سے وہی مادہ نکلتا ہے جسے ” Royal Jelly “ کہتے ہیں۔ شہد کی مکھیاں تین طرح کی ہوتی ہیں جن میں ملکہ، کارکن، شہد کی تلاش میں پھولوں، پھلوں تک جانے والیاں اور مادہ مکھیاں یہ چھتوں میں محصور ہوتی ہیں۔ ایک چھتے میں بیس ہزار سے بھی زیادہ شہد کی مکھیاں ہوسکتی ہیں۔ جبکہ ملکہ صرف ایک ہوتی ہے۔ ملکہ ہر روز تقریباً ایک ہزار انڈے دیتی ہے۔ عام مکھی کی عمر تقریباً ٤٥ دن کے لگ بھگ ہوتی ہے جبکہ ملائکہ کی عمر ایک سال کے قریب ہوتی ہے۔ شہد کی مکھیاں ملکہ کے ساتھ کنیزوں کی طرح رہتی ہیں۔ آیا مکھیاں ملکہ کے دیے ہوئے انڈوں والے خانوں کو ” Royal Jelly “ اور زرِ گل ” Pollen Grains “ سے بھر کر موم سے بند کردیتی ہیں اور پھر اس بند کمرے میں انڈے سے بالغ مکھی تک کے مراحل طے ہوتے ہیں۔ ملکہ مکھی کی غذا عام مکھیوں کے مقابلے میں بہت اچھی ہوتی ہے۔ اسے ” Royal Jelly “ ہمیشہ ملتی رہتی ہے۔ شہد کی مکھیاں عام طور پر قطرہ قطرہ کرکے سال میں پانچ سو کلو گرام رس ” Nectar “ حاصل کرتی ہے۔ چھتے میں شش کونے ” Hexagonal “ خانے اس ترتیب اور تناسب سے بنتے ہیں کہ عقل مکھیوں کی ” designing “ اور انجینئرنگ پر دنگ رہ جاتی ہے۔ مکھیاں موم بناتی ہیں جس سے چھتے کی تعمیر ہوتی ہے۔ کچھ مکھیاں چھتے کی صفائی اور ” Keeping House “ پر مامورہوتی ہیں۔ کارکن مکھیاں محنت مزدوری اور پھلوں، پھولوں سے رس اور زرِ گل لاتی ہیں جبکہ گھریلو مکھیاں خاتون خانہ کی طرح امور خانہ داری سنبھالتی ہیں۔ مکھیاں 120 سے لے کر 50 ڈگری فارن ہیٹ درجہ حرارت تک بآسانی اپنا کام انجام دیتی ہیں۔ چھتے میں درجہ حرارت 92 ڈگری فارن ہیٹ تک رکھتی ہیں۔ اگر ہنگامی طور پر موم کی زیادہ ضرورت ہو تو کچھ مکھیاں خود کو اذیّت میں ڈال کر الٹی لٹک جاتی ہیں۔ یوں موم سے تھیلیاں بھر کر نذر آشیاں کردیتی ہیں۔ یہ ایثار و قربانی کی عمدہ مثال ہے۔ ناکارہ اور کاہل مکھیوں کو نہ صرف چھتے سے نکال باہر کرتی ہیں بلکہ جان سے ختم کردیتی ہیں۔ مکھیوں کے چار پر اور دو آنکھیں ہوتی ہیں جو ساڑھے تین ہزار ننھی ننھی آنکھوں کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ آنکھوں کے علاوہ مکھیوں کو دو نہایت عمدہ اینٹینے ملے ہوتے ہیں۔ جو خوشبو کو خوب پہچانتی ہیں۔ مکھی کی پچھلی دونوں ٹانگوں پر باریک باریک بال ہوتے ہیں جو زرِ گل جمع کرنے میں کام آتے ہیں۔ اللہ کی قدرت دیکھیے کہ شہد کی مکھیاں انسانی آنکھ سے بڑھ کر ” Ultra Voilet “ شعاعوں کو بھی اولاد نرینہ کی طرح پہچانتی ہیں سائنسدان مکھیوں کی اڑان، ان کے طریقہ کار، چھتے تک تیز رفتار سے سفر اور اپنی منزلوں کو پہچاننے جیسے امور پر انگشت بدنداں ہیں۔ کارکن مکھی کو ڈنگ کی قوت بھی ملی ہوتی ہے۔ مگر مکھی اپنا ڈنگ مارنے کے تھوڑی دیر بعد خود بھی مرجاتی ہے۔ شہد کی مکھیوں کے پر ملائم اور ریشم کی طرح ہوتے ہیں یہی وجہ ہے یہ خراب موسم اور بادوباران میں بھی اپنی ” Flight “ جاری رکھ سکتی ہیں۔ پروں کے نیچے نالیوں میں ہوا موجود ہوتی ہے۔ یوں مکھیوں کی ” Aerodynamics “ اور اڑنے کی کارکردگی بہت اچھی رہتی ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 50, 000, 000 کلو گرام شہد پیدا ہوتا ہے۔ شہد کی مختلف اقسام ہیں۔ اسی طرح ان کے خواص بھی بےحد ہیں۔ شہد کی مکھیاں بذات خود علاج معالجے میں استعمال کی جاتی ہیں۔ قرآن میں جنت کے حوالے سے شہد کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ شہد کی مکھیوں کے کام کی تقسیم : ٍ ١۔ مکھیوں کو کھانا کھلانے کا کام۔ ٢۔ لاروے کی صفائی۔ ٣۔ چھتے میں نئے خانوں کی تعمیر۔ ٤۔ ملکہ کی خدمت۔ ٥۔ انڈوں کو سنبھالنا اور ان کی دیکھ بھال۔ ٦۔ چھتے میں ہوا کی آمد و رفت کا انتظام۔ ٧۔ پھولوں سے زرگل اور رس کا اکٹھا کرنا۔ ٨۔ خوراک کے نئے خزانوں کا پتا لگانا۔ شہد کی مکھیوں کی اہم خصوصیات : ٍ ١۔ نگران کا مقصد ” Housekeeping “ اور بیماری سے بچاؤ کی تدبیر کرنا ہے یہ چھتے میں صرف دو فیصد ہوتی ہیں۔ بھلا ان کی انفرادی قوت کی یوں تقسیم کون کرسکتا ہے ؟ ٢۔ مردہ مکھیوں کو ایک گھنٹے کے اندر ہی چھتے سے باہر پھینک دیا جاتا ہے اور اسے تقریباً 400 فٹ دور پھینکتے ہیں۔ ٣۔ ایک چھتے میں زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار مکھیاں ہوتی ہیں۔ ٤۔ چھتے میں تمام مکھیاں مادہ ہوتی ہیں اور ملکہ کی اولاد ہیں۔ جب کہ صرف چند نر مکھیاں جنہیں نکھٹو کہتے ہیں ہوتی ہیں۔ انہیں بھی مادہ مکھیاں مار دیتی ہیں نر مکھیاں کسی کو کاٹ نہیں سکتیں کیونکہ ان میں ڈنگ نہیں ہوتا۔ ٥۔ ایک مربع فٹ چھتہ بنانے کے لیے مکھیوں کو تین اونس موم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٦۔ کارکن مکھی کی عمر ایک سے دو ماہ ہوتی ہے۔ گیلن کی مقدار اور مکھی : ٧۔ پھولوں کے رس کا ایک گیلن مکھی میں اتنی توانائی پیدا کرتا ہے کہ وہ گیارہ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چالیس لاکھ میل کا سفر طے کرسکتی ہے۔ ٨۔ چھتے کا درجہ حرارت 93 سے 95 ڈگری فارن ہیٹ رہتا ہے۔ اگر یہ 98 ڈگری فارن ہیٹ ہوجائے تو مکھیاں مرجاتی ہیں۔ مکھیاں اپنے پروں کی حرکت سے یہ درجہ حرارت قائم رکھتی ہیں ایگزاسٹ فین اسی اصول پر کام کرتا ہے۔ ٩۔ خوراک کی کمی کی صورت میں مل بانٹ کر کھاتے ہیں اس لیے زندہ رہتیں ہیں۔ ١٠۔ ملکہ مکھی کو یعسوب بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی عمر تقریباً دو سال تک ہوتی ہے اس کے مرنے کے بعد اس کی بیٹی ملکہ بن جاتی ہے۔ ملکہ مکھی دن بھر میں 1500 انڈے دیتی ہے اور ساری عمر میں تقریباً دس لاکھ سے زائد انڈے دیتی ہے۔ ١١۔ مکھیاں آتشی شعاؤں ” Ultra Voilet Rays “ بھی دیکھ سکتی ہیں۔ چناچہ ابر آلود موسم میں بھی ان کو طلوع آفتاب کا علم ہوجاتا ہے اور اپنا کام شروع کردیتی ہیں۔ ١٢۔ یہ زمین کے مقناطیسی نظام کے تحت سفر کرتی ہیں۔ لہٰذا اندھیرے میں بھی یہ راستہ نہیں بھولتیں۔ ١٣۔ چھتے میں ہر خانہ مسدس (چھ دیوار والا) ہوتا ہے۔ اس لیے جگہ بےکار نہیں جاتی۔ ١٤۔ شہد کی کمی ہو تو اس میں پانی ملاتی ہیں۔ ١٥۔ ہر شہد کی مکھی واپس اپنے ہی چھتے میں آتی ہے۔ مسائل ١۔ شہید کی مکھیاں پھلوں سے رس چوس کر شہد بناتی ہیں۔ ٢۔ شہد مختلف اقسام کا ہوتا ہے۔ ٣۔ شہد میں شفا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٦٨ تا ٦٩ شہد کی مکھی اس الہام کے مطابق کام کرتی ہے جو خالق نے تخلیق کے وقت اس کی فطرت میں رکھ دیا ہے۔ یہ بھی وحی کی ایک قسم ہے اور یہ مکھی اس کے مطابق عمل پیرا ہے۔ یہ مکھیاں جس پیچیدہ انداز میں اپنا کام جاری رکھتی ہیں ، اسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ کس انجینئرنگ سے اپنا چھتہ تیار کرتی ہیں۔ وہ باہم تقسیم کار کس طرح کرتی ہیں اور پھر وہ عسل مصفیٰ کو کس طرح علیحدہ کرتی ہیں ؟ یہ اپنی فطرت کے مطابق گھر بناتی ہیں ، پہاڑوں میں ، درختوں کی شاخوں میں ، لوگ دیواروں پر جو بیل بوٹے چڑھاتے ہیں ان میں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ان کی فطرت کے مطابق زمین کے اندر راستے ہموار کیے ہیں کہ یہ عسل مصفیٰ شفاء للناس ہے۔ بعض ڈاکٹروں نے اس پر تحقیق کی ہے اور یہ تحقیق نہایت ہی فنی انداز کی ہے۔ لیکن ایک مسلم کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت کی رو سے وہ شفاء للناس ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعض احادیث میں بھی عسل مصفیٰ کی ان خصوصیات کی طرف اشارہ ہے بخاری شریف نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے بھائی کو اسہال ہو رہے ہیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، اسے شہد پلا دو ۔ تو اس نے اسے شہد پلا دیا۔ اس کے بعد وہ پھر آیا اور کہا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے اسے شہد پلایا مگر اس سے تو اس کے اسہال اور زیادہ ہوگئے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جاؤ اور اسے شہد پلاؤ۔ وہ گیا اور اس نے اور شہد پلایا۔ پھر آیا اور کہا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ تو اور بھی زیادہ ہو رہا ہے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ نے تو سچ کہا ہے تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹ بول رہا ہے ، لہٰذا جاؤ اور اسے مزید شہد پلاؤ۔ وہ شخص گیا اور اس نے بھائی کو مزید شہد پلایا اور وہ تندرست ہوگیا۔ اس حدیث شریف کو پڑھ کر انسان حیرت زدہ ہوجاتا ہے کہ ایک رسول ایمان و ایقان کے کس اعلیٰ مقام پر ہوتا ہے۔ مریض کا بھائی بار بار اطلاع کرتا ہے کہ مرض میں اضافہ ہی ہو رہا ہے لیکن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی علاج تجویز کرتے ہیں کیونکہ قرآن نے اسے شفاء کہا ہے۔ آخر کار قرآن کی بات عملاً سچی ثابت ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ان تمام مسائل میں جن کا فیصلہ قرآن نے کردیا ہے اسی طرح کے ایمان و ایقان کا اظہار کریں۔ اگرچہ بظاہر صورت حالات قرآن کے حکم کے خلاف ہی کیوں نہ نظر آئے۔ کیونکہ ظاہری حالات کے مشاہدے میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن قرآنی حقائق کبھی غلط نہیں ہو سکتے اور آخر کار قرآنی حقائق ہی سچے ثابت ہوتے ہیں۔ اب ذرا طرز کلام کی فصاحت و مناسبت پر غور کریں۔ آسمانوں سے پانی اترنے کی نعمت ، گوبر اور خون کے درمیان سے بغیر دودھ کی پیدائش ، کھجوروں اور انگوروں سے شکرو شراب کی پیدائش ، شہد کی مکھی سے مختلف رنگوں کا شہد ، یہ تمام مشروبات ہیں اور ان مشروبات کا اخراج ایسے اجسام سے ہورہا ہے جو ان سے شکل و جنس میں بھی مختلف ہیں۔ چونکہ یہاں ذکر مشروبات کا تھا اس لیے جانوروں کے ضمن میں صرف دودھ کا ذکر کیا گیا کیونکہ وہ مشروب ہے تا کہ مضمون و مفہوم آپس میں متناسب ہوجائیں۔ آگے دوسرا سبق آرہا ہے۔ اس میں انعام کے ضمن میں چمڑوں ، بالوں اور اون کا بھی ذکر ہے کیونکہ وہاں خیموں اور گھروں کا مضمون ہے لہٰذا وہاں حیوانات کی ان چیزوں کا بھی ذکر کیا گیا جو اس مضمون اور منظر کے ساتھ متناسب تھیں۔ قرآن مجید کے اسلوب کلام کا یہ ایک بہت ہی اہم فنی پہلو ہے کہ وہ الفاظ کے ساتھ معنوی ہم آہنگی کا بھی خیال رکھتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد شہد کی مکھی کا تذکرہ فرمایا اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کے جی میں یہ بات ڈالی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور لوگوں کی بنائی ہوئی عمارتوں میں گھر بنا یعنی شہد کے لیے چھتہ تیار کرلے اور شہد کی مکھی سے فرمایا کہ تو پھلوں میں سے کھالے یعنی چوس لے اور اس کام کے لیے اللہ کے بنائے راستوں میں آنا جانا، یہ راستے شہد کی مکھی کے لیے آسان فرما دئیے تھے، جب وہ پھلوں سے رس چوس کر آتی ہے تو چوسا ہوا مواد ان چھتوں میں جمع کرتی ہے جو پہلے سے بنا رکھے تھے، یہ جمع شدہ مواد جسے شہد کی مکھیاں چوس چوس کر لاتی ہیں عسل یعنی شہد ہے اس کو پیتے ہیں یہ میٹھی مقوی چیز ہے اور اس کا رنگ بھی مختلف ہے شہد ایک میٹھی غذا ہی نہیں دوا دارو کے لیے بھی اس کا استعمال بہت مفید ہے۔ اس لیے فرمایا کہ (فِیْہِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ) (کہ اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے علیکم بالشفائین العسل والقرآن کہ تم ایسی دو چیزوں کو لازم کرلو جو سراپا شفا ہیں ایک شہد دوسرے قرآن (مشکوٰۃ المصابیح ص ٣٩١) مطلب یہ ہے کہ اپنے امراض کے علاجوں کے لیے شہد کو استعمال کرو اور قرآن مجید پڑھ کر مریض پر دم کرو، اطبا نے شہد کے بہت سے منافع لکھے ہیں اور امراض کے لیے استعمال کرنے کے بہت سے طریقے بتائے ہیں، قرآن مجید سراپا شفا ہے تجربہ ہے کہ کوئی چھوٹی بڑی سورت پڑھ کر دم کیا جاتا ہے تو شفا ہوجاتی ہے حضرات صحابہ (رض) ایک جگہ تشریف لے گئے وہاں ایک شخص کو زہریلے جانور نے ڈس لیا تھا جو اس علاقہ کا سردار تھا، وہ لوگ حضرات صحابہ کرام (رض) کے پاس آئے اور اپنی پریشانی ظاہر کی، ان میں سے ایک صحابی نے سورة فاتحہ پڑھ کر دم کردیا جس کے اثر سے وہ ڈسا ہوا شخص بالکل ٹھیک ہوگیا جیسے کوئی شخص رسی میں باندھا ہو پھر اسے چھوڑ دیا جائے۔ (صحیح بخاری ص ٣٠٤ ج ١) (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) (بلاشبہ اس میں لوگوں کے لیے نشانی ہے جو فکر کرتے ہیں۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

52:۔ شہد کی مکھی کو وحی کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اس کے دل میں ڈال دی کہ وہ پہاڑوں اور درختوں میں اپنا چھتہ بنائے اور ہر قسم کے پھولوں اور پھلوں سے رس چوس کر کر شہد تیار کرے۔ ” ذللا “ ذلول کی جمع ہے یعنی تابع اور مطیع اور یہ ” سبل ربک “ سے حال ہے۔ شہد کی مکھی جب گشت سے واپس ہوتی ہے تو بھولے بھٹکے بغیر اپنے چھتہ پر آجاتی ہے گویا کہ تمام راستے اس کے فرمانبردار ہیں وہ جس راستہ سے چاہے سیدھی اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاتی ہے۔ ” مختلف الوانہ “ شہد کا رنگ موسمی تغیرات اور ماحول کے مختلف الالوان پھولوں اور پھلوں کی وجہ سے مختلف ہوتا ہے سفید، زرد اور سرخ وغیرہ۔ ” فیہ شفاء للناس “ شہد میں لوگوں کے لیے بیماریوں سے شفاء ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ شہد کو جس طرح چاہیں استعمال کرلیں اس میں شفاء ہے اور ضرر نہیں۔ شہد کی مقدار خوراک مزاج مریض اور نوعیت مرض کو سامنے رکھ کر اس کا استعمال کرنا چاہئے۔ شہد کے شفاء ہونے پر قدیم و جدید تمام اطباء متفق ہیں یہی وجہ ہے کہ اکثر مرکبات طیبہ میں شہد شامل کیا جاتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے کرشمے ہیں، یہ سب اسی کے انعامات ہیں، یہ انواعِ رزق اوراقسام مشروبات اسی کی عطا ہے اس لیے اس قادر و حکیم اور منعم و رحیم کے ساتھ غیروں کو صفاتِ کارسازی میں شریک بنانا اور غیروں کے لیے عبادت بجالانا عقل و خرد کے سراسر منافی ہے۔ جب خالق ومالک اور متصرف و کارساز وہی ہے تو اس سے معلوم ہوگیا کہ چوپایوں، پھلوں اور شہد میں سے نذر و نیاز بھی صرف اسی کی دیا کرو اور ان اشیاء میں سے غیر اللہ کے لیے حصہ مقرر نہ کیا کرو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

68 ۔ اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آپ کے رب نے شہد کی مکھی کو یہ بات سکھائی اور اس کے جی میں یہ بات ڈالی کہ تو پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان ٹیٹوں میں جو بیل کے چڑھانے اور پھلانے کو لگاتے ہیں اپنا گھر بنا اور چھتہ لگا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں انگوری کی بیل چڑھانے کو ۔ 12 خلاصہ۔ یہ کہ شہید کی مکھی کو اس کام کے لئے مسخر کردیا چناچہ عام طور سے شہد کی مکھیاں ایسے ہی مقامات پر چھتہ بناتی ہیں۔