Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 9

سورة النحل

وَ عَلَی اللّٰہِ قَصۡدُ السَّبِیۡلِ وَ مِنۡہَا جَآئِرٌ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿٪۹﴾  7

And upon Allah is the direction of the [right] way, and among the various paths are those deviating. And if He willed, He could have guided you all.

اور اللہ پر سیدھی راہ کا بتا دینا ہے اور بعض ٹیڑھی راہیں ہیں ، اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لگا دیتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Explanation of the Different Religious Paths When Allah mentioned the animals which may be used for the purpose of physical journeys, He also referred to the moral, religious routes that people may follow. Often in the Qur'an there is a shift from physical or tangible things to beneficial spiritual and religious matters, as when Allah says, وَتَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى And take a provision (with you) for the journey, but the best provision is Taqwa (piety, righteousness). (2:197) And, يَـبَنِى ادَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَرِى سَوْءَتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ O Children of Adam! We have granted clothing for you to cover yourselves, as well as for adornment; but the raiment of righteousness, that is better. (7:26) Since Allah mentioned cattle and other such animals in this Surah, all of which are ridden or can be used in any way necessary, carrying people's necessities for them to distant places and on difficult journeys - then He mentions the ways which people follow to try to reach Him, and explains that the right way is the one that does reach Him. He says: وَعَلَى اللّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ ... And it is up to Allah to show the right way. This is like the Ayat, وَأَنَّ هَـذَا صِرَطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ And verily, this is My straight path, so follow it, and do not follow the (other) paths, for they will separate you away from His path. (6:153) and, قَالَ هَذَا صِرَطٌ عَلَىَّ مُسْتَقِيمٌ (Allah) said: "This is the way which will lead straight to Me." (15:41) وَعَلَى اللّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ And it is up to Allah to show the right way. Mujahid said: "The true way is up to Allah." Al-Awfi said that Ibn Abbas said: "It is up to Allah to clarify, to explain the guidance and misguidance." This was also reported by Ali bin Abi Talhah, and was also the opinion of Qatadah and Ad-Dahhak. Hence Allah said: ... وَمِنْهَا جَأيِرٌ ... But there are ways that stray. meaning they deviate from the truth. Ibn Abbas and others said: "These are the different ways," and various opinions and whims, such as Judaism, Christianity and Zoroastrianism. Ibn Mas`ud recited it as وَمِنْ كُمْ جَأيِرٌ , "But among you are those who stray." Then Allah tells us that all of that happens by His will and decree. He says: ... وَلَوْ شَاء لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ And had He willed, He would have guided you all. And Allah says: وَلَوْ شَأءَ رَبُّكَ لامَنَ مَن فِى الاٌّرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا If your Lord had willed, then all who are in the earth would have believed. (10:99) وَلَوْ شَأءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلاَّ مَن رَّحِمَ رَبُّكَ وَلِذلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبّكَ لاَمْلَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ And if your Lord had so willed, He could surely, have made humanity one Ummah, but they will not stop disagreeing. Except those for whom your Lord has granted mercy. And it is for this that He did create them; and the Word of your Lord has been fulfilled (i.e. His saying): "Surely, I shall fill Hell with Jinn and men all together." (11:118-119)

تقویٰ بہترین زاد راہ ہے دنیوی راہیں طے کرنے کے اسباب بیان فرما کر اب دینی راہ چلنے کے اسباب بیان فرماتا ہے ۔ محسوسات سے معنویات کی طرف رجوع کرتا ہے قرآن میں اکثر بیانات اس قسم کے موجود ہیں سفر حج کے توشہ کا ذکر کر کے تقوے کے توشے کا جو آخرت میں کام دے بیان ہوا ہے ظاہری لباس کا ذکر فرما کر لباس تقوی کی اچھائی بیان کی ہے اسی طرح یہاں حیوانات سے دنیا کے کٹھن راستے اور دراز سفر طے ہونے کا بیان فرما کر آخرت کے راستے دینی راہیں بیان فرمائیں کہ سچا راستہ اللہ سے ملانے والا ہے رب کی سیدھی راہ وہی ہے اسی پر چلو دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ بہک جاؤ گے اور سیدھی راہ سے الگ ہو جاؤ گے ۔ فرمایا میری طرف پہنچنے کی سیدھی راہ یہی ہے جو میں نے بتائی ہے طریق جو اللہ سے ملانے والا ہے اللہ نے ظاہر کر دیا ہے اور وہ دین اسلام ہے جسے اللہ نے واضح کر دیا ہے اور ساتھ ہی دو سرے راستوں کی گمراہی بھی بیان فرما دی ہے ۔ پس سچا راستہ ایک ہی ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے باقی اور راہیں غلط راہیں ہیں ، حق سے الگ تھلگ ہیں ، لوگوں کی اپنی ایجاد ہیں جیسے یہودیت نصرانیت مجوسیت وغیرہ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہدایت رب کے قبضے کی چیز ہے اگر چاہے تو روئے زمین کے لوگوں کو نیک راہ پر لگا دے زمین کے تمام باشندے مومن بن جائیں سب لوگ ایک ہی دین کے عامل ہو جائیں لیکن یہ اختلاف باقی ہی رہے گا مگر جس پر اللہ رحم فرمائے ۔ اسی کے لئے انہیں پیدا کیا ہے تیرے رب کی بات پوری ہو کر ہی رہے گی کہ جنت دوزخ انسان سے بھر جائے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 اس کے ایک دوسرے معنی ہیں ' اور اللہ ہی پر ہے سیدھی راہ ' یعنی اس کا بیان کرنا۔ چناچہ اس نے اسے بیان فرما دیا اور ہدایت اور ضلالت دونوں کو واضح کردیا، اسی لئے آگے فرمایا کہ بعض راہیں ٹیڑھی ہیں یعنی گمراہی کی ہیں۔ 9۔ 2 لیکن اس میں چوں کہ جبر ہوتا اور انسان کی آزمائش نہ ہوتی، اس لئے اللہ نے اپنی مشیت سے سب کو مجبور نہیں کیا، بلکہ دونوں راستوں کی نشاندہی کر کے، انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] وحی کے بغیر ہدایت انسانی ناممکن ہے :۔ جس طرح تمہاری جسمانی زندگی کی بقا کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ضرورت کی سب چیزیں پیدا کی ہیں اسی طرح تمہاری روحانی زندگی کی بقا کے اسباب مہیا کرنا بھی اسی کے ذمہ ہے۔ محض عقل سے یہ ضرورت پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ عقل کی سوچ و فکر کا میدان انتہائی محدود ہے لہذا اس ذمہ داری کو بھی اللہ تعالیٰ نے عہد الست لے کر پیغمبر اور کتابیں بھیج کر پورا کردیا یہی وہ راہ ہے جو سیدھی ہے اور صرف ایک ہے اور عقل جن راہوں پر چلتی ہے وہ ٹیڑھی بھی ہیں اور لاتعداد بھی کیونکہ نہ ہر انسان میں عقل ایک جیسی ہوتی ہے اور نہ ہر انسان کی عقل کا صحت کے لیے قائم کردہ معیار ایک جیسا ہوتا ہے۔ عقلوں کے اسی فرق کی بنا پر بیشمار راہیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ عقل کی مثال دراصل آنکھ کی سی ہے جسے دیکھنے کے لیے کسی خارجی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خارجی روشنی کے بغیر آنکھ صحیح کام نہیں کرتی۔ اور یہ خارجی روشنی وحی الٰہی ہے۔ روشنی میں انسان جو کچھ دیکھتا ہے اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے مگر اندھیرے میں چلنے والا ٹامک ٹوئیاں ہی مارتا ہے کبھی کسی راہ پر جاپڑتا ہے اور کبھی کسی پر پھر اس کے کسی گڑھے یا کھڈ میں گر پڑنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے، ٹھڈے لگنے کا بھی اور کسی سخت اور اونچی چیز سے ٹکرانے کا اور چوٹ لگ جانے کا بھی۔ لہذا اس خارجی روشنی کی انسان کو شدید ضرورت تھی تاکہ وہ بلا تکلف سیدھی راہ پر گامزن رہ سکے اور انسان کی یہ ضرورت اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور کتابیں بھیج کر پوری کردی ہے اسی مضمون کو اللہ نے کئی مقامات پر ان الفاظ میں بیان فرما دیا ہے۔ کیا بینا اور نابینا برابر ہوسکتے ہیں ؟ اور انسانیت ہمیشہ تجربوں اور ناکامیوں میں بھٹکتی رہتی ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے خود ہی انسان کو سیدھی راہ بتا کر اس پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے۔ [ ١٠] جبری ہدایت دینا اللہ کا دستور نہیں :۔ اس لیے کہ جبری ہدایت سے انسان کی تخلیق کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسری ہر مخلوق سے زیادہ عقل وتمیز بخشی، قوت ارادہ اور تصرف کا اختیار بھی دیا۔ ہدایت اور گمراہی کے راستے بھی واضح طور پر سمجھا دیئے کہ وہ یہ دیکھے کہ اب کون شخص کون سی راہ اختیار کرتا ہے اور یہی مشیت الٰہی ہے۔ یہ نہیں کہ اللہ سب کو خود ہی ہدایت کی راہ پر لگا دیتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَعَلَي اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيْلِ وَمِنْهَا جَاۗىِٕرٌ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ ۔۔ : چند انسانی ضروریات کا ذکر فرما کر سب سے ضروری چیز یعنی صحیح راستہ بتانے کے اہتمام کا خاص طور پر ذکر فرمایا، کیونکہ یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے ہم ہر نماز میں یہی دعا کرتے ہیں : (ۭاِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ) [ الفاتحۃ : ٥ ] ” ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ “ ” قَصْدُ “ کا معنی سیدھا ہونا۔ ” اَلسَّبِیْل “ کا معنی راستہ، تو ” قَصْدُ السَّبِيْلِ “ سیدھا راستہ جس میں کوئی کجی نہ ہو۔ اسے ” سبیل قصد “ بھی کہتے ہیں اور ” سبیل قاصد “ بھی۔ گویا ” قَصْدُ “ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے جو موصوف کی طرف مضاف ہے۔ یہ بات طے ہے کہ دو نقطوں کے درمیان سب سے مختصر خط مستقیم ہی ہوتا ہے، یعنی اپنے بندوں کی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرنا اللہ ہی کے ذمے ہے اور یہ ذمہ خود اس نے اپنے فضل سے اٹھایا ہے، کسی کا اس پر جبر نہیں۔ یا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سیدھا راستہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے والا ہے، یعنی انسان فطرت پر قائم رہے تو خود بخود توحید الٰہی کا قائل ہوجاتا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جسمانی ضروریات پوری کرنے کا سامان بہم پہنچایا ہے، اسی طرح اس کی ہدایت کا راستہ بھی متعین کردیا ہے۔ 3 جب زندگی عطا کرنے والے نے خود راستہ متعین کردیا تو مفکروں، فلسفیوں اور قانون سازوں کو دستور سازی یا قانون سازی کی تکلیف سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ ان کا علم ہر چیز کا احاطہ نہیں کرتا، اس لیے ان کے بنائے ہوئے دستور و قانون بدلتے رہتے ہیں اور ہمیشہ انسان کی بربادی ہی کا باعث بنتے ہیں۔ حکام کا کام دستور سازی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے دستور و قانون کو عملاً نافذ کرنا ہے۔ افسوس کہ کفار کی کئی سو سالہ محنت کے نتیجے میں مسلمانوں نے آخر اللہ تعالیٰ کا منصب خود سنبھال لیا اور خلافت ختم کرکے جمہوریت کے نام پر خود دستور ساز اور قانون ساز بن بیٹھے۔ اب نام ان کا مسلم ہے، مگر نظام ان کا اللہ تعالیٰ سے بغاوت اور کفار کے حکم یا اپنی خواہش پر عمل ہے۔ وَمِنْهَا جَاۗىِٕرٌ : ” جَارَ عَنِ الطَّرِیْقِ “ راستے سے ہٹ گیا۔ ” جَاۗىِٕرٌ“ اسم فاعل ہے، وہ تمام راستے جو اللہ کی طرف سے نہیں ہیں، یعنی نہ قرآن سے ثابت ہیں نہ حدیث سے، وہ سب صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں اور انھیں اختیار کرنے والے گمراہ ہیں۔ وَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ : مگر اس سے انسان کو پیدا کرنے کا اصل مقصد جو آزمائش ہے، وہ فوت ہوجاتا، اس لیے کہ جس حد تک راہ دکھانے کا تعلق تھا وہ تو پیغمبر بھیج کر اور کتابیں اتار کر پورا کردیا، مگر اس راہ پر چلنا انسان کے اختیار پر چھوڑ دیا، تاکہ اس کے اعمال کے مطابق اسے جزا یا سزا دی جاسکے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Presented in the previous verses was a description of the great bless¬ings of Allah Ta` ala as rational proof of His Oneness. This description of Divine blessings continues later on as well. In between these two, the present verse (9) has been introduced par¬enthetically for the purpose of warning that Allah Ta’ ala, pursuant to His standing promise, has taken it upon Himself that He makes the straight path which takes its follower to Allah Ta’ ala clear and explicit. Therefore, the objective of the presentation of Divine blessings is to dem¬onstrate proofs of the Being and Oneness of Allah Ta` ala. But, counter to this, people have preferred to go by other crooked ways. It is unfortunate that, despite having clear signs and open proofs, they do not benefit by them. Instead, go on straying endlessly. After that it was said that Allah Ta’ ala, if He had so willed, would have made all of them to (compulsively) be on the right path. Had He done so, it was within His power. But, wisdom and expedient considera¬tions required that there be no compulsion. Let the two paths be before everyone. Whoever elects to take whichever path should be free to take it. Everyone goes his or her way. The Straight Path (al-Sirat al-Mustaqim) will take people to Allah Ta’ ala and Jannah (Paradise). As for other crooked ways, they will take people to Jahannam (Hell). Human beings have been given the power to choose whichever path they wish to take.

خلاصہ تفسیر : اور (دلائل مذکورہ سابقہ ولاحقہ سے جو) سیدھا راستہ (دین کا ثابت ہوتا ہے وہ خاص) اللہ تک پہنچتا ہے اور بعض رستے (جو کہ دین کے خلاف ہیں) ٹیڑھے بھی ہیں (کہ ان سے اللہ تک رسائی ممکن نہیں پس بعض تو سیدھے رستہ پر چلتے ہیں اور بعض ٹیڑھے پر) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو (منزل) مقصود تک پہنچا دیتا (مگر وہ اسی کو پہنچاتے ہیں جو صراط مستقیم کا طالب بھی ہو (آیت) وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا اس لئے تم کو چاہئے کہ دلائل میں غور کرو اور ان سے حق کو طلب کرو کہ تم کو منزل مقصود تک رسائی عطا ہو) معارف و مسائل : ان آیات میں اللہ جل شانہ کی عظیم الشان نعمتوں کا ذکر فرما کر توحید کے عقلی دلائل جمع کئے گئے آگے بھی ان نعمتوں کا ذکر ہے درمیان میں یہ آیت بطور جملہ معترضہ کے اس بات پر تنبیہ کرنے کے لئے لائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ قدیمہ کی بناء پر اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ لوگوں کے کئے وہ صراط مستقیم واضح کر دے جو اللہ تک پہنچانے والا ہے اسی لئے نعماء الہیہ کو پیش کرکے اللہ تعالیٰ کے وجود اور توحید کے دلائل جمع کئے جا رہے ہیں۔ لیکن اس کے برخلاف کچھ لوگوں نے دوسرے ٹیڑھے راستہ پر مجبور کر کے ڈال دیں تو ان کے اختیار میں تھا مگر حکمت و مصلحت کا تقاضا یہ تھا کہ جبر نہ کیا جائے دونوں راستے سامنے کردیئے جائیں چلنے والا جس راستہ پر چلنا چاہئے چلا جائے صراط مستقیم اللہ تعالیٰ اور جنت تک پہونچائے گا اور ٹیڑھے راستے پر جہنم پر پہونچائیں گے انسان کو اختیار دے دیا کہ جس کو چاہے انتخاب کرلے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَعَلَي اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيْلِ وَمِنْهَا جَاۗىِٕرٌ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ ۝ۧ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ قصد القَصْدُ : استقامة الطریق، يقال : قَصَدْتُ قَصْدَهُ ، أي : نحوت نحوه، ومنه : الِاقْتِصَادُ ، والِاقْتِصَادُ علی ضربین : أحدهما محمود علی الإطلاق، وذلک فيما له طرفان : إفراط وتفریط کالجود، فإنه بين الإسراف والبخل، وکالشّجاعة فإنّها بين التّهوّر والجبن، ونحو ذلك، وعلی هذا قوله : وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ [ لقمان/ 19] وإلى هذا النحو من الاقتصاد أشار بقوله : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا «2» [ الفرقان/ 67] . والثاني يكنّى به عمّا يتردّد بين المحمود والمذموم، وهو فيما يقع بين محمود و مذموم، کالواقع بين العدل والجور، والقریب والبعید، وعلی ذلک قوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ [ فاطر/ 32] ، وقوله : وَسَفَراً قاصِداً [ التوبة/ 42] أي : سفرا متوسّط غير متناهي هي البعد، وربما فسّر بقریب . والحقیقة ما ذکرت، وأَقْصَدَ السّهم : أصاب وقتل مکانه، كأنه وجد قَصْدَهُ قال : 368- فأصاب قلبک غير أن لم تقصد «3» وانْقَصَدَ الرّمحُ : انکسر، وتَقَصَّدَ : تكسّر، وقَصَدَ الرّمحَ : كسره، وناقة قَصِيدٌ: مکتنزة ممتلئة من اللّحم، والقَصِيدُ من الشّعر : ما تمّ شطر أبنیته «4» . ( ق ص د ) القصد ( ض ) راستہ کا سیدھا ہونا محاورہ ہ قصدث قصدہ میں اس کی طرف سیدھا گیا ۔ اسی سے اقتصاد ہے اوراقتصاد دوقسم ہر ہے (1) محمود عل الاطلاق جو افراط وتفریط کے درمیان میں ہو جیسے سخاوت جو اسراف اور بخل کے مابین کو کہتے ہیں اور شجاعت جو لاپرواہی اور بزدلی کے درمیانی درجہ کا نام ہے چناچہ اسی معنی کے لحاظ سے فرمایا : وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ [ لقمان/ 19] اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا ۔ اوراقتصادی کی اسی نوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا «2» [ الفرقان/ 67] یعنی اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم ۔ (2) قصد کا لفظ کنایہ کے طور پر ہر اس چیز پر بولاجاتا ہے جس کے محمود اور مذموم ہونے میں شبہ ہو یعنی جو نہ بالکل محمود اور بالکل مذموم بلکہ ان کے درمیان میں ہو ۔ مثلا ایک چیز عدلی وجور کے مابین ہو چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ [ فاطر/ 32] و کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں ۔ اسی طرح درمیانی مسافت پر بھی قصد کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ چناچہ آیت وَسَفَراً قاصِداً [ التوبة/ 42] اور سفر بھی ہلکا سا ہوتا ہے ۔ میں قاصد ا کے معنی معتدل سفر کے ہیں جو زیادہ دو ر کا نہ ہو اور بعض نے اس کا معنی سفر قریب لکھا ہے ۔ لیکن اصل معنی وہی ہیں جو ہم نے بیان کردیئے ہیں ۔ اقصد السھم تیر کا لگ کر فورا ہلاک کردینا ۔ گویا اس نے اپنے قصد کو پالیا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الکامل) (355) فاصاب قلبک غیرا ن لم یقصد وہ تیرے دل پر لگا لیکن اس نے قتل نہیں کیا انقصد الرمح کے معنی نیزہ ٹوٹ جانے کے ہیں اور تقصد بمعنی تکسر کے ہے ۔ قصد الرمح نیزہ تؤڑ دیا ۔ ناقۃ قصید گوشت سے گتھی ہوئی اونٹنی ۔ القصید کم ازکم سات اشعار کی نظم ۔ جور وباعتبار القرب قيل : جار عن الطریق، ثم جعل ذلک أصلا في العدول عن کلّ حق، فبني منه الجور، قال تعالی: وَمِنْها جائِرٌ [ النحل/ 9] ، أي : عادل عن المحجّة، وقال بعضهم : الجائر من الناس : هو الذي يمنع من التزام ما يأمر به الشرع . جور کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی صلہ عن کی وجہ سے راستہ سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں پھر مطلقا حق سے عدول کرنے کے لئے اس کو اصل قرار دے کر اس سے الجور بمعنی ظلم بنایا گیا ہے قران میں ہے : ۔ وَمِنْها جائِرٌ [ النحل/ 9] اور بعض راستے سیدھی راہ سے ایک جانب مائل ہو رہے ہیں ( جو باری تعالیٰ تک نہیں پہنچے : بعض نے کہا ہے کہ الجائر ( جور سے صیغہ فاعل ) انسانوں میں سے ہر اس شخص کو کہتے ہیں جو احکام شریعت کے التزام سے رک جائے ( اور اسی کا نام ظلم ہے ) هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩) اور خشکی وتری میں اللہ تعالیٰ ہی راستہ دکھاتا ہے اور بعضے راستے ٹیڑھے بھی ہوتے ہیں کہ ان سے مقصود تک رسائی ممکن نہیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو خشکی وتری میں سب کو سیداھا راستہ بتلا دیتا ، یا آیت کا یہ مطلب ہے کہ ہدایت و توحید کا جو سیدھا راستہ ہے وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے اور بعض ادیان یہودیت، نصرانیت و مجوسیت کی طرح ٹیڑھے اور راہ حق سے ہٹے ہوئے ہیں، اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو اپنے دین کی طرف ہدایت عطا فرما دیتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ (وَعَلَي اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيْلِ وَمِنْهَا جَاۗىِٕرٌ ) یہ سیدھا راستہ توحید کا راستہ ہے۔ یہاں اس راستے کو ” قصد السبیل “ کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن میں اسے صراط مستقیم بھی کہا گیا ہے اور سوآء السبیل بھی۔ یہی ایک راستہ ہے جو انسان کو اللہ تک پہنچاتا ہے ‘ مگر بہت سے لوگ اس راستے سے بھٹک کر ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پر مڑ جاتے ہیں جو انہیں گمراہی کے گڑھوں میں گرادیتی ہیں۔ (وَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ ) اللہ اگر چاہتا تو سب انسانوں کو اسی ایک سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق اور سمجھ بوجھ دے دیتا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9. This contains an argument for Prophethood along with a proof of Tauhid and of Allah’s compassion and providence. The argument is this: There are many divergent ways of thought and action open for man to choose from. Obviously all these divergent ways cannot be straight ways, because there can be only one straight way; therefore, there can be only one right theory of life which is based on that way, and only one right way of life which is based on that right theory. Thus it is clear that the choice of the right way of life is man’s most important and basic need, for its wrong choice would inevitably lead to his ruin. This is because all other things fulfill his animal needs only, but this is the greatest necessity of his life as a human being and without its fulfillment his life would be an utter failure. Now, it cannot be expected that Allah Who made so many provisions, and on such a large scale, for the fulfillment of the animal life of man, did not make any arrangement for the fulfillment of this real and greatest necessity of man. Just as He has provided for all the necessities of his life, so He has also provided for this greatest need of his through Prophethood. If Prophethood is denied then it should be pointed out in what way Allah has fulfilled this basic need of man. Experience of centuries has shown that mankind has always blundered whenever it has chosen a way of life by itself. This is because man’s wisdom and intelligence are limited, and he cannot depend on these for the choice of the right way of life. Above all, one cannot say that Allah has made no arrangement for this basic need of man, for this will be the greatest misconception of Allah that He may make most elaborate arrangements for man’s animal life but should leave him in the lurch to search out a way for himself for the fulfillment of this most important and basic need. 10. Here a question arises: Why didn’t Allah will to guide all the people aright inherently when He had taken upon Himself to show the right way? It is true that Allah could have imbued man, like other creatures, with the inborn instinct and enabled him to choose the right way without conscious thought, experience or teaching. But this would have been against His will which was to create a being, having will and power and freedom to follow the right way or the wrong way, whichever he chose for himself. This is why he has been endowed with different means of knowledge and power of conscious thought, deliberation and will, and has been empowered with the authority to make use of all powers in him and all things around him. Moreover, He has placed in him and all around him such factors as might lead him to guidance or deviation. All these things would have become meaningless, had he been created righteous by birth, and he could never have attained the heights of progress, which can be achieved only by the right use of freedom. That is why Allah has chosen Prophethood for man’s guidance, and left him free to follow or reject a Prophet. This is a test by means of which Allah judges whether man accepts the guidance that is presented to him in a rational way.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :9 توحید اور رحمت و ربوبیت کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہاں اشارۃ نبوت کی بھی ایک دلیل پیش کر دی گئی ہے ۔ اس دلیل کا مختصر بیان یہ ہے: دنیا میں انسان کی فکر و عمل کے بہت سے مختلف راستے ممکن ہیں اور عملا موجود ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے راستے بیک وقت تو حق نہیں ہو سکتے ۔ سچائی تو ایک ہی ہے اور صحیح نظریہ حیات صرف وہی ہو سکتا ہے جو اس سچائی کے مطابق ہو ۔ اور عمل کے بے شمار ممکن راستوں میں سے صحیح راستہ بھی صرف وہی ہو سکتا ہے جو صحیح نظریہ حیات پر مبنی ہو ۔ اس صحیح نظریے اور صحیح راہ عمل سے واقف ہونا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے ، بلکہ اصل بنیادی ضرورت یہی ہے ۔ کیونکہ دوسری تمام چیزیں تو انسان کی صرف ان ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جو ایک اونچے درجے کا جانور ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہوا کرتی ہیں ۔ مگر یہ ایک ضرورت ایسی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہے ۔ یہ اگر پوری نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری زندگی ہی ناکام ہوگئی ۔ اب غور کرو کہ جس خدا نے تمہیں وجود میں لانے سے پہلے تمہارے لیے یہ کچھ سروسامان مہیا کر کے رکھا اور جس نے وجود میں لانے بعد تمہاری حیوانی زندگی کی ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا اتنی دقیقہ سنجی کے ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر انتظام کیا ، کیا اس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ اس نے تمہاری انسانی زندگی کی اس سب سے بڑی اور اصلی ضرورت کو پورا کرنے کا بندوبست نہ کیا ہوگا ؟ یہی بندوبست تو ہے جو نبوت کے ذریعہ سے کیا گیا ہے ۔ اگر تم نبوت کو نہیں مانتے تو بتاؤ کہ تمہارے خیال میں خدا نے انسان کی ہدایت کے لیے اور کونسا انتظام کیا ہے؟ اس کے جواب میں تم نہ یہ کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہمیں راستہ تلاش کرنے کے لیے عقل و فکر دے رکھی ہے ، کیونکہ انسانی عقل و فکر پہلے ہی بے شمار مختلف راستے ایجاد کر بیٹھی ہے جو راہ راست کی صحیح دریافت میں اس کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے ۔ اور نہ تم یہی کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہماری رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے ، کیونکہ خدا کے ساتھ اس سے بڑھ کر بدگمانی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ جانور ہونے کی حیثیت سے تو تمہاری پرورش اور تمہارے نشونما کا اتنا مفصل اور مکمل انتظام کرے ، مگر انسان ہونے کی حیثیت سے تم کو یونہی تاریکیوں میں بھٹکنے اور ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الرحمٰن ، حاشیہ نمبر ۲ – ۳ ) ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :10 یعنی اگرچہ یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس ذمہ داری کو ( جو نوع انسان کی رہنمائی کے لیے اس نے خود اپنے اوپر عائد کی ہے ) اس طرح ادا کرتا کہ سارے انسانوں کو پیدائشی طور پر دوسری تمام بے اختیار مخلوقات کے مانند برسر ہدایت بنا دیتا ۔ لیکن یہ اس کی مشیت کا تقاضا نہ تھا ۔ اس کی مشیت ایک ایسی ذی اختیار مخلوق کو وجود میں لانے کی متقاضی تھی جو اپنی پسند اور اپنے انتخاب سے صحیح اور غلط ، ہر طرح کے راستوں پر جانے کی آزادی رکھتی ہو ۔ اسی آزادی کے استعمال کے لیے اس کو علم کے ذرائع دیے گئے ، عقل و فکر کی صلاحیتیں دی گئیں ، خواہش اور ارادے کی طاقتیں بخشی گئیں ، اپنے اندر اور باہر کی بے شمار چیزوں پر تصرف کے اختیارات عطا کیے گئے ، اور باطن و ظاہر میں ہر طرف بے شمار ایسے اسباب رکھ دیے گئے جو اس کے لیے ہدایت اور ضلالت ، دونوں کے موجب بن سکتے ہیں ۔ یہ سب کچھ بے معنی ہو جاتا اگر وہ پیدائشی طور پر راست رو بنا دیا جاتا ۔ اور ترقی کے ان بلند مدارج تک بھی انسان کا پہنچنا ممکن نہ رہتا جو صرف آزادی کے صحیح استعمال ہی کے نتیجے میں اس کو مل سکتے ہیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جبری ہدایت کا طریقہ چھوڑ کر رسالت کا طریقہ اختیار فرمایا کرتا کہ انسان کی آزادی بھی برقرار رہے ، اور اس کے امتحان کا منشا بھی پورا ہو ، اور راہ راست بھی معقول ترین طریقہ سے اس کے سامنے پیش کر دی جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا کے راستے طے کرنے کے لئے سواریاں پیدا کی ہیں اسی طرح آخرت کا روحانی سفر طے کرنے کے لئے سیدھا راستہ دکھانے کی ذمہ داری بھی لی ہے، کیونکہ لوگوں نے اس کام کے لئے بہت سے ٹیڑھے راستے بنارکھے ہیں، ان سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ لوگوں کو سیدھا راستہ اپنے پیغمبروں اور اپنی کتابوں کے ذریعے دکھاتا ہے، البتہ وہ کسی کو زبردستی اٹھاکر اس راستے پر نہیں لے جاتا، اگرچہ وہ چاہتا تو یہ بھی کرسکتا تھا ؛ لیکن اس دنیا میں انسان سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دکھائے ہوئے راستے پر اپنے اختیار سے چلے زبردستی نہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے ر سولوں کے ذریعے راستہ دکھانے پر اکتفا فرماتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩۔ جب اللہ پاک نے ان جانوروں کا ذکر کیا جس پر لوگ سوار ہو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں اور دنیا میں رستہ طے کرتے ہیں تو اب دین کے رستوں کا بیان کیا اور فرمایا کہ دو راہیں ہیں۔ ایک تو سیدھی دوسری کج جو سیدھی راہ ہے وہ خدا تک پہنچتی ہے اور جو کج ہے وہ شیطانی راہ ہے انسان کو دوزخ میں لے جاتی ہے۔ سہل سے مراد دین اسلام ہے اور جائر سے بت پرستی وغیرہ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ چاہتا ہے تو دین اسلام پر چلنے کی توفیق دیتا ہے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) اس آیت کی تفسیر میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ پر ہے حلال و حرام کا بیان کردینا اور اپنی مرضی اور نامرضی کے کاموں کا ذکر کردینا جس کو اس نے آسمانی کتابوں کے ذریعہ سے بیان کردیا اب جس کا جی چاہے جس راہ کو پسند کرے اگر اللہ پاک چاہتا تو سارے جہاں کو ایک سیدھی راہ پر کردیتا اور وہ لوگ حق تک پہنچ جاتے مگر اس کی مشیت اس کی متقضی نہیں ہوئی اس نے راہیں بتلا دیں جس کی طبیعت نیک پیدا ہوئی ہے وہ آپ راہ حق کو قبول کرتا ہے اور جو بدبخت ازلی ہے وہ راہ راست سے بھٹکتا پھرتا ہے اور گمراہی کے رستوں میں پڑا ہوا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ آیت میں بیان کا لفظ محذوف ہے گویا اصل آیت وعلی اللہ بیان قصد السبیل ہے۔ جو راستہ آدمی کو مقصد تک پہنچا دیوے عرب کے محاورہ میں اس کو قصہ السبیل کہتے ہیں۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے مغیرہ بن شعبہ (رض) کی حدیث اوپر گزر چکی ہے ١ ؎۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو انجانی کے عذر کا رفع کردینا بہت پسند ہے۔ اسی لئے اس نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے آسمانی کتابیں بھیج کر تفصیل سے احکام دین بیان فرما دئیے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا اوپر کا قول اس صحیح حدیث کے موافق ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے ٢ ؎۔ کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے کہ کون شخص دنیا میں پیدا ہونے کے بعد جنت میں جانے کے قابل کام کرے گا اور کون شخص دوزخ میں جانے کے قابل اب دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ہر شخص اس لکھے کے موافق کام کرتا ہے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ علم الٰہی میں جو لوگ جنت کے قابل ٹھہر چکے ہیں وہ ہمیشہ کجی کی راہ پسند کرتے ہیں اور ان کو مجبور کر کے اللہ تعالیٰ راہ راست پر لانا نہیں چاہتا کیوں کہ انتظام الٰہی کے موافق دنیا نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہے مجبوری کی حالت میں وہ امتحان کا موافق باقی نہیں رہتا۔ ١ ؎ تفسیر ہذا جلد دو ص ٢٣١ و جلد ہذا ٣١٠ ٢ ؎ صحیح بخاری ص ٧٣٨ ج ٢ تفسیر سورة واللیل۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:9) علی اللہ قصد السبیل۔ علی اللہ ۔ اللہ کے ذمہ ہے قصد السبیل۔ ای بیان الطریق القاصد المستقیم ۔ سیدھے مستقیم راستہ کی واضح نشاندہی کردینا۔ یعنی سیدھے راستہ کو اپنے برگزیدہ پیغمبروں کے ذریعہ سے لوگوں پر واضح کردینا اللہ کے ذمہ ہے اور اس ذمہ داری کو وہ وحی کے ذریعہ سے اپنے رسولوں کی وساطت سے پورا کردیتا ہے۔ قصد۔ اسم مصدر ومصدر ہے بمعنی فاعل۔ سیدھا جانے والا راستہ۔ یعنی سیدھا راستہ جائر کی ضد ہے۔ قصد (باب افتعال) سے بمعنی اعتدال اور افراط و تفریط کے درمیان۔ میانِ راہ کے معنی دیتا ہے۔ السبیل۔ اسم جنس ہے۔ بعض نے وعلی اللہ قصد السبیل۔ کا ترجمہ کیا ہے : اور سیدھا راستہ اللہ تک پہنچتا ہے (علی ) کو الی کے معنی میں لیا ہے ومنھا جائر۔ اور بعضی راہ کج اور ٹیڑھے بھی ہیں۔ (جو حق تک نہیں پہنچاتے ) جائر جور سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ جور کے معنی راہ سے ہٹنے اور کج ہونے کے ہیں۔ جائر وہ راستہ جو کج ہو اور حق تک نہ لے جائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی اپنے بندوں کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنا اللہ ہی کے ذمے ہے یا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سیدھا راستہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے والا ہے۔ “ اس میں اشارہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے جسمانی ضروریات پوری کرنے کا سامان بہم پہنچایا ہے اسی طرح اس کی ہدایت کا راستہ بھی متعین کردیا ہے۔ 3 یا بعض لوگ سیدھی راہ چھوڑ کر حق سے انحراف کر رہوے ہیں اس میں تمام گمراہ قرے داخل ہیں موضع میں ہے کہ : اللہ تعالیٰ کی قدر میں (کے دلائل) دیکھ کر اس کی خوبیاں صاف نظر آتی ہیں مگر جس کی عقل میں کجی ہو وہ بہکا ہی رہتا ہے 4 مگر اس سے خلق کا اصل مقصد جو ابتلا ہے وہ فوت ہوجاتا ہے اس لئے کہ جس حد تک ہدایت کی راہ دکھانے کا تعلق تھا وہ تو پیغمبر بھیج کر اور کتابیں اتار کر پورا کردیا مگر اس راہ پر چلنا انسان کے اختیار پر چھوڑ دیا تاکہ اس کے اعمال پر جزا مرتب ہو سکے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ مگر وہ اسی کو پہچانتے ہیں جو اس صراط مستقیم کا طالب بھی ہو اس لئے تم کو چاہئے کہ ان دلائل میں غور کرو اور ان سے حق طلب کرو کہ تم کو مقصود تک رسانی عطا ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ نے سواری اور باربرداری کے جانور پیدا فرماکر انسان کے لیے راستے آسان کردیے ہیں۔ اسی طرح ہی اس نے انسان کے لیے صراط مستقیم کی نشان دہی فرما کر ہدایت تک پہنچنے کے لیے آسانی پیدا کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ بھی کرم فرمائی ہے کہ اس نے مادی وسائل کے ساتھ انسان کی روحانی خوراک اور راہنمائی کا بندوبست بھی فرمایا ہے۔ نزول آدم سے لے کرتا قیامت انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ذریعے انسان کی، روحانی غذا اور فکری راہنمائی کا بندوبست فرما دیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی عقل کے حوالے کردیتا تو اس کا صراط مستقیم کو پانا اور اس پر چلنا نہایت مشکل ہوجاتا۔ کیونکہ ہر انسان اپنی عقل اور سوچ کو حرف آخر سمجھ کر ایک دوسرے سے الگ الگ راستہ اختیار کرتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی اس کی عقل پر چھوڑنے کے بجائے اسے وحی کا پابند کیا اور اس کی رہنمائی کا کام اپنے ذمے لیا ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ صراط مستقیم بتلانا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لیا ہے جبکہ بیشمار ٹیڑھے راستے بھی ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت پر جمع کرسکتا تھا۔ لیکن اس نے ہدایت کی طرف راہنمائی اور صراط مستقیم کی نشاندہی کرنے کے بعد انسان کو آزاد چھوڑ دیا ہے تاکہ اپنی عقل و فکر اور آزادی کے ساتھ گمراہی اور صراط مستقیم میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرسکے۔ سیدھی راہ : (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَخَطَّ خَطًّا وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّمِینِہٖ وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّسَارِہٖ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہٗ فِی الْخَطِّ الأَوْسَطِ فَقَالَ ہَذَا سَبِیْلُ اللَّہِ ثُمَّ تَلاَ ہٰذِہِ الآیَۃَ (وَأَنَّ ہَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِہٖ ) [ رواہ ابن ماجۃ : باب اتِّبَاعِ سُنَّۃِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے۔ آپ نے ایک سیدھا خط کھینچا اور دو خط اس کی دائیں جانب اور دو بائیں جانب۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درمیانی خط پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے اور یہ آیت تلاوت کی یہ میرا سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو۔ اس کے علاوہ دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ سیدھی راہوں سے تمہیں جدا کردیں گے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی راہ ہدایت دکھاتا ہے۔ ٢۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سبھی کو ہدایت پر جمع کردیتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٩ سیدھا راستہ یا سبیل قاصد صراط مستقیم ہے ، گویا وہ راستہ خود منزل مقصود کا قصد کرتا ہے۔ وہ منزل سے ادھر ادھر نہیں ہوتا اور سبیل جائر اس راستے کو کہتے ہیں جو منزل مقصود سے منحرف ہوتا ہے اور منزل مقصود تک نہیں پہنچتا یا منزل مقصود سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ ولو شاء لھدکم اجمعین (١٦ : ٩) “ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ”۔ لیکن اللہ کی مشیت کا تقاضا یوں ہوا کہ انسان کو اس نے ہدایت و ضلالت کی استعداد دے دی اور انسان ہدایت کی راہ اختیار کرتا ہے یا ضلالت کی راہ لیتا ہے یہ اللہ نے اس کے اختیار تمیزی پر چھوڑ دیا ہے۔ چناچہ انسانوں میں سے بعض تو سبیل قاصد پر چلتے ہیں اور بعض ٹیٹرھی راہ کو کرلیتے ہیں۔ یہ دونوں قسم کے لوگ اللہ کے دائرہ مشیت کے بہرحال اندر ہی رہتے ہیں کیونکہ انسان کے لئے آزادی اور اختیار کا تعین بہرحال اللہ ہی نے کیا تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کے راستہ سے بہت سے لوگ ہٹے ہوئے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تک سیدھا راستہ پہنچتا ہے، صراط مستقیم یعنی دین اسلام پر جو شخص چلے گا وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائے گا یعنی اللہ کی رضا اس کو حاصل ہوجائے گی اور دوسرے راستے ٹیڑھے ہیں وہ طریق حق سے ہٹے ہوئے ہیں جو شخص ان پر چلے گا اسے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل نہ ہوگی، آخرت میں مبتلائے عذاب ہوگا۔ (وَ لَوْ شَآءَ لَھَدٰیکُمْ اَجْمَعِیْنَ ) (اور اگر اللہ چاہے تو تم سب کو ہدایت دے) جو لوگ ہدایت کے طالب ہوتے ہیں دلائل میں غور و فکر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے دیتا ہے۔ طریق حق تو اس نے واضح طور پر سب کے لیے بیان فرما دیا اب جو شخص ہدایت کے لیے فکر مند ہوگا دلائل میں غور و فکر کرے گا اسے ہدایت بمعنی ایصال الی المطلوب بھی حاصل ہوجائے گی۔ بعض حضرات نے (وَ لَوْ شَآءَ لَھَدٰیکُمْ اَجْمَعِیْنَ ) کا مطلب یہ بتایا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو مجبور کرکے سب کو صراط مستقیم پر ڈال دیتا، لیکن حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ جبر نہ کیا جائے دونوں راستے بیان کردئیے جائیں اب جو چاہے اپنے اختیار سے صراط مستقیم کو اختیار کرکے جنت میں چلا جائے اور جو چاہے کجی والا راستہ اختیار کرکے دوزخ میں چلا جائے۔ (وَ عَلَی اللّٰہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ ) کا ترجمہ ایک تو وہی ہے جو اوپر بیان ہوا اور بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بتایا کہ اللہ صحیح راہ بتاتا ہے یہ اس نے اپنے ذمہ لیا ہے اس نے دلائل بیان کردئیے اپنے نبیوں اور کتابوں کے ذریعہ حق پہنچا دیا ہے وہ کسی کو حق کی راہ بتائے بغیر عذاب نہ دے گا اور بہت سے لوگ حق کو حق جاتے ہوئے اس سے ہٹے ہوئے ہیں۔ (معالم التنزیل ص ٦٣ ج ٣)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” قَصْدٌ“ بمعنی قَاصِدٌ ہے یعنی سیدھا اور مستقیم۔ سیدھا راستہ یعنی توحید جو دلائل سے مدلل اور واضح ہوچکا ہے یہی وہ راستہ ہے جو اللہ تک پہنچاتا ہے۔ والمعنی ان قصد السبیل و مستقیمۃ موصل الیہ تعالیٰ وماعلیہ سبحانہ (روح ج 14 ص 103) ۔ ” وَ مِنْھَا جَائِرٌ“ سیدھا راستہ جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ وہ تو صرف توحید کا راستہ ہے اس کے سوا باقی سب ٹیڑھے راستے ہیں۔ ” وَ لَوْشَاءَ لَھَدٰکُمْ الخ “ یعنی اگر وہ چاہتا تو جبرًا سب کو ہدایت پر جمع کردیتا مگر اس سے حکمت ابتلاء فوت ہوجاتی جیسا کہ فرمایا ” وَ لٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْمَا اٰتٰکُمْ الخ “ لیکن اللہ تعالیٰ نے دلائل سے حق کو واضح کردیا تاکہ جو بھی ایمان لائے سوچ سمجھ کر ایمان لائے نیز مطیع و عاصی اور مومن و معاند کے درمیان امتیاز قائم ہوجائے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

9 ۔ اور مذکورہ دلائل سے جو دین کا راستہ ثابت ہو اوہ دین حق کا راستہ اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے اور راستوں میں بعض راستے ٹیڑھے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو سیدھا دکھا دیتا ، یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید کے لئے دلائل مذکورہ سے روشنی میسر آسکتی ہے۔ اس کے دین کو جو اختیار کرلیتا ہے وہ سیدھی ڈگر پر پڑجاتا ہے یہ سیدھی بیٹا اللہ تعالیٰ تک پہنچتی ہے اور جو گمراہی کی ڈگر پڑجاتا ہے وہ محرم رہتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اس کی قدرتیں دیکھ کر صاف معلوم ہوتی ہیں اس کی خوبیاں اور جس کی عقل سیدھی نہیں وہ بہکتا ہے۔ 12