Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 109

سورة بنی اسراءیل

وَ یَخِرُّوۡنَ لِلۡاَذۡقَانِ یَبۡکُوۡنَ وَ یَزِیۡدُہُمۡ خُشُوۡعًا ﴿۱۰۹﴾ٛ

And they fall upon their faces weeping, and the Qur'an increases them in humble submission.

وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی اور خشوع اور خضوع بڑھا دیتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَيَخِرُّونَ لِلَذْقَانِ يَبْكُونَ ... And they fall down on their chins (faces) weeping, means, in submission to Allah, may He be glorified, and in expression of their belief and faith in His Book and His Messenger. ... وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا and it increases their humility. means, it increases them in faith and submission. As Allah says: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا... ْ زَادَهُمْ هُدًى وَءَاتَـهُمْ تَقُوَاهُمْ While as for those who accept guidance, He increases their guidance and bestows on them their Taqwa. (47:17) وَيَخِرُّونَ (And they fall down), is a description rather than an action (i.e., this is a further description of their humility as referred to in Ayah 107; it does not imply that they prostrate twice).   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

109۔ 1 ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑنے کا دوبارہ ذکر کیا، کیونکہ پہلا سجدہ اللہ کی تعظیم کے لئے اور بطور شکر تھا اور قرآن سن کر جو خشیت و رقت ان پر طاری ہوئی اور اس کی تاثیر و اعجاز سے جس درجہ وہ متأثر ہوئے، اس نے دوبارہ انھیں سجدہ ریز کردیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٧] اہل کتاب میں بھی کچھ منصف مزاج اور اہل علم موجود تھے جن میں بعض ایمان بھی لے آئے قرآن نے ان کا ذکر خیر کئی مقامات پر کیا ہے مثلاً سورة آل عمران کی آیت نمبر ١١٣ تا ١١٥ میں اور ١٩٩ میں نیز سورة مائدہ کی آیت نمبر ٨٢ تا ٨٥ میں۔ علاوہ ازیں مشرکین میں بھی معدودے چند ایسے افراد بعثت نبوی کے دور میں ... تھے جو شرک سے سخت بیزار تھے۔ علاوہ ازیں شراب اور دوسری معاشرتی برائیوں سے بھی متنفر رہتے تھے اور انبیاء سابقین کی خبروں کی وجہ سے نبی آخرالزمان کے منتظر تھے۔ مثلاً زید بن عمرو بن نفیل، ورقہ بن نوفل، سیدنا ابوبکر صدیق (رض) ، سلمان فارسی اور ابو ذرغفاری وغیرہ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ ایسے منصف مزاج لوگوں کی خواہ وہ دور جاہلیت کے مشرکانہ معاشرہ سے تعلق رکھتے ہوں یا اہل کتاب سے۔ جب ان کے سامنے قرآن کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو اس کی اثر پذیری کی وجہ سے روتے روتے سجدہ میں گرپڑتے ہیں۔ قرآن کی ایک ایک آیت ان کے ایمان میں اضافہ، پختگی اور اللہ کے حضور خشوع کا سبب بن جاتی ہے ایسے ہی لوگوں کی مطابقت میں علماء نے اس آیت پر سجدہ واجب قرار دیا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

About the last sentence: يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا (And they fall down on their faces weeping and it increases them in the humbleness of heart -109), it appears in Tafsir Mazhari that being in tears while reciting the Qur’ an stands as a highly recommended and reward worthy act (mustahabb). Sayyidna Abu Hurairah (رض) narrates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, &a pers... on who wept in fear of Allah shall not go to Hell until milk is returned to the udder after having been milked. (It means, as it is not possible to put milk once milked back into the udder, very similarly, it is also not possible that a person who weeps in fear of Allah were to go to Hell). And says another report, &Allah Ta’ ala has forbidden the fire of Hell on two eyes - the eye that weeps in fear of Allah, and the eye that stays awake at nights guarding the Islamic frontiers. (Baihaqi, and Hakim) And Sayyidna Nadr ibn Sa&d (رض) reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, &a people, among whom there is someone who weeps in fear of Allah, will be delivered from the fire of Hell because of him.& (Ruh al- Ma’ ani from Tirmidhi) The reason for the big trouble Muslims are in today is no other but that there are very few left among them who would weep fearing Allah. After reporting the Ahadith showing the merits of weeping in fear of Allah at this point, the author of Ruh al-Ma’ ani says: وینبغی ان یکون ذٰلَک حال العلماء (And that is the state the ` Ulama& should be in) - because, Ibn Jarir, Ibn al-Mundhir and others have quoted the following saying of ` Abd al-Ala Taimi: &A person who has received the kind of knowledge that does not make him cry [ because of having realized the reality of things ] should be enough to make you understand that he has not been given the knowl¬edge that brings benefits.&  Show more

(آیت) يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُهُمْ خُشُوْعًا تفسیر مظہری میں ہے کہ تلاوت قرآن کے وقت رونا مستحب ہے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنم میں نہ جاوے گا وہ شخص جو اللہ کے خوف سے رویا جب تک کہ دوہا ہوا دودھ دوبارہ تھنوں میں واپس نہ لوٹ جائے (یعنی جیسے یہ...  نہیں ہوسکتا کہ تھنوں سے نکالا ہوا دودھ پھر تھنوں میں واپس ڈال دیا جائے اسی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ کے خوف سے رونے والا جہنم میں چلا جائے اور ایک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو آنکھوں پر جہنم کی آگ حرام کردی ایک وہ جو اللہ کے خوف سے روئے دوسرے جو اسلامی سرحد کی حفاظت کے لئے رات کو بیدار رہے (بیہقی و حاکم و صحیحہ) اور حضرت نضر بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس قوم میں کوئی اللہ کے خوف سے رونے والا ہو تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو اس کی وجہ سے آگ سے نجات عطا فرماویں گے (روح عن الحکیم الترمذی) آج سب سے بڑی مصیبت جو مسلمانوں پر پڑی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ان میں خدا کے خوف سے رونے والے بہت کم رہ گئے صاحب روح المعانی اس موقع پر خدا کے خوف سے رونے کے فضائل کی احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں وینبغی ان یکون ذلک حال العلماء۔ یعنی علماء دین کا یہی حال ہونا چاہئے کیونکہ ابن جریر ابن منذر وغیرہ نے عبد الاعلیٰ تیمی کا یہ مقولہ نقل کیا ہے۔ جس شخص کو صرف ایسا علم ملا ہو جو اس کو رلاتا نہیں تو سمجھ لو کہ اس کو علم نافع نہیں ملا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُهُمْ خُشُوْعًا ١٠٩؀۞ بكي بَكَى يَبْكِي بُكًا وبُكَاءً ، فالبکاء بالمدّ : سيلان الدمع عن حزن وعویل، يقال إذا کان الصوت أغلب کالرّغاء والثغاء وسائر هذه الأبنية الموضوعة للصوت، وبالقصر يقال إذا کان الحزن أغلب، وجمع البَاكِي بَاكُون وبُكِيّ ، قال اللہ ت... عالی: خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم/ 58] ( ب ک ی ) بکی یبکی کا مصدر بکی وبکاء یعنی ممدود اور مقصور دونوں طرح آتا ہے اور اس کے معنی غم کے ساتھ آنسو بہانے اور رونے کے ہیں اگر آواز غالب ہو تو اسے بکاء ( ممدود ) کہا جاتا ہے جیسے ؎ رغاء وثغاء اور اس نوع کے دیگر اوزاں جو صوت کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور اگر غم غالب ہو تو اسے بکی ( بالقصر ) کہا جاتا ہے الباکی رونے والا غم اور اندوہ سے آنسو بہانے والا اس کی جمع باکون وب کی آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم/ 58] تو سجدے میں کر پڑتے اور روتے رہتے تھے ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ خشع الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» «2» . قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء/ 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون/ 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء/ 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه/ 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم/ 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات/ 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور/ 9- 10] . ( خ ش ع ) الخشوع ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء/ 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون/ 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء/ 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه/ 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات/ 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور/ 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نماز کی حالت میں گریہ کا بیان قول باری ہے (ویخرون للاذقان یبکون ویزیدھم خشوعاً اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گرجاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے) اسی طرح یہ قول باری ہے (خروا سجداً ویکیاً وہ روتے ہوئے سجدے میں گرپڑے) اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ نماز کے اندر خشیت الٰہی کی بنا پر گریہ کر... نے سے نماز منقطع نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکور لوگوں کی اس بنا پر تعریف فرمائی ہے کہ وہ سجدے میں جا کر روتے ہیں۔ اللہ نے سجدئہ صلوۃ سجدہ تلاوت اور سجدہ شکر کے درمیان اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ سفیان بن عینیہ نے روایت بیان کی ہے، انہیں اسماعیل بن محمد بن سعد نے، انہیں حضرت عبداللہ بن شداد نے، وہ کہتے ہیں کہ ایک متربہ میں نے باجماعت نماز ادا کی۔ میں آخری صف میں تھا ۔ حضرت عمر نماز پڑھا رہے تھے، مجھے حضرت عمر کی ہچکیوں کی آواز آئی۔ ایک دفعہ آپ نے صبح کی نماز میں سورة یوسف کی قرأت شروع کی جب آیت (انما اشکو ابنی وحزنی الی اللہ) پر پہنچے تو آپ کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ آپ کی اقتدا میں صحابہ کرام نماز ادا کر رہے تھے لیکن کسی نے آپ کو اس پر نہیں ٹوکا۔ اس طرح اس مسئلے پر گویا صحابہ کرام کا اجماع ہوگیا۔ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق مروی ہے کہ آپ نماز پڑھتے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکلتی جیسی چولہے پر رکھی ہوئی دیگ سے۔ قول باری صویزیدھم خشوعاً ) س ے مراد یہ ہے کہ نماز کے اندر یہ جس قدر خشوع کرتے ہیں سجدے میں جا کر گریہ کرنے کی وجہ سے ان کے اس خشوع میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ چیز ان کے دلوں میں موجود خوف خدا پر دلالت کرتی ہے۔ یہی خوف انہیں گریہ و زاری کی منزل تک پہنچا دیتا ہے اور اللہ کی اطاعت کا سبب بن جاتا ہے نیز اسی خوف خدا کی بن اپر ا ن کے اندر عبادت میں اس طرح کا اخلاص پیدا ہو جات ا ہے جیسا اخلاص اللہ تعالیٰ ٰکی دی ہوئی نعمتوں کا کما حقہ، شکر بجا لانے کے سلسلے میں عبادت کے اندر ہونا چاہیے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٩ (وَيَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُهُمْ خُشُوْعًا) اب وہ دو آخری آیات آرہی ہیں جن کے متعلق آغاز میں بتایا گیا تھا کہ وہ معرفت خداوندی اور توحید ربانی کے عظیم خزانے ہیں۔ اس کے بعد سورة الکہف کے آخر میں بھی دو آیات آئیں گی جو ان آیات کی طرح بہت عظیم ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

121. That is, when they listen to the Quran, they at once recognize that its bearer is the promised Prophet mentioned in the Books of the former Prophets. 122. This attitude of the righteous people of the Book has been mentioned at several places in the Quran, e.g., (Surah Aal-Imran, Ayats 113-114, 199), (Surah Al-Maidah, Ayats: 83-84).

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :122 صالحین اہل کتاب کے اس رویے کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے ۔ مثلا آل عمران آیات ١١۳ تا ١١۵ ، ١۹۹ ۔ اور المائدہ آیات ۸۲ ۔ ۸۵ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

55: یہ سجدہ تلاوت کی آیت ہے، یہ آیت جب بھی عربی زبان میں پڑھی جائے سجدہ کرنا واجب ہے، البتہ صرف ترجمہ پڑھنے سے یا دل میں زبان ہلائے بغیر پڑھنے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:109) یبکون۔ مضارع جمع مذکر غائب یخرون سے حال ہے۔ روتے ہوئے۔ یزیدہم۔ یزید مضارع واحد مذکر غائب ضمیر فاعل القرآن کی طرف راجع ہیخشوعا۔ مصدر منصوب خشع یخشع سے فروتنی عاجزی۔ اور یہ قرآن ان کا خشوع اور بڑھا دیتا ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے اور زیادہ عاجزی و تواضح کرتے ہیں اور قرآن اور آنحضرت پر ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس تکرار سے مقصود دو مختلف حالتوں کو ظاہر کرنا ہے یعنی سجدہ ریز ہونا اور قرآن کو سن کر روانا یا یہ تکرار فعل کو ظاہر کرنے کے لئے ہے۔ (کبیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں : نماز میں سجدہ دوبارہ ہ... وتا ہے اس واسطے دوبارہ فرمایا پہلی بار قرآن کی اعجازی تاثیر کے نتیجے میں اور دوسری بار خشوع و خضوع کے لئے موضح واضح رہے کہ احادیث قرآن کی تلاوت کے وقت رونے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ مثلاً یہ کہ رونے والی آنکھ دوزخ میں نہیں جائے گی۔ (وحیدی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

10۔ یہ سجدہ میں گرنا یا بطور شکر کے ہے کہ وعدہ مندرجہ کتب سابقہ پورار ہوا، یا تعظیم و اجلال کے لئے کہ قرآن سن کر ہیبت طاری ہوتی ہے یا مجازا کنایہ ہی کمال انقیاد و خشوع سے۔ اور سجدہ چہرے کے بل ہوتا ہے مگر ٹھوڑی کے بل کہنا مبالغہ کے لئے ہے کہ اپنے چہرے کو زمین اور خاک سے اس قدر لگائے دیتے ہیں کہ ٹھوڑی...  لگنے کے قریب ہوجاتی ہے۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ویزیدھم خشوعا (٧١ : ٩٠١) ” اور قرآن کو سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے “۔ جبکہ اس سب قتل وہ نہایت ہی خشوع اور عاجزی سے اس کا استقبال کرچکے تھے۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جو نہایت ہی گہرے شعوری تاثرات کو ظاہر کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ جو لوگ فیوض قرآن سے مسفتید ہونے کے لئے اپنے دلوں کو کھول دیتے ہیں ، ج... و قرآن مجید کی حقیقت ، اس کی قدر و قیمت اور اس کی تعلیمات کو جانتے ہیں اور جو لوگ قرآن سے قبل کتب الہیہ کے علوم سے واقف ہوتے ہیں ایسے لوگ قرآن کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ، اس لئے کہ حقیقی علم وہی ہے جو کتب سماوی نے دیا ہے اور جو اللہ کی طرف سے آیا ہے۔ یہ منظر یہاں ایسے حالات میں پیش کیا گیا ہے کہ اہل مکہ نہایت ہی خلجان اور حیرت میں تھے کہ وہ اس علم کو قبول کریں یا نہ کریں جو قرآن دیتا ہے۔ ایسے حالات میں علمائے اہل کتاب کا یہ منظر پیش کرنے کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کی ذات کو کوئی جس نام سے پکارے پکار سکتا ہے۔ اس کے لئے کئی اسمائے حسنی ہیں۔ جاہلیت میں یہ لوگ اللہ کے لئے رحمن کا لفظ استعمال نہ کرتے تھے۔ وہ رحمن کو اللہ کا نام نہ سمجھتے تھے اس لئے کہا گیا کہ اللہ کے اسمائے صفات بیشمار ہیں جن سے چاہو ، اسے پکارو۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

93:۔ مزید وصف یعنی ” یبکون و یزیدھم خشوعا “ بیان کرنے کے لیے بعد عہد کی وجہ سے وصف اول کا اعادہ کیا گیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

109 اور وہ اپنی ٹھوڑیوں اور مونھوں کے بل روتے ہوئے گرتے ہیں اور قرآن کریم کا سننا ان میں عاجزی اور خشوع کو بڑھا دیتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں نماز میں سجدہ دو بار ہوتا ہے اس واسطے دو بار فرمایا پہلی بار اس کلام کی تاثیر سے تعجب آتا ہے اور دوسری بار عاجزی ہے۔ 21