Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 56

سورة بنی اسراءیل

قُلِ ادۡعُوا الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ فَلَا یَمۡلِکُوۡنَ کَشۡفَ الضُّرِّ عَنۡکُمۡ وَ لَا تَحۡوِیۡلًا ﴿۵۶﴾

Say, "Invoke those you have claimed [as gods] besides Him, for they do not possess the [ability for] removal of adversity from you or [for its] transfer [to someone else]."

کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن نہ تو وہ تم سے کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The gods of the Idolators can neither benefit nor harm; rather they themselves seek to draw close to Allah Allah says: قُلِ ... Say, O Muhammad to these idolators who worship things other than Allah, ... ادْعُواْ الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ ... Call upon those - besides Him whom you pretend. such as idols and rivals of Allah. Even if you turn to them, ... فَلَ يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ ... They have neither the power to remove the adversity from you, they have no such power at all, ... وَلاَ تَحْوِيلً nor even to shift (it from you to another person). to lift the distress from you and give it to someone else. The meaning is that the only one Who is able to do that is Allah Alone, with no partner or associate, Who is the One Who creates and issues commands. قُلِ ادْعُواْ الَّذِينَ زَعَمْتُم Say: "Call upon those whom you pretend, Al-`Awfi reported from Ibn Abbas, "The people of Shirk used to say, `we worship the angels and the Messiah and Uzayr,' while these (the angels and the Messiah and Uzayr) themselves call upon Allah."

وسیلہ یا قرب الہٰی اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرنے والوں سے کہئے کہ تم انہیں خوب پکار کر دیکھ لو کہ آیا وہ تمھارے کچھ کام آ سکتے ہیں ؟ نہ ان کے بس کی یہ بات ہے کہ مشکل کشائی کر دیں نہ یہ بات کہ اسے کسی اور پر ٹال دیں وہ مخض بےبس ہیں ، قادر اور طاقت والا صرف اللہ واحد ہی ہے ۔ مخلوق کا خالق اور سب کا حکمران وہی ہے ۔ یہ مشرک کہا کرتے تھے کہ ہم فرشتوں ، مسیح اور عزیر کی عبادت کرتے ہیں ۔ ان کے معبود تو خود اللہ کی نزدیکی کی جستجو میں ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جن جنات کی یہ مشرکین پرستش کرتے تھے وہ خود مسلمان ہو گئے تھے لیکن یہ اب تک اپنے کفر پر جمے ہوئے ہیں ، اس لئے انہیں خبردار کیا گیا کہ تمہارے معبود خود اللہ کی طرف جھک گئے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں یہ جن فرشتوں کی ایک قسم سے تھے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت مریم علیہ السلام ، حضرت عزیر علیہ السلام ، سورج چاند ، فرشتے سب قرب الہٰی کی تلاش میں ہیں ۔ ابن جریر فرماتے ہیں ٹھیک مطلب یہ ہے کہ جن جنوں کو یہ پوجتے تھے آیت میں وہی مراد ہیں کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام وغیرہ کا زمانہ تو گزر چکا تھا اور فرشتے پہلے ہی سے عابد الہٰی تھے تو مراد یہاں بھی جنات ہیں ۔ وسیلہ کے معنی قربت و نزدیکی کے ہیں جیسے کہ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے ۔ یہ سب بزرگ اسی دھن میں ہیں کہ کون اللہ سے زیادہ نزدیکی حاصل کر لے ؟ وہ اللہ کی رحمت کے خواہاں اور اس کے عذاب سے ترساں ہیں ۔ حقیقت میں بغیر ان دونوں باتوں کے عبادت نا مکمل ہے ۔ خوف گناہوں سے روکتا ہے اور امید اطاعت پر آمادہ کرتی ہے درحقیقت اس کے عذاب ڈرنے کے لائق ہیں ۔ اللہ ہمیں بچائے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٩] اس آیت میں عموم ہے یعنی خواہ وہ پتھر کے بت ہوں یا فرشتے یا جن ہوں یا فوت شدہ نبی اور اولیاء ہوں سب اس میں شامل ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ شرک صرف بتوں کو سجدہ کرنے کا نام نہیں بلکہ انھیں مشکل کے وقت پکارنا بھی ویسا ہی شرک ہے اور اس بات کی کئی دوسری آیات اور احادیث صحیحہ سے بھی تائید ہوجاتی ہے اور تیسری یہ بات کہ معبود خواہ کسی بھی قسم سے تعلق رکھتے ہوں نہ وہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ کسی کی بگڑی سنوار سکتے ہیں اور یہ سب مشرکانہ عقائد ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ ۔۔ : آلوسی نے فرمایا، زعم ظن (یعنی گمان) کے قریب ہے، کبھی جس بات میں شک ہو اس پر بھی ” زعم “ بولا جاتا ہے۔ بعض اوقات کذب (غلط بیانی) کے معنی میں بھی ہوتا ہے اور کبھی ثابت شدہ سچی بات پر بھی بول لیا جاتا ہے جس میں کوئی شک نہ ہو، جیسا کہ کئی احادیث میں ہے، ایسے تمام مقامات میں زعم کا معنی ” قَالَ “ ہوگا۔ زعم ان افعال میں سے ہے جو دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں۔ یہاں دونوں مفعول محذوف ہیں، یعنی ” زَعَمْتُمُوْھُمْ آلِھَۃً “ کہ ان لوگوں کو بلاؤ جنھیں تم نے معبود گمان کر رکھا ہے، یعنی فرشتے، جن، بزرگ، بت، غرض تمام وہ لوگ جن کی تم عبادت کرتے ہو اور مشکلات میں انھیں پکارتے ہو اور انھیں اپنے معبود گمان کرتے اور حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہو، انھیں پکارو۔ فَلَا يَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيْلًا : پس وہ نہ تم سے تکلیف دور کرنے کے مالک ہیں اور نہ تم سے ہٹا کر کسی اور کی طرف منتقل کردینے کے مالک ہیں، پھر کیوں انھیں سجدہ کرتے اور مدد کے لیے پکارتے ہو ؟ یہ مضمون اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے، دیکھیے سورة انعام (١٧، ٤٠، ٤١) ، یونس (١٠٧) اور سورة نمل (٦٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : آپ (ان لوگوں سے) فرما دیجئے کہ جن کو تم خدا کے سوا (معبود) قرار دے رہے ہو (جیسے فرشتے اور جنات) ذرا ان کو (اپنی تکلیف دور کرنے کے لئے) پکارو تو سہی سو وہ نہ تم سے تکلیف کو دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ اس کے بدل ڈالنے کا (مثلا تکلیف کو بالکل دور نہ کرسکیں کچھ ہلکا ہی کردیں) یہ لوگ کہ جن کو مشرکین (اپنی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لئے) پکار رہے ہیں وہ خود ہی اپنے رب کی طرف (پہونچنے کا) ذریعہ ڈھونڈ رہے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب بنتا ہے (یعنی وہ خود ہی اطاعت و عبادت میں مشغول ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب میسر ہوجائے اور چاہتے ہیں کہ تقرب کا درجہ اور بڑھ جائے) اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اس کے عذاب سے (نافرمانی کی صورت میں) ڈرتے ہیں واقعی آپ کے رب کا عذاب ہے بھی ڈرنے کی چیز (مطلب یہ ہے کہ جب وہ خود عابد ہیں تو معبود کیسے ہو سکتے ہیں اور جب وہ خود ہی اپنی ضروریات میں اور تکلیف کے دور کرنے میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں تو وہ دوسروں کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کیا کرسکتے ہیں) اور (کفار کی) ایسی کوئی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں (یا قیامت کے روز) اس کے رہنے والوں کو (دوزخ کا) سخت عذاب نہ دیں یہ بات کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں لکھی ہوئی ہے (پس اگر کوئی کافر یہاں ہلاک ہونے سے بچ گیا تو قیامت کے روز کی بڑی آفت سے نہ بچے گا اور طبعی موت سے ہلاک ہونا تو کفار کے ساتھ مخصوص نہیں سبھی مرتے ہیں اس لئے بستیوں کے ہلاک ہونے سے اس جگہ مراد یہ ہے کہ کسی عذاب اور آفت کے ذریعہ ہلاک کیا جائے تو خلاصہ یہ ہوا کہ کفار پر کبھی تو دنیا میں عذاب بھیج دیا جاتا ہے اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہوگا اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی عذاب نہ آیا تو آخرت کے عذاب سے بہرحال نجات نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا يَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيْلًا 56؀ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ زعم الزَّعْمُ : حكاية قول يكون مظنّة للکذب، ولهذا جاء في القرآن في كلّ موضع ذمّ القائلون به، نحو : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] ، لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] ، كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] ، زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] ، وقیل للضّمان بالقول والرّئاسة : زَعَامَةٌ ، فقیل للمتکفّل والرّئيس : زَعِيمٌ ، للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول . ( ز ع م ) الزعمہ اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن پاک میں یہ لفظ ہمیشہ اس موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہے چناچہ فرمایا : ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] کفار یہ زعم کو کہتے ہیں ۔ لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] مگر تم یہ خیال کرتے ہو ۔ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] جن کو شریک خدائی سمجھتے تھے ۔ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] جنیںُ تم نے ) اللہ کے سوا ( معبود ) خیال کیا ۔ اور زعامۃ کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ( ضامن اور رئیں کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔ یہاں زعیم یا تو زعامہ بمعنی کفالۃ سے ہے اور یا زعم بلقول سے ہے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ ملك المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ كشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] ( ک ش ف ) الکشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں حول أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] ( ح ول ) & الحوال ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ خزاعہ سے فرما دیجیے جو کہ جنوں کی پوجا کرتے ہیں اور ان کو فرشتے سمجھتے ہیں کہ ذرا اپنے ان معبودوں کو جن کی تم اللہ کے علاوہ پوجا کرتے ہو شدت اور سختی کے وقت پکارو توسہی وہ نہ تم سے تکلیف دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ اس کے بدل ڈالنے کا ان کو اختیار ہے۔ شان نزول : (آیت ) ”۔ قل ادعوالذین زعمتم “۔ (الخ) امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ کچھ لوگ جنوں کی پوجا کیا کرتے تھے وہ جن مشرف بااسلام ہوگئے مگر یہ بدبخت پجاری ان ہی کی عبادت کرتے رہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی آپ فرما دیجیے کہ جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا رہے ہو، ذرا ان کو پکارو تو سہی، وہ نہ تم سے تکلیف دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، نہ اس کے بدل ڈالنے کا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

64. This warning helps to elaborate the doctrine of Tauhid and negate shirk. According to this, shirk is not confined merely to falling prostrate before any other than Allah but it is also shirk to pray to or invoke the help of any other than Allah. For praying to or calling for help any other than Allah is in reality a kind of worship. Therefore, the one who invokes for help any other than Allah is as much guilty of shirk as the worshiper of an idol. This verse also shows clearly that, none other than Allah, has any power to attend to prayers and relieve any one of trouble or alter any one’s bad condition. Hence, if one believes that someone other than Allah has any power, he shall be guilty of shirk.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :64 اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا ہی شرک نہیں ہے ، بلکہ خدا کے سوا کسی دوسری ہستی سے دعا مانگنا ، یا اس کو مدد کے لیے پکارنا بھی شرک ہے ۔ دعا اور استمداد و استعانت ، اپنی حقیقت کے اعتبار سے عبادت ہی ہیں اور غیر اللہ سے مناجات کرنے والا ویسا ہی مجرم ہے جیسا کہ بت پرست مجرم ہے ۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کچھ اختیارات حاصل نہیں ہیں ۔ نہ کوئی دوسرا کسی مصیبت کو ٹال سکتا ہے نہ کسی بری حالت کو اچھی حالت سے بدل سکتا ہے ۔ اس طرح کا اعتقاد خدا کے سوا جس ہستی کے بارے میں بھی رکھا جائے ، بہرحال ایک مشرکانہ اعتقاد ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٦۔ ٥٧:۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ (رض) بن مسعود کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکوں میں سے کچھ لوگوں نے جنات کے ایک گروہ کو اپنا معبود بنا رکھا تھا اتفاق سے جنات کا گروہ مسلمان ہوگیا اور انسانوں کے اس فرقے کو جو ان جنات کی پرستش کیا کرتے تھے ان جنات کے مسلمان ہوجانے کی خبر نہیں ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان مشرکوں کے گروہ کے شرمندہ کرنے کو یہ آیت نازل فرمائی ١ ؎۔ حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ اے نبی اللہ کے ان بیخبر شرک کرنیوالوں سے یہ کہہ دو کہ اللہ کے سوا جن کو تم اپنا معبود ٹھہراتے ہو اگرچہ پہلے بھی ان تمہارے معبودوں کو کسی نیک وبد کا اللہ کے کار خانہ میں اختیار گنتے ہو اور وہ خدا کو خدا جانتے ہیں اور عمل نیک کو خدا کی رضامندی کا ذریعہ ٹھہراتے ہیں اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں تم کو ان کا حال معلوم نہیں تو ذرا تم لوگ ان کا حال دریافت تو کرو کہ وہ کس حال میں ہیں۔ تفسیر ابن جریر میں دوسرے طریقہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے بجائے جنات کے ملائکہ کے ایک گروہ کو مشرکین کا اپنا معبود ٹھہرانا اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور عزیر ( علیہ السلام) کو معبود ٹھہرانا جو ہے ٢ ؎ اس کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ناثابت اور ضعیف ٹھہرایا ہے کیونکہ بخاری کی روایت سے صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ گروہ ایسا تھا کہ پہلے مشرکین کے معبود بننے پر راضی تھا اور پھر اسلام لاکر اپنے اس فعل سے وہ گروہ بزار ہوگیا یہ بات ملائکہ اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور عزیز ( علیہ السلام) کے حق میں ہرگز صادق نہیں آتی کیونکہ ملائکہ اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور عزیز ( علیہ السلام) کبھی مشرکین کے معبود بننے پر راضی نہیں ہوئے۔ آخر آیت میں فرمایا کہ اللہ کا عذاب بلاشک ڈرنے کی چیز ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رح) کی روایت ایک جگہ گزرچکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ کو دوزخ کے عذاب کا کچھ حال معلوم ہے اگر لوگوں کو وہ حال معلوم ہوجائے تو وہ ہنسنا چھوڑ دیں اور سوا رونے کے ان کو کچھ کام نہ رہے۔ ٣ ؎ یہ حدیث ان عذاب ربک کان محذورا کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کا عذاب ایسی ڈرنے کی چیز ہے کہ اس میں گرفتار ہونا تو درکنار اس کا پورا حال سننا بھی انسان کی برداشت سے باہر ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٦٨٥ ج ٢ کتاب التفسیر۔ ٢ ؎ تفسیرابن جویر ص ١٠٤ ج ١٥۔ ٣ ؎ ایضا ترغیب ص ٢٦١ ج ٢ نیز دیکھئے مشکوٰۃ باب البکاء والخوف فصل اول بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 پھر کیوں انہیں سجدہ کرتے اور مدد کے لئے پکارتے ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 56 تا 58 ادعوا پکارو۔ لایملکون وہ اختیار نہیں رکھتے۔ کشف کھولنا۔ دور کرنا۔ الضر تکلیف، مصیبت۔ تحویل بدلنا۔ یبتغون وہ تلاش کرتے ہیں۔ الوسیلۃ ذریعہ۔ اقرب زیادہ قریب۔ محذور ڈر کی چیز۔ مسطور لکھا ہوا۔ تشریح : آیت نمبر 56 تا 58 اللہ کے ساتھ اس کی ذات، صفات اور قدرت میں کسی اور کو شریک سمجھنایا شریک کرنا اس قدر بدترین اور گھناؤنا جرم ہے جس کی کسی حالت میں معافی نہیں ہے۔ قرآن کریم میں صاف صاف ارشاد فرما دیا کہ شرک ایک بہت بڑی بےانصافی اور ظلم ہے اسی لئے فرمایا کہ ” بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرسکتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاو وہ بہت کچھ معاف کر دے گا جس کے لئے چاہے “ وجہ یہ ہے کہ شرک درحقیقت اللہ کی ذات پر براہ راست حملہ ہے۔ جس طرح وہ بیٹا جس نے ہمیشہ اپنی ماں کی نافرمانی کی ہوا گر پچاس سال کے بعد بھی وہ ماں کے قدموں میں سر رکھ کر معافی مانگے گا تو ماں اپنے بیٹے کو گلے لگا کر یہی کہے گی کہ بیٹا میں تو ہمیشہ تجھے یاد کرتی تھی اور وہ بیٹے کی برسوں کی نافرمانی کو اسط رح بھول جائے گی جیسے اس نے کبھی نافرمانی نہ کی ہو۔ لیکن اگر وہی بیٹا ماں کی آبرو پر حملہ کر دیگا تو وہ اس کو کبھی معاف نہ کرے گی۔ بلاتشبیہ اسی طرح کوئی اللہ کا بندہ برسوں نافرمانی کرنے کے بعد ایک دن سچے دل سے توبہ کرلے تو اللہ اس کے سارے گناہوں کو معاف فرما دے گا لیکن شرک کرنا اللہ کی ذات پر حملہ کرنا ہے اس لئے وہ اس کو معاف نہیں کرسکتا۔ یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اگر کوئی شخص کفر و شرک سے توبہ کرلے تو وہ اس کی توبہ کو ضرور قبول فرما لے گا کیونکہ اس نے اپنے بندوں پر رحم و کرم کرنے کو فرض قرار دے لیا ہے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت کے لوگوں نے نہ صرف سارے عرب میں اپنے ہاتھوں سے گھڑے ہوئے بتوں کو معبود کا درجہ دے رکھا تھا بلکہ جنتا اور فرشتوں کو بھی اپنا کار ساز اور حاجت روا سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے لوگو ! تم اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہو نہ تو وہ تمہاری مشکلات کو دور کرنے والے ہیں اور نہ تمہارے حالات کو بدلنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ یہ تو خود اللہ کو پکارتے ہیں اور اس کا قرب تلاش کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ وہ اللہ سے زیادہ سے زیادہ قربت حاصل کرلے اور وہ اس بات سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ کہیں ان سے کوئی نافرمانی نہ ہوجائے جس سے اللہ کا عذاب نازل ہوجائے۔ فرمایا کہ اس کائنات میں ساری قوت و طاقت صرف ایک اللہ کی ہے وہی سب کا مشکل کشا اور کار ساز ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جو تمہارے کسی کام آسکے گا۔ فرمایا کہ وہ لوگ جو دنیا کی نعمتیں حاصل کرنے کے بعد یا بڑی بڑی بلڈنگیں اور شہر بنانے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیزیں ہمیشہ رہیں گی تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ کیونکہ یہ ساری بستیاں اور آبادیاں یا تو لوگوں کی نافرمانی اور گناہوں کی وجہ سے مٹا دی جائیں گی یا قانون قدرت کے تحت قیامت کے دن ان سب آبادیوں اور بستیوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ یہ چیزیں باقی رہنے والی نہیں ہیں اس کو اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے بلکہ باقی رہنے والی چیزیں صرف انسان کے اچھے یا برے اعمال ہیں جو اس کو جنت یا جہنم تک پہنچائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس خطاب کا آغاز آیت ٣٩ سے ہوا تھا۔ اس میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوا فرمایا گیا کہ اگر آپ بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو معبود اور حاجت روا، مشکل کشا سمجھیں گے تو آپ کو بھی راندہ درگاہ کرکے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اس خطاب کا اختتام بھی توحید کے اسی پہلو پر کیا جارہا ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان لوگوں کو کہیں کہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا مشکل کشا، حاجت روا سمجھتے ہو۔ ان کو بلاؤ۔ وہ تمہاری تکالیف دور کرنے یا ان کو بدل دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ اپنی مدد کے لیے پکارتے ہو۔ وہ تو اپنے رب کے ہاں قرب کے متلاشی ہیں۔ کہ کون ان میں سے اپنے رب کا مقرب بندہ ہے اور کون اس کے عذاب سے ڈرنے والا ہے ؟ کیونکہ آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کے لیے ہے۔ یاد رہے کہ مکہ کے مشرک پتھر، لکڑی اور مٹی کے بتوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ اور حرمت کے طور پر پیش کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انسان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ مگر ان میں ان بزرگوں کی روح حلول کرگئی ہے۔ جن کی عبادت سے خوش ہو کر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی خدائی میں سے کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ اہل مکہ کے عقیدہ کے مقابلے میں یہود و نصاریٰ بتوں کو وسیلہ بنانے کی بجائے انبیاء اور صلحاء کی قبروں کو وسیلہ بنایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ” اَلَّذِیْنَ “ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کے بارے میں تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ ” اَلَّذِیْنَ “ کا لفظ ” ذی روح “ اور ” ذوی العقول “ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی روح اور عقل رکھنے والے۔ ظاہر ہے بت نہیں انسان ہیں۔ اس کا معنیٰ ہوا کہ جن بزرگوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ مشکل کشا، حاجت روا اور وسیلہ سمجھتے ہو۔ وہ تو خود اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتے ہیں۔ ان کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنے رب کی رحمت کے طلبگار اور اس کے عذاب سے لرزاں وترساں رہتے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ایسی خوفناک چیز ہے جس سے ہر حال میں ڈرنا ہی چاہیے۔ اس آیت مبارکہ میں لفظ ” وسیلہ “ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا اردو میں معنیٰ ” ذریعہ “ ہوتا ہے۔ لیکن عربی میں وسیلہ کا معنیٰ ” قربت چاہنا یا ڈھونڈنا “ ہے۔ بعض لوگ وسیلہ کا معنیٰ ” ذریعہ “ لے کر لوگوں کو شرک کی تبلیغ کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی کی ہے۔ وسیلہ کی حقیقت : اردو میں وسیلہ کا معنی ہے ذریعہ اور واسطہ جس سے بیشمار مسلمانوں کو قرآن کے لفظ وسیلہ کے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے جبکہ قرآن مجید میں اس کا معنی اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنا ہے۔ ادھر ادھر کے واسطوں کے ذریعے نہیں بلکہ تقوٰی اور نیکی کے کاموں کے ذریعے۔ لہٰذا حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرو۔ حدیث میں وسیلہ کا معنی مقام علیا ہے جس پر فائز ہو کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کے دن رب کریم کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہوئے امت کی سفارش کریں گے۔ اس کا تذکرہ اذان کے بعد کی دعا میں موجود ہے۔ آپ نے اسی مقام کے لیے دعا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ یہ دنیا عالم اسباب ہے اس کا پورا نظام اسباب اور وسائل پر چل رہا ہے جب تک وسائل کو بروئے کار نہیں لایا جائے گا۔ اس وقت تک دنیا کے معاملات صحیح سمت پر چلنے تو درکنار زندگی کا باقی رہنا ناممکن ہے۔ ایک شخص کتنا ہی متوکل علی اللہ کیوں نہ ہوا گر پیاس کے وقت پانی نہیں پیتا اور بھوک کے وقت کھانا نہیں کھاتا تو موت کا لقمہ بن جائے گا۔ بیمار کے لیے پرہیز اور دوائی لازم ہے۔ بغیر اسباب کے کسی چیز کو باقی رکھنا یہ صرف خالق کائنات کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ لہٰذا شریعت نے کمزور کے ساتھ تعاون اور بےسہارا کو سہارا دینا اور بےوسیلہ کا وسیلہ بننے کا حکم دیا ہے۔ اس وسیلہ اور اسباب کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اختیارات کے بارے میں دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کسی وسیلہ اور واسطہ کی ضرورت نہیں وہ مسبب الاسباب اور انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب اور دلوں کی دھڑکنوں کو جاننے والا ہے۔ مدفون بزرگوں کے وسیلہ کی حقیقت : بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور رکھنے کے لیے یہ گھٹیا اور سطحی تصور بھی دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے اتنی کمزور اور سطحی مثالیں دی جاتی ہیں کہ جس پر آدمی حیرت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسے علماء کا کہنا ہے کہ ڈی سی سے ملنے کے لیے چپڑاسی کی ضرورت ہے مکان کی چھت پر سیڑھی کے بغیر نہیں چڑھا جاسکتا۔ اس باطل عقیدے کو اس شدومد کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے حضرات حتیٰ کہ عدالتوں میں بیٹھنے والے جج ہی نہیں چیف جسٹس، قانون کی باریکیوں اور موشگافیوں سے واقف ماہر وکلاء، اندرون اور بیرون ملک یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل سکالر، الجھے ہوئے مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے والے دانشور اس قدراس پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئے کہ وہ صحیح بات ماننا تو درکنار اسے ٹھنڈے دل و دماغ سے سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ ذرا غور کیا جائے کہ جس مدفون بزرگ کا وسیلہ تلاش کیا جا رہا ہے اس کی زندگی اور مرنے کے بعد کی حالت میں کتنا فرق ہے ؟ .1 بزرگ بیمار ہوئے۔ ہزار دعاؤں اور دواؤں کے باوجود صحت حاصل نہ کرسکے۔ .2 فوت ہوئے تو گھر میں میت ہونے کے باوجود روتی ہوئی بیٹیوں ‘ تڑپتی ہوئی والدہ ‘ بلکتی ہوئی بیوی ‘ سسکتے ہوئے بیٹے اور آہ وبکا کرنے والے مریدوں کو تسلی نہ دے سکے۔ .3 شرم و حیا کے پیکر ہونے کے باوجود انتہائی بیماری اور فوت ہونے کے بعد نہ استنجا کرنے کی سکت ہے اور نہ غسل کرنے کی ہمت۔ .4 اپنی زندگی میں خود اپنی قبر بنوانے والے بھی چل کر قبر تک نہ پہنچ سکے۔ .5 جو زندگی میں صرف ایک زبان مثال کے طور پر صرف پنجابی زبان جانتے تھے فوت ہونے کے بعد اپنی قبر پر آنے والے سندھی ‘ پشتو اور دوسری زبانوں میں فریاد کرنے والوں کی زبانوں سے کس طرح واقف ہوگئے ؟ .6 جو خوداولاد سے محروم تھے وہ دوسرے کو کس طرح اولاد عطا کرسکتے ہیں ؟ .7 جو زندگی میں خراٹے لینے والی نیند یا کسی بیماری کی وجہ سے بےہوشی کے عالم میں دیکھ اور سن نہیں سکتے موت کے بعد کس طرح سننے اور دیکھنے کے قابل ہوئے ؟ .8 جو زندگی میں دیوار کی دوسری طرف نہیں دیکھ سکتے تھے اب قبر کی منوں مٹی اور مضبوط پتھروں کے درمیان کس طرح دیکھ سکتے ہیں ؟ .9 جو اپنی حالت سے کسی کو آگاہ نہیں کرسکتے۔ دوسرے کی حالت رب کے حضور کس طرح پیش کرسکتے ہیں ؟ توہین آمیز اور مضحکہ خیز مثال واعظ کا یہ کہنا ہے کہ چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اس حد تک تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں مگر غور و فکر کے ساتھ سوچیے چھت تو جامد اور ساکت ہے وہ چڑھنے والے کے قریب نہیں آسکتی اس لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اللہ کی قدرت و سطوت تو ہر جگہ موجود ہے اور وہ سب سے زیادہ انسان کے قریب حتیٰ کے دل اور شہ رگ پر اس کا اختیار ہے یہاں تو کسی وسیلے و سفا رش اور سیڑھی کی ضرورت نہیں۔ وہ انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب اور سینے کے راز جاننے والا ہے۔ خالق کائنات کے لیے یہ مثالیں اور تشبیہ اس کی توہین کے مترادف ہے۔ (فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ )[ النحل : ٧٤] ” اللہ کے لیے ایسی مثالیں بیان نہ کیا کرو “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا معبودان باطل کسی کی تکلیف دور نہیں کرسکتے۔ ٢۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے غیر اللہ کو پکارتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید رکھنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب ڈرنے کے لیے ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں : ١۔ فرما دیجیے جن کو تم معبود تصور کرتے ہو ان کو بلا کردیکھو وہ تمہاری تکلیف دور کرنے پر اختیار رکھتے ہیں ؟ (بنی اسرائیل : ١٠٧) ٢۔ اللہ کے سوا ان کو نہ پکارو جو تمہارے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (یونس : ١٠٦) ٣۔ کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ؟ (الانبیاء : ٦٦) ٤۔ فرما دیجیے میں اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ (الاعراف : ١٨٨، یونس : ٤٩) ٥۔ فرما دیجیے کیا تم اللہ کے سوا ان کو دوست بناتے ہو ؟ جو اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ (الرعد : ١٦) ٦۔ وہ اپنے آپ کے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ (الفرقان : ٣) ٧۔ کیا ہم اللہ کے سوا انہیں پکاریں جو ہمیں نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے ؟ (الانعام : ٧١) ٨۔ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہارے نفع و نقصان کے مالک نہیں ؟ (المائدۃ : ٨٦) ٩۔ اللہ کے ہاں کون ایسا ہے جو اللہ کی طرف سے آئے ہوئے نفع و نقصان کو روک سکے۔ (الفتح : ١١) ١٠۔ قیامت کے دن تم ایک دوسرے کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہوگے۔ (سبا : ٤٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں ہے جو مصیبت کو ٹال سکے یا اس کا منہ موڑ سکے۔ یہ کام صرف اللہ وحدہ کرسکتا ہے۔ صرف اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کو قسمتوں کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ جن کو وہ شریک ٹھہراتے ہیں مثلاً فرشتے ، جن اور انس وہ سب کے سب اللہ کے بندے ہیں۔ اللہ کی مخلوق ہیں۔ وہ خود اللہ تک رسائی کے طریقے تلاش کرتے ہیں اور اللہ کی رضا کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ اور وہ خود اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ فی الحقیت ذات باری کو جانتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

56 اے پیغمبر آپ اس دین حق کے منکروں سے کہہ دیجیے کہ تم جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا معبود سمجھے بیٹھے ہو ان کو ذرا پکارو تو سہی سو وہ فرضی معبود نہ تم سے کسی تکلیف اور دکھ کے دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ اس تکلیف کو بدلنے کا اختیار ان کو حاصل ہے۔ یعنی وہ معبود جن ہوں یا ملائکہ یا اصنام ان کو کسی اپنی تکلیف کو دور کرنے کی غرض سے پکار دیکھو تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ ان کو نہ تو تکلیف دور کرنے کا اختیار ہے نہ تکلیف کو بدلنے کا کہ تم سے ہٹا کر کسی دوسرے پر ڈال دیں یا سخت تکلیف کو کچھ ہلکا کردیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی تم سے کسی اور پر ڈال دیں۔ 12