Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 69

سورة بنی اسراءیل

اَمۡ اَمِنۡتُمۡ اَنۡ یُّعِیۡدَکُمۡ فِیۡہِ تَارَۃً اُخۡرٰی فَیُرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیۡحِ فَیُغۡرِقَکُمۡ بِمَا کَفَرۡتُمۡ ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوۡا لَکُمۡ عَلَیۡنَا بِہٖ تَبِیۡعًا ﴿۶۹﴾

Or do you feel secure that He will not send you back into the sea another time and send upon you a hurricane of wind and drown you for what you denied? Then you would not find for yourselves against Us an avenger.

کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ اللہ تعالٰی پھر تمہیں دوبارہ دریا کے سفر میں لے آئے اور تم پر تیز و تند ہواؤں کے جھونکے بھیج دے اور تمہارے کفر کے باعث تمہیں ڈبو دے ۔ پھر تم اپنے لئے ہم پر اس کا دعویٰ ( پیچھا ) کرنے والا کسی کو نہ پاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Perhaps He will send You back to the Sea Allah says, أَمْ أَمِنتُمْ ... Or do you feel secure, `you who turn away from Us after acknowledging Our Oneness at sea once you are back upon dry land,' ... أَن يُعِيدَكُمْ فِيهِ تَارَةً أُخْرَى ... that He will not send you back a second time to sea ... فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفا مِّنَ الرِّيحِ ... and send agains... t you a Qasif, which will destroy your masts and sink your vessels. Ibn Abbas and others said, "Al-Qasifis the wind of the sea which destroys vessels and sinks them." ... فَيُغْرِقَكُم بِمَا كَفَرْتُمْ ... and drown you because of your disbelief, means because of your rejection and turning away from Allah. ... ثُمَّ لاَ تَجِدُواْ لَكُمْ عَلَيْنَا بِهِ تَبِيعًا Then you will not find any avenger therein against Us. Ibn Abbas said that this means a helper. Mujahid said, "A helper who will avenge you," i.e., take revenge on your behalf. Qatadah said it means, "We are not afraid that anyone will pursue Us with anything of that nature (i.e., vengeance)."   Show more

سمندر ہو یا صحرا ہر جگہ اسی کا اقتدار ہے ارشاد ہو رہا ہے کہ اے منکرو سمندر میں تم میری توحید کے قائل ہوئے باہر آ کر پھر انکار کر گئے تو کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ پھر تم دوبارہ دریائی سفر کرو اور باد تند کے تھپیڑے تمہاری کشتی کو ڈگمگا دیں اور آخر ڈبو دیں اور تمہیں تمہارے کفر کا مزہ آ جائے پھر تو کوئی م... ددگار کھڑا نہ ہو نہ کوئی ایسا مل سکے کہ ہم سے تمہارا بدلہ لے ۔ ہمارا پیچھا کوئی نہیں کر سکتا ، کس کی مجال کہ ہمارے فعل پر انگلی اٹھائے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

69۔ 1 قَاصِف ایسی تند تیز سمندری ہوا جو کشتیوں کو توڑ دے اور انھیں ڈوب دے تَبِیْعًا انتقام لینے والا، پیچھا کرنے والا، یعنی تمہارے ڈوب جانے کے بعد ہم سے پوچھے کہ تو نے ہمارے بندوں کو کیوں ڈبویا ؟ مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ سمندر سے بخریت نکلنے کے بعد، کیا تمہیں دوبارہ سمندر میں جانے کی ضرورت پیش نہیں آ... ئے گی ؟ اور وہاں وہ تمہیں بھنور میں نہیں پھنسا سکتا ؟۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٧] اللہ کی گرفت کی صورتیں :۔ پھر اللہ کی گرفت کا معاملہ سمندر سے ہی متعلق نہیں وہ سمندر سے باہر خشکی پر بھی تم پر عذاب نازل کرسکتا ہے وہ یہ بھی کرسکتا ہے کہ زمین شق ہوجائے اور وہ تمہیں اس میں ایسے غرق کردے کہ کسی کو پتہ تک نہ چل سکے اور یہ بھی کرسکتا ہے کہ تم پر کنکروں اور سنگریزوں والی تند و تیز...  آندھی کا طوفان بھیج کر تمہیں ہلاک کردے اور اس سے بچنے کے لیے تمہیں کوئی پناہ گاہ نہ مل سکے اور یہ بھی کرسکتا ہے کہ سمندری سفر کے لیے دوبارہ کوئی صورت پیدا کر دے اور تمہارے کفر و شرک کی پاداش میں تمہیں طوفانی تھپیڑوں کے حوالے کرکے تمہیں کشتی سمیت غرق کردے تو ایسی صورت میں تمہارا کوئی معبود تمہارا ایسا حمایتی ہے جو تمہاری طرف سے ہو کر ہم سے باز پرس کرسکے ؟   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ اَمِنْتُمْ اَنْ يُّعِيْدَكُمْ فِيْهِ تَارَةً اُخْرٰى فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّيْحِ فَيُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْ ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَيْنَا بِهٖ تَبِيْعًا 69؀ عود الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: ... رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] ( ع و د ) العود ( ن) کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔ قصف قال اللہ تعالی: فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قاصِفاً مِنَ الرِّيحِ [ الإسراء/ 69] وهي التي تَقْصِفُ ما مرّت عليه من الشّجر والبناء، ورعد قَاصِفٌ: في صوته تكسّر، ومنه قيل لصوت المعازف : قَصْفٌ ، ويتجوّز به في كلّ لهو . ( ق ص ف ) القاصف ( زیادہ سخت شکندہ تیز اور ہوا ۔ جو درختوں اور عمارتوں کو تورتی ہوئی چلی جائے ۔ قرآن میں ہے : فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قاصِفاً مِنَ الرِّيحِ [ الإسراء/ 69] پھر تم پر تیز ہوا چلائی ۔ الرِّيحُ معروف، وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] . وأمّا قوله : يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ. وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ : تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ : مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء . ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح . الریح کے معنی معروف ہیں ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔ المراوحتہ کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔ غرق الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، ( غ ر ق ) الغرق پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٩) یا اے مکہ والو اس سے بےفکر ہوگئے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں پھر دریا ہی میں دوبارہ لے جائے پھر تم پر ہوا کا سخت طوفان بھیج دے اور پھر تمہیں دریا میں تمہارے کفر کے سبب جو کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہے اور اس کا کفران نعمت کیا ہے، غرق کردے اور پھر اس غرق کرنے پر تمہیں کوئی ہمارا پیچھا کرنے وال... ا اور بدلہ لینے والا نہ ملے ،  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَيُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْ ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَيْنَا بِهٖ تَبِيْعًا) پھر ایسا نہیں کہ کوئی ہم سے باز پرس کرسکے کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ ایسا معاملہ کیوں کیا ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

39: یعنی اس معاملہ میں نہ کوئی ہم سے کسی قسم کی باز پرس کرسکتا ہے کہ ہم نے ایسے لوگوں کو کیوں ہلاک کیا، اور نہ کوئی ہمارے فیصلے کو ٹالنے کے لئے ہمارا پیچھا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٩:۔ اوپر فرمایا تھا کہ تم دریا سے خشکی میں آکر خدا کی نعمت کو بھول جاتے ہو اور اس کی ناشکری کرتے ہو اور اس بات کا ذرا خوف نہیں کرتے کہ وہ جس طرح دریا میں تمہاری کشتیوں کو دبا کر تمہیں غرق کرسکتا تھا اسی طرح وہ خشکی میں بھی تمہیں دھنسا سکتا ہے اور تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کرسکتا ہے اب اس آیت می... ں یہ بیان فرمایا کہ اگر ان باتوں سے بھی تم نڈر ہو تو کیا اس کا بھی تمہیں خوف نہیں رہا کہ پھر کبھی جب تم دریا میں کشتیوں پر سوار ہو کر جاؤ تو تیز ہوا ایسی چلے کہ تمہاری کشتیوں کا تختہ تختہ الگ ہوجائے اور تمہاری ناشکری اور کفران نعمت کے پاداش میں تمہیں غرق دریا کردے اور جب تم دریا میں بےدست وپا ہو کر ڈوب جاؤ تو کوئی حمایت کرنے والا تمہاری طرف سے نہ کھڑا ہو کیونکہ خداوند پاک اکیلا دونوں جہان میں جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے اس سے کوئی شخص کسی بات کا سوال نہیں کرسکتا۔ یہ دوسری دھمکی قریش کو دی گئی ہے۔ جو حدیثیں اوپر کی آیت کی تفسیر میں گزریں وہی حدیثیں اس آیت کی تفسیر ہیں اور اس تفسیر کا حاصل بھی وہی ہے جو اوپر کی آیت کی تفسیر میں بیان کیا گیا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:69) ان یعیدکم۔ کہ وہ لے جائے تم کو دوبارہ۔ کہ وہ تمہیں دوبارہ لوٹا دے۔ اعادۃ (افعال) مصدر۔ تارۃ۔ مرتبہ۔ باری۔ دفعہ۔ فیہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع البح رہے جو کہ اوپر آیۃ 67 میں آیا ہے۔ قاصفا۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ طوفان ہوا۔ ایسی تیز آندھی کہ جو چیز اس کی زد میں آئے اس کو توڑ دے۔ قصف (ب... اب ضرب) توڑ دینا۔ اور اگر باب سمع سے آئے تو لازم ہے متعدی نہیں۔ قصف العود۔ لکڑی اتنی نرم ہوگئی کہ ٹوٹنے کے قابل بن گئی۔ کہتے ہیں کہ خشکی پر طوفان مہلک حاصب کہلاتا ہے اور سمندر میں ہو تو اس کو قاصف کہتے ہیں۔ بہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع ارسالِ ریح قاصف ہے ۔ یا اغراق ہے (تمہارا غرق کردیا جانا) ۔ تبیعا۔ پیچھا کرنے والا۔ دعویٰ کرنے والا۔ مدد گار۔ تبع سے بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 کو تو نے ان پر جھگڑ کیوں بھیجا اور کیوں انہیں غرق کردیا۔ سب اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں کوئی چوں تک نہیں کرسکتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

69 یا تم اس بات سے نڈر ہوگئے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم کو پھر دریا میں لوٹا کرلے جائے پھر تم پر سخت ہوا کا کوئی طوفان بھیج دے اور تمہارے کفر کی وجہ سے تم کو غرق کر دے پھر تم کسی کو اپنے لئے ہمارا پیچھا کرنے والا بھی نہ پائو۔ یعنی کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے جس کی وجہ سے دوبارہ دریا کا سفر کرنے پر مجبور ہو ... جائو اور پھر کسی طوفان میں مبتلا کر کے تم کو غرق کر دے اور تم کسی کو ہمارا پیچھا کرنیوالا بھی نہ پائو۔ جو تمہارا انتقام لینے کے لئے ہمارا پیچھا کرے اور ہم سے تمہارا بدلا لے۔  Show more