Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 76

سورة بنی اسراءیل

وَ اِنۡ کَادُوۡا لَیَسۡتَفِزُّوۡنَکَ مِنَ الۡاَرۡضِ لِیُخۡرِجُوۡکَ مِنۡہَا وَ اِذًا لَّا یَلۡبَثُوۡنَ خِلٰفَکَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۷۶﴾

And indeed, they were about to drive you from the land to evict you therefrom. And then [when they do], they will not remain [there] after you, except for a little.

یہ تو آپ کے قدم اس سرزمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے کہ آپ کو اس سے نکال دیں پھر یہ بھی آپ کے بعد بہت ہی کم ٹھہر پاتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reason why these Ayat were revealed Allah said: وَإِن كَادُواْ لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الاَرْضِ لِيُخْرِجوكَ مِنْهَا وَإِذًا لاَّ يَلْبَثُونَ خِلفَكَ إِلاَّ قَلِيلً And verily, they were about to frighten you so much as to drive you out from the land. But in that case, they would not have stayed (therein) after you, except for a little while. This was revealed concerning the disbelievers among the Quraysh, when they wanted to expel the Messenger of Allah from among themselves. So Allah issued a warning to them in this Ayah, telling them that if they expelled him, they would not stay in Makkah for very long after that. And this is what happened after he migrated from them when their persecution became so intense. Only a year and a half after that, Allah brought him and them together on the battlefield of Badr, without any pre-arranged appointment, and He caused him to prevail over them and defeat them, so he killed their leaders and took their families as captives. Hence Allah said: . سُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِن رُّسُلِنَا وَلاَ تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلً

وطنی عصبیت اور یہودی کہتے ہیں کہ یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ کو ملک شام چلا جانا چاہئے وہی نبیوں کا وطن ہے اس شہر مدینہ کو چھوڑ دینا چاہئے اس پر یہ آیت اتری ۔ لیکن یہ قول ضعیف ہے اس لئے کہ آیت مکی ہے اور مدینے میں آپ کی رہائش اس کے بعد ہوئی ہے کہتے ہیں کہ تبوک کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یہودیوں کے کہنے سے کہ شام جو نبیوں کی اور محشر کی زمین ہے آپ کو وہیں رہنا چاہئے ، اگر آپ سچے ہی سورہ بنی اسرائیل کی آیتیں اتریں ، اس کے بعد سورت ختم کر دی گئی تھی آیت ( وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيْلًا ؀ ) 17- الإسراء:76-77 ) اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینے کی واپسی کا حکم دیا اور فرمایا وہیں آپ کی موت زیست اور وہیں سے دوبارہ اٹھ کر کھڑا ہونا ہے ۔ لیکن اس کی سند بھی غور طلب ہے اور صاف ظاہر ہے کہ یہ واقعہ بھی ٹھیک نہیں تبوک کا غزوہ یہود کے کہنے سے نہ تھا بلکہ اللہ کا فرمان موجود ہے آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ١٢٣؁ ) 9- التوبہ:123 ) جو کفار تمہارے ارد گرد ہیں ان سے جہاد کرو ۔ اور آیت میں ہے کہ جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اللہ رسول کے حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے ہیں اور حق کو قبول نہیں کرتے ایسے اہل کتاب سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو یہاں تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا منظور کرلیں ۔ اور اس غزوے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے جو اصحاب جنگ موتہ میں شہید کر دئے گئے تھے ان کا بدلہ لیا جائے ، واللہ اعلم ۔ اور اگر مندرجہ بالا واقعہ صحیح ہو جائے تو اسی پر وہ حدیث محمول کی جائے گی ، جس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مکہ مدینہ اور شام میں قرآن نازل ہوا ہے ۔ ولید تو اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ شام سے مراد بیت المقدس ہے لیکن شام سے مراد تبوک کیوں نہ لیا جائے جو بالکل صاف اور بہت درست ہے ۔ واللہ اعلم ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد کافروں کا وہ ارادہ ہے جو انہوں نے مکے سے جلا وطن کرنے کے بارے میں کیا تھا چنانچہ یہی ہوا بھی کہ جب انہوں نے آپ کو نکالا ۔ پہر یہ بھی وہاں زیادہ مدت نہ گزار سکے ، اللہ تعالیٰ نے فورا ہی آپ کو غالب کیا ۔ ڈیرھ سال ہی گزرا تھا کہ بدر کی لڑائی بغیر کسی تیاری اور اطلاع کے اچانک ہو گئی اور وہیں کافروں کا اور کفر کا دھڑا ٹوٹ گیا ، ان کے شریف و رئیس تہ تیغ ہوئے ، ان کی شان و شوکت خاک میں مل گئی ، ان کے سردار قید میں آ گئے ۔ پس فرمایا کہ یہی عادت پہلے سے جاری ہے ۔ سابقہ رسولوں کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ کفار نے جب انہیں تنگ کیا اور دیس سے نکال دیا پھر وہ بچ نہ سکے ، عذاب اللہ نے انہیں غارت اور بےنشان کر دیا ۔ ہاں چونکہ ہمارے پیغمبر رسول رحمت تھے ، اس لئے کوئی آسمانی عام عذاب ان کافروں پر نہ آیا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم ) یعنی تیری موجودگی میں اللہ انہیں عذاب نہ کرے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 یہ سازش کی طرف اشارہ ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکالنے کے لئے قریش مکہ نے تیار کی تھی، جس سے اللہ نے آپ کو بچا لیا۔ 76۔ 2 یعنی اگر اپنے منصوبے کے مطابق یہ آپ کو مکہ سے نکال دیتے تو یہ بھی اس کے بعد زیادہ دیر نہ رہتے یعنی عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٤] ہجرت کے ساتھ ہی کفار مکہ کے زوال کا آغاز :۔ جن ایام میں یہ آیت نازل ہوئی اس وقت مسلمانوں پر کفار مکہ کا تشدد اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا ان ایام میں ایسی آیت کا نزول کفار مکہ کے حق میں ایک صریح پیشینگوئی تھی جسے انہوں نے اپنی طاقت کے نشہ میں محض ایک دھمکی ہی سمجھا جیسا کہ دوسری عذاب کی آیات متعلقہ اقوام سابقہ میں بھی ایسے اشارات پائے جاتے تھے مگر آنے والے حالات اور واقعات نے اس پیشینگوئی کو حرف بحرف سچا ثابت کردیا۔ اس آیت کے نزول کے ایک سال بعد آپ مکہ کو چھوڑنے اور مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے پر مجبور ہوگئے۔ اس کے بعد قریش کی طاقت میں دم بدم زوال آنا شروع ہوا اور صرف آٹھ سال بعد معاملہ بالکل الٹ ہوگیا۔ ظلم و تشدد کرنے والے خود محکوم بن گئے اور پیغمبر اسلام سے رحم کی التجا پر مجبور ہوگئے۔ بعد میں اکثر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ حتیٰ کہ مزید دو سال بعد سرزمین عرب کفر و شرک کی نجاست سے پاک ہوگئی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ ۔۔ :” اِسْتَفَزَّ “ کا معنی کسی کو گھبراہٹ میں ڈال کر پھسلا دینا ہے۔ ” اَلْاَرْضَ “ میں الف لام عہد کا ہے، مراد ارض مکہ ہے، یعنی جب قریش کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو توحید سے روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو انھوں نے آپ کو سخت تنگ اور پریشان کرنا شروع کردیا، تاکہ آپ گھبرا جائیں اور مکہ سے نکل جائیں۔ وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا : چناچہ ایسا ہی ہوا کہ بعد میں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے تو ڈیڑھ سال کے بعد ان کے بڑے بڑے سردار بدر میں مارے گئے، آپ کی بددعا سے اہل مکہ قحط اور خوف کا شکار ہوگئے، حتیٰ کہ آٹھ ( ٨) ہجری میں خود مکہ بھی فتح ہوگیا، جس سے ان کی شان و شوکت اور حکومت خاک میں مل گئی۔ ایک مغرور قوم کے لیے یہ عذاب ہی کیا کم ہے کہ وہی شخص جسے انھوں نے نکالا تھا، ان پر فتح پا کر شہر کا مالک بن جائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Istifzaz in: وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ (And they were likely to harass you - 76) literally means to cut off, or tear away from, or to provoke into moving from a place. At this place, the sense is to expel the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) from his station at Makkah or Madinah. The verse means: Had they done that, their punishment would have been that they themselves would have not been able to live there much longer after you. This is the description of another event. There are two reports about it. One event relates to Madinah al-Tayyibah. The Jews of the city came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . They told him: &O Abu a1-Qasim, if you are true in your claim to be a prophet, you should go and live in Syria because the land of Syria is the land of al-Mahshar (the Resurrection) and the land of proph¬ets too.& The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was somewhat impressed by what they said and when he traveled to Syria at the time of the battle of Tabuk, the idea of taking up residence in Syria was still on his mind. But, the revelation of the verse: وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ (And they were likely to harass you - 76) at that time stopped him from doing so. After presenting this report, Ibn Kathir has, however, declared it to be unsatisfactory. As an alternate, he points out to another event which transpired in Makkah al-Mukarramah and which, according to him, is the point of ref¬erence in this verse for the fact that this Surah was Makki provided a strong coherence for it. As the event goes, once the Quraysh disbelievers intended to expel the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم from Makkah al-Mukarramah. Thereupon, Allah Ta’ ala revealed the verse: كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ where the Qu¬raysh disbelievers were warned that in the event they expelled the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) from Makkah, they too would not be sitting in Makkah in peace any longer. This is the event Ibn Kathir considers to be the weightier choice as the point of reference in the verse. Then, he goes on to explain that this warning of the Holy Qur’ an was seen come true by the disbelievers of Makkah with their own eyes. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) migrated from Makkah al-Mukarramah, they were unable to sit there in peace even for a day. It was within a period of a year and six months that Allah Ta` ala made them assemble on the plains of Badr where seventy of their chiefs were killed and their initial aggressive power was broken. Then came the final outcome of the battle of &Uhud which made them more awe-stricken, and the last confrontation of the battle of al-Ahzab virtually broke their back. It was in the eighth year of Hijrah that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) conquered the whole of Makkah al-Mukarra¬mah.

(آیت) وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ ۔ استفزاز کے لفظی معنی قطع کرنے کے ہیں یہاں مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے مستقر مکہ یا مدینہ سے نکال دینا ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ قریب تھا کہ یہ کفار آپ کو اپنی زمین سے نکال دیں اور اگر وہ ایسا کرلیتے تو اس کی سزاء ان کو یہ ملتی کہ وہ بھی آپ کے بعد زیادہ دیر اس شہر میں نہ رہ پاتے یہ ایک دوسرے واقعہ کا بیان ہے اور اس کی تعیین میں بھی دو روایتیں منقول ہیں ایک واقعہ مدینہ طبیہ کا ہے کہ یہود مدینہ ایک روز رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ اپنی نبوت کے دعوے میں سچے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ ملک شام میں جا کر رہیں کیونکہ ملک شام ہی محشر کی زمین ہے اور وہی انبیاء (علیہم السلام) کی زمین ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کے کلام کا کچھ اثر ہوا اور غزوہ تبوک کے وقت جو ملک شام کا سفر ہوا تو آپ کا قصد یہ تھا کہ ملک شام کو اپنا ایک مستقر بنائیں مگر یہ آیت نازل ہوئی وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ جس میں آپ کو اس ارادہ سے روک دیا گیا مگر ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کر کے ناقابل اطمینان قرار دیا ہے۔ اور اس آیت کا مصداق ایک دوسرا واقعہ بتلایا ہے جو مکہ مکرمہ میں پیش آیا اور اس سورت کا مکی ہونا اس کے لئے قوی قرینہ ہے اور وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کفار قریش نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ مکرمہ سے نکالنے کا ارادہ کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ اور اس میں کفار مکہ کو اس پر تنبیہ فرمائی کہ اگر وہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکال دیں گے تو پھر خود بھی مکہ میں دیر تک چین سے نہ بیٹھ سکیں گے ابن کثیر نے اسی واقعہ کا مصداق آیت ہونا راجح قرار دیا ہے اور پھر بتلایا کہ قرآن کریم کی یہ وعید بھی کفار مکہ نے کھلی آنکھیں دیکھ لی کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی تو مکہ والے ایک دن بھی مکہ میں چین سے نہیں بیٹھ سکے صرف ڈیڑھ سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو میدان بدر میں جمع کردیا جہاں ان کے ستر سردار مارے گئے اور ان کی قوت ٹوٹ گئی پھر غزوہ احد کے آخری نتیجہ میں ان پر مزید ہیبت طاری ہوگئی اور غزوہ احزاب کے آخری معرکہ نے تو ان کی کمر ہی توڑ دی اور ہجرت کے آٹھویں سال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورا مکہ مکرمہ فتح کرلیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا 76؀ كَادَ ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] ، تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس . ( ک و د ) کاد ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے فز قال تعالی: وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ [ الإسراء/ 64] ، أي : أزعج، وقال تعالی: فَأَرادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ الإسراء/ 103] ، أي : يزعجهم، وفَزَّنِي فلان، أي : أزعجني، والْفَزُّ : ولد البقرة، وسمّي بذلک لما تصوّر فيه من الخفّة، كما يسمّى عجلا لما تصوّر فيه من العجلة . ( ف ز ز ) الا ستفزاز ہلکا سمجھنا گھبرادینا اور جگہ سے ہٹا دینا قرآن میں ہے : ۔ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ [ الإسراء/ 64] اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ ۔ فَأَرادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ الإسراء/ 103] تو اس نے چاہا کہ انہیں گڑ بڑ اکر سر امین ( مصر میں سے نکال دے ۔ اور فزنی فلان کے معنی ہیں اس نے مجھے پریشان کر کے میری جگہ سے ہٹا دیا اور گائے کے بچہ کو فز کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں خفت یعنی سکی پائی جاتی ہے جس طرح کہ اس میں عجلت جلدی بازی کا تصور کر کے اسے عجل کہا جاتا ہے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ خلف ( پیچھے ) خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٦) اور نیز یہ یہودی اس سرزمین مدینہ منورہ سے آپ کے قدم ہی اکھاڑنے لگے تھے تاکہ آپ کو شام کی طرف نکال دیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٦ (وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا) یہ مکی دور کے آخری ایام کے ان حالات کی جھلک ہے جب اس کش مکش کی شدت انتہا کو پہنچ چکی تھی اور حالات بیحد نازک رخ اختیار کرچکے تھے۔ یہاں پر رسول اللہ کو (معاذ اللہ) مکہ سے نکالنے کے لیے قریش کی منصوبہ بندی کا صرف ذکر کیا گیا ہے مگر اس کی نفی کرنے کے بجائے یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو آپ کے بعد وہ خود بھی یہاں پر زیادہ عرصہ نہیں رہ سکیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ قریش کے اکثر سردار تو ہجرت کے دوسرے برس ہی جنگ بدر میں قتل ہوگئے جبکہ صرف آٹھ سال بعد مکہ شہر پر آپ کا باقاعدہ تسلط بھی قائم ہوگیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

89. This was a clear prophecy which was made at the time when it appeared to be no more than a mere threat, but it was fulfilled literally in a decade or so. A year after the revelation of this Surah, the disbelievers of Makkah compelled the Prophet (peace be upon him) to leave his home. Then within eight years he entered Makkah as a conqueror, and within two years after this, the entire Arabia was totally freed from mushriks. Then whosoever stayed in that country, he remained there as a Muslim and not as a mushrik.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :89 یہ صریح پیشین گوئی ہے جو اس وقت تو صرف ایک دھمکی نظر آتی تھی ، مگر دس گیارہ سال کے اندر ہی حرف بحرف سچی ثابت ہوگئی ۔ اس سورة کے نزول پر ایک ہی سال گزرا تھا کہ کفار مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کر دیا اور اس پر ۸ سال سے زیادہ نہ گزرے تھے کہ آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ۔ اور پھر دو سال کے اندر اندر سر زمین عرب مشرکین کے وجود سے پاک کر دی گئی ۔ پھر جو بھی اس ملک میں رہا مسلمان بن کر رہا ، مشرک بن کر وہاں نہ ٹھیر سکا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

42: یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمانے کے بعد یہ کافر لوگ بھی مکہ مکرمہ میں زیادہ عرصہ نہیں رہ سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ہجرت کے آٹھ سال بعد مکہ مکرمہ فتح ہوگیا۔ اور نویں سال تمام کافروں کو یہاں سے نکل جانے کا حکم مل گیا جس کی تفصیل سورۃ توبہ کے شروع میں گذر چکی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٦۔ ٧٧:۔ بیہقی کی دلائل النبوت میں اور ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں جو شان نزول اس آیت کی سعید (رض) بن جبیر کی روایت سے بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت اور مدینہ منورہ میں آجانے کے بعد یہود نے آپ کو ملک شام میں رہنے کی ترغیب دی اور آپ نے اس ترغیب پر تبوک کے سفر کا ارادہ کیا اس پر مقام تبوک میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ١ ؎۔ لیکن ابو عیسیٰ ترمذی نے آیت وقل رب ادخلنی کی جو شان نزول بیان کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے ٢ ؎، اور مشرکین مکہ نے ہجرت سے پہلے جو آپ کو تکلیفیں دی تھیں اس پر یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔ حافظ ابو جعفر ابن جریر اور حافظ ابن کثیر نے اسی بات کو قوی ٹھہرایا ہے کہ یہ آیت مکی ہے ٣ ؎۔ اور مشرکین مکہ نے ہجرت سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طرح طرح کی تکلیفیں جو دی تھیں ان کے ہی ذکر میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اس واسطے یہی شان نزول صحیح ہے اس لیے کہ ترمذی کی روایت ابن ابی حاتم اور بیہقی کی روایت پر بلاشک مقدم ہے علاوہ اس کے تفسیر عبدالرزاق میں یہ دوسری شان نزول کی روایت قتادہ کی روایت سے ہے اور اس تفسیر میں یہ بات ایک جگہ گزر چکی ہے کہ عبدالزاق کی یہ تفسیر ان کے نابینا ہونے سے پہلے کی ہے اور ان کے نابینا ہونے سے پہلے ان کی تصنیفات کو امام بخاری نے معتبر ٹھہرایا ہے۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے یہ مشرکین مکہ تم کو طرح طرح کی تکلیفیں دے کر مکہ کی سکونت سے گھبراہٹ میں جو ڈال رہے ہیں یہ ان کے ہی حق میں برا ہے کیونکہ اگر یہ لوگ تم کو مکہ سے نکال دیں گے تو پھر یہ لوگ بھی بہت دنوں تک مکہ میں نہ رہ سکیں گے کس لیے کہ اللہ کے انتظام میں یہ دستور پڑا ہوا ہے کہ قوم کے لوگوں میں سے جب اللہ کے رسول علیحدہ ہوجاتے ہیں تو پھر قوم کے لوگوں پر کچھ نہ کچھ آفت آجاتی ہے اور اللہ کے انتظام میں جو دستور پڑا ہوا ہے اس کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ صحیح سند سے ترمذی اور مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب مشرکین مکہ نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے مدینہ کی ہجرت کا حکم ہوا ٤ ؎، ہجرت کے ڈیڑھ برس کے بعد بدر کی لڑائی پیش آئی اور اس لڑائی میں اللہ کے رسول کے بڑے بڑے ستانے والوں پر جو آفت آئی صحیح بخاری ومسلم کی انس (رض) بن مالک کی روایت کے حوالہ سے یہ قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں بڑی ذلت سے یہ لوگ مرگئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوئے جس عذاب کے جتلانے کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدہ کو سچا پایا ٥ ؎۔ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیتوں اور حدیثوں کو ملا کر قرآن شریف کا یہ معجزہ ثابت ہوتا ہے کہ انتظام الٰہی کے موافق جس دستور کا ذکر آیتوں میں تھا۔ ہجرت کے ڈیڑھ برس کے بعد بالکل اس کے موافق ظہور ہوا کہ اللہ کے رسول کے بڑے بڑے ستانے والوں کو مکہ سے نکل کر مکہ میں پھر کر جانا نصیب نہ ہوا اس آیت میں پانچوں نمازوں کا ذکر ہے سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیر تک میں چار نمازیں ہیں اور صبح کی نماز کا الگ ذکر ہے کس واسطے کہ اگرچہ فرشتے جو لوگوں کے نامہ اعمال لکھنے اور آدمی کی حفاظت کرنے کے لیے مقرر ہیں ان کی چوکی عصر کے وقت اور صبح کے وقت بدلتی رہتی ہے اور عصر اور صبح دونوں نمازوں کے وقت دونوں چوکیوں کے فرشتے ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں لیکن صبح کی نماز کے وقت پکار کے قرآن شریف پڑھا جاتا ہی اور اس کو بڑے شوق سے دونوں چوکیوں کے فرشتے سنتے ہیں اس لیے یہ فرمایا کہ صبح کی نماز کی قرأت سننے کو فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی ایک روایت میں اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں صرف صبح کی نماز کی قرأت سننے کو فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی ایک روایت میں اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں صرف صبح کی نماز کے وقت اور دوسری روایت میں عصر اور صبح دونوں نمازوں کے وقت فرشتوں کے جمع ہونے کا جو ذکر ہے ٦ ؎ اس کا سبب یہی ہے کہ جہاں قرأت سننے کا ذکر ہے وہاں حضرت ابوہریرہ (رض) نے صرف صبح کی نماز کا ذکر کیا ہے اور جہاں محض فرشتوں کے جمع ہونے کا ذکر ہے وہاں انہوں نے دونوں نمازوں کا نام لیا ہے جن علماء کی سمجھ میں یہ سبب اچھی طرح نہیں آیا تھا انہوں نے ان دونوں روایتوں کے اختلاف طرح طرح کے اعتراض کیے ہیں اور ان اعتراضوں کے جواب حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں تفصیل سے دیے ہیں ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں ایک بڑی عمدہ قابل قدر بات لکھی ہے حاصل اس کا یہ ہے کہ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے ہر رات کو یچھلی رات سے صبح تک اللہ تعالیٰ کا آسمان اول پر نزول فرمانا اور قبول دعا اور مغفرت کا وعدہ فرمانا جو ثابت ہوا ہے اس سے حافظ ابن جریر نے یہ بات نکالی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بندہ کو قرأت قرآن صبح کے وقت جو ایک قرب خاص ہے وہ قرب اور وقت میسر نہیں ہوسکتا اس لیے صبح کی نماز کی قرأت قرآن کو ایک خاص شرف ہے اور بعد فرض نماز کے سب نفلوں میں افضل تہجد کی نماز ہے اس واسطے فرض نماز کے بعد اللہ تعالیٰ نے تہجد کی نماز کا ذکر فرمایا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا بعد نماز فرض کے کون سی نماز افضل ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تہجد افضل ہے ٧ ؎۔ فتھجد بہ اور قم اللیل کے خطاب سے جمہور سلف کا مذہب یہی ہے کہ تہجد کی نماز فقط اللہ کے رسول (e) پر فرض تھی امت کے لوگوں پر نہ پہلے فرض تھی نہ اب ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں زید (رض) بن ثابت سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک رمضان میں تین راتوں تک صحابہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھنے آئے پھر چوتھی رات کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرہ سے مسجد میں تشریف نہیں لائے اور صبح کو صحابہ (رض) سے فرمایا مجھ کو تم لوگوں کا آج کی رات کا آنا بھی معلوم تھا مگر میں اس خوف سے باہر نہیں آیا کہ کہیں تم پر تہجد کی نماز فرض نہ ہوجائے ٨ ؎۔ صحیح بخاری ومسلم میں طلحہ (رض) بن عبید اللہ کی دوسری حدیث ہے جس میں فرض نمازوں کا ذکر کرتے وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تہجد کا ذکر نہیں کیا ٩ ؎۔ ان حدیثوں سے جمہور کے مذہب کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ امت پر تہجد کی نماز فرض ہوتی تو اللہ کے رسول یہ نہ فرماتے کہ مجھ کو اس کے فرض ہوجانے کا خوف تھا اور فرض نمازوں کے تذکرہ میں آپ ضرور اس نماز کا ذکر بھی فرماتے۔ زیادہ تفسیر اس مسئلہ کی سورة المزمل میں آوے گی۔ ان حدیثوں کے موافق نافلۃ لک کی تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے یہی کی ہے کہ تہجد کی نماز فقط اے اللہ کے رسول تم پر فرض ہے امت کے لوگوں پر نہیں۔ ١ ؎ تفسیرابن کثیر ص ٥٣ ج ٣۔ ٢ ؎ جامع ترمذی ص ١٤٢ ج ٢ کتاب التفسیر۔ ٣ ؎ تفسیرابن کتیرص ٥٣ ج ٣۔ ٤ ؎ جامع ترمذی ص ١٤٢ ج ٢ کتاب التفسیر ١٢۔ ٥ ؎ تفسیر ہذاص ٢٣ ج ٣ ج ٣۔ ٦ ؎ تفسیر ابن کثیرص ٥٤ ج ٣۔ ٧ ؎ تفسیر ابن کثیرص ٥٤ ج ٣۔ ٨ ؎ مشکوٰۃ ص ١١٤ باب قیام شہر رمضان۔ ٩ ؎ مشکوٰۃ ص ١٣ کتاب الایمان۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:76) ان کادوا میں ان۔ ان سے مخففہ ہے۔ تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے (ملاحظہ ہو 17:73) ان کادوا لیستفزونک۔ اور تحقیق یہ (لوگ) تمہیں پریشان کر کے، ڈرا دھمکا کر یا گھبراہٹ اور خوف وہراس پیدا کر کے سرزمین (مکہ) سے تمہارے قدم اکھاڑنے ہی لگے تھے (نیز دیکھو 17:64) لیخرجوک منہا تاکہ آپ کو اس سے نکال دیں۔ لا یلبثون۔ مضارع نفی۔ جمع مذکر غائب لبث یلبث (باب سمع) سے لبث مصدر وہ نہیں رہیں گے۔ وہ نہیں ٹھہریں گے لابثین۔ ٹھہرنے والے۔ خلفک۔ تیرے پیچھے۔ تیرے بعد۔ خلف مضاف ک ضمیر واحد مذکر حاضر مضاف الیہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 چناچہ بعد میں جب آنحضرت ہجرت کر کے مدینہ چلے آئے تو ڈیڑھ سال کے بعد ان کے بڑے بڑے سردار بدر میں مارے گئے اور اس کے پانچ چھ سال بعد خود مکہ بھی فتح ہوگیا جس سے ان کی تمام شان و شوکت اور حکومت خاک میں مل گئی۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی مکہ یا مدینہ سے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کفار کا نظریاتی سازشوں اور شرارتوں کے بعد معاشرتی بائیکاٹ اور جلا وطن کردینے کی سازش کرنا۔ اہل مکہ اور ان کے گردونواح کے کفار نے آپ کو اعتقادی اور نظریاتی طور پر پسپا کرنے اور پھسلانے کی کوشش کی۔ جب اس میں سراسر ناکام ہوئے تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، آپ کے خاندان اور صحابہ کرام (رض) کا سوشل بائیکاٹ کیا۔ جس کی بناء پر تین سال تک آپ اور آپ کے ساتھی شعب ابی طالب میں محصور رہے۔ بائیکاٹ اس قدر سخت تھا کہ بعض اوقات بھوک کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں مکہ شہر میں سنائی دیتی تھیں لیکن کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کے پایہ استقلال میں لغزش پیدا نہ کرسکے۔ اس کے بعد انہوں نے آپ کو مکہ سے نکال دینے کے بارے میں کئی دفعہ سوچا۔ جب آپ تبلیغ کے لیے طائف تشریف لے گئے۔ تو واپسی پر مکہ والوں نے آپ کو شہر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک قریشی سردارجناب مطعم کو یہ ہمت دی کہ جس نے کافر ہونے کے باوجود مکہ کے چورا ہے میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ میں محمد کو شہر میں واپس لارہا ہوں۔ اگر کسی میں ہمت ہے تو مجھے آگے بڑھ کر روک لے۔ ممکن ہے اسی واقعہ کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہو۔ جس کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ قریب تھا کہ آپ کو مکہ سے دربدر کردیتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ناکام کردیا۔ اگر آپ کو مکہ سے نکال دیتے تو یہ لوگ بھی زیادہ دیر تک مکہ میں نہ ٹھہر پاتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انبیاء ( علیہ السلام) کے بارے میں ایک طے شدہ طریقہ ہے کہ کسی نبی کو اس کے شہر سے نکال دیا جائے تو وہ قوم خود بھی زیادہ دیر تک وہاں نہیں ٹھہر سکتی۔ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی شکل میں اس قوم کو تباہ کردیتا ہے۔ مکہ والوں نے جب آپ کو نبوت کے تیرھویں سال مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا۔ تو ٹھیک ایک سال کے بعد مکہ کے بڑے بڑے سردار غزوہ بدر میں مارے گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا ضابطہ نافذ کیا۔ جس کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہمارا ضابطہ اور طریقہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ حضرت ابراہیم کو ان کے باپ نے گھر سے نکل جانے کا کہا : (قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آَلِہَتِی یَا إِبْرَاہِیْمُ لَءِنْ لَمْ تَنْتَہِ لَأَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِی مَلِیًّا۔ )[ مریم : ٤٦] ” اس نے کہا اے ابراہیم ! کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہے ؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا اور تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہوجا۔ “ حضرت لوط اور انکے ساتھیوں کو نکال دینے کی دھمکی : (وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِی مِلَّتِنَا فَأَوْحٰی إِلَیْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِکَنَّ الظَّالِمِیْنَ )[ ابراہیم : ١٣] ” اور جو لوگ کافر تھے انہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ ہم تمہیں اپنے ملک سے باہر نکال دیں گے یا ہمارے مذہب میں داخل ہوجاؤ۔ تو پر ور دگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ہلاک کردیں گے۔ “ مسائل ١۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سرزمین حجاز سے نکالنے کے درپے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ ٣۔ پہلے انبیاء کرام کیساتھ ایسا معاملہ پیش آتا رہا ہے۔ ٤۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ہر وقت اہل مکہ سازشیں کیا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی سنت اور طریقہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا : ١۔ آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٧٧) ٢۔ کیا وہ پہلوں کے انجام کا انتظار کرتے ہیں ؟ یہ اللہ کے طریقہ میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ (فاطر : ٤٣) ٣۔ اللہ کے طریقہ میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ (الاحزاب : ٦٢) ٤۔ آپ اللہ کے طریقہ کو تبدیل ہونے والا نہیں پائیں گے۔ (الفتح : ٢٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذالا یلبثون خلفک الا قلیلا (٧١ : ٦٧) ” اگر وہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں گے “۔ کیونکہ یہ اللہ کی جاری وساری سنت ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین چاہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زبردستی مکہ مکرمہ سے نکال دیں حضرت مجاہد اور قتادہ (رض) نے فرمایا کہ مشرکین نے آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ مکرمہ سے جلا وطن کرنے اور وہاں سے زبردستی نکالنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا کرنے سے باز رکھا اور آپ باذن الٰہی خود ہی ہجرت کرکے مکہ مکرمہ کو چھوڑ کر مدینہ تشریف لے آئے مشرکین اپنے ارادوں میں ناکام ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قریب تھا کہ یہ لوگ اس سرزمین سے آپ کے قدموں کو اکھاڑ دیتے (لیکن وہ ایسا نہ کرسکے) اور اگر وہ ایسا کرلیتے اور آپ کو نکال کر خود رہنا چاہتے تو خود بھی وہاں نہ رہ پاتے اور وہاں ان کا ٹھہرنا بس ذرا سا ہی ہوتا، اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ آپ کو ہجرت کی اجازت دیدی اور ان لوگوں کو اس کا موقع نہ دیا کہ زبردستی آپ کو نکال دیتے لہٰذا وہ مکہ ہی میں رہتے رہے پھر انہیں اسلام کی بھی توفیق ہوگئی۔ قال صاحب الروح وھذا ھو التفسیر المروی عن مجاھد قال ارادت قریش ذالک ولم تفعل لانہ سبحانہ اراد استبقاءھا وعدم استتصالھا لیسلم منھا ومن اعقابھا من یسلم فاذن لرسولہ (علیہ السلام) بالھجرۃ فخرج باذنہ لا باخراج قریش وقھرھم۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

68:۔ یہ امر ثالث ہے۔ معجزہ معراج ظاہر کردیا گیا مگر مشرکین مکہ اس کے باوجود مسئلہ توحید کو ماننے پر تیار نہیں ہوئے بلکہ اب آپ کو مکہ سے نکالنے کے منصوبے بنائیں گے۔ مگر آپ کے بعد وہ بھی زیادہ عرصہ مکہ میں نہیں ٹھہر سکیں گے کیونکہ ہماری سنت جاریہ یہی ہے کہ جب سرکش قوموں نے انبیاء (علیہم السلام) کو ستایا اور وطن سے نکالا تو خعد بھی چیں سے اپنے وطنوں میں نہ رہ سکے بلکہ جلد ہی ہلاک کردئیے گئے مکہ والوں سے بھی اب یہی سلوک کیا جائے گا۔ چناچہ ہجرت کے بعد دو سال بھی نہ گذرنے پائے تھے کہ جنگ بدر میں صنادید کفر اور اساطین شرک کو تہ تیغ کردیا گیا۔ ” ولقد اتینا موسیٰ تسع ایت الخ “ (رکوع 12) ۔ اس کی ایک مثال آرہی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

76 اور وہ کافر تو آپ کے قدم ہی اس سر زمین سے اکیھڑنے اور پھسلانے لگیت ہے تاکہآپکو یہاں سے نکال دیں اور اگر ایسا ہوجاتا تو آپ کیت شریف لے جانے کے بعد ان کو بھی یہاں رہنا نصیب نہیں ہوتا مگر بہت تھوڑا۔ اس آیت میں بھی مفسرین کے مشہور دو قول ہیں اگر مکہ سے اخراج کا معاملہ ہے تو ظاہر ہے کہ یہ پیشین گوئی پوری ہوگئی اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد مکہ فتح ہو اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ دیا اور تمام کفاروں کو وہاں سے اجڑنا پڑا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مدینہ منورہ میں سازش ہوئی ہو جیسا کہ بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہود نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ نبی ہیں آپ کو شام میں جا کر بسنا چاہئے کیونکہ گزشتہ انبیاء کا وہی مسکن تھا ۔ بہرحال ! اگر مدینہ کی بات ہو تو وہ پوری نہیں ہوئی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک سے واپس تشریف لے آئے۔ ہم نے ابن کثیر سے دونوں قوموں کی تشریح کردی ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)